السلام علیکم!
آج دارِ ارقم سکول جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں جب میں نے مصافحہ کیا قاری صاحب سے تو انہوں نے اعتراض میں کسی سے کہا کہ لگتا ہے یہ وہابی ہے۔
اس سلسلے میں مَیں یہ جاننا چاہتا ہوں کیا ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت سے ثابت ہے تو حدیث بتلائی جائے تا کہ ان کی بھی اصلاح ہو سکے۔
دوسرا وہاں کے بچوں سے جب مصافحہ کیا تو وہ تعظیماً تھوڑا سے جھکے بھی دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔
اس بارے میں نے گوگل پہ سرچ کی تو مجھے یہ جواب ملا۔
صحیح بخاری (ج:۲ ص:۹۲۶) میں حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
“علمنی النبی صلی الله علیہ وسلم التشھد وکفّی بین کفّیہ۔”
ترجمہ:… “مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات سکھائی، اور اس طرح سکھائی کہ میرا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔”
اِمام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث “باب المصافحة” کے تحت ذکر فرمائی ہے، اور اس کے متصل “باب الأخذ بالیدین” کا عنوان قائم کرکے اس حدیث کو مکرّر ذکر فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنتِ نبوی ہے، علاوہ ازیں مصافحہ کی رُوح، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تحریر فرمایا ہے:
“اپنے مسلمان بھائی سے بشاشت سے پیش آنا، باہمی اُلفت و محبت کا اظہار ہے۔” (حجة الله البالغہ ص:۱۹۸)
اور فطرتِ سلیمہ سے رُجوع کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تواضع، انکسار، اُلفت و محبت اور بشاشت کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں نہیں پائی جاتی۔
آج دارِ ارقم سکول جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں جب میں نے مصافحہ کیا قاری صاحب سے تو انہوں نے اعتراض میں کسی سے کہا کہ لگتا ہے یہ وہابی ہے۔
اس سلسلے میں مَیں یہ جاننا چاہتا ہوں کیا ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت سے ثابت ہے تو حدیث بتلائی جائے تا کہ ان کی بھی اصلاح ہو سکے۔
دوسرا وہاں کے بچوں سے جب مصافحہ کیا تو وہ تعظیماً تھوڑا سے جھکے بھی دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔
اس بارے میں نے گوگل پہ سرچ کی تو مجھے یہ جواب ملا۔
صحیح بخاری (ج:۲ ص:۹۲۶) میں حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
“علمنی النبی صلی الله علیہ وسلم التشھد وکفّی بین کفّیہ۔”
ترجمہ:… “مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات سکھائی، اور اس طرح سکھائی کہ میرا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔”
اِمام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث “باب المصافحة” کے تحت ذکر فرمائی ہے، اور اس کے متصل “باب الأخذ بالیدین” کا عنوان قائم کرکے اس حدیث کو مکرّر ذکر فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنتِ نبوی ہے، علاوہ ازیں مصافحہ کی رُوح، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تحریر فرمایا ہے:
“اپنے مسلمان بھائی سے بشاشت سے پیش آنا، باہمی اُلفت و محبت کا اظہار ہے۔” (حجة الله البالغہ ص:۱۹۸)
اور فطرتِ سلیمہ سے رُجوع کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تواضع، انکسار، اُلفت و محبت اور بشاشت کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں نہیں پائی جاتی۔