• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بلائو اور معاملہ کو ان کے سامنے رکھو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے روایت ضعیف ہے

شمولیت
جون 27، 2012
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
42
وَحَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ السِّجِسْتَانِيُّ، قَالَ: نا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ جُنَاحٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، قَالَ: اسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فِي أَمْرٍ أَرَادَهُ، فَقَالَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَقَالَ: «ادْعُوا لِي مُعَاوِيَةَ» ، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ قَالَ: «أَشْهِدُوهُ أَمَرَكُمْ، أَحْضِرُوهُ أَمَرَكُمْ، فَإِنَّهُ قَوِيُّ أَمِينٌ

=====================
حضورﷺ نے اپنے ہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کو کسی کام مشورے کے لئے طلب فرمایا مگر دونوں حضرات کوئی مشورہ نہ دے سکے تو آپ نے فرمایا ادعوا معاویہ احضرروہ امرکم فانہ قوی امین۔ یعنی معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بلائو اور معاملہ کو ان کے سامنے رکھو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے

-----------------------------
ہیثمی کا بیان ہے :

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَالْبَزَّارُ بِاخْتِصَارِ اعْتِرَاضِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، وَرِجَالُهُمَا ثِقَاتٌ وَفِي بَعْضِهِمْ خِلَافٌ، وَشَيْخُ الْبَزَّارِ ثِقَةٌ، وَشَيْخُ الطَّبَرَانِيِّ لَمْ يُوَثِّقْهُ إِلَّا الذَّهَبِيُّ فِي الْمِيزَانِ، وَلَيْسَ فِيهِ جَرْحٌ مُفَسَّرٌ، وَمَعَ ذَلِكَ فَهُوَ حَدِيثٌ مُنْكَرٌ. وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9/ 356)

-------------------------
حديث: "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ اسْتَشَارَ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فِي أَمْرٍ فَقَالا: اللَّهُ ورسوله أعلم , فقال: ادعوا لي مُعَاوِيَةَ. فَلَمَّا وَقَفَ بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ: أَحْضِرُوهُ أَمْرَكُمْ، وَأَشْهِدُوهُ أَمْرَكُمْ فَإِنَّهُ قَوِيٌّ أَمِينٌ".

رواه الطبراني عن عبد الله بن بسر مرفوعًا، وفي إسناده: مروان ابن جناح (1) وَلا يُحْتَجُّ بِهِ.
قَالَ فِي اللآلىء: مروان روى له أبو داود، وابن ماجه، وقال الدارقطني: لا بأس به (2) . وله شاهد ابن عساكر، عن ابن عمر مرفوعاً بنحوا (3) .
الفوائد المجموعة (ص: 405)
تعليق المعلمي على الفوائد المجموعة :

 

اٹیچمنٹس

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791


سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے فضائل میں سے دس فضائل درج ہیں۔

1۔ آپ اس سمندری جہاد میں بذات خود شامل تھے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کا پہلا لشکر ج سمندر میں جہاد کرے گا، ان ( مجاہدین) کےلیے ( جنت) واجب ہے۔ ( صحیح بخاری:2799۔2800، 2924)

2۔ آپ وحی لکھتے تھے یعنی کاتبین وحی میں سے ہیں۔ ( دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2 ص243)

3۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی یعنی خال المؤمنین ( مومنوں کے ماموں ) ہیں۔

4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ ! انھیں ( معاویہ کو) ہادی مہدی بنادے اور ان کے ذریعے سے لوگوں کو ہدایت دے۔ ( سنن ترمذی:3844 وقال حسن غریب)

5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! معاویہ کو کتاب وحکمت سکھا اور انھیں عذاب سے بچا۔ ( مسند احمد جلد4ص 127 ح18152، صحیح ابن حزیمہ:1938 وسندہ حسن)

6۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے ( خلفائے راشدین کے بعد) معاویہ سے زیادہ، حکومت کےلیے مناسب کوئی نہیں دیکھا۔ ( تاریخ دمشق جلد62 ص121 وسندہ صحیح)

7۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: معاویہ نے صحیح کیا ہے، وہ فقیہ ہیں۔ (صحیح بخاری:3765)

8۔ سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیے دعائے مغفرت کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد جلد1 ص208۔209 وسندہ صحیح)

9۔ ایک شخص نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا کہا تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اسے کوڑے لگوائے تھے۔ (تاریخ دمشق جلد62 ص145، وسندہ صحیح)

10۔ امام معافیٰ بن عمران الموصلی رحمہ اللہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بڑی تعریف فرمائی۔
تفصیل کےلیے دیکھئے فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صحیح احادیث کی روشنی میں
( ص125۔130 ) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے محبت۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے مناقب و فضائل
تحریر:حافظ شیر محمد
(منقول از توحید ڈاٹ کام )

نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے کہ
((اول جیش من أمتي یغزون البحر قد أو جبوا)) میری امت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان (مجاہدین ) کے لئے (جنت) واجب ہے ۔ (صحیح البخاری: ۲۹۲۴)
یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا۔ (دیکھئے صحیح بخاری: ۶۲۸۲، ۶۲۸۳)
اور اس جہاد میں سیدنا معاویہؓ شامل تھے ۔ (دیکھئے صحیح بخاری: ۲۷۹۹، ۲۸۰۰)


