• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں تحریف اور ”تحت السرۃ “ کا اضافہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
مصنف ابن ابی شیبہ میں تحریف کی تاریخ

گذشتہ تفصیلات یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی کسی بھی مستندنسخہ میں زیربحث حدیث کے اندر''تحت السرہ''(زیرناف) کااضافہ نہیں ہے اسی لئے محققین نے اپنے اپنے محقق نسخہ میں اس حدیث کے اندر''تحت السرہ''(زیرناف) کالفظ شامل نہیں کیا ہے۔لیکن احناف نے انتہائی ہٹ دھرمی اورمن مانی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنے یہاں سے جب مصنف ابن ابی شیبہ کو چھاپا تو اس حدیث کے اندر 'تحت السرہ''(زیرناف) کالفظ اپنی طرف سے بڑھا کراس میں تحریف کردی۔اناللہ وانالیہ راجعون! ذیل میں اس تحریف کی پوری کہانی ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تحریف کی پہلی کوشش

پوری دنیا میں سب سے پہلے جنہوں نے اس حدیث میں تحریف کا گھناؤنا کام کیا ہے وہ ادارہ القران والعلوم الاسلامیہ کراچی کے حنفی حضرات ہیں ۔
انہوں نے الدارالسلفیہ ممبئی کا مطبوعہ نسخہ لیا اور اسی کا فوٹو لے کر اسے اپنے یہاں سے شائع کیا اور اس حدیث میں'' تحت السرہ ''(زیرناف)کا لفظ اپنی طرف سے زبردستی بڑھا دیا ۔
حالانکہ الدارالسلفیہ ممبئی والے نسخہ میں اس زیادتی کاکوئی نام ونشان نہیں ہے۔الدارالسلفیہ ممبئی کا یہ نسخہ دراصل اس نسخہ کا عکس تھا جو سب سے پہلے ابوالکلام آزاد اکیڈمی ،ہندوستان سے سن١٣٨٦ھ میں چھپا تھا ۔اس پہلی طباعت میں بھی اس حدیث کے اندر '' تحت السرہ ''(زیرناف) کی زیادتی نہیں تھی حالانکہ پہلی بار اسے چھاپنے والے بھی حنفی ہی تھے۔
ان دونوں طباعتوں کا عکس ہم پیچھے پیش کرچکے ہیں دیکھیے:
عکس ملاحظہ کیجئے اوردیکھئے کہ ان دونوں طباعتوں میں کسی میں بھی زیربحث حدیث کے اندر '' تحت السرہ ''(زیرناف)کا لفظ نہیں ہے۔

لیکن ادارہ القران والعلوم الاسلامیہ کراچی والوں نے اسی نسخہ کا عکس لے کر اسے چھاپا اور اس حدیث میں زبردستی '' تحت السرہ ''(زیرناف) کااضافہ کردیا۔وہ بھی جلی اور واضح حروف میں اوربغیرکسی حاشیہ اوروضاحت کے۔
یہ تحریف کرتے وقت اصل کتاب کی سطر کے جوکھلواڑ کیا گیا ہے اسے بھی ان کے نسخہ میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے چنانچہ ان لوگون نے جس سطرکے اندر '' تحت السرہ ''(زیرناف) کااضافہ کیا اس سطرکے الفاظ وحروف کو ان لوگوں نے پوری طرح سکوڑ دیا لیکن اس کے باوجود بھی اس کے آخرمیں لفظ ''ربیع'' کے بعد ''عن '' کے لئے اس سطر میں جگہ باقی نہیں بچی اس لئے ان لوگوں نے اس ''عن '' کو اگلی سطر کے ابتداء میں رکھنے کی کوشش کی لیکن ایسا نہیں ہوسکا اوراس کاحرف ''ع'' غائب ہی ہوگیا۔جیساکہ ان لوگوں کے چھاپے ہوئے نسخة میں صاف دیکھا جاسکتا ہے۔

ذیل میں ہم ان دونوں سطروں کی تحریف سے قبل اورتحریف کے بعد کی تصویر پیش کرتے ہیں ۔ قارئیں ان دونوں کا فرق ملاحظہ فرمائیں:






قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح جان بوجھ کرحدیث میں تحریف کی گئی ہے ۔اوریہ سب کچھ خاموشی سے کیا گیا اس کے بارے میں حاشیہ میں یا مقدمہ میں کوئی وضاحت نہیں کی گی کہ اس تصرف کے لئے ان کے پاس کیا جواز تھا ۔لہٰذا خاموشی کے ساتھ یہ تصرف ہی تحریف کی دلیل ہے۔
اس تحریف شدہ صفحہ کا مکمل عکس آگے ملاحظہ فرمائیں:





قارئیں غورکریں کہ یہ کتنی گھٹیا اورذلیل حرکت ہے کہ دوسرے ادارہ کی مطبوعہ کتاب کا عکس لے کراسے چھاپا جائے اور انتہائی خاموشی کے ساتھ متن میں اپنی طرف سے ایک لفظ شامل کردیاجائے۔
اس بدترین خیانت پر علمائے اہل حدیث کی نظر پڑی توانہوں نے فورا اس کی مذمت کیاورپورے عالم اسلام کو اس سے خبردار کیا ۔چنانچہ پاکستان ہی کے شیخ ارشاد الحق اثرحفظہ اللہ نے اس پر ایک مضمون ''خدمت حدیث کی آڑمیں تحریف حدیث '' لکھا ۔جس سے پوری دنیا کے سامنے ان لوگوں کی مکاری نمایاں ہوگئی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تحریف کی دوسری کوشش

جس طرح کوئی اچھا شخص جب کسی اچھے طریقہ کی شروعات کرتا ہے تودوسرے اچھے لوگ بھی اسے دہراتے ہیں ۔ٹھیک اسی طرح جب کوئی بدبخت کسی برے طریقہ کی ایجاد کردیتا ہے تو دیگر بدترین لوگوں کے لئے وہ اسوہ بن جاتاہے ۔چنانچہ جب ادار ة القران والوں نے دوسرے کے مطبوعہ نسخہ میں ''تحت السرہ'' کا اضافہ کردیا تو اسی قماش کے دیگرلوگوں نے بھی یہی روش اپنانی شروع کردی۔
چنانچہ پاکستان ہی میں ''طیب اکادمی ملتان''والوں نے ''الاستاذ سعید اللحام'' کی تحقیق سے دارالفکربیروت سے چھپاہوامصنف ابن ابی شیبہ کا نسخہ لیا اور اس نسخہ کے جس صفحہ پروائل بن حجررضی اللہ عنہ کی حدیث تھی اس اصل صفحہ کو ہٹاکراس کی جگہ اپنی طرف سے دوسرا صفحہ لگادیا اوراس میں موجود وائل بن حجررضی اللہ عنہ کی حدیث میں تحریف کرکے اس کے اندر''وفی نسخہ تحت السرة'' ڈال دیا اور اسے بریکٹ میں کردیا۔
حالانکہ استاذ سعید اللحام کا اصل نسخہ جو دارالفکر سے چھپا تھا اس میں ''تحت السرہ'' کے الفاظ نہیں تھے جیساکہ ہم نے پچھلے صفحات میں اس کا عکس دیا ہے ملاحظہ فرمائیں ص۔۔
لیکن بے شرمی اور بے حیائی کی حدہوگئی کہ دوسر ے کی تحقیق سے طبع شدہ نسخہ لیا گیا پھر اس کا عکس لیکراسے اپنے یہاں سے چھاپا گیا اوراس کے ایک صفحہ کو ہٹاکراس کی جگہ اپنی طرف سے تحریف کیا ہوا صفحہ لگادیا گیا،اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اس محرف نسخہ کا عکس آگے ملاحظہ فرمائیں:



قارئین کرام ! آپ نے دیکھا کہ کس طرح ادارة القران والوں کے نقش قدم پرچلتے ہوئے طیب اکادمی ملتان والوں نے بھی ایک دوسرے مطبوعہ نسخہ کے ساتھ یہی کھلواڑکیا۔اس طرح طیب اکادمی نہ صرف یہ کہ نجس اکادمی ثابت ہوئی بلکہ ادارة القرآن والوں کوبھی ان کاحق نجاست ایصال فرمایا۔
کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اللہ کے نبی ۖنے فرمایا:
من سن فی السلام سنة حسنة فلہ أجرہا وأجر من عمل بہا بعدہ من غیر أن ینقص من أجورہم شیء ومن سن فی السلام سنة سیئة کان علیہ وزرہا ووزر من عمل بہا من بعدہ من غیر أن ینقص من أوزارہم شیء
جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔[صحیح مسلم :٧٠٤٢ رقم ١٠١٧]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تحریف کی تیسری کوشش

گناہ جاریہ کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوابلکہ پاکستان ہی کے ایک اور مکتبہ ،مکتبہ امدادیہ ملتان والوں نے بھی اس سلسلے میں بھرپور امداد کی چنانچہ ان لوگوںنے بھی استاذ سعید اللحام کے محقق نسخہ کاعکس لے کر چھاپااورانہوں نے بھی وائل بن حجررضی اللہ عنہ کی حدیث میں بریکٹ کے اندر''تحت السرہ'' کااضافہ کردیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی ادارہ نے پہلی بارجب اس کتاب کو طبع کیاتھا تو اس میں یہ تحریف نہ تھی ۔لیکن جب ادارة القران والوں کی طرف سے ''سنت سیئیة''جاری ہوگئی تویہ بھی اس پر آمادہ عمل ہوگئے اور خود کو گناہ آلود کرنے کے ساتھ ساتھ ادارة القران والوں کوبھی ان کاحصہ بہم پہنچایا۔
ملاحظہ فرمائے آگے اس مکتبہ کے محرف نسخہ کاعکس:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تحریف کی چوتھی کوشش

ایک طرف تحریف کاسلسلہ چل پڑادوسری طرف ادارہ القران والے جواس تحریف کے بانی تھے ان کی شامت آگئی۔ ہرچہارجانب سے ان پرپھٹکاربرسنے لگی ،حتی کہ ان کی خیانت اور تحریف کو عربی زبان میں بھی پیش کیا گیا اور ان کی تحریفانہ سازشوں کو بے نقاب کیا گیا۔اب ان بے چاروں کی بڑی فضیحت ہوئی اور کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے ۔

اپنے بھائیوں کی یہ بنتی درگت دیکھ کرکوثری پارٹی کے تیسرے رکن محمدعوامہ صاحب کی نفس لوامہ نے ملامت کیااور آں جناب نے اپنے بھائیوں کے تحریف آلود دامن کی صاف صفائی کا بیڑا اٹھایا۔ اور ایک بار پھرسے اسی حدیث میں تحریف کی چوتھی کوشش کی ۔
چونکہ اس سے قبل ان کے برادران دوسروں کے مطبوعہ نسخے لے لے کر اس میں تحریف کررہے تھے اس لئے انہوں نے دوسرا راستہ اختیارکیا اوروہ یہ کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اپنی تحقیق میں دو غیرمستند نسخوں کا سہارا لیتے ہوئے اس تحریفی کاروائی کو انجام دیا۔دراصل مصنف ابن ابی شیبہ میں امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے عنوان قائم کیا ہے ''کتاب الرد علی ابی حنفیہ'' ( ابوحنیفہ پرردکابیان)اس میں امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے بتایا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے کن کن احادیث کی مخالفت کی ہے۔امام ابن شیبہ رحمہ اللہ کا یہ رد محمدعوامہ سے برداشت نہیں ہوا اور موصوف نے مصنف ابن ابی شیبہ کی طباعت کابہانا بنایا اور اصل مقصود امام ابوحنیفہ کادفاع ہی تھا۔اورلگے ہاتھوں انہوں نے ''تحت السرہ'' کی تحریف میں بھی اپنی خدمات پیش کردی۔
چونکہ ہندوستان میں بعض احناف حددرجہ مغالطہ بازی سے کام لیتے ہوئے عوامہ صاحب کے محرف نسخہ کو پیش کرکے یہ کہتے ہیں دیکھو عرب سے چھپے ہوئے نسخہ میں بھی ''تحت السرہ'' موجو دہے ۔ اس لئے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس نسخہ اور اس کی تحقیق کرنے والے محمدعوامہ صاحب اور ان کی پارٹی کامختصرتعار ف ہدیہ قارئین کردیں تاکہ سادہ لوح عوام کو بہکانے اورانہیں مغالطے میں ڈالنے کی کوئی سبیل باقی نہ بچے ۔

کوثری پارٹی کاتعارف

برصغیرہندوپاک میں ایک خاص گروہ حدیث اورمحدثین کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہے اور خدمت حدیث کے نام پر حدیث اورمحدثین پر طعن کرنا اس کا مشغلہ بناہواہے ۔اوریہ سب کچھ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے مجنونانہ محبت اورفقہ حنفی کے ساتھ وفاداری میں ہورہاہے ۔چنانچہ بخاری کی شرح کے بہانے'' انوارالباری ''نامی پرخباثت وبکواس کتاب میں حدیث اورمحدثین کے خلاف جوغلاظت پھیلائی گئی ہے وہ اسی گروہ کی کارستانی ہے۔
اللہ رب العالمین غریق رحمت کرے علامہ ومحدث محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ کو جنہوں نے ''اللمحات الی مافی انوارالباری من الظلمات'' کے نام سے اس زہریلی کتاب کادندان شکن اور منہ توڑجواب دیا اور اس گروہ کے حوصلے پست کرکے رکھ دئے۔
ٹھیک اسی طرح کا ایک گروہ عرب میں بھی ہے سرگرم ہے ،اس کا مشن بھی خدمت حدیث کے نام پرحدیث اورمحدثین پرطعن وتشنیع ہے۔اورفقہ حنفی کے ساتھ نمک حلالی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے مجنونانہ محبت کااظہارہے۔اس گروہ میں تین نام بہت نمایاں ہیں ایک زاہدکوثری ہے جواس پارٹی کا بانی ہے اسے بعض علماء نے'' مجنون ابوحنیفہ ''کالقب دیا ہے۔اورشیخ بن باز رحمہ اللہ نے ''المجرم الآثم '' اور ''الأفاک الأثیم '' کہا ہے ۔[براء ة أہل السنة من الوقیعة فی علماء الأمة:ص٣]

