• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معین اور مطلقا تکفیر میں بنیادی فرق

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

یہ آپکی غلط فہمی ہے بھائی کہ تکفیر معین صرف علماء ہی کرتے ہیں۔ کیا آپ اور دوسرے دیگر عام لوگ قادیانیوں کی معین تکفیر نہیں کرتے؟
ارے بھائی علماء نے قادیانیوں کو پہلے کافر قرار دیا ہے اس لئے بعد میں ہم کہہ رہے وگرنہ جب تک علماء ان متفق رائے نہی ہوئے اس وقت انہیں کافر کہنے میں احتیاط برتا گیا ہے۔اگر ہم قادیانیوں کے حوالے سے تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ایک سو سال تک تقریبا ان کا مسلہ تحقیق و اجتہاد میں رہا ہے اور یہ جو آج بڑے آرام سے ہم انہیں کافر کہہ دیتے ہیں اس کے لئے بڑی طویل جدوجہد سے گزرنا پڑا ہے بھائی ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اگر آپ اس حدیث کے باقی طرق جمع کریں گے تو کسی کو کافر سمجھ کر یا نہ سمجھ کر کافر کہنے والا معاملہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔چناچہ ملاحظہ کریں:
صحیح مسلم میں اس حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہےتووہ کفر دونوں میں سے کسی پر ضرور پلٹے گا۔
اور صحیح مسلم میں ہی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہہ کر پکارے تو دونوں میں سے ایک پرکفر آجاۓگا۔اگر وہ شخص جس کو اس نے پکارا کافر ہے توخیر ورنہ پکارنے والے پر لوٹ آۓ گا۔ ابن حبان کی حدیث میں الفاظ یہ ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کو کافر کہا اگر واقعی کافر تھاتب تو ٹھیک اگر نہیں تو یہ خودکفر میں پھس گیا۔(خود کافر ہو گیا۔)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

محترم بھائی میں نے اپنے مضمون کا لنک اس لئے دیا تھا کہ اس میں ہر بات کا جواب موجود ہے لیکن آپ نے اسے پڑھے بغیر اعتراض کردیا۔ بہرحال مکرر عرض کردیتا ہوں کہ محدیثین کرام کے نزدیک یہ تمام احادیث اس شخص کے بارے میں جو اپنے بھائی کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ مسلمان ہے لیکن کسی عناد، بغض، دشمنی کی بنا پر یا بلاوجہ ہی اسے کافر کہتا ہے۔ مطلب یہ کہ حدیث کے مطابق کسی کو کافر کہنے والا صرف اسی صورت میں کافر ہوگا جب وہ جانتے بوجھتے ہوئے ایک مسلمان کو کافر کہہ رہا ہو۔ چناچہ محدث گوندلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کا نہ صحیح محمل سمجھا، نہ کفر کا مفہوم معلوم کیا۔حدیث کا صحیح محمل محدثین نے بتایا ہے کہ کسی مسلمان کو مسلمان سمجھتا ہوا کافر کہے تو اس پر یہ فتویٰ چسپاں ہوتاہے۔ (مقالات محدث گوندلوی رحمہ اللہ، صفحہ 164)

اسکے برعکس اگر کسی شخص کو اس بنا پر کافر کہا جائے کہ اس میں کفر یا شرک پایا جاتا ہے جیسے کوئی غیراللہ کو پکارتا ہے جیسے بریلوی یا کوئی قبروں سے فیض حاصل ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے جیسے دیوبندی وغیرہ تو ایسے شخص کو کافر کہہ دینے سے کہنے والا ہرگز کافر نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔

جبکہ آپ بریلویوں اور دیوبندیوں میں کفر اور شرک کی موجودگی کے باوجود بھی ان کو کافر نہیں کہتے کیونکہ آپ کا خیال ہے کہ حدیث میں اسکی ممانعت ہے اور ایسا کہنے والا کا ایمان میں خطرے میں رہتا ہے تو آپکا یہ خیال سراسر غلط ہے۔ مزید تفصیل میرے مضمون میں۔

ابوداود میں ایک واقعہ ہے جو رسول اللہﷺ نے بنی اسرائیل کے بارے میں بیان فرمایا:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی ایک دوسرے کے بھائی بنے ہوۓتھے۔ ان دونوں میں سے ایک تو گناہ گار تھا اور دوسرا عبادت میں کوشش کرنے والا تھا۔ عبادت کی جدوجہد میں لگے رہنے والا ہمیشہ دوسرے کو گناہ کرتا ہی دیکھتا تھا اور اسے کہتا تھا کہ ان گناہوں سے رک جا ایک روز اس نے اسے کوئی گناہ کرتے ہوئے پایا تو اس سے کہا کہ اس گناہ سے رک جا تو گناہ گار نے کہا کہ مجھے میرے رب کیساتھ چھوڑ دے۔ کیا تو مجھ پر نگران بنا کر بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ تیری مغفرت نہیں کریں گے یا کہا کہ اللہ تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا پھر ان دونوں کی روحیں قبض کرلی گئیں تو دونوں کی روحیں رب العالمین کے سامنے جمع ہوئیں تو اللہ نے عابد سے فرمایا کہ کیا تو اس چیز پر جو میرے قبضہ قدرت میں ہے قادر ہے؟ اور گناہ گار سے فرمایا کہ جا جنت میں داخل ہو جا میری رحمت کی بدولت اور دوسرے (عابد) سے فرمایا کہ اسے جہنم کی طرف لے جاؤ، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس عابد نے ایسا کلمہ کہہ دیا جس نے اس کی دنیا و آخرت دونوں تباہ کردیں۔
الفاظ پر اگر غور کیا جاۓ تو معلوم ہو گا اس نے کہا کہ"خدا کی قسم اللہ تعالیٰ تیری مغفرت نہیں کریں گے یا کہا کہ اللہ تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا"جنت اللہ تعالٰی نے کن لوگوں پر حرام کردی ہے؟ظاہر ہے کافر اور مشرک پر۔اس شخص نے بھی اس کو کافر اور مشرک ہی کہا تھا اور نتیجہ کیا نکلا وہ آپ خود ہی پڑھ سکتے ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس حدیث کو سمجھنے میں زبردست ٹھوکر کھائی ہے۔ کیونکہ عابد کا جرم یہ نہیں تھا کہ اس نے اپنے بھائی کو کافر و مشرک سمجھا بلکہ اس اصل جرم یہ تھا کہ اس نے اللہ پر قسم کھائی تھی چونکہ اللہ مالک و مختار ہے جو چاہے سو کرتا ہے تو کسی کو بھی اختیار نہیں کہ اللہ پر قسم اٹھا کر کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا دعویٰ کرے۔ دیکھئے حدیث کے یہ الفاظ
اللہ نے عابد سے فرمایا کہ کیا تو اس چیز پر جو میرے قبضہ قدرت میں ہے قادر ہے؟
فیصلہ کررہے ہیں کہ عابد کا جرم اللہ کی قدرت میں شریک ہوکر خود شرک میں مبتلا ہوجانا تھا کہ ایک چیز اللہ کے اختیار میں ہے جسے اس نے اپنے اختیار میں لے لیا تھا۔ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ کسے جہنم میں ڈالےگا اور کسے نہیں لیکن عابد نے یقینی طور پر یہ دعویٰ کردیا کہ اللہ اس کے بھائی کو جنت میں داخل نہیں کرےگا۔ لہٰذا یہ حدیث زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔

لیکن میں آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ
حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ حنین کے لئے نکلے تو مشرکوں کے ایک درخت کے پاس سے گزرے جس کو ذات نواط کہا جاتا تھا اور وہ اس کے ساتھ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے بھی ان کی طرح کا ذات نواط مقرر فرما دیں آپ نے سُبْحَانَ اللَّهِ کہا اور فرمایا یہ تو ایسا ہی سوال ہے جیسا حضرت موسیٰ سے ان کی قوم نے کیا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دیں جیسا ان کے لئے ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور پہلی امتوں کا راستہ اختیار کرو گے
الفاظ پر اگر غور کیا جاۓ تو صحابی رسول ﷺ نے کیا فرمایا؟انھوں نے فرمایا تھا کہ"ہمارے لئے بھی ان کی طرح کا ذات نواط مقرر فرما دیں"اور رسول اللہﷺ نے ان کو جواب دیا کہ"یہ ایسا ہی سوال ہے جیسا حضرت موسیٰ سے ان کی قوم نے کیا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دیں جیسا ان کے لئے ہے"رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ ویسا ہی ہے جیسا حضرت موسیٰ کی قوم نے ان سے کہا کہ ہمیں بھی معبود بنا دے۔اللہ کے رسولﷺ نے ان کو فرمایا کہ یہ سوال جو تم نے کیا ہے وہ معبود مانگنے جیسا ہے۔اور معبود مانگنا شرک ہے یا ایمان ہے؟ظاہر ہے شرک ہے لیکن اللہ کے رسولﷺ نے ان کو کہا کہ تم نے شرکیہ کلمہ زبان سے نکلا ہےتو اب تم اسلام سے باہر گئے اب؟نہیں کہا کیو نکہ حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوۓ تھے اور یہ واقعہ فتح مکہ کو اسلام لاۓتھے اور اس وقت تک اسلام کے کتنے احکام آچکے تھے۔لیکن وہ جانتے نہیں تھے اس لئے ان کو اللہ کے رسولؐ نے مشرک قرار نہیں دیا۔
یہاں بھی بنا سوچے اور حدیث کو سمجھے بغیر آپ نے اعتراض کیا ہے۔ اگر آپ میرا مضمون پڑھ لیتے تو ان تمام باتوں کا تفصیلی جواب وہاں موجود پاتے۔ لیکن آپ کی آسانی کے لئے میں یہیں جواب دے دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے یہاں بھی لکھا ہے کہ کچھ مخصوص صورتیں ایسی ہیں جہاں موانع تکفیر کو دیکھا جائے گا جن میں سے ایک یہ ہے کہ شرک اور کفر ایسے شخص سے سرزد ہونا جو نیا نیا مسلمان ہوا ہو اور ابھی پوری طرح دین سے واقف نہ ہو یا پھر وہ کسی ایسی جگہ پر مقیم ہو جہاں علم تک اس کی رسائی نہ ہو تو ایسے شخص کی تکفیر سے پہلے اسے علم پہنچایا جائے گا لیکن اگر علم پہنچنے کے بعد بھی وہ انکاری ہوا تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔

جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں یہ وضاحت موجود ہے (جیساکہ آپ نے بھی لکھا ہے) کہ جنہوں نے یہ فرمائش کی تھی وہ نئے نئےمسلمان تھے اور انہیں علم نہیں تھا اسی بنا پر انکی تکفیر نہیں کی گئی بلکہ انہیں علم دیا گیا لیکن اگر وہ علم کے بعد بھی اپنے مطالبے پر جمے رہتے تو انکی تکفیر کی جاتی۔


میرا مطلب یہ نہیں تھا جو آپ سمجھے ہیں میرا مطلب یہ تھا کہ اگر ایک آدمی کوئی ایسا عمل سرانجام دیتا ہے جو کہ کفریہ یا شرکیہ ہے اور اس پر اہل علم متفق ہے کہ واقعی وہ کافر یا مشرک ہیں تو پھرتو عام آدمی بھی اس کی تکفیر کر سکتا ہے لیکن جب تک اہل علم اس پر متفق نہیں ہوتے اس وقت تک عام آدمی کو اس کی تکفیر کا حق حاصل نہیں ہے۔
تکفیر کے لئے اہل علم کے متفق ہونے کی شرط باطل اور لغو ہے اور بلا دلیل ہے۔ کیا آپ کے پاس ایسی کوئی دلیل ہے کہ صرف اسی صورت میں کسی کی تکفیر معین کی جائے گی جب اہل علم اس کی معین تکفیر پر اتفاق کرلیں؟ اگر ہے تو ضرور پیش کریں۔

شاید آپ کو نہیں معلوم کہ قادیانیوں کو اس لئے کافر نہیں کہا جاتا کہ انکی تکفیر پر اہل علم نے اتفاق کرلیا ہے بلکہ انکے کفریہ عقائد کی بنا پر انہیں کافر کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ غلام احمد قادیانی کے کافر ہونے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: حدیث کا صحیح محمل محدثین نے بتایا ہے کہ کسی مسلمان کو مسلمان سمجھتا ہوا کافر کہے تو اس پر یہ فتویٰ چسپاں ہوتا ہے مگر دوسرے مسلمان مرزا صاحب کو ان کے ان دعاوی کی بنا پر کافر کہتے ہیں جن میں بعض دعاوی کو آپ لوگ بھی کفر خیال کرتے ہیں۔(مقالات محدث گوندلوی، صفحہ 164)

دیکھئے۔ کتنی واضح بات ہے کہ غلام احمد قادیانی کا کافر ہونااس کے کفریہ عقیدہ کے بنا پر ہے ناکہ اس بات پر کہ مسلمانوں نے اس کے کفر پر اجماع کرلیا ہے۔ اگر غلام احمد قادیانی اور اسکے متبعین کے کفر پر امت اجماع نہ بھی کرتی پھر بھی انکے کفر پر کوئی زد نہ پڑتی بلکہ کفریہ عقائد رکھنے کی وجہ سے یہ کافر ہی ہوتے چاہے کوئی انہیں کافر کہتا یا نہیں۔اسی طرح اگر کوئی دیوبندی یا بریلوی ایسا کفریہ و شرکیہ عقیدہ رکھتا ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کردینے والا ہے تو وہ دیوبندی اور بریلوی بھی کافر ہے۔انکو کافر کہنے اور سمجھنے کے لئے علماء کے فتوؤں کا انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ شرعی نصوص پر فیصلہ کیا جائے گا۔لہٰذاکسی گروہ یا شخص کی تکفیر پر علماء کے اتفاق کی شرط بھی باطل ہے۔

اسکے علاوہ ابن عربی اور منصور حلاج کے کافر ہونے پر علماء کا اتفاق نہیں ہے بلکہ کچھ علماء کے نزدیک یہ دونوں مسلمان ہیں لیکن اسکے باوجود بھی ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہ اللہ جیسے علماء نے دو ٹوک الفاظ میں ان دونوں کو یہودیوں اور عیسائیوں سے بڑھ کر کافر قرار دیا ہے۔ اگر کسی کی معین تکفیر کے لئے علماء کا اتفاق شرط ہوتا تو ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے اہل علم کبھی ابن عربی اور منصور حلاج کی معین تکفیر نہ کرتے۔

