• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم وحدت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسلم وحدت: مابین فقہائے اسلام.. و ’’المورد‘‘

ای میل پر ایک دوست نے روزنامہ جنگ (22 جنوری) کا ایک مضمون بھیجااور مشورہ دیا کہ اس میں پیش کیے گئے بعض مغالطوں پر کچھ لکھ دیا جائے۔ مضمون کا عنوان ہے ’’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘ مؤلفہ جاوید احمد غامدی۔ تفصیلی گفتگو تو ظاہر ہے یہاں ممکن نہیں، حتیٰ کہ سب نکات کو زیربحث لانا بھی ممکن نہیں۔ ان میں سے ہر موضوع ایک تفصیل چاہتا ہے، جس کا یہ مقام نہیں۔ یہاں فی الوقت ’’مسلم وحدت‘‘ کے موضوع پر ان کا فقہاء کی بابت ایک دعوىٰ ہمارے زیرغور آئے گا۔ لکھتے ہیں: ’’جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، وہ اپنی ایک ریاست ہائے متحدہ قائم کرلیں۔ یہ ہم میں سے ہر شخص کا خواب ہوسکتا ہے اور ہم اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کی جدوجہد بھی کرسکتے ہیں، لیکن اس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ہرگز نہیں، نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے۔ پہلی صدی ہجری کے بعد ہی ، جب مسلمانوں کے جلیل القدر فقہا ان کے درمیان موجود تھے، ان کی دو سلطنتیں ، دولت عباسیہ بغداد اور دولت امویہ اندلس کے نام پر قائم ہوچکی تھیں اور کئی صدیوں تک قائم رہیں، مگر ان میں سے کسی نے اسے اسلامی شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا، اس لئے کہ اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم قرآن و حدیث میں موجود ہی نہیں ہے۔ خط کشیدہ الفاظ فقہائے اسلام کی بابت ایک دعوىٰ ہے۔ مضمون نگار پاکستان کے غیر علماء طبقہ میں بےشک ایک بڑی مقبولیت رکھتے ہیں، جس کے بےشمار اسباب ہوں گے۔ لیکن طبقۂ علماء کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کوئی وجہ ہونی چاہئے کہ ایک فکر کی بابت علمائے شریعت کے ہاں غیرعلماء طبقہ کی نسبت ایک یکسر مختلف رائے پائی جائے اور وہ اس کا کوئی علمی وزن لگانے پر آمادہ نہ ہوں۔ ایک جیالا ذہن (جو دنیوی علوم میں بےشک بہت پڑھا لکھا ہوگا) اِس ظاہرہ phenomenon کی تفسیر میں وہ بنیاد بھی اختیار کرنے چلا جاتا ہے جو مسیح نے علمائےبنی اسرائیل کی بابت اختیار فرمائی تھی، اور جس کی ہمسری میں مرزا قادیانی نے علمائے امتِ خاتم المرسلینؐ کی بابت ایک مخصوص لہجہ اور ذہن بھی تشکیل دے ڈالا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ہمارے ملک کے تقریباً تمام علمائےاسلام بلاتفریقِ مکاتب فکر، ’’المورد‘‘ نام سے سامنے آنے والے ایک نئے ڈسکورس کا علمی وزن لگانے پر آمادہ کیوں نہیں ہیں۔ کم فہمی کا عارضہ لاحق ہے یا کتمانِ حق ہو رہا ہے؟ آخر کچھ تو ہے۔ چند ایک کی بات بھی نہیں ہو رہی؛ آخر سبھی علماء کو کیا ہو گیا ہے؟ یا مسئلہ خود اِس نئے ڈسکورس کے ساتھ ہے؟ کسی ایک جانب کچھ مسئلہ ضرور ہے؛ اور کسی ایک کو معاملے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ’’مسلم وحدت‘‘ کے موضوع پر فقہائے اسلام کے متعلق کیے گئے اِس دعویٰ سے ہی آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ حدیث یا فقہ پر مضمون نگار کے خیالات طبقۂ علماء کے ہاں توجہ نہیں پاتے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مضمون نگار کا کہنا ہے: ’’مسلمانوں کی دوسلطنتیں، دولتِ عباسیہ بغداد اور دولت امویہ اندلس کے نام پر قائم ہو چکی تھیں اور صدیوں تک قائم رہیں، مگر ان (فقہاء) میں سے کسی نے اسے اسلامی شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا‘‘۔ کیا واقعتاً فقہاء میں سے ’’کسی نے‘‘ اسے اسلامی شریعت کے ’’کسی حکم‘‘ کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا؟ معلوم ہوتا ہے ’’مسلم وحدت‘‘ کے مسئلہ پر فقہاء کی آراء فاضل مضمون نگار کی نظر سے نہیں گزریں۔ ورنہ زیادہ سے زیادہ وہ اپنی اِس بات کو فقہاء کے ہاں پائی جانے والی ایک ’’شاذ رائے‘‘ کہتے، جیساکہ الماوردی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے ’’شاذ رائے‘‘ ہونے کی باقاعدہ صراحت فرمائی ہے (الماوردی کی عبارت آگے آ رہی ہے)۔ البتہ یہ بیان دے ڈالنا کہ ’فقہاء میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا‘ کتبِ فقہ پر مطلع طبقے کے یہاں تعجب سے سنا جا ئے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہاں ہم فقہاء کے کچھ بیانات آپ کے سامنے رکھیں گے۔ اس سے آپ جائزہ لے سکتے ہیں، فقہاء کی بابت فاضل مضمون نگار کی یہ سٹیٹمنٹ فقہاء کے مواقف پر کس درجے کی نظر رکھنے کی غمازی کرتی ہے۔ ***** فقہاء کے اقتباسات دینے سے پہلے البتہ ہم اس مسئلہ پر فقہاء کے ڈسکورس کی کچھ وضاحت کردینا چاہیں گے، علمائے فقہ ان شاءاللہ ہماری اس بات کی توثیق کریں گے: ’’سلطانِ متغلِّب‘‘ کی طرح بہت سی چیزوں کو – کسی خاص زمان ومکان کےلیے – فقہاء نے ’’امرِ واقعہ‘‘ کے طور پر ضرور قبول کیا ہے: مفسدت کو دفع کرنے کے باب سے۔ یا کچھ راجح و ضروری تر مصالح کو مقدَّم کرنے کے باب سے۔ یا ایک چیز کےلیے صورتحال کو ناہموار وناسازگار جاننے کے باب سے ( کہ جس میں ایک چیز پر امت سے عمل کروانا بوجوہ ممکن نہیں ہوتا البتہ اس کو کرنے کی صورت میں امت کے کچھ فوری وضروری امور ضرور تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں یا معاملہ خونریزی کا موجب ہو سکتا ہے)۔ یعنی امت کی سطح پر ایک بات کی ’’استطاعت‘‘ نہ پائی جانا۔ یا ایک بات کا اصولاً مطلوب ہونے کے باوجود ایک ’’دی ہوئی صورتحال‘‘ میں مضرت رساں نظر آنا۔
اِسی چیز کو ضرورت یا اضطرار کے احکام بھی کہا جاتا ہے۔ پس ایک اصولاً درست مسئلہ پر بھی امت میں کوئی فتنہ کھڑا نہ ہونے دینا (کیونکہ فتنہ کو دفع کرنا بہرحال ضروری اور ہر چیز پر مقدّم ہے؛ خواہ وہ خلافت کا مسئلہ کیوں نہ ہو) فقہاء کے ہاں ایک نہایت قوی اعتبار ضرور ہے۔ چنانچہ کسی معاملہ میں ’’احکامِ ضرورت‘‘ لاگو کرتے ہوئے ایک چیز کو ’’امرِ واقعہ‘‘ کے طور پرقبول کرنا اور چیز ہے مگر اسے ’’اسلامی شریعت کی خلاف ورزی‘‘ قرار نہ دینا بالکل اور چیز۔
