• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلک اہلحدیث اور بیعت و اارادت

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اتنا تو آپ بھی قبول فرمارہے ہیں کہ مذکورہ امثلہ تزکیہ نفس ،اصلاح اور ذکر سے متعلق ہیں ۔ تو ذکر لسانی بھی موجود ہے اور ذکر نفس (ذکر قلب) بھی موجود ہے۔
میں نے عرض کیا تھا کہ درج بالا آیات کریمہ تزکیہ نفس، اصلاح اور ذکر سے متعلق ہیں۔ آپ نے اس ذکر قلب بھی ثابت کردیا؟ صوفیوں کا مزعومہ ذکر نفس (ذکر قلب) تو ان آیات سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔

اور جو بھی ان مذکورہ تعلیمات پر عمل کرے گا اس کا نفس پاک ہوجائےگا ( تزکٰی) ان تعلیمات کو علم باطن کہا جاتا ہے
علم باطن کی یہ ایک نئی تعریف سنی ہے کہ جو قرآنی تعلیمات پر عمل کرے، اور ان تعلیمات پر عمل کرنے سے اس کا نفس پاک ہوجائے تو ان تعلیمات کو علم باطن کہا جاتا ہے۔ ؟!!

مفتی صاحب! علم باطن کی تعریف ریفرنس کے ساتھ کیجئے اور اسے قرآن وسنت سے ثابت کیجئے؟؟

اس علم کے مختلف نام رکھ لیے گئے کچھ نے بدعتیں داخل کردیں کہیں شرک شامل کردیا گیا تو یہ کھلی بات ہےاسلام اس طرح کی لغو چیزوں کو قبول نہیں کرتا اب اگرکچھ سر پھرے لوگ اس طرح کے غلط طریقہ کو رائج کریں تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوگا کہ یہ طریقہ اصلاح ہی غلط ہوگیا۔ جس طرح سے تصوف یا سلوک کو چند وجوہات کی بنا پر آپ حضرات غلط ٹھہرا رہے ہیں یہ بات تو مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کو اچھا یا برا سمجھتے ہیں ۔اسی طرح سے اگر غیر مسلم یہ کہنے لگیں یا کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات( نعوذباللہ من ذالک ) غلط ہیں تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہوجائے گا کہ اسلام غلط ہوگیا۔
ہمارے نزدیک تصوف وغیرہ میں صرف کچھ شرکیات یا بدعیات ہی غلط نہیں، بلکہ یہ پورا مذہب ہی غلط بنیادوں پر قائم ہے۔ جب آپ تصوف کی تعریف کریں گے تو ان شاء اللہ اسے واضح کر دیا جائے گا۔
اگر تصوف اصلاح، تزکیہ نفس یا ولایت ہوتا تو آپ کو ہرگز اس لفظ پر اتنا اصرار نہ ہوتا۔ اس لفظ پر اتنے اصرار کا مطلب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اس سے مراد ہی کچھ اور ہے۔

جہاں تک علم لدنی کا معاملہ ہے اگر آپ میرے اس سوال کا جواب مرحمت فرمادیتے کہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس کون سا علم تھا تو شاید یہ مسئلہ حل بھی ہوگیا ہوتا کیونکہ حضرت خضر علیہ السلام کے علم کی نسبت اسی علم کی طرف تھی ۔ اگر آپ یہ فرمائیں کہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے پاس ایک ہی علم تھا تو یہ بات نہ عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ قرآن پاک کا سیاق کلام اس طرف اشارہ کرتا ہے وہ تو کسی دوسرے ہی علم کی طرف اشارہ کرتا ہے جو نبینا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہیں تھا۔
در اصل آپ نے مختلف اصطلاحات کے خود ساختہ نام بنا رکھے ہیں، جن سے مراد بھی آپ نے کچھ اپنی ہی لی ہوئی ہے، قرآن کریم میں علم کے ساتھ من لدنا کا لفظ آیا تو اسے آپ نے ’علم لدنی‘ بنا لیا۔
ذرا واضح کر دیجئے کہ ’علم لدنی‘ کیا ہوتا ہے؟
کیا سیدنا خضر علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے علم دیا تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو کہیں اور سے علم دیا تھا؟
محترم بھائی! لدنا کا مطلب ہے ہمارے پاس سے، اللہ تعالیٰ نے سیدنا خضر﷤ کو اپنے پاس سے علم دیا تھا جو سیدنا موسیٰ﷤ کو نہیں دیا تھا اور جو سیدنا موسیٰ﷤ کو اپنے پاس سے دیا تھا وہ سیدنا خضر﷤ کو نہیں دیا تھا: وفوق كل ذي علم عليم دونوں کا علم ہی اللہ کے پاس سے (دوسرے لفظوں میں ’علم لدنی‘) تھا، اگر اس سے کوئی اور علم مراد لیا جائے جیسا کہ آپ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں تو پھر یہ صرف صوفیوں کا کارنامہ ہی ہوسکتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنی بدعات اور شرکیات کی دلیل کا سامان مہیا کر سکیں، کیونکہ ان کی لغویات قرآن وحدیث سے تو ہرگز ثابت نہیں ہوتیں۔

