معاصر جہاد :ایک تجزیاتی مطالعہ
جہاد کشمیر
کشمیر میں بہت سی جہادی تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں حزب المجاہدین'جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ' حرکة الانصار' تحریک جہاد ' جمعیت المجاہدین' الجہاد' تحریک المجاہدین' العمر مجاہدین' مسلم جانباز فورس ' حزب اللہ ' الفتح ' حزب المؤمنین اور جموں و کشمیر اسلامک فرنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ١٣ عسکری جماعتیں متحدہ جہاد کونسل کی ممبربھی ہیں کہ جس کہ بنیاد ١٩٩٠ء میں رکھی گئی' متحدہ جہاد کونسل کا ہیڈ کوارٹر مظفرآباد میں ہے۔ ان عسکری تناظیم کے علاوہ لشکر طیبہ' جیش محمد اور البدر بھی معروف جماعتیں ہیں۔
جہاد کشمیرکے بارے میں صحیح موقف یہی ہے کہ یہ جہاد فرض ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مظلوم مسلمانوں کے لیے جہاد و قتال کو امت مسلمہ پر فرض قرار دیا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
(وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا)
''اور اے مسلمانو!تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے رستے میں قتال کیوں نہیں کرتے جبکہ کمزور مرد' عورتیں اور بچے کہہ رہے ہیں: اے ہمارے رب!ہمیں اس بستی سے نکال کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی ولی یا مددگار مقرر فرما۔''
کشمیر کا جہاد فرض ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس پرفرض ہے ؟ اس بارے کئی ایک موقف موجود ہیں:
ایک موقف کے مطابق کشمیر کا جہاد حکومت پاکستان اور ریاستی افواج پر فرض ہے جو اس کی کامل استطاعت واہلیت بھی رکھتے ہیں اور اس کے ذمہ داربھی ہیں جبکہ پاکستانی عوام پر یہ جہاد فرض عین نہیں ہے۔ اس بارے عامة الناس کا فرض یہی ہے کہ وہ اُس جماعت کو جہاد و قتال پر آمادہ کریں جو کہ اس کی استطاعت و اہلیت رکھتی ہے۔ عوام الناس کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا ٹیکس اسی لیے ادا کرتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز عوام اور ملکی جغرافیائی حدود کی حفاظت کریں ۔ پس اس موقف کے مطابق کشمیر کا جہاد اصلاً ریاستی افواج کی ذمہ داری ہے اور اگر اس میں مجاہدین کی معاونت بھی شامل ہو جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔ پاکستان کے قیام کے فورا بعد افواج پاکستان کے ساتھ مل کر جب مجاہدین نے کاروائیاں کیں تو موجودہ آزاد کشمیر ہمیں حاصل ہوا اور اس کی تازہ ترین مثال کارگل کی جنگ ہے جو افواج اور مجاہدین کے باہمی تعاون کی وجہ سے تقریباً جیتی جا چکی ہے۔ لہٰذاکشمیر کی آزادی کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ اس محاذ پر پاکستانی افواج لڑیں جو اس خطہ ارضی کو دشمن کے پنجہ سے آزاد کرانے کی استطاعت و صلاحیت بھی رکھتی ہیں اور ان کی بنیادی ذمہ داری بھی یہی ہے اور اسی کی وہ تنخواہ بھی لیتی ہیں۔ اس موقف کے مطابق کشمیر میں عوامی جہادی تحریکوں کی جدوجہد سے انڈیا کو کچھ جانی و مالی نقصا ن تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن وہاں کوئی اسلامی ریاست قائم نہیں کی جاسکتی جس کے اسباب درج ذیل ہیں:
