محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
یہ مذہبی نہیں سیاسی قتل ہے – عبداللہ فیضی
عبداللہ فیضی
15/04/2017
خود سوچیے کہ آپ روس سے انجینئرنگ مکمل کرنے اور یورپ بھر کے دیگر اداروں میں گھومنے کے بعد پاکستانی یونیورسٹی اور وہ بھی عبدالولی خان جیسی چھوٹی یونیورسٹی سے اپنی فیلڈ چھوڑ کر ”صحافت“ کے چار سالہ کورس کی ڈگری کیوں لینا چاہیں گے؟ بادی النظر میں شاید آپ اپنے شوق سے یا ”کسی“ کے شوق دلانے پر جامعہ سے نظریاتی سوشلسٹ طلبہ کی نئی تحریک/کھیپ تیار کرنا چاہتے ہوں جو پرانے سرخوں (جن کا قبلہ اب امریکہ ہو چکا) کو اصل نظریاتی کارکنوں سے تبدیل کردے۔
آپ کے سوشلسٹ نظریات اور فیسوں وغیرہ پر اصولی مؤقف کی وجہ سے آپ کے اردگرد آپ ہی کے ہم خیال طلبہ کا ہجوم ہونا شروع ہوجائے۔ اب آپ کو اہمیت ملنے لگے، آپ کے انٹرویوز اور کلپس آنے لگیں جن میں آپ یونیورسٹی کی کرپٹ اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والی انتظامیہ کی نااہلی پر گفتگو کر رہے ہوں اور ساتھ ہی پی ایس ایف تنظیم پر تنقید بھی کرتے ہوں کہ یہ لوگ اب اشتراکیت سے دور اور سرمایہ دارانہ نظام کے کاسہ لیس ہوچکے ہیں۔
جامعات میں پڑھنے اور جامعات میں ہونے والی طلبہ سیاست کو ذرا بھر سمجھنے والا بھی فورا اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ اب آپ کرپٹ انتظامیہ اور جامعہ میں موجود واحد طلبہ تنظیم کے سیاسی حریف بننے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں اور اس وقت وہ آپ کو اپنی تنظیم اور بقا کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ لہذا وہ مل کر آپ کے خلاف سب سے آسان اور مہلک پتہ کھیلتے ہیں اور آپ کو آپ کے متنازع خیالات کی وجہ سے توہین کا مجرم قرار دے دیتے ہیں۔
یہ بات حقیقت ہے کہ مقتول ایک پکا نظریاتی سوشلسٹ تھا جو اپنے آزاد افکار و خیالات اور طلبہ مسائل کے حوالے سے مسلسل انتظامیہ اور پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن دونوں کے لیے ہی مستقل درد سر بنا ہوا تھا اور اپنا ایک حلقہ بنانے میں کامیاب بھی ہوچکا تھا۔ لہذا اب فریقین کے مابین بات مقدمہ بازی تک پہنچی ہوئی تھی جس کے ثبوت موجود ہیں۔
خیالات تو جیسے کسی بھی اصلی سوشلسٹ کے مذہب کے بارے ہوتے ہیں ویسے ہی مقتول کے بھی رہے ہوں گے، سو انھیں گستاخی کا رنگ دینا پی ایس ایف کے جوانوں کے لیے چنداں مشکل نہ تھا، خصوصا جب مذہبی رنگ دینے والے خود ہی سیکولز اور لبرلز ہوں، گویا انہیں تو ایک تیر سے دو شکار مل گئے کہ سیاسی مخالف بھی مرا اور مذہب بھی بدنام ہوا۔
اس حوالے سے مذہبی لوگوں کے کرنے کا کام:
1- اویں (یعنی بلاوجہ) جذباتی ہو کر قاتلین کا دفاع نہ کریں بلکہ ان کے خلاف نام لے کر مہم چلائیں کہ پی ایس ایف کے غنڈوں نے سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک طالب علم قتل کر دیا، اگر مذہبی لوگوں سے گملہ بھی ٹوٹے تو میڈیا میں نام لے کر سپیشل پیکیجز اور ٹاک شوز ہوتے ہیں۔
2- قانون توہین رسالت کے معاملے میں بجائے ڈیفنسو ہونے یا ریکشن میں آنے کے، اعتدال کے ساتھ کھل کر یہ کہیں کہ اس کا سیاسی اور انتقامی استمعال بند ہونا چاہیے اور جرم کی عدالتی جانچ اور سماعت تیز۔
3- پنجاب اسمبلی، سینٹ، قومی اسمبلی اور پختون خواہ میں مذہبی جماعتیں خود آگے بڑھ کر مذمتی قرارداد پیش کریں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ آپ جنونی نہیں بلکہ جنونی تو سیکولرز اور لبرلز ہیں اور اس کے ساتھ ہی قانون توہین رسالت کے سیاسی اور انتقامی استمعال کے سد باب کے لیے جھوٹے الزام پر سزا کا مطالبہ کریں۔
خالص سیاسی قتل کی یہ واردات ثابت کرتی ہے کہ مذہب کا استمعال صرف مذہبی لوگوں تک محدود نہیں بلکہ ہمارے لبرل اور سیکولر احباب بھی اس بہتی گنگا سے بوقت ضرورت ہاتھ دھونے سے نہیں ہچکچاتے۔ رہی بات کہ لبرل اور سیکولرز، مذہبی لوگوں کے مقابلے میں امن پسند ہوتے ہیں، تو یہ بات صرف بات ہی ہے، ان کی امن پسندی کا خمیازہ آج پوری دنیا جنگوں کی صورت میں بھگت رہی ہے۔
