• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معجزات، کرامات کی حقیقت

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں بریلویوں کے ایک عالم (مفتی فضل احمد چشتی) ایک اہل حدیث عالم (حافظ عبدالمنان راسخ) سے کچھ منطقی سوالات پوچھتا ہے جن میں سے ایک سوال کا جواب مجھے مطلوب ہے جوکہ میں سمجھ نہیں سکا، اُمید ہے اہل علم راہنمائی فرمائیں گے۔ یہ رہا ویڈیو کا لنک
معجزات اور کرامات فعل الہیٰ ( خالق) ہیں یا فعل عبد(خلق)؟
اگر فعل خالق ہیں تو فعل خالق اور فعل خلق میں فرق کس نقطے سے کریں گے؟
اس کا جواب چاہیئے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

معجزات اور کرامات فعل الہیٰ ( خالق) ہیں یا فعل عبد(خلق)؟
فقہائے حنفیہ میں امامت کے درجہ پر فائز "ھدایہ " کے مشہور شارح
حافظ کمال الدین ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں
”انھا لما کانت مما یعجز عنہ الخلق لم تکن الا فعلا للہ سبحانہ “(المسائرہ ج 2 ص 89 مع المسامرہ)
یعنی معجزہ جب ایسی چیز ہے کہ اُس کے صادر کرنے سے مخلوق عاجز ہے تو معجزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہوگا ۔
https://archive.org/details/elhilalymohamad_gmail_2_20180212/page/n89
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”المعجزة من العجز الذی ھو ضد القدرة وفی التحقیق المعجز فاعل فی غیرہ وھو اللہ سبحانہ “(مرقاة ہامش مشکوة ج 2 ص 530)
یعنی معجزہ عجز سے (مشتق ) ہے جو قدرت کی ضد ہے اور تحقیقی بات صرف یہ ہے کہ معجزہ وہ ہے جو غیر کے اندر عجز کا فعل پیدا کرے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس ہے“​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رئیس متکلمین قاضی ابو بکر ابن الطیب الباقلانی رحمہ اللہ (المتوفی 403ھ)
لکھتے ہیں :

فصل فی حقیقة المعجزة معنی قولنا ان القراٰن معجز علیٰ اصولنا انہ لایقدر العباد علیہ وقد ثبت ان المعجز الدال علیٰ صدق النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم لایصح دخولہ تحت قدرة العباد وانما ینفرد اللہ تعالیٰ بالقدرة علیہ ولا یجوزان یعجز العباد عما تستحیل قدرتھم علیہ (الیٰ ان قال) وکذلک معجزات سائر الانبیاءعلیٰ ھذا اھ ( إعجاز القرآن للباقلاني ج 1 ص 288)​
یعنی فصل معجزہ کی حقیقت میں
ہمارے اس قول کا مطلب کہ قرآن معجز ہے ہمارے اصول پر یہ ہے کہ بندے اس پر قادر نہیں ہیں اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ معجزہ جو صدق نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر دلالت کرتا ہے اس کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ بندوں کی قدرت کے تحت داخل ہے بلکہ معجز کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ ہی منفر دہے ،بھلا یہ کیسے جائز اور صحیح ہے جو یہ کہا جائے کہ بندے اس چیز سے عاجز ہوگئے جس پر ان کا قادر ہونا ہی محال ہے (پھر آگے فرمایا ) اور یہی حال ہے تمام انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلا م کے معجزات کا (کہ وہ بھی داخل تحت قدرة العباد نہیں ہیں )
دیکھئے اعجاز القرآن (طبع دارالمعارف مصر صفحہ 549 )
https://archive.org/details/I3jazAlQuran/page/n549
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ



فقہائے حنفیہ میں امامت کے درجہ پر فائز "ھدایہ " کے مشہور شارح
حافظ کمال الدین ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں
”انھا لما کانت مما یعجز عنہ الخلق لم تکن الا فعلا للہ سبحانہ “(المسائرہ ج 2 ص 89 مع المسامرہ)
یعنی معجزہ جب ایسی چیز ہے کہ اُس کے صادر کرنے سے مخلوق عاجز ہے تو معجزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہوگا ۔
