وعلیکم السلام ،
بھائی آپ نے جو سوال بتایا کہ "مسلمان کو دعوت دین کس طرح دی جائے " اور " مسلمان کو دعوت دین کس چیز کی طرف سی جائے " یہ دو مختلف سوال ہیں۔ایک میں طریقہ کی بات ہو رہی ہے اور دوسرے میں اقدام کی۔تاہم یہ دونوں سوال ہی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔اللہ آپ کو جزا دے بھائی مگر علماء ، ایجوکیٹیڈ حضرات سے متعلق آپ کا جواب مجھے سمجھ نہیں آیا۔اس کی وضاحت ضرور کیجیئے گا۔
تجدید ایمان سے مراد یہ تھی ، مسلمان یوں تو کلمہ گو ہے لیکن بحیثیت مسلمان کے تقاضوں اور جس دین پر اسے پیدا کیا گیا ہے اس سے غافل ہے ، اس لیے وہ کونسے راستے یا طریقے ہیں جن سے اس کا ایمان بیدار کیا جا سکے؟؟؟ بے شک ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔لیکن اصلاح ضرور کرنی چایئے۔
السلام علیکم
محترمہ اللہ تعالیٰ آپ کی اسلامی حمیت کومزیدپختگی اور ترقی عطا فرمائے ، میں آپ کے اس جذبہ کی قدر کرتا ہوں
یہ سوال تو آپ کا ہی قائم کردہ ہے کہ :
مسلمان کو دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے؟
مجھے آپ کےعنوان سے کنفیوژن پیدا ہورہاتھا۔ ایسا محسوس ہورہاتھا کہ جیسے مسلمانوں کو ایمان کی دعوت دی جارہی ہو۔اور آپ کی اس آخری عبارت :
نیز تجدید ایمان کے لیے کیا پہلا قدم کہاں سے اٹھایا جائےَََ؟؟؟
سے میرے کنفیوژن کو مزید تقویت مل رہی تھی۔ اب آپ کایہ جملہ ’’ مسلمان کو دعوت دین کس چیز کی طرف دی جائے؟‘‘ اس کی جگہ یہ مناسب رہے گا۔اگر یہ کہا جائے کہ"مسلمان کو دعوت دین کس طرح دی جائے "
علماء ، ایجوکیٹیڈ حضرات سے متعلق
علماء سے مطلب تو ظاہر ہے علماء دین ہیں۔ اور ایجو کیٹیڈ حضرات سے مراد عصری دنیاوی علوم سے مزین حضرات ہیں ۔اس طبقہ کو بہت محتاط طریقہ سےگائڈنس کی ضرورت ہوتی ہے اور خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔اور بہت حکمت کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کرنا چاہئے۔
میرے نقطہ نظر سے صرف قرآن پاک کے تراجم پڑھنے سے کام نہیں چلے گا اس کو سمجھنے کے لیے ضرورت ہے احادیث مبارکہ کی اور ان دونوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے سابقین اولین اسلاف کی توضیحات اور تشریحات کی جن کے علوم پر امت کے صالحین کا اعتماد ہو۔ فقط واللہ اعلم بالصواب