• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشعال کا قتل، ناحق یا محبت رسول؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یہ مذہبی نہیں سیاسی قتل ہے – عبداللہ فیضی
عبداللہ فیضی

15/04/2017


خود سوچیے کہ آپ روس سے انجینئرنگ مکمل کرنے اور یورپ بھر کے دیگر اداروں میں گھومنے کے بعد پاکستانی یونیورسٹی اور وہ بھی عبدالولی خان جیسی چھوٹی یونیورسٹی سے اپنی فیلڈ چھوڑ کر ”صحافت“ کے چار سالہ کورس کی ڈگری کیوں لینا چاہیں گے؟ بادی النظر میں شاید آپ اپنے شوق سے یا ”کسی“ کے شوق دلانے پر جامعہ سے نظریاتی سوشلسٹ طلبہ کی نئی تحریک/کھیپ تیار کرنا چاہتے ہوں جو پرانے سرخوں (جن کا قبلہ اب امریکہ ہو چکا) کو اصل نظریاتی کارکنوں سے تبدیل کردے۔

آپ کے سوشلسٹ نظریات اور فیسوں وغیرہ پر اصولی مؤقف کی وجہ سے آپ کے اردگرد آپ ہی کے ہم خیال طلبہ کا ہجوم ہونا شروع ہوجائے۔ اب آپ کو اہمیت ملنے لگے، آپ کے انٹرویوز اور کلپس آنے لگیں جن میں آپ یونیورسٹی کی کرپٹ اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والی انتظامیہ کی نااہلی پر گفتگو کر رہے ہوں اور ساتھ ہی پی ایس ایف تنظیم پر تنقید بھی کرتے ہوں کہ یہ لوگ اب اشتراکیت سے دور اور سرمایہ دارانہ نظام کے کاسہ لیس ہوچکے ہیں۔

جامعات میں پڑھنے اور جامعات میں ہونے والی طلبہ سیاست کو ذرا بھر سمجھنے والا بھی فورا اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ اب آپ کرپٹ انتظامیہ اور جامعہ میں موجود واحد طلبہ تنظیم کے سیاسی حریف بننے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں اور اس وقت وہ آپ کو اپنی تنظیم اور بقا کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ لہذا وہ مل کر آپ کے خلاف سب سے آسان اور مہلک پتہ کھیلتے ہیں اور آپ کو آپ کے متنازع خیالات کی وجہ سے توہین کا مجرم قرار دے دیتے ہیں۔

یہ بات حقیقت ہے کہ مقتول ایک پکا نظریاتی سوشلسٹ تھا جو اپنے آزاد افکار و خیالات اور طلبہ مسائل کے حوالے سے مسلسل انتظامیہ اور پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن دونوں کے لیے ہی مستقل درد سر بنا ہوا تھا اور اپنا ایک حلقہ بنانے میں کامیاب بھی ہوچکا تھا۔ لہذا اب فریقین کے مابین بات مقدمہ بازی تک پہنچی ہوئی تھی جس کے ثبوت موجود ہیں۔
خیالات تو جیسے کسی بھی اصلی سوشلسٹ کے مذہب کے بارے ہوتے ہیں ویسے ہی مقتول کے بھی رہے ہوں گے، سو انھیں گستاخی کا رنگ دینا پی ایس ایف کے جوانوں کے لیے چنداں مشکل نہ تھا، خصوصا جب مذہبی رنگ دینے والے خود ہی سیکولز اور لبرلز ہوں، گویا انہیں تو ایک تیر سے دو شکار مل گئے کہ سیاسی مخالف بھی مرا اور مذہب بھی بدنام ہوا۔

اس حوالے سے مذہبی لوگوں کے کرنے کا کام:
1- اویں (یعنی بلاوجہ) جذباتی ہو کر قاتلین کا دفاع نہ کریں بلکہ ان کے خلاف نام لے کر مہم چلائیں کہ پی ایس ایف کے غنڈوں نے سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک طالب علم قتل کر دیا، اگر مذہبی لوگوں سے گملہ بھی ٹوٹے تو میڈیا میں نام لے کر سپیشل پیکیجز اور ٹاک شوز ہوتے ہیں۔
2- قانون توہین رسالت کے معاملے میں بجائے ڈیفنسو ہونے یا ریکشن میں آنے کے، اعتدال کے ساتھ کھل کر یہ کہیں کہ اس کا سیاسی اور انتقامی استمعال بند ہونا چاہیے اور جرم کی عدالتی جانچ اور سماعت تیز۔
3- پنجاب اسمبلی، سینٹ، قومی اسمبلی اور پختون خواہ میں مذہبی جماعتیں خود آگے بڑھ کر مذمتی قرارداد پیش کریں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ آپ جنونی نہیں بلکہ جنونی تو سیکولرز اور لبرلز ہیں اور اس کے ساتھ ہی قانون توہین رسالت کے سیاسی اور انتقامی استمعال کے سد باب کے لیے جھوٹے الزام پر سزا کا مطالبہ کریں۔

