• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معاصر جہاد : ایک تجزیاتی مطالعہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پیش لفظ

یہ مصنف کے چند ایک مضامین کا خلاصہ ہے جو اس سے پہلے متفرق جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہاں انہیں تہذیب و تنقیح کے بعد ایک مرتب تحریر کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اسلوب کلام کو نرم رکھا گیا ہے کیونکہ مقصود اصلاح ہے نہ کہ طعن وتشنیع۔ اس تحریر کو پیش کرنے سے پہلے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ قارئین کے سامنے یہ فرق واضح رہے کہ اسلام اور مسلمان میں جو فرق ہے وہی جہاد اور معاصر جہادی تحریکوں میں ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے کردار و عمل پر نقد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام پر نقد ہو رہی ہے اسی طرح معاصر جہادی تحریکوں کے فعل وعمل پر نقد کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ یہ جہاد پر نقد ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ فی زمانہ ایک شخص کی معاشی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ چیئرٹی پر تعلیم حاصل کرتا ہے لیکن ایک جہادی جماعت کی بنیاد رکھنے کے بعد ارب پتی بن جاتا ہے۔ بلاشبہ افغانستان کے جہاد نے ارب پتیوں کو مفلس بنایا جیسا کہ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کا معاملہ ہے جبکہ دوسری طرف ایسے مفلسین بہت زیادہ ہیں جو اس جہاد کی برکات سے ارب پتی بنے۔ ایسے میں یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ معاصر جہادی تحریکوں کا ایک گہرا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے اور یہ واضح کیا جائے کہ ان میں سے کون ہے جو قبائلی عصبیت اور ڈالروں کے لیے لڑ رہے ہیں اور کون ہیں جو اقتدار یا شہرت کے پجاری ہیں۔ اور کون ہیں ایڈوینچرزم کے جذبے کی تسکین چاہتے ہیں اور کون ہیں جو رضائے الہٰی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کون ہیں جو انتقامی جذبات کو مذہبی رنگ دے رہے ہیں اور کون ہیں جو غلبہ اسلام کے حقیقی دعویدار ہیں۔ کون ہیں جو چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسی سنگدلی، وحشت اور بربریت کے منہج پر قتال کر رہے ہیں اور کون ہیں جو نبوی نرم دلی اور پیغمبرانہ خیر خواہی کے ساتھ دشمن کی گردن اڑانے والے ہیں۔

ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ آج کے اس دور میں عالم دین اور مجاہد کو جس قدر تزکیہ نفس کی ضرورت ہے، شاید کسی دور میں اتنی ضرورت نہ رہی ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا تزکیہ نفس ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا دل حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا نرم اور ہاتھ موسی علیہ السلام جیسا سخت تھا۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا نرم دل اور حضرت موسی علیہ السلام جیسا سخت ہاتھ ہے تو یہ توازن ہے جو ہمیں جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں ملتا ہے۔ وہ اگر دشمن کی گردن بھی اڑاتے تھے تو اس کی خیر خواہی کے جذبہ سے نہ کہ اپنے غصے یا انتقام کی تسکین کے لیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
معاصر جہاد :ایک تجزیاتی مطالعہ

جہاد کشمیر
کشمیر میں بہت سی جہادی تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں حزب المجاہدین'جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ' حرکة الانصار' تحریک جہاد ' جمعیت المجاہدین' الجہاد' تحریک المجاہدین' العمر مجاہدین' مسلم جانباز فورس ' حزب اللہ ' الفتح ' حزب المؤمنین اور جموں و کشمیر اسلامک فرنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ١٣ عسکری جماعتیں متحدہ جہاد کونسل کی ممبربھی ہیں کہ جس کہ بنیاد ١٩٩٠ء میں رکھی گئی' متحدہ جہاد کونسل کا ہیڈ کوارٹر مظفرآباد میں ہے۔ ان عسکری تناظیم کے علاوہ لشکر طیبہ' جیش محمد اور البدر بھی معروف جماعتیں ہیں۔

جہاد کشمیرکے بارے میں صحیح موقف یہی ہے کہ یہ جہاد فرض ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مظلوم مسلمانوں کے لیے جہاد و قتال کو امت مسلمہ پر فرض قرار دیا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
(وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا)
''اور اے مسلمانو!تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے رستے میں قتال کیوں نہیں کرتے جبکہ کمزور مرد' عورتیں اور بچے کہہ رہے ہیں: اے ہمارے رب!ہمیں اس بستی سے نکال کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی ولی یا مددگار مقرر فرما۔''

کشمیر کا جہاد فرض ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس پرفرض ہے ؟ اس بارے کئی ایک موقف موجود ہیں: ایک موقف کے مطابق کشمیر کا جہاد حکومت پاکستان اور ریاستی افواج پر فرض ہے جو اس کی کامل استطاعت واہلیت بھی رکھتے ہیں اور اس کے ذمہ داربھی ہیں جبکہ پاکستانی عوام پر یہ جہاد فرض عین نہیں ہے۔ اس بارے عامة الناس کا فرض یہی ہے کہ وہ اُس جماعت کو جہاد و قتال پر آمادہ کریں جو کہ اس کی استطاعت و اہلیت رکھتی ہے۔ عوام الناس کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا ٹیکس اسی لیے ادا کرتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز عوام اور ملکی جغرافیائی حدود کی حفاظت کریں ۔ پس اس موقف کے مطابق کشمیر کا جہاد اصلاً ریاستی افواج کی ذمہ داری ہے اور اگر اس میں مجاہدین کی معاونت بھی شامل ہو جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔ پاکستان کے قیام کے فورا بعد افواج پاکستان کے ساتھ مل کر جب مجاہدین نے کاروائیاں کیں تو موجودہ آزاد کشمیر ہمیں حاصل ہوا اور اس کی تازہ ترین مثال کارگل کی جنگ ہے جو افواج اور مجاہدین کے باہمی تعاون کی وجہ سے تقریباً جیتی جا چکی ہے۔ لہٰذاکشمیر کی آزادی کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ اس محاذ پر پاکستانی افواج لڑیں جو اس خطہ ارضی کو دشمن کے پنجہ سے آزاد کرانے کی استطاعت و صلاحیت بھی رکھتی ہیں اور ان کی بنیادی ذمہ داری بھی یہی ہے اور اسی کی وہ تنخواہ بھی لیتی ہیں۔ اس موقف کے مطابق کشمیر میں عوامی جہادی تحریکوں کی جدوجہد سے انڈیا کو کچھ جانی و مالی نقصا ن تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن وہاں کوئی اسلامی ریاست قائم نہیں کی جاسکتی جس کے اسباب درج ذیل ہیں:

١۔ بلاشبہ کشمیر میں اس وقت جس قدر جہاد و قتال ہو رہا ہے وہ سیکورٹی فورسز اور ایجنسیوں کے کسی درجہ میں تعاون سے ہی ہو رہا ہے ۔ اس تعاون کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ فوائد کا پہلو تو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں جبکہ نقصان یہ ہے کہ اس تعاون کی صورت میں اصل مقاصد ایجنسیوں کے پورے ہوتے ہیں نہ کہ جہادی تحریکوں کے۔ اگر تو دونوں کے مقاصد متفق ہو جائیں تو فبہا بصورت دیگر قربانیاں مجاہدین دیتے ہیں اور نتائج ایجنسیوں کے مرضی کے حاصل ہوتے ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ جہادی تحریکوں کی گوریلا کاروائیوں کے سبب سے انڈیا کی تقریباً آٹھ سے دس لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں مصروف عمل ہے۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو انڈیا کی یہ اضافی فورسز کہاں جائیں گی؟ صاف ظاہر ہے یہ پاکستان کے بقیہ باڈرز پر جنگی مشقیں کر کے ہمارے مقتدر طبقہ کی رات کی نیندیں حرام کر دیں گی۔ دوسرا فائدہ سیکولر ذہن رکھنے والے مقتدر طبقہ کو یہ بھی حاصل ہے کہ پاکستان میں جس قدر مذہبی جوش و جذبہ موجود ہے اس کو کشمیر وغیرہ میں استعمال کیا جائے تاکہ نوجوانوں کی ایمانی قوت اور تحریک کا کوئی مثبت یا دعوتی استعمال پاکستان میں نہ ہو۔ وہی مجاہدین جو کشمیر میں قربانیاں پیش کر رہے ہیں اگر پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی پرامن جدوجہد شروع کر دیں تو اس صورت میں پاکستان کے حکمرانوں کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ سوات میں مولانا صوفی محمد صاحب کی 'تحریک نفاذ شریعت محمدی' اس کی بہترین مثال ہے کہ جب اس تحریک کے ہزاروں کارکنان امریکہ کے خلاف جہاد کے لیے افغانستان گئے تو انہیں ریاست وحکومت کی خاموش حمایت حاصل تھی لیکن جب انہوں نے بذریعہ احتجاج مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا تو انہیں تصویر عبرت بنا دیا گیا۔

صورت حال یہ ہے کہ کشمیر کی جہادی تحرکیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ ایجنسیوں کو استعمال کر رہی ہیں اور ایجنسیوں کا یقین یہ ہے کہ جہادی تحریکیں ان کی آلہ کار ہیں ۔ جہادِ کشمیرکا ایجنسیوں پر انحصار جہاں کچھ فوائد کا حامل ہے وہاں کچھ بڑے نقصانات کا سبب بھی ہے۔ مثلاً کارگل کے محاذ پر امریکہ کے حکم پر جب پاکستانی افواج نے پسپائی اختیار کی تو مجبورا مجاہدین کو بھی ایسا کرنا پڑا اور بڑے پیمانے پر نہ صرف جانی ومالی نقصان ہوبلکہ مجاہدین کے تعاون سے جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہو گئی۔

٢۔ کشمیر کی جہادی تحریکوں ایک قابل اعتراض پہلو ان کے باہمی مسلکی اور قیادت کے اختلافات بھی ہیں جو شاید امن کے حالات میں تو چل جائیں لیکن میدان جنگ میں ان کا نتیجہ سوائے دشمن کو تقویت پہنچانے کے اور کچھ نہیں ہے۔
جو لوگ بھی 'جیش محمد' اور 'لشکر طیبہ' کی عسکری تربیت کے نظام سے گزرے ہیں وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان جماعتوں کے معسکرات میں عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ مسلکی تعصب کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ دونوں مکاتب فکرکے معسکرات میں تقاریر و دروس کے ذریعے احسن طریقے سے ایک دوسرے کے مسلک کا رد کیا جاتا ہے۔ اوراب تو صورت حال یہ ہے کہ ایک ہی مسلک کی دوجہادی تنظیموں کے درمیان بھی اتفاق نہیں ہے۔ 'تحریک طالبان پاکستان' اور 'لشکر طیبہ' میں بھی اس وقت شدید باہمی تناؤ کی کیفیت سے گزر رہی ہیں کیونکہ مقدم الذکر جہادی تحریک پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف جہاد کر رہی ہے تو مؤخر الذکر ان کے تعاون سے جہاد کر رہی ہے۔ اللہ نہ کرے لیکن امکان موجود ہے کہ یہ تناؤ جہادی تحریکوں کے مابین کسی بگاڑ کا باعث نہ بن جائے۔

