انور شاہ راشدی
رکن
- شمولیت
- مئی 01، 2014
- پیغامات
- 257
- ری ایکشن اسکور
- 68
- پوائنٹ
- 77
جی بات واضح تو ہے لیکن آپ کے نزدیک۔ مجھے کیا پتا کونسا نمبر کس بات کا جواب دینے کے لیے لگایا ہے آپ نے۔ اور کس بات سے آپ کا ذہن کیا نتیجہ نکال رہا ہے۔ بس سیدھے سیدھے نمبر لکھے ہوئے ہیں کہ فلاں بات ہو گئی تو فلاں بات ہے۔ مجھے کیا پتا فلاں بات کہاں سے ہو گئی۔
کس میں؟
اس وقت میرے ذہن میں اس جملہ کا جس کا ذکر آپ نے کیا استحضار نہیں تھا۔ آپ نے اصلاح فرما دی اور یہ جملہ یاد دلادیا۔
پتا نہیں آپ حضرات کے ذہن میں یہ ہی کیوں ہے کہ سب لوگ غلطیوں سے معصوم ہوتے ہیں یا معصوم نہیں تو "ضدی" تو ضرور ہوتے ہیں کہ ایک بار جو کہہ دیا اس سے رجوع نہیں کریں گے نہ اس پر نظر ثانی کریں گے۔ عجیب بات ہے۔
شق ثانی آل ریڈی موجود ہے۔ یہ کس بات کا جواب ارشاد فرمایا گیا ہے؟
التعریف و الاخبار ص 314 پر ابن قطلوبغا نے تحت السرہ کی بحث کے دوران محل دلیل میں یہ حدیث پیش کی ہے اور کہا ہے :۔
قلت: رواہ ابن ابی شیبۃ علی خلاف ہذا فقال حدثنا وکیع ۔۔۔۔۔۔۔ وہذا سند جید۔
اب یہ نہ فرما دیجیے گا کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ میں اس سے حجت پکڑتا ہوں! کیوں کہ دنیا کے تقریبا تمام ہی علماء کا یہ طرز ہے کہ وہ اکثر مقامات میں قرینہ مقام پر اکتفا کرتے ہیں۔
اب یہ کس بات کا جواب ہے؟
یہ کس بات کا جواب ہے؟ اور میں نے جزما کہاں کہا ہے کہ اب دلیل بن گئی ہے؟ اصل میں آپ اصل بات تو نقل کرتے نہیں اس لیے مزے سے جو جی میں آئے فرض کر کے جواب لکھ دیتے ہیں۔
جب میں نے ابتدا سے بحث اصل نسخہ جات پر کی ہوئی تھی تو آپ شاہد کے درپے تھے۔ اب چینج آ گیا ہے تو سامنے موجود مسائل کو پہلے حل کرتے جاتے ہیں پھر سب چیزوں کو دیکھ لیں گے۔
احتجاج میں نے بیان کر دیا ہے۔
اس بار تو نمبر وار پوسٹ کا جواب دے دیا ہے لیکن اگلی بار یہ نہیں کروں گا۔
اور آپ سے میں نے صفحہ نمبر پوچھے تھے کتاب کے؟؟؟
ابن قطلوبغا کا حدیث ذکر کرنا یعنی خبر دینا ھے.تو یہ جناب محض ٹھٹھوی صاحب کو نہیں خبر دینا بلکہ سب کے لیے عام ھے.
ابن قطلوبغا کے نسخے کی بات کررھا ھوں کہ پہلے اس میں آپکو کیا کمزوری نظر آئی تھی اور کیا قوت نظر آگئی ھے.
باقی کتاب کے حوالے کی بات یہ ھے کہ وہ صفحہ اس میں نہیں ھے.اصل میں شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے مکتبہ میں ان پانچھوں کتب کے مصورے ھیں میں نے وھاں سے لکھا ھے.میں نے سمجا کہ ان مطبوع کتب کے شروع والے صفحہ میں ھوگا لیکن نہیں ھے.
ھذا سند جید ....کیا یہ حدیث سے حجت پکڑنے پر دلالت کرتے ھیں.ٹھٹھوی صاحب نے کہا ھے کہ ابن قطلوبغا نے اس حدیث سے احتجاج کیا ھے لہذا یہ نسخہ قابل اعتماد ھے ھے.جی تو دکھائیں اس حدیث سے کہاں احتجاج کیا گیا ھے؟
باقی آپکو یہ میں بتادوں کہ ابن قطلوبغا یہ طرز قطعا درست نہیں کہ وہ بس یہ کہدیں کہ ..مارواہ ابن ابی شیبہ....الخ.
بلکہ انکو ایک محقق کے ناطے یہ کہنا چاھئے تھا کہ مصنف ابن ابی شیبہ کہ ایک نسخے میں اس طرح کے الفاظ ھیں.اور بعض میں یہ الفاظ نہیں.کیوںکہ انکو پتہ تھا کہ یہ اختلافی مسئلہ ھے اس لئے ایسا کہنا یہ ایک محقق کی شان سے از حد بعید ھے...بلکہ میں کہتا ھوں قطعا مناسب نھیں.
دوسری بات یہ کہ انھوں جس انداز میں اس روایت کا ذکر کیا ھے اگر نیوٹل ذہن ھوکر دیکھا جائے تو نصف النھار کی طرح واضح معلوم ھوتا ھے کہ خود انکے نزدیک بھی یہ نسخہ معتمد علیہ نہ تھا.سوچنے کی بات ھے اتنا صدیوں پرانا اختلاف اور ابن قطلوبغا نے بس دو الفاظ لکھدیے.اور اسکی کوئی وضاحت نہیں کی.کچھ تو وضاحت کرتے.مسئلہ اتنا بڑا اور جواب دینے کا انداز ..واہ..کتنا عجیب تر ھے...بھر کیف وہ نسخہ ابن قطلوبغا کے یھاں بھی قابل اعتماد نہ تھا.