خالص سیاسی قتل کی یہ واردات ثابت کرتی ہے کہ مذہب کا استمعال صرف مذہبی لوگوں تک محدود نہیں بلکہ ہمارے لبرل اور سیکولر احباب بھی اس بہتی گنگا سے بوقت ضرورت ہاتھ دھونے سے نہیں ہچکچاتے۔ رہی بات کہ لبرل اور سیکولرز، مذہبی لوگوں کے مقابلے میں امن پسند ہوتے ہیں، تو یہ بات صرف بات ہی ہے، ان کی امن پسندی کا خمیازہ آج پوری دنیا جنگوں کی صورت میں بھگت رہی ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کانوں کے کچے –

عامر ملک




آپ نے یہ محاورہ ضرور سنا ہوگا کہ فلاں شخص ”کانوں کا کچا“ ہے۔ کبھی غور کیا کہ کانوں کے کچے لوگوں سے کہاں واسطہ پڑتا ہے؟ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے بہت قریب ایسے لوگ ہوں اور خدانخواستہ آپ کے گھر میں بھی ہوں۔ بہت قریبی رشتوں میں بھی آپ کو یہ کمزوری نظر آئے گی۔کسی سے بھی غلط طور پر کوئی بات منسوب ہو، لمحوں میں اُس پر یقین کرلیا جاتا ہے۔ دفتر میں بھی ”پر کا کوّا“ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مجمع میں بس ایک آواز اٹھ جائے تو پھر سانحہ سیالکوٹ رونما ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ چور کی سزا تو صرف ہاتھ کاٹنا ہے لیکن لوگ اسے جلا کر اپنے تئیں خوب انصاف کرتے ہیں۔

المیہ یہ ہےکہ آج بھائی بھائی سے بدگمان ہے۔ ایک گھر میں، ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے، ایک دوسرے کی فطرت سے آشنا اور مزاج سے شناسا ہونے کے باوجودکوئی نہ کوئی بدگمانی دلوں میں موجود ہے اور تصدیق نہ کرنے کی قبیح عادت بھی ہے۔ حالانکہ ہمارے لیے قرآن مجید میں براہ راست حکم ہے اچھا گمان رکھنے کے لیے۔ ہمیں انصاف اور عدل کا حکم دیا گیا ہے اور انصاف یہ ہے کہ تصدیق کا اعلا ترین معیار اپنایا جائے گا، چاہے واقعہ چھوٹا ہو یا برا۔ یہ رویہ ایک گھر سے لے کر پورے سماج تک میں بالکل یکساں ہوگا اور کسی خرابی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے محرک کا اندازہ غیر جذباتی ہوکر بالکل ٹھیک ٹھیک لگایا جائے۔

اجتماعی رویے دہائیوں میں خراب ہوتے ہیں، اس لیے انہیں ٹھیک ہونے میں وقت بھی لگتا ہے لیکن وہ بھی تب لگے گا جب اسے ٹھیک کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوگا۔ لیکن جس شدت سے بدگمانی ہمارا قومی مزاج بن گئی ہے، یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا عامۃ الناس خود اپنی یہ عادت بدل سکیں گے؟ اسے ٹھیک تو ریاست ہی کو کرنا ہوگا لیکن اس کو بھی سب سے پہلے اپنے دوہرے معیار چھوڑنا ہوں گے اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا جو ویسے بھی ایک ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

