• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معاویہ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام میں

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اس میں کوءی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق باغی گروہ نے ہی حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا لیکن یہ باغی گروہ کون تھا، پہلے اس کا تعین تو ہو جائے کیونکہ جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں قاتلان عثمان سے متعلق شرپسند عناصر موجود تھے، اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ میں بھی ایسے شرپسند عناصر موجود تھے جو دونوں طرف سے لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے تھے۔
یہ شر پسند عناصر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں ایک بڑے لشکر کا حصہ ہوتے تھے اور عموما انہیں بڑے لشکر سے علیحدہ کرنا مشکل ہوتا تھا تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو بھی شرپسندوں کی ایک ایسی ہی ٹولی نے شہید کیا تھا۔
اس کو آپ یوں سمجھیں کہ جیسے مجاہدین کے لشکروں میں ایجنسیوں کے لوگ گھس جاتے ہیں اور ایجنسیوں میں جہادی ذہن رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ اور عموما جب بھی کسی دوسرے سیٹ اپ ایسے لوگ داخل ہوتے ہیں تو ان کو مقصد اپنا مشن پورا کرنا ہوتا ہے۔
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
اس گروہ کومیںنےخود نہیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نےجہنم کی طرف بلانے والا کہا ہے لہذ'اکسی عالم کی ھلکی دلیلیں کوئ اہمیت نھیں رکھتیں-
مسٹر محمد بن ابوبکر حدیث میں جو الفاظ جہنم کی طرف بلانے والے بیان کیے گئے ہیں ان سے مراد علماء کے نزدیک یہ ہے کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ لوگوں کو امام برحق علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اطاعت کی طرف بلارہے تھے اور ان کی بیعت کی طرف بلارہے تھے ۔ یہ بات معروف ومعلوم ہے کہ جو دوسرا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متحارب تھا وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا تھا ۔ اگر جہنم کی طرف بلانے سے اس گروہ کی تکفیر مراد ہوتی تو دوسری دواحادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں نہ فرماتے کہ ::تقتلہم اقرب الطائفتین الی الحق۔'ان (خارجیوں)کودونوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کی طرف زیادہ قریب ہوگی۔درج ذیل میں حدیث بمعہ اسناد ملاحظہ فرمائیں :
صحيح مسلم. الإصدار 2.07 - للإمام مسلم
الجزء الثاني >> 12 - كتاب الزكاة. >> (48) باب التحريض على قتل الخوارج

156 - (1566) حدثنا عبد بن حميد. حدثنا عبدالرزاق بن همام. حدثنا عبدالملك بن أبي سليمان حدثنا سلمة بن كهيل. حدثني زيد بن وهب الجهني ؛
أنه كان في الجيش الذين كانوا مع علي رضي الله عنه. الذين ساروا إلى الخوارج. فقال علي رضي الله عنه: أيها الناس ! إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " يخرج قوم من أمتي يقرأون القرآن. ليس قراءتكم إلى قرائتهم بشيء. ولا صلاتكم إلى صلاتهم بشيء. ولا صيامكم إلى صيامهم بشيء. يقرأون القرآن. يحسبون أنه لهم وهو عليهم. لا تجاوز صلاتهم تراقيهم. يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية". لو يعلم الجيش الذي يصيبونهم، ما قضي لهم على لسان نبيهم صلى الله عليه وسلم، لاتكلوا عن العمل. وآية ذلك أن فيهم رجلا له عضد، وليس له ذراع. على رأس عضده مثل حلمة الثدي. عليه شعرات بيض. فتذهبون إلى معاوية وأهل الشام وتتركون هؤلاء يخلفونكم في ذراريكم وأموالكم ! والله ! إني لأرجو أن يكونوا هؤلاء القوم. فإنهم قد سفكوا الدم الحرام. وأغاروا في سرح الناس. فسيروا على اسم الله. قال سلمة بن كهيل: فنزلني زيد بن وهب منزلا. حتى قال: مررنا على قنطرة. فلما التقينا وعلى الخوارج يومئذ عبدالله بن وهب الراسبي. فقال لهم: ألقوا الرماح. وسلوا سيوفكم من جفونها فإني أخاف أن يناشدوكم كما ناشدوكم يوم حروراء. فرجعوا فوحّشوا برماحهم. وسلوا السيوف. وشجرهم الناس برماحهم. قال: وقتل بعضهم على بعض. وما أصيب من الناس يومئذ إلا رجلان. فقال علي رضي الله عنه: التمسوا فيهم المخدج. فالتمسوه فلم يجدوه. فقام علي رضي الله عنه بنفسه حتى أتى ناسا قد قتل بعضهم على بعض. قال: أخّروهم. فوجدوه مما يلي الأرض. فكّبر. ثم قال: صدق الله. وبلّغ رسوله. قال: فقام إليه عبيدة السلماني. فقال: يا أمير المؤمنين ! ألله الذي لا إله إلا هو ! لسمعت هذا الحديث من رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فقال: إي. والله الذي لا إله إلا هو ! حتى استحلفه ثلاثا. وهو يحلف له.
[ش (لا تجاوز صلاتهم تراقيهم) المراد بالصلاة، هنا، القراءة، لأنها جزؤها. (وأغاروا في سرح الناس) السرح والسارح والسارحة الماشية. أي أغاروا على مواشيهم السائمة. (فنزلني زيد بن وهب منزلا) هكذا هو في معظم النسخ: منزلا، مرة واحدة. وفي نادر منها. منزلا منزلا، مرتين. وهو وجه الكلام. أي ذكر لي مراحلهم بالجيش منزلا منزلا حتى بلغ القنطرة التي كان القتال عندها. (وسلوا سيوفكم من جفونها) أي أخرجوهامن أغمادها. جمع جفن، وهو الغمد. (فإني أخاف أن يناشدوكم) يقال: نشدتك الله وناشدتك الله أي سألتك بالله وأقسمت عليك. (فوحشوا برماحهم) أي رموا بها عن بعد منهم، ودخلوا فيهم بالسيوف حتى لا يجدوا فرصة. (وشجرهم الناس برماحهم) أي مدوها إليهم وطاعنوهم بها. ومنه التشاجر، في الخصومة. وسمي الشجر شجرا لتداخل أغصانه، والمراد بالناس أصحاب علي. (حتى استحلفه ثلاثا) قال الإمام النووي: وإنما استحلفه ليسمع الحاضرين ويؤكد ذلك عندهم ويظهر لهم المعجزة التي أخبر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم ويظهر لهم أن عليا وأصحابه أولى الطائفتين بالحق، وأنهم محقون في قتالهم].