اس نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی محبت میں ایک طرف امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب مقام ابی حنیفہ اپنے مغالطہ آمیز حواشی کے ساتھ شائع کیا دوسری طرف عظیم محدث خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے خلاف بکواس کرتے ہوئے ''تانیب الخطیب ''نامی کتاب لکھی جس میں حدیث اورمحدثین کے خلاف جی بھر کر طعن وتشنیع کیاہے۔
اللہ کے فضل کرم سے اس کی کتاب کاجواب امیرالمؤمنین فی الجرح والتعدیل ،فقیہ اسماء الرجال علامہ ومحدث عبدالرحمن بن یحیی الیمانی المعلمی رحمہ اللہ نے دیا جو''التنکیل بمافی تانیب الکوثری من الاباطیل '' کے نام سے شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے ساتھ دوجلدوں میں مطبوع ہے۔یہ کتاب نہ صرف یہ کہ زاہد کوثری کا جواب ہے بلکہ بہت سارے رواة کے تراجم ،اسماء الرجال کے معارف، علل کی باریکیوں، جرح وتعدیل کے اصولوں او ربے شمار حدیثی فوائدکا مرجع ہے۔اس کتاب نے کوثری پارٹی کی پوری عمارت مسمارکرکے رکھ دی ہے۔
یادرہے کہ زاہدکوثری شرکیہ اورکفریہ عقائدکاحامل ہے۔یہ غیراللہ سے مدد مانگنے اورقبروں پرقبے ومساجد بنانے کاقائل ہے ۔ ائمہ ا ورمحدثین کی شان میں اس نے بڑی توہین کی ہے بلکہ حد ہوگئی صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں بخشا۔اس سلسلے میں تفصیلات اور اس گمراہ شخص کے بارے میں مزید معلومات کے لئے شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے مختلف مضامین ''مقالات ارشاد الحق اثری'' میں پڑھئے۔نیزدیکھیے:[المقابلہ بین الھدی والضلال بقلم العلامہ الشیخ عبدالرزاق حمزہ]

اس پارٹی میں دوسرا نام'' عبدالفتاح ابوغدہ ''ہے ۔یہ صاحب زاہدکوثری ہی کے شاگردخاص ہیں بلکہ بعض اہل علم نے انہیں ''الکوثری الصغیر''(چھوٹاکوثری)کہاہے ۔دیکھیے:[تنبیہ الاریب علی بعض اخطاء تحریرتقریب التھذیب:ص١٥٨]
یہ حضرت زاہدکوثری کے اس قدردیوانے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کانام ''زاہد''رکھاہے اور خود کو ابوغدہ کے ساتھ ''ابوزاہد'' بھی کہتے ہیں۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے عقید طحاویہ کی تحقیق کے مقدمہ میں موصوف کے بارے جو کچھ لکھا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے ۔
زاہدکوثری کا شاگرد ہونے پر فخرکرنا،گمراہ فرقوں کے سرغنہ اراکین کی مدح وثنا کرنا،نصوص میں تحریف کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔دیکھئے:[تحریف النصوص من مآخذ أہل الأہواء فی الاستدلال،براء ة أہل السنة من الوقیعة فی علماء الأمة]۔

اسی پارٹی کے تیسرے رکن اورننھے کوثری محمدعوامہ صاحب ہیں ۔یہ صاحب چھوٹے کوثری کے شاگردرشید تو ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ بڑے کوثری کے بھی دیوانے اورپرستارہیں۔چنانچہ اپنی متعدد کتابوں میں موصوف نے کوثری اعظم کو بڑے بھاری بھرکم آداب والقاب سے نوازاہے مثلا ایک مقام پرلکھتے ہیں:
شیخ شیوخنا العلامة الحجة الشیخ محمد زاہد الکوثری رحمہ اللہ تعالی
ہمارے استاذوں کے استاذ علامہ ،الحجہ ،شیخ محمدزاہد کوثری رحمہ اللہ تعالی[مسندعمربن عبدالعزیزبتحقیق عوامہ:ص٢٣٥،حاشیہ]

موصوف کی کتابیں پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بڑے اورچھوٹے کوثری سے انہوں نے بھرپوراستفادہ کیا ہے اور دجل وفریب ،تدلیس وتلبیس اورحیل ومکر میں کوثری مہارت کو ورثہ میں حاصل کیا ہے۔ سلف واہل حدیث کے دشمنوں کوبڑے بڑے القاب سے نوازنا اور سلفی علماء پرطعن وتشنیع کرنا ، موصوف کی عادت رہی ہے ۔بلکہ حدہوگئی کہ ایک جگہ علامہ البانی رحمہ اللہ کو ''جاہل ''تک کہہ دیاچنانچہ اپنی بدنام زمانہ کتاب''اثرالحدیث ''میں لکھتے ہیں:
۔۔۔التی قال عنھاھذاالجاہل فی مقدمة''الآیات البینات''۔۔۔
جس کے بارے میں اس جاہل(البانی)نے ''الآیات البینات''میں کہاہے۔۔۔[اثرالحدیث لعوامہ:ص١٠٢]

اس کتاب میں انہوں نے صرف علامہ البانی رحمہ اللہ ہی نہیں بلکہ اوربھی کئی اہل علم حتی کہ امام بخاری وامام مسلم رحمہما اللہ کے خلاف بھی زہرافشانی کی ہے دیکھئے:[اثرالحدیث لعوامہ:ص١٣٦تا١٣٧]
اسی لئے شیخ مشہورحسن سلمان نے ان کی اس کتاب کو ''کتب حذر منھاالعلماء''کی فہرست میں پیش کیا ہے دیکھیے:[کتب حذر منھاالعلماء:١٦٨١]۔
صرف یہی نہیں بلکہ عوامہ اوران کے استاذ ابوغدہ دونوں صاحبان نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام احمدرحمہ اللہ پربھی بہتان تراشی کی ہے جس کادندان شکن جواب دکتورربیع بن ہادی المدخلی نے دیا ہے دیکھیے:[تقسیم الحدیث لی صحیح، وحسن، وضعیف بین واقع المحدثین ومغالطات المتعصبین "رد علی أبی غدة، ومحمد عوامة" تالیف: دکتورربیع بن ہادی المدخلی ]

یہ ہے عوامہ صاحب کا علمی نسب نامہ جنہوں نے زیربحث حدیث میں ''تحت السرة '' کے اضافہ میں چوتھی کوشش کی ہے ۔اورجن کے حوالے سے عوام کودھوکادیا جاتاہے کہ عرب سے چھپے ہوئے نسخہ میں بھی ''تحت السرہ'' کالفظ ہے ۔اب آگے ہم عوامہ صاحب کی تحریف کی حقیقت واضح کریں گے اس سے پہلے ان کے نسخہ سے متعلقہ صفحہ کاعکس ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تحریف کاپہلا سہارا

عوامہ صاحب نے اس حدیث میں تحریف کے لئے سب سے پہلے یہ عکس دیاہے:

عوامہ صاحب نے پہلے نمبر پرجس مخطوطہ کا سہارا لیا ہے وہ شیخ عابدسندھی (المتوفی ١٢٥٧)کا مخطوطہ ہے جوانتہائی غیرمستند ہے ۔
یادرے کہ یہ نسخہ خود شیخ عابد السندی نے اپنے ہاتھ سے نہیں لکھا بلکہ دوسرے سے لکھوایا ہے جس نے لاپرواہی میں یہ غلطی کی ہے۔اوراس نسخہ کی تکمیل کے بعد اصل سے اس کا مقابلہ ہوایانہیں اس کی بھی وضاحت نہیں ہے۔ بلکہ جس اصل سے اس نسخہ کو نقل کیا گیا ہے اس کا بھی کوئی سراغ نہیں ملتا ۔اس پر مستزاد یہ کہ اس نسخہ میں ناسخ نے بہت ساری غلطیاں کی ہیں اور بہت ساری اسانید ومتون میں گڑبڑی کی ہے۔[ مصنف ابن ابی شیبہ :ج١ص٣٦٨، مقدمة :بتحقیق حمدالجمعہ ومحمداللحیدان]

ان وجوہات کی بناپر یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ یہ نسخہ قطعا لائق اعتماد نہیں ہے ۔ بلکہ خود عوامہ صاحب نے ہی اس مخطوطہ کا تعارف کراتے ہوئے صاف لفظوں میں کہہ دیا :
وھی نسخة للاستیئناس لالاعتماد علیھا
یہ نسخہ استئناس کے لئے اوراس پراعتماد نہیں کیاجاسکتا[مصنف ابن ابی شیبہ :ج ١ص ٢٨،مقدمة: بتحقیق عوامہ]
غور فرمائیں کہ جب خود عوامہ صاحب کا یہ اعلان ہے کہ یہ نسخہ ناقابل اعتماد ہے تو پھرآں جناب نے تحت السرہ(زیرناف) کی زیادتی میں اس پر اعتماد کیسے کرلیا ؟

