اب مجھے یہ جاننا ہے کہ دین کے دفاع سے کیا مراد ہے؟ اور مسلک کے دفاع سے بھی کیا مراد ہے؟ شخصیات کے متعلق علم نہ ہونا کیا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ دین کی خدمت نہیں کر رہا؟
دین کے دفاع سے مراد تو آپ جانتے ہیں کہ کفار ،،منافقین ، کے اعتراضات ،شکوک شبہات ، کا جواب دیکر اور دین کے محاسن بیان کرکے دیا جاتا ہے ؛
اور اور اہل بدعت کی دین میں تحریف ،و اضافہ کو رد کر کے دین کا دفاع کیا جاتا ہے ؛
جبکہ علماء کا دفاع بھی دو پہلووں سے بہت ضروری ہے ،،ایک تو۔۔۔ حق بات میں ان کے موقف کی وضاحت اور دلائل کی فراہمی؛
اور دوسرا پہلو ان کے دفاع کا یہ کہ ۔۔وہ دینی لحاظ سے ثقہ ،اور معتبر ہیں ؛
یعنی دین کی تبلیغ میں جھوٹ اور فریب دہی سے پاک ہیں ،علم کے معاملہ میں ’’ امین ‘‘ ہیں
اور علماء کا تو اسلام میں بڑا مقام ہے ۔پیارے نبی ﷺ کی تعلیم تو یہ ہے کہ عام مسلم کا دفاع ،دوسرے مسلم کیلئے بڑا افضل کام ہے
عن ام الدرداء عن ابي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من رد عن عرض اخيه رد الله عن وجهه النار يوم القيامة "
قال: وفي الباب عن اسماء بنت يزيد قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.
(سنن الترمذی :حدیث نمبر: 1931 )قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (431)
ابو الدرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجودگی میں) بچائے،
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں اسماء بنت یزید رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎ : بعض احادیث میں «عن عرض أخيه» کے بعد «بالغيب» کا اضافہ ہے، مفہوم یہ ہے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں اس کا دفاع کرے اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے اس کی بڑی فضیلت ہے، اور اس کا بڑا مقام ہے، اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ رب العالمین اسے جہنم کی آگ سے قیامت کے دن محفوظ رکھے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک ’’زلات ‘‘ یعنی ان کی غلطیوں ،لغرشوں۔یا۔ اجتہادی خطاوں کا تعلق ہے ،(جن سے کوئی مبرا نہیں )تو اہل حق کبھی ان غلطیوں کا دفاع نہیں کرتے ،
لیکن ثقہ عالم کی غلطیوں کی بنا پر اس کی تبدیع، تفسیق ،تضلیل ،بھی نہیں کرتے ۔۔
بس یہی کہتے ہیں کہ وہ چونکہ غیر معصوم بشر تھے ،اسلئے ان سے یہ غلطی ،خطا ہوگئی۔