لفظ ناصبی کی اصل کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی اصل نہ تو قرآن مجید میں ہے اور ہی فرامین رسالت سے اس کی کوئی بنیاد پائی جاتی ہے بلکہ صحابہ کرام میں سے بھی کسی سے یہ اصطلاح منسوب نہیں اور یہ امر واضح ہے کہ فتنوں کی ابتدا سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوسرے دور سے ہو چکی تھی اور پہلی صدی ہجری میں اس کے بعد بہت سے فتنے بالخصوص اہل عراق اور اہل شام کے مابین اختلافات صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کے سامنے آئے لیکن کسی نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی
البتہ اس اصطلاح کا سب سے قدیم استعمال بعض شیعہ رواۃ کی گفتگو یا منسوب مرویات میں ملتا ہے (جیسا کہ اس کا تفصیلی ذکر آگے کیا جائے گا)
یہ کوئی سید حمیری ہے (ایک رافضی شاعر صحابہ کرام کو سب و شتم کیا کرتا تھا اور امہات المومنین پر الزام تراشیاں اور عباسی خلفا کی مدح سرائی کیا کرتا تھا 173 ھجری میں فوت ہوا) (المنتطم ابن الجوزی 9:39، سیر اعلام لنبلا ذہبی 8:44 وغیرہم ) جس کے ابیات میں یہ لفظ اس مفہوم میں استعمال ہوا
وما یجحد ما قد قلت فی السبطین انسان
و ان انکر ذوالنصب فعندی فیہ برھان ( الغدیر 2:158)
یعنی اس اصطلاح کی ولادت دوسری صدی ھجری کے اآخر میں ہوئی اور یہ اصطلاح عالم شیعیت میں ہی متداول رہی تاوقتیکہ امام علی بن المدینی رحمہ اللہ جو 234 ھجری میں فوت ہوتے ہیں ان کا ایک قول ملتا ہے: من قال فلان مشبہ علمنا انہ جھمی و من قال فلان مجبر علمنا انہ قدری ومن قال فلان ناصبی علمنا انہ رافضی (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ و الجماعۃ ، 1:147 اور اسی معنی میں امام ابو زرعہ اور ابو حاتم سے بھی اسی کتاب میں یہ قول ملتا ہے اور امام البربھاری نے بھی شرح السنۃ صفحہ 52 میں نقل کیا اور اس کی تفصیل لسان المیزان جلد5 صفحہ 268 میں مل سکتی ہے)
اور اس کے بعد امام الذھلی جو کہ 258 ھجری میں فوت ہوئے اور امام ابو زرعہ الرازی جو 264 ھجری میں فوت ہوئے ، نے اس کا ایک اور مفہوم میں استعمال کیا لکھتے ہیں: لا تسالوہ (یعنی امام البخاری) عن شئی من الکلام فانہ ان اجاب بخلاف ما نحن علیہ وقع بیننا و بینہ و شمت بنا کل ناصبی و رافضی (مقدمہ فتح الباری 1:490)
اور امام ابو زرعہ لکھتے ہیں: اذا رایت الکوفی یطعن علی سفیان الثوری و زائدۃ فلا تشک انہ رافضی واذا رایت الشامی یطعن علی مکحول و الاوزاعی فلا تشک انہ ناصبی (طبقات الحنابلہ 1:200)
پھر امام الخطیب البغدادی رحمہ اللہ ایک مقام پر لکھتے ہیں: لو اخذت معاویہ علی کتفک لقال الناس رافضی و ولو اخذت علیا علی کتفی لقال الناس ناصبی (تاریخ بغداد 2:232)
تو ان اقوال سے جو امور سامنے اآتے ہیں وہ اختصار کے ساتھ درج کیے جا رہے ہیں
1) اگر ان اقوال کے قائلین کی طرف سے دیکھا جائے یعنی جغرافیائی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس اصطلاح کا مولد عراق ہے
2) اس کے ایک سے زائداطلاقات ملتے ہیں جس میں خطیب بغدادی کا قول موجودہ استعمال سے قریب ترین ہے
3) اہل حق کی مخالفت کے لیے یہ قول استعمال کیا گیا
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