سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
مصرکا فوجی انقلاب اوراس کے دوررس اثرات
عبدالمعید مدنیؔ علیگڑھ
مصرکے صدرمحمد مرسی کی اسلامی حکومت کا مصری فوج نے تختہ پلٹ دیا۔ ان کی حکومت پر ایک سال کا عرصہ بیتا تھا کہ یہ دردناک سانحہ پیش آگیا۔ یہ سانحہ صرف مصرکا نہیں ہے دنیا کے تمام مسلمانوں کا ہے۔ بڑی امید ہوچلی تھی کہ کم ازکم عرب میں ایک خوش آئندنئی تبدیلی آنے والی ہے۔ دنیا کے سارے حق پسندوں اوردین پسندوں کے لئے مصرمیں مستبداور جابر حکمرانوں کا زوال اور دین پسندوں کی حکومت کی کرسی تک پہنچ عالم عرب میں بڑی اچھی تبدیلی کا پیش خیمہ بن رہی تھی۔ لیکن اسے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
صدرمحمد مرسی نے اکثریت کے ساتھ فوج کی نگرانی میں الیکشن جیتا تھا۔ اخوان اور حزب النور کا ساجھا ایک کامیاب تجربہ تھا اورروشن مستقبل کے لئے ایک بہترین علامت۔
حسنی مبارک کے ہٹنے کے بعدمصرکے قومیت پرست ، بددین، دہرےئے، اعداء اسلام کے ایجنٹ، مفادپرست اورعالم عرب کوگھیرے میں لئے مشرق ومغرب کے شیاطین، اسرائیل کے آقا، یہودی وصیلبی لابی، رافضی ایجنٹ یہ سمجھ رہے تھے کہ مصرمیں لادینی عناصرکے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور آجائے گی لیکن مصرکے دین پسندوں کی لہر میں ساری عالمی توقعات ، سازشیں اندازے اورطاقتیں بہ گئیں۔ سارا دشمن اسلام عالم حیرت زدہ تھا۔ لیکن الیکشن سیاست کے چمپین بروقت کیسے منتخب صدر کی مخالفت کرسکتے تھے ڈیموکریسی کے ضابطوں کے تحت صدرمحمد مرسی کی مذمت نہیں ہوسکتی تھی۔ دشمن تاک میں تھے اورگھات لگائے بیٹھے تھے۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ایک مولوی صورت انسان کے بس کا روگ نہیں کہ حکومت سنبھال سکے۔ لیکن اس بار بھی توقع کے برخلاف اسلامی صدر مضبوط سے مضبوط ترہوتا جارہا تھا۔ اب سارے اسلام بیزار اس ضدپر آگئے کہ اسلام پسندحکومت کو گراکے چھوڑیں گے۔ اورآخریہ سانحہ وقوع پذیر ہوہی گیا۔
صدرمحمد مرسی کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت مسترد اور قابل مذمت ہے اورملک اوراہل ملک کے ساتھ غداری ہے۔ کسی ناحیے سے یہ بغاوت جواز کا درجہ پانہیں سکتی ہے۔ اگراسلامی اصول وضابطوں اورنظام شورائیت سے یہ حکومت تشکیل پائی ہوئی ہوتی توساری دنیا چلاتی لیکن یہاں توجمہوریت کے طرزپر صدر محمد مرسی کا انتخاب عمل میں آیا تھا یعنی ساری دنیا کے جمہوریت پسندوں کے معبودبیلٹ بیکس کے ذریعہ انکا انتخاب عمل میں آیا تھا۔ اس کے باوجوددنیا کے سارے جمہوریت پسند انھیں برداشت نہ کرسکے۔ اخوانی صدر کو کیوں کر برداشت کیا جاسکتا تھا۔ ان کے ساتھ توحزب النور سلفی جماعت کی طاقت بھی ساتھ تھی بلکہ شیخ ابواسحق حوینی عظیم مصری عالم کے بقول صدرمرسی کرسی صدارت تک حزب النور کے ذریعہ ہی اصلا پہنچے ورنہ اخوان کی اتنی حیثیت نہ تھی کہ محمد مرسی کو کرسی صدارت تک پہنچاسکتے۔
