السلام علیکم!
آپ سے بھی یہ اصولی سوال ہے بھائی کہ اگر علماء قادیانیوں کے کفر پر اتفاق نہیں کرتے تو کیا اسی کفر کے ساتھ آج قادیانی آپ کے نزدیک مسلمان ہوتے؟؟؟
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ،
ایک ہے کسی کا کافر ہونا اور دوسرا ہے اس کو کافر قرار دینا۔ دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔
جیسے ایک ہے کسی کا چور یا زانی ہونا۔ اور دوسرا ہے کہ اس کو چور یا زانی قرار دے کر اس پر حد نافذ کرنا۔
اگر مثال کے طور پر گواہان کی عدم دستیابی کی وجہ سے کسی زانی پر حد نافذ نہ کی جا سکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کے ہاں بھی زانی نہیں ہے۔ لیکن دنیا میں اس کو زانی قرار دینا یا چار گواہان کی شرعی ضرورت پوری کئے بغیر حد نافذ کر دینا، بجائے خود غیر شرعی فعل ہو جائے گا۔
بعینہ یہی مثال کسی کے کافر ہونے اور اس کی تکفیر کرنے میں ہے۔
قادیانی اسی دن سے کافر تھے جس دن سے انہوں نے مرزا کو اللہ کا نبی مانا تھا۔ اور اگر علمائے کرام کے اجماع سے قبل کوئی قادیانی (جسے علماء سمیت عامیوں نے کافر قرار نہیں دیا) مر گیا تھا تو وہ بھی جہنم رسید ہی ہوا۔ ان شاء اللہ۔
لیکن علماء نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے سے قبل کچھ شرعی ضروریات پوری کیں، جس میں تکفیر کے موانع اور شرائط کو اچھی طرح جانچنے کے بعد ہی انہیں بحیثیت گروہ کافر قرار دیا گیا۔
اگر یہ شرعی ضروریات پوری نہ کی جائیں ، تو جیسے کسی زانی پر حد قائم کرنا بجائے خود گناہ کا مؤجب ہے، ایسے ہی موانع اور شرائط تکفیر کا لحاظ رکھے بغیر کسی کو کافر قرار دے دینا بجائے خود کفر مجازی میں مبتلا ہونے جیسا ہے۔
پھر آپ جو سب سے اہم بات بھول جاتے ہیں وہ یہ کہ کسی عقیدہ کے کفریہ شرکیہ ہونے پر تو نصوص ہوتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ غیراللہ کی عبادت کرنا شرک ہے بالکل جائز ہے۔ لیکن اس عقیدہ کو کسی خاص شخص یا گروہ پر نافذ کرنا، اس کی تاویل جانچنا، جہالت پر مطلع ہونا، تمام شرائط و موانع کو دیکھ بھال کر اس کے کفر کا فیصلہ کرنا، دراصل اجتہادی معاملہ ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے فعل زنا کیا ہے، چوری کیا ہے، یہ تو بالکل واضح اور صاف بات ہے۔ اس کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے اور یقین کے ساتھ کسی فعل کو زنا یا چوری قرار دے سکتا ہے اس میں کوئی ابہام نہیں۔ لیکن آیا واقعی فلاں شخص ہی چور ہے، فلاں شخص ہی زانی ہے، یہ مشاہدہ، گواہ، حالات و واقعات وغیرہ کی مدد سے جانا جاتا ہے، جو اجتہادی امر ہے۔
اسی طرح اگر کوئی دیوبندی یا بریلوی ایسا کفریہ و شرکیہ عقیدہ رکھتا ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کردینے والا ہے تو وہ دیوبندی اور بریلوی بھی کافر ہے۔انکو کافر کہنے اور سمجھنے کے لئے علماء کے فتوؤں کا انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ شرعی نصوص پر فیصلہ کیا جائے گا۔لہٰذاکسی گروہ یا شخص کی تکفیر پر علماء کے اتفاق کی شرط بھی باطل ہے۔
عقیدہ وحدۃ الوجود کے کفریہ شرکیہ ہونے پر آپ قرآن و حدیث کی نصوص پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اس عقیدہ کا کسی شخص میں موجود ہونا، اس کی تاویل پر مطلع ہونا، اس کی جہالت کا اندازہ کرنا، اس پر اتمام حجت کرنا، یہ سب معاملات اجتہادی ہیں۔ اور اجتہاد میں غلطی کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔لہٰذا اس سنگین اجتہادی معاملے میں علماء کا اتفاق کرنا ضروری ہے۔
جیسے آپ کسی شخص کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لیں، تب بھی اسے زانی قرار نہیں دے سکتے اور اس پر حدود قائم نہیں کر سکتے، جب تک کہ آپ کے پاس مزید گواہان نہ ہوں۔ ہم شرعی طور پر مکلف ہیں اس بات کے کہ جب تک قاضی پوری تحقیق کے بعد اسے چور یا زانی قرار نہ دے، تب تک وہ شخص چور یا زانی نہیں کہلایا جا سکتا۔
بعینہ تکفیر کا معاملہ ہے۔ کوئی شخص خود اقرار کر لے کہ وہ غیراللہ سے مدد مانگتا ہے، تب بھی ہم اسے مشرک یا کافر قرار نہیں دے سکتے جب تک کہ جہالت، اکراہ، اور دیگر شرائط و موانع کو علمائے کرام جانچ کر اس کی تکفیر پر متفق نہ ہو جائیں۔ (جیسے آپ نے اوپر تسلیم کیا کہ کسی کا جہل اس کے کافر قرار دئے جانے میں مانع ہو سکتا ہے۔)
عامی کا معین تکفیر میں مبتلا ہونا ایسا ہی ہے، جیسے آپ کے گھر میں چور آئے، آپ اسے پکڑ لیں اور وہیں حد قائم کر کے اس کے ہاتھ کاٹ ڈالیں۔ ثبوت پیش کرنے جائیں تو دونوں چیزوں کا ثبوت شریعت سے موجود ہے۔ یعنی اس کا چور ہونا تو بداہتاً آپ کے نزدیک ثابت تھا، اور حد قائم کرنے کا ثبوت جابجا شریعت سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جو چیز غلط تھی، وہ یہ کہ یہ حد قائم کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری تھی نہ کہ آپ کی۔ آپ کے پاس یہ منصب نہیں کہ آپ حد قائم کر کے کسی کے ہاتھ کاٹ ڈالیں۔ حالانکہ یہ معاملہ قاضی کے پاس جاتا تو شاید وہ بھی ہاتھ ہی کاٹتا، لیکن اس کا ہاتھ کاٹنا عین مطلوب شریعت، اور آپ کا ہاتھ کاٹنا دنیاوی سزا اور اخروی گناہ کا باعث۔
شاید آپ کو نہیں معلوم کہ قادیانیوں کو اس لئے کافر نہیں کہا جاتا کہ انکی تکفیر پر اہل علم نے اتفاق کرلیا ہے بلکہ انکے کفریہ عقائد کی بنا پر انہیں کافر کہا جاتا ہے۔
معین تکفیر کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو اخروی لحاظ سے ہے۔ وہ بات آپ کی درست ہے کہ ایک شخص اگر واقعتاً کافر ہے تو دنیا میں علماء کا اس کے کفر پر اتفاق نہ کرنا، یا پوری دنیا کا اسے مسلمان سمجھنا بھی اسے مسلمان نہیں بنا سکتا۔ اور ایسا شخص باوجود اس کے کہ دنیا میں مسلمان سمجھا جاتا رہا، آخرت میں یا اللہ کے نزدیک مسلمان نہیں ہو سکتا۔
دوسرا پہلو دنیاوی ہے۔ کسی کو کافر قرار دے دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کے حقوق ضبط کر لئے جائیں۔ اس کا ذبیحہ حرام، اس کا خانہ کعبہ میں داخلہ ممنوع، اس کی مسلمان بیوی یا کافر بیوی کا مسلمان شوہر ، ان کا نکاح باطل۔ اس کو اسلامی ریاست میں کوئی منصب دینا ممنوع، بلکہ اگر وہ شخص پہلے مسلمان سمجھا جاتا رہا ہے اور بعد میں کسی کفریہ شرکیہ فعل میں ملوث ہوا ہے، تو اسے مرتد قرار دے کر قتل کر دینا؟ یہ سب دنیاوی معاملات ہیں۔ اور زنا و چوری کی طرح دنیاوی معاملات کے فیصلے کرنے کے لئے کچھ شرائط و موانع ہوتے ہیں۔ کچھ شرعی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا لازمی ٹھہرتا ہے۔ کچھ خاص منصب کے لوگ ہی وہ فیصلے لے سکتے ہیں نا کہ ہر شخص۔
ہاں، ایک مرتبہ جیسے قاضی نے کسی شخص کو چور یا زانی قرار دے دیا، اب معاشرے میں عام لوگ بھی اسے اتباعاً چور یا زانی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل ہی اگر کوئی ایسا کرتا ہے، تو اس پر ہتک عزت یا شرعاً تہمت کے الزام میں سزا دی جا سکتی ہے، چاہے جس پر الزام لگایا گیا وہ شخص حقیقتاً چور ہی کیوں نہ ہو، اور فقط گواہان کی عدم دستیابی کےسبب بچ نکلا ہو۔
اسی طرح ہم بھی انہی لوگوں کی تکفیر کر سکتے ہیں، جنہیں علمائے کرام اپنے متفقہ اجتہاد سے کافر قرار دے ڈالیں۔ قادیانیوں کے علاوہ کسی کی مثال لینی ہو تو یہ دیکھئے کہ غلام احمد پرویز بھی منکر حدیث ہیں، اور غامدی صاحب بھی اسی راہ کے مسافر ہیں۔ لیکن پرویز صاحب کے کفر پر کم و بیش ایک ہزار علماء کا اتفاق ہے۔ غامدی صاحب کو آپ گمراہ، ضال و مضل کہیں، فتنہ قرار دیں، جو کہیں۔ علماء نے ان کو کافر قرار نہیں دیا یا اس کے کفر پر جمع نہیں ہوئے تو ہمارا منصب نہیں کہ تمام علماء کو منافق، کاہل یا لاعلم و جاہل قرار دیتے ہوئے غامدی صاحب کو کافر قرار دینا شروع کر دیں۔