• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معاویہ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام میں

شمولیت
اگست 19، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
0
ایک روز زید بن ارقم ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو دیکھا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کے پاس تخت پر بیٹھے تھے، جب انہوں نے یہ منظر دیکھا تو خود ان دونوں کے درمیان بیٹھ گئے ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : آپ کو کوئی اورجگہ نہیں ملی تھی ، آپ نے امیر المومنین سے میرے اتصال کو قطع کردیا؟

زید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ایک مرتبہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ جنگ میں تم دونوں ایک ساتھ تھے ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے تم دونوں کوایک ساتھ دیکھا تو بہت ہی غصہ سے تمہاری طرف دیکھا ، دوسرے اورتیسرے دن بھی تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھا تو تم دونوں کو بہت دیر تک دیکھتے رہے ، تیسرے روز فرمایا : ”اذا رایتم معاویة و عمروبن العاص مجتمعین ففرقوا بینھما ، فانھما لن یمجتمعا علی خیر“ (جب بھی معاویہ اور عمروعاص کو ایک جگہ دیکھو تو ان کے درمیان جدائی ڈالدو کیونکہ یہ دونوں کبھی بھی نیک کام کے لئے ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے) ۔
ابن مزاحم نے کتاب ”وقعة صفین“ (۱) اس واقعہ کو اسی طرح نقل کیا ہے ۔ ابن عبدربہ کی کتاب ”العقد الفرید“ میں بھی مراجعہ کریں (۲) ۔ (۳) ۔


۱۔ وقعة صفین : ۱۱۲ (ص ۲۱۸۔
۲۔ العقد الفرید،ج ۲ : ۲۹۰ (۱۴۵) ۔
۳۔ شفیعی مازندرانی ، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۱۷۲۔
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
ایک روز زید بن ارقم ، معاویہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ عمروعاص اس کے پاس تخت پر بیٹھا ہوا ہے ، جب انہوں نے یہ منظر دیکھا تو خود ان دونوں کے درمیان بیٹھ گئے ، عمروعاص نے ان سے کہا : تمہیں کوئی اورجگہ نہیں ملی تھی ، تم نے امیر المومنین سے میرے اتصال کو قطع کردیا؟

زید نے جواب دیا: ایک مرتبہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ جنگ میں تم دونوں ایک ساتھ تھے ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے تم دونوں کوایک ساتھ دیکھا تو بہت ہی غصہ سے تمہاری طرف دیکھا ، دوسرے اورتیسرے دن بھی تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھا تو تم دونوں کو بہت دیر تک دیکھتے رہے ، تیسرے روز فرمایا : ”اذا رایتم معاویة و عمروبن العاص مجتمعین ففرقوا بینھما ، فانھما لن یمجتمعا علی خیر“ (جب بھی معاویہ اور عمروعاص کو ایک جگہ دیکھو تو ان کے درمیان جدائی ڈالدو کیونکہ یہ دونوں کبھی بھی نیک کام کے لئے ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے) ۔
ابن مزاحم نے کتاب ”وقعة صفین“ (۱) اس واقعہ کو اسی طرح نقل کیا ہے ۔ ابن عبدربہ کی کتاب ”العقد الفرید“ میں بھی مراجعہ کریں (۲) ۔ (۳) ۔


۱۔ وقعة صفین : ۱۱۲ (ص ۲۱۸۔
۲۔ العقد الفرید،ج ۲ : ۲۹۰ (۱۴۵) ۔
۳۔ شفیعی مازندرانی ، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۱۷۲۔
جناب ایڈمن صاحب محدث فورم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ جناب اس پوسٹ میں کس قدر گھٹیا زبان میں سیدنا امیرالمومنین معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما اور فاتح مصر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کی طرف آپ کی توجہ نہیں گئی شاید ۔ ایسی گھٹیا تحریر کا جواب دینا ناممکن ہے ۔ برائے مہربانی اس طرف غورکریں کہ اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف غیر معیاری زبان استعمال کی جائے تو اس پوسٹ کو ہی غارت کردیا جائے ۔ جزاک اللہ
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
ایک روز زید بن ارقم ، معاویہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ عمروعاص اس کے پاس تخت پر بیٹھا ہوا ہے ، جب انہوں نے یہ منظر دیکھا تو خود ان دونوں کے درمیان بیٹھ گئے ، عمروعاص نے ان سے کہا : تمہیں کوئی اورجگہ نہیں ملی تھی ، تم نے امیر المومنین سے میرے اتصال کو قطع کردیا؟

