مسلک اہلحدیث اور بیعت و اارادت
مسلک اہلحدیث اور سلسلہ بیعت و ارادت:۔مسلک اہلحدیث کے متعلق جہاں دیگر ابہام پائے جاتے ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلک اہلحدیث میں بیعت وارادت کا سلسلہ نہیں پایا جاتاہے،گو کہ اس عہد میںیہ حقیقت موجود ہے ،مگر اکابرینؒ اس الزام سے کلی طور پر بری الذمہ ہیں ،بلکہ ان کے ہاں یہ سلسلہ بیعت وارادت ایک معمول سا نظرآتا ہے،کسی زمانے میں خاندان غزنوی اور لکھوی بیعت سلوک اور تزکیہ نفس کی تعلیم وتربیعت کے لئے بہت مقبول و معروف تھے۔
۔اور یہ بیعت و ارادت اتنی عام تھی ،کہ مشہور سوانح نگارمولانامحمد اسحاق بھٹی فرماتے ہیں۔
’’ بیعت واردات کا یہ سلسلہ اہلحدیث حضرات میں بھی ایک عرصہ تک جاری رہا۔مولانا سید داؤد غزنویؒ کے جد امجد سید عبداللہ غزنویؒ کو ’’ عبدللہ صاحب‘ ‘ کہا جاتا تھا،انکے حالات اپنے فقہا ء ہند کی نویں جلد میں ( جو تیرھویں صدی ہجری کے علماء و فقہاء کے واقعات و کوائف پر مشتمل ہے) تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔مولانا محی الدین عبدالرحمٰن لکھویؒ ( مولانا محی الدین لکھویؒ کے جد محترم) نے غزنی جاکر ان سے بیعت کی تھی وہ غزنی سے ہجرت کرکے امر تسر کے قریب بستی’’ خیر دین‘‘ میں تشریف لائے تو میرے دادا(میاں محمد) کے حقیقی چچا میاں امام الدین اور ہماری برادری کے ایک بزرگ حاجی نور الدین بیعت کیلئے انکی خدمت میں گئے تھے، لیکن حضرت عبداللہ فارسی اور عربی بولتے تھے،یا پشتو میں بات کرتے تھے ،اوریہ حضرت انکی بات نہیں سمجھ پاتے تھے،اس لئے انکے حلقہ بیعت میں شامل نہ ہو سکے،اور پھر انکے مرید و مبائع مولانا محی الدین عبدالرحمنؒ لکھوی سے بیعت کر لی ،حضرت عبدللہ صاحب کے صاحب زادگان گرامی حضرت الامام مولانا عبدالجبار غزنوی(جو مولانا داؤد غزنوی کے والد مکرم تھے) اور مولانا عبد الواحد غزنویؒ جو مولانا داؤد غزنویؒ حقیقی چچا تھے،لوگوں سے بیعت لیتے تھے،اور ہمارے لاقے اور خاندان کے بعض لوگ ان سے بیعت ہوتے تھے۔ مولانا معین الدین لکھوی کے والد محترم حضرت حضرت مولانا صوفی محمد علی لکھوی جلیل القدر عالم تھے، اگر ان سے کوئی شخص بیعت کرنا چاہتا تھا،وہ اپنے حلقہ بیعت میں شامل کر لیتے تھے۔
ضلع فیروزپور میں ایک گاؤں ’’ چھنیاں والی ‘‘ تھا،جس میں نہایت متقی بزرگ مولانا کمال الدین قیام فرما تھے،جو مسلکاً اہلحدیث تھے اور ڈوگر برادری سے تعلق رکھتے تھے، اور اس نواح میں مرجع خلائق تھے۔لوگ ان سے بیعت ہوتے تھے،اس فقیر کو چھوٹی عمر میں انکے حلقہ بیعت میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تھی، ان سے بھی لوگ بیعت ہوتے تھے،اس گنہگار کو بھی انھی سے بیعت کا شرف حاصل ہوا تھا۔یہ آزادی سے کئی سال پہلے کی باتیں ہیں‘‘(ہفت اقلیم از محمد اسحاق بھٹی ص۴۸۴ تا۴۸۶)
