حافظ اختر علی
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 768
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 317
[JUSTIFY]کیا بادشاہ کیا گدا،کیا امیر کیا فقیر،کیا فنکار اور کیا فن کے پرستار سب کے سب موت کےہاتھوں زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔چنانچہ معین اختر بھی چالیس سال فن کی دنیا میں راج کرنے کے بعد ۲۲ اپریل ۲۰۱۱ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کا شمارپاکستان کے ممتاز ترین کامیڈین، اداکار اور کمپیئر ز میں ہوتا تھا۔ انکی خوبی یہ تھی کہ وہ بحیثیت ایک فنکارہرکردار میں ڈھل کر اس کا حق ادا کردیتے تھے۔
معین اختر جیسے عظیم، معروف اور بڑے فن کارکی موت ہماری زندگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔کیا انسان کا مقدر اس بے بسی سے مرجانا، مٹی میں مل کر فنا ہوجانا اور کبھی واپس نہ آنے کے لئے چلے جانا ہے؟ کیا تقدیر کی الٹ پھیر میں یہی سب کچھ لکھا ہے کہ انسان محنت کرکے ایک مقام بنائے ، دولت جمع کرے، آشیانہ تعمیر کرے اور جب سکون کی گھڑیاں شروع ہوں تو موت سب کچھ چھین کر لے جائے؟ یوں تو زندگی میں پہلے ہی خوشیاں کم اور پریشانیاں زیادہ ہیں لیکن یہ کیاکہ جب سارے طوفانوں سے گذر کر زندگی کی کشتی استحکام کے ساحل تک پہنچے تو موت کا حملہ اس ناؤ کو عمیق اندھیروں میں ڈبودے۔
یہ تمام سوال درست اور ساری شکایتیں بجا ہوتیں اگر زندگی کا خاتمہ موت پر ہوجاتا۔ لیکن موت تو ابدی زندگی میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ یہ ایک محدود اور نامکمل دنیا سے لامحدود اور مکمل دنیا میں دخول کا ذریعہ ہے۔ یہ فنا درحقیقت بقا کی ضامن ہے۔ موت ایک ایسی زندگی کی ابتدا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی، جہاں کامیاب لوگوں کی بادشاہت ہمیشہ رہے گی، جہاں دولت دائمی ہوگی، جہاں لذت کامل ہوگی، جہاں کا عیش کبھی زوال پذیر نہ ہوگا، جہاں باغات ،نہریں، مشروبات، دودھ شہد، محلات، خدام، ملبوسات اور ان گنت نعمتیں ہونگی۔ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رضا ، انکی شفقت اور پیار بھری نگاہ ہوگی۔
اللہ نے اس مختصر اور عارضی دنیا کو امتحان بنا کر ہر شخص کو موقع دیا کہ وہ خدا کی کبھی نہ ختم ہونے والی جنت کاباسی بن جائے۔لیکن انسان نے ہمیشہ اسی دنیا کو جنت بنانے کی ناکام کوشش کی۔ دوسری جانب موت کا بے رحم شکنجہ اس مقام کو ایک ناقابل اعتبار مستقر ثابت کرتا رہا۔معین اختر کی موت اسی ابدی زندگی کا آغاز ہےاس مرحلے سے معین اختر تو گذر گئے اب آپ کی اور میری باری ہے۔ دیکھیں کہ آنے والا کل ہمیں ابدی طور پر کیا دیتا ہے؟ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا؟
کل من علیہا فان، ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال ولاکرام (سورہ رحمٰن)[/JUSTIFY]
(ماخوذ:پروفیسر عقیل کے مضامین)
معین اختر جیسے عظیم، معروف اور بڑے فن کارکی موت ہماری زندگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔کیا انسان کا مقدر اس بے بسی سے مرجانا، مٹی میں مل کر فنا ہوجانا اور کبھی واپس نہ آنے کے لئے چلے جانا ہے؟ کیا تقدیر کی الٹ پھیر میں یہی سب کچھ لکھا ہے کہ انسان محنت کرکے ایک مقام بنائے ، دولت جمع کرے، آشیانہ تعمیر کرے اور جب سکون کی گھڑیاں شروع ہوں تو موت سب کچھ چھین کر لے جائے؟ یوں تو زندگی میں پہلے ہی خوشیاں کم اور پریشانیاں زیادہ ہیں لیکن یہ کیاکہ جب سارے طوفانوں سے گذر کر زندگی کی کشتی استحکام کے ساحل تک پہنچے تو موت کا حملہ اس ناؤ کو عمیق اندھیروں میں ڈبودے۔
یہ تمام سوال درست اور ساری شکایتیں بجا ہوتیں اگر زندگی کا خاتمہ موت پر ہوجاتا۔ لیکن موت تو ابدی زندگی میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ یہ ایک محدود اور نامکمل دنیا سے لامحدود اور مکمل دنیا میں دخول کا ذریعہ ہے۔ یہ فنا درحقیقت بقا کی ضامن ہے۔ موت ایک ایسی زندگی کی ابتدا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی، جہاں کامیاب لوگوں کی بادشاہت ہمیشہ رہے گی، جہاں دولت دائمی ہوگی، جہاں لذت کامل ہوگی، جہاں کا عیش کبھی زوال پذیر نہ ہوگا، جہاں باغات ،نہریں، مشروبات، دودھ شہد، محلات، خدام، ملبوسات اور ان گنت نعمتیں ہونگی۔ اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رضا ، انکی شفقت اور پیار بھری نگاہ ہوگی۔
اللہ نے اس مختصر اور عارضی دنیا کو امتحان بنا کر ہر شخص کو موقع دیا کہ وہ خدا کی کبھی نہ ختم ہونے والی جنت کاباسی بن جائے۔لیکن انسان نے ہمیشہ اسی دنیا کو جنت بنانے کی ناکام کوشش کی۔ دوسری جانب موت کا بے رحم شکنجہ اس مقام کو ایک ناقابل اعتبار مستقر ثابت کرتا رہا۔معین اختر کی موت اسی ابدی زندگی کا آغاز ہےاس مرحلے سے معین اختر تو گذر گئے اب آپ کی اور میری باری ہے۔ دیکھیں کہ آنے والا کل ہمیں ابدی طور پر کیا دیتا ہے؟ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا؟
کل من علیہا فان، ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال ولاکرام (سورہ رحمٰن)[/JUSTIFY]
(ماخوذ:پروفیسر عقیل کے مضامین)