صرف عوامہ نے ہی نہیں بلکہ ان سے قبل بھی جتنے محققین نے مصنف ابن ابی شیبہ کی تحقیق کی ہے کسی نے بھی اس نسخہ پر اعتمادنہیں کیا ہے اورنہ ہی کسی نے اس کے سہارے وائل بن حجر کی حدیث میں تحت السرہ کا اضافہ کیا ۔
عوامہ صاحب سے قبل حمدبن عبداللہ الجمعہ اورمحمدبن ابراہیم اللحیدان نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ کی تحقیق کی ہے اور ان محققین نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ یہ نسخہ غیرمستند ہے۔[دیکھیے :مصنف ابن ابی شیبہ :ج ١ص ٣٦٨تا٣٦٩، مقدمة :بتحقیق حمدالجمعہ ومحمداللحیدان]

اس نسخہ کے غیرمعتبرہونے کے ساتھ ساتھ اس بات پربھی غورکیجئے کہ وائل بن حجررضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث کے فورابعدابراہیم نخعی کااثرہے۔ مرفوع حدیث اوراثر دونوں ایک ساتھ ملاحظہ فرمائیں:

٭ (مرفوع حدیث )حدثنا وکیع ، عن موسی بن عمیر ، عن علقمة بن وائل بن حجر ، عن أبیہ ، قال: رأیت النبیۖوضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاة

٭(اثرابراہیم نخعی) حدثنا وکیع ، عن ربیع ، عن أبی معشر ، عن براہیم ، قال: یضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاة تحت السرة.[مصنف ابن أبی شیبة:١٩٠١]

مرفوع حدیث اور اثر دونوں میں خط کشیدہ الفاظ پردھیان دیں۔
مرفوع حدیث کے اخیرمیں '' یمینہ علی شمالہ فی الصلاة'' ہے۔
اورابراہیم نخعی کے اثر میں'' تحت السرہ ''سے پہلے ہوبہویہی الفاظ ہیں۔
اس لئے کوئی بعید نہیں کی مرفوع حدیث کے یہ الفاظ لکھتے وقت کاتب کی نظراگلے اثرمیں موجود انہیں الفاظ پڑی پھراس نے یہاں سے ان الفاظ کو مرفوع حدیث کے الفاظ سمجھ کرنقل کئے اورچونکہ یہاں ان کے الفاظ کے ساتھ'' تحت السرہ'' تھا اس لئے وہ بھی نقل ہوگیا۔

٭مصنف ابن ابی شیبہ کی تحقیق کرنے والے حمدبن عبداللہ الجمعہ اور محمدبن ابراہیم نے بھی یہی بات کہی ہے ۔چنانچہ ان محققین نے اپنے محقق نسخہ میں جہاں وائل بن حجررضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے ، وہیں پرحاشیہ میں شیخ عابد کے نسخہ میں موجود ''تحت السرة'' کے اضافہ کاحوالہ دے کر اسے رد کردیا اور اسے کاتب کی غلطی قراردیتے ہوئے کہا:
فی(م):''شمالہ فی الصلاة تحت السرة'' ولعلة سبق نظرہ الی الأثرالذی بعدہ فکتب منہ:''تحت السرة''۔
شیخ عابد السندی کے نسخہ میں ''''شمالہ فی الصلاة تحت السرة''' ہے۔شاید کاتب کی نظر اس کے بعد موجود اثر پرپڑی اوراس سے ''تحت السرہ'' نقل کردیا۔[مصنف ابن ابی شیبہ :ج ٢ص ٣٣٤، مقدمة :بتحقیق حمدالجمعہ ومحمداللحیدان]

٭یہی با ت شیخ محمد حیاة سندھی حنفی رحمہ اللہ (المتوفی١١٦٣) نے بھی کہی ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
فی ثبوت زیادة تحت السرة نظر، بل ہی غلط، منشأہ السہو فنی راجعت نسخةصحیحة للمصنف فرأیت فیہا ہذا الحدیث بہذا السند، وبہذا الألفاظ، لا أنہ لیس فیہا تحت السرة.وذکر فیہا بعد ہذا الحدیث أثر النخعی ولفظہ قریب من لفظ ہذا الحدیث، وفی اخرہ (فی الصلاة تحت السرة) .فلعل بصر الکاتب زاغ من محل لی آخر، فأدرج لفظ الموقوف فی المرفوع.
تحت السرہ کی زیادتی کا ثبوت محل نظرہے بلکہ یہ غلط اور سہو کانتیجہ ہے کیونکہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ دیکھا ہے میں نے اس میں یہی حدیث انہیں الفاظ کے ساتھ دیکھی ہے اس میں ''تحت السرہ'' (زیرناف) نہیں ہے۔نیز اس میں اس حدیث کے بعد ابراہیم نخعی کااثر ہے اوراس کے الفاظ بھی تقریبا اسی حدیث جیسے ہیں ۔اوراس کے آخرمیں ہے (فی الصلاة تحت السرة)۔توغالبا کاتب کی نگاہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلی گی اور اس نے موقوف اثر کے الفاظ کو مرفوع حدیث میں داخل کردیا۔[فتح الغفور فی وضع الأیدی علی الصدور:ص٥٢ تحقیق د ضیاء الرحمن الاعظمی]۔

٭بلکہ لطف تو یہ ہے کہ ایک دوسرے مقام پرایک کاتب سے اسی طرح کی غلطی ہوئی ہے اوریہاں پرخودعوامہ صاحب نے بھی اسی طرح کی بات کہہ رکھی ہے۔
چنانچہ ایک کاتب نے مصنف ابن ابی شیبہ ہی کے نسخہ میں اسی طرح کی غلطی ایک دوسری جگہ کی ہے اوروہاں عوامہ صاحب نے بھی یہی کہا ہے کہ کاتب نے سبقت نظرسے ایسالکھ دیا ۔جیساکہ آگے ہم عوامہ صاحب کے الفاظ نقل کرہے ہیں ۔
معلوم ہواکہ محققین واہل علم نے نہ تو اس نسخہ کو معتبرمانا ہے اور نہ ہی اس پر اعتماد کیا ہے۔

صرف محققین واہل علم ہی نہیں بلکہ ماضی میں ناسخین نے بھی شیخ عابدسندھی کے اس نسخہ پر اعتماد نہیں کیا ہے چنانچہ اس نسخہ سے نقل کرتے ہوئے بہت سارے لوگوں نے اپنے نسخے بنائے[ مصنف ابن ابی شیبہ :ج ١ص٣٦٩، مقدمة :بتحقیق حمدالجمعہ ومحمداللحیدان]
لیکن ان لوگوں نے اسی نسخے سے نقل کرنے کے باوجود بھی اپنے نسخے میں وائل بن حجررضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں'' تحت السرة''کے الفاظ نقل نہیں کئے ۔گویا کہ یہ ناسخین بھی اسے بے بنیاد اور غلط ہی مانتے تھے مثال کے طورپرمکتبہ راشدیہ میں شیخ رشداللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کا جو نسخہ ہے وہ بھی شیخ عابد کے اسی نسخے سے منقول ہے لیکن اس میں موجود وائل بن حجر کی حدیث میں تحت السرہ کے الفاظ نہیں ہیں ۔[درج الدررفی وضع الایدی علی الصدر :ص ٦٢]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس ناسخ نے اصل میں موجود اس اضافہ کو غلط سمجھا ہے اور اسے نظر انداز کردیا ہے۔

غالبا صرف ایک نسخہ ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ بھی شاید شیخ عابد السندی ہی کے نسخہ سے منقول ہے اور اس میں بھی یہ اضافہ موجود ہے۔یہ نسخہ علامہ عبدالقادرمفتی مکہ مکرمہ کا ہے۔
عوامہ صاحب نے اس نسخہ کا بھی حوالہ دیا ہے لیکن اس کا عکس نہیں دیا ہے اور نہ ہی اس نسخہ کا تعارف کروایاہے۔دراصل یہ نسخہ عوامہ صاحب کو ملا ہی بلکہ عوامہ صاحب نے''درھم الصرة'' کے واسطے اس کاحوالہ دیا ہے۔اوراس کتاب میں بھی اس نسخہ کی کوئی تفصیلات نہیں ہیں ۔

شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
''رہا علامہ عبدالقادرمفتی مکہ مکرمہ کانسخہ تو اس کے بارے میں بلاشبہ شخ محمدہاشم نے لکھا ہے کہ اس میں مرفوع اور اثر نخعی دونوں ہیں ،اوردونوں میں تحت السرة کے الفاظ ہیں ۔مگرانہوں نے یہ قطعا ذکر نہیں کیا کہ یہ نسخہ کس نسخہ سے منقولہ ہے اور اس کا ناسخ کون ہے۔یہ اصل سے مقابلہ شدہ اور قابل اعتماد ہے یا نہیں ؟جب تک یہ امور ثابت نہ ہوں اس پر اعتماد اہل علم کی شان نہیں ۔ایسے نسخہ سے استدلال محض ڈوبتے کو تنکے کا سہاراکا مصداق ہے۔[دیکھئے شیخ محترم کا مقالہ بحوالہ حدیث اوراہل حدیث:ص٤٣٣ نیز دیکھئے یہی کتاب :ص]۔

عرض ہے کہ بہت ممکن ہے کہ یہ نسخہ بھی شیخ عابد ہی کے نسخہ سے منقول ہو اور اس ناسخ نے لاپرواہی سے اس اضافہ کو جوں کا توں نقل کردیا اگر ایسا ہے تو اس نسخہ کی بھی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں ۔اوراگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ نسخہ مجہول ہے نہ اس کے ناسخ کا پتہ ہے اور نہ اس بات کا پتہ ہے کہ اس نسخہ کی اصل کیا ہے اور اس کا بھی علم نہیں کہ اصل سے مقابلہ شدہ ہے یا نہیں ۔ان وجوہات کی بناپر اس نسخہ کی بھی وہی حیثیت ہے جو شیخ عابد کے نسخہ کی ہے ۔ یعنی دونوں ہی نسخہ غیر مستند وغیر معتبر ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تحریف کادوسراسہارا

عوامہ صاحب نے اس حدیث میں تحریف کے لئے دوسراعکس یہ دیاہے:

عوامہ نے جس دوسرے نسخہ سے متعلقہ صفحہ کا عکس دیا ہے وہ شیخ محمدمرتضی الزبیدی کا نسخہ ہے اس کے لئے عوامہ صاحب نے(ت) کی علامت استعمال کی ہے۔
عرض ہے کہ یہ نسخہ بھی مستند نہیں،اس کے مستندہونے کے شرائط مفقود ہیں اسی لئے خود عوامہ صاحب نے بھی اس نسخہ کے بارے میں کہا:
والاعتماد علیھامفید
اس پراعتماد مفیدہے [مصنف ابن ابی شیبہ :ج ١ص ٣٠،مقدمة : بتحقیق عوامہ]
یعنی صرف مفیدہے یقینی نہیں ۔وہ بھی صرف اس لئے کیونکہ اس پر علامہ عینی رحمہ اللہ کے حواشی ہیں اور شیخ زبیدی رحمہ اللہ کے مراجعہ میں یہ نسخہ رہا ہے [حوالہ سابق]۔

عرض ہے کہ کون سانسخہ ایساہے جوکسی عالم کے مراجعہ میں نہیں رہتا ہے؟لیکن محض اتنی سی با ت سے نسخہ قابل اعتماد ثابت نہیں ہوتا اسی لئے خودعوامہ نے بھی اسے پورے طورسے قابل اعتماد نہیں کہا ہے بلکہ صرف اعتماد کو مفید بتلایا ہے ۔لہٰذا یہ نسخہ بھی مستندنہیں ہے۔

علاوہ ازیں اس نسخہ سے جس صفحہ کا عکس عوامہ صاحب نے دیا ہے اسی صفحہ پر دیکھا جائے تو صاف نظر آتاہے کہ اس حدیث کے فورابعد ابراہیم نخعی کا جواثر تھا جس میں تحت السرہ کا لفظ تھا یہ اثر اس نسخہ سے غائب ہے ! دیکھیے ص۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ناسخ سے سبقت نظر کے سبب غفلت وچوک ہوئی ہے ۔مرفوع حدیث نقل کرتے وقت اس کی نظر آگے ابراہیم نخعی کے اثر پرپڑی ۔اس نے ابراہیم نخعی کے اثر کو مرفوع حدیث کاآخری حصہ سمجھ لیا اور مرفوع حدیث میں اس اثر کو شامل کردیا ،اس کے بعد آگے بڑھ گیا۔اور ابراہم نخعی کا اثر اوراس کی سند لکھا ہی نہیں کیونکہ اس حصہ کو جب اس نے مرفوع حدیث کے ساتھ ملا دیا تو اسے یہی لگا کہ یہ الفاظ لکھے جاچکے ہیں ۔اس لئے ابراہیم نخعی کااثر یہاں سے غائب ہی ہوگیا۔

یہی وضاحت خود احناف میں سے بھی کئی حضرات نے کی ہے چنانچہ:
شیخ محمد حیاة سندھی حنفی رحمہ اللہ (المتوفی١١٦٣) لکھتے ہیں:
روی ھذاالحدیث ابن ابی شیبہ وروی بعدہ اثرالنخعی ولفظھماقریب۔وفی آخرالاثر لفظ تحت السرہ۔واختلفت نسخہ ،ففی البعض ذکرالحدیث مطلقافی غیرتعیین المحل مع وجود الاثرالمذکور۔وفی البعض وقع الحدیث المرفوع بزیادة تحت السرة بدون اثرالنخعی ۔فیحمل ان ھذہ الزیادة منشاھاترک الکتاب سھوانحوسطرفی الوسط وادراج لفظ الاثرفی المرفوع
اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اوراس کے بعد ابراہیم نخعی کااثر روایت کیا ہے اوران دونوں کے الفاظ تقریباایک ہیں ۔اورابراہیم نخعی کے اثر کے اخیرمیں ''تحت السرہ'' کالفظ ہے۔اورابن ابی شیبہ کے نسخوں میں اختلاف ہے۔بعض میں مرفوع حدیث ہاتھ باندھنے کی جگہ کے بغیر مطلق مذکورہے اوراس کے ساتھ ابراہیم نخعی کامذکور ہ اثر بھی ذکرہے۔اوربعض میں مرفوع حدیث ''تحت السرة'' کی زیادتی کے ساتھ وارد ہے لیکن اس کے بعدابراہیم نخعی کااثرمذکور نہیں ہے۔لہٰذا اسے اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ لکھنے میں درمیان سے ایک سطرچھوٹ گئی ہے اور ابراہیم نخعی کے اثرکے الفاظ مرفوع حدیث میں داخل ہوگئے ہیں[درة فی اظہارغش نقدالصرة:ص٦٨ المطبوع مع درھم الصرہ]

یہ ایک بہت بڑے حنفی عالم کی وضاحت ہے جس میں تعصب کادخل ہوہی نہیں سکتا ۔اوریہ صرف ایک حنفی عالم کی وضاحت نہیں بلکہ احناف ہی میں سے کئی حضرات اس کی وضاحت کرتے ہوئے نظرآتے ہیں چنانچہ:
محمد انورشاہ کشمیری حنفی (المتوفی١٣٥٣) رحمہ اللہ بھی شیخ محمدحیاة سندی رحمہ اللہ کی وضاحت کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ولاعجب أن یکون کذالک فانی راجعت ثلاث نسخ للمصنف فماوجت فی واحدة منھا
اورکوئی عجب نہیں کہ بات اسی طرح ہو کیونکہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کے تین (قلمی)نسخے دیکھے ۔اوران تینوں میں سے کسی ایک میں بھی یہ زیادتی میں نے نہیں پائی [فیض الباری:ج٢ص٢٦٧]

صرف یہی بلکہ معاصرین میں احناف ہی کے ایک نامور عالم مولاحبیب الرحمن الاعظمی گذرے ہیں ۔جنہیں احناف بہت بڑامحدث اور بہت بڑامحقق مانتے ہیں انہوں نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ کی تحقیق کی ہے اور ان کے سامنے بھی کا یہی نسخہ تھا لیکن انہوں نے ناسخ کی اس غلطی کو سبقت نظر کی غلطی ہی سمجھا اور اپنے نسخے میں اس کی اصلاح کرتے ہوئے مرفوع حدیث کو تحت السرہ کے بغیر درج کیا اور اس کے بعد ابراہیم نخعی کا جواثر اس نسخہ سے ساقط ہوگیا تھا اسے بریکٹ میں رکھتے ہوئے کتاب میں شامل کیا اور حاشیہ صاف طور سے اعلان کردیا ہے کہ اصل نسخہ میں ناسخ کی غلطی سے ابراہیم نخعی کا اثر ساقط ہوگیا تھا اور اس اثر کاآخری حصہ مرفوع حدیث کے ساتھ مل گیا تھا جس کی اصلاح کی گئی ہے ۔ چنانچہ مولانا حبیب الرحمن صاحب اپنے محقق نسخہ میں اس مقام پر حاشیہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
سقط من الأصل الا آخرہ مدرجا فیمافوقہ واستدرکتہ من ب والحیدرآبادیہ
یہ(ابراہیم نخعفی اکا) اثر اصل مخطوطہ سے ساقط ہے اور اس کاآخری حصہ (تحت السرة) اوپرکی مرفوع حدیث سے مل گیا ہے ۔میں نے نسخہ ب اور حیدرآبادوالے نسخہ سے اس اثر کااضافہ کیاہے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ :ج ص ۔بتحقیق حبیب الرحمن الاعظمی]

حبیب الرحمن الاعظمی صاحب والے نسخہ سے اس صفحہ کے عکس کے لیے دیکھیے ہماری یہی کتاب :ص۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
غورکیاجائے کہ یہ سارے کے سارے حنفی اکابرین ہیں جو یک زبان ہوکر کہہ رہے ہیں یہاں ناسخ سے غلطی ہوئی ہے لیکن افسوس کہ عوامہ صاحب کو یہ سچائی ہضم نہیں ہوئی اور وہ اس غلطی کو غلطی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوئے بلکہ انہیں کے اکابریں نے جو یہ کہا کہ یہاں ناسخ کی غلطی سے ابراہیم نخعی کے اثر کا آخری حصہ مرفوع حدیث میں شامل ہوگیا ہے۔عوامہ صاحب جذباتی انداز میں اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
والجواب أ ن ھذاتظنن وتشکک یفرح بہ اعداء اللہ والاسلام،لوفتح لمابقی لناثقة بشی من مصادردیننا!
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ گمان اور تشکیک ہے جو اللہ اوراس کے رسو ل کے دشمنوں کے لئے خوش کن ہے۔اگریہ دروازہ کھول دیا جائے توہمارے دین کے مصادرکی کوئی ثقاہت باقی نہیں رہے گی۔ [مصنف ابن ابی شیبہ : ج ٣ص ٣٢٠،مقدمة : بتحقیق عوامہ]

عرض ہے کہ عوامہ صاحب کی یہ بات بالکل ایسے ہی جیسے قرآن نے بعض کفار کے بارے میں نقل کیا کہ :
(وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا أَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِین )
انہوں نے انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر۔ پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرداز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا[النمل:١٤]

ہم یہ بات اس لئے کہہ رہے ہیں کہ یہاں اپنے اکابرین کی جس بات کا عوامہ صاحب نے جذباتی انداز میں انکار کیا ہے عین اسی بات کااعتراف عوامہ صاحب نے اسی کتاب میں دوسرے مقام پر خود کیا ہے۔
ایک ناسخ نے بالکل اسی طرح کی غلطی ایک دوسری جگہ کی ہے اور وہاں پچھلی روایت کے حصہ کو اگلی روایت کے ساتھ ملا دیا ہے اور اگلی روایت کامتن غائب کردیا ہے۔
چنانچہ عوامہ صاحب کی تحقیق سے شائدہ مصنف ابن ابی شیبہ کی پانچویں جلد میں نمبر(٧٧٦٣) کے تحت یہ اثر ہے:

حدثنا وکیع ، عن حسن بن صالح ، عن عمرو بن قیس ، عن أبی الحسناء ؛ أن علیا أمر رجلا یصلی بہم فی رمضان عشرین رکعة.

اوراس کے فورا بعد یہ اثرہے:
حدثنا وکیع ، عن مالک بن أنس ، عن یحیی بن سعید ، أن عمر بن الخطاب أمر رجلا یصلی بہم عشرین رکعة.

عوامہ صاحب کے نسخہ سے اس صفحہ کا عکس آگے ملاھظہ ہو:

عوامہ صاحب کے پیش نظر شیخ عابد سندھی کے نسخہ سے دوسرااثر غائب ہے جیساکہ خود عوامہ صاحب نے حاشیہ لکھا ہے۔اور عوامہ صاحب ہی کے بقول ایک دوسرے نسخہ میں یہ اثر موجو دتو ہے مگر اس کے متن کی جگہ پچھلے اثر ہی کا متن موجود ہے۔

اوریہاں عوامہ صاحب نے یہ وضاحت کی ہے شاید ناسخ کی نظر پچھلے اثر پڑی اور اس نے پچھلے اثر کے متن کو دوبارہ یہی پردرج کردیا چنانچہ عوامہ صاحب اس صفحہ کے حاشیہ پرلکھتے ہیں:
سقط ھذ الأثرمن ع وجاء فی أ ھکذا:وکیع ، عن مالک بن أنس ، أن علیا أمر رجلا یصلی بہم فی رمضان عشرین رکعة.وھو سبق نظر الی الأثر السابق
یہ اثر''ع'' یعنی شیخ عابدسندھی کے نسخہ میں نہیں ہے ۔اور '' أ '' یعنی مکتبہ احمدالثالث کے نسخہ میں اس طرح ہے:''وکیع ، عن مالک بن أنس ، أن علیا أمر رجلا یصلی بہم فی رمضان عشرین رکعة.'' اور ایسا (کاتب کی جانب سے) پہلے اثرکی طرف سبقت نظر کی وجہ سے ہوا[مصنف بن أبی شیبة ت عوامة:٢٢٣٥]۔

قارئیں !ملاحظہ فرمایا آپ نے!کیا یہ دوغلی پالیسی نہیں ہے؟
ہم پوچھتے ہیں کہاں گئی عوامہ صاحب کی وہ جذباتی تقریرکہ اس طرح کے گمان سے اللہ کے دشمن خوش ہوگے اور یہ دروازہ کھول دیاجائے تو مصادر دینیہ سے اعتماد اٹھ جائے گا؟اگراس طرح کے گمان کی گنجائش نہیں تھی اوراس کا سد باب ہونا چاہئے ۔ تو خود عوامہ صاحب نے اس مقام پر یہ بدگمانی کیسے کرلی اور اللہ کے دشمنوں کو خوش کرنے کے لئے یہ دروازہ کیسے کھول دیا ؟

صاف ظاہر ہے عوامہ صاحب کو بھی تسلیم ہے کہ سبقت نظر کے سبب کاتب سے اس طرح کی غلطی ہوجاتی ہے اوردیگرنسخوں کی مددسے اس کی اصلاح کرنا تحقیق کافریضہ ہے ۔لیکن چونکہ زیرناف والے مسئلہ میں ان کے مسلک اور ان کے یاروں کا دفاع مقصود تھا اس لئے وہاں اپنے نزدیک مسلم سچائی سے بھی انکار کردیا گیا۔اس طرح کا انکاروجحود سرکش کفار کا شیوہ ہے ۔کیونکہ زبان پر انکارہوتا ہے اور دل میں تصدیق ہوتی ہے جیساکہ اوپر قرآن کی آیت ذکر کی گئی ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اورشایدعوامہ صاحب کو بھی اندازہ تھا کہ اس واضح حقیقت کے خلاف ان کی جذباتی تقریر میں کوئی کشش نہیں ہے اسی لئے موصوف نے تنکے کاسہارا لینے کی کوشش کی اورکہا:
ومع ذلک فماذانفعل بثبوت ذلک کلہ فی نسخة الشیخ محمدعابد السندی ،التی فیھاالحدیث والأثر،وفی آخرکل منھماتحت السرة ؟!ومع من زاد علم واثبات وحجة ،فماذامع النافی؟!
علاوہ بریں اس کے بارے میں کہا کہیں گے کہ شیخ عابدسندھی کے نسخہ میںیہ سب ثابت ہے جس میں مرفوع حدیث اوراثر دنوں ہیں اور دنوں کے آخر میں تحت السرہ ہے[مصنف ابن ابی شیبہ : ج ٣ص ٣٢٠،مقدمة : بتحقیق عوامہ]

عرض ہے کہ گذشتہ سطور میں بتایاجاچکا ہے کہ خود عوامہ نے اس نسخہ کوناقابل اعتماد قراردیا ہے تو پھر یہاں اس ناقابل اعتماد نسخہ سے دلیل پکڑنا سوائے ڈوبتے کو تنکے کا سہاراوالا معاملہ نہیں تو اور کیا ہے؟
مزید یہ کہ خود عوامہ صاحب نے دوسرے مقام پرنسخہ میں اس طرح کی غلطی پراعتماد نہیں کیا ہے ۔ چنانچہ ماقبل میں ہم نے عوامہ صاحب کے محقق نسخہ کے حوالے اسی طرح کی غلطی کی جومثال پیش کی ہے اسے دوبارہ دیکھیں ۔ عوامہ صاحب حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ شیخ عابدسندھی کے نسخہ میں عمرفاروق ص کا اثر مع سندومتن غائب ہے۔ لیکن مکتبہ احمدالثالث کے نسخہ میں یہی اثر مع سند ومتن موجود ہے مگر اس میں عمرفاروق صکے بجائے علیص کانام لکھ گیاہے یعنی باعتراف عوامہ صاحب اس نسخہ میں علیص کے پہلے اثر کے ساتھ ساتھ انہیں سے یہی اثردوبارہ دوسری سند سے منقول ہے۔
اب کیا ہم عوامہ صاحب سے پوچھ سکتے ہیں کہ یہاں تو علی رضی اللہ عنہ کے پہلے اثرکے ساتھ ساتھ ہی دوسرااثردوسری سند سے منقول ہے پھراس میں کاتب سے غلطی کیسے ہوگئی ؟؟؟
ظاہر ہے کہ ہر معقول آدمی یہاں بھی سبقت نظر ہی کی بات کہے گا کہ سبقت نظر کے سبب ناسخ نے دوسرے اثر میں بھی پہلے اثر کا متن شامل کردیا ۔اور عوامہ صاحب نے بھی یہاں یہی کہا ہے۔
یہی بات ہم بھی تحت السرہ کے مسئلہ میں کہتے ہیں ۔یعنی یہ کہ کے شیخ مرتضی الزبیدی کے نسخہ میں سبقت نظر کے سبب ناسخ سے ابراہیم نخعی کا اثر چھوٹ گیا اور اس کا آخری حصہ پہلی روایت سے مل گیا ۔
اور شیخ عابدسندھی کے نسخہ میں دونوں روایت ہے لیکن پہلی روایت میں سبقت نظر سے ناسخ نےاگلی روایت کاآخری حصہ بھی شامل کردیا ۔
اتفاق تو دیکھئے کہ کاتبوں نے ہاتھ باندھنے والی روایات میں جس طرح کی غلطی کی ہے ٹھیک اسی طرح کی غلطی تراویح سے متعلق روایات میں بھی کی ہے۔

٭چانچہ ایک نسخہ میں جس طرح کاتب کی غلطی سے تحت السرہ سے متعلق مرفوع حدیث کے بعد ابراہیم نخعی کا اثر غائب ہے ٹھیک اسی طرح ایک نسخہ میں کاتب کی غلطی سے تراویح سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کے اثر کے بعد عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا اثر غائب ہے ۔
٭اورجس طرح ایک نسخہ میں ہاتھ باندھنے سے متعلق حدیث اور اثردونوں موجود ہیں لیکن کاتب کی غلطی سے اثر کا متن حدیث والی روایت کے متن میں شامل ہوگیا ہے۔
ٹھیک اسی طرح تراویح سے متعلق ایک نسخہ میں علی اور عمررضی اللہ عنہمادونوںکے آثارموجود ہیں مگر کاتب کی غلطی سے دوسرے اثر میں پہلے اثر کا متن شامل ہوگیا ہے۔

الغرض یہ کہ کاتبوں اور ناسخوں سے اس طرح کی غلطیاں ہوجاتی ہیں اور اس کی بہت ساری مثالیں پیش کی جاسکتی ہے ۔ہم نے صرف عوامہ صاحب ہی کے الفاظ میں ایک مثال پیش کی ہے ۔اس طرح کی مزید مثالوں کے لئے شیخ ارشاد الحق الاثری حفظہ اللہ کا مقالہ دیکھئے جسے ہم آگے پیش کررہے ہیں۔
مزید عرض ہے کہ یہ نسخہ شیخ مرتضی الزبیدی کا ہے اور انہوں نے خود اس پر اعتماد نہیں کیا ہے ۔دیکھئے شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا مقالہ اسی کتاب میں صفحہ پر(انوارالبدرفی وضع الیدین علی الصدر:ص)۔
اسی طرح اس نسخہ پر علامہ عینی حنفی کے حواشی بھی ہین لیکن انہوں نے بھی اس پر اعتماد نہین کیا ہے دیکھئے:شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا مقالہ اسی کتاب میں صفحہ پر(انوارالبدرفی وضع الیدین علی الصدر:ص)۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
واضح رہے کہ شیخ مرتضی الزبیدی کا یہی نسخہ شیخ قاسم بن قطلوبا حنفی کے دور میں تھا اور انہو ں نے بھی اس سے اپنی کتاب میں ابن ابی شبیہ کی یہ روایت تحت السرہ کی زیاتی کے ساتھ نقل کی ہے ۔ظاہر ہے کہ جب یہ اصل نسخہ ہی غیرمعتبر ہے اور اس میں کاتب نے غلطی کی ہے تو اس نسخہ سے شیخ قاسم کے نقل کرنے کوئی فرق نہیں پڑنے والانہیں کیونکہ جہاں سے موصوف نے نقل کیا ہے وہیں پر غلطی ہے۔
یاد رہے کہ شیخ قاسم بن قطلوبا کو اس نسخہ کے علاوہ کوئی دوسرا نسخہ نصیب ہی نہیں ہوا ورنہ وہ نسخوں کااختلاف ضروربتلاتے اوراس پربحث کرتے جیساکہ دیگرلوگوں نے کیا ہے۔
حیرت ہے کہ عوامہ صاحب نے خود اعتراف کیا ہے شیخ قاسم بن قطلوباکے پیش نظریہی نسخہ تھا اور انہوں نے اسی نسخہ سے یہ روایت نقل کی ہے ۔لیکن پھر اس روایت پر حاشیہ آرائی فرماتے وقت موصوف نے قاسم بن قطلوبا کے پیش نظر نسخہ کو علیحدہ نسخہ شمارکیا ہے۔اس کی مفصل تردید کے لئے شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا مقالہ دیکھئے اسی کتاب میں صفحہ پر(انوارالبدرفی وضع الیدین علی الصدر)