حضرت مولانا سید عبداللہ غزنویؒ کے فرزند ارجمند سید عبدالجبار غزنویؒ نے بیعت والہام کے موضعوں پر ایک رسالہ ’’ اثبات الالھام والبیعۃ‘‘ تصنیف فرمایا تھا،مسلک اہلحدیث کے مشہور عالم و ولی اللہ مولا نا غلام رسول ؒ قلعوی (متوفی ۱۸۷۴) نے حضرت سیدامیرؒ (کوٹھا شریف) کے دست مبارک پر اصول طریقت کیلئے بیعت ہوئے تھے،اور سید امیرؒ شاہ اسماعیل شہیدؒ کے پیر ومرشد سید احمد شہیدؒ سے تربیعت یافتہ تھے۔تصوف و سلوک کے موضعوع پرسیدؒ کی’ ’صراطِ مستقیم‘‘مشہور ومعروف کتاب ہے۔ سیدعبداللہ غزنویؒ بھی سید امیرؒ سے بیعت شدہ تھے،ان حضرات کی آپس میں بے حد محبت و عقیدت اور موافقت تھی۔مولاناغلام نبی سوہدریؒ مسلک اہلحدیث کے صاحب کشف وکرامات بزرگ گزرے ہیں۔آپ مشہور عالم دین مولانا عبدالمجید سوہدریؒ کے جد امجد تھے،مولانا غلام نبی الربانی سوہدریؒ نے سید میاں نذیر حسین دہلوی ؒ سے سند احادیث حاصل کی اور حصول طریقت کیلئے مرتسر جاکرسید عبداللہ غزنویؒ کی خدمت میں حاضری دی اور انکے دائرہ بیعت و ارادت میں شریک ہوئے،اور وہاں تین ماہ مسلل قیام فرما منازل سلوک طے فرمائے ۔ مولا نا غلام الربانیؒ سوہدری کا شمار مولانا غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے معاصرین میں ہوتا ہے۔
حافظ غلام الدین بگویؒ جو اپنے کے عہد جلیل ا لقدر اہلحدیث عالم تھے ،مولانا غلام رسول قلعویؒ نے مروجہ درسی کتب انہی ہی سے پڑھی تھی،حافظ غلام الدین بگویؒ نے سندِ حدیث شاہ عبدلعزیز ؒ سے حاصل کی تھی،حافظ غلام الدین بگویؒ نے شاہ غلام الدین مجددی ؒ کی بیعت کیاور ان سے مستفادہ کیا۔(تذکرہ غلام رسول قلعویؒ ص۲۹)
خاندان لکھوی کا تذکرہ گذشتہ اوراق میں گذر چکا ہے،حافظ محمد لکھویؒ کے متعلق الفیوض المحمدیہ میں مولانا ابراھیم خلیل میرؒ لکھتے ہیں
’’حافظ صاحب ؒ سے مولاناعبدالحقؒ کو دوسری سند تصوف حاصل ہوئی،ویسے تو حافط صاحب ؒ کا کئی اہل طریقت سے سلسلہ تلمذ ونسبت منسلک تھا،لیکن مولوی عبدالحق صاحب کو سند عطا فرمائی اس میں ا پنے والد گرامی کے علاوہ ذکر نہیں کیا۔یہ سند ۱۳۰۹ھ کی ہے‘‘
مولانا غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ۱۸۷۱ میں حج بیت اللہ کیلئے روانہ ہوئے تو اپنے دونوں بیٹوں (مولانا عبدالقادر ؒ اور مولانا عبدالعزیزؒ ) کیلئے وصیت لکھی،جس میں حصول بیعت وتصوف کیلئے خصوصی نصیحت کی۔فرماتے ہیں
