کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
عوامہ صاحب آگے لکھتے ہیں:
ومع من زاد علم واثبات وحجة ،فماذامع النافی؟!
اورجس نے زیادتی کی ہے اس کے ساتھ علم اوراثبات اورحجت ہے تونفی کرنے والے کے پاس کیا ہے[مصنف ابن ابی شیبہ :ج ٣ص ٣٢٠،مقدمة : بتحقیق عوامہ]
ہم کہتے ہیں کہ زیادتی کرنے والے نے اثبات تو کیا ہے یعنی تحت السرہ کااضافہ کیا ہے لیکن اس کے پاس علم اور حجت ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔اورنہ ہی عوامہ صاحب کے پاس کوئی دلیل ہے۔ غالبا عوامہ صاحب یہاں اس اصول کواپلائی کرنا چاہتے ہیں کہ ثقہ کی زیادتی قبول ہوتی ہے جیساکہ ان ہی کے پیش رولوگوں نے بھی یہ بات کہی ہے اس سلسلے میں عرض ہے کہ:
اولا:
عوامہ صاحب ہی کے حوالے سے پہلے نقل کیا جاچکا ہے ان کے پیش نظر ایک نسخہ میں تراویح ہی سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کااثر دوسری سند سے دوبارہ منقول ہے۔یعنی اس نسخہ میں یہ زیادتی ہے اوربقیہ نسخوں میں اس کا ذکر نہیں ہے۔لیکن عوامہ صاحب نے یہاں پر یہ اصول اپلائی کرکے یہ زیادتی قبول نہیں کیا بلکہ اس دوسر ی سندوالے اثر کو غلط قراردیا اور کہا کہ یہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ ہی کا اثر ہے نہ کی علی رضی اللہ عنہ کا۔اوراس غلطی کی وجہ کاتب کی سبقت نظرہے۔
ہم کہتے ہیں کہ تحت السرہ کے مسئلہ میں بھی کاتب سے سبقت نظر کی غلطی ہوئی ہے اس لئے یہاں بھی یہ اصول نہیں فٹ ہوگا۔
ثانیا:
حدیث کے عام طلباء بھی جانتے ہیں کہ زیادتی'' ثقہ راوی'' کی قبول ہوتی ہے اورجن نسخوں میں یہ زیادتی ہے ان کے ناسخوں کا ثقہ ہونا معلوم نہیں ہے۔بلکہ خودعوامہ نے بھی ان نسخوں کو غیرمستند قراردیا ہے۔ایسی صورت میں اس اصول کی رٹ لگانا کیا معنی رکھتاہے۔
اگرغیرمستند نسخوں میں بھی ایسا اضافہ ہوتا جس کی تائید متن کے بقیہ حصہ سے یادیگرطرق سے ہوتی تو اسے قبول کیا جاسکتاتھا لیکن یہاں ایسا کوئی معاملہ نہیں ۔
ثالثا:
مجہول راوی کی زیادتی تو درکنارثقہ راوی کی زیادتی بھی علی الاطلاق قبول نہیں ہوتی ہے بلکہ قرائیں دیکھ کرفیصلہ کیا جاتا ہے ۔اوریہاں قرائن یہی بتلاتے ہیں کہ کاتب کی غلطی سے تحت السرہ کااضافہ ہوا ہے ۔لہذا اگریہ اضافہ ثقہ کاتب سے ہوا ہوتا تو بھی ناقابل قبول ہوتا چہ جائے کہ یہ اضافہ یہاں مجہول کاتبوں نے کیاہے۔
رابعا:
یہ روایت دیگر محدثین نے بھی اپنی اپنی سند سے اسی متن کے ساتھ ذکر کی ہے جیساکہ شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے مضمون وضاحت آرہی ہے ۔اورکسی نے بھی اس روایت میں تحت السرہ کا اضافہ نقل نہیں کیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی یہ روایت اسی طرح ہونی چاہئے لہٰذا بعض مجہول کاتبوں کا یہ اضافہ کرنا قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
بعض لوگ کہتے ہیں مسند احمدمیں ہلب الطائی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سینے پرہاتھ باندھنے کاجواضافہ ہے ۔یہ اضافہ بھی دیگر کتب میں منقول اس حدیث میں نہیں ہے۔
عرض ہے کہ مسنداحمد پراس پہلو سے اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ مسنداحمدکے نسخوں اس اضافہ کے تعلق سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔بلکہ مسند احمدمیں امام احمدرحمہ اللہ ہی کے طریق سے ابن الجوزی وغیرہ نے بھی یہ روایت نقل کی ہے اور اس میں بھی سینے پرہاتھ باندھنے کا ذکر ہے لہٰذا مسنداحمدکی روایت پراس کو قیاس نہیں کیا جاسکتاہے۔
