• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصحف ِعثمانی کی اِشاعت اور شرق و غرب میں منتقلی

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) ’مصحف تاشقند‘ کے متعلق
تاشقند میں مکتبہ ادارہ دینیہ اوراق پر لکھے ہوئے ایک مصحف کو محفوظ کئے ہوئے تھا جس کے بارے میں گویا دعویٰ ہے کہ یہ مصحف عثمان﷜ہے ۔اس مصحف کا امتیاز یہ ہے کہ یہ نقطوں سے خالی ہے اور اس کا ہر صفحہ ۱۲ لائنوں پر مشتمل ہے۔ اوراق کی تعداد ۳۵۳ہے اور اس کی لمبائی ۶۸ سم چوڑائی ۵۳ سم ہے۔
مصحف امام سمرقند وہاں سے ۱۸۶۹ء کو تاشقند پہنچا؟
اس سوال کو حل کرنے کے لیے دو مفروضے ہیں:
(١) (۶۲۱ تا ۹۰۷ہجری) کے درمیان جب قبیلہ ذھبیہ کی حکومت سمرقند میں قائم ہوئی اس وقت یہ مصحف سمرقند پہنچا پھر پیرس کے مغل خاندان کے سردار برکت خان کو تحفے میں دے دیا گیا۔
(٢) مؤرخین کے اقوال کے مطابق یہ وہی مصحف ہو جس کی ابن بطوطہ نے بصرہ میں زیارت کی تھی۔ پھر وہاں سے (۷۷۱ تا ۸۰۷ہجری) کے درمیان میں تیمور لنگ کے ہاتھوں سمرقند منتقل ہوا۔
پہلا فرضی قول مطلق طور پر باطل ہے کیونکہ مصحف مصر کی نسبت عثمان بن عفان﷜ کی طرف کرنا مشکوک معاملہ ہے۔ اس صورت میں مصحف پیرس کی نسبت عثمان﷜ کی طرف کمزور پڑ جائے گی کیونکہ مصر میں بادشاہوں کے زمانے میں کل دو مصحف محفوظ تھے جو مصاحف عثمانیہ میں سے تھے لیکن یہ بات حقیقت حال کے بالکل الٹ ہے ۔کیونکہ مصحف ’امام‘ جس پر حضرت عثمان﷜ کے خون کے قطرات گرے تھے وہ صرف ایک تھا، جس کو اس حقیقت کی طرف منسوب کیا جارہا ہے جو کہ حقیقت نہیں ایک مفروضہ ہے ۔کیونکہ اس دعوے کا رد تین طرح سے ہوتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) مصر میں دو مصحف تھے جبکہ مصحف ’امام‘ جو خون عثمان﷜سے رنگین ہوا وہ ایک تھا۔
(٢) دوسرا یہ کہ جب حضرت عثمان﷜نے اسلامی شہروں کی طرف مصاحف روانہ کئے تو اس وقت مصر کی طرف کوئی مصحف نہیں بھیجا تو پھر یہ مصر میں موجود دو مصاحف کہاں سے آگئے؟
(٣) مصر میں پہلا مصحف عبدالعزیز بن مروان نے لکھوایا جو کہ مصحف عثمان کے مطابق تھا۔
بعض ناقدین نے اس کو قبول کیا ہے اور بعض نے اس کو بھی کمزور کہا ہے۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ یہ مصحف بصرہ سے سمرقند منتقل کیا گیا ، وہ اس کو ان مصاحف میں سے ایک شمار کرتے ہیں جن کو حضرت عثمان﷜نے مختلف بلاد اسلامیہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ اس میں وہ رسم الخط کو سند اور دلیل بناتے ہیں کہ مصحف تاشقند کا رسم الخط مصحف ’امام‘ کے رسم الخط کے بہت زیادہ قریب ہے۔ ان لوگوں کا اس دوسرے قول کی تائید کرنا اس بات کو منحصر ہے کہ مصحف سمرقند ممکن ہے کہ وہ مصحف عثمان﷜ہو جو کہ بصرہ کی طرف روانہ کیا گیا ہو۔ جو لوگ اس دوسرے مفروضے کو کمزور تصور کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مصحف تاشقند کی صنعت و فنکاری اور رسم الحروف اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس مصحف کا تاریخ خلافت عثمان﷜ کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ خط تو دوسری یا تیسری صدی ہجری کا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دعویٰ نمبر۴: مصحف حمص کے متعلق
شیخ اسماعیل بن عبدالجواد کیالی نے حمص کی مسجد قلعہ میں اس مصحف کو دیکھا جو کہ وہاں محفوظ کیا ہوا تھا اور شیخ کیالی بیان کرتے ہیں کہ یہ مصحف خط کوفی میں لکھا گیا ہے اور اس پر خون عثمان﷜ کے آثار نمایاں تھے۔ لیکن علم الخط اور نقوش وکتابت کے خاص علماء کا خیال ہے کہ خط کوفی جس کے ساتھ مصحف حمص لکھا گیا ہے یہ بعد کے زمانے کا ہیجو پہلی صدی ہجری کے بعد لکھا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دعویٰ نمبر۵: مصحف استنبول کے متعلق
استنبول کے عجائب گھر میں کاغذ پر لکھا ہوا ایک مصحف محفوظ ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ مصحف وہی ہے جو شہادت کے وقت حضرت عثمان﷜کے ہاتھوں میں تھا اور خون کے قطرات کے نشانات اب تک اس کے اوراق پر نمایاں ہیں۔ لیکن اس مصحف کے اوصاف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ سُرخ نقطے جس کو لوگ حضرت عثمان﷜ کے خون کے قطرات تصور کرتے ہیں سوائے لکیروں اور دائروں کے کچھ بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا اس مصحف کو مصاحف عثمانیہ میں سے شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس طرح کی لکیریں اور دائرے مصاحف عثمانیہ کے خصائص میں سے نہیں۔
مصادر عربیہ میں سے بعض اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ مصحف عثمان کے بعض اوراق جن پر خون کے قطرات تھے وہ ۵۵۲ھ تک جامع قرطبہ میں محفوظ رہے پھر ان کو عبدالمؤمن بن علی خلیفہ موحدین نے مراکش منتقل کیا۔ ابن مرین کے زمانے تک یہ مغرب میں ہی رہے۔
لیکن ہمارا خیال ہے کہ مذکورہ مصحف ، مصحف عثمان﷜کے چند اوراق پر مشتمل تھا پھر اس کے ساتھ مصحف اندلس کے چند اوراق شامل کئے گئے۔ اس بات کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسی تاریخی نص ہو جس میں مصحف عثمان﷜ کا اندلس اور مغرب میں جانا ثابت ہو۔
اس بارے میں ہم ’امام سمھودی‘ کی عبارت جو کہ ان کی کتاب ’وفاء الوفا‘ میں ہے، کو نقل کرتے ہیں: ’’وہ مصحف جو شہادت کے وقت حضرت عثمان﷜کے ہاتھوں میں تھا وہ آپ کی شہادت کے بعد دو آدمیوں میں سے ایک کی طرف منتقل ہوا ۔ ان دونوں آدمیوں کا نام خالد ہے۔ 1. محرز کی روایت کے مطابق خالد بن عمرو بن عثمان بن عفان﷜ 2.دوسرے ابن قتیبہ کی روایت کے مطابق خالد بن عثمان بن عفان﷜ ہیں جو کہ حضرت عثمان﷜ کی زوجہ اُم عمرو بنت جندب کے بطن سے ہیں۔ پہلے خالد بن عمرو بن عثمان﷜ یہ حضرت عثمان﷜ کے پوتے اور حضرت معاویہ﷜کے نواسے تھے کیونکہ ان کی والدہ رملہ بنت معاویہ بن ابی سفیان﷜ ہیں۔