اگر آپ کے مزعومہ ’علم لدنی‘ کی دلیل سورۂ کہف میں موجود لفظ لدنا ہے تو قرآن کریم میں اور بھی کئی مقامات پر لدنا کا ذکر آیا ہے، مثلا:
﴿ وَإِذًا لَـٔاتَينـٰهُم مِن لَدُنّا أَجرً‌ا عَظيمًا ٦٧ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
کیا یہاں سے کوئی ’اجر لدنی‘ بھی ثابت ہوتا ہے؟

﴿ وَحَنانًا مِن لَدُنّا وَزَكوٰةً ۖ وَكانَ تَقِيًّا ١٣ ﴾ ۔۔۔ سورة مريم
کیا اسے ’شفقت‘ یا ’رحمت لدنی‘ قرار دیا جائے؟

﴿ كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيكَ مِن أَنباءِ ما قَد سَبَقَ ۚ وَقَد ءاتَينـٰكَ مِن لَدُنّا ذِكرً‌ا ٩٩ ﴾ ۔۔۔ سورة طه
کیا اس کا نام ’ذکر لدنی‘ رکھ دیا جائے؟

﴿ وَقالوا إِن نَتَّبِعِ الهُدىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّف مِن أَر‌ضِنا ۚ أَوَلَم نُمَكِّن لَهُم حَرَ‌مًا ءامِنًا يُجبىٰ إِلَيهِ ثَمَرٰ‌تُ كُلِّ شَىءٍ رِ‌زقًا مِن لَدُنّا وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌هُم لا يَعلَمونَ ٥٧ ﴾ ۔۔۔ سورة القصص
کیا اس کا نام ’رزق لدنی‘ رکھ دیا جائے؟

﴿ لَو أَرَ‌دنا أَن نَتَّخِذَ لَهوًا لَاتَّخَذنـٰهُ مِن لَدُنّا إِن كُنّا فـٰعِلينَ ١٧ ﴾ ۔۔۔ سورة الأنبياء
یہ بھی واضح فرمائیے کہ اسے کیا نام دیا جائے؟؟؟

جس آیت کریمہ میں علم سے پہلے لدنا کا لفظ آیا ہے تو اس کے شروع میں رحمت کے ساتھ عندنا کا لفظ بھی آیا ہے:
﴿ فَوَجَدا عَبدًا مِن عِبادِنا ءاتَينـٰهُ رَ‌حمَةً مِن عِندِنا وَعَلَّمنـٰهُ مِن لَدُنّا عِلمًا ٦٥ ﴾ ۔۔۔ سورة الكهف
اگر اسی طرح نام رکھنے ہیں تو کیا خیال ہے اس رحمت کو ’رحمت عندی‘ کا نام نہ دے دیا جائے؟؟؟

محترم اسی لئے عرض کیا تھا، کہ اپنی طرف سے یا متاخر علماء کی بجائے جو بات بھی کریں اسے نبی کریمﷺ یا سلف صالحین﷭ (صحابہ وتابعین وغیرہ) سے ثابت کیجئے!