یہ دوہرا معیار کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ ریاست کسی بھی جرم میں اثر ورسوخ والے کو چھوڑ دے اور کمزور کو پکڑ لے ۔ بیرونی دباؤ کی وجہ سے انصاف نہ کرے، شاتم کو بھگادے اور اسے مارنے والے کو لٹکادے۔ ملک کا آئین اسلامی ہونے کا دعویٰ ہو لیکن علانیہ سود کا مطلب بدل کر اسے ضروری قرار دے۔ یہ دوہرا معیار ہی ہر سطح پر ٹکراؤ اور تصادم کی فضا کو جنم دے گا۔

اس ماحول میں ایک طرف خود کو سیکولرز اور لبرلز کہلوانے والے ہیں جن کا مذہب بظاہر تو انسانیت ہے لیکن ان کا طریقہ واردات ملاحظہ کیجیے۔ یہ اپنے پیچھے چلنے والے کچے ذہنوں پر ایسے اثر انداز ہوتے ہیں کہ بندہ ہر حد سے گزرنے لگتا ہے اور علانیہ اپنے خیالات کا اظہار کرکے بڑھتے بڑھتے گستاخی کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ خود یہ حضرات، اور خواتین، چھوٹی چھوٹی شرلیوں تک محدود رہتے ہیں اور اپنی گردن بچاتے ہوئے اسے پھندا متاثرین کی گردن میں فٹ کروا کر دم لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ بندہ بچانا چاہتے تو اسے گستاخی کا موقع ہی نہ دیتے۔ ان کا تو مقصد ہی اس صورت میں پورا ہوتا ہے جب کوئی اشتعال میں آ کر بندہ مار دے۔ تب انہیں دھول اڑانے اور دین کے خلاف بات کرنے کا موقع ملے اور یہی ان کا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ دوہرا معیار تب کھلتا ہے جب کوئی ایاز نظامی جیسا قانون کی گرفت میں آ جائے تو پھر قانون کے مطابق تحقیق کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی سزا ہونے دیتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار ٹکراؤ کی فضا تو بنائے گا ہی۔

کچھ عرصے پہلے تک لوگوں کا خیال ہوگا کہ توہین رسالت ﷺ پر جذباتی ہونے اور شاتم کو سزا دینے والوں کا تعلق اسلام پسندوں، مدارس کے طلبا اور کسی خاص مسلک سے ہوتا ہے۔مگر ایسا ہے نہیں۔ عامر چیمہ ایک عام نوجوان تھا، کلین شیو، ممتاز قادری کا تعلق قانون نافذ کرنے والے ادارے سے تھا، اور وہ بھی پرامن بریلوی مسلک سے تھا۔ اب مردان یونیورسٹی میں بھی مدارس کے طلبہ نہیں تھے، عام لوگ بھی نہیں تھے بلکہ باچاخان کے “نظریہ عدم تشدد” کے پیرو اور مختلف مسالک کے لوگ تھے۔

اگر اب بھی ریاست دوہرا معیار نہیں چھوڑتی، اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتی تو خدانخواستہ ٹکراؤ کی اس فضا میں اور شدت آئے گی اور لبرلز اور سیکولرز کو یہی نتائج درکار ہیں۔ اس ٹکراؤ کی نشاندہی خود اعلیٰ عدلیہ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی کر رہے ہیں۔ اب ریاست اپنی ذمہ داری ادا کرتی ہے تو اسکول، کالج اور مدارس و علما کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔ نئی نسل کی تربیت کرنا ہوگی، اچھا گمان اور تصدیق کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ رواداری سکھانی ہوگی۔ یہ بھی سکھانا ہوگا کہ اچھے رویے اور اخلاق سے کیسے دل جیتا جاتا ہے، کیسے دلوں کو موم کیا جاتا ہے۔ فرد ہو یا سماج یا پھر ہجوم، ان سب کی اکائی فرد ہی ہے۔ فرد کو تبدیل کریں آپ کو سماج بدلا ہوا محسوس ہوگا۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
طالبعلم کا قتل، رجسٹرارکے 2 نوٹی فیکیشنز نے یونیورسٹی کا کردار مشکوک بنا دیا

ہفتہ 15 اپريل 2017

اسسٹنٹ رجسٹرار نے 14 اپریل کو رات گئے ویب سائٹ سے پہلا نوٹی فکیشن ہٹا کر دوسرا جاری کیا۔

مردان: توہین مذہب کے الزام پر ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالبعلم مشعال خان سے متعلق یونیورسٹی کی جانب سے جاری ہونے والے 2 نوٹی فکیشنز نے یونیورسٹی کے کردار کو مشکوک بنا دیا ہے۔

مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے مشعال خان سمیت 3 طلبا کے بارے میں پہلا نوٹی فکیشن 13 اپریل کو جاری کیا جس دن مشعال کو قتل کیا گیا۔ نوٹی فکیشن میں مشعال خان سمیت تینوں طلباء پر توہین مذہب کے الزام کا ذکر کیا گیا جس کے بعد ایک ہجوم نے مشعال خان کو بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اسسٹنٹ رجسٹرار نے 14 اپریل کو رات گئے پہلا نوٹی فکیشن ہٹا کر دوسرا جاری کیا جس میں مشعال خان کو مرحوم ظاہر کیا گیا ہے۔

یونیورسٹی کی جانب سے دو نوٹی فکیشنز کے بعد یونیورسٹی کا کردار مشکوک ہو گیا ہے اور کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں، اگر نوٹی فکیشن مشعال کے قتل سے پہلے جاری ہوا تو کیا طلباء اسے دیکھ کر مشتعل ہوئے یا اگر نوٹی فکیشن قتل کے بعد جاری ہوا تو کیا یونیورسٹی معاملے کو کوئی اور رنگ دینا چاہتی ہے۔

دوسری جانب مشعال کے قتل کا مقدمہ ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، لاش کی بے حرمتی اور اعانت جرم کی دفعات شامل کی گئی ہیں جب کہ ایف آئی آر میں 20 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے جس میں سے 9 کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ گرفتار ملزمان میں یونیورسٹی کے 4 ملازم، طالب علم اور تحصیل کونسلر بھی شامل ہے۔ ادھر وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس نے مشعال کو بچانے کی کوشش کی لیکن ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی۔

ح
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ﴿٦٩﴾ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٠﴾ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّـهِ مَتَابًا ﴿٧١(25-الفرقان:68-71)
اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وه بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وه زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وه اپنے اوپر سخت وبال ﻻئے گا (68) اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وه ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا (69) سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے (70) اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وه تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے (71)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یہ اچانک سپریم کورٹ کا نوٹس لینا،
وزیراعظم کا سخت بیان،
میڈیا کی وضاحتیں،
بے دین لبرلز کا اچھلنا کودنا،
مغربی میڈیا کی فُل کوریج،
ملالہ کا بولنا

کیا آپ سمجھتے ہیں یہ " ظالمانہ قتل " کے خلاف ہے!

ہرگز نہیں، ورنہ پاکستان میں روزانہ سینکڑوں مظلوم قتل کر دیئے جاتے ہیں، کہیں دہشتگردوں کے ہاتھوں، کہیں پولیس گردی کے سبب تو کہیں لوکل بدمعاشوں کے ہاتھوں۔تب نہ تو کوئی سوموٹو ایکشن لیتا ہے نہ نوٹس ؛