لہٰذا اس دوہری قرابت کی وجہ سے یہ مصحف خالد بن عمرو بن عثمان﷜کے پاس محفوظ رہا۔ دوسرا یہ کہ حضرت معاویہ﷜ کو اس پر وثوق تھا کہ یہ اس مصحف کے بارے میں لاپرواہی نہیں برتے گے۔ اس وجہ سے بھی کہ حضرت عثمان﷜کا گھر عمرو بن عثمان﷜ اور اس کے بھائیوں کو ہبہ کیا گیا اور یہ وہی گھر تھا جو کہ ’سمودی‘ کی روایت کے مطابق انہوں نے اپنی اولاد پر صدقہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے حضرت عثمان﷜ کا یہ گھر عمرو بن عثمان﷜ کے گھر سے مشہور ہوا اور یہ اولاد عثمان﷜ میں سے سب زیادہ اس گھر میں ان کے ساتھ رہتے ۔اسی گھر میں عمرو کے بیٹے خالد نے پرورش پائی اور قیام کیا ۔اسی گھر میں حضرت عثمان﷜ شہید کئے گئے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راجح
ان دونوں صورتوں کی وجہ سے ہم راجح یہی سمجھتے ہیں کہ یہ مصحف حضرت عثمان﷜ کے پوتے خالد کے پاس رہا ۔
(١) حضرت عثمان﷜ کا پوتا اور حضرت معاویہ﷜ کا نواسہ ہونے کی وجہ سے۔
(٢) اپنے باپ عمرو کے ساتھ حضرت عثمان﷜ کے گھر میں مقیم ہونے کی وجہ سے۔
لہٰذا یہ مؤقف اس بات کی تائید کرتا ہے کہ یہ مصحف حضرت عثمان﷜ کے گھر سے باہر نہیں گیا ۔بلکہ مصحف خالد بن عمرو بن عثمان﷜ یا خالد بن عثمان﷜ کے پاس محفوظ رہا ۔ امیہ نے قرابت اوراس کی حفاظت سے اطمینان کی وجہ سے اس کو آل عثمان سے نہ چھینا۔
ابن عبدالمالک انصاری کی رائے، جس کی تائید ہم بھی کرتے ہیں ، یہ ہے کہ ’’یہ مصحف جس پر خون عثمان﷜ گرا تھا تاتاریوں کے حملوں میں گم ہوگیا تھا اور یہ حملے ان تین فتنوںمیں سے ایک ہیں جو مدینہ پر ہوئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلا فتنہ: پہلا حملہ ۵۰ ہجری کو عہد معاویہ میں ہوا۔
دوسرا فتنہ: ۶۳ہجری کو شہادت حسین﷜ کے بعد جب حضرت عبداللہ بن زبیر﷜ نے لوگوں سے خلافت کے لیے بیعت لی اس وقت پیش آیا۔
تیسرا فتنہ: یہ حادثہ خلیفہ ابن جعفر منصور کے زمانے میں پیش آیا۔۱۴۵ہجری کو خاندان علوی میں سے محمد نفیس الزکیہ بن عبداللہ بن حسن بن حسین بن علی نے خلافت کا دعویٰ کیا ۔لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جب منصور کو پتا چلا تو اس نے چار ہزار فوج عیسیٰ بن موسیٰ کی قیادت میں مدینہ کی طرف روانہ کی۔ عیسیٰ بن موسیٰ نے ۱۵ رمضان المبارک ۱۴۵ھ کو مدینہ پر حملہ کردیا۔ جس سے اہل مدینہ کو سخت نقصان ہوا ۔اسی سلسلے میں کئی احتمالات اٹھتے ہیں۔ ہم تیسرے احتمال کو راجح خیال کرتے ہیں ۔کیونکہ یہ ’امام مسعودی‘ امام مالک بن انس سے سنداً نقل کرتے ہیں۔ ’’کہ مصحف عثمان اس تیسرے حادے میں غائب ہوا جس کی اس کے بعد کوئی خبر نہیں ملی۔‘‘ مشہور یہی ہے کہ امام مالک﷜ ۱۷۹ھ میں فوت ہوئے۔