امید ہے جو میں سمجھانا چاہ رہا ہوں وہ سمجھ میں آگیا ہوگا۔ میں نہیں چاہتا کہ کفر کی مشین گنوں کے منہ کھول کر کافر کافر کی بوچھاڑ کردی جائے لیکن کفر اکبر اور شرک اکبر میں مبتلا افراد کو مسلمان سمجھنا بھی کسی طور درست نہیں بلکہ شریعت کی کھلی مخالفت ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ارے بھائی علماء نے قادیانیوں کو پہلے کافر قرار دیا ہے اس لئے بعد میں ہم کہہ رہے وگرنہ جب تک علماء ان متفق رائے نہی ہوئے اس وقت انہیں کافر کہنے میں احتیاط برتا گیا ہے۔اگر ہم قادیانیوں کے حوالے سے تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ایک سو سال تک تقریبا ان کا مسلہ تحقیق و اجتہاد میں رہا ہے اور یہ جو آج بڑے آرام سے ہم انہیں کافر کہہ دیتے ہیں اس کے لئے بڑی طویل جدوجہد سے گزرنا پڑا ہے بھائی ۔
السلام علیکم!

آپ سے بھی یہ اصولی سوال ہے بھائی کہ اگر علماء قادیانیوں کے کفر پر اتفاق نہیں کرتے تو کیا اسی کفر کے ساتھ آج قادیانی آپ کے نزدیک مسلمان ہوتے؟؟؟
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
وعلیکم اسلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
شاہد نذیر نے کہا ہے:
مطلب یہ کہ حدیث کے مطابق کسی کو کافر کہنے والا صرف اسی صورت میں کافر ہوگا جب وہ جانتے بوجھتے ہوئے ایک مسلمان کو کافر کہہ رہا ہو۔اسکے برعکس اگر کسی شخص کو اس بنا پر کافر کہا جائے کہ اس میں کفر یا شرک پایا جاتا ہے جیسے کوئی غیراللہ کو پکارتا ہے جیسے بریلوی یا کوئی قبروں سے فیض حاصل ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے جیسے دیوبندی وغیرہ تو ایسے شخص کو کافر کہہ دینے سے کہنے والا ہرگز کافر نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث کہ الفاظ پر غور کریں کہ اگر واقعی وہ کافر تھا تو ٹھیک ورنہ اس پر لوٹے گا۔یعنی اگر وہ واقعی کافر تھا۔میرا سوال ہے آپ سے جس انسان کی تکفیر کی جارہی ہے کیسے پتا لگے گا کہ واقعی وہ کافر ہے بھی یا نہیں؟اور جہاں تک بریلوی اور دیوبندیوں کے اعمال کا تعلق ہے جو وہ کر رہے ہے وہ عمل شرکیہ ہے اور کفریہ ہے لیکن وہ یہ عمل سرانجام دینے کی وجہ سے کافر یا مشرک ہوتے ہیں یا نہیں تو اس کے لئے تکفیر کے اصولوں کو دیکھنا پڑھے گا کہ واقعی وہ اس پر پورے اترتے ہیں یا نہیں۔
شاہد نذیر نے کہا ہے:
یہ اللہ کی مرضی ہے کہ کسے جہنم میں ڈالےگا اور کسے نہیں لیکن عابد نے یقینی طور پر یہ دعویٰ کردیا کہ اللہ اس کے بھائی کو جنت میں داخل نہیں کرےگا۔ لہٰذا یہ حدیث زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔؎
جب ایک انسان دوسرے کو کافر یا مشرک کہتا ہے تو اس کا مطلب بھی تو یہی ہوتا ہے کہ وہ کافر اور مشرک ہے ۔یعنی وہ یہی کہتا ہے کہ اللہ تجھے جنت میں داخل نہیں کریں گے یا اللہ تجھے بخشے گے نہیں۔اور کیا یہ اللہ تعالٰی کے کام میں اپنے آپ کو شریک کرنا نہیں ہے؟کیونکہ جنت میں کون جاۓ گا یہ تو اللہ تعالٰی کو ہی پتا ہے اور جہنم میں کون جاۓ گا یہ بھی اللہ تعالٰی ہی جانتے ہیں اور ایک آدمی کو پتا ہی نہیں ہے کہ جس کی تکفیر میں کر رہا ہوں وہ جنتی ہے یا جہنمی تو وہ کس طرح یہ کہا سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی تجھ کو جنت میں داخل نہیں کریں گے؟۔
شاہد نذیر نے کہا ہے:
جیسا کہ میں نے یہاں بھی لکھا ہے کہ کچھ مخصوص صورتیں ایسی ہیں جہاں موانع تکفیر کو دیکھا جائے گا جن میں سے ایک یہ ہے کہ شرک اور کفر ایسے شخص سے سرزد ہونا جو نیا نیا مسلمان ہوا ہو اور ابھی پوری طرح دین سے واقف نہ ہو یا پھر وہ کسی ایسی جگہ پر مقیم ہو جہاں علم تک اس کی رسائی نہ ہو تو ایسے شخص کی تکفیر سے پہلے اسے علم پہنچایا جائے گا لیکن اگر علم پہنچنے کے بعد بھی وہ انکاری ہوا تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔
آج کل جتنا بھی شرک ہو رہا ہے وہ علماء کی ضعیف احادیث یا موضوع واقعات یاصحیح دلائل کے غلط معنی لے کر اس کو دلیل بنانے کی وجہ سے ہو رہا ہے اور عوام الناس کے پاس تو اس چیز کا اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ اس چیز کی تحقیق کریں کیا وہ واقعی متعبر ہے بھی یا نہیں؟تو انہوں نے تو ہر حال میں تقلید ہی کرنی ہے ۔کیونکہ ان کے پاس اس طرح کے ذریعے ہی نہیں کہ وہ اس کو چیک کر سکے کہ واقعی وہ حدیث صحیح ہے بھی یا نہیں؟اور سلف نے اس پر اسی طرح عمل کیا تھا؟
شاہد نذیر نے کہا ہے:
لیکن اگر وہ علم کے بعد بھی اپنے مطالبے پر جمے رہتے تو انکی تکفیر کی جاتی۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ علم ایک انسان تک پہنچ جاتا ہے لیکن وہ اس کو سمجھ ہی نہیں آتا۔میرا مطلب ہے کہ آپ نے ایک آدمی کو بتا دیا کہ یہ شرک ہے اور یہ کفر ہے لیکن اس کو آپ کی بات سمجھ ہی نہیں آئی اور وہ اس بات ہی پر باقی رہا تو کیا اس کی ناسمجھی کی وجہ سے آپ اس کو کافر قرار دے دے گے؟کیونکہ ہر انسان کی عقل ایک جیسی نہیں ہوتی۔کوئی جلدی سمجھ لیتا ہے تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آتا۔
شاہد نذیر نے کہا ہے:
تکفیر کے لئے اہل علم کے متفق ہونے کی شرط باطل اور لغو ہے اور بلا دلیل ہے۔
ایک انسان کا عقیدہ ہے کہ قبر کے اندر موجود بزرگ سنتے ہیں اور پکارنے پر مدد بھی کرتے ہیں اور یہی ایک آدمی جو کہ کسی اور شہر میں رہتا ہے اس کا بھی یہی عقیدہ ہے۔اب آپ ایک آدمی کو تو کافر یا مشرک قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسرا دوسرے علاقے میں مسلمان ہے۔اور یہ بڑی مضحکہ خیز صورت حال ہو گی۔اس لیےعلماء کا اجماع کسی کی تکفیر کے لیے اشد ضروری ہے۔
ایک حدیث یہاں پر ذکر کر دینی میں بہتر سمجھتا ہوں

سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ
حضرت معاذؓ جب شام سے آئے تو نبیؐ کو سجدہ کیا آپ نے فرمایا معاذ! یہ کیا؟ عرض کیا میں شام گیا تو دیکھا کہ اہل شام اپنے مذہبی اور عسکری رہنماؤں کو سجدہ کرتے ہیں تو میرے دل کو اچھا لگا کہ ہم آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں تو اللہ کے رسولؐ نے فرمایا! آئندہ ایسا نہ کرنا اس لئے کہ اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ غیر اللہ کو سجدہ کرے تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کو سجدہ کرے۔
یہاں پر حضرت معاذؓ رسول اللہﷺ کے سامنے سجدے میں گر گئے لیکن اللہ کے بنیﷺ نے ان کی اصلاح کی نہ کہ ان کو دائرہ اسلام سے باہر کر دیا۔اور بتا دیا کہ دوبارہ اس طرح مت کرنا۔لیکن ان کو کافر قرار نہیں دیا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
السلام علیکم!

آپ سے بھی یہ اصولی سوال ہے بھائی کہ اگر علماء قادیانیوں کے کفر پر اتفاق نہیں کرتے تو کیا اسی کفر کے ساتھ آج قادیانی آپ کے نزدیک مسلمان ہوتے؟؟؟
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ،
ایک ہے کسی کا کافر ہونا اور دوسرا ہے اس کو کافر قرار دینا۔ دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔
جیسے ایک ہے کسی کا چور یا زانی ہونا۔ اور دوسرا ہے کہ اس کو چور یا زانی قرار دے کر اس پر حد نافذ کرنا۔

اگر مثال کے طور پر گواہان کی عدم دستیابی کی وجہ سے کسی زانی پر حد نافذ نہ کی جا سکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کے ہاں بھی زانی نہیں ہے۔ لیکن دنیا میں اس کو زانی قرار دینا یا چار گواہان کی شرعی ضرورت پوری کئے بغیر حد نافذ کر دینا، بجائے خود غیر شرعی فعل ہو جائے گا۔

بعینہ یہی مثال کسی کے کافر ہونے اور اس کی تکفیر کرنے میں ہے۔
قادیانی اسی دن سے کافر تھے جس دن سے انہوں نے مرزا کو اللہ کا نبی مانا تھا۔ اور اگر علمائے کرام کے اجماع سے قبل کوئی قادیانی (جسے علماء سمیت عامیوں نے کافر قرار نہیں دیا) مر گیا تھا تو وہ بھی جہنم رسید ہی ہوا۔ ان شاء اللہ۔
لیکن علماء نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے سے قبل کچھ شرعی ضروریات پوری کیں، جس میں تکفیر کے موانع اور شرائط کو اچھی طرح جانچنے کے بعد ہی انہیں بحیثیت گروہ کافر قرار دیا گیا۔

اگر یہ شرعی ضروریات پوری نہ کی جائیں ، تو جیسے کسی زانی پر حد قائم کرنا بجائے خود گناہ کا مؤجب ہے، ایسے ہی موانع اور شرائط تکفیر کا لحاظ رکھے بغیر کسی کو کافر قرار دے دینا بجائے خود کفر مجازی میں مبتلا ہونے جیسا ہے۔

پھر آپ جو سب سے اہم بات بھول جاتے ہیں وہ یہ کہ کسی عقیدہ کے کفریہ شرکیہ ہونے پر تو نصوص ہوتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ غیراللہ کی عبادت کرنا شرک ہے بالکل جائز ہے۔ لیکن اس عقیدہ کو کسی خاص شخص یا گروہ پر نافذ کرنا، اس کی تاویل جانچنا، جہالت پر مطلع ہونا، تمام شرائط و موانع کو دیکھ بھال کر اس کے کفر کا فیصلہ کرنا، دراصل اجتہادی معاملہ ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے فعل زنا کیا ہے، چوری کیا ہے، یہ تو بالکل واضح اور صاف بات ہے۔ اس کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے اور یقین کے ساتھ کسی فعل کو زنا یا چوری قرار دے سکتا ہے اس میں کوئی ابہام نہیں۔ لیکن آیا واقعی فلاں شخص ہی چور ہے، فلاں شخص ہی زانی ہے، یہ مشاہدہ، گواہ، حالات و واقعات وغیرہ کی مدد سے جانا جاتا ہے، جو اجتہادی امر ہے۔

اسی طرح اگر کوئی دیوبندی یا بریلوی ایسا کفریہ و شرکیہ عقیدہ رکھتا ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کردینے والا ہے تو وہ دیوبندی اور بریلوی بھی کافر ہے۔انکو کافر کہنے اور سمجھنے کے لئے علماء کے فتوؤں کا انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ شرعی نصوص پر فیصلہ کیا جائے گا۔لہٰذاکسی گروہ یا شخص کی تکفیر پر علماء کے اتفاق کی شرط بھی باطل ہے۔
عقیدہ وحدۃ الوجود کے کفریہ شرکیہ ہونے پر آپ قرآن و حدیث کی نصوص پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اس عقیدہ کا کسی شخص میں موجود ہونا، اس کی تاویل پر مطلع ہونا، اس کی جہالت کا اندازہ کرنا، اس پر اتمام حجت کرنا، یہ سب معاملات اجتہادی ہیں۔ اور اجتہاد میں غلطی کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔لہٰذا اس سنگین اجتہادی معاملے میں علماء کا اتفاق کرنا ضروری ہے۔

جیسے آپ کسی شخص کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لیں، تب بھی اسے زانی قرار نہیں دے سکتے اور اس پر حدود قائم نہیں کر سکتے، جب تک کہ آپ کے پاس مزید گواہان نہ ہوں۔ ہم شرعی طور پر مکلف ہیں اس بات کے کہ جب تک قاضی پوری تحقیق کے بعد اسے چور یا زانی قرار نہ دے، تب تک وہ شخص چور یا زانی نہیں کہلایا جا سکتا۔

بعینہ تکفیر کا معاملہ ہے۔ کوئی شخص خود اقرار کر لے کہ وہ غیراللہ سے مدد مانگتا ہے، تب بھی ہم اسے مشرک یا کافر قرار نہیں دے سکتے جب تک کہ جہالت، اکراہ، اور دیگر شرائط و موانع کو علمائے کرام جانچ کر اس کی تکفیر پر متفق نہ ہو جائیں۔ (جیسے آپ نے اوپر تسلیم کیا کہ کسی کا جہل اس کے کافر قرار دئے جانے میں مانع ہو سکتا ہے۔)

عامی کا معین تکفیر میں مبتلا ہونا ایسا ہی ہے، جیسے آپ کے گھر میں چور آئے، آپ اسے پکڑ لیں اور وہیں حد قائم کر کے اس کے ہاتھ کاٹ ڈالیں۔ ثبوت پیش کرنے جائیں تو دونوں چیزوں کا ثبوت شریعت سے موجود ہے۔ یعنی اس کا چور ہونا تو بداہتاً آپ کے نزدیک ثابت تھا، اور حد قائم کرنے کا ثبوت جابجا شریعت سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جو چیز غلط تھی، وہ یہ کہ یہ حد قائم کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری تھی نہ کہ آپ کی۔ آپ کے پاس یہ منصب نہیں کہ آپ حد قائم کر کے کسی کے ہاتھ کاٹ ڈالیں۔ حالانکہ یہ معاملہ قاضی کے پاس جاتا تو شاید وہ بھی ہاتھ ہی کاٹتا، لیکن اس کا ہاتھ کاٹنا عین مطلوب شریعت، اور آپ کا ہاتھ کاٹنا دنیاوی سزا اور اخروی گناہ کا باعث۔
شاید آپ کو نہیں معلوم کہ قادیانیوں کو اس لئے کافر نہیں کہا جاتا کہ انکی تکفیر پر اہل علم نے اتفاق کرلیا ہے بلکہ انکے کفریہ عقائد کی بنا پر انہیں کافر کہا جاتا ہے۔
معین تکفیر کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو اخروی لحاظ سے ہے۔ وہ بات آپ کی درست ہے کہ ایک شخص اگر واقعتاً کافر ہے تو دنیا میں علماء کا اس کے کفر پر اتفاق نہ کرنا، یا پوری دنیا کا اسے مسلمان سمجھنا بھی اسے مسلمان نہیں بنا سکتا۔ اور ایسا شخص باوجود اس کے کہ دنیا میں مسلمان سمجھا جاتا رہا، آخرت میں یا اللہ کے نزدیک مسلمان نہیں ہو سکتا۔

دوسرا پہلو دنیاوی ہے۔ کسی کو کافر قرار دے دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کے حقوق ضبط کر لئے جائیں۔ اس کا ذبیحہ حرام، اس کا خانہ کعبہ میں داخلہ ممنوع، اس کی مسلمان بیوی یا کافر بیوی کا مسلمان شوہر ، ان کا نکاح باطل۔ اس کو اسلامی ریاست میں کوئی منصب دینا ممنوع، بلکہ اگر وہ شخص پہلے مسلمان سمجھا جاتا رہا ہے اور بعد میں کسی کفریہ شرکیہ فعل میں ملوث ہوا ہے، تو اسے مرتد قرار دے کر قتل کر دینا؟ یہ سب دنیاوی معاملات ہیں۔ اور زنا و چوری کی طرح دنیاوی معاملات کے فیصلے کرنے کے لئے کچھ شرائط و موانع ہوتے ہیں۔ کچھ شرعی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا لازمی ٹھہرتا ہے۔ کچھ خاص منصب کے لوگ ہی وہ فیصلے لے سکتے ہیں نا کہ ہر شخص۔

ہاں، ایک مرتبہ جیسے قاضی نے کسی شخص کو چور یا زانی قرار دے دیا، اب معاشرے میں عام لوگ بھی اسے اتباعاً چور یا زانی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل ہی اگر کوئی ایسا کرتا ہے، تو اس پر ہتک عزت یا شرعاً تہمت کے الزام میں سزا دی جا سکتی ہے، چاہے جس پر الزام لگایا گیا وہ شخص حقیقتاً چور ہی کیوں نہ ہو، اور فقط گواہان کی عدم دستیابی کےسبب بچ نکلا ہو۔

اسی طرح ہم بھی انہی لوگوں کی تکفیر کر سکتے ہیں، جنہیں علمائے کرام اپنے متفقہ اجتہاد سے کافر قرار دے ڈالیں۔ قادیانیوں کے علاوہ کسی کی مثال لینی ہو تو یہ دیکھئے کہ غلام احمد پرویز بھی منکر حدیث ہیں، اور غامدی صاحب بھی اسی راہ کے مسافر ہیں۔ لیکن پرویز صاحب کے کفر پر کم و بیش ایک ہزار علماء کا اتفاق ہے۔ غامدی صاحب کو آپ گمراہ، ضال و مضل کہیں، فتنہ قرار دیں، جو کہیں۔ علماء نے ان کو کافر قرار نہیں دیا یا اس کے کفر پر جمع نہیں ہوئے تو ہمارا منصب نہیں کہ تمام علماء کو منافق، کاہل یا لاعلم و جاہل قرار دیتے ہوئے غامدی صاحب کو کافر قرار دینا شروع کر دیں۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
السلام علیکم!

آپ سے بھی یہ اصولی سوال ہے بھائی کہ اگر علماء قادیانیوں کے کفر پر اتفاق نہیں کرتے تو کیا اسی کفر کے ساتھ آج قادیانی آپ کے نزدیک مسلمان ہوتے؟؟؟
جب ایک سو سال میں علماء اس میں متفق نہ تھے تو ہم گریز کیا کرتے تھے مثال کے طور پر قادیانیوں کے بارے میں ابوالکلام کا مؤقف دیکھ لجیے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ،
ایک ہے کسی کا کافر ہونا اور دوسرا ہے اس کو کافر قرار دینا۔ دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔
جیسے ایک ہے کسی کا چور یا زانی ہونا۔ اور دوسرا ہے کہ اس کو چور یا زانی قرار دے کر اس پر حد نافذ کرنا۔

اگر مثال کے طور پر گواہان کی عدم دستیابی کی وجہ سے کسی زانی پر حد نافذ نہ کی جا سکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کے ہاں بھی زانی نہیں ہے۔ لیکن دنیا میں اس کو زانی قرار دینا یا چار گواہان کی شرعی ضرورت پوری کئے بغیر حد نافذ کر دینا، بجائے خود غیر شرعی فعل ہو جائے گا۔

بعینہ یہی مثال کسی کے کافر ہونے اور اس کی تکفیر کرنے میں ہے۔
قادیانی اسی دن سے کافر تھے جس دن سے انہوں نے مرزا کو اللہ کا نبی مانا تھا۔ اور اگر علمائے کرام کے اجماع سے قبل کوئی قادیانی (جسے علماء سمیت عامیوں نے کافر قرار نہیں دیا) مر گیا تھا تو وہ بھی جہنم رسید ہی ہوا۔ ان شاء اللہ۔
لیکن علماء نے قادیانیوں کو کافر قرار دینے سے قبل کچھ شرعی ضروریات پوری کیں، جس میں تکفیر کے موانع اور شرائط کو اچھی طرح جانچنے کے بعد ہی انہیں بحیثیت گروہ کافر قرار دیا گیا۔

اگر یہ شرعی ضروریات پوری نہ کی جائیں ، تو جیسے کسی زانی پر حد قائم کرنا بجائے خود گناہ کا مؤجب ہے، ایسے ہی موانع اور شرائط تکفیر کا لحاظ رکھے بغیر کسی کو کافر قرار دے دینا بجائے خود کفر مجازی میں مبتلا ہونے جیسا ہے۔

پھر آپ جو سب سے اہم بات بھول جاتے ہیں وہ یہ کہ کسی عقیدہ کے کفریہ شرکیہ ہونے پر تو نصوص ہوتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ غیراللہ کی عبادت کرنا شرک ہے بالکل جائز ہے۔ لیکن اس عقیدہ کو کسی خاص شخص یا گروہ پر نافذ کرنا، اس کی تاویل جانچنا، جہالت پر مطلع ہونا، تمام شرائط و موانع کو دیکھ بھال کر اس کے کفر کا فیصلہ کرنا، دراصل اجتہادی معاملہ ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے فعل زنا کیا ہے، چوری کیا ہے، یہ تو بالکل واضح اور صاف بات ہے۔ اس کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے اور یقین کے ساتھ کسی فعل کو زنا یا چوری قرار دے سکتا ہے اس میں کوئی ابہام نہیں۔ لیکن آیا واقعی فلاں شخص ہی چور ہے، فلاں شخص ہی زانی ہے، یہ مشاہدہ، گواہ، حالات و واقعات وغیرہ کی مدد سے جانا جاتا ہے، جو اجتہادی امر ہے۔



