• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آمین.
جناب میں نے آپکو کل تحت السرہ کے حوالے سے کچھ کہا تھا آپ نے جواب نہیں دیا.ٹھیک ھے پھر لیجئے جواب.

ھاشم ٹھٹھوی صاحب فرماتے ھیں :

۱
وقد وجدت ھی(ای زیادة تحت السرة) فی ثلث نسخ من مصنف ابی بکر بن ابی شیبة. منها النسخة التي نقلہا عنها الشيخ قاسم محدث الديار المصرية رحمه الله تعالي.....الخ .ترصیع الدرہ...مصورہ شروع والا عکس دیکھں.
یعنی تحت السرہ کی زیادتی تین نسخوں میں پائی گئی ھے.جن میں سے ایک نسخہ وہ ھے جس سے اس (تحت السرہ کی زیادتی )کو شیخ قاسم محدث الدیار المصریہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ھے.
اب آپ یہ تو جانتے ھی ھیں کہ شیخ قاسم نے یہ زیادتی کہاں نقل کی ھے...یعنی اپنی کتاب التعریف....الخ میں.
جزاک اللہ خیرا
نہیں اس سے دو مطلب ہو سکتے ہیں:۔

  1. نسخہ اصل سے اپنے نسخے میں نقل کیا ہے۔
  2. اپنے نسخے سے کتاب میں نقل کیا ہے۔
دوسرا یعنی آپ کا والا مطلب راجح ہے۔

۲
قد ثبت وجود لفظة تحت السرة ملحقة بحديث وائل في النسخ المتقدم ذكرها.اما في نسخة الشيخ قاسم فباخباره وهو عدل واما في النسختين الاخيرتين فبالمشاهدة....ترصيع الدرة...الخ..مصورہ ..یعنی عکس دیکھیں.
بیشک تحت السرہ کے الفاظ کا وجود حدیث وائل کے ساتھ ان نسخوں میں ثابت ھوچکا ھے جن کا ذکر پہلے گذرا...شیخ قاسم کے نسخے میں اسکے وجود کا ثبوت اسکے خبر دینے سے ھے اور وہ عادل ھے.باقی آخری دو نسخوں میں..تو یہ مشاہدہ سے ھے.....الخ.
یعنی شیخ قاسم نے اپنی کتاب میں یہ روایت ذکر کی گویا خبر دی اور دو نسخوں میں ٹھٹھوی صاحب خوددیکھا ھے.
اگر ابن قطلوبغا والا نسخہ دیکھا ھوتا تو دو کی تخصیص دیکھنے کے لیے نہ کرتے.
صفحہ نمبر بھی بتائیے۔ یہ عبارت اس کتاب میں موجود ہے لیکن مجھے نہیں مل رہی۔

اب یہاں تک آپ نے میرے سوال میں موجود دو شقوں یعنی رویت اور اخبار میں سے اخبار کو اختیار کر لیا ہے۔
اس اخبار کی حیثیت کا تب علم ہوگا جب نسخہ کے تقابل و تصحیح کا علم ہوگا۔
کسی نسخہ سے احتجاج کے لیے شرط یہ ہے:۔
الثامنة: إذا ظهر بما قدمناه انحصار طريق معرفة الصحيح والحسن الآن في مراجعة الصحيحين وغيرهما من الكتب المعتمدة، فسبيل من أراد العمل أو الاحتجاج بذلك - إذا كان ممن يسوغ له العمل بالحديث، أو الاحتجاج به لذي مذهب - أن يرجع إلى أصل قد قابله هو أو ثقة غيره بأصول صحيحة متعددة، مروية بروايات متنوعة، ليحصل له بذلك - مع اشتهار هذه الكتب وبعدها عن أن تقصد بالتبديل والتحريف - الثقة بصحة ما اتفقت عليه تلك الأصول، والله أعلم.
مقدمۃ ابن صلاح ص 29 ط دار الفکر

"اس شخص کا طریقہ جو عمل کا ارادہ کرے یا اس (حدیث) سے احتجاج کا، جب کہ وہ ان میں سے ہو جن کے لیے حدیث پر عمل کی گنجائش ہے یا کسی مذہب والے کے لیے حدیث سے حجت پکڑنے کی گنجائش ہے، یہ ہے کہ وہ ایسی اصل کی طرف رجوع کرے جس کا تقابل اس نے یا اس کے علاوہ کسی ثقہ نے صحیح متعدد اصل سے کیا ہو جو مختلف روایات سے مروی ہوں۔"
(ترجمہ صرف مطلوبہ حصے کا کر رہا ہوں)