١۔ بلاشبہ کشمیر میں اس وقت جس قدر جہاد و قتال ہو رہا ہے وہ سیکورٹی فورسز اور ایجنسیوں کے کسی درجہ میں تعاون سے ہی ہو رہا ہے ۔ اس تعاون کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ فوائد کا پہلو تو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں جبکہ نقصان یہ ہے کہ اس تعاون کی صورت میں اصل مقاصد ایجنسیوں کے پورے ہوتے ہیں نہ کہ جہادی تحریکوں کے۔ اگر تو دونوں کے مقاصد متفق ہو جائیں تو فبہا بصورت دیگر قربانیاں مجاہدین دیتے ہیں اور نتائج ایجنسیوں کے مرضی کے حاصل ہوتے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جہادی تحریکوں کی گوریلا کاروائیوں کے سبب سے انڈیا کی تقریباً آٹھ سے دس لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں مصروف عمل ہے۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو انڈیا کی یہ اضافی فورسز کہاں جائیں گی؟ صاف ظاہر ہے یہ پاکستان کے بقیہ باڈرز پر جنگی مشقیں کر کے ہمارے مقتدر طبقہ کی رات کی نیندیں حرام کر دیں گی۔ دوسرا فائدہ سیکولر ذہن رکھنے والے مقتدر طبقہ کو یہ بھی حاصل ہے کہ پاکستان میں جس قدر مذہبی جوش و جذبہ موجود ہے اس کو کشمیر وغیرہ میں استعمال کیا جائے تاکہ نوجوانوں کی ایمانی قوت اور تحریک کا کوئی مثبت یا دعوتی استعمال پاکستان میں نہ ہو۔ وہی مجاہدین جو کشمیر میں قربانیاں پیش کر رہے ہیں اگر پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی پرامن جدوجہد شروع کر دیں تو اس صورت میں پاکستان کے حکمرانوں کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ سوات میں مولانا صوفی محمد صاحب کی 'تحریک نفاذ شریعت محمدی' اس کی بہترین مثال ہے کہ جب اس تحریک کے ہزاروں کارکنان امریکہ کے خلاف جہاد کے لیے افغانستان گئے تو انہیں ریاست وحکومت کی خاموش حمایت حاصل تھی لیکن جب انہوں نے بذریعہ احتجاج مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا تو انہیں تصویر عبرت بنا دیا گیا۔
صورت حال یہ ہے کہ کشمیر کی جہادی تحرکیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ ایجنسیوں کو استعمال کر رہی ہیں اور ایجنسیوں کا یقین یہ ہے کہ جہادی تحریکیں ان کی آلہ کار ہیں ۔ جہادِ کشمیرکا ایجنسیوں پر انحصار جہاں کچھ فوائد کا حامل ہے وہاں کچھ بڑے نقصانات کا سبب بھی ہے۔ مثلاً کارگل کے محاذ پر امریکہ کے حکم پر جب پاکستانی افواج نے پسپائی اختیار کی تو مجبورا مجاہدین کو بھی ایسا کرنا پڑا اور بڑے پیمانے پر نہ صرف جانی ومالی نقصان ہوبلکہ مجاہدین کے تعاون سے جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہو گئی۔
٢۔ کشمیر کی جہادی تحریکوں ایک قابل اعتراض پہلو ان کے باہمی مسلکی اور قیادت کے اختلافات بھی ہیں جو شاید امن کے حالات میں تو چل جائیں لیکن میدان جنگ میں ان کا نتیجہ سوائے دشمن کو تقویت پہنچانے کے اور کچھ نہیں ہے۔
جو لوگ بھی 'جیش محمد' اور 'لشکر طیبہ' کی عسکری تربیت کے نظام سے گزرے ہیں وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان جماعتوں کے معسکرات میں عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ مسلکی تعصب کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ دونوں مکاتب فکرکے معسکرات میں تقاریر و دروس کے ذریعے احسن طریقے سے ایک دوسرے کے مسلک کا رد کیا جاتا ہے۔ اوراب تو صورت حال یہ ہے کہ ایک ہی مسلک کی دوجہادی تنظیموں کے درمیان بھی اتفاق نہیں ہے۔ 'تحریک طالبان پاکستان' اور 'لشکر طیبہ' میں بھی اس وقت شدید باہمی تناؤ کی کیفیت سے گزر رہی ہیں کیونکہ مقدم الذکر جہادی تحریک پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف جہاد کر رہی ہے تو مؤخر الذکر ان کے تعاون سے جہاد کر رہی ہے۔ اللہ نہ کرے لیکن امکان موجود ہے کہ یہ تناؤ جہادی تحریکوں کے مابین کسی بگاڑ کا باعث نہ بن جائے۔
٣۔ ہم یہاں یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی معروف جہادی تحریکوں کا ایک مختصر تاریخی پس منظر قارئین کے سامنے رکھیں۔ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے ١٩٨٠ء میں افغان جہاد کے دوران
'حرکة الجہاد الاسلامی' نامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ ١٩٨٥ء میں بعض اختلافات کی بنیاد پر اس تحریک سے کچھ مجاہدین الگ ہوئے اور انہوں نے
'حرکة المجاہدین' کے نام سے اپنی ایک الگ تنظیم بنا لی ۔١٩٨٩ء میں
'حرکة المجاہدین' کے مجاہدین سوویت یونین کی جنگ ختم ہونے کے بعد کشمیر میں داخل ہوئے۔
١٩٩٣ء میں مولانا مسعود اظہر کی کوششوں سے
'حرکة الجہاد الاسلامی' اور
'حرکة المجاہدین' میں اتحاد ہو گیا اور اس جماعت کا نیا نام
'حرکة الاأنصار' رکھا گیااور اسی سال مولانا سری نگر میں انڈین فورسز کی قید میں چلے گئے۔ ١٩٩٧ء میں امریکہ نے اس جماعت کو دہشت گرد جماعت قرار دیا جس کی وجہ سے اس کا نام دوبارہ تبدیل کر کے
'حرکة المجاہدین' رکھا گیا۔
١٩٩٩ء میں انڈیا کے ایک مسافر طیارے کے اغواء کیس میں مولانا مسعود اظہر کی رہائی ممکن ہوئی تو انہوں نے ٢٠٠٠ء میں ایک نئی جہادی تحریک 'جیش محمد'کی بنیاد رکھی ۔
'حرکة المجاہدین' کے بہت سارے کارکن مولانا کی اس جماعت میں شامل ہوگئے ۔
'حرکة الجہاد الاسلامی' سے لے کر 'جیش محمد' تک اور اس کے علاوہ بھی دیوبندی مکتب فکر کی اکثر و بیشتر جہادی تحریکوں میں ایسے افکار موجود ہیں کہ جن کے مطابق حربی کفارکے ساتھ عام کافر شہریوں کو قتل کرنا بھی جائز ہے ۔ علاوہ ازیں یہ جماعتیں پاکستانی حکمرانوں اور افواج پر امریکہ کی حمایت کی وجہ سے کفر کا فتوی لگاتی ہیں اور ان کے ساتھ قتال کو واجب قرار دیتی ہیں جس کا عملی مظاہرہ ہم سوات وغیرہ میں مولانا فضل اللہ کی تحریک کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔
دوسری طرف١٩٩٠ء میں اہل حدیث مکتبہ فکر کی طرف سے افغانستان میں 'لشکر طیبہ' کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ پاکستان میں موجود اہل حدیث کی معروف تحریک 'جماعة الدعوة' کا ایک عسکری شعبہ ہے۔٢٠٠٠ء کے دوران پاکستانی ایجنسیوں نے'حرکة المجاہدین' کے انتہائی نظریات کی وجہ سے اس سے ہاتھ کھینچنا شروع کر دیے اور 'جیش محمد' اور 'لشکر طیبہ' کو باقاعدہ پلاننگ کے تحت آگے لایا گیا۔ ٢٠٠٣ ء میں'جیش محمد' کو بھی امریکہ کے دباؤ پر بین کر دیا گیا۔ 'لشکر طیبہ' پر پابندی لگانے کے لیے بھی حکومت پاکستان پر امریکہ کی طرف سے کافی دباؤ ڈالا گیا لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے بظاہر اگرچہ اس جماعت کے ساتھ تعاون میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن تاحال اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی جس کی اصل وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ 'لشکر طیبہ' اور ایجنسیوں کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا تاحال قائم ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لشکر طیبہ کی قیادت کے برعکس ان کے بعض مجاہدین کا اعتماد اب ایجنسیوں سے اٹھ گیا ہے اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف ہونے والے قتال میں لشکر سے علیحدہ ہونے والے مجاہدین کی بھی ایک جماعت شامل ہے کہ جن کا لٹریچر اور ویڈیوز کثرت سے دستیاب ہیں۔ اگرچہ 'جماعة الدعوة کی قیادت اس حقیقت کو کسی طور بھی تسلیم نہیں کرے گی لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز یا سابقہ فوجی حکمرانوں کے بارے اس جماعت کے حد درجہ نرم رویے کی وجہ سے اس وقت عام جہادی وتحریکی عناصر میں ان کی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے گر رہا ہے۔
٤۔ اگرمقبوضہ کشمیر آزاد ہوجائے' اور اللہ کرے گا کہ ہو جا ئے گا' تو مستقبل کے کشمیر کی تین صورتیں بنتی ہیں:
ایک یہ کہ اس کا الحاق ایک آزاد ریاست کے طور پر انڈیا سے ہو جائے جو کہ ناممکن اور ناقابل عمل صورت ہے۔
دوسرا یہ کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا ایک صوبہ بن جائے۔ یہ صورت حال بھی کوئی آئیڈیل نہیں ہے کیونکہ تمام جہادی تحریکوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں موجود نظام طاغوتی ہے لہٰذا کیا مجاہدین کی شہادتوں اور قربانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک اور خطہ ارضی میں طاغوتی نظام قائم ہو جائے ؟
تیسری صورت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک آزاد مسلمان ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرے۔ اس صورت میں بھی غالب امکان یہی ہے کہ کشمیر میں بر سر پیکارسیاسی ' سماجی اور جہادی تنظیموں کے باہمی قیادت و سیادت کے اختلافات کا بہانہ بنا کر امریکہ یہاں قبضہ کر لے۔امریکہ کے لیے اس وقت کشمیر جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے بہترین سرزمین ہے کیونکہ اس کی سرحدیں تین ایٹمی طاقتوں چین' انڈیا اور پاکستان سے ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ کے بدترین مخالفین روس اور ایران بھی اس علاقے میں ہیں۔لہٰذا انڈیا سے آزادی کی صورت میں کشمیر کے لیے ایک خود مختار آزاد ریاست کے طور پر زندہ رہنا ایک مشکل ہی نہیں ناممکن امر محسوس ہوتا ہے ۔
٥۔ اگر تیسرے آپشن پر مزید بحث بڑھائی جائے کہ کشمیر' انڈیا سے آزاد ہونے کے بعد ایک خود مختار آزاد ریاست کے طور پر قائم رہ سکتا ہے جیسا کہ دنیا میں اس طرح کی اور بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی موجود ہیں مثلاً کویت وغیرہ۔ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چھوٹی سی آزاد مسلم ریاست کا حکمران کون ہو گا؟ کشمیری عوام کی ترجمان سیاسی 'سماجی اور مذہبی تنظیمیں یا غیر کشمیری جہادی تحریکیں؟