’’وصیت کرتا ہوں کہ تمام کاموں پر علم دینی (یعنی) تفسیر،حدیث ،فقہ ،سیرت اور تصوف کو اولیں اہمیت دے،اور ہمت کرکے اسکی طرف متوجہ ہوں ،بلخصوص محدثین کی ہم نشینی اختیار کر ے(یاد رکھیں) کہ اہل حدیث ہی اہل اللہ ہیں،علوم دینیسے فراغت کے بعد کسی کامل و اکمل کے ہاتھ پر بیعت کریں،ہمارے علم کے مطابق اس عہد میں حضرت عبداللہ غزنویؒ جیسا کوئی نہیں،ان کی صحبت کیمیاء ہے،اور کامل ومکمل پیر ہیں۔
عبدالقادر ترجمعہ قران انہی سے شروع کرے،اورعبدالعزیز انہی سے بسم اللہ کا آغاز کرے،کیوں کہ میرے عقیدے کی روح سے وہ حضرت جنید ؒ کے مثل اور حضرت با یزیدؒ کی ماند ہیں رحمہ اللہ علیہم (یاد رکھیں) کوئی مدح کرنے والا انکے خصائص کا احاطہ نہیں کر سکتا ،اگرچہ مدح کرنے میں وہ سب پر سبقت لے گیا ہو،بس اتنی بات ہی کافی ہے ،اگر چہ میں کھوٹا سامان ہوں،لیکن انکے خریداروں کی قطار میں کھڑا ہوں،چاہیے کہ ملحدوں ،زندیقوں اور ان لوگوں کی مجلسوں میں نہ بیٹھیں جو شریعت محمدیﷺ کے بال بھر بھی مخالف ہوں ۔اولیاء اور عامل صوفیاء کے بارے میں حسنِ عقیدت رکھیں امام شعرانی ؒ نے فرمایا ہے،
ایا ک و لحوم الا ولیاء فانھا مسمومتہ
’’ اپنے آپکو اولیاء اللہ کی گوشت خوری سے بچاؤ۔یہ زہریلے گوشت ہیں،یعنی ان کی غیبت نہ کرو،جہاں تک ممکن ہو،انکے ساتھ نیک گمان رکھو‘‘
) تذکرہ غلام رسول ؒ قلعوی ص ۴۵۹(
شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ اور بیعت و ارشاد:۔تذکرہ غلام رسول ؒ قلعوی اور سید عبد اللہؒ غزنوی علم حدیث میں شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ سے فیض یافتہ تھے۔حضرت سیدنذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی مبارک سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ آپ سے اقتباسِ علم کے بعد سید عبداللہ غزنویؒ سے بیعت ہوا کرتے تھے اس ضمن میں ایک واقعہ بھی ملتا ہے کہ
’’مولوی شاہ ممتاز الحق صاحب مرحوم صاحب جب حضرت مولانا عبداللہ صاحب غزنوی کے حضور میں بغرضِ بیعت و ارشاد حاضر ہوئے تو عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ تم دہلی جاکر وہاں رہو اور شرفِ صحبت شیخ سے مستفید ہوکر ان سے اجازت لیکر یہاں آؤ،چانچہ ایسا ہی ہوا،وہ دہلی آئے اور یہاں بہت دنوں تک رہئے،پھر جب میاں صاحب کے حظ کے ساتھ امر تسر پہنچے،تب عبداللہ صاحب نے ان سے بیعت لی اور مسترشدین میں اپنے داخل کیا‘‘
( الحیات بعد الممات ص۱۳)
مولانا فضل الدین بہاری ؒ جو کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے شاگرد رشید تھے ،اور ٓپ کے ساتھ سفر وحضر میں رہے ،آپ نے شیخ الکلؒ کی سوانح حیات ’’ الحیات بعد الممات ‘‘ میں بیعت اور اقسام بیعت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ،جو کہ کئی صفحات پر مشتمل ہے ،پھر بیعتِ تصوف سلوک کو مشروع ثابت کرکے حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے متعلق لکھتے ہیں
