محترم بھائی میں کوئی راسخ العلم عالم تو نہیں جو آپ نے مجھ سے رائے لی ہے البتہ اپنی ناقص معلومات اور اپنی سوچ اور علم کے مطابق آپ کو جواب دیتا ہوں اور ہو سکتا ہے میرا جواب باقی ہمارے علماء بھائیوں سے مختلف ہو مگر میں نہ تو انکے جواب کو رد کرتے ہوئے انکو غلط سمجھتا ہوں اور نہ اپنی تسلی ہونے تک اپنا موقف چھوڑتا ہوں
میرا موقف
میں مشرک کے ذبیحہ کو حرام سمجھتا ہوں اور بے نمازی کے ذبیحہ سے بھی بچتا ہوں کیونکہ دلائل کی روشنی میں مجھے راجح یہی لگتا ہے البتہ یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اکثر نام نہاد بریلوی مشرک نہیں ہوتے البتہ شیعہ اکثر مشرک ہوتے ہیں
دوسری بات یہ جیسے کنعان بھائی نے کہا کہ اس پر عمل کرنا پاکستان میں بہت مشکل ہے تو واقعی یہ بات سو فیصد درست ہے اور موقف کی تبدیلی میں اس کا بھی دخل ہوتا ہے اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ سعودی عرب میں چونکہ شرک کا مسئلہ نہیں ہے اور شریعت بھی نافذ ہے اس لئے وہاں ان پر عمل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا پاکستان میں ہے محترم کنعان بھائی کی بات درست ہے
لیکن میں خالی موقف نہیں رکھتا بلکہ مکمل عمل کرتا ہوں اور اس سلسلے میں میں نے جو پہلی تحقیق کی وہ بھی محترم
@شاہد نذیر بھائی کے ایک تھریڈ کو پڑھ کے ہی کی ہے جس میں اس ذبیحہ کو حرام کہا گیا تھا
پہلے میں اس سلسلے میں عرب علماء وغیرہ کے فتوے رکھتا ہوں پھر جو اشکالات آتے ہیں انکے بارے اپنا موقف رکھتا ہوں
`
1-محدث فتوی
مشرک کے ذبیحہ کا حکم
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 26 November 2013 03:30 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص مشرک کے ذبیحہ کو حلال سمجھے اور اس کے لئے درج زیل آیت سےاستدلال کی کوشش کرے۔
﴿فَكُلوا مِمّا ذُكِرَ اسمُ اللَّهِ عَلَيهِ إِن كُنتُم بِـٔايـتِهِ مُؤمِنينَ ﴿١١٨﴾...سورة الانعام
''تو جس چیز پر (ذبح کے وقت)اللہ کا نام لیا جائے۔اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اسے کھا لیاکرو۔''
اور کہے کہ یہ آیت کریمہ محتاج تفسیر نہیں ہے۔اور کسی کی بات نہ سنے تو کیا وہ کافر ہوگا؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو شخص شرک اکبر کے مرتکب مشرک کے ذبیحہ کو اللہ تعالیٰ ٰ کانام لینے کی وجہ سے حلال قرار دے تو وہ خطا کار ہے لیکن وہ کافر نہیں کیونکہ یہاں یہ شبہ موجود ہے۔کہ شاید وہ اللہ کے نام کی وجہ سے اسے حلال قرار دے رہا ہو۔البتہ مذکورہ آیت سے اس کا استدلال درست نہیں ہے۔کیونکہ آیت کے عموم کو مشرک کے ذبیحہ کی حرمت پر اجماع نے خاص کر دیا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی
2-
س 7 : جو مشرک کے ذبح کردہ جانوروں کو حلال کرتا ہے اور الله تعالى کے اس فرمان کو دلیل بناتا ہے:
ﺳﻮﺟﺲ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﰷ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﮭﺎﻭﺀ ! ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺍﺣﲀﻡ ﭘﺮﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﻛﮭﺘﮯ ﮨﻮ ۔
اور كہتا ہے کہ یہ آیت تفسیر کی محتاج نہیں ہے اور وہ اسی آیت پر قائم ہے اور اس کے بعد کسی کی بات نہیں سنتا تو کیا وہ کافر قرار پائے گا؟
ج 7 : جو شرک اکبر کے مرتکب مشرک کے ذبح کردہ جانوروں پر الله تعالى کے نام کا ذکر کیا تو حلال سمجهنا تو بالكل غلط ہے، لیکن وہ شبہ کی وجہ سے کافر نہیں قرار پائے گا اور اس کے لیے اس آیت میں کوئی حجت نہیں ہے؛ کیونکہ اس آیت کا عمومی حکم بالاتفاق ہے كہ مشرک کے ذبح کردہ جانوروں کی حرمت خاص وواضح ہے، پس جو شخص یہ بیان کرنے پر قادر ہو اور اسے اس کے متعلق پتہ چلے تو وہ اس کی راہنمائی کرے۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلَّم
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
3-
سوال نمبر1: فتوی نمبر: 3008
س 1: میں شمالى رو سرحدوں میں رہنے والے قبیلے سے ہوں ہم اور عراق کے قبیلے آپس میں ملنے جلنے ہوئے ہیں ان کا مذہب شیعہ اور بت پرستی ہے جو گنبدوں کو پوجتے ہیں اور ان کا نام حسن، حسين اورعلي رکھتے ہیں ان کا جب کوئی آدمی کھڑا ہوتا ہے تو يا علی، يا حسين پکارتا ہے اور قبیلوں کے کچھـ لوگوں نے ان سے آپس میں نکاح کرنے پر میل جول کر لیا ہے بہرحال میں نے ان کو نصیحت کی لیکن انہوں نے نہ مانی جب کہ وہ میرے رشتہ دار اور اہل منصب ہیں میں اپنے علم کے اعتبار سے انہیں نصیحت کر چکا ہوں لیکن میں ان کے اس فعل سے نفرت کرتا ہوں اور ان سے میل جول نہیں رکھتا اور میں نے سنا ہے کہ ان کا ذبیحہ نہیں کھانا چاہئے اور یہ لوگ کھاتے ہیں اور نہیں بچتے میں حضرت سے عرض کرتا ہوں کہ مذکورہ حالت میں ہمارے اوپر جو واجب ہوتا ہے اس کی وضاحت کریں؟
ج 1 اگر حقیقت میں ایسا ہے جیسا آپ نے ذکر کیا کہ وہ لوگ حضرت علی، حسن اور حسين اور انہیں کی طرح دوسروں کو پکارتے پہں تو وہ مشرک ہیں شرک اکبر کی وجہ سے اسلام نكل جاتے ہیں تو ان کی مسلمان عورتوں سے شادی کرانا جائز نہیں اور نہ ہی ہم ان کی عورتوں سے شادی کر سکتے ہیں اور ہم ان کے ذبیحے سے كهانا کھاتا حلال نہيں ہيں، الله تعالى نے فرمايا ہے:
ﺍﻭﺭ ﺷﺮﻙ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﺎﻭﻗﺘﯿﻜﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮧ ﻻﺋﯿﮟ ﺗﻢ ﻧﲀﺡ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ، ﺍﯾﻤﺎﻧﺪﺍﺭ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻙ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﺯﺍﺩ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ، ﮔﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﺸﺮﻛﮧ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺷﺮﻙ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﻛﮯ ﻧﲀﺡ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻛﻮ ﺩﻭ ﺟﺐ ﺗﻚ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮧ ﻻﺋﯿﮟ، ﺍﯾﻤﺎﻧﺪﺍﺭ ﻏﻼﻡ ﺁﺯﺍﺩ ﻣﺸﺮﻙ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ، ﮔﻮ ﻣﺸﺮﻙ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﮯ ۔ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺟﮩﻨﻢ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍللہ ﺟﻨﺖ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺨﺸﺶ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻜﻢ ﺳﮯ ﺑﻼﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦﺍﭘﻨﯽ ﺁﯾﺘﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺗﺎﻛﮧ ﻭﮦ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﺮﯾﮟ۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلَّم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی