• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصافحہ ایک ہاتھ سے ہوتا ہے یا دونوں ہاتھوں سے سنت ہے؟

نجم

رکن
شمولیت
اپریل 18، 2011
پیغامات
99
ری ایکشن اسکور
480
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
آج دارِ ارقم سکول جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں جب میں نے مصافحہ کیا قاری صاحب سے تو انہوں نے اعتراض میں کسی سے کہا کہ لگتا ہے یہ وہابی ہے۔
اس سلسلے میں مَیں یہ جاننا چاہتا ہوں کیا ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت سے ثابت ہے تو حدیث بتلائی جائے تا کہ ان کی بھی اصلاح ہو سکے۔
دوسرا وہاں کے بچوں سے جب مصافحہ کیا تو وہ تعظیماً تھوڑا سے جھکے بھی دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔

اس بارے میں نے گوگل پہ سرچ کی تو مجھے یہ جواب ملا۔
صحیح بخاری (ج:۲ ص:۹۲۶) میں حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:

“علمنی النبی صلی الله علیہ وسلم التشھد وکفّی بین کفّیہ۔”

ترجمہ:… “مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات سکھائی، اور اس طرح سکھائی کہ میرا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔”

اِمام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث “باب المصافحة” کے تحت ذکر فرمائی ہے، اور اس کے متصل “باب الأخذ بالیدین” کا عنوان قائم کرکے اس حدیث کو مکرّر ذکر فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنتِ نبوی ہے، علاوہ ازیں مصافحہ کی رُوح، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تحریر فرمایا ہے:

“اپنے مسلمان بھائی سے بشاشت سے پیش آنا، باہمی اُلفت و محبت کا اظہار ہے۔” (حجة الله البالغہ ص:۱۹۸)

اور فطرتِ سلیمہ سے رُجوع کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تواضع، انکسار، اُلفت و محبت اور بشاشت کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں نہیں پائی جاتی۔
 

نجم

رکن
شمولیت
اپریل 18، 2011
پیغامات
99
ری ایکشن اسکور
480
پوائنٹ
79
اور ایک یہ والا واقع بھی ملا۔
حضرت مولاناامین صفدراکاڑوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تجلیات میں ایک عجیب لطیفہ لکھا ہے کہ ایک غیر مقلد دوست کو بخاری شریف سے دو ہاتھ سے مصافحہ کی حدیث دکھا یئ گیئ تو تھوڑی دیر خاموش رھنے کہ بعد بولا کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیھ وسلم مصافحہ میں دو ہاتھ تھے لیکن حضرت ابن مسعود کا تو ایک ہی ہاتھ تھا ،میں نبی تو نہی کہ دو ہاتھ سے مصافحہ کروں،میں چونکہ نبی نہیں حضرت ابن مسعود کی اتباع کرونگا ،تو حضرت نے فرمایا تم جیسے نبی نہیں ،اسی طرح ابن مسعود کی طرح صحابی بھی نہیں ہو،اس لئے تم مصافحہ میں انگوٹھے سے انگوٹھاملا لیا کرو ،نہ تمہارے نبی ہونے کا شبہ ہو نہ صحابی ہونے کا شبہ ہو-
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
موطا امام مالک
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ مَوْلَى عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ أَخْبَرَهُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ نَادَى أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَهُوَ يُصَلِّي، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِهِ لَحِقَهُ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ يَدَهُ عَلَى يَدِهِ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ : " إنِّي لأَرْجُو أَنْ لاَ تَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى تَعْلَمَ سُورَةً, مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِي التَّوْرَاةِ, وَلاَ فِي الإِنْجِيلِ، وَلاَ فِي الْقُرْآنِ مِثْلَهَا". قَالَ أُبَيٌّ : فَجَعَلْتُ أُبْطِئُ فِي الْمَشْي، رَجَاءَ ذَلِكَ، ثُمَّ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ السُّورَةَ الَّتِي وَعَدْتَنِي. قَالَ : " كَيْفَ تَقْرَأُ إِذَا افْتَتَحْتَ الصَّلاَةَ ". قَالَ : فَقَرَأْتُ ( الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) حَتَّى أَتَيْتُ عَلَى آخِرِهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " هِيَ هَذِهِ السُّورَةُ، وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُ "
’’ فوضع رسول اللہ یدہ علی یدہ ‘‘ رسول اللہﷺ نے اپنا ایک ہاتھ ان کے ایک ہاتھ پر رکھا (مصافحہ کیا)۔یدہ علی یدہ مفرد ہونے کی وجہ سے ایک ہاتھ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔
بخاری میں کچھ یوں حدیث ہے