" اکابرین اہلحدیث کا احسان و سلوک" زیر طبع سے اقتباس
مسلک اہلحدیث اور سلسلہ بیعت و ارادت:۔مسلک اہلحدیث کے متعلق جہاں دیگر ابہام پائے جاتے ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلک اہلحدیث میں بیعت وارادت کا سلسلہ نہیں پایا جاتاہے،گو کہ اس عہد میںیہ حقیقت موجود ہے ،مگر اکابرینؒ اس الزام سے کلی طور پر بری الذمہ ہیں ،بلکہ ان کے ہاں یہ سلسلہ بیعت وارادت ایک معمول سا نظرآتا ہے،کسی زمانے میں خاندان غزنوی اور لکھوی بیعت سلوک اور تزکیہ نفس کی تعلیم وتربیعت کے لئے بہت مقبول و معروف تھے۔
۔اور یہ بیعت و ارادت اتنی عام تھی ،کہ مشہور سوانح نگارمولانامحمد اسحاق بھٹی فرماتے ہیں۔
’’ بیعت واردات کا یہ سلسلہ اہلحدیث حضرات میں بھی ایک عرصہ تک جاری رہا۔مولانا سید داؤد غزنویؒ کے جد امجد سید عبداللہ غزنویؒ کو ’’ عبدللہ صاحب‘ ‘ کہا جاتا تھا،انکے حالات اپنے فقہا ء ہند کی نویں جلد میں ( جو تیرھویں صدی ہجری کے علماء و فقہاء کے واقعات و کوائف پر مشتمل ہے) تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔مولانا محی الدین عبدالرحمٰن لکھویؒ ( مولانا محی الدین لکھویؒ کے جد محترم) نے غزنی جاکر ان سے بیعت کی تھی وہ غزنی سے ہجرت کرکے امر تسر کے قریب بستی’’ خیر دین‘‘ میں تشریف لائے تو میرے دادا(میاں محمد) کے حقیقی چچا میاں امام الدین اور ہماری برادری کے ایک بزرگ حاجی نور الدین بیعت کیلئے انکی خدمت میں گئے تھے، لیکن حضرت عبداللہ فارسی اور عربی بولتے تھے،یا پشتو میں بات کرتے تھے ،اوریہ حضرت انکی بات نہیں سمجھ پاتے تھے،اس لئے انکے حلقہ بیعت میں شامل نہ ہو سکے،اور پھر انکے مرید و مبائع مولانا محی الدین عبدالرحمنؒ لکھوی سے بیعت کر لی ،حضرت عبدللہ صاحب کے صاحب زادگان گرامی حضرت الامام مولانا عبدالجبار غزنوی(جو مولانا داؤد غزنوی کے والد مکرم تھے) اور مولانا عبد الواحد غزنویؒ جو مولانا داؤد غزنویؒ حقیقی چچا تھے،لوگوں سے بیعت لیتے تھے،اور ہمارے لاقے اور خاندان کے بعض لوگ ان سے بیعت ہوتے تھے۔ مولانا معین الدین لکھوی کے والد محترم حضرت حضرت مولانا صوفی محمد علی لکھوی جلیل القدر عالم تھے، اگر ان سے کوئی شخص بیعت کرنا چاہتا تھا،وہ اپنے حلقہ بیعت میں شامل کر لیتے تھے۔
ضلع فیروزپور میں ایک گاؤں ’’ چھنیاں والی ‘‘ تھا،جس میں نہایت متقی بزرگ مولانا کمال الدین قیام فرما تھے،جو مسلکاً اہلحدیث تھے اور ڈوگر برادری سے تعلق رکھتے تھے، اور اس نواح میں مرجع خلائق تھے۔لوگ ان سے بیعت ہوتے تھے،اس فقیر کو چھوٹی عمر میں انکے حلقہ بیعت میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تھی، ان سے بھی لوگ بیعت ہوتے تھے،اس گنہگار کو بھی انھی سے بیعت کا شرف حاصل ہوا تھا۔یہ آزادی سے کئی سال پہلے کی باتیں ہیں‘‘(ہفت اقلیم از محمد اسحاق بھٹی ص۴۸۴ تا۴۸۶)
