میں جواب کا منتظر ہوں باغی والی حدیث کا-
آپ کی پیش کردہ حدیث بخاری شریف میں اس مضمون وسند کے ساتھ ہے:
صحيح البخاري، الإصدار 2.03 - للإمام البخاري
الجزء الأول >> 11 - أبواب المساجد. >> 30 - باب: التعاون في بناء المسجد.
436 - حدثنا مسدد قال: حدثنا عبد العزيز بن مختار قال: حدثنا خالد الحذاء،
عن عكرمة: قال لي ابن عباس ولابنه علي: انطلقا إلى أبي سعيد، فاسمعا من حديثه، فانطلقنا، فإذا هو في حائط يصلحه، فأخذ رداءه فاحتبى، ثم أنشأ يحدثنا، حتى أتى ذكر بناء المسجد، فقال: كنا نحمل لبنة لبنة، وعمار لبنتين لبنتين، فرآه النبي صلى الله عليه وسلم، فينفض التراب عنه، ويقول: (ويح عمار، تقتله الفئة الباغية، يدعوهم إلى الجنة، ويدعونه إلى النار). قال: يقول عمار: أعوذ بالله من الفتن.
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا 'کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے،انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علی سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو ۔ہم گئے دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کررہے تھے ۔ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے ۔پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے ۔جب مسجد نبوی بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو (مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت )ایک ایک اینٹ اٹھاتے ۔لیکن عمار دواینٹیں اٹھارہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تےتو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا 'افسوس !عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی ۔جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہوگی ۔ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
اس سے قبل کے ہم کوئی تبصرہ کریں امام اہل السنۃ والجماعۃ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول یہاں پیش کرتے ہیں:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس حدیث (
تقتلک الفئۃ الباغیۃ)کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : میں اس کے متعلق گفتگو نہیں کروں گا ۔ اسے چھوڑ دینا ہی سلامتی کا ذریعہ ہے اور آپ نے فرمایا : حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق انہیں باغی گروہ نے قتل کیا اور خاموش ہوگئے (السنۃ للخلال ص ۴۶۳،۷۲۲)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جمہور اہل السنۃ ان لوگوں کے برحق ہونے کے قائل ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ جو لوگ حضرت علی کے خلاف لڑے وہ باغی تھے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس موقف پر بھی متفق ہیں کہ ان میں سے کسی کی مذمت نہ کی جائے ، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اجتہاد کیا اور غلطی کھابیٹھے ۔(فتح الباری : ۷۲/۱۳)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اہل السنۃ اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام کے باہمی تنازعات کی بنا پر کسی صحابی پر زبان درازی یا نکتہ چینی کرنا منع ہے خواہ یہ پتہ بھی چل جائے کہ ان میں فلاں گروہ حق پر ہے ، کیونکہ وہ اجتہاد کی بنا پر لڑے تھے (فتح الباری : ۳۷/۱۳) یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں اسے باغی گروہ نے قتل کیا ہو جس نے حضرت عثمان کو شہید کیا اور حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صلح کو سبو تاژ کرنے کےلیے رات کی تاریکی میں تیر برسائے تھے ۔
امام طبری رحمہ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں کے مذہب کو مضبوط قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
''اگر مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کے اختلاف کے وقت گھروں میں دبک جانا واجب ہوتا ،تو نہ کوئی حد قائم کی جاتی اور نہ کسی باطل کو روکا جاسکتا تھا اور فاسقوں کو محرمات کے ارتکاب کے لیے کھلا راستہ مل جاتا۔(فتح الباری :۳۷/۱۳)
آئینہ ایام تاریخ کے مصنف لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں یہ بات اس وقت صحیح ہے جب معاملہ واضح اور آشکارا ہو لیکن جب صورتحال مشتبہ ہو تو اس وقت فتنوں سے دور رہنا ہی واجب ہے اور اسی وجہ سے بہت سے لوگ اس معرکہ میں شرکت سے باز رہے ۔لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم اسی موقف پر ایمان رکھیں کہ حضرت طلحہ اور زبیر اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم ، اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان حضرات کے طرفدار محض اجتہاد کی بنا پر لڑے کیونکہ صورتحال بڑی پر فتن تھی اور خاص طور پر معرکہ جمل کے لیے کوئی تیار نہ تھا اور نہ ہی وہ لڑنا چاہتے تھے ۔
امام ابن حزم اور امام ابن تیمیہ رحمہمااللہ نے اس مسئلہ پر جمہور علمائے امت سے نقل کیا ہے کہ اس پر بحث ہی نہ کی جائے ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر کوئی کہنے والا کہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس لڑائی میں پہل کی تو اسے جواب دیا جائے گا کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اور ان کی اطاعت سے انکار کرنے میں پہلو تہی کی اور آپ کو حضرت عثمان کے قتل میں شریک اور ظالم ٹھہرایا اور ان کے متعلق جھوٹی شہادت قبول کی ۔ کیونکہ اہل شام میں یہ بات مشہور کردی گئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل عثمان پر راضی تھے ۔اور اہل شام کے ہاں یہ جھوٹی شہادت مندرجہ ذیل چار وجوہات کی بناء پر سند قبولیت حاصل کرگئی تھی۔