صرف آل پارٹیز حریت کانفرنس تقریباً٣٠ سیاسی و سماجی تنظیموں پر مشتمل ہے جو کشمیرکی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں مسلم کانفرنس' تحریک حریت ' کشمیری جمعیت علمائے اسلام' عوامی کانفرنس' جماعت اسلامی' اتحاد المسلمین' جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(یسین ملک)' عوامی لیگ' آزادی کونسل' جموں و کشمیر عوامی کانفرنس' عوامی ایکشن کمیٹی' انجمن تبلیغ اسلام' جمعیت اہل حدیث' جمعیت حمدانیہ' کشمیر بار ایسوسی ایشن' کشمیر بزم توحید' تحریک حریت کشمیری' سیاسی کانفرنس' جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیٹی' سٹوڈنٹ اسلامک لیگ' دختران ملت اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(امان اللہ خان) وغیرہ ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ ان سیاسی ' سماجی اور مذہبی تنظیموں کااصل منشورانڈیا کے مظالم سے کشمیری عوام کی آزادی ہے نہ کہ کسی اسلامی ریاست کا قیام۔ اگر تو جہادی تحریکوں کا منشور بھی وہی ہے جو کہ ان سیاسی و سماجی کشمیری تنظیموں کا ہے تو فبہا لیکن اس صورت میں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے موقف میں اس بات کو اچھی طرح واضح کریں کہ وہ کسی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ ان کا مقصد محض کشمیری عوام کی آزادی ہے۔اور اگر جہادی تحریکیں یہ موقف اپناتی ہیں کہ کشمیر میں اسلامی ریاست کے قیام یا نفاذ شریعت کے لیے لڑ رہی ہیں تو پھر ان کے پاس اس سوال کا جواب کیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کے عوام اور ان کی مقامی سیاسی تنظیموں کو کشمیر میں اقتدارکا حق حاصل ہے یا غیر ملکی مجاہدین کو ؟( اگر تو کشمیر علیحدہ ریاست بنے گا تو اس صورت میں پاکستانی مجاہدین کشمیریوں کے لیے غیر ملکی ہوں گے)۔
اگر ایسی صورت حال ہو کہ کشمیر اپنی آزادی کے بعد ایک آزاد خود مختار ریاست ہو اوربالفرض کشمیر کی آزادی کے بعد اس کی تمام مقامی سیاسی' سماجی اورمذہبی جماعتیں مجاہدین کے حق میں اقتدار سے دست بردار ہو جاتی ہیں تو ھر بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کشمیر میں کون سی عسکری تنظیم اپنا اقتدار قائم کرے گی؟ اس وقت کشمیر میں تقریباً سترہ عسکری تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن میں سے بعض مقامی مجاہدین پر مشتمل ہیں مثلاً حزب المجاہدین وغیرہ ۔ ١٩٩٦ء کی بات ہے کہ راقم الحروف اٹک کالج میں ایف۔ ایس۔ سی کا طالب علم تھا کہ اس دوران کالج میں 'حزب المجاہدین' کے ایک سپریم کمانڈر کی تقریر سننے کا موقع ملا۔ خطاب کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک طالب علم نے یہی سوال اٹھایا کہ کشمیر میں اس وقت چودہ عسکری جماعتیں کام کر رہی ہیں تو کشمیر کی آزادی کے بعد کشمیر پر حکومت کون سی جماعت کرے گی اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ جماعتیں افغان جہاد کی طرح روس کو شکست دینے کے بعد آپس میں نہیں لڑیں گی؟ تو ان کمانڈر صاحب کا جواب یہ تھا کہ ہم نے کشمیر کے چودہ حصے بنا رکھے ہیں جن کو ہم آپس میں بانٹ لیں گے لہٰذا آپ حضرات اطمینان رکھیں کشمیر میں افغانستان جیسی خانہ جنگی پیدا ہونے کا ذرا برابر بھی امکان نہیں ہے۔
فیا للعجب!