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
محترم انس انضر صاحب تبحیث در تبحیث سے کچھ نتیجہ برآمد ہونے سے رہا قرآن پاک اور احادیث میں قلب کی صفائی، قلب کا غافل ہونا اور، قلب پر القاء ہونا ،جن کے قلب میں ٹیڑھ ہے وغیرہ کاذکر ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ شیطان انسان کے دوران خون کے ساتھ گردش کرتاہے(إن الشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم، وإني خشيت أن يَقذف في قلوبكما سوءا -أو قال شيئا- ) متفق علیہ ،واللفظ للبخاری
ان سب باتوں کا تعلق انسان کے باطن سے ہی ہے ۔ اس باطن کی اصلاح کے کیا طریقہ ہوسکتے ہیں وہ ذکر اذکار ہیں ہیں اللہ کا نام بھی ذکر ہی ہے احادیث میں بہت سے اذکار مسنونہ کا ذکر ہے اس کی تفصیل میں جانے کی چندہ ضرورت نہیں
اسم اعظم وغیرہ سب اسی میں داخل ہیں البتہ یہاں اتنا اور عرض کردوں یہ تو آپ کا تسلیم ہی ہوگا کہ شیطان انسانی خون کے ساتھ گردش کرتا ہے اس خون کے تزکیہ کے لیے پاس انفاس کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تو انس صاحب اس میں کون سا شرک ہے میری سمجھ سے باہر اور اگرہر چیز کو قرآن و حدیث سے ہی ثابت کیا جائے تو صبح سے شام تک نہ معلوم کتنی باتوں پر عمل کرتے ہیں جن کا بظاہر قرآن وحدیث سے اثبات نہیں ہے لیکن جائز ہیں اس کی تفصیل میں بھی نہیں جاؤں گا،اور جہاں علم لدنی کا تعلق ہے اور یہاں آپ حقائق سے چشم پوشی فرمارہے ہیں آپ کا یہ دعویٰ کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک ہی علم تھا تو وہ پھر کیا ضرورت تھی اس سارے واقعہ کو بیان کرنے کی ۔اور اس سارے وعدے وعید کی جو دونوں حضرات کے درمیان طے پائے اور بھر بار بار عہد شکنی اور حضرت خضر علیہ السلام کا انتباہ کرنا اور پھر مجبوراً تفریق ہونا ۔ اور اس کا کیا مطلب کہ قتل نفس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر خاموش نہ رسکے اور کہہ بیٹھے(قالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا معلوم یہ ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شریعت کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام کو ٹوکا ( یا دوسرے لفظوں میں احتجاج درج کریا اور فرض کو نبھایا) اور پھر حضرت خضر علیہ السلام یاد دہانی فرمارہے ہیں کہ کیا آپ نے خاموش رہنے کا وعدہ نہیں فرمایا تھا ۔ ان ساری باتوں کو کیا کہیں گے کہ ایک چیز کا علم حضرت خضر علیہ السلام کو ہے موسیٰ علیہ السلام کو نہیں ہے ۔ مجھے تو صرف اس علم کے بارے میں معلوم کرنا ہے ۔ لفظوں کے مکڑ جال میں نہ الجھائیں ( لدن کا ترجمہ میں جانتا ہوں) اکابر میں سے امام غزالیؒ نے علم لدنی پر مستقل ایک کتاب لکھی ہے میرے پاس نہیں ہے اگر کسی کے پاس ہو یا فورم کی لائبری میں ہو تو صرف استفادے کے لیے آگاہ فرمادیں یا ڈاؤن لوڈ لنک بتادیں بہرحال میں اس کتاب کو پڑھنا چاہتا ہوں ۔ انس انضرصاحب جب تک پریکٹیکل نہ ہو کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی اس بات کو چاہے جتنا طول دیں لیں حاصل کچھ نہ ہوگا جب تک اس کو قریب آکر نہ دیکھا جائے اگر تزکیہ نفس یا تزکیہ باطن کوئی غلط بات ہوتی تو پھر محدثین اس پر عمل نہ کرتے جیسا کہ اس کے متعلق عاصم کمال صاحب اپنی معلومات کا شئییر فرمارہے ہیں ۔ بہر حال انس انضر صاحب بس میں تو اتنا ہی سمجھتا ہوں اور یہی میرے اور میرے اکابر کے نزدیک صحیح ہے۔ اور آپ کا یہ فرمانا کہ کیا سیدنا خضر علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے علم دیا تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو کہیں اور سے علم دیا تھا؟ یہ بات آپ کی مناسب معلوم نہیں دیتی اس لیے کہ دنیا میں جتنے بھی علوم ہیں وہ منجانب اللہ ہی عنایت ہوتے ہیں ، کوئی مولوی ہوتا ہے کوئی مفتی ہوتا ہے کوئی ڈاکٹر ہوتا ہے تو کوئی انجینئر ہوتا ہے سب کا علم جدا گانہ ہوتا ہے سب منجانب اللہ ہی ہیں ۔ چرندوں پرندوں کا علم الگ ہوتا ہے ۔ یہ تشریح آپ نے خوب فرمائی ۔ بہت بہت شکریہ اگر اسی طرح کے دلائل سے لوگوں کو سمجھائیں گے تو واقعی تمام عالم آپ کے مطابق چلنے لگے گا سبحان اللہ
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
ہمارا طریق وہ ہے جو مولانا ابرھیم میر سیالکوٹیؒ نے سرا جامنیرا میں پیش کیا ہے۔ جو سید عبد اللہ غزنوی ؒ اور سید شاہ اسماعیل شہیدؒ ،شاہ ولی اللہؒ اور مجدد الف ثانیؒ جیسے عارفین پیش کر رہئے ہیں،اس لئے جو اعتراضات آپکو ان کے طریق السلوک پر ہیں ۔وہ پیش کریں۔
السلام علیکم،
مجھے لگتا ہے کہ آپ ک مسلک اہل حدیث کے بارے میں غلط فہمی ہے اور آپ نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ مسلک اہل حدیث مولانا ابراہیم سیالکوٹی، سید عبداللہ غزنوی، شاہ اسماعیل دہلوی یا ان جیسے دیگر بزرگوں کے اقوال و افعال کا نام ہے۔ مجھے انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ آپ اصولی طور پر مسلک اہل حدیث کے بالکل معارض نگارشات پیش فرما رہے ہیں۔
یاد رکھیں کہ کسی بھی مسلک یا مذہب کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور کچھ اس مسلک کے ماننے والوں کے اقوال و افعال۔ اقوال و افعال کو اصولوں کے مطابق پرکھا جاتا ہے نہ کہ اصولوں کو اقوال و افعال کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی مسئلہ کو اہل حدیث کا مسلک ثابت کرنے کے لئے یہ بحث کرنا کہ فلاں بات فلاں اہل حدیث عالم نے بھی کی ہے لہٰذا وہ صحیح ہے، انتہائی نا معقول ہے۔
