• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشہور ناول نگار اشتیاق احمد فوت ہو گئے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
Abu Huraira

کیا یاد دلا دیا آپ نے ۔ ہماری شخصیت بنانے والوں میں حکیم سعید ، حکیم برکاتی، اور اشتیاق احمد ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی کتابوں کو پڑھنے کے لیے ہم سب بہن بھائی دیوانے ہوتے تھے۔ اگر ایک پڑھ رہا ہوتا تو دوسرا چکر لگا رہا ہوتا کہ کب میری باری آئے گی۔ ختم نبوت اور عقیدہ کی درستگی کی اصلاح بہت محبت سے کرتے تھے۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ تعالٰی ان کی تمام لغزشوں پر انہیں معاف فرمائے۔آمین
شائد وہ پہلے مصنف تھے جنہیں میں نے ہوش سنبھالتےہی پڑھا اور اب تک پڑھتی آ رہی ہوں۔طنزو مزاح،ذہانت اور جذبات کا بہترین استعمال۔۔بڑے سے لیکر بچہ تک ان کے ناولز کے سحر میں گرفتار تھا۔ہم جیسوں کی اردو شائد اسی لیے بہت اچھی ہے میاں مٹھو پن کہہ لیجیے لیکن بہرحال ہے ضرور۔دین اور وطن سے محبت کی شیرینی کو عام باتوں میں اس طرح گھولا کہ ذہن میں اتر گیا اور علم بھی نہ ہوا۔کردار ایسے کہ چلتے پھرتے معلوم ہوتے۔۔اکثر جھگڑا ہوتا کہ یہ فرزانہ پردہ کب کرے گی؟؟پھر پتا چلتا کہ وہ صرف بارہ سال کی ہے۔۔اللہ!یہ اس کی عمر ہے کہ ٹریفک۔۔عرصہ بیس سال سے بارہ سال کی ہی ہے؟؟
"یہ نماز نہیں پڑھتے کیا؟"اگلا اعتراض۔
"ہاں ۔۔اب کیا بتا بتا کر پڑھیں کہ انسپکٹر جمشید نے فجر کی نماز پڑھی،اب عصر کی۔۔۔"جھلایا لہجہ اور ڈھونڈ ڈھانڈ کر وہ جملے تلاشنا "ان سب نے نماز ادا کی"اور فخر سے معترض کو لا کر دکھانا۔۔
صفحات پلٹ پلٹ کر دیکھنا کہ ہائے کہیں مارے تو نہیں گئے؟اللہ!اگر مارے جائیں گے تو ناول کیسے چلے گا؟؟
بعد کے ناولز جدید دور سے متاثر ہو گئے تھے۔۔جدید اسلحہ،فون وغیرہ وغیرہ۔۔پہلے کہاں بیگم شیرازی کا فون اور زینے سے تانک جھانک۔۔لکھتے ہوئے بہت سے ناولز ،ان کے مکالمات ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔کہیں آفتاب بیلن اٹھائے چھت پر الرٹ کھڑا ہے۔۔کہیں شہزادہ گلفام ٹرے پر ٹرے خالی کیے جا رہا ہے اور بیگم جمشید کی مہارت۔۔کہیں بنٹی گروپ سے مقابلے کا میدان سجا ہے تو کہیں روٹان اور وہ بھی تین تین۔۔اژدھے کی لپیٹ۔۔اژدھے کی اٹھان۔۔جیرال سیریز الگ داستان۔۔خان رحمان کے ہیرے۔۔پروفیسر داؤد کے سائنسی آلات۔۔شوکی برادرز کی بزدلانہ اور مسکینانہ حرکات۔۔ونٹاس،شارجہ،جابانی ۔۔بچوں کا اسلام ۔۔عبداللہ فارانی۔۔بہت کچھ تھا ۔۔ایک باب جو کل بند ہو گیا۔دور دور تک بچوں کے ادب میں اس طرح کامیاب انسان دکھائی نہیں دیتا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
" اگر ابن صفی مرحوم نے بھی داڑھی رکھ اور ٹوپی اوڑھ لی ہوتی تو علماء جوق در جوق ان کے ناولز پڑھنے کا بھی اعتراف کر لیتے کیونکہ پڑھ انہیں بھی رکھا ہے بس ان کی داڑھی نہ ہونے کے سبب ان کے ناولز پڑھنے کا اقرار "اعتراف گناہ" کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کسی طوائف کے گھونگرو نہ چوم لوں کہ اپنے سچے گناہ پر افسردہ تو ہوتی ہے مگر اسے تقدس کے غلاف میں لپیٹ کر نہیں رکھتی"