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کوئی جہادی تحریک اٹھتی ہے تو وہ خلوص' تقوی اور للہیت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور تاحال جو افراد بھی کشمیر' افغانستان' عراق اور سوات کی جنگ میں اعلائے کلمة اللہ کے لیے قتل ہوئے' ہماری نظر میں وہ شہید ہیں اور عند اللہ ماجور ہیں۔
لیکن ہماری بحث یہ ہے کہ کیا ہمیں آنکھیں بند کر کے اور نتائج سے غافل ہو کر اتنی قربانیاں دیتے رہنا چاہیے یا پھر ہمیں مکالمہ ومباحثہ کے ساتھ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہوئے اپنے منہج کو درست کرنا چاہیے۔ کیا ہمیں اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ ہم دروازہ کھولنے کے لیے زور لگا رہے ہیں لیکن یہ زور اس رخ پر ہے کہ جس رخ پر دروازہ بند ہوتا ہے۔
ہم یہ نہیں کہہ رہے اور نہ کہنا چاہتے ہیں کہ جہاد ترک کر دیں۔ جہاد تو مسلمان پر ہر حال میں فرض ہے۔ ہماری بحث یہ ہے کہ ہمیں اپنے جہاد کے رخ کو صحیح سمت ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاد ہونا چاہیے' اس میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن کیسے اور کس رخ پر؟ اس میں ہمارا اختلاف ہے ۔ ہمارے نزدیک عصرحاضر میں جہاد کا صحیح منہج اور رخ کیا ہے؟ وہ ہم نے اس کتاب کے آخری باب میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اسے ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ریاستی سطح پر جہاد ہو۔کشمیر ہو یا افغانستان' عراق ہو یا فلسطین' اگرمسلمان ریاستیں اعلانیہ جہاد کرتیں تو آج ان مقبوضہ علاقوں میں ہمیں کسی قسم کا ظلم و ستم نظر نہ آتا۔ جن کے جہاد سے امت مسلمہ کے مسائل کا حل ممکن ہے انہیں تو اس طرف توجہ نہیں دلائی جاتی بلکہ سا را زور اس بات پر صرف ہوتاہے کہ عامة الناس پر کسی نہ کسی طرح اس کو فرض عین قرار دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج دنیا میں تقریباً تمام مسلمان ریاستوں میں کرپٹ اور ظالم حکمران مسلط ہیں ۔ اگرکوئی شخص ذاتی طور یہ محسوس کرتا ہے کہ مقتول کے ورثا کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا اور قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں لہٰذا اسے قاتل کو اپنے طور پر قتل کر دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے مظلوم بھائی کی مدد کر سکے تو ہم اسے یہی مشورہ دیں گے کہ تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے تمہارے کرنے کااصل کام خود سے شریعت کا نفاذ نہیں ہے بلکہ اسے شریعت کے نفاذ پر مجبور کرنا ہے جس کے پاس اس کے نفاذ کی قوت اور اہلیت ہے۔ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی ہے' لہٰذا ایسی صورت حال میں ہمارا جہاد حکمران کے فریضے کو اپنے ہاتھ میں لینا نہیں ہے بلکہ حکمران کو اس فریضے کی ادائیگی پر مجبور کرنا ہے۔
ہم جہادی تربیت کے بھی قائل ہیں ۔ہم ہر مسلمان کے لیے یہ لازم سمجھتے ہیں کہ وہ عسکری ٹریننگ حاصل کرے لیکن ہمارے خیال میں یہ کام ریاست کی سطح پر ہو تو اس کے بہت اچھے نتائج حاصل ہوں گے جیسا کہ ہمارے زمانہ طالب علمی میں باقاعدہ انٹر میڈیٹ کی سطح پر این سی سی (N.C.C.) ہوتی تھی ۔جہادی تحریکوں اور عوام الناس کو چاہیے کہ وہ حکومت پاکستان کو توجہ دلائیں کہ اس عسکری تربیت کو دوبارہ جاری کر تے ہوئے کالج کی سطح پر ہر طالب علم کے لیے لازم کر دیا جائے جیسا کہ اسرائیل اور دوسرے مغربی ممالک اپنے ہر شہری کو عسکری تربیت فراہم کرتے ہیں۔ بعض غیر مسلم ممالک 'شہری دفاع' کے نام پر ریاست کی سطح پر عوام کو جنگی تربیت فراہم کر تے ہیں لہٰذایہ کوئی ناممکن العمل منصوبہ نہیں ہے۔
٦۔ جہاد کشمیر کے بارے میں عوام الناس کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اس جماعت کو جہاد کی ادائیگی پر بذریعہ تقریر' تحریر' میڈیا' پریس'قانونی' آئینی ' سیاسی اور انقلابی جدوجہد آمادہ کریں کہ جس پر یہ فرض ہے اور جو اس کی صلاحیت و اہلیت رکھتی ہے اور وہ بلاشبہ ریاست پاکستان ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
( یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَة یَّغْلِبُوْا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْم لاَّ یَفْقَہُوْنَ (٦٥) اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَة صَابِرَة یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْف یَّغْلِبُوْا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (٦٦)) !
