• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصر کے مفتی اعظم کا عجیب فتوی

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
بھائی میری غلطی ہوئی
مصری کو چھوڑ کر ہندوستانی کو پکڑ لیا بھائی غلطی ہوئی معاف کرو میں بھی مونچھے بالکل صاف کرادوں گا داڑھی کو لمبی کرلوں گا۔بس بھائی اور کچھ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
بھائی میری غلطی ہوئی
مصری کو چھوڑ کر ہندوستانی کو پکڑ لیا بھائی غلطی ہوئی معاف کرو میں بھی مونچھے بالکل صاف کرادوں گا داڑھی کو لمبی کرلوں گا۔بس بھائی اور کچھ
مفتی صاحب غصے یا ری ایکشن میں آکر نہیں بلکہ سنت محمدیﷺ سمجھ کر ایساکرنا۔ جزاک اللہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بیشک آپ نے صحیح فرمایا مضمون کی تدوین میں مجھ سے غلطی ہوئی ذہن مصری مفتی صاحب کی تردید میں تھا اس لیے جواب وہیں سے شروع کردیا ۔جب کہ کہنا یہ چاہئے تھا کہ ڈارھی پر تمام انبیاء کا تعامل ہے اور ہماری شریعت میں ایک مشت سے کم رکھناناجائز ہے
جزاکم اللہ خیرا!
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے!

گزارش یہ ہے کہ ایک مفتی کو اپنے الفاظ، اپنی تحریر میں بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔ آپ نے اتنا بڑا دعویٰ - بغیر دلیل کے - کر دیا کہ تمام انبیائے کرام﷩ اور صحابہ کرام﷢ مشت بھر داڑھی رکھتے تھے، حالانکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: « عشرٌ من الفِطرةِ : قصُّ الشَّاربِ ، وإعفاءُ اللِّحيةِ ۔۔۔ الحديث » ۔۔۔ صحيح مسلم

اور داڑھی کو معاف کرنے میں مشت کے برابر کاٹنا ہرگز نہیں آتا۔ جب ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں: اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني تو ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کے بعض گناہ معاف ہوجائے اور بعض باقی رہ جائیں۔

تو درج بالا حدیث مبارکہ کے مطابق داڑھی کو مکمل معاف کرنا ہی فطرت ہے اور یہاں فطرت کا معنیٰ پچھلے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت بیان کیا گیا ہے۔

وَأَمَّا شَرْح الْفِطْرَة فَقَالَ الْخَطَّابِيُّ : ذَهَبَ أَكْثَر الْعُلَمَاء إِلَى أَنَّ الْمُرَاد بِالْفِطْرَةِ هُنَا السُّنَّة , وَكَذَا قَالَهُ غَيْره , قَالُوا وَالْمَعْنَى أَنَّهَا مِنْ سُنَن الْأَنْبِيَاء (فتح الباري، شرح النووي لصحيح مسلم، عون المعبود، شرح النسائي للسندي)

وَقَدْ رَدَّ الْقَاضِي الْبَيْضَاوِيّ الْفِطْرَة فِي حَدِيث الْبَاب إِلَى مَجْمُوع مَا وَرَدَ فِي مَعْنَاهَا وَهُوَ الِاخْتِرَاع وَالْجِبِلَّة وَالدِّين وَالسُّنَّة فَقَالَ : هِيَ السُّنَّة الْقَدِيمَة الَّتِي اِخْتَارَهَا الْأَنْبِيَاء وَاتَّفَقَتْ عَلَيْهَا الشَّرَائِع , وَكَأَنَّهَا أَمْر جِبِلِّيّ فُطِرُوا عَلَيْهَا اِنْتَهَى. (فتح الباري)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جب کہ کہنا یہ چاہئے تھا کہ ڈارھی پر تمام انبیاء کا تعامل ہے اور ہماری شریعت میں ایک مشت سے کم رکھناناجائز ہے اور اس سےزیادہ یعنی اِرسالِ کثیر یہ یہودیوں سے تشابہہ ہے جیسا میں واضح کرچکا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اب اختلاف کی کوئی وجہ نہ رہی ہوگی میرے مضمون میں جو کمی تھی اس کی اصلاح کردی ہے
ازراہ کرم اس کی دلیل بھی پیش فرما دیجئے کہ ہماری شریعت میں داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے۔

جہاں تک آپ نے سیدنا ابن عمر﷜ کا اثر ذکر کیا ہے تو وہ صحابی کا فہم ہے، اور ہے بھی حج سے متعلق۔ عام نہیں ہے۔ ازراہِ کرم صحیح وصریح دلیل پیش کیجئے!

جہاں تک آپ کا فرمانا ہے کہ یہود چونکہ داڑھی نہیں کاٹتے تو ہمیں داڑھی کاٹ کا ان کی مخالفت کرنی چاہئے تو سوال یہ ہے کہ صرف داڑھی کاٹ کر ہی کیوں مخالفت کی جائے، شیو کرکے کیوں مخالفت نہ کی جائے؟ اگر آپ کہیں کہ نہیں یہ تو نبی کریمﷺ کی حکم عدولی ہے تو محترم داڑھی کاٹنا بھی آپﷺ کے حکم کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آپﷺ نے تو داڑھی کو معاف کرنے (اعفوا)، چھوڑنے (أرجوا)، لٹکانے (أرخوا) اور بڑھانے (وفروا) کا حکم دیا ہے۔
اگر آپ کی منطق ہی مان لی جائے تو بتائیے کہ یہودی ختنہ بھی کرتے ہیں تو کیا اس میں بھی ان کی مخالفت کی جائے؟؟؟ اسی طرح یہودی لباس پہنتے ہیں، کھاتے پیتے اور سوتے ہیں تو کیا اس میں بھی ان کی مخالفت کی جائے؟؟؟
آپ کا کہنا ہے کہ پنڈتوں کی داڑھی بے ہنگم ہوتی ہے تو بھائی اگر کنگھی کر لی جائے تو وہ ٹھیک ٹھاک ہوجائے گی (ابتسامہ) کیا خیال ہے۔