أما إذا لم يعارض كتابه بالأصل أصلا فقد سئل الأستاذ أبو إسحاق الإسفراييني عن جواز روايته منه فأجاز ذلك. وأجازه الحافظ أبو بكر الخطيب أيضا وبين شرطه، فذكر أنه يشترط أن تكون نسخته نقلت من الأصل وأن يبين عند الرواية أنه لم يعارض. وحكى عن شيخه أبي بكر البرقاني أنه سأل أبا بكر الإسماعيلي: ((هل للرجل أن يحدث بما كتب عن الشيخ ولم يعارض بأصله؟))، فقال: ((نعم، ولكن لا بد أن يبين أنه لم يعارض)). قال: وهذا هو مذهب أبي بكر البرقاني، فإنه روى لنا أحاديث كثيرة قال فيها: ((أخبرنا فلان، ولم أعارض بالأصل)) .
قلت: ولا بد من شرط ثالث، وهو أن يكون ناقل النسخة من الأصل غير سقيم النقل، بل صحيح النقل قليل السقط، والله أعلم.
مقدمۃ ابن صلاح ص 303 ط دار الکتب العلمیۃ

"بہرحال جب وہ اپنی کتاب کا تقابل اصل سے بالکل نہ کرے تو ابو اسحاق اسفرائینی سے اس کے اس کتاب سے روایت کے جواز کے بارے میں پوچھا گیا تو اجازت دے دی۔ اور حافظ ابو بکر الخطیب نے بھی اجازت دی ہے اور اس کی شرط بیان کی ہے۔ تو ذکر کیا ہے کہ شرط یہ ہے کہ اس کا نسخہ اصل سے نقل ہو اور وہ روایت کے وقت بیان کر دے کہ اس نے تقابل نہیں کیا۔"
"میں کہتا ہوں: ایک تیسری شرط بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ اصل سے نقل کرنے والا نقل میں غلطیاں کرنے والا نہ ہو بلکہ صحیح النقل اور کم غلطیوں والا ہو۔ واللہ اعلم۔"

اس پر مزید تفصیلی بحث کی ہے سیوطی اور نووی رحمہما اللہ نے لیکن اس مقام پر اس کی ضرورت نہیں ہے۔
مقدمۃ ابن صلاح میں یہ شرائط ذکر ہیں۔ ابن قطلوبغا ایک بڑے محدث ہیں اور مزید یہ کہ ابن صلاح کی یہ علوم الحدیث انہوں نے باقاعدہ اپنے شیخ التاج النعمانی سے پڑھی ہے۔ علامہ سیوطی الضوء اللامع میں کہتے ہیں:۔
وارتحل قديما مع شيخه التاج النعماني إلى الشام بحيث أخذ عنه جامع مسانيد أبي حنيفة للخوارزمي وعلوم الحديث لابن الصلاح وغيرهما
تو جب انہوں نے یہ احتجاج کیا ہے تو ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے ان شرائط کا لحاظ کیا ہے۔ اگر ہم اسے تسلیم نہ کریں تو جتنے محدثین نے کسی بھی حدیث سے استدلال کیا ان سب پر یہ اشکال لازم آئے گا کہ ان کے نسخوں میں یہ شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ اس صورت میں شاید اکثر دلائل ضائع ہی جائیں گے۔ اور علماء میں سے کوئی یہ نہیں کہتا میرے علم کی حد تک۔
لہذا اگر آپ خلاف ظاہر کا دعوی کرتے ہیں کہ تقابل و تصحیح نہیں تھے تو آپ پر دلیل لازم ہے۔ والا ثبت ما ثبت بالظاہر۔

تیسرے اقتباس میں اسی بات کو خلاصۃ بیان کیا گیا ہے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
جزاک اللہ خیرا
نہیں اس سے دو مطلب ہو سکتے ہیں:۔

  1. نسخہ اصل سے اپنے نسخے میں نقل کیا ہے۔
  2. اپنے نسخے سے کتاب میں نقل کیا ہے۔
دوسرا یعنی آپ کا والا مطلب راجح ہے۔