صدرمرسی کو عہدہ صدرات سے ہٹانے اور ان کی حکومت کو گرانے کے جو بھی اسباب بتلائے جاتے ہیں وہ درست بھی ہوسکتے ہیں غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ کہاجاتاہے کہ انہوں نے فوج کے سربراہ کوہٹاکرکے سیسی( اخوانی باپ ) بیٹا کواپنے پسند کا فوجی سربراہ بنایا تھا۔ اپنی من مانی اعلی عہدوں کے آفیسران میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کی۔ انتظامیہ میں خاص کراور دوسرے شعبوں میں عام طورپر اپنی جماعت الاخوان کو کثرت سے بھرنا شروع کردیاتھا۔ معیشت کو مسلسل گراوٹ سے بچانے اورملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں ناکام رہے۔ حزب مخالف کے ساتھ بے لچک رویہ اپنایا۔ اپنے ساتھیوں کی تحقیر کی اوران کے ساتھ طوطا چشمی کی۔ اورمعاشی پروگرام اخوانیوں کے ذریعے چلائے جانے کا فیصلہ ہوا۔ ایسا عملی مظاہرہ ہوا جیسے مصراخوانیوں کی وراثت ہے۔
سب کچھ صحیح ہو پھر بھی ایک دستوری طورپرشفافیت کے ساتھ چنی گئی حکومت کو گرانے کا حق کسی کو نہیں مل سکتا جس طرح حزب مخالف نے تمام مخالفین کو جوڑا یا عدلیہ اورفوج نے ان کو آگے بڑھایا تاکہ ان ہنگاموں کی آڑمیں مرسی کی حکومت گرائی جائے یہ وطن اوراہل وطن کے ساتھ غداری ہے اوروطن اہل وطن کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت جس طرح دستوری حق کی پامالی پر طلبگاران حق کے ساتھ نمٹا جارہا ہے اگرغوغائیوں کے ساتھ اس سے نصف سے کم سختی کی جاتی توتتربتر ہوجاتے۔ فوج عدلیہ اورانتظامیہ کا یہ دہرا کردار ناقابل فہم ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ آج تک فوج عدلیہ اوربیوروکریسی عصرجدید کے فرعون مصر جمال عبدالناصر کی یادگار ہے۔ جس طرح کمالی فوج سے ابھی تک ترکی کو نجات نہیں مل پائی ہے اورفوج ابھی تک مصطفی کمال یہودی بچے کے اثر سے باہر نہیں آپائی ہے۔ اسی طرح مصرمیں ابھی تک فوج عدلیہ اوربیورو کریسی جمالی اثرات بدسے باہر نہیں آپائی ہے۔ حیرت ہے مصری فوج، عدلیہ اوربیوروکریسی نے دنیا کے سارے طواغیت کی فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی سے زیادہ سفاکیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے جمالی دورمیں جمال عبدالناصر کے سفاک جیلروں کی یادگار ابھی فوج اورپولیس میں موجود ہے۔ لگتاہے سب حمزہ بسیونی کے اخلاف ہیں۔
مصرکی فوج ، عدلیہ اور بیوروکریسی نے اخوانیوں کے کچلنے میں جس سفاکیت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے جیسے اسرائیلی فوج کا کمانڈر انھیں اسلام پسندوں پر حملہ کرنے کا حکم دے رہا ہے، یا قصرابیض امریکہ سے احکام مل رہے ہیں۔ دنیا میں موجود سیاسی صورت حال پر جس کی نظر ہے اورجوعالمی سیاست کے مہروں کی چالوں سے آگاہ ہیں انھیں خوب پتہ ہے کہ مصرکو گرانے میں ساری عالمی اورعلاقائی طاقتوں کی حصہ داری ہے اورسب کی گہری سازش ہے صیہون، صلیب، روافض، کفار، کمیونسٹ، ملحدسب کو یہ چیز بھانہیں رہی تھی کہ مصرمیں اسلام پسندوں کی حکومت قائم ہواورمستحکم ہوجائے حتی کہ گلف کی حکومتوں نے مرسی کے سقوط پر مسرت کا اظہار کیا ۔ مرسی کے سقوط پر یہ موقف ناپسندیدہ ہے غداری وطن کی حمایت ہے اورناروا قتل وخون ریزی کو جائز قرار دینا ہے۔
دنیا کے سارے ممالک اگرایک طرف ہوکر سقوط مرسی کا جشن منائیں تواس سے اصل قضیہ مرسی کے حق حکم رانی کی تردید نہیں ہوسکتی ہے۔ مرسی کے سقوط پر ساری دنیا کے مسلمانوں نے دکھ کا اظہار کیا ہے، عالمی مسلم رائے عامہ یہی ہے اورانصاف پسندغیرمسلم عوام بھی اسی نظرسے دیکھتی ہے کہ مرسی کی حکومت گرانے والے اوراخوانیوں کو بے دریغ قتل کرنے والے سفاک ہیں اوران کا ساراعمل نارواہے اور غداری وطن کے مترادف ہے۔
عالمی سیاست میں جو نفاق چل رہا ہے اورسازش کے جو تانے بانے بنے جاتے ہیں اوراس وقت اہل سنت کے خلاف جس طرح تمام کفار، صہیون، صلیب اورروافض اکٹھا ہوگئے ہیں وہ چونکادینے والی بات ہے۔ ان ظالموں کے ظلم اور سازش کے نتیجے میں عرب بہاریہ کے نام سے تبدیلی کی ایک لہر چلی تھی، ظالم حکمراں اعداء اسلام کے پٹھواکھاڑ پھینکے گئے تھے، امید کہ ایک کرن نمودار ہوئی تھی، لیکن افسوس استعماری صلیبیوں، صہیونیوں اور روافض نے پھر ہرطرف ہماری راہوں میں تاریکی پھیلادی ۔ اورعرب بہاریہ کا سارا سہانا خواب ٹوٹ چکا ہے ۔
شام میں اہل سنت کی جیتی ہوئی جنگ کو سارے روافض، کفار، صہیونی اورصلیبی اس قدر خوفناک بنا چکے ہیں کہ ہرچوتھا شامی اپنا وطن چھوڑنے پر مجبورہوگیا ہے۔ لبنان عراق اوراردن میں خانہ جنگی کا خطرہ پھیل رہا ہے ۔ ترکی میں سارے اباحیت پسند اورشرکی طاقتوں نے انتشار اورفساد پھیلانے کی بھرپور کوشش کی ۔حزب اللہ کا ناپاک وجود ہرجگہ عفونت پھیلارہا ہے۔
مصرمیں خوش آئند تبدیلی اوراستقرارسے یہ امید ہوچلی تھی کہ شرق اوسط میں مسلمان اپنی عظمت رفتہ کی بازیابی کی راہ پر لگنے والے ہیں، لیکن اے بساآرزو کہ خاک شدہ۔ مصرکی سیاسی، تمدنی اورثقافتی حیثیت ایسی ہے کہ اس کے اندر اچھی تبدیلی آنے سے سارا شرق اوسط ضیاء بار ہوتااورشرق اوسط میں شام میں سب سے زیادہ اہم دیرپا اوردوررس جنگ جیتنے سے اہل سنت کی طاقت بحال ہونے کی بجا امید کی جارہی تھی لیکن سب کچھ خاک میں مل گیا۔
مصرمیں جو سفاکی ہوئی اورستم ڈھایا گیا اورجس بے دردی سے ساری جمہوریت پسنددنیا کی نگاہوں کے سامنے دن دہاڑے ایک لیگل دستوری اورجمہوری حکومت کو تاراج کیاگیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جمہوریت عوامی حکومت اورعوامی عدل وانصاف کے سارے نعرے سب ڈھونگ ہیں۔ ساری دنیا خودغرضی کا ظلمت کدہ ہے۔ دنیا کا ضمیر نفاق اورخود غرضی کی آگ میں جل کر خاکستر ہوگیا ہے ہرطرف جنگل کا راج ہے ۔