جیسا کہ ہم نے مثال دی، ’’سلطانِ متغلّب‘‘ کو ’’امرِ واقعہ‘‘ کے طور پر تو فقہاء بےشک قبول کرلیں گے، یہاں تک کہ امت کے مصالح (مانند جہاد، اقامتِ عدل، نفاذِ شریعت اور امن و استقرار) کو معطل نہ ٹھہرانے کے باب سے سلطانِ متغلِّب کے احکامات پر علمدرآمد اور اس کے ساتھ مل کر جہاد کو بھی لازم ٹھہرا دیں گے، فتنہ و خونریزی کا دروازہ بند رکھنے کے باب سے اس کے خلاف خروج کو بھی منع ٹھہرا دیں گے (فقہاء کی بڑی تعداد کا موقف)… لیکن ’’سلطانِ متغلب‘‘ کو شرعاً جائر و ناقابلِ اعتراض ٹھہرا دیں، یہ ممکن نہیں۔ جس کا خودبخود مطلب ہے، قدرت و استطاعت ہونے کی صورت میں سلطانِ متغلب کو رد کرنا ہی فقہاء کے نزدیک شریعت کا تقاضا ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایسا ہی معاملہ ’’دولتِ اسلامی کے انقسام‘‘ کا ہے۔ اسلامی قلمرو کے ٹکڑے ہونا فقہاء کے ہاں اصولاً احکامِ شریعت کی خلاف ورزی ہی ہے اگرچہ عدم استطاعت یا دفعِ فتنہ کے باب سے اِس صورتحال کو بدلنے پر عامۃ الناس کو اکسانا کسی وقت ممنوع کیوں نہ ٹھہرا دیا جائے۔ جیساکہ ہمارے اِس دور کے علماء کی اکثریت بھی متقدمین کی راہ پر چلتے ہوئے ’’خلافت‘‘ یا ’’دین کی پابند حکومت‘‘ لانے کی خاطر شورش اور بدامنی برپا کرنے کو ممنوع ہی ٹھہراتی ہے؛ جوکہ حق ہے۔ ***** تو پھر آئیے دیکھتے ہیں، مؤلفینِ فقہاء ’’اسلامی قلمرو کے انقسام‘‘ پر اپنے قبیلے کے مواقف کیونکر نقل کرتے ہیں۔ واضح رہے، یہاں ہم ان فقہاء کے اقوال دیں گے جو اس ’’انقسامِ خلافت‘‘ ہی کے ادوار میں پائے گئے۔ یعنی یہ معاملہ بطورِ واقعہ بھی ان کی نظر میں ہی تھا اور وہ کسی سہانے دور میں بیٹھے ہوئے یہ باتیں نہیں کر رہے تھے۔ دیکھئے یہ فقہاء اِس موضوع پر کیا کہتے ہیں: سیاسۃ شرعیہ پر قلم اٹھانے والا ایک بڑا نام الماوردی رحمۃ اللہ علیہ (چوتھی صدی ہجری کے فقیہ؛ اپنے وقت کے قاضی القضاۃ) لکھتے ہیں: وذهب الجمهور إلى أن إقامة إمامين في عصر واحد لا يجوز شرعا لما روي عن النبيﷺ أنه قال : إذا بويع أميران فاقتلوا أحدهما (أدب الدنيا والدين ص136) حوالہ ویب لنک: جمہور کا مذہب رہا ہے: ایک زمانے میں دو اماموں کا مقرر ہونا شرعاً جائز نہیں ہے، کیونکہ نبیﷺ سے مروی ہے: ’’جب دو امیروں کی بیعت ہو جائے تو ان میں سے ایک کو قتل کردو‘‘۔ ماوردی کی مندرجہ بالا نقل غور فرما لیجئے: جمہور کا مذہب۔ اس کے مخالف قول، ماوردی کے نزدیک، ’’غیرجمہور‘‘ نہیں بلکہ ’’شاذ قول‘‘ ہے۔ ماوردی رحمۃ اللہ علیہ امت میں ’’ایک وقت میں مسلمانوں کے دو ملک یا دو امیر‘‘ ہونے کے جواز کو ایک شاذ قول قرار دیتے، اور امت میں ایک ہی امارت کو ضروری ٹھہراتے ہوئے: وإذا عقدت الإمامة لإمامين في بلدين لم تنعقد إمامتهما، لأنه لا يجوز أن يكون للأمة إمامان في وقت واحد وإن شذ قوم فجوزوه (الأحكام السلطانية ص29) حوالہ ویب لنک: اگر دو مختلف ملکوں میں دو امیروں کو امامت سونپی جائے تو ان دونوں کی امامت منعقد نہ ہوگی۔ کیونکہ ایک وقت میں امت کے دو امام جائز نہیں، اگرچہ بعض لوگوں لوگوں نے شذوذ کی راہ چلتے ہوئے اسے جائز کہا ہے۔ یہ جمہور فقہاء، جن کا الماوردی ودیگر مؤلفین کے بیان میں ذکر ہوا، اس قدر زیادہ ہیں کہ نووی رحمہ اللہ (ساتویں صدی ہجری) اس کو ’’علماء کا متفقہ قول‘‘ ہی قرار دینے تک چلے جاتے ہیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایسا ہی معاملہ ’’دولتِ اسلامی کے انقسام‘‘ کا ہے۔ اسلامی قلمرو کے ٹکڑے ہونا فقہاء کے ہاں اصولاً احکامِ شریعت کی خلاف ورزی ہی ہے اگرچہ عدم استطاعت یا دفعِ فتنہ کے باب سے اِس صورتحال کو بدلنے پر عامۃ الناس کو اکسانا کسی وقت ممنوع کیوں نہ ٹھہرا دیا جائے۔ جیساکہ ہمارے اِس دور کے علماء کی اکثریت بھی متقدمین کی راہ پر چلتے ہوئے ’’خلافت‘‘ یا ’’دین کی پابند حکومت‘‘ لانے کی خاطر شورش اور بدامنی برپا کرنے کو ممنوع ہی ٹھہراتی ہے؛ جوکہ حق ہے۔ ***** تو پھر آئیے دیکھتے ہیں، مؤلفینِ فقہاء ’’اسلامی قلمرو کے انقسام‘‘ پر اپنے قبیلے کے مواقف کیونکر نقل کرتے ہیں۔ واضح رہے، یہاں ہم ان فقہاء کے اقوال دیں گے جو اس ’’انقسامِ خلافت‘‘ ہی کے ادوار میں پائے گئے۔ یعنی یہ معاملہ بطورِ واقعہ بھی ان کی نظر میں ہی تھا اور وہ کسی سہانے دور میں بیٹھے ہوئے یہ باتیں نہیں کر رہے تھے۔ دیکھئے یہ فقہاء اِس موضوع پر کیا کہتے ہیں: سیاسۃ شرعیہ پر قلم اٹھانے والا ایک بڑا نام الماوردی رحمۃ اللہ علیہ (چوتھی صدی ہجری کے فقیہ؛ اپنے وقت کے قاضی القضاۃ) لکھتے ہیں: وذهب الجمهور إلى أن إقامة إمامين في عصر واحد لا يجوز شرعا لما روي عن النبيﷺ أنه قال : إذا بويع أميران فاقتلوا أحدهما (أدب الدنيا والدين ص136) حوالہ ویب لنک: جمہور کا مذہب رہا ہے: ایک زمانے میں دو اماموں کا مقرر ہونا شرعاً جائز نہیں ہے، کیونکہ نبیﷺ سے مروی ہے: ’’جب دو امیروں کی بیعت ہو جائے تو ان میں سے ایک کو قتل کردو‘‘۔ ماوردی کی مندرجہ بالا نقل غور فرما لیجئے: جمہور کا مذہب۔ اس کے مخالف قول، ماوردی کے نزدیک، ’’غیرجمہور‘‘ نہیں بلکہ ’’شاذ قول‘‘ ہے۔ ماوردی رحمۃ اللہ علیہ امت میں ’’ایک وقت میں مسلمانوں کے دو ملک یا دو امیر‘‘ ہونے کے جواز کو ایک شاذ قول قرار دیتے، اور امت میں ایک ہی امارت کو ضروری ٹھہراتے ہوئے: وإذا عقدت الإمامة لإمامين في بلدين لم تنعقد إمامتهما، لأنه لا يجوز أن يكون للأمة إمامان في وقت واحد وإن شذ قوم فجوزوه (الأحكام السلطانية ص29) حوالہ ویب لنک: اگر دو مختلف ملکوں میں دو امیروں کو امامت سونپی جائے تو ان دونوں کی امامت منعقد نہ ہوگی۔ کیونکہ ایک وقت میں امت کے دو امام جائز نہیں، اگرچہ بعض لوگوں لوگوں نے شذوذ کی راہ چلتے ہوئے اسے جائز کہا ہے۔ یہ جمہور فقہاء، جن کا الماوردی ودیگر مؤلفین کے بیان میں ذکر ہوا، اس قدر زیادہ ہیں کہ نووی رحمہ اللہ (ساتویں صدی ہجری) اس کو ’’علماء کا متفقہ قول‘‘ ہی قرار دینے تک چلے جاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تاہم نووی رحمہ اللہ کی تقریر دینے سے پیشتر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صحیحین کی وہ روایت نقل کر دی جائے جس کے تحت (شرح مسلم) میں نووی رحمہ اللہ فقہاء کا یہ اتفاق نقل کرتے ہیں۔ کیونکہ خود یہ حدیث بھی اس باب میں معانی کا ایک سمندر ہے: عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبيﷺ، قال: کَانَتۡ بَنِو إسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ؛ كُلَّمَا َهَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَتَكُونُ خُلَفَاءُ وَتَكْثُرُ. قاالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ، فَالْأَوَّلِ. وَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ ؛ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا استرعاهمْ (متفق علیہ، واللفظ لمسلم ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کے معاملاتِ سیاست انبیاء چلاتے رہے، جیسے ہی کوئی نبی دنیا سے جاتا اس کا جانشین نبی ہوتا۔ اب یقیناً میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ہاں خلفاء ہوں گے اور بہت زیادہ ہوں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: جس کی بیعت پہلے ہوجائے اُسی کی بیعت نبھاتے چلے جانا۔ تم ان کو ان کا حق دیتے رہنا؛ کیونکہ اللہ نے جو کچھ ان کی رعیت میں دیا اُس کی بابت اُن سے وہ خود سوال کرنے والا ہے‘‘۔ حدیث بالا کی شرح میں نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ يُعْقَدَ لِخَلِيفَتَيْنِ فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ سَوَاءٌ اتَّسَعَتْ دَارُ الْإِسْلَامِ أَمْ لَا وَقَالَ إِمَامُ الْحَرَمَيْنِ فِي كِتَابِهِ الْإِرْشَادِ قَالَ أصحابنا لا يجوز عقدها لشخصين قَالَ وَعِنْدِي أَنَّهُ لَا يَجُوزُ عَقْدُهَا لِاثْنَيْنِ فِي صُقْعٍ وَاحِدٍ وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ قَالَ فَإِنْ بَعُدَ مَا بَيْنَ الْإِمَامَيْنِ وَتَخَلَّلَتْ بَيْنَهُمَا شُسُوعٌ فَلِلِاحْتِمَالِ فِيهِ مَجَالٌ قَالَ وَهُوَ خَارِجٌ مِنَ الْقَوَاطِعِ وَحَكَى الْمَازِرِيُّ هَذَا الْقَوْلَ عَنْ بَعْضِ الْمُتَأَخِّرِينَ مِنْ أَهْلِ الْأَصْلِ وَأَرَادَ بِهِ إِمَامَ الْحَرَمَيْنِ وَهُوَ قَوْلٌ فَاسِدٌ مُخَالِفٌ لِمَا عَلَيْهِ السَّلَفُ وَالْخَلَفُ وَلِظَوَاهِرِ إِطْلَاقِ الْأَحَادِيثِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
(شرح مسلم، حدیث رقم 1442) حوالہ کا ویب لنک: علماء کا اتفاق ہے، ایک زمانے میں دو خلیفے نہیں ہو سکتے خواہ دار الاسلام کا رقبہ بہت وسیع ہو یا نہ ہو۔ امام الحرمین (جوینی) نے اپنی کتاب الارشاد میں ذکر کیا کہ ہمارے (شافعیہ) کے اصحاب کا یہی مذہب ہے کہ امارت (بیک وقت) دو شخصوں کےلیے منعقد نہیں ہو سکتی۔ لیکن جوینی کا اپنا کہنا ہے کہ میرے نزدیک کسی ایک خطے میں دو آدمیوں کی امارت تو منعقد نہیں ہوسکتی اور اس پر تو اجماع ہے، البتہ اگر دو امیروں کے مابین مسافت بہت زیادہ ہو اور ان دونوں کے بیچ میں بہت سے علاقے پڑتے ہوں تو یہاں احتمالات کی گنجائش ہے اور (اس صورت میں) یہ قطعیات میں نہیں آتا۔ مازری نے یہی قول کسی متاخر سے نقل کیا ہے۔ اس متاخر سے مازری کی مراد امام الحرمین (جوینی) ہی ہیں۔ مگر یہ قول فاسد ہے؛ سلف تا خلف جو مذہب رہا ہے یہ اس سے متصادم ہے۔ نیز یہ احادیث کے ظواہر سے متصادم ہے۔ واللہ اعلم