صفحہ نمبر بھی بتائیے۔ یہ عبارت اس کتاب میں موجود ہے لیکن مجھے نہیں مل رہی۔

اب یہاں تک آپ نے میرے سوال میں موجود دو شقوں یعنی رویت اور اخبار میں سے اخبار کو اختیار کر لیا ہے۔
اس اخبار کی حیثیت کا تب علم ہوگا جب نسخہ کے تقابل و تصحیح کا علم ہوگا۔
کسی نسخہ سے احتجاج کے لیے شرط یہ ہے:۔
الثامنة: إذا ظهر بما قدمناه انحصار طريق معرفة الصحيح والحسن الآن في مراجعة الصحيحين وغيرهما من الكتب المعتمدة، فسبيل من أراد العمل أو الاحتجاج بذلك - إذا كان ممن يسوغ له العمل بالحديث، أو الاحتجاج به لذي مذهب - أن يرجع إلى أصل قد قابله هو أو ثقة غيره بأصول صحيحة متعددة، مروية بروايات متنوعة، ليحصل له بذلك - مع اشتهار هذه الكتب وبعدها عن أن تقصد بالتبديل والتحريف - الثقة بصحة ما اتفقت عليه تلك الأصول، والله أعلم.
مقدمۃ ابن صلاح ص 29 ط دار الفکر

"اس شخص کا طریقہ جو عمل کا ارادہ کرے یا اس (حدیث) سے احتجاج کا، جب کہ وہ ان میں سے ہو جن کے لیے حدیث پر عمل کی گنجائش ہے یا کسی مذہب والے کے لیے حدیث سے حجت پکڑنے کی گنجائش ہے، یہ ہے کہ وہ ایسی اصل کی طرف رجوع کرے جس کا تقابل اس نے یا اس کے علاوہ کسی ثقہ نے صحیح متعدد اصل سے کیا ہو جو مختلف روایات سے مروی ہوں۔"
(ترجمہ صرف مطلوبہ حصے کا کر رہا ہوں)

أما إذا لم يعارض كتابه بالأصل أصلا فقد سئل الأستاذ أبو إسحاق الإسفراييني عن جواز روايته منه فأجاز ذلك. وأجازه الحافظ أبو بكر الخطيب أيضا وبين شرطه، فذكر أنه يشترط أن تكون نسخته نقلت من الأصل وأن يبين عند الرواية أنه لم يعارض. وحكى عن شيخه أبي بكر البرقاني أنه سأل أبا بكر الإسماعيلي: ((هل للرجل أن يحدث بما كتب عن الشيخ ولم يعارض بأصله؟))، فقال: ((نعم، ولكن لا بد أن يبين أنه لم يعارض)). قال: وهذا هو مذهب أبي بكر البرقاني، فإنه روى لنا أحاديث كثيرة قال فيها: ((أخبرنا فلان، ولم أعارض بالأصل)) .
قلت: ولا بد من شرط ثالث، وهو أن يكون ناقل النسخة من الأصل غير سقيم النقل، بل صحيح النقل قليل السقط، والله أعلم.
مقدمۃ ابن صلاح ص 303 ط دار الکتب العلمیۃ

"بہرحال جب وہ اپنی کتاب کا تقابل اصل سے بالکل نہ کرے تو ابو اسحاق اسفرائینی سے اس کے اس کتاب سے روایت کے جواز کے بارے میں پوچھا گیا تو اجازت دے دی۔ اور حافظ ابو بکر الخطیب نے بھی اجازت دی ہے اور اس کی شرط بیان کی ہے۔ تو ذکر کیا ہے کہ شرط یہ ہے کہ اس کا نسخہ اصل سے نقل ہو اور وہ روایت کے وقت بیان کر دے کہ اس نے تقابل نہیں کیا۔"
"میں کہتا ہوں: ایک تیسری شرط بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ اصل سے نقل کرنے والا نقل میں غلطیاں کرنے والا نہ ہو بلکہ صحیح النقل اور کم غلطیوں والا ہو۔ واللہ اعلم۔"

