مطالعہ تقلید 8: (اہل علم اور غیراہل علم کا فرق، فتوے کی دلیل، واجب بالذات واجب بالغیر)
اہل علم اور غیراہل علم میں فرق
حدیث
من افتى الناس بغير علم كان اثمه على من افتاه۔(سنن ابی داؤد، حسن ، الجامع الصغیر للسیوطی ، صحیح ، مشكوة المصابيح ، حسن)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو بے تحقیق کوئی فتوی دے تو اس کا گناہ اس فتوی دینے والے کو ہو گا۔‘‘
فائدہ:
· اس حدیث میں فتوی دینے کے لیے علم کی شرط لگائی گئی ہے یعنی غیرعالم فتوی نہیں دے سکتا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ غیراہل علم، فتوے کے لیے اہل علم سے رجوع کریں گے اور اس پر عمل کریں گے چاہے ان کو اس فتوے کی دلیل معلوم ہو یا نہ ہو کیونکہ حدیث میں علم کی شرط مفتی پر لگائی گئی ہے۔ غیراہل علم کو تقلید یا اتباع کے علاوہ کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک یہی معمول ہے کہ عامی کو جو مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے وہ عالم سے پوچھے، عالم نے جو حکم بتایا سوال کرنے والے نے مانا اور عمل کرلیا۔ اسی کو اصطلاح میں اتباع یا تقلید کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام ہوں یا بعد کے علما، کسی نے بھی عامی کو دلیل سمجھنے کا ذمہ دار نہیں سمجھا۔ رہا دلیل کا جاننا اور سمجھنا یہ خود علم پر منحصر ہے اور غیرعالم کے لیے اس کا جاننا بلکہ کوشش بھی کرنا کارلاحاصل ہے۔ امام غزالی کی نصیحت ہے کہ عوام کا فرض ہے کہ ایمان اور اسلام لاکر عبادتوں اور روزگار میں مشغول رہیں اور علم کی باتوں میں مداخلت نہ کریں اس کو علما کے حوالے کردیں۔ عامی شخص کا علمی سلسلہ میں حجت کرنا زنا اور چوری سے زیادہ نقصان دہ اور خطرنا ک ہے۔
یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن وحدیث سے براہ راست مسئلہ سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں ایسا کرنا مجتہد مطلق ہی کا منصب ہے۔اس لیے کہ ہرشخص اس بات سے آگاہ نہیں کہ فلاں حدیث منسوخ ہے یا نہیں۔ یا یہ کہ حدیث کا ظاہری معنی مقصود ہے یا نہیں یا کوئی اور حدیث اس کےمعارض ہے یا نہیں۔ امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں:عام آدمی جب کوئی حدیث سنے تو جائز نہیں کہ وہ ظاہر حدیث سے جو سمجھا ہے اس پر عمل کرے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے ظاہری معنی مرادنہ ہوں، یا وہ حدیث منسوخ ہو، بخلاف فتوے کے کیونکہ فتوی تحقیق کے بعد دیا جاتا ہے۔
صحابہ کرامؓ تقریبا سوا لاکھ تھے جو سب کے سب عربی دان تھے، مگر کتابوں میں چھ سات صحابہ کے فتاوی ملتے ہیں، باقی صحابہؓ انہی فتاوی پر بلامطالبہ دلیل عمل کرتے تھے اور یہی تقلید ہے۔ ابن قیم اعلام الموقعین میں لکھتے ہیں کہ فتوی دینے والے صحابہ صرف 149 تھے جن میں سے صرف سات صحابہ بکثرت فتوی دیتے تھے، تیرہ صحابہ کبھی کبھار فتوی دیتے تھے اور 110 صحابہ نے ساری زندگی میں ایک ایک یا دو دو فتوے دئیے، باقی صحابہؓ سے ایک فتوی دینا بھی ثابت نہیں۔ اسی کتاب میں مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس کے فتاوی بیس جلدوں میں جمع کئے گئے تھے۔
فتوے کی دلیل بتانا ضروری نہیں ہے
حدیث
عن سالم بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمر ، انه سئل عن الرجل يكون له الدين على الرجل الى اجل ، فيضع عنه صاحب الحق ، ويعجله الآخر فكره ذلك عبد الله بن عمر ونهى عنه۔ (موطا مالك، كتاب البيوع، صحیح)
حضرت سالم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر کچھ میعادی قرض ہے (یعنی کوئی ادائیگی کا وقت مقرر ہے)۔ اب قرض خواہ کچھ قرض معاف کرنے کو راضی ہے بشرطیکہ قرض دار قبل از وعدہ قرض لوٹا دے۔انہوں (عبداللہ بن عمرؓ) نے اس کو ناپسند فرمایا۔
فائدہ:
· حضرت عبداللہ بن عمر کا جواب ان کا اپنا اجتہاد تھا۔ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں تھی۔
واجب بالذات اور واجب بالغیر
اللہ تعالی نے اطاعت رسول ﷺ کا حکم دیا ہے یعنی ہم پر ان کی اطاعت واجب ہے۔ لیکن اس حکم اطاعت کو پورا کرنے کے لیے ہمیں احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا بھی واجب ہوا۔ اطاعت رسول ﷺ واجب بالذات ہے۔ جب کہ احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا واجب بالغیر ہے۔ اسی طرح حدیث کا علم ہے جو واجب الذات ہے۔ پھر خود حدیث کی صحت مقرر کرنے کے لیے سند کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ لیکن اس کی سند کی تحقیق واجب بالغیر ہے۔ واجب بالذات کے لیے دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، واجب بالغیر کے لیے نص (دلیل) کی ضرورت نہیں ہوتی (حاشیہ: [1])۔ علمائے وقت کا اتفاق کافی ہے۔
صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من علم الرمي ثم تركه فليس منا او فقد عصى
جو شخص تیراندازی سیکھ کر چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں یا( یہ فرمایا کہ) وہ گناہگار ہوا۔
اصل مقصود تو دشمنان دین سے دین کی حفاظت ہے جو واجب ہے لیکن اس کے لیے تیراندازی (یا ہمارے دور کے ہتھیاروں کا استعمال) سیکھنا بھی واجب ہوا جس کو ترک کرنے پر اس حدیث میں وعید آئی ہے۔ یعنی مقدمۃ الواجب بھی واجب ہوتا ہے۔ یعنی واجب کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی واجب ہوتاہے۔ایک اور مثال یہ ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب بالذات ہے اس پر نص (حدیث) موجود ہے، لیکن عام لوگ اس کو بغیر اعراب کے صحیح نہیں پڑھ سکتے چنانچہ اس کوصحیح پڑھنے کے لیے اس پر اعراب لگانا واجب بالغیر ہے۔ چنانچہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت واجب بالذات ہے جو واجب بالغیر (اعراب) کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح تقلید بھی ہے کہ دین پر عمل کرنا واجب بالذات ہے لیکن یہ عمل بھی واجب بالغیر یعنی فقہائے امت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ فقہائے امت ہی حدیث کی مراد سمجھنے کے لیے واسطہ ہیں اس لیے ہمیں فقہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ یا دوسر ے لفظوں میں فقہا کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔ یہ اسی طرح کی تقلید ہے جس طرح سند کی صحت کے لیے ہم محدثین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ گو اس کو اصطلاحی پر تقلید نہ کہا جائے لیکن عملا تو یہی ہے۔
اہل علم اور غیراہل علم میں فرق
حدیث
من افتى الناس بغير علم كان اثمه على من افتاه۔(سنن ابی داؤد، حسن ، الجامع الصغیر للسیوطی ، صحیح ، مشكوة المصابيح ، حسن)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو بے تحقیق کوئی فتوی دے تو اس کا گناہ اس فتوی دینے والے کو ہو گا۔‘‘
فائدہ:
· اس حدیث میں فتوی دینے کے لیے علم کی شرط لگائی گئی ہے یعنی غیرعالم فتوی نہیں دے سکتا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ غیراہل علم، فتوے کے لیے اہل علم سے رجوع کریں گے اور اس پر عمل کریں گے چاہے ان کو اس فتوے کی دلیل معلوم ہو یا نہ ہو کیونکہ حدیث میں علم کی شرط مفتی پر لگائی گئی ہے۔ غیراہل علم کو تقلید یا اتباع کے علاوہ کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک یہی معمول ہے کہ عامی کو جو مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے وہ عالم سے پوچھے، عالم نے جو حکم بتایا سوال کرنے والے نے مانا اور عمل کرلیا۔ اسی کو اصطلاح میں اتباع یا تقلید کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام ہوں یا بعد کے علما، کسی نے بھی عامی کو دلیل سمجھنے کا ذمہ دار نہیں سمجھا۔ رہا دلیل کا جاننا اور سمجھنا یہ خود علم پر منحصر ہے اور غیرعالم کے لیے اس کا جاننا بلکہ کوشش بھی کرنا کارلاحاصل ہے۔ امام غزالی کی نصیحت ہے کہ عوام کا فرض ہے کہ ایمان اور اسلام لاکر عبادتوں اور روزگار میں مشغول رہیں اور علم کی باتوں میں مداخلت نہ کریں اس کو علما کے حوالے کردیں۔ عامی شخص کا علمی سلسلہ میں حجت کرنا زنا اور چوری سے زیادہ نقصان دہ اور خطرنا ک ہے۔
یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن وحدیث سے براہ راست مسئلہ سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں ایسا کرنا مجتہد مطلق ہی کا منصب ہے۔اس لیے کہ ہرشخص اس بات سے آگاہ نہیں کہ فلاں حدیث منسوخ ہے یا نہیں۔ یا یہ کہ حدیث کا ظاہری معنی مقصود ہے یا نہیں یا کوئی اور حدیث اس کےمعارض ہے یا نہیں۔ امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں:عام آدمی جب کوئی حدیث سنے تو جائز نہیں کہ وہ ظاہر حدیث سے جو سمجھا ہے اس پر عمل کرے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے ظاہری معنی مرادنہ ہوں، یا وہ حدیث منسوخ ہو، بخلاف فتوے کے کیونکہ فتوی تحقیق کے بعد دیا جاتا ہے۔
صحابہ کرامؓ تقریبا سوا لاکھ تھے جو سب کے سب عربی دان تھے، مگر کتابوں میں چھ سات صحابہ کے فتاوی ملتے ہیں، باقی صحابہؓ انہی فتاوی پر بلامطالبہ دلیل عمل کرتے تھے اور یہی تقلید ہے۔ ابن قیم اعلام الموقعین میں لکھتے ہیں کہ فتوی دینے والے صحابہ صرف 149 تھے جن میں سے صرف سات صحابہ بکثرت فتوی دیتے تھے، تیرہ صحابہ کبھی کبھار فتوی دیتے تھے اور 110 صحابہ نے ساری زندگی میں ایک ایک یا دو دو فتوے دئیے، باقی صحابہؓ سے ایک فتوی دینا بھی ثابت نہیں۔ اسی کتاب میں مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس کے فتاوی بیس جلدوں میں جمع کئے گئے تھے۔
فتوے کی دلیل بتانا ضروری نہیں ہے
حدیث
عن سالم بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمر ، انه سئل عن الرجل يكون له الدين على الرجل الى اجل ، فيضع عنه صاحب الحق ، ويعجله الآخر فكره ذلك عبد الله بن عمر ونهى عنه۔ (موطا مالك، كتاب البيوع، صحیح)
حضرت سالم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر کچھ میعادی قرض ہے (یعنی کوئی ادائیگی کا وقت مقرر ہے)۔ اب قرض خواہ کچھ قرض معاف کرنے کو راضی ہے بشرطیکہ قرض دار قبل از وعدہ قرض لوٹا دے۔انہوں (عبداللہ بن عمرؓ) نے اس کو ناپسند فرمایا۔
فائدہ:
· حضرت عبداللہ بن عمر کا جواب ان کا اپنا اجتہاد تھا۔ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں تھی۔
واجب بالذات اور واجب بالغیر
اللہ تعالی نے اطاعت رسول ﷺ کا حکم دیا ہے یعنی ہم پر ان کی اطاعت واجب ہے۔ لیکن اس حکم اطاعت کو پورا کرنے کے لیے ہمیں احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا بھی واجب ہوا۔ اطاعت رسول ﷺ واجب بالذات ہے۔ جب کہ احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا واجب بالغیر ہے۔ اسی طرح حدیث کا علم ہے جو واجب الذات ہے۔ پھر خود حدیث کی صحت مقرر کرنے کے لیے سند کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ لیکن اس کی سند کی تحقیق واجب بالغیر ہے۔ واجب بالذات کے لیے دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، واجب بالغیر کے لیے نص (دلیل) کی ضرورت نہیں ہوتی (حاشیہ: [1])۔ علمائے وقت کا اتفاق کافی ہے۔
صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من علم الرمي ثم تركه فليس منا او فقد عصى
جو شخص تیراندازی سیکھ کر چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں یا( یہ فرمایا کہ) وہ گناہگار ہوا۔
اصل مقصود تو دشمنان دین سے دین کی حفاظت ہے جو واجب ہے لیکن اس کے لیے تیراندازی (یا ہمارے دور کے ہتھیاروں کا استعمال) سیکھنا بھی واجب ہوا جس کو ترک کرنے پر اس حدیث میں وعید آئی ہے۔ یعنی مقدمۃ الواجب بھی واجب ہوتا ہے۔ یعنی واجب کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی واجب ہوتاہے۔ایک اور مثال یہ ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب بالذات ہے اس پر نص (حدیث) موجود ہے، لیکن عام لوگ اس کو بغیر اعراب کے صحیح نہیں پڑھ سکتے چنانچہ اس کوصحیح پڑھنے کے لیے اس پر اعراب لگانا واجب بالغیر ہے۔ چنانچہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت واجب بالذات ہے جو واجب بالغیر (اعراب) کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح تقلید بھی ہے کہ دین پر عمل کرنا واجب بالذات ہے لیکن یہ عمل بھی واجب بالغیر یعنی فقہائے امت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ فقہائے امت ہی حدیث کی مراد سمجھنے کے لیے واسطہ ہیں اس لیے ہمیں فقہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ یا دوسر ے لفظوں میں فقہا کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔ یہ اسی طرح کی تقلید ہے جس طرح سند کی صحت کے لیے ہم محدثین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ گو اس کو اصطلاحی پر تقلید نہ کہا جائے لیکن عملا تو یہی ہے۔
(جاری ہے)
[1]: اس کو اصطلاح میں مقدمۃ الواجب واجب کہتے ہیں۔
Last edited by a moderator: