• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشترکہ خاندانی نظام : نقصانات وحل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
ہمارے سماج میں جوائنٹ فیملی سسٹم (مشترکہ خاندانی نظام) کا رواج ہے ۔ اس سسٹم کےسبب مسلم سماج وسوسائٹی میں ہزاروں مسائل اٹھ کھڑے ہوگئے ہیں جن کا یہاں احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ ان میں سے چند اہم مسائل اور ان کا تدارک پیش کیاجاتاہے۔
(1) ساس و سسر کی خدمت کا مسئلہ
(2) ساس وبہو کے تنازعات
(3) دیور و بھابھی کا رنگین فسانہ
(4) غیرمحرم سے بے پردگی
(5)فیملی ممبرس اور رشتہ داروں کے درمیان ناچاقی
(6) مالی نظام کی گربڑی
(7)والدین کا اولاد کے درمیان عدم مساوات(نتیجہ میں اولاد کی نافرمانی ملتی ہے)
(8) اولاد کی ترقی میں رکاوٹ
(9) صالح معاشرہ کی تشکیل میں رخنہ
(10) سماج پہ برے اثرات(طلاق،غیبت،بے پردگی،خیانت،تنازع،استہزاء،عدم تعاون وغیرہ) کا سبب رئیسی

ان جیسے ہزاروں مسائل نے مسلمانوں کے عائلی نظام کو نہ صرف درہم برہم کررکھاہےبلکہ صالح معاشرے کی بساط ہی الٹ دی ہے ۔ میرے خیال سےجوائنٹ سسٹم کی وجہ برصغیرکا ہندوانہ ماحول ہے جس کے عائلی قانون میں مشترکہ خاندانی نظام پایا جاتا ہے۔
اسلام میں اس سسٹم کی نظیر نہیں ملتی ، اس لئے اسلامی روسے خاندانی اشتراکی سسٹم نہ چلانے میں ہی عائلی مسائل کا حل ، خاندان کے ہرفرد کی بھلائی اور ان سب کی ترقی کا رازمضمر ہے ۔
قرآن و حدیث کے بے شمار دلائل ہمارے جوائنٹ فیملی سسٹم کے خلاف ہیں ۔ چند دلائل ملاحظہ ہوں۔

(1) پردے سے متعلق سارے نصوص اس پہ دلالت کرتے ہیں کہ ہمارا گھریلو نظام الگ الگ ہوتاکہ جہاں خواتین کی عفت وعصمت محفوظ رہے وہیں گھرمیں اخوت سے لیکر عدل وانصاف تک کی میزان قائم رہے۔

(2) اللہ کا فرمان ہے : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ
ۖ (الاحزاب : 33)
ترجمہ : اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو، اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو۔
اس آیت میں عورت کو اپنے گھر یعنی شوہر کے گھر کو لازم پکڑنے کا حکم دیا گیاہے ۔

(3) نبی ﷺ کا فرمان ہے : إياكم والدخولَ على النساءِ . فقال رجلٌ من الأنصارِ : يا رسولَ اللهِ ! أفرأيتَ الحموَ ؟ قال : الحموُ الموتُ(صحيح مسلم:2172)
ترجمہ : اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو، ایک انصاری نے عرض کیا: یا رسول اللہ حمو(دیور) کے بارے میں آپ ﷺکا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ حمو(دیور) تو موت ہے۔
یہ حدیث بتلاتی ہے ایسا عائلی نظام صحیح نہیں ہے جس میں دیور و بھابھی کا اختلاط ہوکیونکہ دیور عائلی نظام کے لئے موت ہے۔

(4) نبی ﷺ کی متعدد ازواج مطہرات تھی جنہیں ایک چولہے پہ جمع کیاجاسکتا تھاکیونکہ ان سب کا شوہر ایک ہی تھا پھر بھی سب کا رہن سہن ،اکل وشرب اور سازوسامان الگ الگ تھا۔
(5) اگر اسلام میں جوائنٹ فیملی کا تصور ہوتا تو گھریلو اعتبار سے سب کے الگ الگ حقوق کا بیان موجود ہوتا جبکہ ہم دیکھتے ہیں اسلام میں ساس ،سسر،بہو،نند،دیور، بھابھی ، جیٹھ وغیرہ کے حقوق کاالگ سے ذکر نہیں ہے۔