https://archive.org/details/elhilalymohamad_gmail_2_20180212/page/n89
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”المعجزة من العجز الذی ھو ضد القدرة وفی التحقیق المعجز فاعل فی غیرہ وھو اللہ سبحانہ “(مرقاة ہامش مشکوة ج 2 ص 530)
یعنی معجزہ عجز سے (مشتق ) ہے جو قدرت کی ضد ہے اور تحقیقی بات صرف یہ ہے کہ معجزہ وہ ہے جو غیر کے اندر عجز کا فعل پیدا کرے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس ہے“​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رئیس متکلمین قاضی ابو بکر ابن الطیب الباقلانی رحمہ اللہ (المتوفی 403ھ)
لکھتے ہیں :

فصل فی حقیقة المعجزة معنی قولنا ان القراٰن معجز علیٰ اصولنا انہ لایقدر العباد علیہ وقد ثبت ان المعجز الدال علیٰ صدق النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم لایصح دخولہ تحت قدرة العباد وانما ینفرد اللہ تعالیٰ بالقدرة علیہ ولا یجوزان یعجز العباد عما تستحیل قدرتھم علیہ (الیٰ ان قال) وکذلک معجزات سائر الانبیاءعلیٰ ھذا اھ ( إعجاز القرآن للباقلاني ج 1 ص 288)​
یعنی فصل معجزہ کی حقیقت میں
ہمارے اس قول کا مطلب کہ قرآن معجز ہے ہمارے اصول پر یہ ہے کہ بندے اس پر قادر نہیں ہیں اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ معجزہ جو صدق نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر دلالت کرتا ہے اس کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ بندوں کی قدرت کے تحت داخل ہے بلکہ معجز کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ ہی منفر دہے ،بھلا یہ کیسے جائز اور صحیح ہے جو یہ کہا جائے کہ بندے اس چیز سے عاجز ہوگئے جس پر ان کا قادر ہونا ہی محال ہے (پھر آگے فرمایا ) اور یہی حال ہے تمام انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلا م کے معجزات کا (کہ وہ بھی داخل تحت قدرة العباد نہیں ہیں )
دیکھئے اعجاز القرآن (طبع دارالمعارف مصر صفحہ 549 )
https://archive.org/details/I3jazAlQuran/page/n549
جزاک اللہ خیرا محترم اسحاق سلفی بھائی
ایک بات تو کلئیر ہو گئی
اب اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ فعل خالق اور فعلِ خلق میں فرق کیسے کریں گے؟ کیونکہ معجزہ یا کرامت تو بظاہر بندے سے ہی ظاہر ہوتے ہیں تو یہ فرق کیسے کریں گے کہ اس پر انسان کو قدرت اور اختیار حاصل نہیں ؟؟ جیسا کہ آپ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی مثال لے لیں کہ ان کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا گیا تھا، وہ جب چاہتے ہوا کو حکم دیتے تو وہ اُن کو اُڑا لے جاتی، اب کیا اس معجزہ میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اختیار حاصل نہیں تھا۔۔۔؟؟؟
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
یوٹیوب کی یہ ویڈیو میں نے سنی زبان میرے لئے اجنبی تھی لیکن اردو سے مماثلت کی وجہ سے یا پھر علماء کے مابین گفتگو ہو رہی ہے اس وجہ سے اصل معاملہ سمجھ میں آ گیا فللہ الحمد
چستی صاحب جو کہ ایک بریلوی عالم ہیں کچھ پوچھ رہے ہیں اہل حدیث عالم دین عبد المنان راسخ صاحب سے مہینہ رمضان کا ہے اور وقت إفطار کے قریب عصر بعد کا بات قرآن کی ایک آیت اور حدیث رسول کے درمیان بظاہر تعارض سے شروع ہوتی ہے پہلے آیت اور حدیث کو دیکھ لیا جائے تاکہ معاملہ سمجھ میں آ جائے "إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ" (لقمان :34) یعنی اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے رحم مادر میں کیا ہے اور کوئی بھی نفس نہیں جانتا