السلام علیکم
کرم فرمائی کا شکریہ
اس حدیث شریف کا بغور مطالعہ فرمالیں کہ کیا پیغام ہے
’’اعفوا اللحی و أرخوا اللحی و خالفوا المشرکین و خالفو المجوس أو کما قال علیہ السلام‘‘ داڑھی کو چھوڑ دو ۔ داڑھی بڑھاؤ اور مشرکین و مجوس کی خلاف ورزی کرو
اب بتائیں کہ یہودی مجوسی اور مشرکین (دیار ہندو پاک) میں غیر مسلموں کے مذہبی پیشواؤں کا طریقہ داڑھی کو چھوڑنے کا ہے ،سکھ ،پنڈت، وغیرہ کو دیکھ لیں کیا بے ہنگم شکل ہوتی ہےاسی طرح اور دوسروں کاحال ملاحظہ فرمالیں یہودی داڑھی کو چھوڑے رکھتے ہیں ۔ اور حدیث کے الفاظ ہیں ’’ مشرکین و مجوس کی خلاف ورزی کرو‘‘ تو مخالفت کس طرح ہوگی یہ بات آپ واضح فرمادیں یہ بندے پر احسان ہوجائیگا ۔جب کہ استدلال کے لئے ایک اثر بھی موجود ہے جو ہمارے لیے معین ہے ملاحظہ فرمائیں۔
’’ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما حج ميں مٹھى سے زيادہ داڑھى كاٹ ديا كرتے تھے‘‘ فعل صحابی مؤید ہے اور یہ عمل کسی بھی عالم اور امام کی رائے سے زیادہ اہم اور افضل ہے فقط واللہ اعلم بالصواب
عابد بھائی گزارش ہے کہ کبھی یہود اور سکھوں کی مونچھوں پر بھی نظر فرمایئے !
وہ جہاں اپنی داڑھیوں کو بڑھاتے ہیں ،وہاں پر اپنی مونچھوں کو بھی بڑھاتے ہیں۔۔۔اور ان غلیظ لوگوں کی مونچھیں ان کے منہ میں پڑ رہی ہوتی ہیں،جب کہ ہماری شریعت ہمیں مونچھیں کترنے اور اچھی طرح پست کرنے کا حکم دیتی ہے۔تو مشابہت کہاں باقی رہی؟؟
حدیث کے الفاظ تو ہیں کہ
داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کتراؤ۔۔۔آپ نے اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے مونچھوں کا لفظ ہی غائب کر دیا۔۔۔۔
یہ حکم دینے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود اور مجوس کی مخالفت کرو۔یعنی داڑھیاں بڑھا کر اور مونچھیں پست کرکے پھر ان کی مخالفت کرو !۔
اور جب ہم دونوں احکام پر عمل کریں گے تو مشابہت کہاں رہے گی؟
مشابہت ختم کرنے کے حکم پرعمل کرنے کے لئے دونوں احکام کی پیروی ضروری ہے
مشابہت تو تب ہو جب ہم دونوں احکام پر ہی عمل نہ کریں یا دونوں میں سے کسی ایک پر عمل کریں اور دوسرے کو چھوڑ دیں !!!
اگر آپ کا طرز استدلال اپنایا جائے تو کوئی بھی شخص جو کلین شیو کرتا ہے ۔۔۔وہ کہ دے گا کہ میں مونچھیں صاف کر کے یہود،مجوس اور سکھوں کی مخالفت کر رہا ہوں!!!
فماذا جوابکم فہو جوابنا ...........!