آپ فتحِ مکہ سے کچھ پہلے یا فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ۔واللہ اعلم
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا : میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لئے تشریف لائے ہیں لہذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ ﷺ نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا :
((اذھب فادع لي معاویۃ)) وکان یکتب الوحي۔ إلخجاؤاور معاویہ کو بُلا لاؤ، وہ (معاویہؓ) وحی لکھتے تھے۔إلخ (دلائل النبوۃ للبیہقی ۲۴۳/۲ و سندہ حسن)


معلوم ہوا کہ سیدنا معاویہؓ کاتبِ وحی تھے۔


حافظ ابن عساکر لکھتے ہیں:

“خال المؤمنین و کاتب وحي رب العالمین، أسلم یوم الفتح“مومنوں کے ماموں اور رب العالمین کی وحی لکھنے والے ، آپ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے ۔ (تاریخ دمشق ۳۸/۶۲)
جلیل القدر تابعی عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ المکی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھا، پھر ابن عباس(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا :
“أصاب إنہ فقیہ” انہوں نے صحیح کیا ہے ، وہ فقیہ ہیں۔ (صحیح بخاری: ۳۷۶۵)
اس روایت کے مقابلے میں طحاوی حنفی نے “مالک بن یحییٰ الھمداني (وثقہ ابن حبان وحدہ) : ثنا عبدالوھاب بن عطاء قال: أنا عمران بن حدیر” کی سند سے ایک منکر روایت بیان کی ہے ۔ (دیکھئے شرح معانی الآثار ۲۸۹/۱)
یہ روایت صحیح بخاری کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور طحاوی کا یہ کہنا کہ ابن عباسؓ نے “انھوں نے صحیح کیا ہے” بطورِ تقیہ کہا تھا، غلط ہے ۔
صحابی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے لئے فرما یا :
((اللھم اجعلہ ھادیاً مھدیاً واھد بہ)) اے اللہ ! اسے ہادی مہدی بنا دے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے۔(سنن الترمذی: ۳۸۴۲ وقال : “ھٰذا حدیث حسن غریب” التاریخ الکبیر للبخاری: ۲۴۰/۵ ، طبقات ابن سعد ۴۸۷/۷ ، الآحادو المثانی لابن ابی عاصم ۳۵۸/۲ ح ۱۱۲۹، مسند احمد ۲۱۶/۴ ح ۱۷۸۹۵، وھو حدیث صحیح)
یہ روایت مروان بن محمد وغیرہ نے سعید بن عبدالعزیز سے بیان کر رکھی ہے اور مروان کی سعید سے روایت صحیح مسلم میں ہے ۔ (دیکھئے ۱۰۴۳/۱۰۸ و ترقیم دارالسلام : ۲۴۰۳)
لہٰذا ثابت ہوا کہ سعید بن عبدالعزیز نے یہ روایت اختلاط سے پہلے بیان کی ہے ۔ نیز دیکھئے الصحیحۃ (۱۹۶۹)
اُم علقمہ (مرجانہ) سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) مدینہ تشریف لائے تو (سیدہ) عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے رسول اللہ ﷺ کی چادر اور بال مانگا۔ پھر انہوں نے چادر اوڑھ لی اور بال پانی میں ڈبو کر وہ پانی پیا اور اپنے جسم پر بھی ڈالا۔ (تاریخ دمشق ۱۰۶/۶۲ و سندہ حسن، مرجانہ و ثقھا العجلی وابن حبان)

مسور بن مخرمہؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک وفد کے ساتھ معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کے پاس گئے تو انہوں (معاویہؓ) نے ان (مسورؓ) کی ضرورت پوری کی پھر تخلیے میں بلا کر کہا : تمہارا حکمرانوں پر طعن کرنا کیا ہوا؟ مسورؓ نے کہا : یہ چھوڑیں اور سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں۔ معاویہؓ نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! تمہیں اپنے بارے میں بتانا پڑے گا اور تم مجھ پر جو تنقید کرتے ہو۔ مسورؓ نے کہا : میں نے ان کی تمام قابلِ عیب باتیں (غلطیاں) انہیں بتا دیں۔ معاویہؓ نے کہا : کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ہے ۔ اے مسور ! کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی ہے ، ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا۔ یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو؟ مسورؓ نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! ہم تو انہی گناہوں کا ذکر کرتے ہیں جو ہم دیکھتےہیں۔ معاویہؓ نےکہا : ہم اپنے ہر گناہ کو اللہ کے سامنے تسلیم کرتے ہیں۔ اے مسور ! کیا تمہارے ایسے گناہ ہیں جن کے بارے میں تمہیں یہ خوف ہے کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہوجاؤ گے ؟ مسور نےکہا: جی ہاں ! ۔ معاویہؓ نے کہا : کس بات نے تمہیں اپنے بارے میں بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور میرے بارے میں تم یہ امید نہیں رکھتے ؟ اللہ کی قسم ! میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوشش کر رہا ہوں لیکن اللہ کی قسم ! دو باتوں میں صرف ایک ہی بات کو اختیار کرتا ہوں ۔ اللہ اور غیر اللہ کے درمیان صرف اللہ کو ہی چنتا ہوں ۔ میں اس دین پر ہوں جس میں اللہ عمل قبول فرماتا ہے ، وہ نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سوائے اس کے کہ وہ جسے معاف کر دے۔ میں ہر نیکی کے بدلے یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ مجھے کئی گنا اجر عطا فرمائے گا ۔ میں ان عظیم امور کا سامنا کر رہا ہوں جنہیں میں اور تم دونوں گن نہیں سکتے۔ میں نے اقامتِ صلوٰۃ کا نظام ،جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کے نازل کردہ احکامات کا نظام قائم کر رکھا ہے اور ایسے بھی کام ہیں اگر میں انہیں تمہیں بتادوں تو تم انہیں شمار نہیں کر سکتے ، اس بارے میں فکر کرو۔مسورؓ فرماتے ہیں کہ میں جا ن گیا کہ معاویہ ؓمجھ پر اس گفتگو میں غالب ہوگئے۔ عروہ بن الزبیرفرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا گیا کہ مسور (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی کبھی مذمت کی ہو۔ وہ تو ان کے لئے دعائے مغفرت ہی کیا کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد ج ۱ص ۲۰۸، ۲۰۹ ت ۴۹ و سندہ صحیح)