کل کیا کمائے گا اور کوئی بھی نفس نہیں جانتا کہ کس زمین میں مریگا بے شک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے، اور حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا نطفہ رحم مادر میں جب پہنچتا ہے تو وہ اسی شکل میں چالیس دن رہتا ہے اور پھر جمع ہوا خون بن جاتا ہے اور اس کے بعد گوشت کا لوتھڑا اور یہ بھی چالیس چالیس دن رہتا ہے اور اس طرح چار مہینے مکمل ہوجاتے ہیں اس کے بعد اللہ تعالی ایک فرشتے کو چار چیزیں لیکر بھیجتا ہے اور وہ ہیں اس کی روزی، اس کی موت، اس کا بد بخت یا نیک بخت ہونا، یہ حدیث بخاری سمیت حدیث کی مختلف کتابوں میں کچھ الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ موجود ہے (صحيح البخاري ٧٤٥٤)
چستی صاحب کا کہنا ہے قرآن اور حدیث میں تعارض ہے کیونکہ قرآن کی رو سے ماں کے پیٹ میں کیا ہے کوئی نہیں جانتا جبکہ حدیث کی رو سے یہ فرشتوں کو بتا دیا جاتا ہے اور جب فرشتوں کو یہ معلوم ہو گیا تو انبیاء کرام علیہم السلام کو کیسے معلوم نہیں ہوگا؟ جو فرشتوں سے بہر حال افضل ہیں، یہ چستی صاحب کی بات کا مختصر میں خلاصہ ہے جو میں نے سمجھا ہے اللہ جزائے خیر دے راسخ صاحب کو انہوں نے چستی صاحب کو مختصر الفاظ میں جواب دیا میں اس میں تھوڑا سا اور اضافہ کرنا چاہتا ہوں
اپنی بات! پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن اور صحیح احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے بس اس کو سمجھنے کے لئے تقلید جکڑ بندیوں سے پاک ہونا ضروری ہے
دوسری بات کسی چیز کا فرشتوں کو معلوم ہونا انسان یا انبیاء کے معلوم ہونے کو لازم نہیں ہے بہت ساری چیزیں ایک انسان کو معلوم ہوتی ہیں جبکہ دوسرے کو نہیں اس کی واضح مثال حضرت موسی علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ ہے حضرت موسی علیہ السلام جو اولوالعزم پیغمبر ہیں ان کو نہیں معلوم خضر علیہ السلام کو معلوم ہے جن کی نبوت میں ہی اختلاف ہے
چستی صاحب اگر آج کی ٹکنالوجی پر غور کر لیتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ فرشتے ہی کیا عام ڈاکٹر بھی ٹکنالوجی کی مدد سے معلوم کر سکتا ہے کہ مادر رحم میں کون ہے؟ تو کیا عام ڈاکٹر کو بھی عالم الغيب کہا جائے گا اور اگر جواب ہاں میں ہے تو اس میں انبیاء کی کیا تخصیص رہی؟ اور اگر جواب نہیں میں ہے تو دونوں میں فرق کی وضاحت کی جائے؟
اصل معاملہ یہ ہے کہ تعارض قرآن و حدیث میں نہیں ہے بلکہ دماغ سے خالی کھوپڑی میں ہے اور چونکہ عقل پر بد عقیدگی کی پٹی پڑی ہوئی ہے جس کی وجہ سے حق نظر نہیں آ رہا ہے اگر قرآن و حدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو تعارض ہے ہی نہیں، چنانچہ قرآن میں جو الفاظ ہیں وہ ہیں "ما فی الأرحام" یعنی جو چیز رحم مادر میں ہے اس میں جو لفظ "ما" آیا ہے اس کا إطلاق بے جان اور غیر عاقل کے لئے ہوتا ہے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تک نطفہ علقہ مضغہ رہتا ہے کوئی نہیں جانتا اور جب چار ماہ بعد اس کی شکل صورت بن جاتی ہے اور روح پھونک دی جاتی ہے تو فرشتوں کو ان چار چیزوں کی خبر دے دی جاتی ہے اور جب اس میں روح پھونک دی جاتی ہے تو یہ" ما" نہیں رہا بلکہ " من" ہو گیا اور یہی وقت ہوتا ہے جب انسان بھی ٹکنالوجی کی مدد سے معلوم کر لیتا ہے اور اگر چستی صاحب یا ان کے ہم نواؤں کو ضد ہے اور وہ "ما" اور "من" کے فرق کو نہیں سمجھ سکتے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آیت اپنے مفہوم میں عام ہے اور حدیث اس کے عموم کو خاص کرتی ہے مطلب یہ کہ قرآن میں چار ماہ سے پہلے کی حالت مراد ہے جبکہ حدیث میں اس کے بعد کی فافہم و تدبر!
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
معجزہ یا کرامت کی حقیقت چستی صاحب کو معلوم نہیں ہے اس لئے یہ فعل خالق اور فعل خلق کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں یا پھر مغالطہ دینا چاہتے ہیں بہر حال اس کا جواب اگلی پوسٹ میں آتا ہے
 
Last edited:
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
جزاک اللہ خیرا محترم اسحاق سلفی بھائی
ایک بات تو کلئیر ہو گئی
اب اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ فعل خالق اور فعلِ خلق میں فرق کیسے کریں گے؟ کیونکہ معجزہ یا کرامت تو بظاہر بندے سے ہی ظاہر ہوتے ہیں تو یہ فرق کیسے کریں گے کہ اس پر انسان کو قدرت اور اختیار حاصل نہیں ؟؟ جیسا کہ آپ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی مثال لے لیں کہ ان کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا گیا تھا، وہ جب چاہتے ہوا کو حکم دیتے تو وہ اُن کو اُڑا لے جاتی، اب کیا اس معجزہ میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اختیار حاصل نہیں تھا۔۔۔؟؟؟
معجزہ یا کرامت در اصل خرق عادت یا ما فوق الفطرۃ جو چیز ظاہر ہو اس کو کہتے ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے صاحب معجزہ یا کرامت کو معجزہ و کرامت کے ظہور کا علم بھی نہیں ہوتا ہے اور کبھی کبھی معلوم بھی ہوتا ہے اور جب معلوم ہوتا ہے تو اس میں دو فعل ہوتے ہیں ایک کا نام فعل خلق اور دوسرے کا نام فعل خالق، جو فعل خلق ہے وہ تو عام فعل ہوتا ہے در اصل معجزہ تو فعل خالق ہی ہوتا ہے چستی صاحب مغالطہ بازی کر کے دونوں کو ایک سمجھ بیٹھے ہیں یا سمجھانا چاہتے ہیں اس کو مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے مثلاً حضرت موسی علیہ السلام کا گریبان میں ہاتھ ڈالنا یا ڈنڈا زمیں پر پھینکنا فعل خلق ہے لیکن ہاتھ کا روشن کرنا یا ڈنڈے کا ازدہا بنا دینا فعل خالق ہے "قم بإذن اللہ " فعل خلق ہے اور مردے کا کھڑا کر دینا فعل خالق، چاند کی طرف اشارہ کرنا فعل خلق ہے اور چاند کے دو ٹکڑے کر دینا فعل خالق ہے، کبھی صاحب معجزہ کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور معجزہ یا کرامت ظاہر ہو جاتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نہیں معلوم تھا آگ ٹھنڈی ہونے والی ہے یا بیٹے کی جگہ دنبہ ذبخ ہونے والا ہے؟ اگر چستی صاحب مصر ہیں کہ نہیں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کو معلوم تھا تو یہ باطل محض ہے اور ایسی صورت میں کوئی آزمائش نہیں ہوئی!
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
رہی بات حضرت سلیمان علیہ السلام کی کہ اللہ نے ان کے لئے ہواؤں کو مسخر کردیا تھا یقیناً یہ ہمارے اور آپ کے اعتبار سے معجزہ تھا لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے نہیں، کبھی کبھی ایک ہی چیز ایک مخلوق کے لئے معجزہ ہوتی ہے جبکہ دوسری کے لئے نہیں جیسے پلک جھپکتے ہی میلوں کا فاصلہ طے کرنا ہمارے لئے خرق عادت، ما فوق الفطرۃ ہے معجزہ کرامت ہے لیکن جنوں کے لئے نہیں، آسمانوں کی سیر کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے معجزہ ہے لیکن فرشتوں کے لئے نہیں ایسے ہی بات کرنا انسان کی عام بات ہے جبکہ جانوروں کے لئے کرامت، اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہواؤں پر اختیار دیا تھا لہذا وہ جب چاہتے اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے تھے جیسے ہم بولتے، دو پیروں پر چلتے دوڑتے ہیں جبکہ چوپائے گونگے ہیں وہ دو پر نہیں چار پر چلتے ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یوٹیوب کی یہ ویڈیو میں نے سنی زبان میرے لئے اجنبی تھی لیکن اردو سے مماثلت کی وجہ سے یا پھر علماء کے مابین گفتگو ہو رہی ہے اس وجہ سے اصل معاملہ سمجھ میں آ گیا فللہ الحمد
