لمبی لمبی مونچھیں نہیں رکھنی چاہئیں،بلکہ چالیس دنوں میں ان کا کچھ حصہ کاٹنا ضروری ہے۔
اسحاق بن عیسیٰ(ثقہ راوی)سے روایت ہے کہ میں نے امام مالک بن انس (رحمہ اللہ)کو دیکھا،ان کی مونچھیں بھرپور اور زیادہ تھیں،ان کی دونوں مونچھوں کے باریک سرے تھے،پھر میں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:مجھے زید بن اسلم نے عامر بن عبداللہ بن زبیرسے حدیث بیان کی،انھوں نے عبداللہ بن زبیر(رضی اللہ عنہ)سے کہ کوئی اہم معاملہ ہوتا تو عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ)اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے اور منہ سے پھونکیں مارتے تھے،پس انھوں نے مجھے حدیث کے ساتھ فتویٰ دیا۔
(کتاب العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد ١٥٨٩/٢،وسندہ صحیح،دوسرا نسخہ ٢٦١/١ح١٥٠٧،نیز دیکھئے طبقات ابن سعد ٣٢٦/٣ وسندہ صحیح)
ابو سلمہ (تابعی رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا،وہ اپنی مونچھیں کترواتے تھے حتیٰ کہ ان میں سے کوئی چیز بھی باقی نہیں چھوڑتے تھے۔(الاثرم بحوالہ تغلیق التعلیق ٧٢/٥ وسندہ حسن،وعلقہ البخاری فی صحیح قبل ح ٥٨٨٨)
امام سفیان بن عیینہ المکی رحمہ اللہ مونچھوں کو استرے سے مونڈتے تھے۔
(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ ص ٣٧٨-٣٧٩ح٣٨٧وسندہ صحیح)
جبکہ اس کے سراسر برعکس امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:"یؤخذ من الشارب حتی یبدو طرف الشفۃ وھو الاطار ولا یجزہ فیمثل بنفسہ" مونچھوں میں سے کچھ کاٹنا چاہیے تاکہ ہونٹ کا کنارہ ظاہر ہو جائے اور یہ وہ کنارہ ہے جو منہ کی طرف سے ہونٹوں کو گھیرے ہوتا ہے اور انھیں پورا کاٹ نہ دے(یعنی استرے سے نہ مونڈوائے) ورنہ پھر وہ مثلہ کرنے والا بن جائے گا۔(موطا امام مالک ٩٢٢/٢ح١٧٧٥)
یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور راجح یہی ہے کہ مونچھیں استرے سے نہ مونڈوائے بلکہ قینچی وغیرہ سے کاٹے ،حتیٰ کہ چمڑا نظر آنے لگے اور اگر ہونٹوں کے اوپر سے کاٹ کر باقی مونچھیں بڑھالے تو بھی جائز ہے۔واللہ اعلم
شمائل ترمذی ترجمہ،تحقیق و فوائد حافظ زبیر علی زئی،ص ١٩٥-١٩٦