٣۔ ہم یہاں یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی معروف جہادی تحریکوں کا ایک مختصر تاریخی پس منظر قارئین کے سامنے رکھیں۔ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے ١٩٨٠ء میں افغان جہاد کے دوران 'حرکة الجہاد الاسلامی' نامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ ١٩٨٥ء میں بعض اختلافات کی بنیاد پر اس تحریک سے کچھ مجاہدین الگ ہوئے اور انہوں نے 'حرکة المجاہدین' کے نام سے اپنی ایک الگ تنظیم بنا لی ۔١٩٨٩ء میں 'حرکة المجاہدین' کے مجاہدین سوویت یونین کی جنگ ختم ہونے کے بعد کشمیر میں داخل ہوئے۔

١٩٩٣ء میں مولانا مسعود اظہر کی کوششوں سے 'حرکة الجہاد الاسلامی' اور 'حرکة المجاہدین' میں اتحاد ہو گیا اور اس جماعت کا نیا نام 'حرکة الاأنصار' رکھا گیااور اسی سال مولانا سری نگر میں انڈین فورسز کی قید میں چلے گئے۔ ١٩٩٧ء میں امریکہ نے اس جماعت کو دہشت گرد جماعت قرار دیا جس کی وجہ سے اس کا نام دوبارہ تبدیل کر کے 'حرکة المجاہدین' رکھا گیا۔

١٩٩٩ء میں انڈیا کے ایک مسافر طیارے کے اغواء کیس میں مولانا مسعود اظہر کی رہائی ممکن ہوئی تو انہوں نے ٢٠٠٠ء میں ایک نئی جہادی تحریک 'جیش محمد'کی بنیاد رکھی ۔ 'حرکة المجاہدین' کے بہت سارے کارکن مولانا کی اس جماعت میں شامل ہوگئے ۔ 'حرکة الجہاد الاسلامی' سے لے کر 'جیش محمد' تک اور اس کے علاوہ بھی دیوبندی مکتب فکر کی اکثر و بیشتر جہادی تحریکوں میں ایسے افکار موجود ہیں کہ جن کے مطابق حربی کفارکے ساتھ عام کافر شہریوں کو قتل کرنا بھی جائز ہے ۔ علاوہ ازیں یہ جماعتیں پاکستانی حکمرانوں اور افواج پر امریکہ کی حمایت کی وجہ سے کفر کا فتوی لگاتی ہیں اور ان کے ساتھ قتال کو واجب قرار دیتی ہیں جس کا عملی مظاہرہ ہم سوات وغیرہ میں مولانا فضل اللہ کی تحریک کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔

دوسری طرف١٩٩٠ء میں اہل حدیث مکتبہ فکر کی طرف سے افغانستان میں 'لشکر طیبہ' کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ پاکستان میں موجود اہل حدیث کی معروف تحریک 'جماعة الدعوة' کا ایک عسکری شعبہ ہے۔٢٠٠٠ء کے دوران پاکستانی ایجنسیوں نے'حرکة المجاہدین' کے انتہائی نظریات کی وجہ سے اس سے ہاتھ کھینچنا شروع کر دیے اور 'جیش محمد' اور 'لشکر طیبہ' کو باقاعدہ پلاننگ کے تحت آگے لایا گیا۔ ٢٠٠٣ ء میں'جیش محمد' کو بھی امریکہ کے دباؤ پر بین کر دیا گیا۔ 'لشکر طیبہ' پر پابندی لگانے کے لیے بھی حکومت پاکستان پر امریکہ کی طرف سے کافی دباؤ ڈالا گیا لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے بظاہر اگرچہ اس جماعت کے ساتھ تعاون میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن تاحال اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی جس کی اصل وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ 'لشکر طیبہ' اور ایجنسیوں کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا تاحال قائم ہے۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لشکر طیبہ کی قیادت کے برعکس ان کے بعض مجاہدین کا اعتماد اب ایجنسیوں سے اٹھ گیا ہے اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف ہونے والے قتال میں لشکر سے علیحدہ ہونے والے مجاہدین کی بھی ایک جماعت شامل ہے کہ جن کا لٹریچر اور ویڈیوز کثرت سے دستیاب ہیں۔ اگرچہ 'جماعة الدعوة کی قیادت اس حقیقت کو کسی طور بھی تسلیم نہیں کرے گی لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز یا سابقہ فوجی حکمرانوں کے بارے اس جماعت کے حد درجہ نرم رویے کی وجہ سے اس وقت عام جہادی وتحریکی عناصر میں ان کی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے گر رہا ہے۔


٤۔ اگرمقبوضہ کشمیر آزاد ہوجائے' اور اللہ کرے گا کہ ہو جا ئے گا' تو مستقبل کے کشمیر کی تین صورتیں بنتی ہیں:
ایک یہ کہ اس کا الحاق ایک آزاد ریاست کے طور پر انڈیا سے ہو جائے جو کہ ناممکن اور ناقابل عمل صورت ہے۔
دوسرا یہ کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا ایک صوبہ بن جائے۔ یہ صورت حال بھی کوئی آئیڈیل نہیں ہے کیونکہ تمام جہادی تحریکوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں موجود نظام طاغوتی ہے لہٰذا کیا مجاہدین کی شہادتوں اور قربانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک اور خطہ ارضی میں طاغوتی نظام قائم ہو جائے ؟
تیسری صورت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک آزاد مسلمان ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرے۔ اس صورت میں بھی غالب امکان یہی ہے کہ کشمیر میں بر سر پیکارسیاسی ' سماجی اور جہادی تنظیموں کے باہمی قیادت و سیادت کے اختلافات کا بہانہ بنا کر امریکہ یہاں قبضہ کر لے۔امریکہ کے لیے اس وقت کشمیر جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے بہترین سرزمین ہے کیونکہ اس کی سرحدیں تین ایٹمی طاقتوں چین' انڈیا اور پاکستان سے ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ کے بدترین مخالفین روس اور ایران بھی اس علاقے میں ہیں۔لہٰذا انڈیا سے آزادی کی صورت میں کشمیر کے لیے ایک خود مختار آزاد ریاست کے طور پر زندہ رہنا ایک مشکل ہی نہیں ناممکن امر محسوس ہوتا ہے ۔


٥۔ اگر تیسرے آپشن پر مزید بحث بڑھائی جائے کہ کشمیر' انڈیا سے آزاد ہونے کے بعد ایک خود مختار آزاد ریاست کے طور پر قائم رہ سکتا ہے جیسا کہ دنیا میں اس طرح کی اور بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی موجود ہیں مثلاً کویت وغیرہ۔ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چھوٹی سی آزاد مسلم ریاست کا حکمران کون ہو گا؟ کشمیری عوام کی ترجمان سیاسی 'سماجی اور مذہبی تنظیمیں یا غیر کشمیری جہادی تحریکیں؟

صرف آل پارٹیز حریت کانفرنس تقریباً٣٠ سیاسی و سماجی تنظیموں پر مشتمل ہے جو کشمیرکی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں مسلم کانفرنس' تحریک حریت ' کشمیری جمعیت علمائے اسلام' عوامی کانفرنس' جماعت اسلامی' اتحاد المسلمین' جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(یسین ملک)' عوامی لیگ' آزادی کونسل' جموں و کشمیر عوامی کانفرنس' عوامی ایکشن کمیٹی' انجمن تبلیغ اسلام' جمعیت اہل حدیث' جمعیت حمدانیہ' کشمیر بار ایسوسی ایشن' کشمیر بزم توحید' تحریک حریت کشمیری' سیاسی کانفرنس' جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیٹی' سٹوڈنٹ اسلامک لیگ' دختران ملت اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(امان اللہ خان) وغیرہ ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ ان سیاسی ' سماجی اور مذہبی تنظیموں کااصل منشورانڈیا کے مظالم سے کشمیری عوام کی آزادی ہے نہ کہ کسی اسلامی ریاست کا قیام۔ اگر تو جہادی تحریکوں کا منشور بھی وہی ہے جو کہ ان سیاسی و سماجی کشمیری تنظیموں کا ہے تو فبہا لیکن اس صورت میں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے موقف میں اس بات کو اچھی طرح واضح کریں کہ وہ کسی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ ان کا مقصد محض کشمیری عوام کی آزادی ہے۔اور اگر جہادی تحریکیں یہ موقف اپناتی ہیں کہ کشمیر میں اسلامی ریاست کے قیام یا نفاذ شریعت کے لیے لڑ رہی ہیں تو پھر ان کے پاس اس سوال کا جواب کیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کے عوام اور ان کی مقامی سیاسی تنظیموں کو کشمیر میں اقتدارکا حق حاصل ہے یا غیر ملکی مجاہدین کو ؟( اگر تو کشمیر علیحدہ ریاست بنے گا تو اس صورت میں پاکستانی مجاہدین کشمیریوں کے لیے غیر ملکی ہوں گے)۔

اگر ایسی صورت حال ہو کہ کشمیر اپنی آزادی کے بعد ایک آزاد خود مختار ریاست ہو اوربالفرض کشمیر کی آزادی کے بعد اس کی تمام مقامی سیاسی' سماجی اورمذہبی جماعتیں مجاہدین کے حق میں اقتدار سے دست بردار ہو جاتی ہیں تو ھر بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کشمیر میں کون سی عسکری تنظیم اپنا اقتدار قائم کرے گی؟ اس وقت کشمیر میں تقریباً سترہ عسکری تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن میں سے بعض مقامی مجاہدین پر مشتمل ہیں مثلاً حزب المجاہدین وغیرہ ۔ ١٩٩٦ء کی بات ہے کہ راقم الحروف اٹک کالج میں ایف۔ ایس۔ سی کا طالب علم تھا کہ اس دوران کالج میں 'حزب المجاہدین' کے ایک سپریم کمانڈر کی تقریر سننے کا موقع ملا۔ خطاب کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک طالب علم نے یہی سوال اٹھایا کہ کشمیر میں اس وقت چودہ عسکری جماعتیں کام کر رہی ہیں تو کشمیر کی آزادی کے بعد کشمیر پر حکومت کون سی جماعت کرے گی اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ جماعتیں افغان جہاد کی طرح روس کو شکست دینے کے بعد آپس میں نہیں لڑیں گی؟ تو ان کمانڈر صاحب کا جواب یہ تھا کہ ہم نے کشمیر کے چودہ حصے بنا رکھے ہیں جن کو ہم آپس میں بانٹ لیں گے لہٰذا آپ حضرات اطمینان رکھیں کشمیر میں افغانستان جیسی خانہ جنگی پیدا ہونے کا ذرا برابر بھی امکان نہیں ہے۔فیا للعجب!

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کوئی جہادی تحریک اٹھتی ہے تو وہ خلوص' تقوی اور للہیت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور تاحال جو افراد بھی کشمیر' افغانستان' عراق اور سوات کی جنگ میں اعلائے کلمة اللہ کے لیے قتل ہوئے' ہماری نظر میں وہ شہید ہیں اور عند اللہ ماجور ہیں۔ لیکن ہماری بحث یہ ہے کہ کیا ہمیں آنکھیں بند کر کے اور نتائج سے غافل ہو کر اتنی قربانیاں دیتے رہنا چاہیے یا پھر ہمیں مکالمہ ومباحثہ کے ساتھ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہوئے اپنے منہج کو درست کرنا چاہیے۔ کیا ہمیں اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ ہم دروازہ کھولنے کے لیے زور لگا رہے ہیں لیکن یہ زور اس رخ پر ہے کہ جس رخ پر دروازہ بند ہوتا ہے۔

ہم یہ نہیں کہہ رہے اور نہ کہنا چاہتے ہیں کہ جہاد ترک کر دیں۔ جہاد تو مسلمان پر ہر حال میں فرض ہے۔ ہماری بحث یہ ہے کہ ہمیں اپنے جہاد کے رخ کو صحیح سمت ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاد ہونا چاہیے' اس میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن کیسے اور کس رخ پر؟ اس میں ہمارا اختلاف ہے ۔ ہمارے نزدیک عصرحاضر میں جہاد کا صحیح منہج اور رخ کیا ہے؟ وہ ہم نے اس کتاب کے آخری باب میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔

ہمارا موقف یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اسے ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ریاستی سطح پر جہاد ہو۔کشمیر ہو یا افغانستان' عراق ہو یا فلسطین' اگرمسلمان ریاستیں اعلانیہ جہاد کرتیں تو آج ان مقبوضہ علاقوں میں ہمیں کسی قسم کا ظلم و ستم نظر نہ آتا۔ جن کے جہاد سے امت مسلمہ کے مسائل کا حل ممکن ہے انہیں تو اس طرف توجہ نہیں دلائی جاتی بلکہ سا را زور اس بات پر صرف ہوتاہے کہ عامة الناس پر کسی نہ کسی طرح اس کو فرض عین قرار دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج دنیا میں تقریباً تمام مسلمان ریاستوں میں کرپٹ اور ظالم حکمران مسلط ہیں ۔ اگرکوئی شخص ذاتی طور یہ محسوس کرتا ہے کہ مقتول کے ورثا کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا اور قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں لہٰذا اسے قاتل کو اپنے طور پر قتل کر دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے مظلوم بھائی کی مدد کر سکے تو ہم اسے یہی مشورہ دیں گے کہ تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے تمہارے کرنے کااصل کام خود سے شریعت کا نفاذ نہیں ہے بلکہ اسے شریعت کے نفاذ پر مجبور کرنا ہے جس کے پاس اس کے نفاذ کی قوت اور اہلیت ہے۔ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی ہے' لہٰذا ایسی صورت حال میں ہمارا جہاد حکمران کے فریضے کو اپنے ہاتھ میں لینا نہیں ہے بلکہ حکمران کو اس فریضے کی ادائیگی پر مجبور کرنا ہے۔

ہم جہادی تربیت کے بھی قائل ہیں ۔ہم ہر مسلمان کے لیے یہ لازم سمجھتے ہیں کہ وہ عسکری ٹریننگ حاصل کرے لیکن ہمارے خیال میں یہ کام ریاست کی سطح پر ہو تو اس کے بہت اچھے نتائج حاصل ہوں گے جیسا کہ ہمارے زمانہ طالب علمی میں باقاعدہ انٹر میڈیٹ کی سطح پر این سی سی (N.C.C.) ہوتی تھی ۔جہادی تحریکوں اور عوام الناس کو چاہیے کہ وہ حکومت پاکستان کو توجہ دلائیں کہ اس عسکری تربیت کو دوبارہ جاری کر تے ہوئے کالج کی سطح پر ہر طالب علم کے لیے لازم کر دیا جائے جیسا کہ اسرائیل اور دوسرے مغربی ممالک اپنے ہر شہری کو عسکری تربیت فراہم کرتے ہیں۔ بعض غیر مسلم ممالک 'شہری دفاع' کے نام پر ریاست کی سطح پر عوام کو جنگی تربیت فراہم کر تے ہیں لہٰذایہ کوئی ناممکن العمل منصوبہ نہیں ہے۔

٦۔ جہاد کشمیر کے بارے میں عوام الناس کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اس جماعت کو جہاد کی ادائیگی پر بذریعہ تقریر' تحریر' میڈیا' پریس'قانونی' آئینی ' سیاسی اور انقلابی جدوجہد آمادہ کریں کہ جس پر یہ فرض ہے اور جو اس کی صلاحیت و اہلیت رکھتی ہے اور وہ بلاشبہ ریاست پاکستان ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
( یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَة یَّغْلِبُوْا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْم لاَّ یَفْقَہُوْنَ (٦٥) اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَة صَابِرَة یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْف یَّغْلِبُوْا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (٦٦)) !
اے نبی ! اہل ایمان کو قتال پر ابھاریں۔ اگر تم میں بیس ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں ایک سو ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں پرغالب آئیں گے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو کہ سمجھتے نہیں ہیں۔اب اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تخفیف کر دی ہے کہ اگر تم میں ایک سو ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو وہ دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے۔ ''
ان آیات کے مطابق کسی اسلامی ریاست پر اقدامی قتال اس وقت فرض ہوتا ہے جبکہ اس کی قوت ' دشمن کی قوت سے نصف ہو۔ امام قرطبی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
''قلت: وحدیث ابن عباس یدل علی أن ذلک فرض.ثم لما شق علیھم حط الفرض الی ثبوت الواحد للاثنین' فخف عنھم وکتب علیھم ألا یفر مائة من مائتین' فھو علی ھذا القول تخفیف لا نسخ وھذا حسن.''
'' میں یہ کہتا ہوں: حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث اس طرف رہنمائی کر رہی ہے کہ پہلا حکم مسلمانوں پر فرض تھا پھر جب اس حکم کی فرضیت ان کو بھاری محسوس ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرضیت میں تخفیف کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا کہ اگر ایک دو کی نسبت ہو تو پھر اس کی فرضیت باقی ہے اور اس سے کم ہو تو ساقط ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے ان سے تخفیف کر دی اور ان پر یہ فرض کر دیا کہ دو سو کے مقابلے میں ایک سو میدان جنگ سے نہ بھاگیں۔اس قول کے مطابق یہ حکم تخفیف کا ہے نہ کہ نسخ کا' اور یہ قول بہترین ہے۔''
اللہ کے رسول کے دور میں قوت میں تعداد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی لہٰذا اس کا تذکرہ آیت میں کر دیا گیاہے جبکہ آج کل قوت میں صرف تعداد داخل نہیں ہے۔ پس اگر کسی مسلمان ریاست کے پاس دشمن کے مقابلے میں نصف قوت موجود ہو تو اس پر اقدامی جہاد فرض ہو گا اور اگر نصف سے کم قوت ہو تو پھر جہاد کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں یعنی یہ مستحب بھی ہو سکتا ہے او ر حرام بھی ۔امام ابن قیم لکھتے ہیں:
''انکار المنکر أربع درجات الأولی أن یزول ویخلفہ ضدہ الثانیة أن یقل وان لم یزل بجملتہ الثالثة أن یخلفہ ما ھو مثلہ الرابعة أن یخلفہ ما ھو شر منہ فالدرجتان الأولتان مشروعتان والثالثة موضع اجتہاد والرابعة محرمة.''
''انکار منکر کے چار درجات ہیں پہلا درجہ وہ ہے کہ جس سے منکر ختم ہو جائے اور اسکی جگہ معروف قائم ہو جائے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر کم ہو جائے اگرچہ مکمل ختم نہ ہو۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ منکر تو ختم ہو جائے لیکن اس کی جگہ ایک ویسا ہی منکر اور آ جائے اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ اس منکر کے خاتمے کے بعد اس سے بھی بڑا اور بدترین منکر آ جائے ۔پس پہلے دو درجے مشروع ہیں جبکہ تیسرا درجہ اجتہاد کا میدان ہے اور چوتھا درجہ حرام ہے ۔''

جہاں تک دفاعی جہاد کا معاملہ ہے تو وہ تو جب تک دفاع کی استطاعت اور طاقت ہے' ہو گا' چاہے فریقین کی نسبت کچھ بھی ہو کیونکہ یہی فطری امر ہے کہ ہر شخص اپنے جان ومال کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ اور اگر دفاع کی قدرت اور اہلیت باقی نہ رہے تو پھر صبر محض ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
شمالی و جنوبی وزیرستان کا جہاد : تاریخ و اسباب
وزیرستان پاکستان کے شمال مغرب میں ایک پہاڑی علاقہ ہے کہ جس کی سرحد افغانستان سے بھی ملتی ہے۔ وزیرستان جغرافیائی اعتبار سے دو حصوں'شمالی وزیرستان' اور 'جنوبی وزیرستان' میں تقسیم ہے۔ ١٩٩٨ء کے اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان کی آبادی تقریباً تین لاکھ اکسٹھ ہزار اور جنوبی وزیرستان کی آبادی چار لاکھ انتیس ہزار تھی۔ شمالی وزیرستان کا صدر مقام 'میران شاہ' ہے جبکہ جنوبی وزیرستان کا دار الخلافہ 'وانا' ہے۔

وزیرستان کے مقامی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جہاد افغانستان میں شریک رہی۔ نومبر ٢٠٠١ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بہت سے غیر ملکی اورمقامی مجاہدین نے وزیرستان کا رخ کیا اور یہاں پناہ لی۔ امریکہ نے ان مجاہدین کے حوالے سے حکومت ِ پاکستان پر دباؤ ڈالا۔حکومت پاکستان نے جولائی ٢٠٠٢ء میں مقامی قبائلیوں کی رضامندی سے علاقے کی ترقی کے بہانے 'وادی تیرہ' اور 'خیبر ایجنسی' میں اپنی فوجیں اتاریں۔ اور کچھ ہی عرصہ بعدحکومت نے اچانک ہی جنوبی وزیرستان پر ہلا بول دیا۔ مقامی لوگوں نے حکومت پاکستان کے اس اقدام کو اپنی آزادی کے منافی سمجھا اور پاکستانی افواج و مقامی قبائلیوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔ مارچ ٢٠٠٤ء میں 'وانا' کے قریب 'أعظم وارسک' کے مقام پر حکومت اور قبائلیوں کے مابین ایک بڑی جھڑپ ہوئی۔

اپریل ٢٠٠٤ء میں پے در پے ناکامیوں کے بعدحکومت پاکستان نے 'نیک محمد' کی قیادت میں لڑنے والے قبائلیوں سے امن معاہدہ کر لیا۔ جون ٢٠٠٤ء میں 'نیک محمد' کو ایک امریکی میزائل کے ذریعے شہید کر دیا گیا۔ جنوبی وزیرستان کے مقامی جنگجو 'نیک محمد' ٢٠٠٣ء اور ٢٠٠٤ء میں سینکڑوں غیر ملکیوں کو 'وانا' لے کر آئے تھے۔ یہ غیر ملکی یہاں آ کر آباد ہو گئے تھے اور قبائلیوں نے ان پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ ٢٠٠٤ء میں 'نیک محمد' کی قیادت میں قبائلیوں نے افواج پاکستان کوبھاری نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں امن معاہدہ ہوا اور بعد ازاں نیک محمد ایک میزائل حملے میں شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت کے بعد طالبان کی اعلی قیادت نے جنوبی وزیرستان میں 'ملا نذیر' کو طالبان کا لیڈر مقرر کردیا۔

جنوبی وزیرستان میں اسی عرصے میں مقامی طالبان کو غیر ملکی ازبک مجاہدین کے رویوں سے کچھ شکایات پیدا ہوئیں اور بہت سے مقامی سرداروں کے قتل کا الزام بھی ازبکوں پر لگایا جاتا رہا۔ ازبک کسی بھی مقامی سردار پر جاسوسی کا الزام لگا کر اس کو قتل کر دیتے تھے۔انہوں نے زمین میں گڑھے کھود کر اپنی جیلیں بنائی ہو ئی تھیں جہاں وہ اپنے مخالفین کو قید رکھتے تھے۔ صورت حال اس وقت زیادہ خراب ہوئی جب القاعدہ سے متعلق ایک عرب مجاہد سیف العادل کو ازبکوں نے شہید کر دیا۔ مقامی طالبان ملا نذیر کی قیادت میں ازبکوں کے خلاف اکھٹے ہو گئے اور مقامی و غیر ملکی مجاہدین میں آپس کی لڑائی شروع ہوگئی۔ ازبک مجاہدین تین حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان کا ایک حصہ تومقامی طالبان سے مل گیا۔ جبکہ ایک حصہ میر علی کی قیادت میں شمالی وزیرستان چلا گیا اور تیسرا حصہ قاری طاہر یلداشیو کی قیادت میں مقامی طالبان سے جہاد کرتا رہا۔ اس جہاد کے نتیجے سینکڑوں مجاہدین شہید ہوئے اور بالآخر مقامی طالبان نے ازبک مجاہدین کا کنٹرول علاقے سے ختم کر دیا۔

اکتوبر ٢٠٠٤ء میں جنوبی وزیرستان کے ایک بڑے رہائشی محسود قبیلے کے جنگجو عبد اللہ محسود مقامی قبائلیوں کے رہنما کے طور پر سامنے آئے ۔عبد اللہ محسود تقریباً ڈیڑھ سال تک گوانتاناموبے جیل میں قید رہے تھے ۔ بعد ازاں امریکی حکام نے انہیں رہا کر دیا تھا۔ مارچ ٢٠٠٣ء میں یہ رہا کیے گئے اور درمیان میں ایک ڈیڑھ سال روپوش رہے اور اکتوبر ٢٠٠٤ء کے قریب ایک دم سے میڈیا میں ان کے بیانات آنے شروع ہو گئے۔ عبد اللہ محسود کو میڈیا میں آنے کا بہت شوق تھا یہاں تک کہ ان کانام ہی میڈیا فرینڈلی کمانڈر کے طور پر معروف ہو گیا تھا۔ دو چینی انجینیئرز کو اغواء کرنے کی وجہ سے ٢٠٠٧ء میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے شہید کر دیا گیا۔

عبد اللہ محسود کے علاوہ ایک اور جنگجو بیت اللہ محسود بھی مقامی طالبان کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ بیت اللہ محسود ایک سنجیدہ مزاج اور فہم و فراست رکھنے والے کمانڈر تھے۔ فروری ٢٠٠٥ء میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں قبائلیوں کا حکومت پاکستان سے معاہدہ ہوا۔ بیت اللہ محسودنے عبد اللہ محسود کو بھی اس معاہدے میں شریک کرنے کی درخواست کی لیکن حکومت پاکستان نے چینی انجینیئرز کے اغواء کے معاملے کی وجہ سے عبد اللہ محسود کو اس معاہدے میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔

جولائی ٢٠٠٧ء میں حکومت پاکستان نے لال مسجد پر حملہ کر تے ہوئے بیسیوں طلباء اورسینکڑوں بچیوں کو شہید کر دیا' جس کے رد عمل میں بیت اللہ محسود نے افواج پاکستان پر خود کش حملوں کی دھمکیاں دیں اور معاہدہ توڑنے کا اعلان کیا۔ دسمبر ٢٠٠٧ء میں سات قبائلی ایجنسیوں شمالی وزیرستان ' جنوبی وزیرستان' کرم ایجنسی' باجوڑ ایجنسی' خیبر ایجنسی' اورکزئی ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے علاوہ مالاکنڈ ڈویزن' سوات اور درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے بیس کے قریب طالبان رہنماؤں کا اجلاس ہوااور بیت اللہ محسود کی قیادت میں 'تحریک طالبان پاکستان' کا قیام عمل میں آیا۔ چالیس رکنی شوری بھی مقرر کی گئی اور مولوی عمر کو تحریک کا ترجمان بنایا گیا۔

جنوری ٢٠٠٨ء میں حکومت پاکستان نے دوبارہ محسود قبائل کے خلاف آپریشن شروع کر دیا جس کی وجہ سے ہزاروں افراد نے وزیرستان علاقے سے نقل مکانی شروع کر دی۔ ٦فروری ٢٠٠٨ء کو 'تحریک طالبان پاکستان' نے سوات سے وزیرستان تک افواج ِ پاکستان کے خلاف کاروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا۔

شمالی وزیرستان کی طرف پیش قدمی افواج پاکستان کی طرف سے ٢٠٠٢ء میں ہوئی تھی۔ ٢٠٠٤ء کے شروع سے ہی مقامی طالبان اور سیکورٹی فورسز کے مابین گاہے بگاہے جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔ حکومت پاکستان کا یہ دعوی تھا کہ اس علاقے میں وہ غیر ملکی اور القاعدہ کے مجاہدین موجود ہیں جو حکومت پاکستان اور امریکہ کو مطلوب ہیں۔ شمالی وزیرستان کی صورت حال اس وقت زیادہ خراب ہو گئی جب مارچ ٢٠٠٦ء میں پاکستانی سیکورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے صدر مقام 'میران شاہ' پر حملہ کر دیا اور اس حملے میں فضائیہ کا بھرپور استعمال کیا گیا۔فضائی حملوں کے نتیجے میں شہر تباہ ہو کر رہ گیا اور تقریباً تمام آبادی پشاور' ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع ٹانک کی طرف ہجرت کر گئی۔ اڑھائی برس کی اس باہمی جنگ کے بعد ٤٥ قبائل کے گرینڈ جرگہ اور حکومت کے مابین امن معاہدہ ہو گیا۔ یہ معاہدہ ٢٠جولائی ٢٠٠٦ء کو ہوا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سوات کا جہاد : تاریخ و اسباب
مالاکنڈ ڈویژن سے سے تعلق رکھنے والے عالم دین صوفی محمد نے مالاکنڈ میں شریعت کے نفاذ کے لیے 'تحریک نفاذ شریعت محمدی' کی بنیاد رکھی۔ ١٩٩٤ء میں اس تحریک سے متعلق بعض افراد نے بغاوت کی جو کہ ناکام ہو گئی ۔ ٢٠٠١ء میں جب طالبان حکومت پرامریکہ نے حملہ کیا تو صوفی محمد کی قیادت میں دس ہزار افراد کا لشکر مالاکنڈ سے طالبان کی نصرت کے لیے افغانستان گیا۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ افراد واپس پاکستان آ گئے اور امریکہ کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے ان کے بعض افراد کو القاعدہ کے ارکان کے طور پر پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنا شروع کر دیا جس کہ وجہ سے مقامی لوگوں میں حکومت اور سیکورٹی فورسز کے خلاف نفرت اور ردعمل میں اضافہ ہوا۔

٢٠٠٢ء میں پرویز مشرف نے تحریک پر پابندی لگا دی۔ صوفی محمدکے داماد مولوی فضل اللہ کی قیادت میں مقامی مجاہدین اکٹھے ہو گئے۔ مولوی فضل اللہ نے اپنے ایف ایم چینل کے ذریعے علاقے میں جہادی فکر پھیلانا شروع کر دیا۔ 'نفاذ شریعت محمدی' کے ضلع سوات کے امیر نے یہ بیان جاری کیا کہ مولوی فضل اللہ کا تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے اور صوفی محمد نے ان کو غیر قانونی ایف ایم چینل چلانے کی وجہ سے تحریک سے نکال دیا ہے۔

مولانا فضل اللہ نے 'امام ڈھیرئی' کو اپنا صدر مقام بنایا اور وہاں دو کروڑ کی لاگت کے تخمینے سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے 'شاہین فورس' کے نام سے ایک عسکری جماعت بھی قائم کی کہ جس میں پانچ ہزار کے قریب مسلح افرادشامل تھے ۔ ٢٠٠٦ء میں ان افراد نے مبینہ طور پر بازاروں میں مسلح ہو کر گشت کرنا شروع کر دیا' تا ہم علاقے کی صورت حال اس وقت خراب ہوئی جب جولائی ٢٠٠٧ء میں لال مسجد پر حکومت کے آپریشن نے ان کو آگ بگولا کر دیا اور انہوں نے سیکورٹی فورسرز پر حملے شروع کر دیے۔ مولانا فضل اللہ نے سوات کی کئی ایک تحصیلوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ حکومت نے ان کے خلاف آپریشن میں فضائیہ اور آرٹلری کو بھی استعمال کیا جس کی وجہ سے سینکڑوں شہری شہید ہوئے اور ہزاروں افراد نے دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کر دی۔ ڈاکوؤں اور پرانی قبائلی دشمنیاں رکھنے والوں نے طالبان کے روپ میں لوگوں کو لوٹنا اور قتل کرنا شروع کر دیا۔ علاقے میں طوائف الملوکی عام ہو گئی۔

٢٧ نومبر ٢٠٠٧ء کو طالبان اپنے مورچے خالی کرتے ہوئے نامعلوم مقامات کی طرف روپوش ہوگئے اور ٣ دسمبر کوافواج پاکستان نے امام ڈھیرئی کا کنٹرول سنبھال لیا۔ بعد ازاں مولانا فضل اللہ بھی بیت اللہ محسود کی قیادت میں 'تحریک طالبان پاکستان' میں شامل ہو گئے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
لال مسجد کا جہاد : تاریخ و اسباب
اسلام آباد میں جامعہ حفصہ و لال مسجد اور حکومت پاکستان کی انتظامیہ کے مابین تنازع کی رپورٹیں٢٠ جنوری ٢٠٠٧ء کو حکومت پاکستان کی طرف سے مسجد امیر حمزہ اوراس سے ملحق مدرسے کو گرانے کے بعد میڈیا میں آنا شروع ہوئی۔ لال مسجد کے خطیب کے ایک مبینہ بیان کے مطابق سی ڈی اے' اسلام آباد کی طرف سے کچھ عرصے کے وقفے کے ساتھ سات سے زائد مساجد کو گرایا گیا۔ علاوہ ازیں اسلام آباد انتظامیہ نے جامعہ مسجد ضیاء الحق 'جامعہ مسجد شکر لال' جامعہ مسجد منگرال ٹاؤن' جامعہ مسجد راول چوک' مسجد شہداء' جامعہ مسجد مدنی' جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو بھی گرانے کے لیے نوٹس جاری کر دیے تھے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے مساجد و مدارس کوشہید کرنے کی اس مہم کی وجہ سے ملک بھر کے علماء ا ور مذہبی حلقوں میں اضطراب اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ علماء کے ایک اجلاس میں 'تحریک تحفظ مساجد' کے قیام کا اعلان ہواجس میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے عزم کا اظہارکیا اورحکومت کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے جامعہ حفصہ سے ملحق دو بڑے کمروں پر مشتمل ایک چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا۔