اے نبی ! اہل ایمان کو قتال پر ابھاریں۔ اگر تم میں بیس ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں ایک سو ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں پرغالب آئیں گے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو کہ سمجھتے نہیں ہیں۔اب اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تخفیف کر دی ہے کہ اگر تم میں ایک سو ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو وہ دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے۔ ''
ان آیات کے مطابق کسی اسلامی ریاست پر اقدامی قتال اس وقت فرض ہوتا ہے جبکہ اس کی قوت ' دشمن کی قوت سے نصف ہو۔ امام قرطبی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
''قلت: وحدیث ابن عباس یدل علی أن ذلک فرض.ثم لما شق علیھم حط الفرض الی ثبوت الواحد للاثنین' فخف عنھم وکتب علیھم ألا یفر مائة من مائتین' فھو علی ھذا القول تخفیف لا نسخ وھذا حسن.''
'' میں یہ کہتا ہوں: حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث اس طرف رہنمائی کر رہی ہے کہ پہلا حکم مسلمانوں پر فرض تھا پھر جب اس حکم کی فرضیت ان کو بھاری محسوس ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرضیت میں تخفیف کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا کہ اگر ایک دو کی نسبت ہو تو پھر اس کی فرضیت باقی ہے اور اس سے کم ہو تو ساقط ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے ان سے تخفیف کر دی اور ان پر یہ فرض کر دیا کہ دو سو کے مقابلے میں ایک سو میدان جنگ سے نہ بھاگیں۔اس قول کے مطابق یہ حکم تخفیف کا ہے نہ کہ نسخ کا' اور یہ قول بہترین ہے۔''
اللہ کے رسول کے دور میں قوت میں تعداد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی لہٰذا اس کا تذکرہ آیت میں کر دیا گیاہے جبکہ آج کل قوت میں صرف تعداد داخل نہیں ہے۔ پس اگر کسی مسلمان ریاست کے پاس دشمن کے مقابلے میں نصف قوت موجود ہو تو اس پر اقدامی جہاد فرض ہو گا اور اگر نصف سے کم قوت ہو تو پھر جہاد کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں یعنی یہ مستحب بھی ہو سکتا ہے او ر حرام بھی ۔امام ابن قیم لکھتے ہیں:
''انکار المنکر أربع درجات الأولی أن یزول ویخلفہ ضدہ الثانیة أن یقل وان لم یزل بجملتہ الثالثة أن یخلفہ ما ھو مثلہ الرابعة أن یخلفہ ما ھو شر منہ فالدرجتان الأولتان مشروعتان والثالثة موضع اجتہاد والرابعة محرمة.''
''انکار منکر کے چار درجات ہیں پہلا درجہ وہ ہے کہ جس سے منکر ختم ہو جائے اور اسکی جگہ معروف قائم ہو جائے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر کم ہو جائے اگرچہ مکمل ختم نہ ہو۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ منکر تو ختم ہو جائے لیکن اس کی جگہ ایک ویسا ہی منکر اور آ جائے اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ اس منکر کے خاتمے کے بعد اس سے بھی بڑا اور بدترین منکر آ جائے ۔پس پہلے دو درجے مشروع ہیں جبکہ تیسرا درجہ اجتہاد کا میدان ہے اور چوتھا درجہ حرام ہے ۔''
جہاں تک دفاعی جہاد کا معاملہ ہے تو وہ تو جب تک دفاع کی استطاعت اور طاقت ہے' ہو گا' چاہے فریقین کی نسبت کچھ بھی ہو کیونکہ یہی فطری امر ہے کہ ہر شخص اپنے جان ومال کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ اور اگر دفاع کی قدرت اور اہلیت باقی نہ رہے تو پھر صبر محض ہے ۔