عبداللہ فیضی
15/04/2017
خود سوچیے کہ آپ روس سے انجینئرنگ مکمل کرنے اور یورپ بھر کے دیگر اداروں میں گھومنے کے بعد پاکستانی یونیورسٹی اور وہ بھی عبدالولی خان جیسی چھوٹی یونیورسٹی سے اپنی فیلڈ چھوڑ کر ”صحافت“ کے چار سالہ کورس کی ڈگری کیوں لینا چاہیں گے؟ بادی النظر میں شاید آپ اپنے شوق سے یا ”کسی“ کے شوق دلانے پر جامعہ سے نظریاتی سوشلسٹ طلبہ کی نئی تحریک/کھیپ تیار کرنا چاہتے ہوں جو پرانے سرخوں (جن کا قبلہ اب امریکہ ہو چکا) کو اصل نظریاتی کارکنوں سے تبدیل کردے۔
آپ کے سوشلسٹ نظریات اور فیسوں وغیرہ پر اصولی مؤقف کی وجہ سے آپ کے اردگرد آپ ہی کے ہم خیال طلبہ کا ہجوم ہونا شروع ہوجائے۔ اب آپ کو اہمیت ملنے لگے، آپ کے انٹرویوز اور کلپس آنے لگیں جن میں آپ یونیورسٹی کی کرپٹ اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والی انتظامیہ کی نااہلی پر گفتگو کر رہے ہوں اور ساتھ ہی پی ایس ایف تنظیم پر تنقید بھی کرتے ہوں کہ یہ لوگ اب اشتراکیت سے دور اور سرمایہ دارانہ نظام کے کاسہ لیس ہوچکے ہیں۔
جامعات میں پڑھنے اور جامعات میں ہونے والی طلبہ سیاست کو ذرا بھر سمجھنے والا بھی فورا اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ اب آپ کرپٹ انتظامیہ اور جامعہ میں موجود واحد طلبہ تنظیم کے سیاسی حریف بننے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں اور اس وقت وہ آپ کو اپنی تنظیم اور بقا کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ لہذا وہ مل کر آپ کے خلاف سب سے آسان اور مہلک پتہ کھیلتے ہیں اور آپ کو آپ کے متنازع خیالات کی وجہ سے توہین کا مجرم قرار دے دیتے ہیں۔
یہ بات حقیقت ہے کہ مقتول ایک پکا نظریاتی سوشلسٹ تھا جو اپنے آزاد افکار و خیالات اور طلبہ مسائل کے حوالے سے مسلسل انتظامیہ اور پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن دونوں کے لیے ہی مستقل درد سر بنا ہوا تھا اور اپنا ایک حلقہ بنانے میں کامیاب بھی ہوچکا تھا۔ لہذا اب فریقین کے مابین بات مقدمہ بازی تک پہنچی ہوئی تھی جس کے ثبوت موجود ہیں۔
خیالات تو جیسے کسی بھی اصلی سوشلسٹ کے مذہب کے بارے ہوتے ہیں ویسے ہی مقتول کے بھی رہے ہوں گے، سو انھیں گستاخی کا رنگ دینا پی ایس ایف کے جوانوں کے لیے چنداں مشکل نہ تھا، خصوصا جب مذہبی رنگ دینے والے خود ہی سیکولز اور لبرلز ہوں، گویا انہیں تو ایک تیر سے دو شکار مل گئے کہ سیاسی مخالف بھی مرا اور مذہب بھی بدنام ہوا۔
اس حوالے سے مذہبی لوگوں کے کرنے کا کام:
1- اویں (یعنی بلاوجہ) جذباتی ہو کر قاتلین کا دفاع نہ کریں بلکہ ان کے خلاف نام لے کر مہم چلائیں کہ پی ایس ایف کے غنڈوں نے سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک طالب علم قتل کر دیا، اگر مذہبی لوگوں سے گملہ بھی ٹوٹے تو میڈیا میں نام لے کر سپیشل پیکیجز اور ٹاک شوز ہوتے ہیں۔
2- قانون توہین رسالت کے معاملے میں بجائے ڈیفنسو ہونے یا ریکشن میں آنے کے، اعتدال کے ساتھ کھل کر یہ کہیں کہ اس کا سیاسی اور انتقامی استمعال بند ہونا چاہیے اور جرم کی عدالتی جانچ اور سماعت تیز۔
3- پنجاب اسمبلی، سینٹ، قومی اسمبلی اور پختون خواہ میں مذہبی جماعتیں خود آگے بڑھ کر مذمتی قرارداد پیش کریں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ آپ جنونی نہیں بلکہ جنونی تو سیکولرز اور لبرلز ہیں اور اس کے ساتھ ہی قانون توہین رسالت کے سیاسی اور انتقامی استمعال کے سد باب کے لیے جھوٹے الزام پر سزا کا مطالبہ کریں۔
خالص سیاسی قتل کی یہ واردات ثابت کرتی ہے کہ مذہب کا استمعال صرف مذہبی لوگوں تک محدود نہیں بلکہ ہمارے لبرل اور سیکولر احباب بھی اس بہتی گنگا سے بوقت ضرورت ہاتھ دھونے سے نہیں ہچکچاتے۔ رہی بات کہ لبرل اور سیکولرز، مذہبی لوگوں کے مقابلے میں امن پسند ہوتے ہیں، تو یہ بات صرف بات ہی ہے، ان کی امن پسندی کا خمیازہ آج پوری دنیا جنگوں کی صورت میں بھگت رہی ہے۔