اس سفاکی پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ اخوان نے صدرمرسی کی برخواستگی پھر گرفتاری اورقید پر جس شدت سے احتجاج کیا اسی طرح اس کی توقع ہوسکتی تھی۔ اس احتجاج میں ان کے تین ہزار سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ مصدقہ خبرتوساڑھے آٹھ سو اموات کی ہے، لیکن غیر مصدقہ خبر کے مطابق دوہزار سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ خون ناحق اورخون مسلم کی یہ ارزانی اپنے ہی گھر میں اپنے ہی لوگوں سے ایک دلدوز سانحہ ہے کس کویہ توقع ہوسکتی تھی کہ یوگنڈراؤنڈا اورلیبیا کا کھیل یہاں کھیلا جائے گا، قتل خوں ریزی اور گرفتاری کھلے عام ہوگی اوربچوں بوڑھوں اورجوانوں کے درمیان تفریق نہ کیا جائے گا ۔ ڈاکٹر محمد ملتاجی قاہرہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور عالم عرب پیمانے کی شخصیت کی ۱۷سالہ بیٹی اسما کا قتل، اخوانی مرشد محمدبدیع کے بیٹے کا قتل مرشد اول شیخ حسن البنا کے پوتے کا قتل یہ سب کیا ہے ان بچوں کے قتل کا مطلب ؟ یہی ناکہ قیادی رینک کے لوگوں کو ہٹ کرنے سے دوسرے نروس ہوجائیں اورحوصلہ کھوبیٹھیں۔
مصرکا یہ سانحہ تمام دین پسند مسلمانوں کا سانحہ ہے ۔ اس حادثے سے قومیت پرستوں ملحدوں دہریوں اوردین دشمنوں کو حمایت اورتقویت ملی روافض کو حوصلہ ملا، اسرائیل کی بانچھیں کھل گئیں۔ مغرب ومشرق کے اندیشے دورہوگئے اوراہل سنت مارے گئے ان کی حوصلہ شکنی ہوئی اورپھر خیر واصلاح اوردرستگی کی ساری پیش رفت خاک میں مل گئی۔
مصرکے اس سانحہ کا تجزیہ اسلامی زاویہ اورمفاد ملت کے نقطہ نظر سے یہی ہوسکتا ہے لیکن دشمنان اسلام کے نقطہ نظر کو نظرانداز کرکے اگردیکھا جائے توایک تکلیف دہ صورت حال ہمارے سامنے آتی ہے۔ قومیت پرستوں ، دین بیزار مسلمانوں نے مرسی کی برطرفی کو سراہا اورجائز قرار دیا جمہوریت پسند میڈیا نے جمہوریت کا گلا گھونٹھنے پر اپنی ناراضگی جتلائی میڈیاکارویہ سرسری انداز کا ہے اورپیشہ وارانہ ۔
تحریکی تحریروں کوپڑھنے سے ایسا لگتاہے جیسے مصرمیں اخوان ہی سب کچھ ہیں اوربقیہ کچھ نہیں اور کئی تحریریں توانتہائی جارحانہ نکلی ہیں ۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ملی گزٹ میں سلفیوں کے خلاف استشراقی ہی نہیں تبشیری انداز اختیار کیا تھا جس کی میں نے تردید کی اوران کے اسلوب تحریر پر حیرت کا اظہار کیا ۔ اخوان حضرات کا رویہ پورے عالم عرب میں انتہائی حزبیاتی اورجارحانہ ہوتاہے۔ اس لئے عموما لوگ ان سے شاکی رہتے ہیں ۔ یہ کہیں ذرا سی طاقت پاتے ہیں تودوسروں کے لیے تھریٹ بن جاتے ہیں۔ مرسی کی حکومت کو حزب النور نے بھرپور تعاون دیا تاکہ اسلام پسندوں کی حکومت قائم ہوجائے۔ اگرحزب النور اورسلفی علماء کی حمایت نہ ہوتی تومرسی کرسی صدارت تک نہیں پہنچ سکتے تھے ۔ قوم پرستوں ملحدوں دہریوں اوردین کو اہمیت نہ دینے والوں کی حکومت بن نہ سکے اسلامی حکومت بنے اس لئے سلفی گروپ نے اخوان کا بھرپور ساتھ دیا۔ جس نے بھی اخوان کا ساتھ دیا ان کو اخوانیوں سے سخت مایوسی ہوئی ۔انہوں نے طوطا چشمی اورتبختر کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ایک سال کے اندر سبھوں نے ان سے دوری بنالی۔ اگران کا ساتھ دینے والوں میں سے کوئی ان سے پورٹ فولیو مانگتا توکہتے تم اسے کیا کروگے تمہیں اس کا تجربہ نہیں ہے ۔ حکومت کے ترقیاتی پروجکٹ اخوان کے ذریعے پورے ہونے لگے۔ ویلفیرکے سارے حکومتی کام اخوان انجام دینے لگے ۔ اقرباء نوازی اورتحزب پرستی کی حد ہونے لگی۔ ظاہرہے یہ کسی کے لئے قابل برداشت نہیں ہوسکتا تھا۔اس لئے اخوان حکومت کا ان کے ساتھی ساتھ چھوڑنے اوران سے دوری بنانے لگے۔ اس کے بعد اصلا اسلامی حکومت اقلیت میں آچکی تھی۔ اس صورت حال کا جائزہ لے کر اسلام پسندوں کے مخالف سڑک پر آگئے ۔ اورپھر فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے مرسی کو برخواست اورنظر بند کردیا گیا اورعدلیہ کا جراحت پر نمک چھڑکنے کا کام دیکھئے کہ اس نے حسنی مبارک کو آزاد کرانے کا حکم دیدیا۔
جوہونا تا سوہوگیا حکمت اور دانشمندی کا تقاضا تھا کہ مخاصمت اورمصادمت کا رویہ نہ اپنایاجاتا۔ اخوان کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ وہ اقلیت کی پوزیشن میں چلے گئے اکثریت کا منڈیٹ ان کے خلاف ہوگیا ایسی حالت میں فوجی حکومت سے ان کی مخاصمت درست نہیں ہے۔ امن پسندی کے ساتھ انھیں پبلک میں جانا چاہیے اورجلد الیکشن کے انعقادکا جو وعدہ کیا جاتا ہے اس کو پورا کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ انھیں اکثریت کا منڈیٹ حاصل ہوجائے۔ صدر مرسی دوبارہ بحال نہ ہوں گے مصر کویت نہیں ہے۔ مصرمیں عالمی اورعلاقائی طاقتو ں کی مرضی یہی ہے کہ مرسی بحال نہ ہوں۔
اخوان نے جویہ ذہن بنالیا ہے کہ ابھی نہیں توکبھی نہیں درست نہیں ہے ہمیشہ ان کی یہی عجلت پسندی رہی انہوں نے ٹکڑانے کی ہمیشہ روش اپنائی خود تباہ ہوئے۔ اورملک کو تباہ کیا اوروطن فروشوں کو پنپنے اورانتقام لینے کا موقع دیا۔ کہا جاتاہے کہ مصری کینہ پرورہوتے ہیں اورانتقامی ذہن رکھتے ہیں اس ذہنیت کا مظاہرہ اخوان سے بھی ہوتاہے اسی لئے مصرمیں انتقام درانتقام کا چکرچلتا رہتا ہے۔ تحریکی دنیا کے کسی خطے میں ہوں چونکہ ان کی تحریکوں میں تحریک پرستی کی بڑی شدت سے تلقین ہوتی ہے اس لئے حزبیاتی تعصب میں ان سے وابستہ لوگ ڈوبے ہوتے ہیں۔ دعوی اتحاد کا کرتے ہیں اورمسلک سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں اور خود تحریک پرستی میں ڈوبے ہوتے ہیں مسلک والوں سے زیادہ یہ تحریکی مسلک کے پرستار ہوتے ہیں۔
ان کی یہی تحریک پرستی کی اندھی عصبیت ہوتی ہے کہ دوسروں کو زیر وسمجھتے ہیں اس لئے ہرجگہ تحریکیوں سے لوگ نفرت کرتے ہیں اوران کی مطلب پرستی اورخودپسندی سے شاکی رہتے ہیں۔ گلف کے حکمرانوں ا ورعام لوگوں کو ان سے اسی لئے چڑ ہے کہ یہ اپنی ثوریت کا ہرجگہ مظاہرہ کرتے ہیں تحریکی حضرات کو اپنے دعووں کے مطابق رہنا چاہیے۔ دعوی اتحاد کا ہو اور عمل اس کے برخلاف، نفرت کا باعث ہوتا ہے۔ مسلم یونورسٹی علی گڈھ میں عرب کے اخوانی طلباء سے گفتگو ہوئی توہرکوئی یہ شیخ ابن بازکے متعلق کہتا (ہو اعمی لا یعرف شےئا) وہ تواندھاہے کچھ نہیں جانتا ہے۔ جب وقت کے سب سے بڑے ان کی نگاہ میں زیر وہیں تویہ دوسروں کو کیا اہمیت دے سکتے ہیں۔