٢٧ جنوری کو لال مسجد کے مہتم مولانا عبد العزیز صاحب کی طرف سے اخبارات میں ایک بیان شائع ہوا کہ جس میں حکومت سے چند مطالبات کیے گئے تھے 'ان مطالبات میں گرائی جانے والی مساجد کی تعمیر نو' ملک میں فحاشی کلچرکا خاتمہ' جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو بھیجے گئے حکومتی نوٹس کی واپسی اور پرویز مشرف کامساجد گرانے کے حوالے سے اللہ اور قوم سے معافی مانگنا شامل تھا۔ مولانا نے مزید یہ بھی کہا کہ طالبات کا چلڈرن لائبریری پر اس وقت تک قبضہ برقرار رہے گا جب تک ملک کے اندر اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جاتا۔

٣ فروری کے اخباری بیانات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے کریک ڈاؤن کر کے مدارس کے ١٢٥ اساتذہ اور طلباء کو گرفتار کر لیا۔ نیزجامعہ حفصہ اور جامہ فریدیہ کو اپنے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ٢٤ گھنٹے کا نوٹس دے دیا۔

١٢ فروری کی اخباری اطلاعات کے مطابق لائبریری سے طالبات کا قبضہ ختم کروانے کے لیے علماء اور حکومت کے مابین مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے۔ جس پر انتظامیہ نے ویمن پولیس' ایف سی اور رینجرز طلب کر لی۔ جامعہ حفصہ نے بھی فارغ التحصیل طالبات کو بلوا لیا۔

درمیان میں کچھ دن فریقین کی طرف سے خاموشی رہی لیکن٢٥ مارچ کوجامعہ حفصہ کی طالبات اور لال مسجد کے طلباء کی طرف سے آنٹی شمیم نامی ایک خاتون اور اس کی بہو اور بیٹی کے جامعہ حفصہ منتقلی کا ایک واقعہ ایسا ہواکہ جس نے ا س تنازع کو ایک دفعہ پھر بھڑکا دیا ۔

٢٩مارچ:مبینہ ذرائع کے مطابق پولیس نے جامعہ حفصہ کی دو معلمات 'ان کے دو مرد ساتھوں اور ڈرائیور کو آنٹی شمیم اغوا کیس میں گرفتارکر لیا۔ جبکہ جوابی کاروائی کرتے ہوئے لال مسجد کے طلباء نے دوپولیس اہلکاروںاو ر دو پولیس کی گاڑیوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ رات گئے تک ضلعی حکومت اور لال مسجد کی انتظامیہ میں مذاکرات ہوتے رہے۔ مذاکرات کے نتیجے میںضلعی حکومت نے ان دو معلمات 'ان کے دو مرد ساتھیوں اور ڈرائیور کو رہاکر دیاجن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے جی سکس اسلام آباد سے آنٹی شمیم نامی ایک خاتون' ان کی بیٹی' بہو اورچھ ماہ کی پوتی کوجامعہ حفصہ پہنچا دیا تھا۔ لال مسجد کے خطیب نے ان افراد کی رہائی کے بعد دو پولیس اہل کاروں اور موبائلز گاڑیوں کو چھوڑ دیا لیکن آنٹی شمیم اور ان کی رشتہ دار خواتین کو تاحال لال مسجدنے اپنی تحویل میں رکھا۔

٣٠مارچ :مبینہ ذرائع کے مطابق بدکاری کا اڈا چلانے کے الزام میں محبوس شمیم اختر' اس کی بیٹی اور بہو کواڑھائی دن کی یرغمالی کے بعد لال مسجد کی انتظامیہ نے برقعے پہنا کررہا کر دیا۔

٣١مارچ :مبینہ ذرائع کے مطابق لال مسجد کے خطیب نے اپنے خطاب جمعہ کے دوران درج ذیل مطالبات کیے:
١۔حکومت فوری طور پر نفاذ شریعت کا اعلان کرے ورنہ آئندہ جمعہ لال مسجد میں منعقدہ نفاذ شریعت کانفرنس میں ہم خود اس کا اعلان کریں گے۔
٢۔حکومت عریانی ور فحاشی کے اڈے بند کرے اور اسلامی نظام نافذکر کے فحاشی کے مرتکب افراد کو بیس کوڑے لگائے' ورنہ لال مسجد میں قاضی کی عدالت میں ان پر حد لاگو کی جائے گی۔ بہت صبر کیا' مر جائیں گے لیکن فحاشی کے ا ڈے نہیں چلنے دیں گے۔ نائب خطیب جناب عبد الرشید غازی صاحب کا بیان آیا کہ آنٹی شمیم سے پورا محلہ تنگ تھا۔ آنٹی شمیم کے خلاف تقریبا اڑھائی سو معززین محلہ نے میڈیا کو بیانات دیے۔

٩ اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ جناب آفتاب احمد شیر پاؤ نے ایک نجی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا:حکومت کا موقف ہے کہ معاملہ پر امن طریقے سے حل ہو' جامعہ حفصہ کی طالبات کے والدین کو متنبہ کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے ایک اشتہاری مہم چلانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ دوسری طرف سے لال مسجد کے نائب خطیب عبد الرشید غازی صاحب کی طرف سے اعلان ہوا :ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔

١١اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق جناب چوہدری شجاعت نے ایک دفعہ پھر منگل کی شب جامعہ حفصہ کا دورہ کیا۔ یہ مذاکرات تقریبا اڑھائی گھنٹے جاری رہے جن کے نتیجے میں حکومت نے سات شہید کی گئی مساجد کی دوبارہ تعمیر کی یقین دہانی کرائی' علاوہ ازیں دونوں بھائیوں نے اس وقت تک چلڈرن لائبریری پر قبضہ برقرار رکھنے کا اعلان کیا جب تک کہ حکومت شریعت کو نافذ نہیں کرنے کی یقین دہانی نہیں کراتی۔

١٢اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق وزیراعظم جناب شوکت عزیز کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس تقریبا پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔ وفاقی وزیر برائے بند گاہ و جہاز رانی جناب بابر غوری' وفاقی وزیر تعلیم جناب جاوید اشرف اور وزیر خارجہ جناب خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ لال مسجد کے خلاف فورا ایسا ایکشن لیا جائے کہ جس سے یہ معاملہ ختم ہو جائے جبکہ بعض دوسرے وزراء جن میں وزیر مذہبی امورجناب اعجاز الحق' وزیر داخلہ جناب آفتاب احمد شیر پاؤ اور جناب ہمایوں اخترشامل ہیں' کا بیان تھا کہ معاملہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہونا چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف آئی این پی کو دیے گئے اپنے ایک انٹر ویو کے دوران مولانا عبد العزیزغازی صاحب نے کہا: ایم۔ ایم۔ اے' والے سرحد میں اپنی حکومت کے باوجود اسلامی نظام نافذ نہیں کر سکے وہ ہماری مدد کیا کریں گے۔ ایم ۔ایم ۔اے والے جمہوریت کے ذریعے اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہم جہاد کے ذریعے۔ پانچ لاکھ کے قریب استحصالی ٹولے نے سترہ کروڑ عوام کو یر غمال بنا رکھا ہے۔ جب تک اسلامی نظام نافذ نہیں ہوتا چلڈرن لائبریری پر اپنا قبضہ ختم نہیں کریں گے۔

١٤اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق لال مسجد کے نائب خطیب مولاناعبد الرشید غازی نے کہا:چوہدری شجاعت سے مذاکرات کے اختتام تک شرعی عدالت غیر فعال رہے گی۔ جبکہ مولانا عبد العزیز غازی صاحب نے اپنے جمعہ کے خطبے میں کہا:اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے پرامن تحریک چلائیں گے۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ہماری جدوجہد باطل نظام کے خلاف ہے اگر پرویزمشرف اسلامی نظام نافذ کرتے ہیں تو ان کی جوتیاں اٹھانے کو تیار ہوں۔ ڈنڈے اور تیزاب کی بات ہم نے نہیں کی' ڈنڈا تو وہ استعمال کر رہے ہیں جنہوں نے وزیرستان میں تباہی پھیلائی۔ انہوں نے مزید کہاکہ چوہدری شجاعت کا رویہ مثبت ہے لیکن اعجاز الحق آپریشن کی بات کرتے ہیں۔

٢٠اپریل :وفاق المدارس العربیہ کی مجلس عاملہ کی دو روز ہ میٹنگ کے بعد ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے درج ذیل مطالبات کیے گئے :١۔حکومت جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے مطالبات کو منظور کرے۔٢۔ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے۔٣۔گرائی جانے والی مسجد کو دوبارہ تعمیر کروائے۔٤۔ بدکاری اور فحاشی کے اڈے ختم کرے۔ اس اعلامیہ کے مطابق مجلس عاملہ نے جامعہ حفصہ کے مطالبات کو درست قرار دیا لیکن انہوں نے کہا کہ جا معہ حفصہ کی طالبات اور لال مسجد کی انتطامیہ کا طریق کار غلط ہے۔

٢ مئی : امام کعبہ نے وفاقی وزیر اعجاز الحق سے سعودی عرب میں ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان میں خود کش حملے کرنے والے گمراہ ہیں۔ اسلام سرکاری یا کسی کی ذاتی زمین پر قبضہ کر کے مسجد یا مدرسہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا ۔حکومت کے ہوتے ہوئے کوئی فرد اپنی شرعی عدالت قائم نہیں کر سکتا۔ شرعی عدالت کا قیام حکمرانوں کی ذمہ داری ہے اگر وہ پورا نہیں کرتے تو اللہ کو جوابدہ ہوں گے۔