اسی طرح مسعودی ذکر کرتے ہیں کہ قاسم بن سلام جو کہ ۲۲۳ھ میں فوت ہوئے انہوں نے مصحف عثمان جس پر خون کے قطرات لگے ہوے تھے ،اس کو بعض بادشاہوں کے خزانے میں دیکھا تھا۔ ابن مرزوق’مسند صحیح‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص جس کا نام ابوبکر محمد بن یعقوب بن شیبہ بن صلت تھا،وہ اپنے والد احمد سے بیان کرتا ہے کہ اس کے دادے نے ۲۲۳ھ میں ایک مصحف دیکھا جس میں خون عثمان﷜ کے قطرات تھے جو کہ اکثر اوراق پربکھرے ہوئے تھے۔ زیادہ ترسورۃ نجم اور اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اﷲُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ‘‘ (البقرۃ: ۱۳۷) پر تھے۔ اس مصحف کی لمبائی دو ہاتھ چار انگلیاں تھیں اور ہر ورقہ ۲۸ لائنوں پر مشتمل تھا۔ یہ بات ابوبکر محمد بن یعقوب خلیفہ معتصم عباسی کے دور کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس روایت میں درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:
(١) مصحف ’امام‘، خلیفہ معتصم کے زمانے میں عراق میں محفوظ تھا۔
(٢) مصحف کی لمبائی دو ہاتھ اور چار انگلیاں تھیں اور ہر ورقہ ۲۸ سطروں پر مشتمل تھا۔
(٣) خون کے قطرات نے مصحف کے بہت زیادہ اوراق کو رنگین کیا ہوا تھا۔
ان تمام سے یہ پتا چلتا ہے کہ ’مصحف امام‘ امام مالک﷫ کی زندگی میں مدینہ میں ہی محفوظ رہا۔
ہمارا یہ قول کہ یہ مصحف حضرت عثمان﷜ کے پوتے کے پاس رہا صحیح معلوم ہوتا ہے۔یہ مصحف جن لوگوں کے پاس رہا یہ امویوں کے اقرباء ہیں تو پھر ان امویوں کا ۵۰ ہجری کو خالد بن عمرو بن عثمان جو کہ امیرمعاویہ﷜ کے نواسے ہیں ،ان کے گھر پر حملہ کرنا بہت مشکل امر ہے۔ کیونکہ خالد بن عمرو کا گھر حقیقت میں امیرمعاویہ کی بیٹی جو کہ خالد بن عمرو کی ماں ہے اس کا گھرہے۔ پھر ۶۳ ہجری میں یزید کا شامی فوجوں کو اسی اپنی بہن کے گھر پر حملہ کا حکم دینا اور ان سے مصحف عثمان چھیننا بھی محال ہے۔
دوسری طرف امام مالک﷫ کا مؤقف ہے کہ یہ مصحف غائب ہوگیا تھا۔
اس بحث کا خلاصہ ہم یوں بیان کرتے ہیں کہ ’مصحف امام‘ خاندان بنی امیہ کی حکومت کے لمبا زمانہ میں مدینہ میں دار عثمان میں محفوظ رہا اور امام مالک﷫ کے قول کے مطابق عباسی خاندان کے دور حکومت کی ابتداء میں ،جو ۱۶۹ھ کے قریب کا زمانہ بنتا ہے، اس میں مدینہ سے غائب ہوا۔
لہٰذاہم بالجزم کہتے ہیں کہ یہ ’مصحف امام‘ بنو عباس کے زمانے میں عراق کی طرف منتقل ہوگیا۔ پھر مشرقی مؤرخ سمہودی اور مغربی مؤرخین ابن مرزوق اور ابن عبدالملک انصاری دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ۲۲۳ھ میں ’مصحف امام‘ جس پر خون عثمان﷜ کے قطرات تھے ، عراق میں ہی محفوظ تھا۔ عبدالملک انصاری کا کہنا کہ یہ مصحف عبدالرحمن الداخل کے دور میں اندلس منتقل ہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس مصحف کے بارے میں اندلس کے مؤرخین کی آراء مختلف ہیں۔
ابن بشکوال: اندلس میں عبدالرحمن الداخل کے ہاتھوں منتقل ہونے والا مصحف ان مصاحف میں سے ایک ہے جو حضرت عثمان﷜نے شہروں کی طرف روانہ کئے تھے۔ اور رہا یہ دعویٰ کہ اس پر خون کے اثرات اور قطرات تھے یہ محض دعویٰ اور وہم ہے جس کی کوئی اساس اور اصل نہیں ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہ مصحف شام کی طرف بھیجا جانے والا مصحف ہو۔
