ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
موحدین نے اس مصحف کو بڑی حفاظت اور عزت و احترام سے رکھا۔ اس کے لیے قیمتی غلاف تیار کیا ۔ وہ اس کو ایک سرخ اونٹنی پر رکھے ھودج میں بند کرکے اس ھودج پر چار سرخ نشانات لگاتے اوراس ھودج کے پیچھے پیچھے خلیفہ، اس کا بیٹا پھر ان کے پیچھے دیگر لوگ چلتے۔
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا ۔جب موحدین سفر، نقل وحمل کا ارادہ کرتے تھے تو ساتھ اس مصحف کو ھودج میں رکھ کے لے جاتے ۔اس کے بعد اس مصحف کو خلیفہ موحد باللہ، ابوالحسن علی بن مأمون ادریس نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔
۶۴۶ ھ میں علی کو تلمسان میں قتل کردیا گیا موحدین کا لشکر خالی ہوگیا۔ بادشاہ کے خزانے میںلوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا ۔عرب لشکر عظیم پر قابض ہوئے اور انہوں نے اس مصحف کریم کوبھی لوٹ لیااور تلمسان میں نیلامی کے لیے کتابوں کے بازار میں رکھ دیا۔ اس کی قیمت ۱۷ درھم رکھی گئی۔جبکہ اس کے بہت سے اوراق ضائع ہو گئے۔ جب تلمسان کے امیر ابویحییٰ جو کہ بنی عبدالواد سے تعلق رکھنے والے تھے ان کو پتا چلا تو اس نے اس مصحف کو خریدا اور بڑی حفاظت کے ساتھ رکھا ۔اس کے بعد اس کے بیٹے اس کے وارث بنے۔۷۰۲ھ تک یہ انہی کے قبضے میں رہا۔
اسی طرح مصحف عثمان تلمسان کے شاہی خزانے (جو کہ بنی عبدالواد کا تھا) میں محفوظ رہا حتیٰ کہ ابوالحسن علی بن عثمان بن ابویعقوب المرینی رمضان کے آخر میں (۷۳۷ھ، ۱۳۳۶ء) تلمسان پر قابض ہوا اور ۷۳۸ھ کو اس کو مکمل طور پر فتح کرلیا۔ مصحف عثمان ان کے ہاتھ لگا اس نے اس کو بڑے اہتمام اور تکریم کے ساتھ رکھا۔ موحدین کی عادت کو برقرار رکھتے ہوئے جب یہ لڑائی کے لیے نکلتے تھے تو اس کو لشکر کے آگے آگے رکھتے تھے۔ بالاتفاق یہ مصحف ۷ جمادی الاوّل ۷۴۱ھ میں نہر سلادو کے پڑوس میں ہونے والی جنگ طریف میں (جیسا کہ عیسائیوں کی معتبر کتابوں میں ہے) پُرتگالوں کے ہاتھوں میں بطور مال غنیمت کے چلا گیا۔
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا ۔جب موحدین سفر، نقل وحمل کا ارادہ کرتے تھے تو ساتھ اس مصحف کو ھودج میں رکھ کے لے جاتے ۔اس کے بعد اس مصحف کو خلیفہ موحد باللہ، ابوالحسن علی بن مأمون ادریس نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔
۶۴۶ ھ میں علی کو تلمسان میں قتل کردیا گیا موحدین کا لشکر خالی ہوگیا۔ بادشاہ کے خزانے میںلوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا ۔عرب لشکر عظیم پر قابض ہوئے اور انہوں نے اس مصحف کریم کوبھی لوٹ لیااور تلمسان میں نیلامی کے لیے کتابوں کے بازار میں رکھ دیا۔ اس کی قیمت ۱۷ درھم رکھی گئی۔جبکہ اس کے بہت سے اوراق ضائع ہو گئے۔ جب تلمسان کے امیر ابویحییٰ جو کہ بنی عبدالواد سے تعلق رکھنے والے تھے ان کو پتا چلا تو اس نے اس مصحف کو خریدا اور بڑی حفاظت کے ساتھ رکھا ۔اس کے بعد اس کے بیٹے اس کے وارث بنے۔۷۰۲ھ تک یہ انہی کے قبضے میں رہا۔
اسی طرح مصحف عثمان تلمسان کے شاہی خزانے (جو کہ بنی عبدالواد کا تھا) میں محفوظ رہا حتیٰ کہ ابوالحسن علی بن عثمان بن ابویعقوب المرینی رمضان کے آخر میں (۷۳۷ھ، ۱۳۳۶ء) تلمسان پر قابض ہوا اور ۷۳۸ھ کو اس کو مکمل طور پر فتح کرلیا۔ مصحف عثمان ان کے ہاتھ لگا اس نے اس کو بڑے اہتمام اور تکریم کے ساتھ رکھا۔ موحدین کی عادت کو برقرار رکھتے ہوئے جب یہ لڑائی کے لیے نکلتے تھے تو اس کو لشکر کے آگے آگے رکھتے تھے۔ بالاتفاق یہ مصحف ۷ جمادی الاوّل ۷۴۱ھ میں نہر سلادو کے پڑوس میں ہونے والی جنگ طریف میں (جیسا کہ عیسائیوں کی معتبر کتابوں میں ہے) پُرتگالوں کے ہاتھوں میں بطور مال غنیمت کے چلا گیا۔