امام جعفر الصادق نے “قاسم بن محمد قال قال معاویۃ بن أبي سفیان” کی سند سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں آیا ہے کہ قاسم بن محمد (بن ابی بکر ) نے فرمایا :
“فتعجب الناس من صدق معاویۃ“ پس لوگوں کو معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی سچائی پر بڑا تعجب ہوا ۔ (تاریخ دمشق ۱۱۵/۶۲ و سندہ حسن)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ امیر معاویہؓ لوگوں کے نزدیک سچے تھے۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا :
“ما رأیت رجلاً کان أخلق یعني للملک من معاویۃ” میں نے معاویہ سے زیادہ حکومت کے لئے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد) کوئی نہیں دیکھا۔ (تاریخ دمشق ۱۲۱/۶۲ و سندہ صحیح، مصنف عبدالرزاق ۴۵۳/۱۱ ح ۲۰۹۸۵)

عرباض بن ساریہ السلمیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

((اللھم علّم معاویۃ الکتاب و الحساب ، وقہ العذاب))اےمیرے اللہ ! معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اسے عذاب سے بچا۔(مسند احمد ۱۲۷/۴ ح ۱۷۱۵۲، و سندہ حسن ، صحیح ابن خزیمہ : ۱۹۳۸)
(حارث بن زیاد و یونس بن سیف صدوقان لا ینزل حدیثہما عن درجۃ الحسن و الجرح فیہما مردود )


امیر معاویہؓ ساٹھ ہجری (۶۰؁ھ) میں فوت ہوئے ۔صحابۂ کرام ؓ کے درمیان اجتہادی وجوہ سے جو جنگیں ہوئیں ان میں سکوت کرنا چاہئے۔
امام اہل سنت احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کو برا کہتا ہے تو اس کے اسلام پر تہمت لگاؤ۔ (مناقب احمد لابن الجوزی ص ۱۶۰ و سندہ صحیح، تاریخ دمشق ۱۴۴/۶۲)
امام معافی بن عمران الموصلیؒ (متوفی ۱۸۵؁ھ) سے امیر معاویہؓ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے ساتھ کسی کو بھی برابر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ معاویہؓ آپﷺ کے صحابی، ام المؤمنین ام حبیبہؓ کے بھائی، آپ ﷺ کے کاتب اور اللہ کی وحی (لکھنے) کے امین ہیں۔ (تاریخ بغداد ۲۰۹/۱ و سندہ صحیح، الحدیث: ۱۹ ص ۵۷، تاریخ دمشق: ۱۴۳/۶۲)

امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا :
“من تنقص أحداً من أصحاب رسول اللہ ﷺ فلا ینطوی إلا علیٰ بلیۃ، ولہ خبیئۃ سوء إذا قصد إلیٰ خیر الناس وھم أصحاب رسول اللہ ﷺ” جو شخص رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک کی تنقیص کرے تو وہ اپنے اندر مصیبت چھپائے ہوئے ہے ۔ اس کے دل میں برائی ہے جس کی وجہ سے وہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر حملہ کرتا ہے حالانکہ وہ (انبیاء کرام علیہ السلام کے بعد ) لوگوں میں سب سے بہترین تھے۔ (السنۃ للخلال ۴۷۷/۲ ح ۷۵۸ وقال المحقق: إسنادہ صحیح)
ابراہیم بن میسرہ الطائفیؒ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو گالیاں دی تھیں، انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے۔ (تاریخ دمشق ۱۴۵/۶۲ و سندہ صحیح)
نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث : ۲۶ ص ۲۸،۲۷
مسند بقی بن مخلد میں امیر معاویہؓ کی بیان کردہ ایک سو تریسٹھ (۱۶۳) حدیثیں موجود ہیں۔ دیکھئے سیر اعلام النبلاء (۱۶۲/۳)
امیر معاویہ سے جریر بن عبداللہ البجلی ، السائب بن یزید الکندی ، عبداللہ بن عباس، معاویہ بن حدیج اور ابوسعید الخدری وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعینابو الشعثاء جابر بن زید، حسن بصری، سعید بن المسیب ، سعید المقبری، عطاء بن ابی رباح، محمد بن سیرین، محمد بن علی بن ابی طالب المعروف بابن الحنفیہ، ہمام بن منبہ اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف وغیرہ تابعین رحمہم اللہ نے روایت بیان کی ہے ۔ (دیکھئے تہذیب الکمال ۲۰۲،۲۰۱/۱۸)
اہل السنۃ و الجماعۃ کے نزدیک تمام صحابہ عادل (روایت میں سچے) ہیں۔ (اختصار علوم الحدیث لابن کثیر ۴۹۸/۲)
ان کے درمیان جو اجتہادی اختلافات اور جنگیں ہوئی ہیں ، ان میں وہ معذور و ماجور ہیں اور ہمیں اس بارے میں مکمل سکوت کرنا چاہئے۔ اے اللہ ! ہمار ے دلوں کو تمام صحابہ کی محبت سے بھر دے اور ان کی توہین و تنقیص سے بچا۔ آمین ۔ رضي اللہ عنھم أجمعین
 
شمولیت
جون 27، 2012
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
42
جزاک الخير محترم بھائی

اس روايت کو پيش کرنےکا مقصد صرف يہ تھاکہ شان معاويہؓ کو بيان کرنےکے لئيے ہميں ضعيف روايات کی ضرورت نہيں ہے الحمداللہ ان کی شان ميں صحيح احاديث موجود ہيں

ان شاءاللہ اُن کے فضائل اور مُناقب بھی اسی طرح صحيح احاديث سے بيان کئيے جائے گا
 
شمولیت
اگست 02، 2018
پیغامات
69
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
22
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکۃ

:((اذھب فادع لي معاویۃ)) وکان یکتب الوحي۔ إلخجاؤاور معاویہ کو بُلا لاؤ، وہ (معاویہؓ) وحی لکھتے تھے۔إلخ (دلائل النبوۃ للبیہقی ۲۴۳/۲ و سندہ حسن)
أَخْبَرَنَاهُ أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَادَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَ فَقُلْتُ: مَا جَاءَ إِلَّا إِلَيَّ فَاخْتَبَأْتُ عَلَى بَابِ فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً، فَقَالَ: «اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ» ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْوَحْيَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ فَدَعَوْتُهُ لَهُ فَقِيلَ: إِنَّهُ يَأْكُلُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: «فَاذْهَبْ فَادْعُهُ» فَأَتَيْتُهُ فَقِيلَ: إِنَّهُ يَأْكُلُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ: «لَا أَشْبَعَ اللهُ بَطْنَهُ» ، قَالَ: فَمَا شَبِعَ بَطْنُهُ، قَالَ: فَمَا شَبِعَ بَطْنُهُ أَبَدًا. وَرُوِيَ عَنْ هُرَيْمٍ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ زِيَادَةٌ تَدُلُّ عَلَى الِاسْتِجَابَةِ

بعض لوگ غلط مفہوم نکالتے ہیں کہ اس حدیث میں بدعا بھی ہے۔
برائے مہربانی اس کا ترجمہ مع صحیح مفہوم بیان کردیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بعض لوگ غلط مفہوم نکالتے ہیں کہ اس حدیث میں بدعا بھی ہے۔
برائے مہربانی اس کا ترجمہ مع صحیح مفہوم بیان کردیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ غلام مصطفی ظہیر صاحب کے ایک مضمون سے اقتباس پیش ہے؛

سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
كنت ألعب مع الصبيان، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتواريت خلف باب، قال : فجائ، فحطأني حطأة، وقال : ’اذهب، وادع لي معاوية‘، قال : فجئت، فقلت : هو يأكل، قال : ثم قال لي : ’اذهب، فادع لي معاوية‘، قال : فجئت، فقلت : هو يأكل، فقال : ”لا أشبع الله بطنه “ .

’’ میں بچوں کے ساتھ کھیل میں مصروف تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پیار سے ) میرے کندھوں کے درمیان تھپکی لگائی اور فرمایا : جاؤ اور معاویہ کو میرے پاس بلاؤ۔ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوبارہ فرمایا کہ جاؤ اور معاویہ کو میرے پاس بلاؤ۔ میں دوبارہ گیا تو وہ ابھی کھانا ہی کھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان کے پیٹ کو نہ بھرے۔“ [صحيح مسلم : 325/2، ح : 2604]
یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرتی ہے۔ اس سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام بطور بددعا نہیں تھا، بلکہ بطور مزاح اور بطور تکیہ کلام تھا۔ کلامِ عرب میں ایسی عبارات کا بطور مزاح یا بطورِ تکیہ کلام استعمال ہونا ایک عام بات ہے۔ عربی لغت و ادب کے ادنیٰ طلبہ بھی اس سے واقف ہیں۔
◈ مشہور لغوی، شارحِ مسلم، حافظ یحییٰ بن شرف نووی رحمہ اللہ (676-631 ھ) فرماتے ہیں :
إن ما وقع من سبه ودعائه ونحوه، ليس بمقصود، بل هو مما جرت به عادة العرب فى وصل كلامها بلا نية، كقوله : ”تربت يمينك“، ”وعقرٰي حلقٰي‘، وفي هٰذا الحديث : ”لا كبرت سنك“، وفي حديث معاوية : ”لا أشبع الله بطنه“، ونحو ذٰلك، لا يقصدون بشيئ من ذٰلك حقيقة الدعاء .

’’ بعض احادیث میں (صحابہ کرام کے لیے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بددعا وغیرہ منقول ہے، وہ حقیقت میں بددعا نہیں، بلکہ یہ ان باتوں میں سے ہے جو عرب لوگ بغیر نیت کے بطور تکیہ کلام بول دیتے ہیں۔ (بعض احادیث میں کسی صحابی کو تعلیم دیتے ہوئے ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ تربت يمينك (تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو)، (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ ) عقرى حلقي (تو بانجھ ہو اور تیرے حلق میں بیماری ہو)، اس حدیث میں یہ فرمان کہ لا كبرت سنك (تیری عمر زیادہ نہ ہو) اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ لا اشبع الله بطنه (اللہ تعالیٰ ان کا پیٹ نہ بھرے )، یہ ساری باتیں اسی قبیل سے ہیں۔ ایسی باتوں سے اہل عرب بددعا مراد نہیں لیتے۔“ [شرح صحيح مسلم: 152/16]
◈ مشہورلغوی، ابومنصور، محمد بن احمد، ازہری (م : 370 ھ) ایسے کلمات کے بارے میں : مستند لغوی ابوعبید سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وهٰذا علٰي مذهب العرب فى الدعائ على الشيئ من غير إرادة لوقوعه، لا يراد به الوقوع .

’’ ایسی باتیں عربوں کے اس طریقے کے مطابق ہیں، جس میں وہ کسی کے بارے میں بددعا کرتے ہیں لیکن اس کے وقوع کا ارادہ نہیں کرتے، یعنی بددعا کا پورا ہو جانا مراد ہی نہیں ہوتا۔“ [تهذيب اللغة : 145/1]
شارحِ صحیح بخاری، علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (م : 449 ھ) اس طرح کی ایک عبارت کے بارے میں فرماتے ہیں :
هي كلمة لا يراد بها الدعائ، وإنما تستعمل فى المدح، كما قالوا للشاعر، إذا أجاد، : قاتله الله، لقد أجاد .

’’ یہ ایسا کلمہ ہے کہ اس سے بددعا مراد نہیں ہوتی۔ اسے صرف تعریف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ جب کوئی شاعر عمدہ شعر کہے تو عرب لوگ کہتے ہیں : قاتله الله ”اللہ تعالیٰ اسے مارے“، اس نے عمدہ شعر کہا ہے۔“ [شرح صحيح البخاري : 329/9]
صحیح مسلم کی یہ حدیث اسی معنی و مفہوم کی مؤید ہے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كانت عند أم سليم يتيمة، وهى أم أنس، فرآي رسول الله صلى الله عليه وسلم اليتيمة، فقال : ’آنت هيه؟ لقد كبرت، لا كبر سنك‘، فرجعت اليتيمة إلٰي أم سليم تبكي، فقالت أم سليم : ما لك يا بنية؟ قالت الجارية : دعا على نبي الله صلى الله عليه وسلم، أن لا يكبر سني، فالآن لا يكبر سني أبدا، أو قالت : قرني، فخرجت أم سليم مستعجلة تلوث خمارها، حتٰي لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم : ’ما لك يا أم سليم؟‘ فقالت : يا نبي الله ! أدعوت علٰي يتيمتي، قال : وما ذاك يا أم سليم ؟ قالت : زعمت أنك دعوت أن لا يكبر سنها، ولا يكبر قرنها، قال فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال : ’يا أم سليم ! أما تعلمين أن شرطي علٰي ربي، أني اشترطت علٰي ربي، فقلت : إنما أنا بشر، أرضٰي كما يرضي البشر، وأغضب كما يغضب البشر، فأيما أحد دعوت عليه، من أمتي، بدعوة ليس لها بأهل، أن يجعلها له طهورا وزكاة، وقربة يقربه بها منه يوم القيامة‘ .

’’ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں، ان کے ہاں ایک لڑکی، تھی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو دیکھا تو فرمایا : یہ تو ہے ؟ تو تو بڑی ہو گئی ہے۔ تیری عمر بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر وہ لڑکی روتی ہوئی سیدہ ام سلیم کی طرف دوڑی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا : بیٹی ! تجھے کیا ہوا ؟ اس نے عرض کیا : میرے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا فرما دی ہے کہ میری عمر نہ بڑھے۔ اب تو میری عمر کبھی نہیں بڑھے گی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے اپنی چادر زمین پر گھسیٹتے ہوئے گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ام سلیم ! آپ کو کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! آپ نے اس لڑکی کے لیے بددعا فرمائی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بات کیا ہے ؟ عرض کیا : لڑکی کہتی ہے کہ آپ نے اس کو یہ بددعا دی ہے کہ اس کی عمر نہ بڑھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : ام سلیم ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنے رب سے یہ شرط منظور کرائی ہے اور دُعا کی ہے کہ میں ایک انسان ہوں، انسانوں کی طرح راضی بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔ لہٰذا جس کے لیے بھی میں بددعا کر دوں جس کا وہ مستحق نہ ہو، تو اس بددعا کو اس کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور طہارت بنا دے، نیز اس بددعا کو روزِ قیامت اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے۔“ [صحيح مسلم : 2603]
اب کوئی بتائے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو کسی ناراضی یا غصہ کی بنا پر یہ الفاظ کہے تھے، جو اس لڑکی اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے لیے پریشانی کا سبب بھی بن گئے ؟ اور کیا ان الفاظ سے اس لڑکی کی کوئی تنقیص ثابت ہوتی ہے ؟ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ یہ الفاظ بطور بددعا نہیں تھے اور ایسے الفاظ یقیناً سننے والے کے لیے بسا اوقات پریشانی کا سبب بن جاتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کر دی کہ اللہ تعالیٰ ایسے الفاظ کو مخاطبیں کے لیے اجر و ثواب اور اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے اسی حدیث کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ : لا اشبع الله بطنه ’’ اللہ تعالیٰ ان کا پیٹ نہ بھرے۔“