ابن عبدالملک انصاری: یہ مصحف جس کو امویوں نے جامع قرطبہ میں محفوظ کیا ہوا تھا پھر ۵۵۲ھ میں مراکش منتقل کردیا گیا ۔یہ خلیفہ شہید کا خاص نسخہ نہیں ہے۔
ان مختلف آراء کے پیش نظر اختلاف کو فریقین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
فریق اوّل: یہ وہ لوگ ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مصحف جو جامع قرطبہ میں موجود تھا ، مصحف عثمان﷜ تھا۔جسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا اور شہادت کے وقت وہ اس مصحف سے تلاوت فرما رہے تھے اور اسی پر خون کے قطرات گرے تھے۔ اس فریق میں امام رازی﷫، ابن حبان﷫ اور ادریسی شامل ہیں۔
فریق ثانی: ابن بشکوال، ابن عبدالملک انصار ی یہ پہلے قول کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مصحف اندلس ان چار مصاحف میں سے ایک ہے جن کو عثمان﷜ نے مختلف شہروں کی طرف روانہ کیا تھا۔ اور یہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ یہ مصحف ، مصحف شامی کا عین تھا جوکہ عبدالرحمن الداخل کے دور حکومت میں اندلس میں لایا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راجح
ہمارا میلان بھی اس رائے کی طرف ہے کہ مصحف جامع قرطبہ ہی ’مصحف امام‘ ہے یا اس کے چند اوراق ہیں۔ لیکن اس بات پر ہمارا تائید کرنا محال ہے کہ وہ ’مصحف امام‘، حضرت عثمان﷜ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ کیونکہ مصادر عربیہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان مصاحف کو ایک ہی قراء ت پر لغت قریش میں لکھنے والے کاتبین میں حضرت عثمان﷜ کا نام نہیں ہے۔
مصحف کوفہ: اس کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ علی بن ابی طالب کی خلافت کے دوران ضائع ہوگیا تھا۔
مصحف مکہ: اس مصحف کے متعلق ہمیں آٹھویں صدی ہجری تک تو خبریں ملتی ہیں۔ اسی وقت ابن جبیر نے مکہ میں اس کی زیارت کی۔ ابوالقاسم تجیبی سبتی نے بھی اس کی تائید کی ہے لیکن یہ ۶۹۶ھ کی با ت ہے۔ اسے سمہودی نے اپنی کتاب ’وفا الوفا‘ میں ان سے اس بات کا جزم کیا ہے ۔ اس بناپر یہ ممکن نہیں کہ مصحف مکہ وہی مصحف ہو جو کہ جامع قرطبہ میں تھا۔
مصحف بصرہ: اس کے بارے میں ہم پیچھے تفصیلی بحث کرچکے ہیں کہ وہ مصحف جو ابن بطوطہ نے بصرہ میں دیکھا تھا وہ عین وہی مصحف تھا جوکہ عثمان﷜ نے بصرہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ بصرہ سے سمرقند اور تاشقند کی طرف اس کو منتقل کردیا گیا۔ ابن بطوطہ کی مصحف بصرہ کے بارے میں روایت اس رائے کے متعارض ہے کہ مصحف ’امام‘ وہ ہے جو جامع قرطبہ میں تھا۔