حضرت مولانا سید عبداللہ غزنویؒ کے فرزند ارجمند سید عبدالجبار غزنویؒ نے بیعت والہام کے موضعوں پر ایک رسالہ ’’ اثبات الالھام والبیعۃ‘‘ تصنیف فرمایا تھا،مسلک اہلحدیث کے مشہور عالم و ولی اللہ مولا نا غلام رسول ؒ قلعوی (متوفی ۱۸۷۴) نے حضرت سیدامیرؒ (کوٹھا شریف) کے دست مبارک پر اصول طریقت کیلئے بیعت ہوئے تھے،اور سید امیرؒ شاہ اسماعیل شہیدؒ کے پیر ومرشد سید احمد شہیدؒ سے تربیعت یافتہ تھے۔تصوف و سلوک کے موضعوع پرسیدؒ کی’ ’صراطِ مستقیم‘‘مشہور ومعروف کتاب ہے۔ سیدعبداللہ غزنویؒ بھی سید امیرؒ سے بیعت شدہ تھے،ان حضرات کی آپس میں بے حد محبت و عقیدت اور موافقت تھی۔مولاناغلام نبی سوہدریؒ مسلک اہلحدیث کے صاحب کشف وکرامات بزرگ گزرے ہیں۔آپ مشہور عالم دین مولانا عبدالمجید سوہدریؒ کے جد امجد تھے،مولانا غلام نبی الربانی سوہدریؒ نے سید میاں نذیر حسین دہلوی ؒ سے سند احادیث حاصل کی اور حصول طریقت کیلئے مرتسر جاکرسید عبداللہ غزنویؒ کی خدمت میں حاضری دی اور انکے دائرہ بیعت و ارادت میں شریک ہوئے،اور وہاں تین ماہ مسلل قیام فرما منازل سلوک طے فرمائے ۔ مولا نا غلام الربانیؒ سوہدری کا شمار مولانا غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے معاصرین میں ہوتا ہے۔
حافظ غلام الدین بگویؒ جو اپنے کے عہد جلیل ا لقدر اہلحدیث عالم تھے ،مولانا غلام رسول قلعویؒ نے مروجہ درسی کتب انہی ہی سے پڑھی تھی،حافظ غلام الدین بگویؒ نے سندِ حدیث شاہ عبدلعزیز ؒ سے حاصل کی تھی،حافظ غلام الدین بگویؒ نے شاہ غلام الدین مجددی ؒ کی بیعت کیاور ان سے مستفادہ کیا۔(تذکرہ غلام رسول قلعویؒ ص۲۹)
خاندان لکھوی کا تذکرہ گذشتہ اوراق میں گذر چکا ہے،حافظ محمد لکھویؒ کے متعلق الفیوض المحمدیہ میں مولانا ابراھیم خلیل میرؒ لکھتے ہیں
’’حافظ صاحب ؒ سے مولاناعبدالحقؒ کو دوسری سند تصوف حاصل ہوئی،ویسے تو حافط صاحب ؒ کا کئی اہل طریقت سے سلسلہ تلمذ ونسبت منسلک تھا،لیکن مولوی عبدالحق صاحب کو سند عطا فرمائی اس میں ا پنے والد گرامی کے علاوہ ذکر نہیں کیا۔یہ سند ۱۳۰۹ھ کی ہے‘‘
مولانا غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ۱۸۷۱ میں حج بیت اللہ کیلئے روانہ ہوئے تو اپنے دونوں بیٹوں (مولانا عبدالقادر ؒ اور مولانا عبدالعزیزؒ ) کیلئے وصیت لکھی،جس میں حصول بیعت وتصوف کیلئے خصوصی نصیحت کی۔فرماتے ہیں