رہی بات یہ کہ مسنداحمدوالی روایت میں اوپر کے طبقات میں بعض رواة نے یہ حدیث بیان کی ہے اور انہوں نے بھی سینے پرہاتھ باندھنے کاذکرنہیں کیا ہے توعرض ہے کہ یہ رواة کا اختلاف ہے نسخوں کا نہیں نیز اس کاجواب بھی تفصیل سے گذرچکاہے دیکھئے یہی کتاب : (انورالبدرفی وضع الیدین علی الصدر:ص)۔
خامسا:
صحیح ابن خزیمہ میں وائل بن حجررضی اللہ عنہ ہی سے سینے پرہاتھ باندھنے کی روایت ثابت ہے ۔ لہذا مصنف ابن ابی شیبہ میں انہیں کی روایت میں تحت السرہ کااضافہ ان کی ثابت شدہ روایت کے خلاف ہے۔اورجب زیادتی میں مخالفت ہوتووہ مردود ہوتی ہے خواہ ثقہ ہی کی طرف سے ہو۔
معلوم ہواکہ زیادتی ثقہ کا اصول یہاں پرکسی بھی صورت میں فٹ نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ کلام یہ کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں احناف نے تحریف کی ہے اور زبردستی اس میں ''تحت السرة'' کااضافہ کردیا۔
اورجب ان کی یہ چوری پکڑی گئی تو بے چارے ادھر کے سہارے تلاش کرنے لگے ۔اگرواقعتا ان سہاروں میں کوئی دم ہوتا تویہ لوگ اسی وقت یہ ساری پیش کرتے جب انہوں نے اس حدیث میں تبدیلی کی تھی لیکن تبدیلی کرتے وقت یہ خاموش رہے اورجب ان کی گرفت کی گئی تو بے بنیاد سہارے تلاش کرنے لگے۔
احناف کی طرف سے اس حدیث میں کی جانے والی تحریف سے عالم اسلام کو سب سے پہلے شیخ ارشادالحق اثری حفظہ اللہ نے ہی آگاہ کیا تھا۔اوراس بحث میں ہم نے شیخ کے مضمو ن سے بھرپور استفادہ کیاہے جزاہ اللہ خیراواحسن الجزاء۔
ومع من زاد علم واثبات وحجة ،فماذامع النافی؟!
اورجس نے زیادتی کی ہے اس کے ساتھ علم اوراثبات اورحجت ہے تونفی کرنے والے کے پاس کیا ہے[مصنف ابن ابی شیبہ :ج ٣ص ٣٢٠،مقدمة : بتحقیق عوامہ]
ہم کہتے ہیں کہ زیادتی کرنے والے نے اثبات تو کیا ہے یعنی تحت السرہ کااضافہ کیا ہے لیکن اس کے پاس علم اور حجت ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔اورنہ ہی عوامہ صاحب کے پاس کوئی دلیل ہے۔ غالبا عوامہ صاحب یہاں اس اصول کواپلائی کرنا چاہتے ہیں کہ ثقہ کی زیادتی قبول ہوتی ہے جیساکہ ان ہی کے پیش رولوگوں نے بھی یہ بات کہی ہے اس سلسلے میں عرض ہے کہ:
اولا:
عوامہ صاحب ہی کے حوالے سے پہلے نقل کیا جاچکا ہے ان کے پیش نظر ایک نسخہ میں تراویح ہی سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کااثر دوسری سند سے دوبارہ منقول ہے۔یعنی اس نسخہ میں یہ زیادتی ہے اوربقیہ نسخوں میں اس کا ذکر نہیں ہے۔لیکن عوامہ صاحب نے یہاں پر یہ اصول اپلائی کرکے یہ زیادتی قبول نہیں کیا بلکہ اس دوسر ی سندوالے اثر کو غلط قراردیا اور کہا کہ یہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ ہی کا اثر ہے نہ کی علی رضی اللہ عنہ کا۔اوراس غلطی کی وجہ کاتب کی سبقت نظرہے۔
ہم کہتے ہیں کہ تحت السرہ کے مسئلہ میں بھی کاتب سے سبقت نظر کی غلطی ہوئی ہے اس لئے یہاں بھی یہ اصول نہیں فٹ ہوگا۔
ثانیا:
حدیث کے عام طلباء بھی جانتے ہیں کہ زیادتی'' ثقہ راوی'' کی قبول ہوتی ہے اورجن نسخوں میں یہ زیادتی ہے ان کے ناسخوں کا ثقہ ہونا معلوم نہیں ہے۔بلکہ خودعوامہ نے بھی ان نسخوں کو غیرمستند قراردیا ہے۔ایسی صورت میں اس اصول کی رٹ لگانا کیا معنی رکھتاہے۔
