اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
جزاک اللہ خیراآمین.
جناب میں نے آپکو کل تحت السرہ کے حوالے سے کچھ کہا تھا آپ نے جواب نہیں دیا.ٹھیک ھے پھر لیجئے جواب.
ھاشم ٹھٹھوی صاحب فرماتے ھیں :
۱
وقد وجدت ھی(ای زیادة تحت السرة) فی ثلث نسخ من مصنف ابی بکر بن ابی شیبة. منها النسخة التي نقلہا عنها الشيخ قاسم محدث الديار المصرية رحمه الله تعالي.....الخ .ترصیع الدرہ...مصورہ شروع والا عکس دیکھں.
یعنی تحت السرہ کی زیادتی تین نسخوں میں پائی گئی ھے.جن میں سے ایک نسخہ وہ ھے جس سے اس (تحت السرہ کی زیادتی )کو شیخ قاسم محدث الدیار المصریہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ھے.
اب آپ یہ تو جانتے ھی ھیں کہ شیخ قاسم نے یہ زیادتی کہاں نقل کی ھے...یعنی اپنی کتاب التعریف....الخ میں.
نہیں اس سے دو مطلب ہو سکتے ہیں:۔
- نسخہ اصل سے اپنے نسخے میں نقل کیا ہے۔
- اپنے نسخے سے کتاب میں نقل کیا ہے۔
صفحہ نمبر بھی بتائیے۔ یہ عبارت اس کتاب میں موجود ہے لیکن مجھے نہیں مل رہی۔۲
قد ثبت وجود لفظة تحت السرة ملحقة بحديث وائل في النسخ المتقدم ذكرها.اما في نسخة الشيخ قاسم فباخباره وهو عدل واما في النسختين الاخيرتين فبالمشاهدة....ترصيع الدرة...الخ..مصورہ ..یعنی عکس دیکھیں.
بیشک تحت السرہ کے الفاظ کا وجود حدیث وائل کے ساتھ ان نسخوں میں ثابت ھوچکا ھے جن کا ذکر پہلے گذرا...شیخ قاسم کے نسخے میں اسکے وجود کا ثبوت اسکے خبر دینے سے ھے اور وہ عادل ھے.باقی آخری دو نسخوں میں..تو یہ مشاہدہ سے ھے.....الخ.
یعنی شیخ قاسم نے اپنی کتاب میں یہ روایت ذکر کی گویا خبر دی اور دو نسخوں میں ٹھٹھوی صاحب خوددیکھا ھے.
اگر ابن قطلوبغا والا نسخہ دیکھا ھوتا تو دو کی تخصیص دیکھنے کے لیے نہ کرتے.
اب یہاں تک آپ نے میرے سوال میں موجود دو شقوں یعنی رویت اور اخبار میں سے اخبار کو اختیار کر لیا ہے۔
اس اخبار کی حیثیت کا تب علم ہوگا جب نسخہ کے تقابل و تصحیح کا علم ہوگا۔
کسی نسخہ سے احتجاج کے لیے شرط یہ ہے:۔
الثامنة: إذا ظهر بما قدمناه انحصار طريق معرفة الصحيح والحسن الآن في مراجعة الصحيحين وغيرهما من الكتب المعتمدة، فسبيل من أراد العمل أو الاحتجاج بذلك - إذا كان ممن يسوغ له العمل بالحديث، أو الاحتجاج به لذي مذهب - أن يرجع إلى أصل قد قابله هو أو ثقة غيره بأصول صحيحة متعددة، مروية بروايات متنوعة، ليحصل له بذلك - مع اشتهار هذه الكتب وبعدها عن أن تقصد بالتبديل والتحريف - الثقة بصحة ما اتفقت عليه تلك الأصول، والله أعلم.