(6) اسلام میں شادی کے بعد سے عورت کی کفالت کا ذمہ دار اس کا شوہرہوتا ہے ۔ اس لئے شوہر کے ذمہ ہے بیوی کی رہائش، خوراک اور پوشاک کا بندوبست کرے۔

جوائنٹ فیملی کے کچھ فوائد بھی ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اس سسٹم کی پرزور وکالت کی ہے مگر اس کے نقصانات فوائد پہ غالب ہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا مشترکہ خاندان کے جو نقصانات ہیں ان سے جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتے بھی بچاجاسکتا ہے مگر میرا کہنا ہے کہ جوائنٹ فیملی کے ساتھ کماحقہ اس کے نقصانات سے تو بچنا دشوارکن ہے تاہم منفرد رہ کر سارے لوگوں کے حقوق کی بحالی کماحقہ ممکن ہے گر آد می پابند شرع ہو۔
عرب ممالک میں نئی رہائش کے بغیر شادی کا تصور ہی نہیں پایاجاتا ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نئے مکان کے بغیر شادی نہیں ہوتی مگر پرانے مکان میں ہی سہی جوائنٹ فیملی سسٹم نہ ہو۔ عرب ممالک کے انفرادی نظام سے جہاں ان کے یہاں بھائی بہنوں میں تاحیات الفت ومحبت قائم رہتی ہےوہیں والدین کی نگہداشت کا بھی اعلی نمونہ دیکھنے کو ملتاہےجبکہ ہمارے سماج میں اس کے برعکس ماحول ہے ۔
آخر میں کہنا چاہتاہوں کہ میں واجبی طورپہ الگ الگ رہنے کی بات نہیں کررہاہوں ۔جہاں اسلامی اقداروروایات کو بروئے کار لاتے ہوئے مشترکہ نظام چل سکتا ہے تو مجھے ایسے نظام اور سسٹم پہ اعتراض نہیں ہے مگر جن خاندان میں ناچاقی کی انتہاہوگئی ہو اور بھائی بہنوں سے الگ رہنے والوں کوبڑا مجرم گردانا جاتاہو، حالات کے تئیں الگ ہونے والے کو پنچایتی لوگ زبردستی پھر سے ایک ساتھ رہنے کی قرارداد پاس کرتے ہوں، اس کی خلاف ورزی کرنے والے کا سوشل بائیکاٹ کیاجاتاہومیں اس سسٹم کے سخت خلاف ہوں۔

اللہ تعالی ہمیں کسی کے حق میں ادنی سی پامالی کرنے سے بھی بچائے ۔ آمین
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

آپ نے مضمون تو لکھا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، شائد آپ نیپال سے ہیں اور وہاں کی حکومت بیت المال سے وظیفے بھی دیتی ہو، عرب ممالک میں تو بچوں کو وظیفے ملتے ہیں، اور شادی پر حکومت کی طرف سے بھی شائد مدد ملتی ھے، اس لئے وہاں ایسا کرنا آسان ہے، برطانیہ میں تو پیدائش سے پہلے سے ہی بچہ کے وظیفے شروع ہو جاتے ہوں اور یہاں شادی پر الگ سے رہتے ہیں یہاں بھی ایسا ہوتا ھے اور ممکن بھی ہے، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں حکومت کی طرف سے کسی کی بھی کوئی مدد نہیں ملتی گھر کے انتظار میں بچے کنوارے ہی رہ جائیں گے۔

والسلام
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام علیکم

آپ نے مضمون تو لکھا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، شائد آپ نیپال سے ہیں اور وہاں کی حکومت بیت المال سے وظیفے بھی دیتی ہو، عرب ممالک میں تو بچوں کو وظیفے ملتے ہیں، اور شادی پر حکومت کی طرف سے بھی شائد مدد ملتی ھے، اس لئے وہاں ایسا کرنا آسان ہے، برطانیہ میں تو پیدائش سے پہلے سے ہی بچہ کے وظیفے شروع ہو جاتے ہوں اور یہاں شادی پر الگ سے رہتے ہیں یہاں بھی ایسا ہوتا ھے اور ممکن بھی ہے، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں حکومت کی طرف سے کسی کی بھی کوئی مدد نہیں ملتی گھر کے انتظار میں بچے کنوارے ہی رہ جائیں گے۔

والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اصل میں میرا تعلق ہندوستان ہے اور نیپال سے بھی اتنا ہی ہے جتناکہ ہندوستان سے۔ آپ نے نیپال اور سعودی عرب کی جو بات لکھی ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے ، اورنہ ہی ہندوستان میں ایسی کوئی بات ہے۔ اور میں نے یہ بات کسی ملک میں بچے کی پیدائش پہ وظیفہ ملنے یا نہ ملنے پہ نہیں لکھی ہے بلکہ اسلامی تناظر میں لکھی ہے ۔ ہندوستان ہو یا پاکستان خاندانی نظام انفرادی ہی صحیح ہے خواہ افزائش نسل پہ وظیفہ ملے یا نہ ملے ۔ میں نےمضمون کو اختصار سے لکھا ہے وگرنہ اس سلسلہ میں نصوص کی بہتات ہے ۔
ٍایک نص کی روشنی میں ایک عمومی مثال دیکھیں :
مشترکہ فیملی میں ایک آدمی سرپرست ہوتا ہے وہی سب کی نگرانی وتربیت کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے بیوی بچوں سمیت ہروالد تربیت کے تئیں بے فکرہوجاتاہے جبکہ بچوں کی تربیت اوراپنے گھر کی نگرانی خود آدمی کو کرنا ہے ۔ اس سے متعلق آخرت میں پوچھ ہوگی ۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ألا كُلّكُم راعٍ . وكلّكُم مسئولٌ عن رعيّتهِ .(صحيح مسلم:1829)
ترجمہ: آگاہ رہو تم میں سے ہرایک ذمہ دار ہے اور ہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔
اب دیکھیں گھروالوں کی ذمہ داری کے متعلق قرآن کیا کہتا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم :6)
ترجمہ: اے مومنو! اپنے آپ کو اور اپنی آل اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
دیکھا جاتا ہے کہ جوائنٹ فیملی میں گھرکا ذمہ دار اپنی اولاد کی فکر تو کرلیتا ہے جبکہ دوسروں کے بچوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی ۔ظاہر سی بات ہے اپنی اولاد اپنی ہی ہوتی ہے اور پرائی پرائی ، یہ پرایا پن تعلیم وتربیت کے ساتھ کھانے پینے سے لیکر اٹھنے بیٹھنے ، کھیلنے کھودنے، نہانے دھونے ، سونے جاگنے تک ہے۔ اپنے بچوں کی تربیت( سات سال پہ نمازکا حکم ، دس سال پہ نماز کی عدم پابندی پہ مارنا، اس کا بسترالگ کرنا) وغیرہ والد ہی کرسکتا ہے ۔مشترکہ فیملی سے گھر کے سرپرست کےبچے کو ترقی تو مل جاتی ہے مگردیگربچوں کو نہیں مل پاتی ۔
اس اشتراکی نظام کے جو نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ دو دو چار کی طرح مسلم ہیں۔ نقصانات پہ خامہ فرسائی کی جائے تو ضخیم سے ضخیم ترکتاب تیار ہوجائے گی ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس نظام میں نقصانات ہی نقصانات ہیں ۔ فوائد بھی ہیں مگر فوائد پہ نقصان کا پہلو غالب ہے ۔ اسلامی تعلیم سے جو انفرادی خاندان کا تصورملتاہے ۔ شادی کرنا ، بیوی کا اپنے پیسے سے مہردینا، اپنی کمائی سے روٹی، کپڑااور مکان کا انتظام ، بچوں کی معاشی کفالت ،دینی تعلیم وتربیت وغیرہ یہ سب انفرادی نظام خاندان کے عناصر ہیں۔ ان سے پہلو تہی اختیار کرنے میں نقصان ہی نقصان ہے۔
 
Top