زید نے جواب دیا: ایک مرتبہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ جنگ میں تم دونوں ایک ساتھ تھے ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے تم دونوں کوایک ساتھ دیکھا تو بہت ہی غصہ سے تمہاری طرف دیکھا ، دوسرے اورتیسرے دن بھی تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھا تو تم دونوں کو بہت دیر تک دیکھتے رہے ، تیسرے روز فرمایا : ”اذا رایتم معاویة و عمروبن العاص مجتمعین ففرقوا بینھما ، فانھما لن یمجتمعا علی خیر“ (جب بھی معاویہ اور عمروعاص کو ایک جگہ دیکھو تو ان کے درمیان جدائی ڈالدو کیونکہ یہ دونوں کبھی بھی نیک کام کے لئے ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے) ۔
ابن مزاحم نے کتاب ”وقعة صفین“ (۱) اس واقعہ کو اسی طرح نقل کیا ہے ۔ ابن عبدربہ کی کتاب ”العقد الفرید“ میں بھی مراجعہ کریں (۲) ۔ (۳) ۔


۱۔ وقعة صفین : ۱۱۲ (ص ۲۱۸۔
۲۔ العقد الفرید،ج ۲ : ۲۹۰ (۱۴۵) ۔
۳۔ شفیعی مازندرانی ، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۱۷۲۔
کیا خوب کتب کا حوالہ دیا ہے ...!
جنکے مصنفین اور مرکزی راوی ہی رافضی علم الجرح والتعدیل کے مطابق کذاب اور دجال ہیں !!!
شرم تمکو مگر نہیں آتی ................
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پوسٹ شروع کرنے والے نے بلاشبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں غیر مناسب الفاظ استعمال کیے ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے ایسی پوسٹس کو فورا نامنظور بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ذہن میں یہ پہلو بھی ہوتا ہے کہ اس قسم کے شبہات یہاں نہیں تو انٹرنیٹ پر کئی جگہ پر یہ حضرات ڈالتے ہوں گے۔ پس اگر ان کا شبہ یہاں نقل ہو گیا ہے تو پھر کسی بھائی کی طرف سے جواب کی صورت میں ہمارے کئی بھائیوں کا بھلا ہو جاتا ہے۔
باقی ان صاحب کی پوسٹ میں مناسب ایڈیٹنگ کر دی گئی ہے۔
 

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
کیا خوب کتب کا حوالہ دیا ہے ...!
جنکے مصنفین اور مرکزی راوی ہی رافضی علم الجرح والتعدیل کے مطابق کذاب اور دجال ہیں !!!
شرم تمکو مگر نہیں آتی ................

جناب رفیق طاہر صاحب،

آپ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جو آپ کے دعوٰی کو ثابت کرے۔
 
شمولیت
اگست 19، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
0
صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں جو حدیث ہے کہ عماربن یاسرکوایک باغی گروہ قتل کرےگا- عماربن یاسرکومعاویہ کی فوج نے شہید کیا- اس کےبارےمیں جناب کیا فرماتےہیں-
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں جو حدیث ہے کہ عماربن یاسرکوایک باغی گروہ قتل کرےگا- عماربن یاسرکومعاویہ کی فوج نے شہید کیا- اس کےبارےمیں جناب کیا فرماتےہیں-
دیکھیں سپاہ محمد ! ہم فورم پر ہم آپ کی بات کا جواب دیں گے ان شاء اللہ لیکن پہلے آپ وعدہ کریں کہ آپ دوران بحث شائستگی اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے ۔ اور صحابہ کی شان میں گستاخی نہیں کریں گے ۔ تو پھر بات کا فائدہ بھی ہے ۔ ورنہ کوئی فائدہ نہیں
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
میں جواب کا منتظر ہوں باغی والی حدیث کا-
آپ کی پیش کردہ حدیث بخاری شریف میں اس مضمون وسند کے ساتھ ہے:
صحيح البخاري، الإصدار 2.03 - للإمام البخاري
الجزء الأول >> 11 - أبواب المساجد. >> 30 - باب: التعاون في بناء المسجد.

436 - حدثنا مسدد قال: حدثنا عبد العزيز بن مختار قال: حدثنا خالد الحذاء،
عن عكرمة: قال لي ابن عباس ولابنه علي: انطلقا إلى أبي سعيد، فاسمعا من حديثه، فانطلقنا، فإذا هو في حائط يصلحه، فأخذ رداءه فاحتبى، ثم أنشأ يحدثنا، حتى أتى ذكر بناء المسجد، فقال: كنا نحمل لبنة لبنة، وعمار لبنتين لبنتين، فرآه النبي صلى الله عليه وسلم، فينفض التراب عنه، ويقول: (ويح عمار، تقتله الفئة الباغية، يدعوهم إلى الجنة، ويدعونه إلى النار). قال: يقول عمار: أعوذ بالله من الفتن.

ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا 'کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے،انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علی سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو ۔ہم گئے دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کررہے تھے ۔ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے ۔پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے ۔جب مسجد نبوی بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو (مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت )ایک ایک اینٹ اٹھاتے ۔لیکن عمار دواینٹیں اٹھارہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تےتو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا 'افسوس !عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی ۔جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہوگی ۔ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
اس سے قبل کے ہم کوئی تبصرہ کریں امام اہل السنۃ والجماعۃ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول یہاں پیش کرتے ہیں:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس حدیث (تقتلک الفئۃ الباغیۃ)کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : میں اس کے متعلق گفتگو نہیں کروں گا ۔ اسے چھوڑ دینا ہی سلامتی کا ذریعہ ہے اور آپ نے فرمایا : حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق انہیں باغی گروہ نے قتل کیا اور خاموش ہوگئے (السنۃ للخلال ص ۴۶۳،۷۲۲)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جمہور اہل السنۃ ان لوگوں کے برحق ہونے کے قائل ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ جو لوگ حضرت علی کے خلاف لڑے وہ باغی تھے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس موقف پر بھی متفق ہیں کہ ان میں سے کسی کی مذمت نہ کی جائے ، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اجتہاد کیا اور غلطی کھابیٹھے ۔(فتح الباری : ۷۲/۱۳)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اہل السنۃ اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام کے باہمی تنازعات کی بنا پر کسی صحابی پر زبان درازی یا نکتہ چینی کرنا منع ہے خواہ یہ پتہ بھی چل جائے کہ ان میں فلاں گروہ حق پر ہے ، کیونکہ وہ اجتہاد کی بنا پر لڑے تھے (فتح الباری : ۳۷/۱۳) یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں اسے باغی گروہ نے قتل کیا ہو جس نے حضرت عثمان کو شہید کیا اور حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صلح کو سبو تاژ کرنے کےلیے رات کی تاریکی میں تیر برسائے تھے ۔
امام طبری رحمہ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں کے مذہب کو مضبوط قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
''اگر مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کے اختلاف کے وقت گھروں میں دبک جانا واجب ہوتا ،تو نہ کوئی حد قائم کی جاتی اور نہ کسی باطل کو روکا جاسکتا تھا اور فاسقوں کو محرمات کے ارتکاب کے لیے کھلا راستہ مل جاتا۔(فتح الباری :۳۷/۱۳)
آئینہ ایام تاریخ کے مصنف لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں یہ بات اس وقت صحیح ہے جب معاملہ واضح اور آشکارا ہو لیکن جب صورتحال مشتبہ ہو تو اس وقت فتنوں سے دور رہنا ہی واجب ہے اور اسی وجہ سے بہت سے لوگ اس معرکہ میں شرکت سے باز رہے ۔لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم اسی موقف پر ایمان رکھیں کہ حضرت طلحہ اور زبیر اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم ، اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان حضرات کے طرفدار محض اجتہاد کی بنا پر لڑے کیونکہ صورتحال بڑی پر فتن تھی اور خاص طور پر معرکہ جمل کے لیے کوئی تیار نہ تھا اور نہ ہی وہ لڑنا چاہتے تھے ۔
امام ابن حزم اور امام ابن تیمیہ رحمہمااللہ نے اس مسئلہ پر جمہور علمائے امت سے نقل کیا ہے کہ اس پر بحث ہی نہ کی جائے ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر کوئی کہنے والا کہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس لڑائی میں پہل کی تو اسے جواب دیا جائے گا کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اور ان کی اطاعت سے انکار کرنے میں پہلو تہی کی اور آپ کو حضرت عثمان کے قتل میں شریک اور ظالم ٹھہرایا اور ان کے متعلق جھوٹی شہادت قبول کی ۔ کیونکہ اہل شام میں یہ بات مشہور کردی گئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل عثمان پر راضی تھے ۔اور اہل شام کے ہاں یہ جھوٹی شہادت مندرجہ ذیل چار وجوہات کی بناء پر سند قبولیت حاصل کرگئی تھی۔
۱۔ امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے انتقام نہ لینا۔
۲۔ جنگ جمل۔
۳۔ مدینہ منورہ کو چھوڑ کر کوفہ کو دارالخلافہ بنانا ،جبکہ کوفہ ، قاتلان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی چھاؤنی تھا۔
۴۔ حضرت علی رضی اللہ کے لشکر میں ان لوگوں کا موجود ہونا جو قتل سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ میں ملوث تھے ۔
مذکورہ بالا چار وجوہات کی بناء پر شام کے (ان پڑھ) عوام کو شک ہوگیا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہے ۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کے قتل میں کوئی ہاتھ نہ تھا، بلکہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ پر لعنت کرتے تھے ۔
اگر کہا جائے کہ صرف اتنی بات پر (شامیوں کے خلاف )لشکر کشی جائز نہ تھی (بلکہ ان کی غلط فہمی دور کرنی چاہیے تھی ) تو ا س کا جواب دیا جائے گا کہ :
''اہل شام کے لیے بھی جائز نہ تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس بنا پر لڑتے کہ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ کے قاتلوں کو پکڑنے میں بے بس ہیں ۔ بلکہ اگر حضرت علی رضی اللہ قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کی طاقت رکھتے بھی ہوتے ، اور انہیں تاویل کی بنا پر یا خطأً چھوڑ بھی دیتے تو ان کی اس کوتاہی پر جماعت میں تفریق ڈالنے اور ان کی بیعت سے انکار کرنے کی گنجائش نہ تھی بلکہ آپ کی بیعت ہر حال میں دین الٰہی کے لیے درست ترین اور مسلمانوں کے لیے نفع مند تھی ۔
آئینہ ایام تاریخ کے مصنف لکھتے ہیں :
صحابہ کے درمیان اختلافی معاملات میں حق کہاں ہے؟
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا :کہ عمار کوباغی گروہ قتل کرے گا ۔اور آپ نے خارجیوں کے متعلق فرمایا:کہہ وہ مسلمانوں کے اختلاف کے وقت نکلیں گے اور انہیں وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی ۔چنانچہ یہ دونوں حدیثیں صریح ہیں کہ حق،حضرت علی رضی اللہ نہ کے قریب تھاکیونکہ حدیث میں دوطرح کے الفاظ آئے ہیں:تقتلہم اقرب الطائفتین الی الحق۔'ان (خارجیوں)کودونوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کی طرف زیادہ قریب ہوگی۔۔۔۔۔ایک روایت میں ہے:اولیٰ الطائفتین الی الحق'دونوں جماعتوں میں سے جو حق کے زیادہ لائق ہوگی۔لہٰذا یہ دونوں حدیثیں اس بات پر نص ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں اپنے مخالفین سے حق کے زیادہ قریب تھے ۔لیکن مکمل طور پر حق پر نہ تھے ۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :الاقرب الی الحق (حق کے زیادہ قریب) ، الاولیٰ بالحق (حق کے زیادہ لائق) یہ نہیں فرعمایا کہ وہ جماعت مکمل طور پربر حق ہوگی ۔یہ تجزیہ کوئی حضرت علی رضی اللہ پر تنقید وطعن نہیں ہے بلکہ اس بات کی وضاحت کرنا مقصود ہے کہ جو لوگ اس فتنہ میں الگ تھلگ تھے دراصل وہی حق پر تھے ، جبکہ حضرت علی رضی اللہ کے لیے بھی سلامتی اسی بات میں تھی کہ وہ لڑائی سے رک جاتے کیونکہ نتائج دیکھ کر ہی رائے قائم کی جاتی ہے ، اسی لیے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ کو مقتول پایا تو پھوٹ پھوٹ کر رودیے اور پشیمان ہوتے ہوئے فرمایا:کاش میں بیس سال قبل مرگیا ہوتا۔اور جنگ صفین کے بعد حضرت حسن نے کشت وخون کی تفصیل سنائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا اس لیے وہ ان معرکوں میں شریک ہونے پر شرمندہ ہوئے۔
دوسری طرف حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے صلح جویانہ کردار کی پیش گوئی فرماتے ہوئے ان کی تعریف بیان کی تھی اور فرمایا تھا : : (إن ابني هذا سيد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين)۔کہ میرا یہ بیٹا سید ہے ،اور شاید اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوعظیم گروہوں میں صلح کرادے ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کرانے کی پیش گوئی فرماتے ہوئے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف بیان کی جبکہ ان کے باپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف بیان نہیں کی کیونکہ انہوں نے جنگ کی تھی ۔البتہ نہروان میں خارجیوں سے لڑائی کی وجہ سے ان کی تعریف بیان کی ، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ مکمل طور پر حق پر تھے اور آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑائی پر کسی طرح کا غم بھی نہیں کیا ، بلکہ عام طور پر مسلمان ، خارجیوں کے اس قتل پر خوش ہوئے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب انہیں قتل کیا تو خود سجدہ شکر ادا کیا لیکن جب اہل جمل سے لڑائی لڑی تو روپڑے اور اسی طرح جب صفین میں جنگ لڑی تو بھی سخت غمگین ہوئے۔
یہ ہے اہل سنت والجماعۃ کے علماء کا فہم اس بارے میں ۔ آپ نے صرف ایک حدیث بیان کرکے اپنا مقصود ومطلوب حاصل کرنا چاہا جبکہ اسی سلسلہ سے متصل دوسری احادیث سے صرف نظر کیا ۔ اور حق بات کو چھپانے کی کوشش کی ۔ لیکن اللہ رحم کرے علمائے اہل السنۃ پر کہ انہوں نے ہر باطل اور پر فریب بات کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ۔ الحمد للہ علی ذلک
اب آپ کو پتا چل گیا ہوگیا کہ آپ کا مقصود ومطلوب ایک تنہا حدیث کو بیان کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تمام احادیث کا احاطہ نہ کرلیا جائے اور بات کو تمام پیراؤں سے بیان نہ کردیا جائے ۔ مجھے امید ہے کہ اب آپ کی تشفی ہوگئی ہوگی ۔
 
شمولیت
اگست 19، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
0
اس گروہ کومیںنےخود نہیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نےجہنم کی طرف بلانے والا کہا ہے لہذ'اکسی عالم کی ھلکی دلیلیں کوئ اہمیت نھیں رکھتیں-
 
Top