- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
میں نے عرض کیا تھا کہ درج بالا آیات کریمہ تزکیہ نفس، اصلاح اور ذکر سے متعلق ہیں۔ آپ نے اس ذکر قلب بھی ثابت کردیا؟ صوفیوں کا مزعومہ ذکر نفس (ذکر قلب) تو ان آیات سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔اتنا تو آپ بھی قبول فرمارہے ہیں کہ مذکورہ امثلہ تزکیہ نفس ،اصلاح اور ذکر سے متعلق ہیں ۔ تو ذکر لسانی بھی موجود ہے اور ذکر نفس (ذکر قلب) بھی موجود ہے۔
علم باطن کی یہ ایک نئی تعریف سنی ہے کہ جو قرآنی تعلیمات پر عمل کرے، اور ان تعلیمات پر عمل کرنے سے اس کا نفس پاک ہوجائے تو ان تعلیمات کو علم باطن کہا جاتا ہے۔ ؟!!اور جو بھی ان مذکورہ تعلیمات پر عمل کرے گا اس کا نفس پاک ہوجائےگا ( تزکٰی) ان تعلیمات کو علم باطن کہا جاتا ہے
مفتی صاحب! علم باطن کی تعریف ریفرنس کے ساتھ کیجئے اور اسے قرآن وسنت سے ثابت کیجئے؟؟
ہمارے نزدیک تصوف وغیرہ میں صرف کچھ شرکیات یا بدعیات ہی غلط نہیں، بلکہ یہ پورا مذہب ہی غلط بنیادوں پر قائم ہے۔ جب آپ تصوف کی تعریف کریں گے تو ان شاء اللہ اسے واضح کر دیا جائے گا۔اس علم کے مختلف نام رکھ لیے گئے کچھ نے بدعتیں داخل کردیں کہیں شرک شامل کردیا گیا تو یہ کھلی بات ہےاسلام اس طرح کی لغو چیزوں کو قبول نہیں کرتا اب اگرکچھ سر پھرے لوگ اس طرح کے غلط طریقہ کو رائج کریں تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوگا کہ یہ طریقہ اصلاح ہی غلط ہوگیا۔ جس طرح سے تصوف یا سلوک کو چند وجوہات کی بنا پر آپ حضرات غلط ٹھہرا رہے ہیں یہ بات تو مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کو اچھا یا برا سمجھتے ہیں ۔اسی طرح سے اگر غیر مسلم یہ کہنے لگیں یا کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات( نعوذباللہ من ذالک ) غلط ہیں تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہوجائے گا کہ اسلام غلط ہوگیا۔
اگر تصوف اصلاح، تزکیہ نفس یا ولایت ہوتا تو آپ کو ہرگز اس لفظ پر اتنا اصرار نہ ہوتا۔ اس لفظ پر اتنے اصرار کا مطلب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اس سے مراد ہی کچھ اور ہے۔
در اصل آپ نے مختلف اصطلاحات کے خود ساختہ نام بنا رکھے ہیں، جن سے مراد بھی آپ نے کچھ اپنی ہی لی ہوئی ہے، قرآن کریم میں علم کے ساتھ من لدنا کا لفظ آیا تو اسے آپ نے ’علم لدنی‘ بنا لیا۔جہاں تک علم لدنی کا معاملہ ہے اگر آپ میرے اس سوال کا جواب مرحمت فرمادیتے کہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس کون سا علم تھا تو شاید یہ مسئلہ حل بھی ہوگیا ہوتا کیونکہ حضرت خضر علیہ السلام کے علم کی نسبت اسی علم کی طرف تھی ۔ اگر آپ یہ فرمائیں کہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے پاس ایک ہی علم تھا تو یہ بات نہ عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ قرآن پاک کا سیاق کلام اس طرف اشارہ کرتا ہے وہ تو کسی دوسرے ہی علم کی طرف اشارہ کرتا ہے جو نبینا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہیں تھا۔
ذرا واضح کر دیجئے کہ ’علم لدنی‘ کیا ہوتا ہے؟
کیا سیدنا خضر علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے علم دیا تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو کہیں اور سے علم دیا تھا؟
محترم بھائی! لدنا کا مطلب ہے ہمارے پاس سے، اللہ تعالیٰ نے سیدنا خضر کو اپنے پاس سے علم دیا تھا جو سیدنا موسیٰ کو نہیں دیا تھا اور جو سیدنا موسیٰ کو اپنے پاس سے دیا تھا وہ سیدنا خضر کو نہیں دیا تھا: وفوق كل ذي علم عليم دونوں کا علم ہی اللہ کے پاس سے (دوسرے لفظوں میں ’علم لدنی‘) تھا، اگر اس سے کوئی اور علم مراد لیا جائے جیسا کہ آپ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں تو پھر یہ صرف صوفیوں کا کارنامہ ہی ہوسکتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنی بدعات اور شرکیات کی دلیل کا سامان مہیا کر سکیں، کیونکہ ان کی لغویات قرآن وحدیث سے تو ہرگز ثابت نہیں ہوتیں۔
اگر آپ کے مزعومہ ’علم لدنی‘ کی دلیل سورۂ کہف میں موجود لفظ لدنا ہے تو قرآن کریم میں اور بھی کئی مقامات پر لدنا کا ذکر آیا ہے، مثلا:
﴿ وَإِذًا لَـٔاتَينـٰهُم مِن لَدُنّا أَجرًا عَظيمًا ٦٧ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
کیا یہاں سے کوئی ’اجر لدنی‘ بھی ثابت ہوتا ہے؟
﴿ وَحَنانًا مِن لَدُنّا وَزَكوٰةً ۖ وَكانَ تَقِيًّا ١٣ ﴾ ۔۔۔ سورة مريم
کیا اسے ’شفقت‘ یا ’رحمت لدنی‘ قرار دیا جائے؟
﴿ كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيكَ مِن أَنباءِ ما قَد سَبَقَ ۚ وَقَد ءاتَينـٰكَ مِن لَدُنّا ذِكرًا ٩٩ ﴾ ۔۔۔ سورة طه
کیا اس کا نام ’ذکر لدنی‘ رکھ دیا جائے؟
﴿ وَقالوا إِن نَتَّبِعِ الهُدىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّف مِن أَرضِنا ۚ أَوَلَم نُمَكِّن لَهُم حَرَمًا ءامِنًا يُجبىٰ إِلَيهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَىءٍ رِزقًا مِن لَدُنّا وَلـٰكِنَّ أَكثَرَهُم لا يَعلَمونَ ٥٧ ﴾ ۔۔۔ سورة القصص
کیا اس کا نام ’رزق لدنی‘ رکھ دیا جائے؟
﴿ لَو أَرَدنا أَن نَتَّخِذَ لَهوًا لَاتَّخَذنـٰهُ مِن لَدُنّا إِن كُنّا فـٰعِلينَ ١٧ ﴾ ۔۔۔ سورة الأنبياء
یہ بھی واضح فرمائیے کہ اسے کیا نام دیا جائے؟؟؟
جس آیت کریمہ میں علم سے پہلے لدنا کا لفظ آیا ہے تو اس کے شروع میں رحمت کے ساتھ عندنا کا لفظ بھی آیا ہے:
﴿ فَوَجَدا عَبدًا مِن عِبادِنا ءاتَينـٰهُ رَحمَةً مِن عِندِنا وَعَلَّمنـٰهُ مِن لَدُنّا عِلمًا ٦٥ ﴾ ۔۔۔ سورة الكهف
اگر اسی طرح نام رکھنے ہیں تو کیا خیال ہے اس رحمت کو ’رحمت عندی‘ کا نام نہ دے دیا جائے؟؟؟
محترم اسی لئے عرض کیا تھا، کہ اپنی طرف سے یا متاخر علماء کی بجائے جو بات بھی کریں اسے نبی کریمﷺ یا سلف صالحین (صحابہ وتابعین وغیرہ) سے ثابت کیجئے!
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!