یوں یہ الفاظ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے باعث تقرب الٰہی اور باعث منقبت و فضیلت ہیں۔ علمائے اہل سنت و اہل حق کا یہی فہم ہے۔
◈ اسی لیے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
فركب مسلم من الحديث الـأول، وهٰذا الحديث فضيلة لمعاوية .

’’ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو پہلی حدیث کے متصل بعد ذکر کیا ہے۔ یوں اس حدیث سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔“ [البداية والنهاية : 120-119/8]
◈ وکیل صحابہ، شارحِ صحیح مسلم، حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631 ھ) فرماتے ہیں :
وقد فهم مسلم رحمه الله من هٰذا الحديث أن معاوية لم يكن مستحقا للدعائ عليه، فلهٰذا أدخله فى هٰذا الباب، وجعله غيره من مناقب معاوية، لأنه فى الحقيقة يصير دعاء له .

’’ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ فہم لیا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بددعا کے مستحق نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا ہے۔ امام مسلم کے علاوہ دیگر اہل علم نے بھی اس حدیث کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں شامل کیا ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ حقیقت میں ان کے لیے دُعا بن گئے تھے۔“ [شرح صحيح مسلم : 156/16]
یہ تو بات تھی ان الفاظ کے بارے میں جو بطور مدح وتکیہ کلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے صادر ہوئے تھے، جبکہ معاملہ اس سے بھی کہیں آگے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کرام کے لیے بتقاضائے بشریت حقیقی بددعا کر دی، اللہ تعالیٰ نے اس بددعا کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے ان کے لیے باعث رحمت بنا دیا، جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے :
اللهم ! إنما أنا بشر، فأيما رجل من المسلمين سببته، أو لعنته، أو جلدته، فاجعلها له زكاة ورحمة

’’ اے اللہ ! میں ایک بشر ہوں، لہٰذا مسلمانوں میں سے جس شخص کو میں برا بھلا کہوں یا اس کے لیے بددعا کروں یا اسے ماروں تو ان چیزوں کو اس کے لیے پاکیزگی اور رحمت بنا دے۔“ [صحيح مسلم : 89/2601]
❀ ایک روایت (صحيح مسلم : 91/2601) میں یہ الفاظ ہیں :
اللهم ! إنما محمد بشر، يغضب كما يغضب البشر، وإني قد اتخذت عندك عهدا لن تخلفنيه، فأيما مؤمن آذيته، أو سببته، أو جلدته، فاجعلها له كفارة، وقربة، تقربه بها إليك يوم القيامة

’’ اے اللہ ! بلاشبہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بشر ہیں، انہیں انسانوں کی طرح غصہ آ جاتا ہے۔ میں نے تجھ سے ایسا وعدہ لیا ہوا ہے، جس کو تو نہیں توڑے گا۔ وہ یہ ہے کہ جس مؤمن کو میں تکلیف دوں یا اسے برا بھلا کہوں یا اسے ماروں، تو ان چیزوں کو اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بنا دے اور روزِ قیامت دے ان چیزوں کو اس کے لیے اپنے تقرب کا ذریعہ بنا دے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
دخل علٰي رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان، فكلماه بشيئ، لا أدري ما هو، فأغضباه، فلعنهما، وسبهما، فلما خرجا، قلت : يا رسول الله ! من أصاب من الخير شيئا، ما أصابه هذان، قال : ’وما ذاك؟‘ قالت : قلت : لعنتهما وسببتهما، قال : ’أو ما علمت ما شارطت عليه ربي؟‘، قلت : ’اللهم ! إنما أنا بشر، ف أى المسلمين لعنته، أو سببته، فاجعله له زكاة وأجرا‘ .