بہرحال یہ تنازع بڑھتا ہی گیا اوربالآخر١٠جولائی کو حکومت نے اقدام کیا اور لال مسجد کو شہید کر دیا۔ سینکڑوں طلبہ و طالبات نے سر نڈر کرتے ہوئے اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیاجبکہ بقیہ طلبہ و طالبات کو شہید کر دیاگیا۔ لال مسجد کے نائب خطیب عبد الرشید غازی شہید کر دیے گئے جبکہ خطیب عبد العزیز صاحب کو گرفتار کر لیا گیا جنہیں بعد ازاں رہا کر دیا گیا اور دوبارہ اپنے سابقہ عہدے پر بحال کر دیا گیا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
معاصر جہاد کا ایک تجزیاتی مطالعہ
وزیرستان کا جہاد ہمارے نزدیک دفاعی جہاد تھا جو کہ حکومت پاکستان نے قبائلیوں پر مسلط کیا تھا لہٰذا اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اسے وزیرستان تک ہی محدود رہنا چاہیے تھا جبکہ وزیرستان سے اسے مملک پاکستان کے دوسرے علاقوں تک پھیلا دینا ایک صریح غلطی تھی۔ سوات اور لال مسجدکے جہاد کو ہم ایک بڑی غلطی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ دونوں اقدامی جہاد تھے اور مسلمان حکومت کے خلاف تھے۔فقہی اصطلاح میں یہ 'خروج' کی بحث بنتی ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خروج اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مسئلہ اور زیادہ بگڑے گا۔ اس کی ہمارے نزدیک درج ذیل وجوہات ہیں:
١۔ امریکہ اور عالمی طاقتیں یہی چاہتی ہیں کہ پاکستانی افواج کو مجاہدین سے لڑا کر دونوں کو کمزور کر دیا جائے۔
٢۔ پاکستان میں عسکری رستوں سے کامیابی حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ عسکری تنظیموں اور ریاست میں طاقت کا عدم توازن بہت زیادہ ہے۔
٣۔ لال مسجد اور سوات کے واقعے نے ہمیں کیا دیا؟ ہزاروں لوگوں کی شہادت' بڑے پیمانے پر نقل مکانی' عوام الناس کے گھروں اور اموال کی تباہی ؟
٤۔ کئی ایک جہادی رہنما اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ ریاست پاکستان کے خلاف عسکری کاروائیاں بے فائدہ ہیں ۔صوفی محمد صاحب نے عسکری منہج سے رجوع کر لیا بلکہ اپنے داماد مولانا فضل اللہ کو یہ طریقہ اختیار کرنے پر اپنی جماعت سے نکال دیا۔ لال مسجد کے غازی برادران کے آخری بیانات اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ حکومت سے مفاہمت چاہتے تھے لیکن پرویز مشرف صاحب آپریشن پر ڈٹے ہوئے تھے۔مولانا فضل اللہ نے بھی تین ماہ بعد سوات خالی کر دیا اور روپوش ہوگئے۔
٤۔ پاکستان کسی خلامیں نہیں ہے۔ہمیں کوئی بھی تحریک قائم کرنے سے پہلے محض پاکستان کی جغرافیائی حدود میں رہتے نہیں سوچنا چاہیے بلکہ اپنی تحریک کوعالمی تناظر میں رکھتے ہوئے اس کا لائحہ عمل اور پالیسی طے کرنی چاہیے۔مبینہ ذرائع کے مطابق افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے والے طالبان کو حکومت پاکستان اور آئی ایس آئی نے اپنی پشت پناہی فراہم کی تھی اور پاکستانی ایجنسیوں ہی کی اجازت سے پاکستانی طالبان بھی امریکہ کے خلاف اہم کردار ادا کر رہے تھے ۔ امریکہ نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے انڈیا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے ایک پلان بنایا جس کے مطابق قبائلی علاقوں میں ایک نئی طالبان تحریک کو حکومت پاکستان کے خلاف کھڑا کر کے چال کو انہی کے خلاف الٹ دینا مقصود تھا۔
٥۔ ہماری رائے میں جہادی تحریکوں کو ایک خاص عرصے تک کے لیے ہر قسم کے جنگ وجدال سے علیحدہ رہتے ہوئے اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں سے نصح و خیر خواہی کے جذبے کے تحت اپنے روابط بڑھانے چاہئیں۔ حکمرانوں کے ساتھ اس اتحاد میں اصل بنیاد امریکہ کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کی روک تھام' پاکستان کی سا لمیت اور مسلمانوں پر ظلم کے خاتمے کو بنانا چاہیے۔

جہادی تحریکوں کو یہ بھی چاہیئے کہ وہ ایسے نوجوانوں کوجمع کریں جو انجینئرنگ' سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلی تعلیم یافتہ ہوں ۔ ان نوجوانوں کومختلف اسلامی ریاستوں مثلاً سعودیہ' ترکی' مصر اور پاکستان وغیرہ میں ریاستی سطح پر ایک مشن کے طور پر کھپایا جائے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او۔آئی۔سی میں تحریک پیدا کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں اورعالم اسلام کو متحد کیا جائے۔ دین دار تاجر طبقوں خصوصاعرب سرمایہ داروں کو اکٹھا کرتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیوںکے مقابلے میں اسلامی انڈسٹریز بنانی چاہیے تا کہ مسلمان اپنی معاشی ضرورتوں میں خود کفیل ہوں۔

مقصود یہ ہے کہ جہادی تحریکوں کو کچھ عرصے تک اپنی توانائیاں عالمی سطح پرمسلمانوں کی تعلیم' معیشت' ٹیکنالوجی اور سیاسی گٹھ جوڑ پر صرف کرنی چاہئیں تا کہ مسلمان ریاستیں اور جہادی تحریکیں مل کر ایک خاص عرصے میں سپر پاور نہ سہی ایک منی سپر پاور کے طور پر سامنے آئیں۔ اس سلسلے میں پہلی جنگ عظیم میں امریکہ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد چین کی پالیسیوں سے رہنمائی لی جا سکتی ہے کہ دونوں نے ایک خاص وقت تک کے لیے اپنے ممالک کو ہر قسم کے جنگ و جدال سے دور رکھتے ہوئے معاشی و ٹیکنالوجی کی ترقی پر اپنی ساری توجہ مرکوز رکھی اور اس کے نتائج وہ آج حاصل کر رہے ہیں۔

علاوہ ازیں مسلمان ممالک میں حکمرانوں کی اصلاح کے لیے کسی بھی عسکری طریقہ کار کی بجائے آئینی' دعوتی' تبلیغی' اصلاحی' انتخابی' احتجاجی' پر امن مظاہروں' پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کے ذرائع وغیرہ کو استعمال کرنا چاہیے تا کہ مسلمان باہمی جنگ وجدال سے کمزور نہ ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
چند شبہات اور ان کے جوابات
پہلا شبہ
تحریک طالبان پاکستان سے بہت سے گروہ نظریاتی اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہو کر چھوٹے چھوٹے گروپس میں تقسیم ہو تے گئے۔ حامد میر نے اپنے ایک کالم میں تقریباً کوئی ستائیس کے قریب ایسے گروپس کا تعارف کروایا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو حکومت پاکستان کو کافر قرار دیتے ہیں اور حکومت کی معاونت کی وجہ سے افواج پاکستان' رینجرز اور پولیس پر بھی کفر کا فتوی لگاتے ہیں لہٰذا یہ حضرات سیکورٹی فورسز پر ہر جگہ خود کش حملوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔

اس منہج سے ہم امت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کی بجائے بڑھا رہے ہیں۔ مظلوم طبقے کی ٹینشن ' فرسٹریشن اور ڈیپریشن اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب ان کی ایک تعداد کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کو بھی عراق بنانا چاہتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایسی باتیں مسلمان امت کو چولہے (حکومتی ظلم وستم) سے اٹھانے لیکن ساتھ ہی تنور(باہمی قتل و غارت) میں جھونکنے کے مترادف ہیں۔ شریعت ہمارے مسائل حل کرنے کے آئی ہے نہ کہ پیدا کرنے کے لیے۔ اگر اس منہج کو اختیار کر لیا جائے تو شاید ایک مسئلہ حل ہو جائے لیکن اس سے جو آگے بیس مسائل پیدا ہوں گے' ان پر ہم بالکل بھی غورو فکر نہیں کرتے۔ پاکستانی ریاست کو کمزور کرنے کا اصل فائدہ کس کو ہو گا؟امریکہ ' اسرائیل اور انڈیا کویا تحریک طالبان پاکستان کو؟ہم پہلے ہی اسلام دشمنوں سے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور باہمی جنگ و جدال سے اپنے ملک کو اورزیادہ کمزور کر لیں تو کس کا فائدہ کریں گے؟پاکستان کا بھی عراق جیسا حشر ہونے سے کیا امت مسلمہ کے مسائل حل ہو جائیں گے؟

اسلامی تاریخ میں شاید ہی حجاج بن یوسف جیسے سفاک اور ظالم حکمران کی کوئی اور مثال موجود ہو جس نے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن زبیر کی خلافت کے خاتمے کے لیے مکہ کا محاصرہ کیا' ان کو شہید کروا کے سولی پر چڑھایا' بیت اللہ پر سنگ باری کروائی اور ہزاروں مسلمانوں کو صرف اپنے اور بنو امیہ کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے شہید کروایا۔ اس شخص کے ظلم وستم سے تنگ آ کر جب دو اصحاب حضرت عبد اللہ بن عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے:
((ان الناس ضیعوا وأنت ابن عمر وصاحب النبیۖ فما یمنعک أن تخرج فقال یمنعنی أن اللہ حرم دم أخی فقالا ألم یقل اللہ (وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة) فقال قاتلنا حتی لم تکن فتنة وکان الدین للہ وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتی تکون فتنة و یکون الدین لغیر اللہ))
''لوگوں نے امانت کو ضائع کر دیا ( یعنی حقدار کو امارت و خلافت عطا نہ کی ) اور آپ ابن عمرہیں ۔اللہ کے رسول کے صحابی بھی ہیں تو پھر بھی آپ ان ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کیوں نہیں کرتے تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے کہا: مجھے اللہ کا یہ حکم ان کے خلاف خروج سے روکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کے خون کو حرام کیا ہے تو اس شخص نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے۔ تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے جواب دیا: ہم نے قتال کیا تھا یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو گیا اور دین اللہ ہی لیے ہو گیا اور تم یہ چاہتے ہوئے کہ تم قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ مسلمانوں میں باہمی قتل و غارت پیدا ہو اور دین غیر اللہ کے لیے ہوجائے۔''
صحیح بخاری ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے آ کر کہا کہ آپ ہر سال حج و عمرہ تو کرتے ہیں لیکن اللہ کے رستے میں جہاد نہیں کرتے تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے کہا : ارکان اسلام پانچ ہی ہیں ۔ تو اس شخص نے کہا اللہ تعالیٰ نے تو یہ حکم دیا کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ اور اگر پھر ان میں کوئی ایک زیادتی کرے تو اس کے خلاف لڑو۔ تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے اسے وہی جواب دیا جو اوپر مذکور ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے بھی اسی اندیشے سے حکمرانوں سے قتال کو فتنہ قرار دیا تھا کہ اس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے باہمی قتل و غارت کے بڑھنے کے یقینی امکانات موجود تھے۔