اس مکالمہ میں آپ کیلئے جو حصہ "اجنبی زبان " کا ہے ،وہ خالص پنجابیزبان کا ہے ،اور پنجابی بھی فیصل آباد ،لاہور ،قصور کے علاقہ میں موجود لہجہ میں ہے ،
اور آپ کی پوسٹ سے پتا چلا کہ "بدایوں " میں پنجابی بالکل نہیں بولی جاتی ۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
اس مکالمہ میں آپ کیلئے جو حصہ "اجنبی زبان " کا ہے ،وہ خالص پنجابی کا زبان ہے ،اور پنجابی بھی فیصل آباد ،لاہور ،قصور کے علاقہ میں موجود لہجہ میں ہے ،
اور آپ کی پوسٹ سے پتا چلا کہ "بدایوں " میں پنجابی بالکل نہیں بولی جاتی ۔
شکریہ اسحاق بھائی مجھے لگ رہا تھا یہ پنجابی زبان ہی ہوگی، آپ نے درست کہا ہمارے یہاں پنجابی نہیں بولی جاتی ہمارے یہاں اردو یا پھر ہندی بولی جاتی ہے
بدایوں اتر پردیش انڈیا کا مشہور ضلع ہے سہسوان جہاں بشیر سہسوانی رحمہ اللہ جیسی شخصیات تھیں اسی کے تحت آتا ہے آزادی سے پہلے یہاں جماعت اہل حدیث کا ایک چھوٹا سا ادارہ بھی ہوا کرتا تھا 1947 سے پہلے جماعت کے افراد میں سے زیادہ تر لوگ پاکستان چلے گئے اور تب سے بدایوں کتاب و سنت کی صدا سے خالی تھا اکا دکا افراد عمل بالحديث سے منسلک تھے آزادی کے بعد 1999 میں پہلی مسجد بدایوں شہر میں وجود میں آئی تھی اور اب ماشاء اللہ یہاں تین مساجد اہل حدیث حضرات کی موجود ہیں ایک اور کی تیاری ہے، کسی زمانہ میں بدایوں منکرین حدیث کے لئے جانا جاتا تھا اور اہل قرآن کی تین مشہور جگہیں مدھو پور بہار انڈیا، گوجرانوالہ پاکستان، بدایوں انہیں میں سے ایک ہے منکرین حدیث کا زور بالکل ختم ہے ان میں سے بہت سارے لوگ الحمد للہ عمل بالحديث سے وابستہ ہیں، اب بدایوں بدعات و خرافات کے لئے زیادہ جانا جاتا ہے یہاں کی چھوٹی بڑی سرکار مشہور ہیں ویسے یہاں کا پیڑا بھی مشہور ہے اور زبان خالص یہی ہے جو میں نے لکھی بلکہ اس سے بھی اچھی
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بدایوں اتر پردیش انڈیا کا مشہور ضلع ہے سہسوان جہاں بشیر سہسوانی رحمہ اللہ جیسی شخصیات تھیں
ما شاء اللہ تعالیٰ
آپ نے کس شخصیت کا ذکر کردیا ، آج سے قریباً پچیس سال پہلے "حدیث فتنہ نجد " کے متعلق شیخ مکرم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے رہنمائی مانگی ، تو انہوں نے دیگر حوالوں کے ساتھ ساتھ " صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان" ألفه محمد بشير بن محمد بدر الدين السهسواني الهندي (المتوفى: 1326هـ) " پڑھنے کامشورہ دیا ،
اورتلاش بسیار سے یہ کتاب خرید کر پڑھی، یوں شیخ محمد بشیرؒ سہسوانی ہندی(المتوفی 1326 ھ) سے تعارف ہوا ،
اور اس اللہ کے ولیؒ کا ذکر ہوا ہے ،تو ساتھ ہی
ع ــــــ
مسجدکے زیر سایہ خرابات چاہیئے
کے مطابق بریلی کی مئے بانٹنے والے ایک مئے فروش کا ذکر بھی ہوجائے ،
ہمارے پنجاب میں آپ کے " بدایوں " ایک بریلوی مفتی کی وجہ سے مفت میں مشہور ہے ،
مفتی احمد یار خان بدایونی صاحب نے پاکستان میں بریلوی مذہب کو عقلی و نقلی دلائل فراہم کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ،
اور اس سلسلہ میں انہوں نے " جاء الحق " نامی کتاب میں خوب سیاہی بکھیری ،
اس کا جواب ہمارے پنجاب ہی کے ایک فاضل عالم محمد داود ارشد حفظہ اللہ نے خوب دیا ہے ؛
https://archive.org/details/DeenUlHaqqBajawabJaaUlHaqqVol1/page/n43
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top