«يا عبادي! إني حرَّمتُ الظلمَ على نفسي، وجعلتُه بينكم مُحرَّمًا؛ فلا تَظَالَموا»؛
رواه مسلم.
’’اے میرے بندو! میں نے اپنے آپ پر ظلم حرام قرار دیا ہے اور تم پر بھی ظلم حرام ٹھہرایا ہے۔ فلہذا ظلم نہ کرو۔‘‘
ابوادریس خولانی رحمہ اللہ نے جب یہ حدیث بیان کی تو گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔
اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ وہ ظالم کو پسند نہیں کرتا ، اس کی دارین میں کامیابی ناممکن ہے او راس کی کبھی مدد نہیں کی جائے گی۔ فرمایا:
وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ [البقرة: 270]
’’اور ظالموں کاکوئی مدد گارنہیں۔‘‘
بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ اس سے بڑا ظالم مسلط کردیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [الأنعام: 129]
’’اور اسی طرح ہم بعض ظالموں کو بعض کے قریب رکھیں گے۔‘‘
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ:
’’یعنی ہم ظالموں کو ظالموں پرمسلط کردیتے ہیں، ظالموں کے ذریعے ظالموں کو ہلاک اور ظالموں کے ذریعے ظالموں سے انتقام لیتے ہیں۔ ان کے ظلم اور سرکشی کی یہی سزا ہے۔‘‘
اور ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بُرے انجام کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ [الشعراء: 227]
’’جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں۔‘‘
قاضی شریح رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ظالم انجام کا او رمظلوم امداد کامنتظر ہوتا ہے۔‘‘
ظالم کے دنیا میں دن گنے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اللہ اس کومہلت دیتا ہے ۔
قرآن میں ارشاد ہے کہ :
فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا [مريم: 84]
’’تو ان کے بارے میں جلدی نہ کر، ہم تو خو دان کے لیے مدت شماری کررہے ہیں۔‘‘
جس کا ظلم وعدوان طول پکڑ جائے اس کی تباہی کا سامان کردیا جاتاہے۔ فرمایا:
وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ [الأنبياء: 11]
’’یقیناً ہم نے تمہاری جانب کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لیے ذکر ہے، کیا پھر بھی تم عقل نہیں رکھتے۔‘‘
ابن قیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’جب اللہ اپنے دشمنوں کی ہلاکت کا ارادہ کرتا ہے تو ان کو ایسے اسباب فراہم کرتا ہے جو ان کی بربادی کا باعث بن جاتے ہیں۔مثلاً بغاوت و سرکشی، دوسروں کو ایذاء رسانی او رلڑائی جھگڑا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ظالموں او ران کے انجام کا تذکرہ کیا ہے اور دوسرے لوگوں کے لیے انہیں عبرت قرار دیا ہے۔ فرمایا:
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ [القصص: 4]
’’یقیناً فرعون نے سرکشی کررکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کررکھا تھا او ران کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالا تھا او ران کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔بے شک و شبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے۔‘‘