عقیدہ وحدۃ الوجود کے کفریہ شرکیہ ہونے پر آپ قرآن و حدیث کی نصوص پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اس عقیدہ کا کسی شخص میں موجود ہونا، اس کی تاویل پر مطلع ہونا، اس کی جہالت کا اندازہ کرنا، اس پر اتمام حجت کرنا، یہ سب معاملات اجتہادی ہیں۔ اور اجتہاد میں غلطی کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔لہٰذا اس سنگین اجتہادی معاملے میں علماء کا اتفاق کرنا ضروری ہے۔

جیسے آپ کسی شخص کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لیں، تب بھی اسے زانی قرار نہیں دے سکتے اور اس پر حدود قائم نہیں کر سکتے، جب تک کہ آپ کے پاس مزید گواہان نہ ہوں۔ ہم شرعی طور پر مکلف ہیں اس بات کے کہ جب تک قاضی پوری تحقیق کے بعد اسے چور یا زانی قرار نہ دے، تب تک وہ شخص چور یا زانی نہیں کہلایا جا سکتا۔

بعینہ تکفیر کا معاملہ ہے۔ کوئی شخص خود اقرار کر لے کہ وہ غیراللہ سے مدد مانگتا ہے، تب بھی ہم اسے مشرک یا کافر قرار نہیں دے سکتے جب تک کہ جہالت، اکراہ، اور دیگر شرائط و موانع کو علمائے کرام جانچ کر اس کی تکفیر پر متفق نہ ہو جائیں۔ (جیسے آپ نے اوپر تسلیم کیا کہ کسی کا جہل اس کے کافر قرار دئے جانے میں مانع ہو سکتا ہے۔)

عامی کا معین تکفیر میں مبتلا ہونا ایسا ہی ہے، جیسے آپ کے گھر میں چور آئے، آپ اسے پکڑ لیں اور وہیں حد قائم کر کے اس کے ہاتھ کاٹ ڈالیں۔ ثبوت پیش کرنے جائیں تو دونوں چیزوں کا ثبوت شریعت سے موجود ہے۔ یعنی اس کا چور ہونا تو بداہتاً آپ کے نزدیک ثابت تھا، اور حد قائم کرنے کا ثبوت جابجا شریعت سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جو چیز غلط تھی، وہ یہ کہ یہ حد قائم کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری تھی نہ کہ آپ کی۔ آپ کے پاس یہ منصب نہیں کہ آپ حد قائم کر کے کسی کے ہاتھ کاٹ ڈالیں۔ حالانکہ یہ معاملہ قاضی کے پاس جاتا تو شاید وہ بھی ہاتھ ہی کاٹتا، لیکن اس کا ہاتھ کاٹنا عین مطلوب شریعت، اور آپ کا ہاتھ کاٹنا دنیاوی سزا اور اخروی گناہ کا باعث۔

معین تکفیر کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو اخروی لحاظ سے ہے۔ وہ بات آپ کی درست ہے کہ ایک شخص اگر واقعتاً کافر ہے تو دنیا میں علماء کا اس کے کفر پر اتفاق نہ کرنا، یا پوری دنیا کا اسے مسلمان سمجھنا بھی اسے مسلمان نہیں بنا سکتا۔ اور ایسا شخص باوجود اس کے کہ دنیا میں مسلمان سمجھا جاتا رہا، آخرت میں یا اللہ کے نزدیک مسلمان نہیں ہو سکتا۔

دوسرا پہلو دنیاوی ہے۔ کسی کو کافر قرار دے دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کے حقوق ضبط کر لئے جائیں۔ اس کا ذبیحہ حرام، اس کا خانہ کعبہ میں داخلہ ممنوع، اس کی مسلمان بیوی یا کافر بیوی کا مسلمان شوہر ، ان کا نکاح باطل۔ اس کو اسلامی ریاست میں کوئی منصب دینا ممنوع، بلکہ اگر وہ شخص پہلے مسلمان سمجھا جاتا رہا ہے اور بعد میں کسی کفریہ شرکیہ فعل میں ملوث ہوا ہے، تو اسے مرتد قرار دے کر قتل کر دینا؟ یہ سب دنیاوی معاملات ہیں۔ اور زنا و چوری کی طرح دنیاوی معاملات کے فیصلے کرنے کے لئے کچھ شرائط و موانع ہوتے ہیں۔ کچھ شرعی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا لازمی ٹھہرتا ہے۔ کچھ خاص منصب کے لوگ ہی وہ فیصلے لے سکتے ہیں نا کہ ہر شخص۔

ہاں، ایک مرتبہ جیسے قاضی نے کسی شخص کو چور یا زانی قرار دے دیا، اب معاشرے میں عام لوگ بھی اسے اتباعاً چور یا زانی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل ہی اگر کوئی ایسا کرتا ہے، تو اس پر ہتک عزت یا شرعاً تہمت کے الزام میں سزا دی جا سکتی ہے، چاہے جس پر الزام لگایا گیا وہ شخص حقیقتاً چور ہی کیوں نہ ہو، اور فقط گواہان کی عدم دستیابی کےسبب بچ نکلا ہو۔

اسی طرح ہم بھی انہی لوگوں کی تکفیر کر سکتے ہیں، جنہیں علمائے کرام اپنے متفقہ اجتہاد سے کافر قرار دے ڈالیں۔ قادیانیوں کے علاوہ کسی کی مثال لینی ہو تو یہ دیکھئے کہ غلام احمد پرویز بھی منکر حدیث ہیں، اور غامدی صاحب بھی اسی راہ کے مسافر ہیں۔ لیکن پرویز صاحب کے کفر پر کم و بیش ایک ہزار علماء کا اتفاق ہے۔ غامدی صاحب کو آپ گمراہ، ضال و مضل کہیں، فتنہ قرار دیں، جو کہیں۔ علماء نے ان کو کافر قرار نہیں دیا یا اس کے کفر پر جمع نہیں ہوئے تو ہمارا منصب نہیں کہ تمام علماء کو منافق، کاہل یا لاعلم و جاہل قرار دیتے ہوئے غامدی صاحب کو کافر قرار دینا شروع کر دیں۔
ماشاء الله آپ نے مدلل انداز میں تکفیر کے موضوع پر اپنے دلائل پیش کے ہیں - لیکن ذہن میں ابھی بھی کچھ اشکالات ہیں-

جب ہم کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والی شخص کی تکفیر معین کرتے ہیں اس کے باطل عقیدے یا نظریات کی بنیاد پر تو اعترا ض اٹھتا ہے کہ جب تک ثبوت نہ ہو یا گواہان نہ ہوں یا علماء کا اجماع نہ ہو وغیرہ - تو ایسے انسان یا گروہ پر کفر کا فتویٰ لگانا خود ایک غلط اور نا جائز جرکت ہے اور اور اس سے انسان خود کفر میں مبتلا ہو سکتا ہے -