حدثنا مسدد حدثنا يحيى عن شعبة قال حدثني خبيب بن عبد الرحمن عن حفص بن عاصم عن أبي سعيد بن المعلى قال : كنت أصلي في المسجد فدعاني رسول الله صلى الله عليه و سلم فلم أجبه فقلت يا رسول الله إني كنت أصلي فقال ( ألم يقل الله { استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم } ) . ثم قال لي ( لأعلمنك سورة هي أعظم السور في القرآن قبل أن تخرج من المسجد ) . ثم أخذ بيدي فلما أراد أن يخرج قلت له ألم تقل ( لأعلمنك سورة هي أعظم سورة في القرآن ) . قال ( { الحمد لله رب العالمين } هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته )

’’ ثم اخذ بیدی‘‘ ابوسعید بن المعلی ﷜ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے میرا ایک ہاتھ پکڑا
بخاری، باب المعانقہ
حدثنا إسحق أخبرنا بشر بن شعيب حدثني أبي عن الزهري قال أخبرني عبد الله بن كعب أن عبد الله بن عباس أخبره أن عليا - يعني - ابن أبي طالب خرج من عند النبي صلى الله عليه و سلم . وحدثنا أحمد بن صالح حدثنا عنبسة حدثنا يونس عن ابن شهاب قال أخبرني عبد الله بن كعب بن مالك أن عبد الله بن عباس أخبره : أن علي بن أبي طالب رضي الله عنه خرج من عند النبي صلى الله عليه و سلم في وجعه الذي توفي فيه فقال الناس يا أبا حسن كيف أصبح رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ قال أصبح بحمد الله بارئا فأخذ بيده العباس فقال ألا تراه أنت والله بعد ثلاث عبد العصا والله إني لأرى رسول الله صلى الله عليه و سلم سيتوفى في وجعه وإني لأعرف في وجوه بني عبد المطلب الموت فاذهب بنا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فنسأله فيمن يكون الأمر فإن كان فينا علمنا ذلك وإن كان في غيرنا أمرناه فأوصى بنا قال علي والله لئن سألناها رسول الله صلى الله عليه و سلم فمنعناها لا يعطيناها الناس أبدا وإني لا أسألها رسول الله صلى الله عليه و سلم أبدا
’’فاخذ بیدہ العباس‘‘ حضرت عباس﷜ نے حضرت علی﷜ کا ایک ہاتھ تھام لیا
بخاری، باب مناقب عمر بن الخطاب﷜
حدثنا يحيى بن سليمان قال حدثني ابن وهب قال أخبرني حيوة قال حدثني أبو عقيل زهرة بن معبد أنه سمع جده عبد الله بن هشام قال : كنا مع النبي صلى الله عليه و سلم وهو آخذ بيد عمر بن الخطاب
’’آخذ بيد عمر بن الخطاب‘‘ آپﷺ حضرت عمر﷜ کا ایک ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔
باب من دهن يده للمصافحة
(صحيح الإسناد) عن ثابت البناني: " أن أنساً كان إذا أصبح ادهن يده بدهن طيب، لمصافحة إخوانه" (ادب المفرد)
’’یدہ‘‘ مفرد اس بات پر دال ہے کہ حضرت انس﷜ ایک ہی ہاتھ کو خوشبو سے تر کرتے بھائیوں سے مصافحہ کی غرض سے۔
مسند احمد میں یہ حدیث
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ قَالَ قَالَ ثَابِتٌ لِأَنَسٍ يَا أَنَسُ مَسِسْتَ يَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَرِنِي أُقَبِّلُهَا
’’مسست ید رسول اللہﷺ بیدک‘‘ آپ﷜ نے آپﷺ کا ہاتھ مبارک اپنے ہاتھ سے چھوا تھا۔۔الخ
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ایک ہاتھ سے مصافحہ پر صریح نص