۱۔ امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے انتقام نہ لینا۔
۲۔ جنگ جمل۔
۳۔ مدینہ منورہ کو چھوڑ کر کوفہ کو دارالخلافہ بنانا ،جبکہ کوفہ ، قاتلان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی چھاؤنی تھا۔
۴۔ حضرت علی رضی اللہ کے لشکر میں ان لوگوں کا موجود ہونا جو قتل سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ میں ملوث تھے ۔
مذکورہ بالا چار وجوہات کی بناء پر شام کے (ان پڑھ) عوام کو شک ہوگیا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہے ۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کے قتل میں کوئی ہاتھ نہ تھا، بلکہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ پر لعنت کرتے تھے ۔
اگر کہا جائے کہ صرف اتنی بات پر (شامیوں کے خلاف )لشکر کشی جائز نہ تھی (بلکہ ان کی غلط فہمی دور کرنی چاہیے تھی ) تو ا س کا جواب دیا جائے گا کہ :
''اہل شام کے لیے بھی جائز نہ تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس بنا پر لڑتے کہ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ کے قاتلوں کو پکڑنے میں بے بس ہیں ۔ بلکہ اگر حضرت علی رضی اللہ قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کی طاقت رکھتے بھی ہوتے ، اور انہیں تاویل کی بنا پر یا خطأً چھوڑ بھی دیتے تو ان کی اس کوتاہی پر جماعت میں تفریق ڈالنے اور ان کی بیعت سے انکار کرنے کی گنجائش نہ تھی بلکہ آپ کی بیعت ہر حال میں دین الٰہی کے لیے درست ترین اور مسلمانوں کے لیے نفع مند تھی ۔
آئینہ ایام تاریخ کے مصنف لکھتے ہیں :
صحابہ کے درمیان اختلافی معاملات میں حق کہاں ہے؟
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا :کہ عمار کوباغی گروہ قتل کرے گا ۔اور آپ نے خارجیوں کے متعلق فرمایا:کہہ وہ مسلمانوں کے اختلاف کے وقت نکلیں گے اور انہیں وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی ۔چنانچہ یہ دونوں حدیثیں صریح ہیں کہ حق،حضرت علی رضی اللہ نہ کے قریب تھاکیونکہ حدیث میں دوطرح کے الفاظ آئے ہیں:
تقتلہم اقرب الطائفتین الی الحق۔'ان (خارجیوں)کودونوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کی طرف زیادہ قریب ہوگی۔۔۔۔۔ایک روایت میں ہے:اولیٰ الطائفتین الی الحق'دونوں جماعتوں میں سے جو حق کے زیادہ لائق ہوگی۔لہٰذا یہ دونوں حدیثیں اس بات پر نص ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں اپنے مخالفین سے حق کے زیادہ قریب تھے ۔لیکن مکمل طور پر حق پر نہ تھے ۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :الاقرب الی الحق (حق کے زیادہ قریب) ، الاولیٰ بالحق (حق کے زیادہ لائق) یہ نہیں فرعمایا کہ وہ جماعت مکمل طور پربر حق ہوگی ۔یہ تجزیہ کوئی حضرت علی رضی اللہ پر تنقید وطعن نہیں ہے بلکہ اس بات کی وضاحت کرنا مقصود ہے کہ جو لوگ اس فتنہ میں الگ تھلگ تھے دراصل وہی حق پر تھے ، جبکہ حضرت علی رضی اللہ کے لیے بھی سلامتی اسی بات میں تھی کہ وہ لڑائی سے رک جاتے کیونکہ نتائج دیکھ کر ہی رائے قائم کی جاتی ہے ، اسی لیے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ کو مقتول پایا تو پھوٹ پھوٹ کر رودیے اور پشیمان ہوتے ہوئے فرمایا:کاش میں بیس سال قبل مرگیا ہوتا۔اور جنگ صفین کے بعد حضرت حسن نے کشت وخون کی تفصیل سنائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا اس لیے وہ ان معرکوں میں شریک ہونے پر شرمندہ ہوئے۔
دوسری طرف حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے صلح جویانہ کردار کی پیش گوئی فرماتے ہوئے ان کی تعریف بیان کی تھی اور فرمایا تھا : : (
إن ابني هذا سيد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين)۔کہ میرا یہ بیٹا سید ہے ،اور شاید اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوعظیم گروہوں میں صلح کرادے ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کرانے کی پیش گوئی فرماتے ہوئے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف بیان کی جبکہ ان کے باپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف بیان نہیں کی کیونکہ انہوں نے جنگ کی تھی ۔البتہ نہروان میں خارجیوں سے لڑائی کی وجہ سے ان کی تعریف بیان کی ، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ مکمل طور پر حق پر تھے اور آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی پر کسی طرح کا غم بھی نہیں کیا ، بلکہ عام طور پر مسلمان ، خارجیوں کے اس قتل پر خوش ہوئے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب انہیں قتل کیا تو خود سجدہ شکر ادا کیا لیکن جب اہل جمل سے لڑائی لڑی تو روپڑے اور اسی طرح جب صفین میں جنگ لڑی تو بھی سخت غمگین ہوئے۔
یہ ہے اہل سنت والجماعۃ کے علماء کا فہم اس بارے میں ۔ آپ نے صرف ایک حدیث بیان کرکے اپنا مقصود ومطلوب حاصل کرنا چاہا جبکہ اسی سلسلہ سے متصل دوسری احادیث سے صرف نظر کیا ۔ اور حق بات کو چھپانے کی کوشش کی ۔ لیکن اللہ رحم کرے علمائے اہل السنۃ پر کہ انہوں نے ہر باطل اور پر فریب بات کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ۔ الحمد للہ علی ذلک
اب آپ کو پتا چل گیا ہوگیا کہ آپ کا مقصود ومطلوب ایک تنہا حدیث کو بیان کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تمام احادیث کا احاطہ نہ کرلیا جائے اور بات کو تمام پیراؤں سے بیان نہ کردیا جائے ۔ مجھے امید ہے کہ اب آپ کی تشفی ہوگئی ہوگی ۔