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابن حزم رحمۃاللہ علیہ کا دعوائے اجماع: جس کے ’’اجماع‘‘ ہونے سے آپ بےشک اتفاق نہ کریں، مگر اس سے آپ کو یہ ضرور اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس قول پر فقہاء کی کتنی بڑی تعداد ہے، جس کے متعلق ہمارے فاضل مضمون نگار کا خیال ہے ’فقہاء میں سے کسی نے اسے شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی ہی قرار نہیں دیا‘۔ ابن حزم: واتفقوا أنه لا يجوز أن يكون على المسلمين في وقت واحد في جميع الدنيا إمامان، لا متفقان ولا مفترقان، ولا في مكانين ولا في مكان واحد (مراتب الإجماع، مؤلفہ ابن حزم ص 124) حوالہ ویب لنک: نیز اس پر اجماع ہوا ہے کہ: مسلمانوں پر ایک وقت میں پوری دنیا کے اندر دو امام ہونا ناجائز ہے؛ خواہ وہ امام اکٹھے ہوں یا متفرق۔ یہ نہ دو الگ الگ جگہوں میں جائز ہے اور نہ ایک جگہ میں۔ ابن حزمرحمہ اللہ (پانچویں صدی ہجری) کے مندرجہ بالا بیان پر ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ (ساتویں صدی ہجری) اتنا سا استدراک کرتے ہیں کہ اس سے اختلاف کرنے والے بعض اہل کلام ضرور ہیں۔ نیز (احکامِ ضرورت کے تحت) ہردو مملکت کے احکامات پر عملدرآمد ہوگا۔ البتہ جہاں تک ہردو فرماں روا کی حکومت کو ’’جائز‘‘ ماننے کا تعلق ہے تو اس کو غلط کہنے پر امت کا اتفاق ہے: النزاع في ذلك معروف بين المتكلمين في هذه المسألة كأهل الكلام والنظر، فمذهب الكرامية وغيرهم جواز ذلك، وأن عليًا كان إمامًا ومعاوية كان إمامًا، وأما أئمة الفقهاء فمذهبهم أن كلاً منهم ينفذ حكمه في أهل ولايته كما ينفذ حكم الإمام الواحد، وأما جواز العقد لهما فهذا لا يفعل مع اتفاق الأمة (نقد مراتب الإجماع، مؤلفہ ابن تیمیہ ص 298) حوالہ ویب لنک: اس پر اہل کلام وفلسفہ ایسے متکلمین اختلاف معروف ہے۔ کرامیہ وغیرہ فرقے اس کے جواز کے قائل ہیں، اور یہ کہ علی رضی اللہ عنہ بھی امام تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ بھی امام تھے۔ البتہ جہاں تک ائمہ فقہاء (اہلسنت) کا تعلق ہے تو ان کا مذہب ہے کہ ہردو امیر کا حکم اپنی اپنی قلمرو میں اسی طرح نافذ ہوگا جس طرح ایک امام کا ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ہاں جہاں تک اس کو جائز کہنے کا تعلق ہے تو امت کا اتفاق ہے کہ دونوں کو بیک وقت امارت سونپنا صحیح نہیں۔ روئےزمین پر مسلمانوں کا ایک امیر ضروری قرار دینے پر مذاہبِ اربعہ: ساداتِ حنفیہ: مَا افْتَرَقَ فِيهِ الْإِمَامَةُ الْعُظْمَى وَالْقَضَاءُ يُشْتَرَطُ فِي الْإِمَامِ أَنْ يَكُونَ قُرَشِيًّا بِخِلَافِ الْقَاضِي، وَلَا يَجُوزُ تَعَدُّدُهُ فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ وَجَازَ تَعَدُّدُ الْقَاضِي، وَلَوْ فِي مِصْرٍ وَاحِدٍ. (الأشباہ والنظائر لابن نجیم ج1 ص 325) حوالہ ویب لنک: فَإِذَا اجْتَمَعَ عَدَدٌ مِنْ الْمَوْصُوفِينَ فَالْإِمَامُ مَنْ انْعَقَدَ لَهُ الْبَيْعَةُ مِنْ أَكْثَرِ الْخَلْقِ، وَالْمُخَالِفُ لِأَكْثَرِ الْخَلْقِ بَاغٍ يَجِبُ رَدُّهُ إلَى انْقِيَادِ الْمُحَقِّ (غمز عيون البصائر، للحموی ج 4 ص 111) حوالہ ویب لنک: کن چیزوں میں امامتِ عظمیٰ قضاء سے مختلف ہے: امام کا قریش سے ہونا شرط ہے برخلاف قاضی کے۔ نیز امام ایک زمانے میں متعدد ہونا جائز نہیں جبکہ قاضی متعدد ہونا جائز ہے، خواہ ایک ہی شہر میں کئی قاضی ہوں۔ اگر امام بننے کی صفات کے متعدد حاملین بیک وقت سامنے آئیں تو ان میں امام وہ ہوگا جسے اکثر مخلوق نے بیعت دی ہو۔ اکثر مخلوق کی بیعت (سے بننے والے امام) کے مقابلے پر امام بننے والا باغی ہوگا اور اس کو حق کی تابعداری پر واپس لانا واجب ہوگا۔ ساداتِ مالکیہ: (تَنْبِيهٌ) أَشْعَرَ مَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ مِنْ جَوَازِ تَعَدُّدِ الْقَاضِي بِمَنْعِ تَعَدُّدِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَلَوْ تَبَاعَدَتْ الْأَقْطَارُ جِدًّا لِإِمْكَانِ النِّيَابَةِ وَقِيلَ بِالْجَوَازِ إذَا كَانَ لَا يُمْكِنُ النِّيَابَةُ لِتَبَاعُدِ الْأَقْطَارِ (حاشية الدسوقي ج 4 ص 134) حوالہ ویب لنک: نوٹ: مصنف نے متن میں جو بیان کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ: قاضی کا متعدد ہونا جائز اور امام کا متعدد ہونا منع ہے۔ اور ہے بھی ایسا؛ اگرچہ خطے بہت بہت دور کیوں نہ ہوں کیونکہ (دور کے خطے میں) امام کی نیابت ہوسکتی ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک قول یہ ہے کہ یہ اُس صورت میں جائز ہے جب خطوں کے مابین اتنا بُعد ہو کہ نیابت ممکن ہی نہ رہے۔ ساداتِ شافعیہ: (وَلَا يَجُوزُ عَقْدُهَا لِإِمَامَيْنِ) فَأَكْثَرَ، وَلَوْ بِأَقَالِيمَ (وَلَوْ تَبَاعَدَتْ الْأَقَالِيمُ) لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ اخْتِلَافِ الرَّأْيِ، وَتَفَرُّقِ الشَّمْلِ (فَإِنْ عُقِدَتَا) أَيْ الْإِمَامَتَانِ لِاثْنَيْنِ (مَعًا بَطَلَتَا أَوْ مُرَتَّبًا انْعَقَدَتْ لِلسَّابِقِ) كَمَا فِي النِّكَاحِ عَلَى امْرَأَةٍ (وَيُعَزَّرُ الْآخَرُونَ) أَيْ الثَّانِي وَمُبَايِعُوهُ (إنْ عَلِمُوا) بَيْعَةَ السَّابِقِ لِارْتِكَابِهِمْ مُحَرَّمًا. (أسنى المطالب في شرح روض الطالب ج 4 ص 110) حوالہ ویب لنک: دو یا دو سے زیادہ اماموں کےلیے امارت کا انعقاد جائز نہیں، چاہے خطے الگ الگ کیوں نہ ہوں۔ چاہے خطے دور دور کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اس میں آراء کے بٹ جانے اور شیرازہ بکھر جانے کا اندیشہ واضح ہے۔ اگر دو امامتیں دو اشخاص کےلیے ایک ہی وقت میں منعقد کردی گئی ہوں تو وہ دونوں باطل ہوں گی۔ اور اگر آگے پیچھے منعقد ہوئیں تو جس کی پہلے ہوئی اس کی منعقد ہو جائے گی۔ جس طرح کہ (مختلف ولیوں کے ہاتھوں) عورت کے ایک سے زیادہ نکاح کا معاملہ ہوتا ہے۔ جبکہ بعد والے اور اس کی بیعت کرنے والوں کو سزا دی جائے گی بشرطیکہ ان کو پہلے والے کی بیعت کا علم ہوگیا ہو اس لیے کہ ایک حرام کے مرتکب ہوئے۔ ساداتِ حنابلہ: ( ويتجه ) أنه ( لا يجوز تعدد الإمام ) لما قد يترتب عليه من التنافر المفضي إلى التنازع والشقاق ووقوع الاختلاف في بعض الأطراف، وهو مناف لاستقامة الحال، يؤيد هذا قولهم : ” وإن تنازع في الإمامة كفؤان أقرع بينهما إذ لو جاز التعدد لما احتيج إلى القرعة. (مطالب أولي النهى ج 6 ص 263) حوالہ ویب لنک: اس کی توجیہ یوں ہے کہ: متعدد امام ہونا جائز نہیں۔ اس لیے کہ اس سے باہمی منافرت پیدا ہوتی ہے جوکہ باہمی نزاع اور جدائی کا باعث بننے والی ہے اور (امت کے) اطراف کے مابین اختلاف لے آنے کا موجب۔ جبکہ یہ چیز راست روی کے منافی ہے۔ اس کی تائید فقہاء کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ اگر امامت کے اہل دو اشخاص میں تنازع ہو جائے تو ان دونوں کے مابین قرعہ ڈالا جائے گا۔ ظاہر ہے اگر تعدد جائز ہوتا تو قرعہ کی ضرورت نہ ہوتی۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تقریر: والسنة أن يكون للمسلمين إمام واحد والباقون نوابه, فإذا فرض أن الأمة خرجت عن ذلك لمعصية من بعضها أو عجز من الباقين أو غير ذلك فكان لها عدة أئمة, لكان يجب على كل إمام أن يقيم الحدود, ويستوفي الحقوق..) (مجموع فتاوى ابن تیمیۃ ج 34 ص 175، 176) حوالہ ویب لنک: سنت (دستور) یہی ہے کہ جملہ مسلمانوں کا ایک امام ہو اور باقی اس کے نائب ہوں۔ ہاں اگر کسی وقت امت اس دستور سے ہٹ جائے خواہ اِس وجہ سے کہ امت کے کچھ لوگ معصیت کی راہ چل پڑے ہیں اور باقی لوگ بےبس ہوگئے ہیں یا کسی اور وجہ سے امت کے ہاں متعدد امام ہوگئے ہیں، تو یہاں ہر امام پر واحب ہوگا کہ وہ حدود قائم کرے اور حقوق کو یقینی بنائے۔ فقہاء کے درج بالا اقوال میں آپ دیکھتے ہیں: احکامِ ضرورت بھی ایک ساتھ ذکر ہوگئے اور احکامِ اصلی بھی۔ یہی توازن شاید آج ہمارے لوگوں کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بدترین سے بدترین حالات میں بھی احکامِ اصلی پر ہی مصر رہنا ایک یوٹوپیا (غیرحقیقت پسندانہ) روش کو جنم دیتا ہے؛ جوکہ لامحالہ انتہاپسندی کی صورت دھارتا ہے۔ اِسی کو ہم ’’غلو‘‘ یا ’’افراط‘‘ کہتے ہیں۔ غیر علماء طبقہ میں یہ روش بھی اِس وقت عروج پر ہے۔ دوسری طرف احکامِ اصلی کو سرے سے گول کر جانا ’’جفا‘‘ کا راستہ ہے جسے ہم ’’تفریط‘‘ کہتے ہیں؛ اور جس پر ہمیں صاحبِ مضمون دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ امت بیچاری ان دو انتہاؤں کے بیچ کٹی پھٹی جاتی ہے۔ ہر انتہاپسند طبقہ، خواہ وہ اِفراط کی راہ چل رہا ہو یا تفریط کی، اپنا ’بیانیہ‘ narrative ہی جاری کردینے پر مُصر ہے! اِس ملک کو یہ سب مل کر کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ اِس سے پہلے بھی تو آخر ہم یہاں بستے چلے آئے ہیں۔ فاضل مضمون نگار نے خوب کیا جو یہاں فقہاء کا ذکر ضروری جانا۔ اس سے فقہاء کا موقف سامنے آنے میں بھی مدد ملی اور فقہاء کے مواقف پر خود ان کا مطلع ہونا بھی۔ ورنہ نیریٹو narrative جاری کرنے کےلیے ’’فقہاء‘‘ کی کیا ضرورت تھی!
مسلم وحدت
حامد کمال الدین
 
Top