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی عیسائی ہے یہودی ہے ہندو ہے بدھ مت ہے تو ہم ان تمام اصولوں کو بالا ے طاق رکھ کر ان کو کافر اور مشرک قرار دے دیتے ہیں - ان کے ساتھ کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے ان کی عورتوں سے شادی نا جائز ہو جاتی ہے ان کے اجتماع میں جانا ممنوع ہو جاتا ہے وغیرہ -میں ہرگز ان مذاہب کے لوگوں کا دفاع نہیں کر رہا ہے - بلکہ میرا موقف ہے کہ آخر ان مذھب کے لوگوں کو بھی انہی اصولوں کی بنیاد پر کافر کیوں نہیں قرار دیا جاتا جن اصولوں کی بنیاد پر ہم اپنے مسلمان ملک کے رہنے والوں کی تکفیر کرتے ہیں؟؟ - اگر ایک ہندو کسی بت کی پوجا کر رہا ہے یا عیسائی الله کے ساتھ حضرت عیسی علیہ سلام کو شریک ٹھرا رہا ہے تو ہمارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس تک نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی تعلیمات پہنچی ہیں یا نہیں ؟؟؟ اگر پہنچی تھیں تو کیا اس نے ان کو جان بوجھ کر جھٹلایا یا نہیں ؟؟؟ ہم کس بنیاد پر ان کو کافر قرار دیں جب کے ہر انسان اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے -

بلکہ میرے نزدیک تو ایک بریلوی یا دیوبندی کفر کا زیادہ مستحق ہے کیوں کہ جس ماحول میں ہم رہتے ہیں وہاں تعلیمات نبوی اور قرانی تعلیمات عام ہیں- اور ہر ایک کو اس بات کا اندازہ ہے کہ کیا حرام ہے اور کیا حلال - اب ہمارے ہاں اکثریت نماز نہیں پڑتی - اور نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا اس بارے میں واضح فرمان ہے کہ "من ترکه صلاتہ متعمد ا فقد کفر" (متفق علیہ) جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کفر کیا- سوال ہے کہ ایسے لوگوں کو کافر قرار دینے کے لئے کیا ہمیں علماء کا فتویٰ درکار ہے ؟؟؟ جب کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کوئی صراحت نہیں فرمائی کہ اسے کافر قرار دینے سے پہلے اس کے حالات کا جائزہ لیا جائے کہ آیا وہ انسان جو بے نمازی ہے کیا وہ نماز کی فرضیت و اہمیت کے بارے میں جانتا ہے یا نہیں-؟؟؟ اسی طرح شرک و کفر میں مبتلا ہونے کا معاملہ ہے - جب کہ ہمارے سامنے قرآن اور سنّت کی واضح نصوص موجود ہیں - کیا کسی کو اس بنا پر کفر سے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ یہ کہے کہ قرآن و سنت سے استفادہ ہی نہیں کیا -

قرآن میں جگہ جگہ یہود و نصاریٰ کا ساتھ دینے والوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور ہمارے حکمران اس کی ایک واضح مثال ہیں -لیکن ہمارا ایک طبقہ جن میں دینی علماء کرام بھی شامل ہیں - ان حکمرانوں کی اتباع کے اتنے شیدائی ہیں کہ ان کو کافر قرار دینا ان کے نزدیک ایک جرم ہے - جب کہ ان حکمرانوں کا کفر ثابت ہے - تو کیا اب ہم ان حکمرانوں کو اس بنا پر کفر سے مستثنیٰ کر دیں جب یہ کہیں کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہود و نصاریٰ کا ساتھ دینا الله کے نزدیک کفر ہے ؟؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی عیسائی ہے یہودی ہے ہندو ہے بدھ مت ہے تو ہم ان تمام اصولوں کو بالا ے طاق رکھ کر ان کو کافر اور مشرک قرار دے دیتے ہیں - ان کے ساتھ کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے ان کی عورتوں سے شادی نا جائز ہو جاتی ہے ان کے اجتماع میں جانا ممنوع ہو جاتا ہے وغیرہ -میں ہرگز ان مذاہب کے لوگوں کا دفاع نہیں کر رہا ہے - بلکہ میرا موقف ہے کہ آخر ان مذھب کے لوگوں کو بھی انہی اصولوں کی بنیاد پر کافر کیوں نہیں قرار دیا جاتا جن اصولوں کی بنیاد پر ہم اپنے مسلمان ملک کے رہنے والوں کی تکفیر کرتے ہیں؟؟
آپ ایک بنیادی غلط فہمی کا شکار ہیں۔
جن کو آپ خود عیسائی، یہودی، ہندو قرار دے رہے ہیں، انہوں نے مسلمان ہونے کا دعویٰ ہی کب کیا ہے؟ وہ خود اپنی نظر میں بھی "غیر مسلم"ہی ہیں اور ہماری نظر میں بھی "غیر مسلم"ہیں۔ غیر مسلم ہی کو اصطلاحاً کافر کہا جاتا ہے۔ انہیں کافر "قرار" دینے کی کیا ضرورت؟
یہ شرائط و موانع تو وہاں درکار ہوتے ہیں جہاں کوئی شخص یا گروہ خود کو مسلمان کہلواتا ہو اور درحقیقت وہ نہ ہو۔ جب کوئی گروہ مسلمان ہی نہ کہلوائے تو اسے تو ہر حال میں "غیر مسلم" ہی کہا جائے گا۔ کیونکہ ہم تو ظاہر ہی کے مکلف ہیں۔

بلکہ میرے نزدیک تو ایک بریلوی یا دیوبندی کفر کا زیادہ مستحق ہے کیوں کہ جس ماحول میں ہم رہتے ہیں وہاں تعلیمات نبوی اور قرانی تعلیمات عام ہیں- اور ہر ایک کو اس بات کا اندازہ ہے کہ کیا حرام ہے اور کیا حلال -
جی اسی لئے ہر ایک کو یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ جسے چاہے کافر سمجھے اور کہے۔ بلکہ علمائے کرام کی جماعت کا منصب ہے۔ ورنہ تو ہمارے اور ہماری ممدوح چھوٹی سی جماعت کے علاوہ دنیا میں کوئی مسلمان ہی نہ بچے۔

اب ہمارے ہاں اکثریت نماز نہیں پڑتی - اور نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا اس بارے میں واضح فرمان ہے کہ "من ترکه صلاتہ متعمد ا فقد کفر" (متفق علیہ) جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کفر کیا- سوال ہے کہ ایسے لوگوں کو کافر قرار دینے کے لئے کیا ہمیں علماء کا فتویٰ درکار ہے ؟؟؟ جب کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کوئی صراحت نہیں فرمائی کہ اسے کافر قرار دینے سے پہلے اس کے حالات کا جائزہ لیا جائے کہ آیا وہ انسان جو بے نمازی ہے کیا وہ نماز کی فرضیت و اہمیت کے بارے میں جانتا ہے یا نہیں-؟؟؟ اسی طرح شرک و کفر میں مبتلا ہونے کا معاملہ ہے - جب کہ ہمارے سامنے قرآن اور سنّت کی واضح نصوص موجود ہیں - کیا کسی کو اس بنا پر کفر سے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ یہ کہے کہ قرآن و سنت سے استفادہ ہی نہیں کیا -
ہمارے علماء بھی اور ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں یہی کہتے ہیں کہ جس نے نماز چھوڑی اس نے کفر کیا۔ (غیرمعین تکفیر) ۔ آپ بھی یہ تکفیر کیجئے ، ضرور کیجئے۔
لیکن خاص کسی نماز چھوڑنے والے کو کافر قرار نہیں دے سکتے کہ میرا پڑوسی کافر، اور میرا فلاں رشتے دار کافر اور میرے والد یا میرا نافرمان بیٹا بھی کافر۔ کیونکہ وہ نماز نہیں پڑھتا۔ یہ صرف "جاننے" کا معاملہ نہیں ہے۔ جیسے یہ جاننے کے باوجود کہ راشی اور مرتشی جہنمی ہیں۔ آپ کسی مرتشی افسر جس کے بارے آپ جانتے ہوں کہ یہ رشوت لیتا ہے، اور اسے معلوم بھی ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا جہنمی ہے، آپ اس کو بالجزم جہنمی قرار نہیں دیتے۔۔۔درست؟