یہاں پر اس بات کو یوں بیان کیا گیا کہ : خارجیوں کو وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی ۔ ظاہر اس کا مطلب ہے کہ دوسری جماعت بھی حق کی طرف ہے ۔ لیکن پہلی جماعت حق کی طرف زیادہ ہے ۔ دوسری حدیث میں اس بات کو اس پیرائے میں بیان کیا کہ :
صحيح البخاري، الإصدار 2.03 - للإمام البخاري
الجزء الرابع >> 96 - كتاب الفتن. >> 19 - باب: قول النبي صلى الله عليه وسلم للحسن بن علي: (إن ابني هذا لسيِّد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين).
6692 - حدثنا علي بن عبد الله: حدثنا سفيان: حدثنا إسرائيل أبو موسى، ولقيته بالكوفة جاء إلى ابن شبرمة، فقال:
أدخلني على عيسى فأعظه، فكأن ابن شبرمة خاف عليه فلم يفعل، قال: حدثنا الحسن قال: لما سار الحسن بن علي رضي الله عنهما إلى معاوية بالكتائب، قال عمرو بن العاص لمعاوية: أرى كتيبة لا تولِّي حتى تدبر أخراها، قال معاوية: من لذاراريِّ المسلمين؟ فقال: أنا، فقال عبد الله بن عامر وعبد الرحمن بن سمرة: نلقاه فنقول له الصلح، قال الحسن: ولقد سمعت أبا بكرة قال: بينا النبي صلى الله عليه وسلم يخطب، جاء الحسن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (ابني هذا سيِّد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين).

غور کریں اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا کہ میرا یہ بیٹا (حسن بن علی بن ابی طالب) رضی اللہ عنہ سید ہوگا اور اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوگروہوں میں صلح کروائے گا ۔ یہ بات بھی بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان دوگروہوں میں ایک گروہ امیرالمومنین حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا تھا اور دوسرا گروہ کاتب وحی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا ۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کو مسلم قرار دے رہے ہیں ۔ اور مسلمانوں کی جماعت میں شامل قرار دے رہے ہیں اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر اعتراض کررہے ہیں ۔ آپ تحقیق کریں اور حق بات کو قبول کرلیں ۔ ان شاء اللہ اللہ آپ کو مزید ہدایت دے گا ۔
 

فقہ جعفری

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2011
پیغامات
35
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
0
محمد ابوبکر بابو جی، پہلے تو آپ پوری نہج البلاغہ میں سے حضرت علیؓ کا حضرت معاویہؓ کو ایک بار بھی کافر کہنا تو ذرا ثابت کریں۔ پھر ہم آپ کو بتائیں گے کہ حضرت علیؓ نے حضرت معاویہؓ کے متعلق کیا الفاظ استعمال کئے ہیں، وہ بھی نہج البلاغہ سے۔
آپ لوگوں سے باتیں جتنی مرضی کروالو۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ایک روز زید بن ارقم ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو دیکھا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کے پاس تخت پر بیٹھے تھے، جب انہوں نے یہ منظر دیکھا تو خود ان دونوں کے درمیان بیٹھ گئے ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : آپ کو کوئی اورجگہ نہیں ملی تھی ، آپ نے امیر المومنین سے میرے اتصال کو قطع کردیا؟