(میرے کل آنے والے کالم سے اقتباس)
رعایت اللہ فاروقی​
اس پر ایک صاحب کا بہت پیارا تبصرہ ہے :
ان دونوں شخصیات کا موازنہ دیانتداری سے نہیں کیاگیا۔ چونکہ اشتیاق احمد نے دین سے گہری وابستگی اختیار کرلی تھی اور پھر تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی زندگی اور قلم کو وقف کر لیاتھا۔اس لیے دینی حلقے میں ان کا احترام اور ان کی خدمات کا اعتراف ان کا حق بھی بنتا تھا۔اس میں محض داڑھی کا ہونا وجہ جواز ہرگز نہ تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا ظفرعلی خان اور مفکر احرار چودھری افضل حق کا احترام شرعی داڑھی نہ ہونے کے باوجود اور آغا شورش کاشمیری و مولانا غلام رسول مہرکی قدرومنزلت داڑھی نہ رکھنے کے باوجود اس لیے کی جاتی ہے کہ ان حضرات کا قلم ہمیشہ دین کی اشاعت اور اس کے تحفظ کے لیے رواں رہا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
معروف مزاح نگار گل نوخیر اختر کا اشتیاق احمد پر بہترین تاثراتی کالم :
انسپیکٹر جمشید کی موت.jpg

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مولوی صاحب مر چکے ہیں

جاوید چوہدری​
منگل کا دن تھا،نومبر کا مہینہ تھا،تاریخ 17 تھی اور سن تھا 2015ء،قاری عبدالرحمن انھیں کراچی ائیر پورٹ پر ڈراپ کر کے واپس چلے گئے،راستے سے فون کیا،جواب دیا ’’ بورڈنگ کارڈ میری جیب میں ہے،ظہر کی نمازپڑھ لی ہے،فلائیٹ وقت پر ہے،عصر انشاء اللہ لاہور میں پڑھوں گا‘‘قاری صاحب مطمئن ہو گئے،دن کے سوا بجے تھے،فلائیٹ نے ڈیڑھ بجے اڑنا تھا،قاری عبدالرحمن نے ڈیڑھ بجے دوبارہ فون کیا،انھوں نے فون اٹھایا لیکن وہ بول نہ سکے،قاری صاحب کو ان کے کراہنے اور اونچی اونچی سانس لینے کی آوازیں سنائی دیں،قاری صاحب نے بلند آواز سے پوچھا ’’حضرت آپ خیریت سے ہیں۔
آپ ٹھیک تو ہیں‘‘وہ جواب دے رہے تھے لیکن بات سمجھ نہیں آ رہی تھی،قاری صاحب اس وقت شاہراہ فیصل پر تھے،وہ مڑے اور گاڑی واپس ائیر پورٹ کی طرف دوڑا دی،وہ راستہ بھر انھیں فون کرتے رہے لیکن انھوں نے دوبارہ فون نہیں اٹھایا،قاری صاحب ائیر پورٹ پہنچے،ائیر پورٹ حکام سے ملے،انھیں بتایا،فلاں مسافر شاہین ائیر لائین کی فلائیٹ سے لاہور جا رہے تھے لیکن وہ لاؤنج میں بیمار پڑے ہیں،مجھے ان تک لے جائیں،حکام نے فوراً جواب دیا،شاہین ائیر لائین کی فلائیٹ جا چکی ہے،آپ کا مسافر چلا گیا ہے،قاری صاحب نے ان کے سامنے موبائل ملایا،ان کے فون پر بیل جا رہی تھی۔
قاری صاحب نے حکام کو فون دکھایا اور بتایا،میرے مسافر کا فون آن ہے،وہ ابھی تک لاؤنج میں موجود ہیں،مجھے اندر لے جائیں،حکام نے انکار کر دیا،قاری صاحب گیٹ پر کھڑے ہو کر انھیں مسلسل فون کرنے لگے،تھوڑی دیر بعد کسی صاحب نے فون اٹھا لیا،قاری صاحب نے کہا ’’آپ فون اشتیاق صاحب کو دے دیں‘‘اس صاحب نے دکھی آواز میں جواب دیا ’’آپ کے مسافر انتقال کر چکے ہیں‘‘قاری صاحب کے منہ سے چیخ نکل گئی،انھیں اس بار اندر جانے کی اجازت مل گئی۔
وہ اندر پہنچے تو ٹوٹے ہوئے گندے سے اسٹریچر پر پاکستان کے اس عظیم مصنف کی لاش پڑی تھی جس نے 45 برس تک ملک کی تین نسلوں کی فکری رہنمائی کی،جس نے 100 کتابیں اور 800 ناول لکھے،جس نے دو ہزار صفحات پر مشتمل اردو زبان کا طویل ترین ناول لکھا،آپ کا بچپن یا لڑکپن اگر ستر،اسی یا نوے کی دہائی میں گزرا ہے اور آپ کا کتاب سے ذرا سا بھی تعلق رہا ہے تو پھر اس گندے اور ٹوٹے ہوئے اسٹریچر پر پڑی وہ لاش آپ کی محسن تھی۔
وہ پوری زندگی بچوں کے لیے سسپنس سے بھرپور جاسوسی اور تفتیشی کہانیاں لکھتے رہے،آخر میں اپنے لیے موت پسند کی تو وہ بھی تفتیش اور سسپنس سے بھرپور تھی،کراچی ائیرپورٹ پر اس عالم میں فوت ہوئے کہ ان کے ہاتھ میں بورڈنگ پاس تھا اور ائیرپورٹ کے اسپیکروں سے اعلان ہو رہا تھا ’’ شاہین ائیر لائین کے ذریعے کراچی سے لاہور جانے والے مسافر اشتیاق احمد فوری طور پر فلاں گیٹ پر پہنچ جائیں‘‘اعلان ہوتا رہا اور بورڈنگ پاس ہوا میں لہراتا رہا لیکن وہ سیٹ سے نہ اٹھ سکے،جہاز لاہور چلا گیا اور وہ جہاز کے بغیر آخری منزل کی طرف روانہ ہو گئے اور ملک کے وہ لاکھوں بچے یتیم ہو گئے جن کے وہ چاچا جی تھے،اشتیاق چاچا جی،ایک ایسے چاچا جی جنہوں نے انھیں بچپن میں ادب اور نیکی دونوں کی لت لگا دی تھی،جنہوں نے انھیں پاکستانی بنایا تھا،اردو زبان میں بچوں کے ادب کے سب سے بڑے خالق اشتیاق احمد ہم سے بچھڑ گئے۔
اشتیاق احمد ایک ایسے انسان تھے جن کے لیے سیلف میڈ جیسے لفظ بنے ہیں،بھارتی پنجاب کے قصبے کرنال میں پیدا ہوئے،پاکستان بننے کے بعد والدین کے ساتھ جھنگ آ گئے،خاندان قیام پاکستان سے پہلے بھی غریب تھا اور پاکستان بننے کے بعد بھی۔ بڑی مشکل سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی،لاہور میں میونسپل کارپوریشن میں ملازم ہو گئے۔
سو روپے ماہانہ معاوضہ ملتا تھا،خاندان بڑا تھا،آمدنی کم تھی چنانچہ وہ شام کے وقت آلو چھولے کی ریڑھی لگانے لگے،یہ ’’کاروبار‘‘چل پڑا تو کمپنی کو پان اور سگریٹ تک پھیلا دیا،وہ دن کی ملازمت اور شام کے کاروبار سے ایک گھنٹہ بچاتے تھے اور رات سونے سے پہلے کہانیاں لکھتے تھے،ان کی پہلی کہانی 1960 ء کی دہائی میں کراچی کے کسی رسالے میں شایع ہوئی،وہ کہانی اشتیاق صاحب کے لیے رہنمائی ثابت ہوئی اور وہ باقاعدگی سے لکھنے لگے،کہانیاں سیارہ ڈائجسٹ میں شایع ہونے لگیں،وہ کہانی دینے کے لیے خود ڈائجسٹ کے دفتر جاتے تھے۔
کہانی بھی دے آتے تھے اور مفت پروف بھی پڑھ دیتے تھے،پبلشر کو ان کی یہ لگن پسند آ گئی،اس نے انھیں پروف ریڈر کی جاب آفر کر دی،اشتیاق صاحب نے میونسپل کارپوریشن کی پکی نوکری چھوڑی اور 100 روپے ماہانہ پر کچے پروف ریڈر بن گئے،وہ اب کہانیاں لکھتے تھے اور پروف پڑھتے تھے،کہانیاں رومانوی ہوتی تھیں،ان کی چند کہانیاں ’’اردو ڈائجسٹ‘،میں بھی شایع ہوئیں،1971ء میں پہلا ناول لکھا،وہ ناول رومانوی تھا،پبلشر نے وہ ناول پڑھنے کے بعد انھیں جاسوسی ناول لکھنے کا مشورہ دیا،اشتیاق صاحب نے قلم اٹھایا،محمود،فاروق،فرزانہ اور انسپکٹر جمشید کے لافانی کردار تخلیق کیے اور صرف تین دن میں ناول مکمل کر کے پبلشر کے پاس پہنچ گئے اور پھر اس کے بعد واپس مڑ کر نہ دیکھا،وہ شروع میں شیخ غلام علی اینڈ سنز کے لیے لکھتے تھے۔
پھر شراکت داری پر ’’مکتبہ اشتیاق‘‘بنالیا اور آخر میں اشتیاق پبلی کیشنز کے نام سے اپنا اشاعتی ادارہ بنا لیا،وہ ہفتے میں چار ناول لکھتے تھے،ان ناولوں کی باقاعدہ ایڈوانس بکنگ ہوتی تھی،آپ کسی دن نادرا کا ریکارڈ نکال کر دیکھیں،آپ کو 80،90 اور 2000ء کی دہائی میں لاکھوں بچوں کے نام محمود،فاروق،جمشید اور فرزانہ ملیں گے،یہ نام کہاں سے آئے،یہ نام اشتیاق صاحب کے ناولوں سے کشید ہوئے،وہ جھنگ میں بیٹھ کر صرف ایک کام کرتے تھے،لکھتے تھے اور صرف لکھتے تھے،اللہ تعالیٰ نے انھیں کہانیاں بُننے کا ملکہ دے رکھا تھا،اشتیاق صاحب کی کہانی آخری سطر تک اپنا سسپنس برقرار رکھتی تھی۔
ان کے لفظوں میں مقناطیسیت تھی،قاری ان کا لکھا ایک فقرہ پڑھتا تھا اور اس کی آنکھیں لوہا بن جاتی تھیں اور وہ اس کے بعد ان کی تحریر سے نظریں نہیں ہٹا پاتا تھا،مقبولیت اگر کوئی چیز ہوتی ہے تو اشتیاق احمد اس کی عملی تفسیر تھے اور اگر تحریر کو پڑھے جانے کے قابل بنانا ایک فن ہے تو اشتیاق احمد اس فن کے امام تھے،وہ لکھتے بچوں کے لیے تھے لیکن ان کے پڑھنے والوں میں آٹھ سے اسی سال تک کے ’’نوجوان‘‘شامل تھے،وہ بڑے شہروں سے گھبراتے تھے۔
ان میں ایک خاص نوعیت کی جھجک اور شرمیلا پن تھا،وہ درویش صفت تھے،انھوں نے عمر کے آخری پندرہ سال مذہب کے دامن میں گزارے،وہ باریش ہو گئے،جامعۃ الرشید کے ساتھ منسلک ہوئے،روزنامہ اسلام کا بچوں کا میگزین سنبھال لیا،حلیہ بھی عاجز تھا اور حرکتیں بھی چنانچہ وہ قلمی کمالات اور ادبی تاریخ رقم کرنے کے باوجود سرکاری اعزازات سے محروم رہے،خاک سے اٹھے انسان تھے،خاک میں کھیل کھیل کر خاک میں مل گئے،سرکار نے زندگی میں ان کا احوال پوچھا اور نہ ہی سرکار کو ان کے مرنے کے بعد ان کا احساس ہوا،وہ تھے تو سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہیں تھے۔
وہ نہیں ہیں تو ورثے میں ہزاروں کہانیاں،100 کتابیں اور 800 ناول چھوڑنے کے باوجود کچھ بھی نہیں ہیں،سرکار زندگی میں ان کی طرف متوجہ ہوئی اور نہ ہی مرنے کے بعد،کاش ان کی بھی کوئی لابی ہوتی،کاش یہ بھی کسی بڑے شہر میں پلے ہوتے،کاش یہ بھی انگریزی ہی سیکھ لیتے اور یہ برطانیہ اور امریکا کے بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے تو زندگی میں بھی ان کے گھر کے سامنے لوگوں کا مجمع رہتا اور موت کے بعد بھی ان کی قبر،ان کے گھر کے سامنے سے پھول ختم نہ ہوتے،یہ بس کرنالی،جھنگوی اور پاکستانی ہونے کی وجہ سے مار کھا گئے،یہ ایک گم نام‘ناتمام زندگی گزار کر رخصت ہو گئے اور ان کی ہزار کتابیں بھی ان کو نامور نہ بنا سکیں،حکومت ان کے وجود سے بے خبر تھی اور ان کی آخری سانس تک بے خبر رہی۔
وہ منگل کی اس دوپہر کراچی ائیر پورٹ پہنچے،بورڈنگ کروائی،ظہر کی نماز ادا کی،قاری عبدالرحمن کا فون ریسیو کیا،انھیں بتایا ’’فلائیٹ وقت پر ہے،میں انشاء اللہ عصر کی نماز لاہور میں پڑھوں گا‘‘اور لاؤنج میں بیٹھ گئے،لاؤنج میں کوئی شخص انھیں نہیں جانتا تھا،جان بھی کیسے سکتا تھا،وہ حلیے سے پورے مولوی لگتے تھے اور آج کے زمانے میں کوئی شخص کسی مولوی کو پیار اور دلچسپی سے نہیں دیکھتا،اشتیاق احمد کو بیٹھے بیٹھے بے چینی ہونے لگی،ماتھے پر پسینہ آ گیا،دل گھبرانے لگا،سانس چڑھنے لگی اور نبض کی رفتار میں اضافہ ہونے لگا،وہ پریشانی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھنے لگے لیکن وہاں ان کا کوئی مددگار نہیں تھا،اس دوران فلائیٹ کا اعلان ہو گیا،وہ ہمت کر کے قطار میں کھڑے ہو گئے لیکن ان کی ٹانگوں میں جان کم ہو رہی تھی۔
وہ آگے بڑھے اور کاؤنٹر پر کھڑی خاتون کو بتایا ’’مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے پلیز ڈاکٹر کو بلا دیں‘‘خاتون نے انھیں بیٹھنے کی ہدایت کی اور کام میں مصروف ہو گئی،وہ سیٹ پر بیٹھ گئے اور لمبے لمبے سانس لینے لگے،ان کے سینے میں شدید درد تھا،وہ بری طرح کراہ رہے تھے،ان کو کراہتے دیکھ کر مسافر نے شور مچا دیا،اس کے بعد وہاں ’’ڈاکٹر بلاؤ،ڈاکٹر بلاؤ‘‘کی آوازیں گونجنے لگیں،اشتیاق صاحب اس دوران تڑپنے لگے،مسافروں نے ان کے تڑپنے کا نظارہ دیکھنے کے لیے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا،ہجوم کی وجہ سے آکسیجن کم ہو گئی،انھوں نے لمبی ہچکی لی اور دم توڑ دیا،ڈاکٹر آدھ گھنٹے بعد وہاں پہنچا،وہ خالی ہاتھ تھا،اس کے پاس سٹیتھو اسکوپ تک نہیں تھا،ڈاکٹر نے ان کی نبض ٹٹولی،نتھنوں پر انگلی رکھی،دل کو دبا کر دیکھا اور پھر مایوسی سے سر ہلا کر کہا ’’مولوی صاحب مر چکے ہیں‘‘لوگ افسوس سے لاش کو دیکھنے لگے۔
اشتیاق صاحب کے انتقال کے آدھ گھنٹے بعد اسٹریچر آیا،اسٹریچر گندہ بھی تھا اور ٹوٹا ہوا بھی،لاش سیٹ سے اٹھا کر اسٹریچر پر ڈال دی گئی،قاری عبدالرحمن پہنچے،لاش ان کے حوالے کر دی گئی،بورڈنگ پاس ابھی تک ان کے ہاتھ میں تھا،یہ بورڈنگ پاس وزیر اعظم اور وزیراعظم کے مشیر شجاعت عظیم کے نام ان کا آخری پیغام تھا ’’خدا کے لیے ملک کے تمام ائیر پورٹس پر کلینکس بنوا دیں،میں آج مر گیا ہوں،کل آپ کی باری بھی آ سکتی ہے،اللہ نہ کرے آپ یوں ڈیپارچر لاؤنج میں آخری سانس لیں‘‘۔ ڈرائیور نے ان کے ہاتھ سے بورڈنگ پاس کھینچا،اسٹریچر اندر رکھا،ایمبولینس کا دروازہ بند کیا اور محمود،فاروق،انسپکٹر جمشید اور فرزانہ جیسے کرداروں کا خالق دنیا سے رخصت ہوگیا۔
وہ زمین کا رزق زمین کے معدے میں اتر گیا،پیچھے صرف تاسف اور بے حسی رہ گئی،یہ بے حسی اور یہ تاسف آج بھی کراچی ائیرپورٹ کے لاؤنج کی اس نشست پر پڑا ہے جس پر اشتیاق صاحب نے آخری سانس لی تھی،یہ تاسف اور یہ بے حسی یہاں برسوں تک بال کھولے پڑی رہے گی،کیوں؟ کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ملک کے سب سے بڑے ادیب نے طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑا،اگر ائیرپورٹ پر ڈاکٹر ہوتا تو شاید وہ بچ جاتے لیکن یہ اگر اور مگر اشتیاق صاحب جیسے لوگوں کے لیے نہیں ہے،یہ لفظ میاں نواز شریف اور شجاعت عظیم جیسے لوگوں کے لیے بنے ہیں،یہ لوگ ہمیشہ قائم رہیں گے جب کہ اشتیاق صاحب جیسے لوگ بورڈنگ پاس ہاتھوں میں پکڑ کر دنیا سے اسی طرح رخصت ہوتے رہیں گے،رہے نام سدا بے حسی کا۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
" اگر ابن صفی مرحوم نے بھی داڑھی رکھ اور ٹوپی اوڑھ لی ہوتی تو علماء جوق در جوق ان کے ناولز پڑھنے کا بھی اعتراف کر لیتے کیونکہ پڑھ انہیں بھی رکھا ہے بس ان کی داڑھی نہ ہونے کے سبب ان کے ناولز پڑھنے کا اقرار "اعتراف گناہ" کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کسی طوائف کے گھونگرو نہ چوم لوں کہ اپنے سچے گناہ پر افسردہ تو ہوتی ہے مگر اسے تقدس کے غلاف میں لپیٹ کر نہیں رکھتی"
(میرے کل آنے والے کالم سے اقتباس)
رعایت اللہ فاروقی​
اس پر ایک صاحب کا بہت پیارا تبصرہ ہے :
ان دونوں شخصیات کا موازنہ دیانتداری سے نہیں کیاگیا۔ چونکہ اشتیاق احمد نے دین سے گہری وابستگی اختیار کرلی تھی اور پھر تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی زندگی اور قلم کو وقف کر لیاتھا۔اس لیے دینی حلقے میں ان کا احترام اور ان کی خدمات کا اعتراف ان کا حق بھی بنتا تھا۔اس میں محض داڑھی کا ہونا وجہ جواز ہرگز نہ تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا ظفرعلی خان اور مفکر احرار چودھری افضل حق کا احترام شرعی داڑھی نہ ہونے کے باوجود اور آغا شورش کاشمیری و مولانا غلام رسول مہرکی قدرومنزلت داڑھی نہ رکھنے کے باوجود اس لیے کی جاتی ہے کہ ان حضرات کا قلم ہمیشہ دین کی اشاعت اور اس کے تحفظ کے لیے رواں رہا۔
رعایت اللہ فاروقی گو دینی مدرسہ کا فارغ التحصیل ہے، لیکن دینی مدارس کا بہت بڑا ”نقاد “ بھی ہے۔ دینی مدارس میں اگر کہیں کوئی خامی موجود ہو تو اس پر تنقید کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن خود کو ”ترقی پسند“ ظاہر کرتے ہوئے موصوف بقلم خود طوائفوں کے گھنگرو کو چومنے کی خواہش بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ تکبر ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، جو ان کی تحرویروں میں جا بجا نظر آتا ہے۔ اللہ ہدایت نصیب کرے آمین
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
معروف مزاح نگار گل نوخیر اختر کا اشتیاق احمد پر بہترین تاثراتی کالم :
14762 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
صاحب مضمون نے یہاں پہلے جملے میں خطا کھائی ہے۔
"یہ نام تو کسی ناول کا ہو سکتا ہے"فاروق بچارے پر خوامخواہ الزام لگایا گیا ہے۔
رعایت اللہ فاروقی گو دینی مدرسہ کا فارغ التحصیل ہے، لیکن دینی مدارس کا بہت بڑا ”نقاد “ بھی ہے۔ دینی مدارس میں اگر کہیں کوئی خامی موجود ہو تو اس پر تنقید کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن خود کو ”ترقی پسند“ ظاہر کرتے ہوئے موصوف بقلم خود طوائفوں کے گھنگرو کو چومنے کی خواہش بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ تکبر ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، جو ان کی تحرویروں میں جا بجا نظر آتا ہے۔ اللہ ہدایت نصیب کرے آمین
کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ نئے اور فیس بکی لکھاڑی لبرل ازم سے کہیں نہ کہیں ڈسے اور نت نئے رنگ برنگے عقائد پر مشتمل نظر آتے ہیں۔
آمین۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ نئے اور فیس بکی لکھاڑی لبرل ازم سے کہیں نہ کہیں ڈسے اور نت نئے رنگ برنگے عقائد پر مشتمل نظر آتے ہیں۔
آمین۔
میرا خیال ہے کہ اس میں ”حیرت“ کی کوئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ میڈیا کی طرح سوشیل میڈیا میں بھی سب سے پہلے ”لبرلز“ نے قدم جمایا اور چہار سو چھا گئے تب کہیں جاکر ”دیندار“ طبقہ کو ”ہوش“ آیا کہ سوشیل میڈیا کے میدان میں بھی کام کرنا چاہئے۔ اور جب یہ ایک ایک کرکے پہلے سے (بد) رنگی سوشیل میڈیا میں اترے تو (الا ماشا ء اللہ) اس رنگ سے متاثر ہوتے چلے گئے۔
مجھے خود فیس بک سالوں تک ”ناپسند“ رہا حالانکہ میں پاکستان میں نیٹ کی آمد کے وقت سے ہی نیٹ ورلڈ میں فعال ہوں۔ اور جب ”ناپسندیدگی“ کے باوجود فیس بک کی دنیا میں اترا تو یہاں کی خباثتیں (تحریری و تصویری دونوں) دیکھ کر جی متلاتا ہی رہا۔ لیکن ایک مرتبہ قدم رکھ لیا تو جما رہا اور جابجا قرآن و حدیث کی باتیں کرتا رہا۔ پہلے پہل فرینڈشپ ریکویسٹ کو نظر انداز کرتا رہا اور یہ ”خیال“ کرتا رہا کہ جسے ”جانتا“ تک نہیں اس کی دوستی کیسے قبول کروں۔ یوں سینکڑوں درخواستیں ”پینڈنگ“ میں پڑی رہیں۔ پھر یکایک خیال آیا کہ جن لوگوں کی درخواستیں آئی ہیں، انہیں اپنی مثبت تحریروں اور شیئرنگ سے ”دور“ رکھنا کوئی عقلمندی نہیں۔
آج بھی فیس بک میں فعال دیندار طبقہ میں ایسے بہت کم ہیں جو اسے وہ ”توجہ“ دینے کے قائل ہوں، جس کا یہ مستحق ہے۔ جبکہ بے دین طبقہ تو روز اول سے ہی اس پر عمل پیرا ہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ مثلاً اسی محدث فورم کے فعال افراد میں سے کتنے افراد فیس بک پر فعال ہیں۔ فیس بک پر بالعموم ایسے پڑھے لکھے لوگ پائے جاتے ہیں، جو دینی تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ انہیں بات بات پر صحیح بات بتلانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ایک بہت بڑی ٹیم درکار ہے جو اپنے اوقات کار میں سے کچھ گھنٹہ مستقلاً فیس بک پر صرف کریں تاکہ یہاں پھیلائی جانے والی ”بے دینی“ کی اصلاح کی جاسکے۔ بے دینی کو دیدہ و دانستہ پھیلانے والے تو شاید راہ راست پر نہ آسکیں لیکن کم از کم عام لوگوں کو گمراہ اور بے دین ہونے سے تو بچایا ہی جاسکتا ہے۔
اللہ دیندار اصحاب قلم کو اپنا قلم سوشیل میڈیا میں مؤثر طور پر استعمال کرنے کی توفیق دے آمین
 
Top