مفتی بھائی! مخالفت غیر مسلموں کے شعار اور ہمارے شریعت کے خلاف کاموں میں ہوتی ہےاور اس طرح ہوتی ہے جس طرح شریعت بتائے۔ اگر غیر مسلم بھی مسلمانوں کو دیکھ کر، یا کسی اور وجہ سے کوئی ایسا عمل شروع کر دیں، جس کا حکم ہماری شریعت میں بھی ہو تو ہم اپنی مرضی کے مطابق صرف مخالفت برائے مخالفت میں اپنی شریعت کو ہی ہرگز اپنے قدموں تلے نہیں روندیں گے۔
یہودی 10 محرم کا روزہ رکھتے تھے تو نبی کریمﷺ نے ان کی مخالفت میں یہ نہیں کیا کہ ہمیں روزہ چھوڑنے کا حکم دیا بلکہ ہمیں بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا (کیونکہ سیدنا موسیٰ﷤ کا تعلق مسلمانوں سے زیادہ ہے) لیکن ساتھ ہی ہمیں ایک روزہ پہلے یا بعد میں رکھنے کا حکم فرمایا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بھائی میری غلطی ہوئی
مصری کو چھوڑ کر ہندوستانی کو پکڑ لیا بھائی غلطی ہوئی معاف کرو میں بھی مونچھے بالکل صاف کرادوں گا داڑھی کو لمبی کرلوں گا۔بس بھائی اور کچھ
مفتی صاحب غصے یا ری ایکشن میں آکر نہیں بلکہ سنت محمدیﷺ سمجھ کر ایساکرنا۔ جزاک اللہ
احادیث مبارکہ میں مونچھیں صاف کرانے کا نہیں، بلکہ کتروانے کا حکم ہے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
احادیث مبارکہ میں مونچھیں صاف کرانے کا نہیں، بلکہ کتروانے کا حکم ہے۔
کتروانے سے تبلیغی جماعت کے افراد بلیڈ پھیرنا سمجھتے ہیں۔۔۔
اکثریت اسی عمل پر موجود ہے۔۔۔ مولاناطارق جمیل رحمۃ اللہ کی مثال بطور ثبوت پیش کررہا ہوں، جنید جمشید، سعید انور، انضمام الحق۔۔۔
بھی مونچھ پر بلیڈ چلاتے ہیں۔۔۔ کیا اُن کا یہ عمل جائز ہوگا؟؟؟۔۔۔ یا نفس کی پیروی میں اس کو ہم شمار کریں گے؟؟؟۔۔۔ سوال بہت زیادہ اہم ہے۔۔۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,597
پوائنٹ
139
کتروانے سے تبلیغی جماعت کے افراد بلیڈ پھیرنا سمجھتے ہیں۔۔۔
اکثریت اسی عمل پر موجود ہے۔۔۔ مولاناطارق جمیل رحمۃ اللہ کی مثال بطور ثبوت پیش کررہا ہوں، جنید جمشید، سعید انور، انضمام الحق۔۔۔
بھی مونچھ پر بلیڈ چلاتے ہیں۔۔۔ کیا اُن کا یہ عمل جائز ہوگا؟؟؟۔۔۔ یا نفس کی پیروی میں اس کو ہم شمار کریں گے؟؟؟۔۔۔ سوال بہت زیادہ اہم ہے۔۔۔
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ شمائل ترمذی حدیث نمبر ١٦٧ کی شرح میں لکھتے ہیں:
لمبی لمبی مونچھیں نہیں رکھنی چاہئیں،بلکہ چالیس دنوں میں ان کا کچھ حصہ کاٹنا ضروری ہے۔
اسحاق بن عیسیٰ(ثقہ راوی)سے روایت ہے کہ میں نے امام مالک بن انس (رحمہ اللہ)کو دیکھا،ان کی مونچھیں بھرپور اور زیادہ تھیں،ان کی دونوں مونچھوں کے باریک سرے تھے،پھر میں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:مجھے زید بن اسلم نے عامر بن عبداللہ بن زبیرسے حدیث بیان کی،انھوں نے عبداللہ بن زبیر(رضی اللہ عنہ)سے کہ کوئی اہم معاملہ ہوتا تو عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ)اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے اور منہ سے پھونکیں مارتے تھے،پس انھوں نے مجھے حدیث کے ساتھ فتویٰ دیا۔(کتاب العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد ١٥٨٩/٢،وسندہ صحیح،دوسرا نسخہ ٢٦١/١ح١٥٠٧،نیز دیکھئے طبقات ابن سعد ٣٢٦/٣ وسندہ صحیح)
ابو سلمہ (تابعی رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا،وہ اپنی مونچھیں کترواتے تھے حتیٰ کہ ان میں سے کوئی چیز بھی باقی نہیں چھوڑتے تھے۔(الاثرم بحوالہ تغلیق التعلیق ٧٢/٥ وسندہ حسن،وعلقہ البخاری فی صحیح قبل ح ٥٨٨٨)
امام سفیان بن عیینہ المکی رحمہ اللہ مونچھوں کو استرے سے مونڈتے تھے۔(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ ص ٣٧٨-٣٧٩ح٣٨٧وسندہ صحیح)
جبکہ اس کے سراسر برعکس امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:"یؤخذ من الشارب حتی یبدو طرف الشفۃ وھو الاطار ولا یجزہ فیمثل بنفسہ" مونچھوں میں سے کچھ کاٹنا چاہیے تاکہ ہونٹ کا کنارہ ظاہر ہو جائے اور یہ وہ کنارہ ہے جو منہ کی طرف سے ہونٹوں کو گھیرے ہوتا ہے اور انھیں پورا کاٹ نہ دے(یعنی استرے سے نہ مونڈوائے) ورنہ پھر وہ مثلہ کرنے والا بن جائے گا۔(موطا امام مالک ٩٢٢/٢ح١٧٧٥)
یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور راجح یہی ہے کہ مونچھیں استرے سے نہ مونڈوائے بلکہ قینچی وغیرہ سے کاٹے ،حتیٰ کہ چمڑا نظر آنے لگے اور اگر ہونٹوں کے اوپر سے کاٹ کر باقی مونچھیں بڑھالے تو بھی جائز ہے۔واللہ اعلم
شمائل ترمذی ترجمہ،تحقیق و فوائد حافظ زبیر علی زئی،ص ١٩٥-١٩٦
نیز حدیث نمبر ١٥ کے فوائد میں رقمطراز ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مونچھیں پست رکھتے تھے۔(طبقات ابن سعد ٤٤٩/١ وسندہ صحیح)
شمائل ترمذی ترجمہ،تحقیق و فوائد حافظ زبیر علی زئی،ص ٧٠
 
Top