ایک خوش فہمی کاازالہ

ایک شخص نے بڑی خوش فہمی میں کہا کہ شیخ قاسم بن قطلوبا نے جب یہ روایت اپنی کتاب میں نقل تو اس وقت کے کسی بھی عالم نے ان پر تعاقب نہیں اور پھر اس پر ایک لمباعرصہ گذرا اس بیچ بھی کسی نے ان کی تردید نہیں کی۔اس سے پتہ چلا کہ مصنف کے نسخہ میں یہ لفظ ثابت ہے ورنہ قاسم پر تعاقب کیا جاتاہے۔
عرض ہے کہ :

اولا:
یہ خوش فہمی ہی مضحکہ خیز ہے کہ فقہ حنفی کی اس کتاب کو بہت سارے اہل علم نے دیکھا ہوگا۔بھائی یہ لوح محفوظ سے نازل شدہ قرآن مجید ہے یا اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے کہ وجود میں آتے ہی پوری دنیا میں عام ہوجائے؟یہ ایک متعصب حنفی کی فقہ حنفی کی ایک کتاب کی تخریج ہے بھلا دنیاکے دیگر اہل علم کو اس سے کیا سروکار؟
دیگراہل علم تو دورکی بات خود علمائے احناف ہی کے درمیان اس کتاب کا عام ہونا ثابت نہیں ہے۔عصرحاضرمیں جن صاحب نے اس کتاب کی تحقیق کی ہے انہیں بھی اس بدنصیب کتاب کے صرف دوہی نسخے مل سکے۔اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ خود احناف کے نظروں سے بھی یہ کتاب محروم ومجہول رہی ہے دیگرعلماء کی اس پر نظرعنایت تو بہت دورکی بات ہے۔
دیگرعلماء کو جانے دیں خود احناف ہی سے ثابت کریں کہ قاسم بن قطلوباکی اس عبارت کو کتنے احناف نے پڑھا اور اسے عام کیا ؟قاسم بن قطلوبا کے بعد بھی حنفی علماء نے اس مسئلہ پرکی نسلوں تک بات کی ہے لیکن کسی بھی حنفی نے قاسم بن قطلوباکی اس گمنام کتاب کی عبارت نقل کی ؟
اگر اس کتاب کی عبارت دوسرے احناف کے ذریعہ بھی نقل کی گئی ہوتی اوراسے عام کیا گیا ہوتا توبے شک اہل علم اس کی تردید کرتے ۔چنانچہ ماضی قریب میں جب اس کتاب کی اس عبارت کو عام کیا جانے لگا تو اس کی تردید بھی ہونے لگی بلکہ سب سے پہلے خود حنفی علماء ہی نے اس کی تردید کی ہے جیساکہ حوالے گذرچکے ہیں۔

ثانیا:
یہ بھی توممکن ہے جن کی نظراس عبارت پرپڑی ہوانہوں نے بھی اسے واضح طور پر غلط ہونے اورعام نہ ہونے کے سبب نظرانداز کردیا جیساکہ خودشیخ مرتضی الزبیدی ہی کامعاملہ جن کے نسخہ سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے یہ توخود اس نسخہ کے مالک ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس مسئلہ پربا ت کرتے ہوئے اس روایت سے دلیل نہیں لی ۔اسی طرح علامہ عینی نے اس نسخہ سے استفادہ کیا لیکن انہوں نے بھی اس مسئلہ پربات کرتے ہوئے اس روایت سے دلیل نہیں لی اورساتھ میں ان لوگوں اس نسخہ کی روایت پررد بھی نہیں کیا،صاف ظاہرہے ان لوگوں نے اس روایت کی غلطی کو واضح البطلان ہونے کے سبب نظرانداز کردیا۔یہی معاملہ قاسم بن قطلوبا کی عبارت کا بھی ہے۔

ثالثا:
ایک اورلطیفہ دیکھیں کہ فقہ حنفی ہی کی ایک کتاب میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی مرفوع حدیث نقل کی گئی ہے دیکھیے ہماری یہی کتاب :(انوارالبدرفی وضع الیدین علی الصدر:ص)
اس حدیث کاپوری دنیا کی کسی بھی کتاب میں کوئی وجود نہیں ہے۔پھربھی آج تک کسی بھی غیرحنفی نے اس کتاب میں منقول ا س حدیث پرتنقید نہیں کی!تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح سند سے حدیث کی کتابوں میں ثابت تھی اس لئے اس پررد کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکا؟
صاف ظاہرہے کہ اس معدوم السندروایت کا بطلان اس قدرواضح تھا کہ کسی نے اس کارد کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور احناف نے بھی اس مسئلہ پربات کرتے ہوئے اسے نظر اندارکرتے رہے مگر کسی نے اس پرتنقید بھی نہیں کیا ۔
البتہ ماضی قریب میں جب شیخ محمد ہاشم ٹھٹھوی نے اس حدیث کو دہراتو خود حنفی عالم شیخ محمدحیاة سندھی نے ہی فوراکہہ دیا یہ روایت عدیم السند ہے دیکھئے:[درة فی اظہارغش نقد الصرة :ص٦٦ المطبوع مع درھم الصرة]

رابعا:
بطول الزام عرض ہے کہ احناف ہی میں سے علامہ عبدالحق دہلوی نے اپنی کتاب''شرح سفر السعادة'' میں ترمذی کے حوالے سے ہلب الطائی رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے اور اس میں سینے پرہاتھ باندھنے کے الفاظ بھی نقل کیے ہیں ۔ دیکھیے:[شرح سفر السعادت: ص:٤٤ بحوالہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں: ص:٤١،شیخ رشداللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے ''درج الدرر ''میں بھی اس کاحوالہ دیاہے]
حالانکہ ترمذی کے کسی بھی دسیتاب نسخہ میں اس حدیث کے اندرسینے پر ہاتھ باندھنے والے الفاظ نہیں ہے۔
اوریہ بات نقل کیے ہوئے بہت بڑا عرصہ بیت گیا اور آج تک کسی نے اس کارد نہیں کیا ہے حالانکہ ترمذی کے حوالے سے یہ بات لکھنے والے ہندوستان سے تعلق رکھتے تھے اور ہندوستان میں اہل حدیث اور احناف کے بیچ جو مسلکی منافرت ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔لیکن اس کے باوجود بھی آج تک کسی بھی حنفی نے اس کی تردید نہیں کی ۔تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ سنن ترمذی میں یہ حدیث انہیں الفاظ کے ساتھ ثابت ہے؟ فماکان جوابکم فھو جوابنا۔
الغرض یہ کہ شیخ قاسم بن قطلوبا کاحوالہ بھی بے سود ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top