زید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ایک مرتبہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ جنگ میں تم دونوں ایک ساتھ تھے ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے تم دونوں کوایک ساتھ دیکھا تو بہت ہی غصہ سے تمہاری طرف دیکھا ، دوسرے اورتیسرے دن بھی تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھا تو تم دونوں کو بہت دیر تک دیکھتے رہے ، تیسرے روز فرمایا : ”اذا رایتم معاویة و عمروبن العاص مجتمعین ففرقوا بینھما ، فانھما لن یمجتمعا علی خیر“ (جب بھی معاویہ اور عمروعاص کو ایک جگہ دیکھو تو ان کے درمیان جدائی ڈالدو کیونکہ یہ دونوں کبھی بھی نیک کام کے لئے ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے) ۔
ابن مزاحم نے کتاب ”وقعة صفین“ (۱) اس واقعہ کو اسی طرح نقل کیا ہے ۔ ابن عبدربہ کی کتاب ”العقد الفرید“ میں بھی مراجعہ کریں (۲) ۔ (۳) ۔


۱۔ وقعة صفین : ۱۱۲ (ص ۲۱۸۔
۲۔ العقد الفرید،ج ۲ : ۲۹۰ (۱۴۵) ۔
۳۔ شفیعی مازندرانی ، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۱۷۲۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ایک روز زید بن ارقم ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو دیکھا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کے پاس تخت پر بیٹھے تھے، جب انہوں نے یہ منظر دیکھا تو خود ان دونوں کے درمیان بیٹھ گئے ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : آپ کو کوئی اورجگہ نہیں ملی تھی ، آپ نے امیر المومنین سے میرے اتصال کو قطع کردیا؟

زید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ایک مرتبہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ جنگ میں تم دونوں ایک ساتھ تھے ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے تم دونوں کوایک ساتھ دیکھا تو بہت ہی غصہ سے تمہاری طرف دیکھا ، دوسرے اورتیسرے دن بھی تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھا تو تم دونوں کو بہت دیر تک دیکھتے رہے ، تیسرے روز فرمایا : ”اذا رایتم معاویة و عمروبن العاص مجتمعین ففرقوا بینھما ، فانھما لن یمجتمعا علی خیر“ (جب بھی معاویہ اور عمروعاص کو ایک جگہ دیکھو تو ان کے درمیان جدائی ڈالدو کیونکہ یہ دونوں کبھی بھی نیک کام کے لئے ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے) ۔
ابن مزاحم نے کتاب ”وقعة صفین“ (۱) اس واقعہ کو اسی طرح نقل کیا ہے ۔ ابن عبدربہ کی کتاب ”العقد الفرید“ میں بھی مراجعہ کریں (۲) ۔ (۳) ۔


۱۔ وقعة صفین : ۱۱۲ (ص ۲۱۸۔
۲۔ العقد الفرید،ج ۲ : ۲۹۰ (۱۴۵) ۔
۳۔ شفیعی مازندرانی ، گزیدہ ای جامع از الغدیر، ص ۱۷۲۔

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
نامور ،جلیل القدر محدث حافظ معافَی بن عمران موصلی رحمہ اللہ
سے کسی نے پوچھا :
امیر المومنین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ۔۔اور ۔۔جناب عمر بن عبد العزیز ؒ میں کون افضل ہے ؟
سوال سن کر معافی بن عمران غصہ ہوگئے ؛
فرمانے لگے :(یہ کیسا سوال ہے )کیا نبی اکرم کے دیدار اور صحبت سے مشرف ایک صحابی ۔۔اور ایک تابعی کو تم ایک جیسا سمجھتے ہو ؟
سنو ! سیدنا امیر معاویہ نہ صرف یہ کہ صحابی ہونے کا شرف رکھتے ہیں ،بلکہ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں ،
اور پیغمبر اکرم ﷺ کے کاتب ،اور وحی کے امین ہیں ؛
Moaweya.gif
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
نامور ،جلیل القدر محدث حافظ معافَی بن عمران موصلی رحمہ اللہ
سے کسی نے پوچھا :
امیر المومنین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ۔۔اور ۔۔جناب عمر بن عبد العزیز ؒ میں کون افضل ہے ؟
سوال سن کر معافی بن عمران غصہ ہوگئے ؛
فرمانے لگے :(یہ کیسا سوال ہے )کیا نبی اکرم کے دیدار اور صحبت سے مشرف ایک صحابی ۔۔اور ایک تابعی کو تم ایک جیسا سمجھتے ہو ؟
سنو ! سیدنا امیر معاویہ نہ صرف یہ کہ صحابی ہونے کا شرف رکھتے ہیں ،بلکہ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں ،
اور پیغمبر اکرم ﷺ کے کاتب ،اور وحی کے امین ہیں ؛
13268 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
متفق
 
Top