اس موقع پر یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ جو حکومت غیراسلامی طریقے سے بنتی ہے غیراسلامی غیر دستوری طریقے سے چلی جاتی ہے ۔ اسلامی حکومت موجودہ مغربی سیاست کاری سے قائم نہیں ہوسکتی ہے۔ اس کے لئے جائز اسلامی جدوجہد جاری رکھنا ضروری ہے۔ مغربی سیاسی سرگرمی سے اسلامی حکومت نہ قائم ہوسکتی ہے نہ اسے استقرار حاصل ہوسکتا ہے مغربی جمہوری طریقے کے مطابق ووٹ حاصل کرکے حکومت کی کرسی تک توپہنچا جاسکتا ہے۔ مگراسلامی حکومت نہیں قائم کی جاسکتی ہے۔ اورجب سیاسی عمل مغربی طرز پر جاری ہو اورہرفاسق وفاجر دشمن دین ، دین بیزار یکساں حقوق کے ساتھ میدان سیاست میں اترے تواس سے دین سے دوری عام ہوتی ہے اوردینی ماحول بگڑتا ہے اس میں تعدد احزاب ہی اصل سیاست کاری مانی جاتی ہے۔ ظاہر ہے اس میں گندگی ہی گندی آسکتی ہے عصبیت ہی عصبیت آسکتی ہے۔ ایسی سیاست کے لئے جان دینا احتجاج کرنا دھرنے دینا کہاں تک درست ہے۔ یہ بھی قابل غورہے۔ دین، جان مال عزت اورعقل کے تحفظ کا یہاں مسئلہ نہیں کہ ضرور ات خمسہ میں شمار ہواوران کے تحفظ کے لئے جان دینا شہادت کا درجہ پانا ہے۔ کرسی غلط راستے سے آئی غلط راستے سے چلی گئی۔ اس کے لئے جنگ چھیڑنا ،لڑائی کرنا اورپورے ملک میں بغاوت اورانتشار کا ماحول پیدا کرنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ حکومت چلی گئی اسلامی امارت توتھی نہیں کہ اسلام پسند کرسی کے لئے اتنا ماتم کریں۔ بیلٹ باکس سے حکومت آئی تھی تھوڑا صبر کرنا چاہیے اور بیلٹ باکس کے تھروپھر کرسی تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ احتجاج اورہنگامے سے فوجی حکومت طویل ہوگی، ملکی معیشت تباہ ہوگی ۔ اعداء اسلام کی سازشیں گمبھیرہوں گی اورجیسا کہ خبروں میں آرہا ہے یہ سازش ہورہی ہے کہ اخوان کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرکے ان پر پابندی لگادی جائے اورانھیں عملی سیاست سے محروم کردیا جائے۔
اگرعوام میں پکڑہے توجوروجبرکب تک چلے گا۔ ترکی میں کمالی فوج جمہوریت کو پنپنے نہیں دیتی تھی اوراسلام پسندوں کو سخت ناپسندکرتی تھی۔ ۱۹۶۰میں اس نے عدنان مندریس کو اسلامی رجحان رکھنے کے سبب وزارت عظمی کی کرسی سے اتار کرپھانسی دیدیا تھا۔ نجم الدین اربکان کواسلام پسندی کے سبب پارٹی بنانے سے روکا باربار جیل میں ڈالا۔ الیکشن جیتنے کے بعدبھی ان کو حکومت کرنے سے محروم رکھا لیکن جب عوام اسلام پسندوں سے قریب ہوگئی توفوج اپنی شرارتوں کے باوجود بے اثرہوتی چلی گئی۔ یمن تونس میں یہی ہوا۔ پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹراپنی زندگی کے ایام گن رہا ہے ۔ نوازشریف جو ۱۰سال پہلے ملک بدرکردےئے گئے تھے آج پھرحکمراں ہیں اورمشرف جیل میں ہیں۔ اور نوازشریف اس پوزیشن میں ہیں کہ مشرف کے متعلق فیصلہ کریں انھیں تاحیات جیل میں رکھیں یا پھانسی کے تختے پر لٹکادیں ۔ اخوان جو اپنے آپ کو بہت اسمارٹ عاقل اور دانا سمجھتے ہیں انھیں نوشتہ دیوار پڑھنی چاہیے ۔ ان کے لئے واحد راستہ ہے بیلٹ باکس۔ اسی سے آئے تھے۔ بیلٹ باکس کی طرف واپس جائیں اورعوام میں اتنی مضبوط پکڑ بنائیں کہ دوبارہ پاجیوں کو انھیں ہٹانے کی ہمت نہ ہو۔ جب مغربی سیاست کاری ہی منظور ہے توپھراسی کو اپنایا جائے۔ لڑائی جھگڑا اورقتل وخوں ریزی سے سب کا نقصان ہی نقصان ہے۔ مذاکرات اورمفاہمت واحد حل ہے ۔