قرآن میں جگہ جگہ یہود و نصاریٰ کا ساتھ دینے والوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور ہمارے حکمران اس کی ایک واضح مثال ہیں -لیکن ہمارا ایک طبقہ جن میں دینی علماء کرام بھی شامل ہیں - ان حکمرانوں کی اتباع کے اتنے شیدائی ہیں کہ ان کو کافر قرار دینا ان کے نزدیک ایک جرم ہے - جب کہ ان حکمرانوں کا کفر ثابت ہے - تو کیا اب ہم ان حکمرانوں کو اس بنا پر کفر سے مستثنیٰ کر دیں جب یہ کہیں کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہود و نصاریٰ کا ساتھ دینا الله کے نزدیک کفر ہے ؟؟؟
آپ اس خاص گروہ کے لٹریچر سے متاثر معلوم ہوتے ہیں، جن کا وجود ہی حکمرانوں کی تکفیر سے مشروط ہے۔ یہود و نصاریٰ کا ساتھ دینا کفر ہے، بالکل درست۔ لیکن اس کی عملی تطبیق Practical Implementation جو ان حکمرانوں پر کی جا رہی ہے یہ تو اجتہادی معاملہ ہی ہے۔ اور جب کسی کی تکفیر کا بوجھ عامیوں پر ہے ہی نہیں، تو انہیں اس فکر میں دبلا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ کسی کو کافر قرار دینا ایک ذمہ داری ہے جسے own کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو کافر قرار نہ دینا تو کوئی عمل نہیں ہے جس کی جواب دہی کی ضرورت ہو۔ واللہ اعلم۔

اس بارے میں کفایت اللہ بھائی کی بات بالکل درست ہے کہ ہم عامیوں کو ایسی بحث میں شریک ہونا بھی درست نہیں، کجا یہ کہ ہم معین تکفیر ہی کرنے لگ جائیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ،
ایک ہے کسی کا کافر ہونا اور دوسرا ہے اس کو کافر قرار دینا۔ دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔
جیسے ایک ہے کسی کا چور یا زانی ہونا۔ اور دوسرا ہے کہ اس کو چور یا زانی قرار دے کر اس پر حد نافذ کرنا۔
تکفیر معین کے سلسلے میں پہلے بھی میری شاکر صاحب سے بات ہوئي ہے ۔ غالبا یا تو میں ان کا موقف سمجھ نہیں پایا یا اپنا موقف سمجھا نہیں پایا
میرا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص شرکیہ عقیدہ کا حامل ہے تو اس کو مشرک سمجھا جائے گا
اب یہاں تکفیر کے حوالہ سے ہمارے پاس تین امور ہیں
ایک شرکیہ عقیدہ کے حامل شخص کا کافر ہونا ۔
دوسرا شرکیہ عقیدہ کے حامل شخص کو علی الاعلان کافر قرار دینا
تیسرا شرکیہ عقیدہ کے حامل شخص کو مشرک سمجھنا ۔ سمجھنے کا تعلق دل سے ہوتا ہے علی اعلان نہیں
شاکر صاحب نے مثال پیش کی جب تک چور پر شرعی حجت پوری نہیں ہوگي اس کو چور قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اسی طرح کسی فرد یا گروہ پر جب تک شرعی حجت قائم نہ ہو اس کو مشرک قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ مذید جس طرح ہرکوئي چور پر حد جاری نہیں کر سکتا ، اسی طرح کسی پر تکفیر معین کا فیصلہ ہر کوئي نہیں کرسکتا ۔ میں یہاں تک شاکر صاحب سے متفق ہوں
اختلاف تکفیر کے تیسرے پہلو میں ہے اور میں نے ہمیشہ اسی پہلو کے حوالہ سے بات کی ہے
میں نے ایک تھریڈ شروع کیا تھا پاکستانی اہل حدیث دیوبند سے منسلک افراد کوکافر کیوں سمجھتے ہیں ۔ وہاں بھی میں نے سمجھنے کی بات کی تھی نہ علی اعلان کافر قرار دینے کی
اہل حدیث حضرات نے کبھی بھی اپنے فتوی میں دیوبندیوں یا بریلویوں کو خارج از اسلام قرار نہیں دیا ، لیکن ان کی تحاریر سے مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل حدیث حضرات دیوبندیوں بریلویوں کو مشرک سمجتھے ہیں

http://forum.mohaddis.com/threads/پاکستانی-اہل-حدیث-دیوبند-سے-منسلک-افراد-کوکافر-کیوں-سمجھتے-ہیں.9100/page-3
میں اپنے موقف کی وضاحت کردوں
ایک مرغی فروش ہے اور وہ شخص علی اعلان کہتا ہے کہ گيارویں کی نذر و نیاز شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام سے دیتا ہے تو جب تک جید علماء اس شخص کی تکفیر معین نہ کریں تو میں بھی اس شخص کو کافر قرار نہیں دوں گا لیکن اس کے شرکیہ عقیدہ کی وجہ سے اس کو مشرک سمجھوں گا اور اس شخص کے ہاتھ سے ذبح کی ہوئي مرغی نہیں خریدوں گا لیکن ایسا کوئی عمل نہیں کروں گا جس سے ظاہر ہو میں اس کو کافر قرار دے رہا ہوں مثلا اگر وہ سلام کرے گا تو وعلیکم السلام مکمل کہوں گا
علی اعلان کافر کہنے میں اور کا فر سمجھنے میں زمیں آسمان کا فرق ہے
آپ ہی کی پیش کردہ مثال سے دیکھیں
ایک شخص نے چوری کی اور میں نے اس کو چوری کرتے ہوئے دیکھا اور میرے پاس شرعی ثبوت نہیں تو میں اس کو علی اعلان چور قرار نہیں دے سکتا لیکن میں اس کو چور تو سمجھ سکتا ہوں اور سمجھوں گا بھی اور اس کو چور سمجتھے ہوئے اپنے گھر کی اشیاء اس سے محفوظ رکھنے کا بھی اہتمام کروں گا لیکن اس کو کبھی چور قرار نہیں دوں گا اور نہ اس پر خود کوئی حد جاری کروں گا ۔ اسی طرح شرکیہ عقیدہ کے حامل شخص کو مشرک سمجھا جاسکتا ہے اگر چہ مشرک قرار نہ دیا جائے
 
Top