دراصل یہ دو کیمپوں کے تصادم ہے۔

اسلام پسند
اسلام بیزار

اس کو رنگ مختلف دیئے جاتے ہیں۔

#بشکریہ : ملک راشد یعقوب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
زرا ٹھنڈےدل و دماغ سے پوری پوسٹ پڑھیں، اور اس واقعہ کے اصل ذمہ دار کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ۔
۔یہ واقعہ صحیح تھا یا غلط ،اس بحث میں پڑے بغیر
جس طرح یہ لوگ اس کو مار رہے ہیں اس سے مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی ذاتیات یا سیاسیی مخالفت کا نتیجہ ہے ۔ لوگوں کا اتنا جوش و خروش، غصہ ، نعرہِ تکبیر کی صداوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ غیرت ِ ایمانی میں مار رہے ہیں۔۔ ۔واللہ اعلم
باقی ان لوگوں کے قانون کو ہاتھ میں لینے پر چیخنے چلانے سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ جا کے عدالت میں بیٹھے ان شریف لوگوں پر گرفت کی جائے جو گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کاروائی نہیں کرتے ۔ ۔ کیا آسیہ مسیح کو پھانسی پر لٹکا دیا ؟ ؟ ؟کیا حالیہ جو بلاگرز پکڑے گئے تھے،کیا عدالت نے انہیں سزا دی؟ ؟ ؟ لٹکایا کسی کو؟کتنے واقعات ہیں ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ،کے جن میں مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہو ؟دہشت گردی کی تعریف صرف حکومت کے خلاف کچھ کرنے والوں پر صادق آتی ہے؟
جب عدالت کا دروازہ انصاف نہیں دے گا تو لوگ قانون خود اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ ۔ ۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ عدالت کے خلاف تو کوئی کچھ بول نہیں سکتا """توہینِ عدالت"""" کے جرم میں پکڑے جانے کی وجہ سے، لیکن ان عوام کو کوسنے پر چونکہ کوئی گرفت نہیں اس لیے ان پر سارا غصہ نکالا جائے گا۔ ۔ ۔ حالانکہ سمجھنا چاہیے کہ جیسے ہمارے ملک کے قانون میں """توہینِ عدالت اور توہینِ افواج َ پاکستان """"" ایک جرم ہے تو اس سے کہیں زیادہ بڑا جرم """"توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہے"""""تو جیسے توہینِ عدالت برداشت نہیں ویسے ہی ایک مومن کو توہینِ رسالت برداشت نہیں۔ ۔
یہ بات اب قانون نافذ کرنے والوں کو سمجھ لینی چاہیے۔ ۔ ۔قانون ایسے بندوں کے خلاف کاروائی کرتا تو آج عوام قانون اپنے ہاتھ میں نہ لیتی۔ ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
مردان کی یونیورسٹی میں طالب علم مشال خان کا قتل سفاکیت کی انتہا ہے، مشال خان کے قتل کے معاملے میں مذہب کا غلط استعمال کیا گیا۔


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
توہین رسالت ...ایک پہلو یہ بھی ہے
....
یہ روز سیاہ خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے .....
------ توہین رسالت کے معاملے کو ہمارے بعض "مذہبی" دوستوں نے خراب کیا ہے.. ممکن ہے کوئی دوست کہے کہ یہ وقت اس بات کا نہیں ..لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ بات پہلے ہی بہت تاخیر سے ہو رہی ہے ..جو سنجیدہ مذہبی قوتیں ہیں ..گو آج بھی وہ سنجیدہ نہیں آپ ہر مسلک کی "سواد اعظم" جماعتیں کہہ لیں یعنی بڑی جماعتیں ...
جی ہاں ! ان جماعتوں کو یہ کام بہت پہلے کرنا چاہیے تھا کہ طے کیا جائے کہ توہین رسالت ہے کیا ، اور کیا نہیں اور کیا عقائد کا فرق بھی توھین میں آتا ؟ ؟؟ -
آپ حیران ہوں گے کہ اسلامی دنیا میں توہین رسالت کے سب سے زیادہ مقدمات پاکستان میں قائم ہیں ..اور دوسرے اسلامی ممالک سے ان مقدمات کی شرح اس قدر فرق ہے کہ ایسے لگتا ہے کہ ہمارے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توھین ( معاذ اللہ ) ایک معمول کا حصہ ہے ...لیکن عملی صورت ایسی نہیں ہے کیونکہ ان میں سے بیشترمقدمات ان افراد پر قائم کیے گئے جو اپنے اپنے مسلک میں راسخ العقیدہ تھے ...
میں ایک سے زیادہ افراد کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو با عمل مسلمان تھے .. لیکن ان الزامات کا شکار ہوۓ اور ان کی زندگی اجیرن ہو گئی -
ایک بزرگ جنوبی پنجاب کے تھے وہ مسجد میں لگتے اترتے اشتہارات اور کچھ پرانے رسائل اور پھٹے پرانے اوراق کا پلندہ جلا رہے تھے ..ایک مخالف مسلک کے آدمی نے دیکھ لیا اور "قران جلا دیا " کا شور برپا کر دیا ..لوگ اکٹھے ہوۓ اور ان بابا جی کو جو مسجد میں آذان دیتے تھے ، توہین قران کے الزام میں مار مار کے قتل کر دیا ..اسی طرح گجرات کے ایک خطیب تھے جنہوں نے منبر پر نبی کریم کو "بشر" کہہ دیا ..جب کہ دوست آپ کو " نور" کہتے ہیں .. بس توہین کا الزام لگا اور مقدمات شروع ہو گئے ..کئی برس جیل میں گزرے ، " انصاف " کے حصول میں لاکھوں روپیہ لگ گیا - بری ہو کر آئے ، ایک روز سر راہ بیٹھے تھے کہ ایک "مجاہد " آیا اور " جہادی حملے " میں مولانا مارے گئے - بہتر تھا جیل میں رہتے محفوظ تو تھے -
ایک بزرگ کی دکان پر میلاد کا اشتہار لگا تھا ، اور جان بوجھ کے لگایا گیا تھا کہ عقیدے کے وہابی تھے - وہ صبح دم دکان پر آئے ، انہوں نے دیکھا تو اتار دیا - لگانے والے نظر جمائے بیٹھے تھے ، ہنگامہ ہوا اور بابا جی اور ساتھ میں جوان پوتا قتل ہو گیا - ہمارے اردو بازار کے ہمسائے تھے - شریف النفس آدمی ، کبھی کسی کو دکھ نہ دیا ہمارے ساتھ کبھی کبھی نماز میں شریک ہوتے ،اسلامی کتب کے پبلشر تھے ایک روز توہین کا الزام لگا جان بچانے کو ملک چھوڑ گئے ، بھر پرا گھر برباد ہو گیا ، جما جمایا کاروبار تباہ ہو گیا اور اب پار پردیس بیٹھے ہیں -
آپ حیران ہوں گے کہ ان مقدمات کی کثیر تعداد مسلمانوں پر قائم ہے ...اور بد قسمتی کی بات ہے کہ مقدمے کے مدعی عمومی طور پر ایک ہی سوچ اور گروہ کے مسلمان افراد ہیں - آپ بھول گئے ہوں گے کہ جب ممتاز قادری کو پھانسی ہوئی تو اہل حدیث ، دیوبندی ، جماعت اسلامی کے افراد نے بھرپور مظاہرے کیے ، احتجاج کیا لیکن "یاروں " نے پھر بھی کہا "لو گستاخ " بھی آئے ہیں -
اندازہ کیجئے کہ ایک بڑا گروہ دوسرے کے نزدیک گستاخ رسول ہے - اب آپ کہیں کہ یہ موقع نہیں تھا اس بات کا ، اب یک سو ہونے کا وقت ہے - لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ وقت کیوں آیا کہ بلاگرز نے بد ترین گستاخیاں کیں اور محفوظ طور پر ملک سے نکل گئے اور گستاخیاں بھی ایسی کہ شائد سلمان رشدی ، تسلیمہ نسرین نے بھی کم کی ہوں (نعوذ باللہ )-
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس قانون کو خود مذاق بنا دیا ہے - مشرف دور میں قانون میں تبدیلی کی بات ہوئی تو مذہبی جماعتیں باہر نکل آئیں - مجھے یاد ہے کہ میں نے ذاتی طور پر کئی لیڈران گرامی کے ترلے کیے کہ قانون کے لاگو کرنے کی صورتوں پر ضرور بات کیجئے - عقائد کے فرق کی بات کیجئے - یہ بات کی جائے کہ الزام محض جھوٹ اور بد نیتی کی بنیاد پر لگایا جانا ثابت ہو جائے تو الزام کنندہ پر جوابی توہین کا مقدمہ درج کیا جائے کہ اس نے رسول کی ذات کو اپنے مذموم مقصد کے لیے استعمال کیا - لیکن ہمارے مقتدر حضرات نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا اور آج نتیجہ یہ نکلا کہ ہجوم نے ان معاملات کو " سنجیدگی " سے لے لیا - بلاگرز کو بھگا دیا گیا ، لیکن عوامی دباؤ کے تحت ایک مرکزی ملزم "ایاز نظامی " کو گرفتار کر لیا گیا - اس پر شور ابھی چل رہا تھا کہ مردان میں مشال کے قتل کا واقعہ پیش آ گیا ، جہاں فیصلہ پھر "ہجوم " نے ہی کیا ، عدالت عالیہ کے فرائض اسی نے انجام دئیے ، اور ہجوم کا فیصلہ تو ایسا ہی ہوتا ہے -
اس تمام معاملے میں سازش کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا - وہ یوں کہ اہلیان مغرب کی نگاہوں میں عرصے سے یہ قانون کھٹک رہا تھا اور ان کی طرف سے کئی بار کوشش ہو چکی تھی کہ اس کو ختم کیا جائے - اسی طرح بہت سے شواہد سامنے آئے کہ اس منظم طور پر توہین کے پیچھے فنڈنگ بھی ہے اور یہ کن کی ہے کوئی راز کی بات نہیں - ایسے میں جب "ان " کے مقامی مہروں کے گرد شکنجہ کسا گیا ، گرفتاریاں ہوئیں ، تو ایک آدھ "لاش " کا مل جانا ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا ہے -ان کا رکھیل میڈیا اب دفاعی سے جارحانہ پوزیشن میں آ گیا ہے - قانون توہین کے لتے لیے جا رہے ہیں مولوی اور داڑھی کو کھلی گالیاں دی جا رہی ہیں - لبرل اور مذھب بیزار انکرز کھلے طور پر نفرت کی نئی فصل کاشت کر رہے ہیں - تو اس پس منظر میں ، کیا فرض نہیں کیا جا سکتا کہ اس لاش کو محنت سے "حاصل " کیا گیا ہے - اور جب مارنے والے بھی کوئی معروف مذہبی افراد نہیں بلکہ ایک لبرل جماعت کے کارکن ہیں -
لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ عام عوام . گلیوں میں ، بازاروں میں ..اس معاملے سے لاتعلق ہیں - سبب کیا ہے ؟
سبب یہی ہے کہ ایک گروہ نے اپنے عقائد کی بنا پر گستاخی کے فتوے لگا لگا کر عوام کو بے زار کر دیا - جو فیس بک پر نہیں جاتے ، وہ شائد ابھی بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہو گا کوئی "مولویوں کا سٹنٹ " - شائد ابھی بھی وقت ہے کہ یہ گروہ اپنے معاملات کی زمام کار سنجیدہ علماء کے ہاتھ میں دے - اور کم علم افراد سے جان چھڑائے -
"مار لو جانے نہ پائے " کا ہنگام ختم کریں ، سنجیدہ اور علمی جدوجہد کریں - اصلی مجرموں کی طرف دھیان دیں - الحمد للہ مجھ کو یہ افتخار حاصل ہے کہ میں نے ایک نہیں تین شاندار کتب اس مسلے پر شائع کیں ..جن میں نمایاں ترین شیخ السلام ابن تیمیہ کی معرکہ الآرا کتاب "الصارم المسلول" بھی شامل ہے- تو دوستو ! علمی وقت کا کام ہے اور سنجیدگی کی ضرورت -
اللہ سے دعا ہے کہ اب بھی ہمارے مذہبی احباب کو اس مسلے کی سنگینی کو سمجھنے کی توفیق دے
..............صلی اللہ علیہ وسلم .............
.....
** پرانی تحریر ، کچھ اضافہ کیا گیا ہے آج کے حالات کے مطابق
ابوبکر قدوسی
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال کے خلاف بیان کے لیے دباﺅ ڈالا، میں نے انکار کیا تو ۔۔۔“
مشال کے ساتھ طالب علموں کے تشدد کا نشانہ بننے والے عبداللہ نے اصل بات بتا دی ،
17 اپریل 2017