اس پر مزید تفصیلی بحث کی ہے سیوطی اور نووی رحمہما اللہ نے لیکن اس مقام پر اس کی ضرورت نہیں ہے۔
مقدمۃ ابن صلاح میں یہ شرائط ذکر ہیں۔ ابن قطلوبغا ایک بڑے محدث ہیں اور مزید یہ کہ ابن صلاح کی یہ علوم الحدیث انہوں نے باقاعدہ اپنے شیخ التاج النعمانی سے پڑھی ہے۔ علامہ سیوطی الضوء اللامع میں کہتے ہیں:۔
وارتحل قديما مع شيخه التاج النعماني إلى الشام بحيث أخذ عنه جامع مسانيد أبي حنيفة للخوارزمي وعلوم الحديث لابن الصلاح وغيرهما
تو جب انہوں نے یہ احتجاج کیا ہے تو ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے ان شرائط کا لحاظ کیا ہے۔ اگر ہم اسے تسلیم نہ کریں تو جتنے محدثین نے کسی بھی حدیث سے استدلال کیا ان سب پر یہ اشکال لازم آئے گا کہ ان کے نسخوں میں یہ شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ اس صورت میں شاید اکثر دلائل ضائع ہی جائیں گے۔ اور علماء میں سے کوئی یہ نہیں کہتا میرے علم کی حد تک۔
لہذا اگر آپ خلاف ظاہر کا دعوی کرتے ہیں کہ تقابل و تصحیح نہیں تھے تو آپ پر دلیل لازم ہے۔ والا ثبت ما ثبت بالظاہر۔

تیسرے اقتباس میں اسی بات کو خلاصۃ بیان کیا گیا ہے۔

شکر ھے جان من آپنے یہ تسلیم تو کرلیا کہ ٹھٹوی صاحب نے وہ نسخہ نہیں دیکھا...باقی آپکا مطلب قطعا ثابت نہیں ھوتا.ویسے مجھے ٹھٹھوی صاحب کی باتوں میں مجھے نظر ھے.جن کو میں موقع کی مناسبت سے ذکر کروںگا.
فی الحال یہ بتائیں کہ ابن قطلوبغا نے اس حدیث سے کہاں حجت پکڑی ھے.
نمبر دو آپ اب ابن قطلوبغا کی ذکر کردہ حدیث کو سرے سے ذکر ھی نہ کریں.کیوںکہ آپ اس پر اعتماد کرنے سے دستبردار ھوچکے ھیں.لہذا آپ اب مرتضی زبیدی اور عابد سندھی کے نسخے ھی کی بات کرسکتے ھیں.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
اور خبر ابن قطلوبغا نے دی ھے حدیث کو ذکر کرنے سے.آپ غلط سمجھ رھے ھیں.کہاں کی بات کہاں لیجا رھے ھیں جناب.
ھاشم سندھی نے نہ کوئی نسخہ دیکھا ھے جیسا کہ آپ نے اب تسلیم کرلی ھےاور نہ انکو کسی نے خبر دی ھے جسکا انکار بھی پیچھے آپ کرچکے ھیں.باقی مصححہ وغیرہ کی جو بات ھے وہ ٹھٹھوی صاحب نے اس حدیثپر اعتماد کرتے ھوئے کہی ھیں.اتنی سیدھی باتیں پتہ نہیں آپکو کیوں نہیں سمجھ آرھیں.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
شکر ھے جان من آپنے یہ تسلیم تو کرلیا کہ ٹھٹوی صاحب نے وہ نسخہ نہیں دیکھا...باقی آپکا مطلب قطعا ثابت نہیں ھوتا.ویسے مجھے ٹھٹھوی صاحب کی باتوں میں مجھے نظر ھے.جن کو میں موقع کی مناسبت سے ذکر کروںگا.
فی الحال یہ بتائیں کہ ابن قطلوبغا نے اس حدیث سے کہاں حجت پکڑی ھے.
نمبر دو آپ اب ابن قطلوبغا کی ذکر کردہ حدیث کو سرے سے ذکر ھی نہ کریں.کیوںکہ آپ اس پر اعتماد کرنے سے دستبردار ھوچکے ھیں.لہذا آپ اب مرتضی زبیدی اور عابد سندھی کے نسخے ھی کی بات کرسکتے ھیں.
مائنڈ یور ورڈز!