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنَا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَضَّاحٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ كَعْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ حَسَّانَ بْنِ نُوحٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ قَالَ تَرَوْنَ يَدِي هَذِهِ صَافَحْتُ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت عبد اللہ ابن بسر فرماتے ہیں کہ میرے اس ہاتھ کو دیکھتے ہو ، میں نے اس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا ہے ۔
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (12/ 247)
علامہ عبد الرحمن مبارکپوری اس حدیث پر حکم لگاتے ہیں :
رِجَالُهُ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ وَإِسْنَادُهُ مُتَّصِلٌ
اس حدیث کے سارے رواۃ ثقہ اور اس کی سند متصل ہے ۔
تحفة الأحوذي (7/ 430)
حدیث میں ید کا لفظ ہے جو اسم جنس ہے جو ایک اور دو ہاتھ دونوں کےلیے استعمال ہوتا ہے لیکن ید کے بعد ھذہ کی زیادتی سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ ید سے یہاں ایک ہاتھ مراد ہے ۔ اگر ید سے دو ہاتھ مراد ہوتے تو ھذہ واحد کے بجائے ھذان تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ۔
امید ہے مطلع صاف ہو گیا ہوگا ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
صحیح بخاری کی روایت

صحیح بخاری کی روایت دو ہاتھ سے مصافحہ کےلیے دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ:
1. حدیث میں مصافحہ کا ذکر نہیں ۔
2. اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ تعلیم کی تاکید کےلیے پکڑا تھا نہ کہ مصافحہ کی نیت سے ۔
3. علامہ عبد الحئی لکھنوی مجموع فتاوی عبد الحئی میں لکھتے ہیں:
صحیح بخاری میں عبد اللہ بن مسعود سے مروی روایت کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد سکھایا اس حال میں کہ میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلی کے درمیان تھی ، سو یہ ظاہر ہے کہ یہ مصافحہ متوارثہ جو بوقت ملاقات مسنون ہے نہ تھا بلکہ طریقہ تعلیمیہ تھا جیسا کہ اکابر کسی چیز کی تعلیم کے وقت دونوں یا ایک ہاتھ سےاصاغر کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔
[مجموع فتاوی عبد الحئی: ج ۲ ص ۱۵۳، بحوالہ : ایک ہاتھ سے مصافحہ: علامہ عبد الرحمن مبارکپوری]
4. ہدایہ کا ایک جملہ اور اس کی وضاحت:
والأخذ بهذا أولى من الأخذ بتشهد ابن عباس رضي الله عنهما وهو قوله التحيات المباركات ۔ ۔ ۔ إلى آخره لأن فيه الأمر وأقله الاستحباب والألف واللام وهما للاستغراق وزيادة الواو وهي لتجديد الكلام كما في القسم وتأكيد التعليم
ابن عباس کی تشہد کی حدیث التحیات المبارکات ۔۔۔ آخر تک ، سے بہتر ہے کہ عبد اللہ بن مسعود کی حدیث کو لیا جائے اس لئے کہ اس میں حکم کی زیادتی ہے اور استحباب سے زیادہ قریب ہے ، الف لام استغراق کے لئے ہے اور واو کی زیادتی تجدید کلام کے لئے ہے جیسا کہ قسم میں ہوتا ہے اس میں تعلیم کی تاکید بھی ہے۔ [ہدایہ:۱/۱۱۱]
قَوْلُهُ وَتَأْكِيدُ التَّعْلِيمِ ) يَعْنِي بِهِ أَخْذَهُ بِيَدِهِ لِزِيَادَةِ التَّوْكِيدِلَيْسَ فِي تَشَهُّدِ ابْنِ عَبَّاسٍ
صاحب ہدایہ کا [تاکید التعلیم ] کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا تاکہ تاکید میں اضافہ ہوجائے اور یہ تاکید ابن عباس کے تشہد میں نہیں ۔
[فتح القدیر : ابن الھمام:۲/۱۰۷]
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
تو پھر امام بخاری نے اس روایت کو مصافحہ کے باب میں کیوں وارد فرمایا ہے؟
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہاتھ مصافحہ کے علاوہ دوسرے موقعوں پر بھی پکڑا جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر اس کی وضاحت فرماتے ہیں :
ووجه إدخال هذا الحديث في المصافحة أن الأخذ باليد يستلزم التقاء صفحة اليد بصفحة اليد غالبا ومن ثم أفردها بترجمة تلي هذه لجواز وقوع الأخذ باليد من غير حصول المصافحة
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حضرت مولاناامین صفدراکاڑوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تجلیات میں ایک عجیب لطیفہ لکھا ہے کہ ایک غیر مقلد دوست کو بخاری شریف سے دو ہاتھ سے مصافحہ کی حدیث دکھا یئ گیئ تو تھوڑی دیر خاموش رھنے کہ بعد بولا کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیھ وسلم مصافحہ میں دو ہاتھ تھے لیکن حضرت ابن مسعود کا تو ایک ہی ہاتھ تھا ،میں نبی تو نہی کہ دو ہاتھ سے مصافحہ کروں،میں چونکہ نبی نہیں حضرت ابن مسعود کی اتباع کرونگا ،تو حضرت نے فرمایا تم جیسے نبی نہیں ،اسی طرح ابن مسعود کی طرح صحابی بھی نہیں ہو،اس لئے تم مصافحہ میں انگوٹھے سے انگوٹھاملا لیا کرو ،نہ تمہارے نبی ہونے کا شبہ ہو نہ صحابی ہونے کا شبہ ہو-
امین اوکاڑوی صاحب یہ لطیفے خود گھڑتے تھے۔نہ تو اوکاڑوی صاحب نے کسی غیر مقلد دوست کو مذکورہ حدیث دکھائی اور نہ ہی اس غیرمقلد نے اس قسم کا کوئی جواب دیا جس کا اس واقعہ میں ذکر ہے۔ اہل حدیث اور احادیث مبارکہ کا مذاق اڑانے کے لئے اوکاڑوی موصوف خود ہی سائل بن جاتے تھے خود ہی مفتی اور خود ہی اپنی پسند کا سوال کرتے اور خود ہی اسکا جواب دیتے تھے۔پھر اس سوال وجواب کو اہل حدیث کے ذمہ لگا دیتے تھے۔اوکاڑوی صاحب کثرت سے جھوٹ بولنے کی بیماری میں مبتلا تھے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اور ایک یہ والا واقع بھی ملا۔
حضرت مولاناامین صفدراکاڑوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تجلیات میں ایک عجیب لطیفہ لکھا ہے کہ ایک غیر مقلد دوست کو بخاری شریف سے دو ہاتھ سے مصافحہ کی حدیث دکھا یئ گیئ تو تھوڑی دیر خاموش رھنے کہ بعد بولا کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیھ وسلم مصافحہ میں دو ہاتھ تھے لیکن حضرت ابن مسعود کا تو ایک ہی ہاتھ تھا ،میں نبی تو نہی کہ دو ہاتھ سے مصافحہ کروں،میں چونکہ نبی نہیں حضرت ابن مسعود کی اتباع کرونگا ،تو حضرت نے فرمایا تم جیسے نبی نہیں ،اسی طرح ابن مسعود کی طرح صحابی بھی نہیں ہو،اس لئے تم مصافحہ میں انگوٹھے سے انگوٹھاملا لیا کرو ،نہ تمہارے نبی ہونے کا شبہ ہو نہ صحابی ہونے کا شبہ ہو-
اوکاڑوی صاحب کو بات مذاق میں ٹالنے کے بجائے اس سوال کا جواب دینا چاہیے تھا کہ اگر یہ مصافحہ ہی کی حدیث ہے تو ابن مسعود کا ایک ہی ہاتھ کیوں تھا؟
نجم صاحب آپ اس کا کیا جواب دیں گے؟
 
Top