مقدمۃ ابن صلاح ص 29 ط دار الفکر
"اس شخص کا طریقہ جو عمل کا ارادہ کرے یا اس (حدیث) سے احتجاج کا، جب کہ وہ ان میں سے ہو جن کے لیے حدیث پر عمل کی گنجائش ہے یا کسی مذہب والے کے لیے حدیث سے حجت پکڑنے کی گنجائش ہے، یہ ہے کہ وہ ایسی اصل کی طرف رجوع کرے جس کا تقابل اس نے یا اس کے علاوہ کسی ثقہ نے صحیح متعدد اصل سے کیا ہو جو مختلف روایات سے مروی ہوں۔"
(ترجمہ صرف مطلوبہ حصے کا کر رہا ہوں)
أما إذا لم يعارض كتابه بالأصل أصلا فقد سئل الأستاذ أبو إسحاق الإسفراييني عن جواز روايته منه فأجاز ذلك. وأجازه الحافظ أبو بكر الخطيب أيضا وبين شرطه، فذكر أنه يشترط أن تكون نسخته نقلت من الأصل وأن يبين عند الرواية أنه لم يعارض. وحكى عن شيخه أبي بكر البرقاني أنه سأل أبا بكر الإسماعيلي: ((هل للرجل أن يحدث بما كتب عن الشيخ ولم يعارض بأصله؟))، فقال: ((نعم، ولكن لا بد أن يبين أنه لم يعارض)). قال: وهذا هو مذهب أبي بكر البرقاني، فإنه روى لنا أحاديث كثيرة قال فيها: ((أخبرنا فلان، ولم أعارض بالأصل)) .
قلت: ولا بد من شرط ثالث، وهو أن يكون ناقل النسخة من الأصل غير سقيم النقل، بل صحيح النقل قليل السقط، والله أعلم.
مقدمۃ ابن صلاح ص 303 ط دار الکتب العلمیۃ
"بہرحال جب وہ اپنی کتاب کا تقابل اصل سے بالکل نہ کرے تو ابو اسحاق اسفرائینی سے اس کے اس کتاب سے روایت کے جواز کے بارے میں پوچھا گیا تو اجازت دے دی۔ اور حافظ ابو بکر الخطیب نے بھی اجازت دی ہے اور اس کی شرط بیان کی ہے۔ تو ذکر کیا ہے کہ شرط یہ ہے کہ اس کا نسخہ اصل سے نقل ہو اور وہ روایت کے وقت بیان کر دے کہ اس نے تقابل نہیں کیا۔"
"میں کہتا ہوں: ایک تیسری شرط بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ اصل سے نقل کرنے والا نقل میں غلطیاں کرنے والا نہ ہو بلکہ صحیح النقل اور کم غلطیوں والا ہو۔ واللہ اعلم۔"
اس پر مزید تفصیلی بحث کی ہے سیوطی اور نووی رحمہما اللہ نے لیکن اس مقام پر اس کی ضرورت نہیں ہے۔
مقدمۃ ابن صلاح میں یہ شرائط ذکر ہیں۔ ابن قطلوبغا ایک بڑے محدث ہیں اور مزید یہ کہ ابن صلاح کی یہ علوم الحدیث انہوں نے باقاعدہ اپنے شیخ التاج النعمانی سے پڑھی ہے۔ علامہ سیوطی الضوء اللامع میں کہتے ہیں:۔
وارتحل قديما مع شيخه التاج النعماني إلى الشام بحيث أخذ عنه جامع مسانيد أبي حنيفة للخوارزمي وعلوم الحديث لابن الصلاح وغيرهما
تو جب انہوں نے یہ احتجاج کیا ہے تو ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے ان شرائط کا لحاظ کیا ہے۔ اگر ہم اسے تسلیم نہ کریں تو جتنے محدثین نے کسی بھی حدیث سے استدلال کیا ان سب پر یہ اشکال لازم آئے گا کہ ان کے نسخوں میں یہ شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ اس صورت میں شاید اکثر دلائل ضائع ہی جائیں گے۔ اور علماء میں سے کوئی یہ نہیں کہتا میرے علم کی حد تک۔
لہذا اگر آپ خلاف ظاہر کا دعوی کرتے ہیں کہ تقابل و تصحیح نہیں تھے تو آپ پر دلیل لازم ہے۔ والا ثبت ما ثبت بالظاہر۔
تیسرے اقتباس میں اسی بات کو خلاصۃ بیان کیا گیا ہے۔