نمبر دو سے پہلے نمبر ایک کو حل کر لیں۔ اگر آپ شروع سے تھریڈ کو پڑھتے تو خود ہی اندازہ ہو جاتا کہ میں نے اسے شاہد کے طور پر پیش کیا ہے۔ ابتدا سے اصل کلام دوسرے نسخوں پر ہی ہوا ہے۔
ویسے ابھی تک تو آپ اسی نسخے کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ اب بات دوسری طرف کیوں لے جا رہے ہیں؟
مزید آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اگر ابھی تک میں اس پر اعتماد کر کے اسے بنیادی دلیل نہیں بنا رہا تھا تو اب بنا سکتا ہوں۔ کیا اس میں کوئی قباحت ہے یا کسی نے منع کیا ہے؟
ابن قطلوبغا نے اس حدیث کو التعریف والاخبار میں ذکر کر کے حجت کے طور پر پیش کیا ہے۔

اور خبر ابن قطلوبغا نے دی ھے حدیث کو ذکر کرنے سے.آپ غلط سمجھ رھے ھیں.کہاں کی بات کہاں لیجا رھے ھیں جناب.
ھاشم سندھی نے نہ کوئی نسخہ دیکھا ھے جیسا کہ آپ نے اب تسلیم کرلی ھےاور نہ انکو کسی نے خبر دی ھے جسکا انکار بھی پیچھے آپ کرچکے ھیں.باقی مصححہ وغیرہ کی جو بات ھے وہ ٹھٹھوی صاحب نے اس حدیثپر اعتماد کرتے ھوئے کہی ھیں.اتنی سیدھی باتیں پتہ نہیں آپکو کیوں نہیں سمجھ آرھیں.
میں نے تسلیم کرنے کا کہاں ذکر کیا ہے؟ آپ کے شق ثانی کو اختیار کرنے کا ذکر کیا ہے صرف۔

ان کو کسی نے خبر نہیں دی بلکہ انہوں نے ابن قطلوبغا کی حدیث پر اعتماد کرتے ہوئے یہ کہا ہے؟
تو ابن قطلوبغا کا یہ حدیث لکھنا ان کے خبر دینے کی طرح ہے۔ اگر تسلیم نہیں تو میں آپ کو بخاری کی ایک ایک حدیث سناتا جاتا ہوں۔ آپ ہر حدیث کی اپنی سند بمع تعدیل کے بیان کرتے جائیں۔ ورنہ جس طرح بخاری کا لکھنا ان کا خبر دینا ہے اسی طرح ابن قطلوبغا کا لکھنا بھی ان کا خبر دینا ہے۔

آپ نے اس بات کا جواب نہیں دیا:۔
مقدمۃ ابن صلاح میں یہ شرائط ذکر ہیں۔ ابن قطلوبغا ایک بڑے محدث ہیں اور مزید یہ کہ ابن صلاح کی یہ علوم الحدیث انہوں نے باقاعدہ اپنے شیخ التاج النعمانی سے پڑھی ہے۔ علامہ سیوطی الضوء اللامع میں کہتے ہیں:۔
وارتحل قديما مع شيخه التاج النعماني إلى الشام بحيث أخذ عنه جامع مسانيد أبي حنيفة للخوارزمي وعلوم الحديث لابن الصلاح وغيرهما
تو جب انہوں نے یہ احتجاج کیا ہے تو ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے ان شرائط کا لحاظ کیا ہے۔ اگر ہم اسے تسلیم نہ کریں تو جتنے محدثین نے کسی بھی حدیث سے استدلال کیا ان سب پر یہ اشکال لازم آئے گا کہ ان کے نسخوں میں یہ شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ اس صورت میں شاید اکثر دلائل ضائع ہی جائیں گے۔ اور علماء میں سے کوئی یہ نہیں کہتا میرے علم کی حد تک۔
لہذا اگر آپ خلاف ظاہر کا دعوی کرتے ہیں کہ تقابل و تصحیح نہیں تھے تو آپ پر دلیل لازم ہے۔ والا ثبت ما ثبت بالظاہر۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
جب آپنے اس بات کا انکار کیا کہ ٹھٹھوی صاحب نے خبر کا ذکر نہیں کیا.تب آپ کے سامنے یہ ابن قطلوبغا کا حدیث کو ذکر کرنا کیا مطلب تھا...باتوں کو نہ بنایا کریں. شق ثانی تو آل ریڈی ھر وقت موجود ھے.اور وہ بھی ٹھٹھوی صاحب کے ساتھ خاص نھیں سب کے لئے ھے.باتیں بنانے کی کوشش تو بڑی کررھے ھیں لیکن بنتی نہیں جناب.

۲
جی تو بتائیں نہ ابن قطلوبغا نے کہاں حجت پکڑی ھے؟ ذراالفاظ تو ذکر کریں.

۳
ہاں بھائی آپکی باتیں سیکنڈوں میں بدلتی رھتی ھیں موسم کے مطابق تحقیق بدلے تو کیا فرق پڑتا ھے؟

۴
جی تو بتائیں اب ایسا کیا نظر آگیا آپکو جو اب دلیل بن گئی ھے آپکی؟

۵
میں اسی پر ھی بحث کررھا ھوں.آپ نے کہا کہ وہ شاھد ھے اس لئے میں نے کہا کہ پہلے دلیل کو حل کیا جائے شاھد اسکے بعد حل ھوجائیگا.لیکن مجھے کوئی اعتراض نہیں.
جی تو بتائیں اس ابن قطلوبغا کی دلیل کا.آپ احتجاج کو ثابت تو کریں پھر اسکو بھی دیکھ لیتے ھیں.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
اور یہ بھی بتادیں کہ ابن قطلوبغا والے نسخے میں پہلے کیا کمزوری تھی اور اب اس میں قوت نظر آگئی آپکو.ضرور بتائیے.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جب آپنے اس بات کا انکار کیا کہ ٹھٹھوی صاحب نے خبر کا ذکر نہیں کیا.تب آپ کے سامنے یہ ابن قطلوبغا کا حدیث کو ذکر کرنا کیا مطلب تھا...باتوں کو نہ بنایا کریں. شق ثانی تو آل ریڈی ھر وقت موجود ھے.اور وہ بھی ٹھٹھوی صاحب کے ساتھ خاص نھیں سب کے لئے ھے.باتیں بنانے کی کوشش تو بڑی کررھے ھیں لیکن بنتی نہیں جناب.

۲
جی تو بتائیں نہ ابن قطلوبغا نے کہاں حجت پکڑی ھے؟ ذراالفاظ تو ذکر کریں.

۳
ہاں بھائی آپکی باتیں سیکنڈوں میں بدلتی رھتی ھیں موسم کے مطابق تحقیق بدلے تو کیا فرق پڑتا ھے؟

۴
جی تو بتائیں اب ایسا کیا نظر آگیا آپکو جو اب دلیل بن گئی ھے آپکی؟

۵
میں اسی پر ھی بحث کررھا ھوں.آپ نے کہا کہ وہ شاھد ھے اس لئے میں نے کہا کہ پہلے دلیل کو حل کیا جائے شاھد اسکے بعد حل ھوجائیگا.لیکن مجھے کوئی اعتراض نہیں.
جی تو بتائیں اس ابن قطلوبغا کی دلیل کا.آپ احتجاج کو ثابت تو کریں پھر اسکو بھی دیکھ لیتے ھیں.
اور یہ بھی بتادیں کہ ابن قطلوبغا والے نسخے میں پہلے کیا کمزوری تھی اور اب اس میں قوت نظر آگئی آپکو.ضرور بتائیے.
اور اب اس میں کونسی قوت نظر آگئی آپکو؟
معذرت چاہتا ہوں۔ آپ نے پھر سے نمبر وار جواب لکھ دیا ہے اس لیے سمجھ نہیں آ رہا کہ کونسی بات کس کا جواب ہے۔
اقتباس لے کر دوبارہ تحریر فرمائیے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
معذرت چاہتا ہوں۔ آپ نے پھر سے نمبر وار جواب لکھ دیا ہے اس لیے سمجھ نہیں آ رہا کہ کونسی بات کس کا جواب ہے۔
اقتباس لے کر دوبارہ تحریر فرمائیے۔
واہ.
بڑا اچھا جواب ھے آپکا جناب.اس میں بھی ایسی کونسی بات ھے جو آپکو سمجھ نہیں آئی.بات واضح ھے.آپ بس جواب دیں.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
واہ.
بڑا اچھا جواب ھے آپکا جناب.اس میں بھی ایسی کونسی بات ھے جو آپکو سمجھ نہیں آئی.بات واضح ھے.آپ بس جواب دیں.
جی بات واضح تو ہے لیکن آپ کے نزدیک۔ مجھے کیا پتا کونسا نمبر کس بات کا جواب دینے کے لیے لگایا ہے آپ نے۔ اور کس بات سے آپ کا ذہن کیا نتیجہ نکال رہا ہے۔ بس سیدھے سیدھے نمبر لکھے ہوئے ہیں کہ فلاں بات ہو گئی تو فلاں بات ہے۔ مجھے کیا پتا فلاں بات کہاں سے ہو گئی۔

اور اب اس میں کونسی قوت نظر آگئی آپکو؟
کس میں؟

جب آپنے اس بات کا انکار کیا کہ ٹھٹھوی صاحب نے خبر کا ذکر نہیں کیا.تب آپ کے سامنے یہ ابن قطلوبغا کا حدیث کو ذکر کرنا کیا مطلب تھا...باتوں کو نہ بنایا کریں. شق ثانی تو آل ریڈی ھر وقت موجود ھے.اور وہ بھی ٹھٹھوی صاحب کے ساتھ خاص نھیں سب کے لئے ھے.باتیں بنانے کی کوشش تو بڑی کررھے ھیں لیکن بنتی نہیں جناب.
اس وقت میرے ذہن میں اس جملہ کا جس کا ذکر آپ نے کیا استحضار نہیں تھا۔ آپ نے اصلاح فرما دی اور یہ جملہ یاد دلادیا۔
پتا نہیں آپ حضرات کے ذہن میں یہ ہی کیوں ہے کہ سب لوگ غلطیوں سے معصوم ہوتے ہیں یا معصوم نہیں تو "ضدی" تو ضرور ہوتے ہیں کہ ایک بار جو کہہ دیا اس سے رجوع نہیں کریں گے نہ اس پر نظر ثانی کریں گے۔ عجیب بات ہے۔
شق ثانی آل ریڈی موجود ہے۔ یہ کس بات کا جواب ارشاد فرمایا گیا ہے؟

۲
جی تو بتائیں نہ ابن قطلوبغا نے کہاں حجت پکڑی ھے؟ ذراالفاظ تو ذکر کریں.
التعریف و الاخبار ص 314 پر ابن قطلوبغا نے تحت السرہ کی بحث کے دوران محل دلیل میں یہ حدیث پیش کی ہے اور کہا ہے :۔
قلت: رواہ ابن ابی شیبۃ علی خلاف ہذا فقال حدثنا وکیع ۔۔۔۔۔۔۔ وہذا سند جید۔
اب یہ نہ فرما دیجیے گا کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ میں اس سے حجت پکڑتا ہوں! کیوں کہ دنیا کے تقریبا تمام ہی علماء کا یہ طرز ہے کہ وہ اکثر مقامات میں قرینہ مقام پر اکتفا کرتے ہیں۔


۳
ہاں بھائی آپکی باتیں سیکنڈوں میں بدلتی رھتی ھیں موسم کے مطابق تحقیق بدلے تو کیا فرق پڑتا ھے؟
اب یہ کس بات کا جواب ہے؟

۴
جی تو بتائیں اب ایسا کیا نظر آگیا آپکو جو اب دلیل بن گئی ھے آپکی؟
یہ کس بات کا جواب ہے؟ اور میں نے جزما کہاں کہا ہے کہ اب دلیل بن گئی ہے؟ اصل میں آپ اصل بات تو نقل کرتے نہیں اس لیے مزے سے جو جی میں آئے فرض کر کے جواب لکھ دیتے ہیں۔

۵
میں اسی پر ھی بحث کررھا ھوں.آپ نے کہا کہ وہ شاھد ھے اس لئے میں نے کہا کہ پہلے دلیل کو حل کیا جائے شاھد اسکے بعد حل ھوجائیگا.لیکن مجھے کوئی اعتراض نہیں.
جی تو بتائیں اس ابن قطلوبغا کی دلیل کا.آپ احتجاج کو ثابت تو کریں پھر اسکو بھی دیکھ لیتے ھیں.
جب میں نے ابتدا سے بحث اصل نسخہ جات پر کی ہوئی تھی تو آپ شاہد کے درپے تھے۔ اب چینج آ گیا ہے تو سامنے موجود مسائل کو پہلے حل کرتے جاتے ہیں پھر سب چیزوں کو دیکھ لیں گے۔
احتجاج میں نے بیان کر دیا ہے۔

اس بار تو نمبر وار پوسٹ کا جواب دے دیا ہے لیکن اگلی بار یہ نہیں کروں گا۔
اور آپ سے میں نے صفحہ نمبر پوچھے تھے کتاب کے؟؟؟
 
Top