مردان (ڈیلی پاکستان آن لائن ) مردان میں توہین مذہب کے جھوٹے الزام کے بعد قتل ہونے والے مشال خان کے کیس میں نئے انکشافات سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے، مشال کے ساتھ مشتعل طالب علموں کے تشدد کا نشانہ بننے والے لڑکے عبداللہ نے بتایا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کو مشال کے خلا ف بیان دینے کے لیے کہا جس پر انکا ر کیا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے تین لڑکوں کے خلاف نوٹی فیکیشن جاری کر کے طلباء کو مشتعل کیا ۔


نجی نیوز چینل جیو نیوز کے مطابق عبداللہ نے پولیس کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ میں نے اور مشال نے کبھی بھی توہین مذہب نہیں کیا۔ اس نے بتا یا کہ 13 اپریل کو یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے چیئر مین نے مجھے بلایا اور مشال خان کے خلاف بیان دینے کو کہا جس پر میں نے انکار کر دیا۔ عبد اللہ نے کہا کہ میرے انکار کے فوری بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ہم تین لڑکوں کے خلاف نوٹی فیکیشن جاری کر دیا اور طلباء کو اشتعال دلایا۔ ذرائع کے مطابق عبداللہ ابھی پولیس کی حفاظتی تحویل میں ہے ۔

ح
 
Top