ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(٣) ’مصحف تاشقند‘ کے متعلق
تاشقند میں مکتبہ ادارہ دینیہ اوراق پر لکھے ہوئے ایک مصحف کو محفوظ کئے ہوئے تھا جس کے بارے میں گویا دعویٰ ہے کہ یہ مصحف عثمانہے ۔اس مصحف کا امتیاز یہ ہے کہ یہ نقطوں سے خالی ہے اور اس کا ہر صفحہ ۱۲ لائنوں پر مشتمل ہے۔ اوراق کی تعداد ۳۵۳ہے اور اس کی لمبائی ۶۸ سم چوڑائی ۵۳ سم ہے۔
مصحف امام سمرقند وہاں سے ۱۸۶۹ء کو تاشقند پہنچا؟
اس سوال کو حل کرنے کے لیے دو مفروضے ہیں:
(١) (۶۲۱ تا ۹۰۷ہجری) کے درمیان جب قبیلہ ذھبیہ کی حکومت سمرقند میں قائم ہوئی اس وقت یہ مصحف سمرقند پہنچا پھر پیرس کے مغل خاندان کے سردار برکت خان کو تحفے میں دے دیا گیا۔
(٢) مؤرخین کے اقوال کے مطابق یہ وہی مصحف ہو جس کی ابن بطوطہ نے بصرہ میں زیارت کی تھی۔ پھر وہاں سے (۷۷۱ تا ۸۰۷ہجری) کے درمیان میں تیمور لنگ کے ہاتھوں سمرقند منتقل ہوا۔
پہلا فرضی قول مطلق طور پر باطل ہے کیونکہ مصحف مصر کی نسبت عثمان بن عفان کی طرف کرنا مشکوک معاملہ ہے۔ اس صورت میں مصحف پیرس کی نسبت عثمان کی طرف کمزور پڑ جائے گی کیونکہ مصر میں بادشاہوں کے زمانے میں کل دو مصحف محفوظ تھے جو مصاحف عثمانیہ میں سے تھے لیکن یہ بات حقیقت حال کے بالکل الٹ ہے ۔کیونکہ مصحف ’امام‘ جس پر حضرت عثمان کے خون کے قطرات گرے تھے وہ صرف ایک تھا، جس کو اس حقیقت کی طرف منسوب کیا جارہا ہے جو کہ حقیقت نہیں ایک مفروضہ ہے ۔کیونکہ اس دعوے کا رد تین طرح سے ہوتا ہے۔
تاشقند میں مکتبہ ادارہ دینیہ اوراق پر لکھے ہوئے ایک مصحف کو محفوظ کئے ہوئے تھا جس کے بارے میں گویا دعویٰ ہے کہ یہ مصحف عثمانہے ۔اس مصحف کا امتیاز یہ ہے کہ یہ نقطوں سے خالی ہے اور اس کا ہر صفحہ ۱۲ لائنوں پر مشتمل ہے۔ اوراق کی تعداد ۳۵۳ہے اور اس کی لمبائی ۶۸ سم چوڑائی ۵۳ سم ہے۔
مصحف امام سمرقند وہاں سے ۱۸۶۹ء کو تاشقند پہنچا؟
اس سوال کو حل کرنے کے لیے دو مفروضے ہیں:
(١) (۶۲۱ تا ۹۰۷ہجری) کے درمیان جب قبیلہ ذھبیہ کی حکومت سمرقند میں قائم ہوئی اس وقت یہ مصحف سمرقند پہنچا پھر پیرس کے مغل خاندان کے سردار برکت خان کو تحفے میں دے دیا گیا۔
(٢) مؤرخین کے اقوال کے مطابق یہ وہی مصحف ہو جس کی ابن بطوطہ نے بصرہ میں زیارت کی تھی۔ پھر وہاں سے (۷۷۱ تا ۸۰۷ہجری) کے درمیان میں تیمور لنگ کے ہاتھوں سمرقند منتقل ہوا۔
پہلا فرضی قول مطلق طور پر باطل ہے کیونکہ مصحف مصر کی نسبت عثمان بن عفان کی طرف کرنا مشکوک معاملہ ہے۔ اس صورت میں مصحف پیرس کی نسبت عثمان کی طرف کمزور پڑ جائے گی کیونکہ مصر میں بادشاہوں کے زمانے میں کل دو مصحف محفوظ تھے جو مصاحف عثمانیہ میں سے تھے لیکن یہ بات حقیقت حال کے بالکل الٹ ہے ۔کیونکہ مصحف ’امام‘ جس پر حضرت عثمان کے خون کے قطرات گرے تھے وہ صرف ایک تھا، جس کو اس حقیقت کی طرف منسوب کیا جارہا ہے جو کہ حقیقت نہیں ایک مفروضہ ہے ۔کیونکہ اس دعوے کا رد تین طرح سے ہوتا ہے۔