دوسرا شبہ
ایک شبہ یہ بھی پیش کیاجاتا ہے کہ یا تو ہم دار الحرب میں ہیں یا دار الاسلام میں۔اب پاکستان دار الاسلام تو ہے نہیں کیونکہ یہاں طاغوتی نظام قائم ہے لہٰذا دار الحرب ہے۔ جب دار الحرب ہے تو قتال لازم ہے۔
دار الحرب اور دار الاسلام کی اصطلاحات فقہائے اسلام نے اپنے زمانے میں موجود متنوع ریاستوں کی ایک عرفی حیثیت واضح کرنے کے لیے وضع کی تھیں۔ آج ہم اپنے زمانے کے اعتبار سے متنوع جغرافیائی حدود کو مختلف نام دیں گے۔آج جس دنیا میں ہم آباد ہیں وہ امر واقعہ میں دارالحرب' دار الاسلام' دار الکفر' دار المسلمین' دار العہد' دار الصبر' دار الأمن اوردار الہجرت وغیرہ جیسی تقسیم رکھتی ہے۔ دار الحرب سے مراد وہ مسلمان ممالک ہیں جہاں کفار نے جبری قبضہ کر رکھا ہے اور مقامی مسلمان ان کفارکے خلاف جنگ کر رہے ہیں جیسا کہ عراق' افغانستان' کشمیر اور فلسطین وغیرہ ہیں۔ دار الاسلام سے مراد وہ علاقے ہیں کہ جہاں اللہ کی حاکمیت بالفعل نافذ ہو جیسا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی ریاست تھی یا پھر موجودہ سعودی عرب کسی درجے میں اس کی مثال بن سکتا ہے۔ دار الکفر سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں کفار کی اکثریت ہے اور اختیار واقتدار بھی انہی کے پاس ہو۔ دارلمسلمین سے مراد وہ ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے' مقتدر طبقہ بھی مسلمان ہے لیکن اسلامی نظام اپنی مکمل شکل میں بالفعل نافذ نہیں ہے جیسا کہ پاکستان' مصر' ترکی وغیرہ ہیں۔ دار العہد سے مراد وہ سیکولر یا کافر ریاستیں ہیں کہ جہاں مسلمان ایک اقلیت کے طور پرآباد ہیں اور ان کا ریاست سے یہ عہد ہے کہ وہ اس کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے اور جواباً ریاست بھی ان کے حقوق شہریت ادا کرے گی جیسا کہ انڈیا' امریکہ' برطانیہ اور یورپین ممالک میں بسنے والے مسلمان ہیں۔ اس سے مراد وہ سیکولر یا کافر ریاستیں بھی ہیں کہ جن کے ساتھ مسلمان ریاستوں نے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہو۔ دار الصبر سے مراد مسلمانوں کے وہ علاقے ہیں کہ جن پر کفار نے قبضہ کر لیا ہو اور وہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہو اور مسلمان اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ وہ کافر حکمرانوں سے جنگ کر سکیں جیسا کہ ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کا حال تھا۔ ان علاقوں میں حکمرانوں سے جنگ کی بجائے پر امن ذرائع سے آزادی کی کوششیں جاری رکھی جاتی ہے۔ دار الأمن سے مراد وہ ممالک ہیں جو کہ پوری دنیا میں امن و امان کے خواہاں ہیں اور کسی بھی قوم سے لڑائی نہیں چاہتے یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے اپنی فوج بھی نہیں بنائی مثلا سوئٹزر لینڈ اور جاپان وغیرہ۔ دار الہجرت سے مسلمانوں کے وہ علاقے مراد ہیں کہ جن کی طرف مسلمان اپنے علاقوں میں کفار کے ظلم سے تنگ آ کر ہجرت کریں جیسا کہ انڈیا اور افغانستان سے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی وغیرہ۔

تیسرا شبہ
ایک شبہ یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ افغانستان پر امریکہ کاحملہ ہوا۔ اب افغانیوں پرقتال فرض ہے۔ اگر وہ قتال کے لیے کافی نہ ہوں تو ساتھ والی ریاستوں کے باشندوں پر قتال فرض ہو جائے گا۔ اگر وہ بھی کفایت نہ کریں تو یہ فرض پھیلتے پھیلتے تمام امت مسلمہ کو شامل ہو جائے گا۔
جہاد وقتال فرض کفایہ ہے اور کوئی بھی فرض کفایہ اگرچہ امت کے بعض طبقوں کی حد تک فرض عین ہو بھی جاتا ہے لیکن تمام امت پر فرض عین کبھی بھی نہیں ہوتا۔ اس کی سادہ سی مثال نماز جنازہ ہے۔ مثلاً پشاورمیں کسی شخص کا انتقال ہو جاتا ہے اور اگر پشاور کے علماء یا مسلمان اس کا نماز جنازہ نہیں پڑھتے تواس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ افریقہ یا یورپ میں بیٹھا ہوا مسلمان بھی گناہ گار ہو گا اور یہ فرض عدم ادائیگی کی صورت میں پھیلتا پھیلتا امت کے تمام افراد پر فرض عین ہو جائے گا۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ فرض کفایہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں یہ فرض الأقرب فالأقرب کے اصول کے تحت امت میں آگے منتقل ہو گا لیکن اس منتقلی میں بنیادی شرط اس فرض کی ادائیگی کی اہلیت و اسباب ذرائع ہیں۔ اس لیے اگر افغانی امریکہ کے بالمقابل اپنے ملک کادفاع نہیں کر سکتے تو افغانستان کے ساتھ ملحقہ ریاستوں کے مقتدر طبقہ پر یہ جہاد وقتال فرض عین ہو گا نہ کہ عامة الناس پر' کیونکہ اس فرض کی ادائیگی کی اہلیت مقتدر طبقہ یا سیکورٹی فورسز میں ہے نہ کہ عوام کے پاس۔ ہم یہ بات پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ آج جہاد و قتال کی کامیابی کا دارومدار صرف عددی قوت پر منحصر نہیں ہے بلکہ ٹیکنالوجی اور جدید آلات حرب وضرب بھی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ جب عامة الناس کے پاس نہ تو جہاد کی اہلیت ہے اور نہ اس کے اسباب و ذرائع تو ان پریہ جہاد کیسے فرض عین ہو سکتا ہے ؟ سورة توبہ میں تو یہ ہے کہ اہلیت اور اسباب وذرائع نہ ہونے کے سبب سے غزوہ تبوک کے موقع پر صحابہ کی ایک جماعت کو اُس جہاد سے رخصت دے دی گئی کہ جس میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے قتال کے لئے نفیر عام تھی۔ اسباب و ذرائع سے مراد افغانستان' عراق یا کشمیر جانے کا کرایہ' کلاشنکوف یا ہینڈ گرنیڈ نہیں ہے بلکہ مراد وہ جنگی آلات اور سازوسامان ہے کہ جس کے ذریعے امریکہ' انڈیا یا اسرائیل کی شکست کاکم از کم امکان تو ہو۔ یہ اسباب و ذرائع کسی مسلمان ریاست کے پاس تو ہو سکتے ہیں لیکن عوام الناس کے پاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا صوفی محمد جب افغانستان میں ١٠ ہزار کا لشکر لے کر گئے تو انہیں واپس آنا پڑا کیونکہ طالبان افغانستان کو یہ جنگ جیتنے کے لیے معمولی تربیت یافتہ عددی قوت کی ضرورت نہیں تھی بلکہ جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت تھی اور ایسی عددی قوت تو ان کے لیے ایک بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔

جاری ہے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
قتال کی علت
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو احکامات دیے ہیں وہ علل(causes) پر مبنی ہوتے ہیں بعض اوقات ان احکامات کی علت(cause) خود شارع کی طرف سے نصوص میں بیان کر دی جاتی ہے جبکہ بعض اوقات فقہاء ان کو مسالک علت کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔ قتال کی جو علت قرآن میں بیان ہوئی ہے وہ ظلم ہے یعنی ظلم کے خاتمے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قتال کو مشروع قراردیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا)
'' اجازت دی گئی ان لوگوں کو (قتال کی) جو کہ قتال کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ان پر ظلم ہوا۔''
اس آیت میں'باء' تعلیلیہ ہے یعنی یہ اذن ِ قتال کی علت بیان کر رہا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ حکم قتال کی علت کفر یا شرک نہیں ہے اگرچہ قتال اصلاً مشرکین اور کفار سے ہی سے ہوتا ہے۔ کفار یا مشرکین سے قتال کا حکم اس لیے نہیں دیا گیا کہ وہ کافر یا مشرک ہیں یا اسلام کا مقصود دنیا کوکفار و مشرکین سے پاک کرنا ہے بلکہ کفار اور مشرکین سے قتال کے حکم کی بنیادی وجہ بھی ظلم ہی ہے کیونکہ جہاں جس قدر شرک اور کفر ہو گا وہاں اتنا ہی ظلم ہو گا۔ اس لیے کفار اور مشرکین سے قتال دراصل ظالمین سے قتال ہے کیونکہ ظلم اور کفر و شرک تقریباً لازم و ملزوم ہیں۔

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں قرآن میں کئی جگہ شرک کے لیے ظلم اور کفار کے لیے ظالمین کے الفاظ آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ا گر ظلم مسلمان بھی کرے تو اس سے بھی قتال ہو گا جیسا کہ ارشاد باری ہے :
(وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِنْمبَغَتْ اِحْدٰہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ)
''اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ اور اگر (صلح کے بعد) ان میں ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو تم سب اس سے قتال کرو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔''
اسی طرح اگر کافر' ظالم نہ ہو تو اس کے ساتھ قتال نہیں ہو گابلکہ ایسے کافروں کے ساتھ حسن سلوک بھی جائز ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
( لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ )
''اللہ تعالیٰ تمہیں ان کافروں سے حسن سلوک یا انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا کہ جنہوںنے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔''
لہٰذا قتال صرف ان کفار اور مشرکین سے ہے جوکہ ظلم کے مرتکب ہوں۔

اب ظلم کئی طرح کا ہوتا ہے۔ ایک ظلم وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی جان سے ہوتا ہے جیسا کسی شخص کا کافر یا مشرک ہونا بھی ایک ظلم ہے۔ لیکن ایسا ظلم جو کہ کسی انسان کے اپنے نفس تک محدود رہے اور متعدی نہ ہو تو اس ظلم کے خلاف جہاد وقتال نہیں ہے بلکہ اسلام ایسے ظلم کو برداشت کرتا ہے جیسا کہ یہود و نصاری کے صریح کفر و شرک کے باوجود اللہ نے انہیں زندہ رہنے کی اجازت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰب حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّد وَّہُمْ صَاغِرُوْن)
''تم یہود و نصاری سے قتال کرو جو کہ اللہ اور یوم ِآخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں ٹھہراتے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہو اور دین ِحق کو بطور دین اختیار نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔''
لیکن ایسا ظلم جو کہ متعدی ہویعنی جس کے اثرات صرف انسان کی اپنی ذات تک محدود نہ ہوں بلکہ عامة الناس بھی اس کے ظلم سے متاثر ہو رہے ہوں تو ایسے شخص کے خلاف جہاد وقتال ہو گا۔ قرآن و سنت کی نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک کافر یا مشرک کی حکومت اللہ تعالیٰ کبھی بھی برداشت نہیں کرتے کیونکہ جہاں بھی کافر یا مشرک کی حکومت ہو گی وہاں ظلم متعدی ہو گا اور عوام الناس اس ظلم سے متاثر ہوں گے اس لیے اہل کتاب کے انفرادی کفر وشرک کو برداشت کیا گیا ہے لیکن مذکورہ بالاآیت میں ان کی ذلت و رسوائی اور حکومت کے خاتمے کو قتال کی غایت وانتہا قرار دیا گیا ہے۔

یہاں اس آیت میں اعطائے جزیہ اور اہل کتاب کی ذلت کو قتال کی غایت قرار دیا ہے تو ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فتنے کے خاتمے اور اطاعت کا صرف اللہ ہی کے لیے ہو جانے کو قتال کا منتہائے مقصود بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
( وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَة وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہ لِلّٰہِ)
''اور ان (مشرکین) سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اطاعت) کل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔''
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اجتماعی کفر (یعنی کفر کی حکومت) اور اجتماعی شرک (یعنی شرک کی حکومت ) کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسی حکومت میں ہمیشہ ظلم ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی اور مقامات پر بھی ایسے کفار سے قتال کا حکم دیا ہے کہ جس کا ظلم متعدی ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا)
''(اے مسلمانو!) اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے رستے میں قتال نہیں کرتے جبکہ کمزور مرد اور عورتیں اور بچے یہ کہہ رہے ہیں :اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکا ل کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور تو ہمارے لیے اپنی طرف سے ایک ولی مقرر کر اور ہمارے لیے اپنی طرف سے ایک مددگار بنا۔''
ایک اور جگہ قرآن میں ایسے کفار سے دوستی اور حسن سلوک کر نے سے بھی منع فرمایا ہے کہ جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوْا عَلٰی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ )
''سوا اس کے نہیں اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے کہ جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے قتال کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر (تمہارے دشمنوں ) کی مدد کی۔''
اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیے ہیں انہیں فقہائے اسلام نے دو طرح سے تقسیم کیا ہے ایک حسن لذاتہ اور دوسراحسن لغیرہ۔ حسن لذاتہ سے مراد ایسے احکامات ہیں جو کہ فی نفسہ اسلام میں مطلوب ہیں جبکہ حسن لغیرہ ان احکامات کو کہتے ہیں جو فی نفسہ مطلوب نہ ہوں۔ اسلام نے لڑائی جھگڑے کو فی نفسہ ناپسند قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
((لا تتمنوا لقاء العدو وسلوا اللہ العافیة فاذا لقیتموھم فاصبروا)) -
'' دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے رہو۔ پس اگر تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو پھر ڈٹ جاؤ۔''

اسلام نے کچھ مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے قتال کو فرض قرار دیا ہے اور وہ ظلم کا خاتمہ اور عدل وانصاف کا بول بالا ہے لہٰذا قتال حسن لذاتہ نہیں ہے بلکہ حسن لغیرہ ہے ۔ظلم کے خاتمے کے لیے انسانوں کے قتل کو جائز قرار دیا گیا۔ اور بالفرض جس مقصد کے لیے جہاد و قتال کو جائز کہا گیا ہے اگر وہ مقصود ہی پور انہ ہو رہا ہو اور جہاد و قتال سے ظلم ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہو تو ہمارے نزدیک یہ جہاد و قتال جائز نہیں ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ جہاد و قتال ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہے نہ کہ ظلم بڑھانے کے لیے ۔ پس جہاد وقتال میں ان مقاصد شریعت کے حصول پر بھی بھرپور نظر رکھنی چاہیے کہ جن کے تحت اس عمل کو مشروع قرار دیا گیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
قتال کی غایت
قتال کی غایت یا منتہائے مقصود اُس فتنے 'عدم اطاعت' کفر' شرک یا زیادتی کا خاتمہ ہے کہ جس کا نتیجہ ظلم ہو۔ پس جہاد و قتال ہر ایسے فتنے' عدم اطاعت' کفر' شرک یا زیادتی کے ختم ہونے تک جاری رہے گا کہ جس سے دوسروں پر ظلم ہو رہا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
( وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَة وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ)
''اور ان (یعنی مشرکین)سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اطاعت) اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
( وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَة وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہ لِلّٰہِ)
''اور ان (یعنی مشرکین) سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اطاعت) کل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔''
اس آیت میں فتنے سے مرادکفار کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والا وہ تشدد اور ظلم ہے جو اہل ایمان کے ایمان کے لیے آزمائش بن جا تا ہے۔ جبکہ 'دین' کا بنیادی معنی اطاعت اور بدلہ ہے جیسا کہ امام راغب رحمہ اللہ نیبیان کیا ہے۔ اور یہاں پر دین سے مراد اجتماعی اور کلی اطاعت ہے کیونکہ انفرادی اور جزوی اطاعت میں تو مسلمان بھی بعض اوقات اللہ کی اطاعت نہیں کرتے ۔ اس لیے یہاں پر مراد اللہ تعالیٰ کی ایسی اطاعت ہے کہ جس کے عدم کی صورت میں کسی پر ظلم لازم آئے مثلاً اللہ کے نازل کردہ حدود کے نفاذ میں اس کی اطاعت کا نہ ہونا معاشرے میں ظلم کا سبب ہو گا۔ اس لیے حدود اللہ میں اللہ کی اطاعت تک امت مسلمہ پر کفار سے جہاد وقتال واجب رہے گا۔

لہٰذا ان آیات کامفہوم یہ ہے کہ قتال اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا سلسلہ جاری رہتا ہے یا جب تک کفار و مشرکین کو ہر اس معاملے میں مطیع و فرمانبردار نہ بنا لیا جائے کہ جس کے نہ ہونے کی صورت میں دوسروں پر ظلم و زیادتی ہو۔ ظاہری بات ہے کہ کفار و مشرکین کے اپنے عقیدے پر قائم رہنے یا اس کے مطابق عبادات کرنے سے کسی پر ظلم و زیادتی نہیں ہوتی لہٰذا ان سے اس معاملے میں اطاعت جبرا نہیں کروائی جائے گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ )
'' دین ( قبول کرنے میں ) میں کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے۔''
لیکن ریاست و حکومت کے انتظامی امور میں کفار و مشرکین کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے اور قتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ تمام کے تمام کفار و مشرکین اس دنیا وی نظام میں اللہ کے مطیع و فرمانبردار نہیں بن جاتے یعنی جب تک اللہ کے دین کا غلبہ تما م ادیان باطلہ پر نہیں ہو جاتا اس وقت تک قتال جاری رہے گا۔ اسی بات کو قرآن نے اس طرح بھی بیان کیاہے :
(قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ )
''تم یہود و نصاری سے قتال کرو جو کہ اللہ اور یوم ِآخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں ٹھہراتے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول e نے حرام ٹھہرایا ہو اور دین ِحق کو بطور دین اختیار نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔''
اور اسی بات کو ایک اور جگہ اس طرح بیان کیاہے :
(ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ)
''وہی اللہ تعالیٰ ہے کہ جس نے اپنے رسول کو بھیجا قرآن مجید اور دین حق دے کر تاکہ وہ اس کو تمام ادیان ( باطلہ ) پر غالب کردے اگرچہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔''

اور اسی بات کو اللہ کے رسول نے یوں بیان کیا ہے:
((أمرت أن أقاتل الناس حتی یشھدوا أن لا الہ الا اللہ وأن محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلاة ویؤتوا الزکوة فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ھم وأموالھم الا بحق الاسلام وحسابھم علی اللہ))
''مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کرو جب تک کہ وہ یہ اقرار نہ کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم نہ کریں اور زکوة ادا کریں پس جب وہ یہ کر لیں گے تو اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچا لیں گے سوائے اسلام کے حق کے' اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔''
اس حدیث مبارکہ میں 'الناس' سے مراد مشرکین ہیں کیونکہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کی ایک روایت میں ((أن أقاتل المشرکین)) کے الفاظ آئے ہیں۔قرآن میں سورة توبہ میں بھی یہ حکم ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
(فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر رَّحِیْم )
''پس تم مشرکین کو قتل کرو جہاں بھی ان کو پاؤ اور ان کو پکڑو اور ان کا گھیراؤ کرو اور ان کے لیے ہر گھات لگانے کی جگہ میں بیٹھو پس اگر وہ لوٹ آئیں (یعنی اپنے کفر سے اسلام کی طرف) اور نماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔''
قرآن کے اسی حکم کو اللہ کے رسول نے ((أمرت أن أقاتل الناس)) کے الفاظ سے بیان کیا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے۔ چونکہ اللہ کے رسول کی بعثت مشرکین عرب کی طرف خاص طور پر ہوئی تھی اس لیے ان کے معاملے میں یہود و نصاری اور دوسرے کفارکی نسبت زیادہ سختی کی گئی ہے اور ان کے لیے جزیہ کی صورت باقی نہیں رکھی گئی ۔ پس ان مشرکین کے لیے دو ہی صورتیں تھیں یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر قتال کے لیے تیار ہو جائیں یا تیسری صورت یہ تھی کہ حجاز کاعلاقہ چھوڑ کرکہیں اور منتقل ہوجائیں۔

یہ واضح رہے کہ قتال کی اس علت اور غایت کی بنیاد پر قتال اس وقت ہو گا جبکہ کوئی مسلمان ریاست یا اجتماعیت اُن اسباب و ذرائع اور استعداد و صلاحیت کی حامل ہو کہ جس کی طرف ہم سابقہ سطور میں بار باراشارہ کر چکے ہیں ۔ جب تک ہمارے پاس کفار سے جنگ کی استعداد و صلاحیت موجود نہیں ہے اس وقت اسلام کے پھیلانے کا منہج دعوت و تبلیغ ہے نہ کہ جہاد و قتال۔ اور کفار کے ظلم کا جواب صبرہے نہ کہ جنگ و جدال۔ کسی بھی معاشرے میں اسلام کے نفوذ کے لیے مسلمانوں کو حالات کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو منہج دیے گئے ہیں:
١۔ دعوت و تبلیغ اور صبر ومصابرت
٢۔ جہاد و قتال اور ظلم وستم کا خاتمہ ونظام عدل کا قیام
دونوں مناہج کے مطابق اللہ کے رسول نے مختلف حالات میں کام کیا ہے اور اب بھی جیسے حالات ہوں گے ویسا ہی منہج اختیار کیا جائے گا۔ یہ کہنا کہ دعوت و تبلیغ اور صبر ومصابرت کا منہج منسوخ ہو چکا ہے' ایک غلط دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل شریعت اسلامیہ میں موجود نہیں ہے۔ دعوت و تبلیغ اور صبر و مصابرت سے متعلق قرآن کی سینکڑوں آیات کو بغیر کسی دلیل کے منسو خ قرار دینا سوائے ناواقفیت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ امام زرکشی نے 'البرھان' میں ناسخ و منسوخ کی بحث کے تحت اس موضوع پر عمد ہ کلا م کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسلام کے یہ دونوں مناہج تاحال برقرار ہیں اور حالات کے تحت کسی بھی منہج کو اختیار کیاجا سکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے 'الفوز الکبیر' میں قرآن کی صرف پانچ آیات کو منسوخ قرار دیاہے اور یہی رائے راجح اور صحیح ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top