اہل حدیث کی تو چھوڑیں جن کا مذہب ہی عدم تقلید اور اپنوں کی بھی ہر بات کو دلائل سے پرکھنے کا نام ہے، جو حضرات تقلید کی دن رات دعوت دینے میں مشغول ہیں، انہیں سے گزارش ہے کہ کسی بھی عالم کا نام وہ پیش کر دیں جس کی ہر بات سے وہ متفق ہوں، یہ خادم اسی عالم کے وہ مسائل آپ کے سامنے پیش کر دے گا جس کو آپ ہرگز نہیں مانیں گے۔ بلکہ دور کیوں جانا، یہ جن بزرگوں کے طریق کو آپ اپنا طریق قرار دے رہے ہیں، ان میں سے کسی ایک بزرگ کی نشاندہی کر دیں، میں ان شاء اللہ کوشش کروں گا کہ آپ کو یہ مسئلہ سمجھ آ جائے گا کہ کسی بھی عالم کو اقوال و افعال کو اپنا طریق قرار دینا کتنا مضر ہے؟ الحمدللہ، اسی لئے اہل حدیث امتیوں کے اقوال و افعال کی بجائے امام الانبیاء علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں رضوان اللہ اجمعین کے طریق کو اپنا طریق قرار دیتے ہیں۔ اللہ سمجھنے کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
[][طالب نور;70577]
السلام علیکم،
مجھے لگتا ہے کہ آپ ک مسلک اہل حدیث کے بارے میں غلط فہمی ہے اور آپ نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ مسلک اہل حدیث مولانا ابراہیم سیالکوٹی، سید عبداللہ غزنوی، شاہ اسماعیل دہلوی یا ان جیسے دیگر بزرگوں کے اقوال و افعال کا نام ہے۔ مجھے انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ آپ اصولی طور پر مسلک اہل حدیث کے بالکل معارض نگارشات پیش فرما رہے ہیں۔
طالب نور صاحب مجھے مسلک اہلحدیث کے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں ہاں یہ ضرور ہے اس وقت بہت سارے لوگ موجود ہیں جو اپنا مسلک اہلحدیث بتاتے ضرور ہیں مگر وہ اپنی من مانی تشریات کو ہی دین سمجھتے ہیں ۔ کیا اسلام کی جو تعبیر آپ کریں گے وہ دین ہو گا؟آخر اپکی حثیت کیا ہے ؟
ی
اد رکھیں کہ کسی بھی مسلک یا مذہب کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور کچھ اس مسلک کے ماننے والوں کے اقوال و افعال۔ اقوال و افعال کو اصولوں کے مطابق پرکھا جاتا ہے نہ کہ اصولوں کو اقوال و افعال کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی مسئلہ کو اہل حدیث کا مسلک ثابت کرنے کے لئے یہ بحث کرنا کہ فلاں بات فلاں اہل حدیث عالم نے بھی کی ہے لہٰذا وہ صحیح ہے، انتہائی نا معقول ہے۔
بھائی اصول اللہ اور سکے نبی کی اطاعت ہے اور دین کی تعبیر و تشریح اسلاف کے مقرر کردہ حصولوں کے مطابق ہو جسکو اہلسنت و الجماعت کہا جاتا ہے۔
ا
ہل حدیث کی تو چھوڑیں جن کا مذہب ہی عدم تقلید اور اپنوں کی بھی ہر بات کو دلائل سے پرکھنے کا نام ہے، جو حضرات تقلید کی دن رات دعوت دینے میں مشغول ہیں، انہیں سے گزارش ہے کہ کسی بھی عالم کا نام وہ پیش کر دیں جس کی ہر بات سے وہ متفق ہوں، یہ خادم اسی عالم کے وہ مسائل آپ کے سامنے پیش کر دے گا جس کو آپ ہرگز نہیں مانیں گے۔ بلکہ دور کیوں جانا، یہ جن بزرگوں کے طریق کو آپ اپنا طریق قرار دے رہے ہیں، ان میں سے کسی ایک بزرگ کی نشاندہی کر دیں، میں ان شاء اللہ کوشش کروں گا کہ آپ کو یہ مسئلہ سمجھ آ جائے گا کہ کسی بھی عالم کو اقوال و افعال کو اپنا طریق قرار دینا کتنا مضر ہے؟ الحمدللہ، اسی لئے اہل حدیث امتیوں کے اقوال و افعال کی بجائے امام الانبیاء علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں رضوان اللہ اجمعین کے طریق کو اپنا طریق قرار دیتے ہیں۔ اللہ سمجھنے کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین
۔
میرے بھائی آپ بات کو یا تو سمجھ نہیں رہئے ہیں یا پھر کر جان بوجھ کر اس طرح کر رہئے ہیں
آپ نے یقیناً درس نطامی کیا ہو گا اگر میں آپ یہ کہوں کہ بتائے کس حدیث میں لکھا ہوا کہ اس طرح پڑھنا ہے پہلے گرئمر سیکھنی ہے اور یو بتدریج بڑھتے جانا ہے ،تو آپ کا یقیناً یہی جوابہو گا کہ یہ تو سیکھنے کا طریقہ ہے ،اور اسکا اصل خیرالقرون سے ثابت ہے۔اسی طرح علم سلوک سیکھنے کے بھی کچھ ضوابط و قواعد ہیں جسطرح ظاہری علوم سیکھنےکے لئے درس نطامی یا دیگر کورس ہیں اسیطرح علم سلوک کئلئے بھی نصاب ہے۔
میں آپ سے درخواست کروں گا کہ خدا راہ جس کوآپ جانتے نہیں ہو اس میں تنقیدی دخل کیوں دیتے ہو، میں جلد ہی سید نذیر حسین دہلویؒ کا طریقہ استدال کا مراسلہ بیجھ دوں گا جو کہ کا برین کی رائے کو کس نظر سے دیکھتے تھے،
بھائی جیسا کہ آپ نے بتا یا ہے کہ معیار قران وحدیث ہے تو ذرا آپ مجھے بتا ئے سراجامنیرا " فورم پر موجود ہے اس میں قران کی کیا مخالفت کی گئی ہے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
محترم حافظ انس نضر صاحب آپ کبھی تصوف اور اسلام کے درمیان زمین وآسمان کا فرق بتاتے ہیں اور کبھی شرک و بدعت سے آگے کی گردان کر رہئے ہیں ،آپ کی بات ُپر غور کیا جاسکتا ہے اگر آپ واضح طور پر علما ء اہلحدیث سید نذیر حسین دہلویؒ ،حافظ عبد اللہ روپڑی ،غزنوی اور لکھوی خاندان اور دیگر صوفیاء اہلحدیث وغیرہ جنکا صوفی ہونا میں ثابت کر چکا ہوں آپ جرات کریں ،(اور اگر آپ سچے ہیں اور دوسروں کو اکابر پرست اور مقلد ہونے کے طعنے دیتے ہیں و) تو ان علما پر فتوی دو کہ مشرک اور بدعتی تھے ا،آپ تھریڈ کیوں ڈیلیٹ کرتے ہیں، جواب دے ۔
میر اخیال تھا کہ آپ نے ان حضرات کو مشرک ثابت کرکے ٖ فتوی محدث فورم پر جھومر بن کر لٹک دیاا ہو گا مگر گھبرا کر آپ نے تھریڈ ہی ڈیلیٹ کر دیا کیوں ؟ کیوں بات صوفیاء حناف کی تو فوری مشرک اور بدعتی اور باری صوفیاء اہحدٰث کی ہو تو تھریڈ ڈیلیٹ
یہ دوہرا معیار کیوں؟
کیا یہی قرآن و حدیث سے آپ نے سیکھا ہے ؟
میں نے دو مضمون ( اکابرین اہلحدیث کا احسان و سلوک ) ( علمائے اہلحدیث اور تصوف ) آپ جیسے لوگوں کے لئے لکھے ہیں کہ آپ اصلی اور نقلی تصوف میں فرق کر کے لکھے ،آپ نے صوفیا کو مشرک اور بدعتی سے آگے درجہ دیا ہے آپ مجھے صوفیاء اہلحدیث کے بدعتی اور مشرک ہونے پر دلیل دی جیئے؟؟
عاصم صاحب،
پہلے تو علمائے کرام سے بات کرنے کا طریقہ اور تہذیب سیکھیں۔ شاید آپ کو آپ کے صوفی اساتذہ نے یہی تمیز سکھائی ہوگی کہ بڑوں سے اور علماء سے اس انداز میں بات کریں۔ آپ کے اسی قسم کے انداز گفتگو کی وجہ سے آپ کی پرانی آئی ڈی قریشی کو بین کیا گیا تھا۔ اور اب آپ پھر اسی انداز تکلم پر اتر آئے ہیں جو جہلا کا طرہ امتیاز ہے۔

دوسری بات یہ کہ ہم فقط اس بنیاد پر کسی بھی دھاگے کو موڈریٹ کرتے ہیں کہ اس میں بدتہذیبی اور بدتمیزی کی جائے۔ آپ کے نام نہاد دلائل کا تیا پانچہ انس نضر صاحب اور عمران اسلم صاحب بخوبی کر چکے ہیں۔ گزشتہ پوسٹ میں طالب نور بھائی نے بھی آپ کو اصولی جواب دے دیا ہے۔
لیکن آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ دوسروں کی سنے بغیر ایک ہی بات بار بار اور شدت سے دہراتے چلے جاتے ہیں۔ دوسروں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ہر دھاگے میں آپ کی ایک جیسی پوسٹس کا جواب دیں۔ آپ کی پوسٹس کے اصولی جواب بہت عرصہ قبل ابوالحسن علوی بھائی بھی دے چکے ہیں۔ جو افادہ عام کے لئے اگلی پوسٹ میں دوبارہ آپ کے مطالعہ کے لئے پیش کر رہا ہوں۔


رہی علمائے اہلحدیث پر بدعتی اور مشرک کا فتویٰ لگانے کی بات، تو گزارش ہے کہ ہم ممکن حد تک نظریات کی تردید کرتے ہیں، شخصیات کی نہ تقلید کرتے ہیں اور نہ ان پر بے جا تنقید۔ الا یہ کہ کوئی گروہ ان شخصیات ہی کے کہے کو حرز جان بناتا ہو۔ جبکہ اہلحدیث کا یہ اصول ہی نہیں، لہٰذا آپ صوفیت کو بواسطہ چند شخصیات کے ثابت کرنے کے بجائے براہ راست کتاب و سنت سے ثابت کیجئے اور گزشتہ مراسلوں میں انس نضر اور عمران اسلم صاحبان کےا ٹھائے سوالات کا جواب دیجئے۔ ورنہ ایک ہی بات دہرانے سے گریز کریں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ابوالحسن علوی بھائی کی پوسٹ کا لنک:

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا تصوف کا بارے نقطہ نظر بہت ہی معتدل ہے۔ تصوف کے بارے ذہن میں رکھیں کہ یہ چار ادوار سے گزرا ہے۔ اس کا پہلا دور وہ ہے جس کی ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ حمایت کرتے ہیں یعنی اپنی طبیعت ومزاج میں خشوع وخضوع، تقوی، للہیت، انابت، رجوع الی اللہ، عاجزی، انکساری، تقرب الی اللہ یعنی جملہ اوصاف حسنہ سے اپنے نفس کو مزین کرنا اور جملہ رذائل یا باطنی امراض سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی محنت اور کوشش کرنا۔ اسی معنی میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ، جنید بغدادی وغیرہ کو متصوفین میں بعض لوگ شمار کرتے ہیں۔ یہ تصوف کا وہ دور ہے کہ جس میں تصوف کی باقاعدہ اصطلاح وضع نہیں ہوئی تھی بلکہ آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے نیکی اور نیک بننے کا حد درجہ شوق کرنے والے کچھ لوگ تھے جو زہاد اور صلحاء کہلاتے تھے۔ عصر حاضر میں بعض اہل حدیث اہل علم جو تصوف کی حمایت میں کچھ لکھتے یا نقل کرتے ہیں تو ان کی مراد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ ، حسن بصری، سعید بن مسیب، جنید بغدای رحمہم اللہ جیسے سلف صالحین اور ان کا زہد وتقوی ہوتا ہے نہ کہ آج کل کے مداری۔

دوسرا دور تصوف کا وہ ہے کہ جس میں زہد و تقوی کے نام پر تصوف کے ادارے میں کچھ بدعتی اعمال وافعال اور نظریات کی آمیزش شروع ہو گئی جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب منہاج العابدین اور احیاء العلوم میں اگرچہ بہت ہی خوبصورت نکات، اصلاح نفس کے بہترین طریقوں کی طرف رہنمائی موجود ہے لیکن ساتھ ہی ضعیف وموضوع روایات سے استدلال کی وجہ سے دین کا تصور تزکیہ نفس معتدل نہ رہ سکا۔ مثلا امام غزالی رحمہ اللہ نے اصلاح نفس کے لیے سالک کو جمعہ کی نماز ترک کرنے کی بھی اجازت دے دی۔

تصوف کا تیسرا دور وہ ہے کہ جس میں بدعت سے بھی آگے بڑھتے ہوئے شرکیہ نظریات اور اعمال و افعال کو یونانی فلسفہ و کلچر سے کشید کر کے اسلامی عقیدہ و کلچر کے طور متعارف کروانے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔ ان لوگوں میں شیخ ابن عربی کا نام معروف ہے جو وحدت الوجود کا واضع سمجھا جاتا ہے۔ رومی، شیرازی اور سعدی بھی کسی درجہ میں انہی لوگوں میں سے ہیں۔ اس دور میں تصوف عمل سے زیادہ ایک نظریہ بن گیا اور صوفی کے ہاں اصلاح نفس سے زیادہ اپنے نفس کا مقام متعین کرنا اہم مسئلہ ٹھہرا۔ شیخ ابن عربی سے لے کر شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تک ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ وہ اپنا روحانی مقام متعین کرنے اور اس کی لوگوں کو پہچان کروانے میں بہت حساس ہیں۔ یہ دور وحدت الوجود، وحدت الشہود کی گتھیاں سلجھانے کا دور ہے۔ اور اسی دور میں وحدت الوجود کے فلسفہ کے زیر اثر شرکیہ اعمال و افعال کو تصوف میں داخل کیا گیا۔

چوتھا دور یہ گدیوں اور درباروں دور ہے جہاں تصوف کا ادارہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی، مذہبی استحصال، شریعت سے دوری، جنت کے ٹکٹ بانٹنے، مریدوں کی تعداد میں اضافے، اذیت نفس، شعبدہ بازیوں وغیرہ کا دوسرا نام بن کر رہ گیا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی بحث ان شاء اللہ اپنے ایک مستقل مضمون میں کروں گا۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ تصوف کی اصطلاح استعمال کرنے میں اگرچہ کوئی ممانعت نہیں تھی کیونکہ لا مشاحۃ فی الاصطلاح لیکن اس کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے ساتھ جو لوازمات ملحق ہو چکے ہیں، ان کی وجہ سے اس کو نہ استعمال کرنا ہی بہتر ہے۔ اور تصوف کا جو مقصود ہے یعنی اصلاح نفس تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہے اور اس کے لیے قرآن کی بہترین اصطلاح تزکیہ نفس ہے۔
قد افلح من زکھا۔الشمس
تحقیق اس نے فلاح پائی، جس نے اپنا تزکیہ نفس کیا۔

یہ واضح رہے کہ جب اہل حدیث تصوف کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کا مقصود یہ نہیں ہوتا کہ وہ زہد، تقوی، للہیت، خشیت، اصلاح نفس، اصلاح احوال، اصلاح باطن کے قائل نہیں ہے بلکہ ان کی تردید کا مقصود وہ جملہ بدعی وشرکیہ عقائد اور اعمال وافعال ہوتے ہیں جو تصوف کے ادارے کا بدقسمتی سے ایک جزو لاینفک بن چکے ہیں۔ مثنوی معنوی کو جب قرآن کا مرتبہ دے دیا جائے گا تو رد عمل تو ضرور پیدا ہو گا۔

ہاں متصوفین کو اہل حدیث سے یہ شکایت ضرور ہو سکتی ہے کہ ان کے معاصر اہل علم نے تصوف کے متبادل کے طور پر کتاب و سنت کا تصور تزکیہ نفس اور اصلاح باطن ایک جامع پروگرام کی صورت میں متعارف نہیں کروایا جس وجہ سے متصوفین کو یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ شاید اہلحدیثیت خشکی کا دوسرا نام ہے۔ میرے خیال میں یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ کتاب وسنت کے تصور تزکیہ نفس اور اصلاح احوال کے پروگرام کو ایک مکمل نظریہ کی صورت میں پیش کیا جائے تا کہ اہل حدیث کے بارے یہ بدگمانی ختم ہو سکے کہ وہ اپنی طبیعتوں اور مزاج میں زہد و تقوی سے دور ہوتے ہیں۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
شاکر بھائی آپ نے ہمارے دل کی بات زبان پر لادی اب کیوں کہ آپنے اس کی وضاحت فرما ہی دی تو اشکال نہیں رہا اگر اسی بات کو ہم کہتے اور کسی حد تک کہا بھی ہے تو وہاں لفظی بحث کو چھیڑ دی جاتی ۔ میں عرض کرچکا ہوں ابتداء میں اسلام کی شکل کچھ اور تھی اب خود غرضوں نے اس کی شکل کچھ اور ہی کر دی تو اس کا مطلب یہ نہیں نکالا جا سکتا کہ اسلام غلط ہوگیا ٹھیک اسی طرح اصلاح نفس یا اصلاح باطن کا طریقہ جو شروع اسلام سے چلا آرہا ہے اور اسلامی تعلیمات بی یہی ہیں جیسا آپ نے فرمایا مزید غار حراء اس کا شاہد ہے زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ۔
اب اگر کچھ مفاد پرستوں نے اپنی اغراض کی خاطر اس طریقہ اصلاح کی شکل ہی بگاڑ دی اور ایک بڑی جماعت کو اس سے متنفر کردیا تو اس میں غلطی صالح حضرات کی نہیں، بہر حال اکابر اسلاف نے اس طرف کافی محنت کی ہیں اور اسکے بھی کچھ اصول اور ضابطے مقر فرمائے ہیں جو کتاب وسنت کے مطابق تھے اور ہیں لہٰذا اگر ان اصول کی روشنی میں کتاب و سنت کے مطابق تزکیہ نفس کی طرف توجہ دی جائے تو پھر اس طریقہ تعلیم کو برا نہیں کہا جاسکتا لفظ تصوف پر ہماری ضد بازی نہیں اس کو طریقہ اولیاء بھی کہا جاسکتا ہے اور طریقہ سلوک بھی کہا جا سکتا ہے اور یا طریقت بھی کہا جاسکتا نام رکھنے سے یا نام بدلنے سے کچھ نہیں اصل تو اصول اور تعلیم ہے کہ ان کا منہج کیا ہے اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں تو قابل قبول ہیں نہیں تو مردود ہے ۔جمعہ کا وقت ہے اس لیے زیادہ نہیں لکھ سکتا میں شاکر بھائی کی رایئے سے متفق ہوں فجزاکم اللہ خیرالجزاء
 
Top