محمداشرف یوسف
رکن
- شمولیت
- مارچ 06، 2013
- پیغامات
- 43
- ری ایکشن اسکور
- 54
- پوائنٹ
- 42
اہل السنۃ والجماعت کی بنیاد ہی صحابہ کرامؓ سے وابستگی پرہے اوریہی جماعت ہے جس کی طرف منسوب ہوکر وہ اہل السنۃ والجماعت کہلاتے ہیں، جب تک ان کے قول وفعل سے تمسک رہے غیرمقلدین بھی جماعت اہلِ حدیث (بہ اصطلاح جدید) کے دائرہ میں رہیں گے اور اس گروہ کے جولوگ حضراتِ صحابہؓ سے علیحدگی کوہی سچائی کا نشان سمجھیں وہ انجام کاراسلام کی سرحد کوہی پارکرجائیں گے، جماعت کے مقتدر عالم حافظ محمدعبداللہ صاحب روپڑی لکھتے ہیں:
"جب انسان کوکوئی مسئلہ قرآن وحدیث سے صراحۃ نہیں ملتا تووہ قرآن وحدیث میں اجتہاد واستنباط کرتا ہے اور وہ اجتہاد واستنباط قرآن وحدیث سے الگ نہیں کہلاتا؛ اسی طرح صحابی کے اس قول کوجواجتہاد واستنباط کی قسم سے ہو اس کوقرآن وحدیث سے الگ نہ سمجھنا چاہیے؛ بلکہ قرآن وحدیث میں داخل سمجھنا چاہیے"۔
(ضمیمہ رسالہ اہلِ حدیث:۷)
اوریہ بات بھی ظاہر ہے کہ صحابہ کے اقوال میں اوّل تورفع یعنی رسولﷺ کی حدیث ہونے کا احتمال قوی ہے اور اگر کہیں فہم کا دخل ہوتوبھی رسول اللہﷺ کی روش کی طرف زیادہ نزدیک ہیں؛ کیونکہ صحابہؓ آپ کی طرزِ استدلال کودیکھتے تھے اور آپ کے کنایہ اور اشارے سے خوب سمجھتے تھے اور جتنی باتیں مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہیں اُن سے خوب واقف تھے اور بعد کے لوگ اُن باتوں سے محروم ہیں، اس لیئے پچھلوں کے اجتہاد پرصحابہؓ کے اقوال کومقدم کرنا لازم ہے اور صحابہؓ چونکہ ان باتوں میں برابر ہیں اس لیئے ان کے اقوال آپس میں ایک دوسرے کوماننے لازم نہیں۔
(ضمیمہ رسالہ اہلِ حدیث:۸)
مولانا حافظ محمدعبداللہ صاحب روپڑی اس سے پہلے ساری بحث کا حاصل ان لفظوں میں لکھ آئے ہیں:
"اقوالِ صحابہؓ کے ساتھ استدلال کرنا ٹھیٹھ اسلام میں داخل ہے"۔
(ضمیمہ رسالہ اہلِ حدیث:۳)
کتنا اچھا ہوکہ گروہِ اہلِ حدیث کے دیگر حضرات بھی صحابہؓ کے قول وعمل سے استناد کرنا جائز سمجھیں اور اسے اپنی رائے پر ہرحال میں مقدم کریں، یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتباع اور پیروی کا عقیدہ ہے جواہلِ حدیث حضرات کو اہل السنۃ والجماعت میں داخل کرتا ہے، اس کے ساتھ ائمہ کرام کا اکرام واحترام بھی ضروری ہے، ان کے کسی فیصلے سے اختلاف اور بات ہے اور مجموعی طور پر اُن کی جلالتِ قدر سے کھیلنا اور ان کی علمی امامت کے انکار سے پورے اکابرِ امت کی تجہیل کرنا یہ وہ خوفناک روش ہے کہ اس راہ پر چلنے والا کبھی اہل السنۃ والجماعۃ میں نہیں رہ سکتا، جماعت اہلِ حدیث کے جوعلماء ائمہ حدیث وفقہ اور مجمع علیہم مجتہدین ائمہ اربعہ کا اکرام واحترام کرتے ہیں انہیں چند فروعی اختلافات کی بناء پراہل السنت کے دائرہ حقہ سے باہر نہ سمجھنا چا ہیے۔
"جب انسان کوکوئی مسئلہ قرآن وحدیث سے صراحۃ نہیں ملتا تووہ قرآن وحدیث میں اجتہاد واستنباط کرتا ہے اور وہ اجتہاد واستنباط قرآن وحدیث سے الگ نہیں کہلاتا؛ اسی طرح صحابی کے اس قول کوجواجتہاد واستنباط کی قسم سے ہو اس کوقرآن وحدیث سے الگ نہ سمجھنا چاہیے؛ بلکہ قرآن وحدیث میں داخل سمجھنا چاہیے"۔
(ضمیمہ رسالہ اہلِ حدیث:۷)
اوریہ بات بھی ظاہر ہے کہ صحابہ کے اقوال میں اوّل تورفع یعنی رسولﷺ کی حدیث ہونے کا احتمال قوی ہے اور اگر کہیں فہم کا دخل ہوتوبھی رسول اللہﷺ کی روش کی طرف زیادہ نزدیک ہیں؛ کیونکہ صحابہؓ آپ کی طرزِ استدلال کودیکھتے تھے اور آپ کے کنایہ اور اشارے سے خوب سمجھتے تھے اور جتنی باتیں مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہیں اُن سے خوب واقف تھے اور بعد کے لوگ اُن باتوں سے محروم ہیں، اس لیئے پچھلوں کے اجتہاد پرصحابہؓ کے اقوال کومقدم کرنا لازم ہے اور صحابہؓ چونکہ ان باتوں میں برابر ہیں اس لیئے ان کے اقوال آپس میں ایک دوسرے کوماننے لازم نہیں۔
(ضمیمہ رسالہ اہلِ حدیث:۸)
مولانا حافظ محمدعبداللہ صاحب روپڑی اس سے پہلے ساری بحث کا حاصل ان لفظوں میں لکھ آئے ہیں:
"اقوالِ صحابہؓ کے ساتھ استدلال کرنا ٹھیٹھ اسلام میں داخل ہے"۔
(ضمیمہ رسالہ اہلِ حدیث:۳)
کتنا اچھا ہوکہ گروہِ اہلِ حدیث کے دیگر حضرات بھی صحابہؓ کے قول وعمل سے استناد کرنا جائز سمجھیں اور اسے اپنی رائے پر ہرحال میں مقدم کریں، یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتباع اور پیروی کا عقیدہ ہے جواہلِ حدیث حضرات کو اہل السنۃ والجماعت میں داخل کرتا ہے، اس کے ساتھ ائمہ کرام کا اکرام واحترام بھی ضروری ہے، ان کے کسی فیصلے سے اختلاف اور بات ہے اور مجموعی طور پر اُن کی جلالتِ قدر سے کھیلنا اور ان کی علمی امامت کے انکار سے پورے اکابرِ امت کی تجہیل کرنا یہ وہ خوفناک روش ہے کہ اس راہ پر چلنے والا کبھی اہل السنۃ والجماعۃ میں نہیں رہ سکتا، جماعت اہلِ حدیث کے جوعلماء ائمہ حدیث وفقہ اور مجمع علیہم مجتہدین ائمہ اربعہ کا اکرام واحترام کرتے ہیں انہیں چند فروعی اختلافات کی بناء پراہل السنت کے دائرہ حقہ سے باہر نہ سمجھنا چا ہیے۔