اب ہم ابن بشکوال، ابن عبدالملک کے قول اور سابقہ اقوال کے درمیان مناقشہ کرتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ دعویٰ کہ مصحف قرطبہ وہی مصحف عثمانی ہے جو دمشق کی طرف روانہ کیا گیا تھا اور وہاں سے ۱۳۸ھ کو عبدالرحمن الداخل کے ہاتھوں اندلس میں منتقل کردیا گیا۔ یہ قول باطل اور مردود ہے جیسا کہ درج ذیل عبارت میں ہم اس کو ثابت کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اوّل: جنہوں نے مصحف دمشق کو دیکھ کر اوصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مصحف عثمانی دمشقی ہے یہ بعد والے زمانے کی بات ہے جو کہ عبدالملک انصاری کی رائے کے معارض ہے۔ کیونکہ اس مصحف کو ابن جبیر نے دیکھا اور اس کے وہی اوصاف بیان کئے جو کہ ہروی نے ۶۱۱ھ کے مشاہدے کے دوران بتائے ۔ایسے ہی ابوالقاسم سبتی نے ۶۹۷ھ میں،ابن فضل اللہ للمعمری نے آٹھویں صدی ہجری میں اور ابن بطوطہ نے زیارت کی۔
دوم: ابن الملک انصاری جو مصحف قرطبہ کا حجم بیان کرتے ہیں وہ اس مصحف کے حجم سے مختلف ہے جس کو ابوبکر بن شیبہ نے عراق میں دیکھا تھا ۔جیسا کہ مصحف عراق پر خون کے قطرات اکثر جگہوں پر نمایاں تھے۔ مصحف عثمانی شخصی کے چار اور اق جب مصحف اندلس کے ساتھ ملائے گئے تو اس کو ان چار اوراق کی وجہ سے مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی۔ یہ مصحف عبدالرحمن الناصر کے عہد تک تو جامع قرطبہ میں رہا۔ جب خلیفہ مستنصر کا دور شروع ہوا تو اس نے ۸ جمادی الثانی ۳۵۴ھ میں صاحب الصلاۃ ثقہ مامون ،محمد بن یحییٰ بن عبدالعزیز المعروف ابن الخراز کی طرف منتقل کروا دیا جو کہ اس کے بارے میں بہت زیادہ حریص تھے۔ کافی عرصہ ان کے پاس رہا جب موحدین کی حکومت میں اندلس پستی اور زوال کی طرف جانا شروع ہوا تو اس مصحف کے متعلق عبدالمؤمن بن علی جو کہ موحدین کے خلیفہ اوّل تھے ،کو بہت زیادہ فکر لاحق ہوئی ۔ادھر قشتیالیوں نے جامع قرطبہ کو کھیل کا میدان بنایااور اس کو توڑ پھوڑ دیا۔اس صورت حال نے خلیفہ عبدالمؤمن بن علی کو اس مصحف کو بچانے اور اس کی حفاظت کے لیے ابھارا۔ لہٰذا انہوں نے اس کو مراکش روانہ کرنے کے لیے یہ کام دو آدمیوں ابوسعید اور ابویعقوب جو کہ خلیفہ کے بیٹھے تھے ان کے ذمہ لگایا۔ انہوں نے ۱۱ شوال ۵۵۲ھ میں اس مصحف کو مراکش میں لے جاکر محفوظ کیا۔ اس عظیم کارنامہ پر خلیفہ عبدالمؤمن بن علی کے وزیر ابوزکریا یحییٰ بن احمد بن یحییٰ بن عبدالملک بن طفیل نے خلیفہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ قصیدہ لکھا:
جزی اﷲ عن ھذا الأنام خلیفۃ
بہ شربوا ماء الحیاۃ فخلدوا​
’’اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف سے خلیفہ کو اجر عظیم سے نوازے جس کے ذریعے ان لوگوں نے ماء حیاۃ پیا پس وہ ہمیشہ رہے۔‘‘
وحیاہ ما دامت محاسن ذکرہ
علی مدرج الأیام تتلی و تنشید​
’’ہمیشہ زندہ و جاوید رہے اس کا ذکر گردش زمانہ میں اور اس کے محاسن ہمیشہ باقی رہیں اور ان کو بیان کیا جاتا رہے اور گایا جاتا رہے۔‘‘
 
Top