’’ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات کی میں وہ بات سمجھ نہیں پائی۔ ان کی بات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا۔ آپ نے ان کو برا بھلا کہا اور بددعا دی۔ جب وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اتنی تکلیف بھی کسی کو پہنچی ہو گی جتنی ان کو پہنچی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا مطلب ؟ میں نے عرض کیا : آپ نے انہیں برا بھلا کہا اور بددعا دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ کو وہ شرط معلوم ہے جو میں نے اپنے رب پر رکھی ہے ؟ میں نے اپنے رب سے یہ شرط رکھی ہے کہ اے اللہ ! میں ایک بشر ہوں، لہٰذا جس مسلمان کو میں بددعا دوں یا برا بھلا کہوں، تو اسے اس کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور اجر کا باعث بنا دے۔“ [صحيح مسلم : 2600]
ثابت ہوا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے میں کسی صحابی کے لیے حقیقی بددعا بھی کر دی تو وہ بھی اس صحابی کے لیے اجر و ثواب اور مغفرت و تقرب الٰہی کا باعث بن گئی۔ چہ جائیکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناراض ہونے کی کوئی دلیل بھی نہیں۔
اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاخیر کی بنا پر غصے میں یہ الفاظ کہے تو بھی ہماری ذکر کردہ احادیث کی روشنی میں یہ الفاظ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت اور تقربِ الٰہی کی بین دلیل ہیں۔
اس حدیث کا سیاق بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت پر دلالت کرتا ہے، مسند طیالسی ( 2869، وسندہ صحیح ) میں اسی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
إن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم بعث إلٰي معاوية، يكتب له .

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ کے لیے وحی کی کتابت کریں۔“
یعنی اس حدیث سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا کاتب وحی ہونا ثابت ہو رہا ہے، جو کہ باجماعِ امت بہت بڑی فضیلت و منقبت اور شرف ہے۔ اسی لیے :
حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ (571-499 ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
وأصح ما روي فى فضل معاوية .

’’ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں مروی سب سے صحیح حدیث یہی ہے۔“ [تاريخ دمشق : 106/59، البداية والنهاية لابن كثير : 131/8]
◈ مشہور اہل حدیث عالم، علامہ، ناصرالدین، البانی رحمہ اللہ (1420-1332 ھ) فرماتے ہیں :
وقد يستغل بعض الفرق هٰذا الحديث، ليتخذوا منه مطعنا فى معاوية رضي الله عنه، وليس فيه ما يساعدهم علٰي ذٰلك، كيف؟ وفيه أنه كان كاتب النبى صلى الله عليه وسلم؟

’’ بعض گمراہ فرقے اس حدیث کو غلط استعمال کرتے ہوئے اس سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں جو ان کی تائید کرتی ہو۔ اس حدیث سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کیسے ثابت ہو گی، اس میں تو یہ ذکر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ِ وحی تھے ؟۔“ [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها : 82]
اتنی تصریحات کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث کی فضیلت کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت کی دلیل نہ مانے تو اس سے بڑا ظالم اور جاہل کوئی نہیں۔
➋ سیدنا عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا :
اللهم ! علمه الكتاب والحساب، وقه العذاب .

’’ اے اللہ ! انہیں قرآنِ کریم کی تفسیر اور حساب سکھا دے اور ان کو عذاب سے بچا لے۔“ [مسند الإمام أحمد : 127/4، الشريعة للآجري : 1973-1970، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (1938) اور امام ابن حبان (7210) نے ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔
اس کا راوی حارث بن زیاد شامی جمہور کے نزدیک ’’ حسن الحدیث“ ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
للحديث شاهد قوي . ’’ اس حدیث کا ایک قوی شاہد بھی موجود ہے۔“ [سير أعلام النبلاء : 124/3]
 
Last edited:
شمولیت
اگست 04، 2020
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
31
‏‏‏‏ فاطمہ، قیس کی بیٹی سے روایت ہے، کہ ابوعمرو نے ان کو طلاق دی طلاق بائن اور وہ شہر میں نہ تھے یعنی کہیں باہر تھےاور ان کی طرف ایک وکیل بھیج دیا اور تھوڑے جو روانہ کیے اور فاطمہ اس پر غصہ ہوئیں تو وکیل نے کہا کہ اللہ کی قسم! تمہارے لیے ہمارے ذمہ کچھ نہیں ہے (یعنی نفقہ وغیرہ) پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”تمہارے لیے ان کے ذمہ کچھ بھی نہیں ہے۔“ پھر حکم کیا فاطمہ کو کہ تم ام شریک کے گھر میں عدت پوری کرو پھر فرمایا: کہ ”وہ ایسی عورت ہے کہ وہاں ہمارے اصحاب بہت جمع رہتے ہیں تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت پوری کرو اس لیےکہ وہ ایک اندھے آدمی ہیں وہاں تم اپنے کپڑے اتار سکتی ہو۔ (یعنی بے تکلف رہو گی گوشہ پردہ کی تکلیف نہ ہو گی) پھر جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھ کو خبر دینا۔“ وہ کہتی ہیں کہ جب میری عدت پوری ہو گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ مجھے معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم نے نکاح کا پیغام دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”ابوجہم تو اپنی لاٹھی اپنے کندھے سے نہیں اتارتا اور معاویہ مفلس آدمی ہے کہ اس کے پاس مال نہیں، تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔“ اور مجھے یہ امر ناپسند ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: کہ ”اسامہ سے نکاح کر لو۔“ پھر میں نے ان سے نکاح کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی خیر و خوبی دی کہ مجھ پر دوسری عورتیں رشک کرنے لگیں۔


وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ، أَبِي الْجَهْمِ قَالَ سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، تَقُولُ أَرْسَلَ إِلَىَّ زَوْجِي أَبُو عَمْرِو بْنُ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ بِطَلاَقِي وَأَرْسَلَ مَعَهُ بِخَمْسَةِ آصُعِ تَمْرٍ وَخَمْسَةِ آصُعِ شَعِيرٍ فَقُلْتُ أَمَا لِي نَفَقَةٌ إِلاَّ هَذَا وَلاَ أَعْتَدُّ فِي مَنْزِلِكُمْ قَالَ لاَ ‏.‏ قَالَتْ فَشَدَدْتُ عَلَىَّ ثِيَابِي وَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ كَمْ طَلَّقَكِ ‏"‏ ‏.‏ قُلْتُ ثَلاَثًا ‏.‏ قَالَ ‏"‏ صَدَقَ لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ ‏.‏ اعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ ضَرِيرُ الْبَصَرِ تُلْقِي ثَوْبَكِ عِنْدَهُ فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُكِ فَآذِنِينِي ‏"‏ ‏.‏ قَالَتْ فَخَطَبَنِي خُطَّابٌ مِنْهُمْ مُعَاوِيَةُ وَأَبُو الْجَهْمِ ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّ مُعَاوِيَةَ تَرِبٌ خَفِيفُ الْحَالِ وَأَبُو الْجَهْمِ مِنْهُ شِدَّةٌ عَلَى النِّسَاءِ - أَوْ يَضْرِبُ النِّسَاءَ أَوْ نَحْوَ هَذَا - وَلَكِنْ عَلَيْكِ بِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ‏"‏ ‏.‏
صحيح مسلم
حدیث نمبر: 3697
 
شمولیت
اگست 04، 2020
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
31
جو لوگ سمجھتے ہیں حضرت معاویہ ؓ فقیہہ تھے ذرہ اس کو غور سے پڑھیں ! ایک حضرت نبوت کے اکیسویں سال ، سن آٹھ ہجری کے بعد وہ بھی فتح مکہ کے بعد !!!! تلوار کے سائے میں کلمہ پڑھتے ہیں ، انکی پرانے صحابہ کے ساتھ دھونس اور دھمکی دیکھیں



حدیث نمبر: 4061
حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، قال: كنت بالشام في حلقة فيها مسلم بن يسار، فجاء ابو الاشعث ، قال: قالوا: ابو الاشعث، ابو الاشعث، فجلس فقلت له: حدث اخانا حديث عبادة بن الصامت، قال: " نعم غزونا غزاة وعلى الناس معاوية، فغنمنا غنائم كثيرة، فكان فيما غنمنا آنية من فضة فامر معاوية رجلا ان يبيعها في اعطيات الناس، فتسارع الناس في ذلك، فبلغ عبادة بن الصامت فقام، فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم: ينهى عن بيع الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح إلا سواء بسواء، عينا بعين، فمن زاد او ازداد، فقد اربى فرد الناس ما اخذوا، فبلغ ذلك معاوية فقام خطيبا، فقال: الا ما بال رجال يتحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم احاديث قد كنا نشهده ونصحبه، فلم نسمعها منه، فقام عبادة بن الصامت فاعاد القصة، ثم قال: لنحدثن بما سمعنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن كره معاوية او قال: وإن رغم ما ابالي ان لا اصحبه في جنده ليلة سوداء "، قال حماد: هذا او نحوه،

‏‏‏‏ ابوقلابہ سے روایت ہے، میں شام میں چند لوگوں کے بیچ میں بیٹھا تھا اتنے میں ابوالاشعث آیا لوگوں نے کہا: ابوالاشعث، ابوالاشعث۔ وہ بیٹھ گیا میں نے اس سے کہا: تم میرے بھائی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرو اس نے کہا: اچھا ہم نے ایک جہاد کیا اس میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سردار تھے تو بہت چیزیں لوٹ میں حاصل کیں ان میں ایک برتن بھی تھا چاندی کا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا اس کے بیچنے کا لوگوں کی تنخواہ پر اور لوگوں نے جلدی کی اس کے لینے میں۔ یہ خبر سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو پہنچی وہ کھڑے ہوئے اور کہا: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع کرتے تھے سونے کو سونے کے بدلے میں بیچنے سے اور چاندی کو چاندی کے بدلے اور گیہوں کو گیہوں کے بدلے اور جو کو جو کے بدلے اور کھجور کو کھجور کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے مگر برابر برابر نقدا نقد پھر جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو «ربا» ہو گیا۔“ یہ سن کر لوگوں نے جو لیا تھا پھیر دیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی وہ خطبہ پڑھنے لگے کھڑے ہو کر، کیا حال ہے لوگوں کا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیثیں روایت کرتے ہیں جن کو ہم نے نہیں سنا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے، پھر عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور قصہ بیان کیا بعد اس کے کہا: ہم تو وہ حدیث ضرور بیان کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اگرچہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا معلوم ہو یا یوں کہا: اگرچہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذلت ہو میں پرواہ نہیں کرتا اگر ان کے ساتھ نہ رہوں ان کے لشکر میں تاریک رات میں۔ حماد نے کہا یا ایسا ہی کہا۔



حدیث نمبر: 4061

صحيح مسلم

كِتَاب الْمُسَاقَاةِ

باب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
Other vacancies for Banking, Engineering, IT, Data Entry, Teaching, Marketing, Accounting, Finance, Management, Sales, Medical, Hoteling, Nursing are updated daily. People visit us for their dream job to earn their rozee and roti online.

 
Top