اگرغیرمستند نسخوں میں بھی ایسا اضافہ ہوتا جس کی تائید متن کے بقیہ حصہ سے یادیگرطرق سے ہوتی تو اسے قبول کیا جاسکتاتھا لیکن یہاں ایسا کوئی معاملہ نہیں ۔
ثالثا:
مجہول راوی کی زیادتی تو درکنارثقہ راوی کی زیادتی بھی علی الاطلاق قبول نہیں ہوتی ہے بلکہ قرائیں دیکھ کرفیصلہ کیا جاتا ہے ۔اوریہاں قرائن یہی بتلاتے ہیں کہ کاتب کی غلطی سے تحت السرہ کااضافہ ہوا ہے ۔لہذا اگریہ اضافہ ثقہ کاتب سے ہوا ہوتا تو بھی ناقابل قبول ہوتا چہ جائے کہ یہ اضافہ یہاں مجہول کاتبوں نے کیاہے۔
رابعا:
یہ روایت دیگر محدثین نے بھی اپنی اپنی سند سے اسی متن کے ساتھ ذکر کی ہے جیساکہ شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے مضمون وضاحت آرہی ہے ۔اورکسی نے بھی اس روایت میں تحت السرہ کا اضافہ نقل نہیں کیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی یہ روایت اسی طرح ہونی چاہئے لہٰذا بعض مجہول کاتبوں کا یہ اضافہ کرنا قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
بعض لوگ کہتے ہیں مسند احمدمیں ہلب الطائی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سینے پرہاتھ باندھنے کاجواضافہ ہے ۔یہ اضافہ بھی دیگر کتب میں منقول اس حدیث میں نہیں ہے۔
عرض ہے کہ مسنداحمد پراس پہلو سے اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ مسنداحمدکے نسخوں اس اضافہ کے تعلق سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔بلکہ مسند احمدمیں امام احمدرحمہ اللہ ہی کے طریق سے ابن الجوزی وغیرہ نے بھی یہ روایت نقل کی ہے اور اس میں بھی سینے پرہاتھ باندھنے کا ذکر ہے لہٰذا مسنداحمدکی روایت پراس کو قیاس نہیں کیا جاسکتاہے۔
رہی بات یہ کہ مسنداحمدوالی روایت میں اوپر کے طبقات میں بعض رواة نے یہ حدیث بیان کی ہے اور انہوں نے بھی سینے پرہاتھ باندھنے کاذکرنہیں کیا ہے توعرض ہے کہ یہ رواة کا اختلاف ہے نسخوں کا نہیں نیز اس کاجواب بھی تفصیل سے گذرچکاہے دیکھئے یہی کتاب : (انورالبدرفی وضع الیدین علی الصدر:ص)۔
خامسا:
صحیح ابن خزیمہ میں وائل بن حجررضی اللہ عنہ ہی سے سینے پرہاتھ باندھنے کی روایت ثابت ہے ۔ لہذا مصنف ابن ابی شیبہ میں انہیں کی روایت میں تحت السرہ کااضافہ ان کی ثابت شدہ روایت کے خلاف ہے۔اورجب زیادتی میں مخالفت ہوتووہ مردود ہوتی ہے خواہ ثقہ ہی کی طرف سے ہو۔
معلوم ہواکہ زیادتی ثقہ کا اصول یہاں پرکسی بھی صورت میں فٹ نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ کلام یہ کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں احناف نے تحریف کی ہے اور زبردستی اس میں ''تحت السرة'' کااضافہ کردیا۔
اورجب ان کی یہ چوری پکڑی گئی تو بے چارے ادھر کے سہارے تلاش کرنے لگے ۔اگرواقعتا ان سہاروں میں کوئی دم ہوتا تویہ لوگ اسی وقت یہ ساری پیش کرتے جب انہوں نے اس حدیث میں تبدیلی کی تھی لیکن تبدیلی کرتے وقت یہ خاموش رہے اورجب ان کی گرفت کی گئی تو بے بنیاد سہارے تلاش کرنے لگے۔
احناف کی طرف سے اس حدیث میں کی جانے والی تحریف سے عالم اسلام کو سب سے پہلے شیخ ارشادالحق اثری حفظہ اللہ نے ہی آگاہ کیا تھا۔اوراس بحث میں ہم نے شیخ کے مضمو ن سے بھرپور استفادہ کیاہے جزاہ اللہ خیراواحسن الجزاء۔
Last edited: