یہ اس مضمون کی آخری قسط ہے۔
---------------------------------
تلقی بالقبول
اسلام میں عملی مسائل کا اصل دارومدار تعامل امت پر ہے۔ جس حدیث پر امت بلانکیر عمل کرتی چلی آرہی ہو اس کی سند پر بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح جس حدیث پر پوری امت نے عمل ترک کردیا ہو اس کی سند خواہ کتنی ہی صحیح ہو وہ معلول قرار پاتی ہے۔
جیسے الماء طھور لاینجسہ شئی الا ماغلب علی ریحہ او طعمہ او لونہ یعنی پانی پاک ہے جب تک اس کی بو، ذائقہ اور رنگ نہ بدل جائے، ضعیف ہے لیکن اس کو علما نے قبول کیا ہے اور اس پر امت میں ہمیشہ سے عمل رہا ہے۔ اسی لیے محدثین کا اصول ہے کہ جس حدیث کو امت میں تلقی بالقبول حاصل ہوتو وہ حدیث صحیح ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو امت کے علما اور صلحا نے قبول کرلیا اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ان کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ جیسے قرآن کا ایک مصحف میں جمع کرنے کی کوئی روایت نہیں البتہ صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے اور امت نے اس کو قبول کرلیا۔ تلقی بالقبول کی مثال صحیح بخاری کی مقبولیت ہے جس کی صحت کی بنیاد پر اس کو
اصح الکتاب بعد الکتاب (قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب) کہا جاتا ہے۔
نوٹ: اس پر بدعات جائز نہیں ہوجاتیں کیونکہ وہاں قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ہوتی۔
تقلید کی مثالیں
تقلید کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کا قول اس حسن ظن پر قبول کرلینا کہ وہ جو بتارہا ہے وہ حق ہے اور دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔
اس تعریف کو سامنے رکھیے تو پتہ چلے گا کہ شرعی علوم میں تقلید کے بغیر گزارا ہی نہیں ہے۔ گو معروف فقہی تقلید نہ صحیح لیکن عملا یہ سب تقلیدہی ہے۔
· لغت میں ائمہ صرف ائمہ نحو کی تقلید کی جاتی ہے۔
· راویوں کو ضعیف اور ثقہ کہنے میں علمائے اسما الرجال کی تقلید کی جاتی ہے۔
· راویوں کی پیدائش رہائش وموت میں تاریخ دانوں کی تقلید کی جاتی ہے۔
· حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے میں محدثین کی تقلید کی جاتی ہے۔
· تلاوت قرآن میں بھی ہر مسلمان تقلید ہی کرتا ہے کیونکہ نہ وہ اعراب سے واقف ہے نہ اوقاف کے دلائل سے واقف ہے۔ صرف اس حسن ظن پر وہ قبول کرتا ہے کہ لگانے والے نے بادلیل لگائے ہیں۔ دلیل سے آگہی نہیں ہے۔ اس کے باجود اس کی تلاوت باعث اجر اور مقبول ہے۔
· ایمانیات میں تو سارے کے سارے مسلمان تقلیدی ہیں جو کچھ علمائے کرام نے انہیں بتادیا انہی باتوں پر ان کا ایمان ہے۔ اس لیے کہ ایک شخص مسلمان تو ہے لیکن اسلام کے حق ہونے کے تفصیلی دلائل اسے نہیں معلوم۔ اس کے باوجود وہ مسلمان ہے۔
نوٹ: معروف تقلید جو بحث و مباحثہ کا موضوع ہے، اس کا تعلق مسائل سے ہے۔ لیکن عملی طور پر تقلید دین کے تمام علوم میں جاری ہے گو اس کو تقلید نہیں کہا جاتا۔
حسن ظن
تقلید کی جو تعریف کی گئی ہے وہ یہ ہے:
’’کسی کا قول اس حسن ظن پر قبول کرلینا کہ وہ جو بتارہا ہے وہ حق ہے اور دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔‘‘
ہمارے علوم کا مدار پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق پر ہوتا ہے۔ اس میں بتانے والے کی علمیت پر حسن ظن قائم ہوتا ہےکہ وہ صحیح بتائے گا۔جس طرح محدثین اور خاص طور پر امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ اور صحاح کے مؤلفین کی تحقیق پر اعتماد اس حسن ظن پر قائم ہے کہ انہوں حدیث کی صحت کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کی بنیاد کسی دلیل پر ہے (حاشیہ: [1])۔ اسی طرح مجتہدین کے متعلق بھی یہی حسن ظن ہے کہ انہوں کسی مسئلے میں جو فیصلہ فرمایا ہے اس کی بنیاد کسی دلیل پر ہے۔
حدیث 1
عن ابن عمر قال قال عمر اني ان لا استخلف فان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستخلف وان استخلف فان ابا بكر قد استخلف (الحدیث) (سنن ابی داؤود كتاب الخراج والامارة والفيء، صحیح)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد نہ کروں ( تو کوئی حرج نہیں) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کر دوں (تو بھی کوئی حرج نہیں) کیونکہ ابوبکرؓ نے خلیفہ مقرر کیا تھا۔
· سیدنا ابوبکرؓ نے جب خلافت کے لیے سیدناؓ کو نامزد کیا تھا تب اس نامزدگی کی کوئی دلیل نہیں پیش کی تھی۔ اس کے باوجود سیدنا عمرؓ نے سیدنا ابوبکرؓ پر اپنے حسن ظن کا اظہار کیا ہے اور ابوبکرؓ کے عمل کو رسول اللہ ﷺ کے عمل کے ساتھ ہی ذکر کیا ہے۔
· سیدنا عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ دونوں میں سے کسی کے عمل اختیار کرنے کو برابر کا درجہ دیا۔
حدیث 2
عن ابن عباس اذا حدثنا ثقة بفتيا عن علي لم نتجاوزها (فتح الباري لابن حجر العسقلاني، صحیح)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب کوئی ثقہ (قابل بھروسہ) آدمی ہم سے حضرت علیؓ کا فتوی بیان کرے تو ہم اس سے ذرا بھی پس و پیش نہیں کریں گے۔
· سیدنا عباسؓ نے سیدنا علیؓ پر اپنے حسن ظن کا اظہار فرمایا۔
اتباع کی قسمیں
اللہ کا اتباع
اتبعوا ما انزل اليكم من ربكم ولا تتبعوا من دونه اولياء (اعراف: 3)
(لوگو) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو
چلو اسی پر جو اترا تم پر تمہارے رب کی طرف سے اور نہ چلو اس کے سو رفیقوں کے پیچھے تم بہت کم دھیان کرتے ہو۔
رسول کا اتباع
قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم والله غفور رحيم (آل عمران: 31)
تو کہہ اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ سے تو میری راہ چلو تاکہ محبت کرے تم سے اللہ اور بخشے تمہارے گناہ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
جماعت کا اتباع
ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا (النساء: 115)
اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے رستے کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس اسی کی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔
یہ آیت اجماع امت پر عمل کرنے کی دلیل ہے۔
مجتہد کا اتباع
واتبع سبيل من اناب الي (لقمان: 15)
راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف
سنت رسول ﷺ، سنت صحابہؓ
حضرت عرباضؓ سے ایک روایت ہےجس میں آپ ﷺ کی وصیت ہے کہ میرے بعد بہت سے اختلافات پیدا ہوں گے اس کے بعد ارشاد فرمایا:
عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ (سنن ابن ماجہ کتاب المقدمات، صحیح)
تم پر لاز م ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت جو ہدایت یافتہ ہیں ان (یعنی میری اور ان کی سنت) کو اپنی داڑھوں مضبوط پکڑنا۔
حضرت علیؓ کی ایک روایت ہے:
جلد النبي صلى الله عليه وسلم اربعين وابو بكر اربعين وعمر ثمانين وكل سنة وهذا احب الي (الحدیث)(صحیح مسلم کتاب الحدود)
رسول اللہ ﷺ نے (شرابی کو) چالیس (کوڑے) لگوائے اور ابوبکرؓ نے بھی چالیس (کوڑے لگوائے) اور عمرؓ نے اسی (کوڑے لگوائے) اور ان میں سے ہر ایک سنت ہے اور مجھے یہ (یعنی اسی کوڑے) زیادہ پسند ہیں۔
فائدہ:
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں کے فیصلے سنت کا درجہ رکھتے ہیں۔
حدیث 3
عن ابي وائل قال جلست مع شيبة على الكرسي في الكعبة فقال لقد جلس هذا المجلس عمر رضي الله عنه فقال لقد هممت ان لا ادع فيها صفراء ولا بيضاء الا قسمته قلت ان صاحبيك لم يفعلا قال هما المرءان اقتدي بهما۔(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالسنۃ)
ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سونا چاندی ہے اسے نہ چھوڑوں (جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا) بلکہ سب کو نکال کر (مسلمانوں میں) تقسیم کر دوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں (رسول اللہ ﷺاور ابوبکرؓ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کر رہا ہوں (اسی لیے میں اس کے ہاتھ نہیں لگاتا)۔
· سیدنا عمرؓ نے اپنے عمل کی بنیاد رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کے عمل پر رکھی یعنی ابوبکرؓ کا فیصلہ بھی رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کی طرح نافذ ہوسکتا ہے۔
سنت اور حدیث میں فرق
· سنت دائمی عمل کو کہتے ہیں۔ ثبوت سنت کے لئے غیرلازم چیز پر مواظبت (ہمیشگی) ضروری ہے۔ سنت دین کا وہ پسندیدہ معمول و مروج طریق ہے جو خواہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو یا آپ ﷺ کے صحابہ کرام سے ثابت ہو۔ اس کی دلیل آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے: تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت اور سے دانتوں سے (یعنی مضبوطی سے) تھام لو۔
· صرف فعل سے دوام اور عمل کا سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔مثلا ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاپ فرمانے کا ذکر ہے۔ لیکن یہ سنت نہیں۔
فبال قائما (صحیح البخاری)
لیکن سنت بیٹھ کر پیشاپ کرنا ہے۔ قبلہ رخ ہوکر رفع حاجت کرنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔
·بچی کو اٹھا کر نماز پڑھنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔
·یا مثلا یہ روایت ہے کہ ابوبکرؓ جماعت کروا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکرؓ کے پہلو میں تشریف فرما ہوگئے اب ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور لوگ ابوبکرؓ کی۔ یہ حدیث تو ہے لیکن سنت نہیں۔ سنت وہی ہے کہ ایک جماعت کا ایک ہی امام ہوگا۔ اس لیے کہ امت نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا کہ ایک جماعت کے دو امام ہوں۔
· یا مثلا رسول اللہ ﷺ سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ جوتا پہن کر نماز پڑھتے تھے۔
کان یصلی فی نعلیہ (صحیح البخاری)
جب کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ بغیر جوتوں کے نماز پڑھتے تھے۔ لیکن امت کا عملی تواتر پہلی حدیث کے بجائے دوسری حدیث پر ہے۔ ساری امت کا اتفاق ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا آپ ﷺ کا نادر عمل ہے۔
---------------------------------
[1]:کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کا تعین خود ایک بہت بڑا کام ہے جو ہر کس و ناکس کے بس کی چیز نہیں۔ عام طور پر علمائے کرام بھی کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ تقلیدًا ہے نہ کہ تحقیقًا۔ علم کی دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق کو مان کر چلنا پڑتا ہے۔ ورنہ علوم کی ترقی رک جائے گی۔