تحریف کاپہلا سہارا
عوامہ صاحب نے اس حدیث میں تحریف کے لئے سب سے پہلے یہ عکس دیاہے:
عوامہ صاحب نے پہلے نمبر پرجس مخطوطہ کا سہارا لیا ہے وہ شیخ عابدسندھی (المتوفی ١٢٥٧)کا مخطوطہ ہے جوانتہائی غیرمستند ہے ۔
یادرے کہ یہ نسخہ خود شیخ عابد السندی نے اپنے ہاتھ سے نہیں لکھا بلکہ دوسرے سے لکھوایا ہے جس نے لاپرواہی میں یہ غلطی کی ہے۔اوراس نسخہ کی تکمیل کے بعد اصل سے اس کا مقابلہ ہوایانہیں اس کی بھی وضاحت نہیں ہے۔ بلکہ جس اصل سے اس نسخہ کو نقل کیا گیا ہے اس کا بھی کوئی سراغ نہیں ملتا ۔اس پر مستزاد یہ کہ اس نسخہ میں ناسخ نے بہت ساری غلطیاں کی ہیں اور بہت ساری اسانید ومتون میں گڑبڑی کی ہے۔
[ مصنف ابن ابی شیبہ :ج١ص٣٦٨، مقدمة :بتحقیق حمدالجمعہ ومحمداللحیدان]
ان وجوہات کی بناپر یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ یہ نسخہ قطعا لائق اعتماد نہیں ہے ۔ بلکہ خود عوامہ صاحب نے ہی اس مخطوطہ کا تعارف کراتے ہوئے صاف لفظوں میں کہہ دیا :
وھی نسخة للاستیئناس لالاعتماد علیھا
یہ نسخہ استئناس کے لئے اوراس پراعتماد نہیں کیاجاسکتا[مصنف ابن ابی شیبہ :ج ١ص ٢٨،مقدمة: بتحقیق عوامہ]
غور فرمائیں کہ جب خود عوامہ صاحب کا یہ اعلان ہے کہ یہ نسخہ ناقابل اعتماد ہے تو پھرآں جناب نے تحت السرہ(زیرناف) کی زیادتی میں اس پر اعتماد کیسے کرلیا ؟
صرف عوامہ نے ہی نہیں بلکہ ان سے قبل بھی جتنے محققین نے مصنف ابن ابی شیبہ کی تحقیق کی ہے کسی نے بھی اس نسخہ پر اعتمادنہیں کیا ہے اورنہ ہی کسی نے اس کے سہارے وائل بن حجر کی حدیث میں تحت السرہ کا اضافہ کیا ۔
عوامہ صاحب سے قبل حمدبن عبداللہ الجمعہ اورمحمدبن ابراہیم اللحیدان نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ کی تحقیق کی ہے اور ان محققین نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ یہ نسخہ غیرمستند ہے۔
[دیکھیے :مصنف ابن ابی شیبہ :ج ١ص ٣٦٨تا٣٦٩، مقدمة :بتحقیق حمدالجمعہ ومحمداللحیدان]
اس نسخہ کے غیرمعتبرہونے کے ساتھ ساتھ اس بات پربھی غورکیجئے کہ وائل بن حجررضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث کے فورابعدابراہیم نخعی کااثرہے۔ مرفوع حدیث اوراثر دونوں ایک ساتھ ملاحظہ فرمائیں:
٭ (مرفوع حدیث )حدثنا وکیع ، عن موسی بن عمیر ، عن علقمة بن وائل بن حجر ، عن أبیہ ، قال: رأیت النبیۖوضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاة
٭(اثرابراہیم نخعی) حدثنا وکیع ، عن ربیع ، عن أبی معشر ، عن براہیم ، قال: یضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاة تحت السرة.[مصنف ابن أبی شیبة:١٩٠١]
مرفوع حدیث اور اثر دونوں میں خط کشیدہ الفاظ پردھیان دیں۔
مرفوع حدیث کے اخیرمیں '' یمینہ علی شمالہ فی الصلاة'' ہے۔
اورابراہیم نخعی کے اثر میں'' تحت السرہ ''سے پہلے ہوبہویہی الفاظ ہیں۔
اس لئے کوئی بعید نہیں کی مرفوع حدیث کے یہ الفاظ لکھتے وقت کاتب کی نظراگلے اثرمیں موجود انہیں الفاظ پڑی پھراس نے یہاں سے ان الفاظ کو مرفوع حدیث کے الفاظ سمجھ کرنقل کئے اورچونکہ یہاں ان کے الفاظ کے ساتھ'' تحت السرہ'' تھا اس لئے وہ بھی نقل ہوگیا۔
٭مصنف ابن ابی شیبہ کی تحقیق کرنے والے حمدبن عبداللہ الجمعہ اور محمدبن ابراہیم نے بھی یہی بات کہی ہے ۔چنانچہ ان محققین نے اپنے محقق نسخہ میں جہاں وائل بن حجررضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے ، وہیں پرحاشیہ میں شیخ عابد کے نسخہ میں موجود ''تحت السرة'' کے اضافہ کاحوالہ دے کر اسے رد کردیا اور اسے کاتب کی غلطی قراردیتے ہوئے کہا:
فی(م):''شمالہ فی الصلاة تحت السرة'' ولعلة سبق نظرہ الی الأثرالذی بعدہ فکتب منہ:''تحت السرة''۔
شیخ عابد السندی کے نسخہ میں ''''شمالہ فی الصلاة تحت السرة''' ہے۔شاید کاتب کی نظر اس کے بعد موجود اثر پرپڑی اوراس سے ''تحت السرہ'' نقل کردیا۔
[مصنف ابن ابی شیبہ :ج ٢ص ٣٣٤، مقدمة :بتحقیق حمدالجمعہ ومحمداللحیدان]
٭یہی با ت شیخ محمد حیاة سندھی حنفی رحمہ اللہ (المتوفی١١٦٣) نے بھی کہی ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
فی ثبوت زیادة تحت السرة نظر، بل ہی غلط، منشأہ السہو فنی راجعت نسخةصحیحة للمصنف فرأیت فیہا ہذا الحدیث بہذا السند، وبہذا الألفاظ، لا أنہ لیس فیہا تحت السرة.وذکر فیہا بعد ہذا الحدیث أثر النخعی ولفظہ قریب من لفظ ہذا الحدیث، وفی اخرہ (فی الصلاة تحت السرة) .فلعل بصر الکاتب زاغ من محل لی آخر، فأدرج لفظ الموقوف فی المرفوع.
تحت السرہ کی زیادتی کا ثبوت محل نظرہے بلکہ یہ غلط اور سہو کانتیجہ ہے کیونکہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ دیکھا ہے میں نے اس میں یہی حدیث انہیں الفاظ کے ساتھ دیکھی ہے اس میں ''تحت السرہ'' (زیرناف) نہیں ہے۔نیز اس میں اس حدیث کے بعد ابراہیم نخعی کااثر ہے اوراس کے الفاظ بھی تقریبا اسی حدیث جیسے ہیں ۔اوراس کے آخرمیں ہے (فی الصلاة تحت السرة)۔توغالبا کاتب کی نگاہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلی گی اور اس نے موقوف اثر کے الفاظ کو مرفوع حدیث میں داخل کردیا۔
[فتح الغفور فی وضع الأیدی علی الصدور:ص٥٢ تحقیق د ضیاء الرحمن الاعظمی]۔
٭بلکہ لطف تو یہ ہے کہ ایک دوسرے مقام پرایک کاتب سے اسی طرح کی غلطی ہوئی ہے اوریہاں پرخودعوامہ صاحب نے بھی اسی طرح کی بات کہہ رکھی ہے۔
چنانچہ ایک کاتب نے مصنف ابن ابی شیبہ ہی کے نسخہ میں اسی طرح کی غلطی ایک دوسری جگہ کی ہے اوروہاں عوامہ صاحب نے بھی یہی کہا ہے کہ کاتب نے سبقت نظرسے ایسالکھ دیا ۔جیساکہ آگے ہم عوامہ صاحب کے الفاظ نقل کرہے ہیں ۔
معلوم ہواکہ محققین واہل علم نے نہ تو اس نسخہ کو معتبرمانا ہے اور نہ ہی اس پر اعتماد کیا ہے۔
صرف محققین واہل علم ہی نہیں بلکہ ماضی میں ناسخین نے بھی شیخ عابدسندھی کے اس نسخہ پر اعتماد نہیں کیا ہے چنانچہ اس نسخہ سے نقل کرتے ہوئے بہت سارے لوگوں نے اپنے نسخے بنائے
[ مصنف ابن ابی شیبہ :ج ١ص٣٦٩، مقدمة :بتحقیق حمدالجمعہ ومحمداللحیدان]
لیکن ان لوگوں نے اسی نسخے سے نقل کرنے کے باوجود بھی اپنے نسخے میں وائل بن حجررضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں'' تحت السرة''کے الفاظ نقل نہیں کئے ۔گویا کہ یہ ناسخین بھی اسے بے بنیاد اور غلط ہی مانتے تھے مثال کے طورپرمکتبہ راشدیہ میں شیخ رشداللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کا جو نسخہ ہے وہ بھی شیخ عابد کے اسی نسخے سے منقول ہے لیکن اس میں موجود وائل بن حجر کی حدیث میں تحت السرہ کے الفاظ نہیں ہیں ۔
[درج الدررفی وضع الایدی علی الصدر :ص ٦٢]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس ناسخ نے اصل میں موجود اس اضافہ کو غلط سمجھا ہے اور اسے نظر انداز کردیا ہے۔
غالبا صرف ایک نسخہ ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ بھی شاید شیخ عابد السندی ہی کے نسخہ سے منقول ہے اور اس میں بھی یہ اضافہ موجود ہے۔یہ نسخہ علامہ عبدالقادرمفتی مکہ مکرمہ کا ہے۔
عوامہ صاحب نے اس نسخہ کا بھی حوالہ دیا ہے لیکن اس کا عکس نہیں دیا ہے اور نہ ہی اس نسخہ کا تعارف کروایاہے۔دراصل یہ نسخہ عوامہ صاحب کو ملا ہی بلکہ عوامہ صاحب نے''درھم الصرة'' کے واسطے اس کاحوالہ دیا ہے۔اوراس کتاب میں بھی اس نسخہ کی کوئی تفصیلات نہیں ہیں ۔
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
''رہا علامہ عبدالقادرمفتی مکہ مکرمہ کانسخہ تو اس کے بارے میں بلاشبہ شخ محمدہاشم نے لکھا ہے کہ اس میں مرفوع اور اثر نخعی دونوں ہیں ،اوردونوں میں تحت السرة کے الفاظ ہیں ۔مگرانہوں نے یہ قطعا ذکر نہیں کیا کہ یہ نسخہ کس نسخہ سے منقولہ ہے اور اس کا ناسخ کون ہے۔یہ اصل سے مقابلہ شدہ اور قابل اعتماد ہے یا نہیں ؟جب تک یہ امور ثابت نہ ہوں اس پر اعتماد اہل علم کی شان نہیں ۔ایسے نسخہ سے استدلال محض ڈوبتے کو تنکے کا سہاراکا مصداق ہے۔
[دیکھئے شیخ محترم کا مقالہ بحوالہ حدیث اوراہل حدیث:ص٤٣٣ نیز دیکھئے یہی کتاب :ص]۔
عرض ہے کہ بہت ممکن ہے کہ یہ نسخہ بھی شیخ عابد ہی کے نسخہ سے منقول ہو اور اس ناسخ نے لاپرواہی سے اس اضافہ کو جوں کا توں نقل کردیا اگر ایسا ہے تو اس نسخہ کی بھی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں ۔اوراگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ نسخہ مجہول ہے نہ اس کے ناسخ کا پتہ ہے اور نہ اس بات کا پتہ ہے کہ اس نسخہ کی اصل کیا ہے اور اس کا بھی علم نہیں کہ اصل سے مقابلہ شدہ ہے یا نہیں ۔ان وجوہات کی بناپر اس نسخہ کی بھی وہی حیثیت ہے جو شیخ عابد کے نسخہ کی ہے ۔ یعنی دونوں ہی نسخہ غیر مستند وغیر معتبر ہے۔