’’وصیت کرتا ہوں کہ تمام کاموں پر علم دینی (یعنی) تفسیر،حدیث ،فقہ ،سیرت اور تصوف کو اولیں اہمیت دے،اور ہمت کرکے اسکی طرف متوجہ ہوں ،بلخصوص محدثین کی ہم نشینی اختیار کر ے(یاد رکھیں) کہ اہل حدیث ہی اہل اللہ ہیں،علوم دینیسے فراغت کے بعد کسی کامل و اکمل کے ہاتھ پر بیعت کریں،ہمارے علم کے مطابق اس عہد میں حضرت عبداللہ غزنویؒ جیسا کوئی نہیں،ان کی صحبت کیمیاء ہے،اور کامل ومکمل پیر ہیں۔
عبدالقادر ترجمعہ قران انہی سے شروع کرے،اورعبدالعزیز انہی سے بسم اللہ کا آغاز کرے،کیوں کہ میرے عقیدے کی روح سے وہ حضرت جنید ؒ کے مثل اور حضرت با یزیدؒ کی ماند ہیں رحمہ اللہ علیہم (یاد رکھیں) کوئی مدح کرنے والا انکے خصائص کا احاطہ نہیں کر سکتا ،اگرچہ مدح کرنے میں وہ سب پر سبقت لے گیا ہو،بس اتنی بات ہی کافی ہے ،اگر چہ میں کھوٹا سامان ہوں،لیکن انکے خریداروں کی قطار میں کھڑا ہوں،چاہیے کہ ملحدوں ،زندیقوں اور ان لوگوں کی مجلسوں میں نہ بیٹھیں جو شریعت محمدیﷺ کے بال بھر بھی مخالف ہوں ۔اولیاء اور عامل صوفیاء کے بارے میں حسنِ عقیدت رکھیں امام شعرانی ؒ نے فرمایا ہے،
ایا ک و لحوم الا ولیاء فانھا مسمومتہ
’’ اپنے آپکو اولیاء اللہ کی گوشت خوری سے بچاؤ۔یہ زہریلے گوشت ہیں،یعنی ان کی غیبت نہ کرو،جہاں تک ممکن ہو،انکے ساتھ نیک گمان رکھو‘‘
) تذکرہ غلام رسول ؒ قلعوی ص ۴۵۹(
شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ اور بیعت و ارشاد:۔تذکرہ غلام رسول ؒ قلعوی اور سید عبد اللہؒ غزنوی علم حدیث میں شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ سے فیض یافتہ تھے۔حضرت سیدنذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی مبارک سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ آپ سے اقتباسِ علم کے بعد سید عبداللہ غزنویؒ سے بیعت ہوا کرتے تھے اس ضمن میں ایک واقعہ بھی ملتا ہے کہ
’’مولوی شاہ ممتاز الحق صاحب مرحوم صاحب جب حضرت مولانا عبداللہ صاحب غزنوی کے حضور میں بغرضِ بیعت و ارشاد حاضر ہوئے تو عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ تم دہلی جاکر وہاں رہو اور شرفِ صحبت شیخ سے مستفید ہوکر ان سے اجازت لیکر یہاں آؤ،چانچہ ایسا ہی ہوا،وہ دہلی آئے اور یہاں بہت دنوں تک رہئے،پھر جب میاں صاحب کے حظ کے ساتھ امر تسر پہنچے،تب عبداللہ صاحب نے ان سے بیعت لی اور مسترشدین میں اپنے داخل کیا‘‘
( الحیات بعد الممات ص۱۳)
مولانا فضل الدین بہاری ؒ جو کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے شاگرد رشید تھے ،اور ٓپ کے ساتھ سفر وحضر میں رہے ،آپ نے شیخ الکلؒ کی سوانح حیات ’’ الحیات بعد الممات ‘‘ میں بیعت اور اقسام بیعت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ،جو کہ کئی صفحات پر مشتمل ہے ،پھر بیعتِ تصوف سلوک کو مشروع ثابت کرکے حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے متعلق لکھتے ہیں