اسلامی حکومت قائم کرنے کا فریضہ مغربی کافرانہ سیاست کے ذریعہ نہیں ادا ہوگا۔ اس سے صرف اسلامی قوت اوراسباب کا ضیاع ہوتا ہے اوراسلامی تربیت کی ساری محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ اسلام سے والہانہ شیفتگی رکھنے کے باوجود لوگ مغربی سیاست کاری میں پھنس کر سیاسی حیوان بن جاتے ہیں۔ موجودہ سیاست کاری سے اسلامی جہود کی بربادی ہوتی ہے اورلوگوں کی توجہ لاحاصل سیاسی سرگرمیو ں کی طرف ہوجاتی ہیں۔ جب صورت حال یہ ہے کہ دین پسندساتھی مغربی جمہوریت کے ذریعہ کرسی حکومت تک پہنچنے کے باوجود اپنے ساتھیوں کو حقارت سے ٹھکراتے رہے اورخود پسندی ومنفعت پرستی کو اپنا وطیرہ بنالیا توپھرکیسے وہ اسلامی نظام سنبھال سکتے ہیں ، اسلامی نظام میں تعددیت کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
مصرمیں کئی سلفی علماء اورسلفی انجمنیں اس حق میں نہیں تھیں کہ مغربی کافرانہ سیاست کاری میں حصہ لیاجائے۔ ایسے علماء اورانجمنیں سیاست کاری سے دوررہ کر دعوت وتبلیغ اور ویلفےئر کاموں کے حق میں تھیں اوروہ سیاست کاری سے دوررہیں جو علماء موجود ہ مصری سیاست کاری میں شریک ہونے کے حق میں تھے ان کو بھی اس سے بھاری نقصان کا اعتراف ہے۔ مصرکے بزرگ سلفی عالم شیخ ابواسحق الحوینی نے اپنے ایک انٹرویوں میں فرمایا کہ سیاست کاری میں حصہ لینے سے پہلے جس مسجد میں ان کے دروس میں پندرہ پندرہ سولوگ شریک ہوتے تھے اب اسی مسجد میں بمشکل پندرہ آدمی ان کے دروس میں بیٹھتے ہیں۔ مغربی طرز سیاست مسلمانوں کو خیر سے عاری بنادیتی ہے۔
مصرمیں جب حزب مخالف کے احتجاج سے حالات بگڑنے لگے اورزندگی مفلوج ہوگئی توحزب النور نے فوج سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ صورت حال بگڑنے نہ پائے اورملک میں خون خرابہ نہ ہو۔موجودہ صورت حال میں شیخ الازہر نے مذاکرات اورمفاہمت کی بات کی اورخود کو ثالثی کے لئے پیش کیا تاکہ فوج اوراخوان قریب آئیں اورسیاسی تعطل ختم ہولیکن اخوان نے ان کی پیش کش کو مسترد کردیا۔ خوداخوان کو فوج سے زیادہ مذاکرات کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ عوام کے نمائندہ ہیں اور فوج سے زیادہ عوام کو راحت پہنچانا ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ جب صورت حال بگڑ جائے تواس کو مزید بگاڑنے سے بچانا ضروری ہوتا ہے۔ اخوان کو چاہیے کہ جلتی پرتیل ڈالنے کے بجائے پانی ڈالنے کی کوشش کریں۔
موجودہ حالات میں کام کرنے کا سلفی نقطہ نظرہی قابل قبول ہے۔ دعوت وتدریس، تعلیم وتربیت ، فلاح عام کا معیاری کام ہو اورحتی المقدور عوام کو اسلام کے زیر اثر لایا جائے اورہرطبقے میں دینی اثرات بڑھایا جائے۔ دینی اثرات بڑھانے سے عوام پر جو پکڑبنتی ہے وہ سیاسی پکڑ سے زیادہ دیرپا اورمفید ہوتی ہے بلکہ دینی پکڑ سے سیاسی ثمرات بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔
سیاست کاری یا سیاسی اپروج کے ذریعہ کوئی بھی تحریک کتنا ہی پھیل جائے لیکن اس کے ہاتھ شور ہنگامہ خود پسندی اورتباہی آئے گی۔ اس سے دینی حس مجروح ہوگی اوردین کو غیر شعوری طورپر سیاست کے تابع بنانے کی کوشش کی جائے گی اخوان اور جماعت اسلامی کے حصہ میں شورش ہنگامہ اورسلبیات ہی آئے ہیں۔ اب بھی موقع ہے کہ تحریکی حضرات مین اسٹریم میں آجائیں اورمغربی سیاست کاری کوچھوڑکر اصلاح امت کا کام کریں۔ ورنہ دن بدن ان کی حیثیت مرفوض ہوتی چلی جائے گی۔
موجودہ صورت حال میں حزب النور کا موقف سب سے زیادہ شاندارہے۔ انہوں نے حزبیت سے بالاہوکر ملک ووطن اوراہل وطن کے مفاد میں سقوط مرسی سے پہلے فوج سے مذاکرات کئے تاکہ صورت حال بگڑنے نہ پائے۔ اورغیر دین پسندوں کے دباؤ میں فوج کے اندر جارحیت نہ آنے پائے۔ لیکن اخوان کے رد عمل نے فوج کو جارح بنادیا ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہرحادثے اورنازلہ میں صحیح موقف اختیار کرنا لازمی ہوتا ہے۔ سیسی فوج کا اعلی کمانڈراخوان کا آدمی ہے پھر اس نے کیوں جارحیت کا ردیہ اپنایا سمجھ سے بالا ترہے۔ سیاسی صورت حال میں معتدل موقف اختیار کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔ فساد پھیلے جان واملاک ضائع ہوں۔درست نہیں اس سے بہترہے کہ مفاہمت اورمصالحت کا رویہ اختیار کیا جائے۔ حزب النور نے اس بحرانی حالت میں مصالحت اورمفاہمت کا رویہ اختیار کرکے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے ۔ آج لوگوں کا عجب حال ہے نوع بہ نوع شرکیات کو نظر انداز کردیتے ہیں فسق وفجورکی بے شمار صورتیں الجھن کا باعث نہیں بنتی ہیں لیکن کرسی کے لئے جدال وقتال میں بڑے طاق ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں نادان لوگ اس وقت مصرکے مسائل کو گرمی محفل کا مسئلہ بناتے ہیں اورایسی بے سرپیر باتیں کرتے ہیں جیسے یہ مسئلہ امت کا نہیں کسی خاص پارٹی اورجماعت کا ہے اورجیسے جائداد کے بٹوارے کا مسئلہ ہے۔ اورایسا لگتاہے جیسے فقط زبانی جمع خرچ کے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں مصرکی ملکیت ہے اورانہوں نے اخوان کو بخشش میں دیدی ہے۔ فرقہ پرستی کی یہی گھناؤنی ذہنیت عجب وتکبر اورافتراق کا باعث ہے۔ ایسے مواقع پر اوتھلے اورسطحی حزبیاتی مفاد کے اسیر لوگوں کوبطور فرد ملت سوچنا چاہیے۔ حقداری حصہ داری اورجاگیرداری کی ذہنیت نہیں بنانی چاہیے۔
***
مصری کے فوجی انقلاب کے مختلف پہلووں کا احاطہ کیے ہوئے فضیلۃ الشیخ عبد المعید مدنی کی زبردست تحریر۔
http://azizulhind.com/epaper/fullstory.php?id=1430