’’ حضرات ناطرین جب آپ شریعت وطریقت کی حقیقت پڑھ چکے ہیں ،تو اب ہم کو یہ دکھانا ہے کہ ہمارے میاں صاحب کیسے بیعت لیتے تھے،سوائے بیعت خلافت ا وربیعت جہاد ،بیعت ثبات فی القتال ،بیعت ہجرت کے آپ باقی جملہ اقسام بیعت میں سے مناسب حال بیعت مریدوں سے لیتے تھے،مولوی ابومحمد حفاظت اللہ امرتسری آپکے سفر بنگالہ تشریف فرماہوئے تو ہم اور پکے پوتے حافظ عبداللہ السلام اور حاجی محمد حسین صاحب ساکن میرٹھ آپکے ہمراہ تھے ۔جس راز آپ بمقام دیپ کنڈ رونق افراز تھےآپکی شہرت سن کر اس قدر لوگ جھک پڑے ،جنکی گنتی ناممکن تھی،سب سکے سب نے ٓپ سے شرف بیعت حاصل کیا۔
ایک صاحب اپنی بیعت کی کفیت لکھتے ہیں کہ رحیم آباد میں بعد المغرب ہم میاں صاحب ؒ کے حضور بیعت کیلئے حاضر ہوئے ،اس وقت تین چار آدمی قریب بیٹھے ہوئے تھے،لیٹے،لیٹے اپنے دائیں ہاتھ سے میرے دائیں ہاتھ کو پکڑا ،سورہ احزاب کے پانچویں رکوع کو ان المسلمین والمسلمات سے اجراً عظیما۔تک تلاوت فرما کر انکے معنی اور مطالب بووضاحت تمام سمجھاتے رہے،اسکے بعد فرمایا اگر تم ان سب اعمال کے ہمیشہ عامل رہو گے تو میں تمھاری گواہی دوں گا ،ورنہ میں کہاں اور تم کہاں۔‘‘
)الحیات بعدلممات س۴۶(
سفر پنجاب میں لوگوں نے آپکے دست مبارک پر بیعت کی ،مداہنت سے آپکو سخت نفرت تھی،مریدوں اور طلبہ کو اکثر اسکی نصحیت کرتے ،کوئی شاگرد اگر اپنا ارادہ بیعت کا ظاہر کرتا تو فرماتے کہ ’’تم شاگرد ہی کافی ہو ‘‘اسکے بعد اگر اصرار کرتا تو ٓپ بیعت لے لیتے ،جس مجمع میں آپ کسی سے بیعت لیتے تقریباً جملہ حاضرین شریک بیعت ہو جاتے ( الحیات ص ۱۴۸)
ایک صاحب اپنی بیعت کی کفیت لکھتے ہیں کہ رحیم آباد میں بعد المغرب ہم میاں صاحب ؒ کے حضور بیعت کیلئے حاضر ہوئے ،اس وقت تین چار آدمی قریب بیٹھے ہوئے تھے،لیٹے،لیٹے اپنے دائیں ہاتھ سے میرے دائیں ہاتھ کو پکڑا ،سورہ احزاب کے پانچویں رکوع کو ان المسلمین والمسلمات سے اجراً عظیما۔تک تلاوت فرما کر انکے معنی اور مطالب بووضاحت تمام سمجھاتے رہے،اسکے بعد فرمایا اگر تم ان سب اعمال کے ہمیشہ عامل رہو گے تو میں تمھاری گواہی دوں گا ،ورنہ میں کہاں اور تم کہاں۔‘‘
)الحیات بعدلممات س۴۶(
سفر پنجاب میں لوگوں نے آپکے دست مبارک پر بیعت کی ،مداہنت سے آپکو سخت نفرت تھی،مریدوں اور طلبہ کو اکثر اسکی نصحیت کرتے ،کوئی شاگرد اگر اپنا ارادہ بیعت کا ظاہر کرتا تو فرماتے کہ ’’تم شاگرد ہی کافی ہو ‘‘اسکے بعد اگر اصرار کرتا تو ٓپ بیعت لے لیتے ،جس مجمع میں آپ کسی سے بیعت لیتے تقریباً جملہ حاضرین شریک بیعت ہو جاتے ( الحیات ص ۱۴۸)
" اکابرین اہلحدیث کا احسان و سلوک" زیر طبع سے اقتباس