• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معین اور مطلقا تکفیر میں بنیادی فرق

شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکۃ ۔
تکفیر دو طرح کی ہوتی ہے۔
1۔معین تکفیر
2۔مطلقا تکفیر
میرا سوال یہ ہے کہ معین تکفیر توخاص علماء ہی کرتے ہیں لیکن کیا مطلقا تکفیر ایک عام انسان بھی کرسکتا ہے یا نہیں جس کو تکفیر کے اصولوں کاعلم ہی نہیں ہے؟اور مطلقا تکفیر کرنے کے بھی کوئی اصول وشرائط ہوتی ہے؟
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکۃ ۔
تکفیر دو طرح کی ہوتی ہے۔
1۔معین تکفیر
2۔مطلقا تکفیر
میرا سوال یہ ہے کہ معین تکفیر توخاص علماء ہی کرتے ہیں لیکن کیا مطلقا تکفیر ایک عام انسان بھی کرسکتا ہے یا نہیں جس کو تکفیر کے اصولوں کاعلم ہی نہیں ہے؟اور مطلقا تکفیر کرنے کے بھی کوئی اصول وشرائط ہوتی ہے؟
رانا بھائی اگر آپ مطلق اور معین تکفیر کے بارے میں پہلے وضاحت کر دیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا یعنی پہلے آپ یہ واضح کریں دیں کہ آپ کے نزدیک مطلق اور معین تکفیر ہوتی کیا ہے؟
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
میرے نزدیک معین تکفیر سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی آدمی یا جماعت کا نام لے کر کہے کہ وہ کافر یا مشرک ہے۔
یعنی
فلاں آدمی کافر ہے۔
اور فلاں جماعت کافر ہے ۔
معین تکفیر کے لئے کچھ اصول اور شرائط ہے مشلا۔
حتمی طور پر معلوم کرلیا جائے کہ جس عقیدہ و عمل کی بنیاد پر تکفیر کا مسئلہ زیر غور ہے، وہ عقیدہ و عمل دین و شریعت میں فی الواقع کفر ہے بھی یا نہیں؟ یعنی وہ صرف ممنوعات، محرمات یا مکروہاتِ دین میں سے تو نہیں؟ کیوں کہ ہر ممنوع اور حرام نظریہ و عمل دائرہ کفر میں لے جانے والا نہیں ہوتا۔
اس کے بعد یہ دیکھا جاۓ گا کہ کیا وہ انسان جو مسلمان تھا اس نے جو کفریہ اور شرکیہ کام سرانجام دیا ہے یا کوئی کفریہ اور شرکیہ قول اپنی زبان سے نکالا ہے وہ اس کے بارے میں واقعی جانتا تھا؟
اس نے جو کفریہ اور شرکیہ کام کیا ہے یا کفریہ اور شرکیہ قول بولا ہے اس سے غلطی تو نہیں ہو گئ اور اس نے یہ کام جان بوجھ کر کیا ہے؟
اس نے کام جبرواکراہ کے بغیر کیا ہے؟
اس کے بعد یہ دیکھا جاۓ گا کہ تکفیر کے جو موانع اس میں موجود تو نہیں؟یعنی
وہ جاہل تو نہیں ہے؟
وہ تاویل تو نہیں کر رہا؟
ان تمام چیزوں کے بعد خاص لوگ معین تکفیر کرے گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اندر کوئی اور ایسی علت موجود ہو جو اس کے کفر میں رکاوٹ بن جاۓ تب بھی اس کو کافر یا مشرک قرار نہیں دیا جاۓ گا۔وغیرہ ذلک
اور مطلقا تکفیر میرے نزدیک یہ ہے کہ
جیسے آپ کہہ دیں کہ
جوبھی مردوں سے استغاثہ کرتا ہے ' وہ مشرک ہے۔
یا
جو بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ' وہ کافر ہے۔
یا
جوعدلیہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتی اور اپنے اس فعل کو حلال سمجھتی ہے ' وہ کافر ہے۔
لیکن اگر ہم یہ کہہ دے کہ
پاکستان کی عدلیہ کافر ہے تو یہ معین گروہ کی تکفیر ہو جائے گی جو درجہ اجتہاد پر فائز علماء کی جماعت کے لیے جائز ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
تکفیر مطلق :

کسی بھی فعل کو کتاب وسنت میں کفر یا مخرج عن الملۃ قرار دیا گیا ہو تو اسکے بارہ میں کہنا جس نے بھی یہ کام کیا وہ کافر ہے ۔ تکفیر مطلق کہلاتا ہے ۔ مثلا : اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے ۔اسی طرح اللہ تعالی کا انکار کرنے سے بندہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ لہذا ہم کہیں گے کہ جس نے بھی شرک کیا اسکا اسلام ختم ہوگیا اور جس نے بھی اللہ کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ۔ اور اسے تکفیر مطلق کا نام دیا جاتا ہے ۔ اور ایسی تکفیر کی صورت میں جن افراد پر یہ تکفیر صادق آتی ہے ان سے کفار والا معاملہ نہیں کیا جاتا نہ ہی انہیں مرتد قرار دیا جاتا ہے ۔ بلکہ انہیں مرتد قراردینے کے لیے انکی معینا تکفیر کی جاتی ہے ۔

تکفیر معین

تکفیر معین یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی ایسے کا م کے مرتکب شخص کو جس کام کو کفر یا شرک قرار دیا ہے نام لے کر کافر قرار دینا ۔مثلا : زید نے اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑایا تو یہ کہنا کہ زید کافر ہے اسے تکفیر معین کہا جاتا ہے ۔ اور اسلام کی کسی بھی شخص کی معینا تکفیر کی جاسکتی ہے لیکن اسکے لیے اللہ تعالی نے کچھ اصول مقرر فرمائے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں :

١۔ علم

اگر کسی آدمی کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ کام کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے تو اس آدمی کو کفریہ کام کا ارتکاب کرلینے کے باوجود کافر نہیں کہا جائے گا ۔ مثلا زید نے اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑایا ہے اور اسے معلوم ہی نہیں کہ ایسے کرنے سے انسان مرتد ہو جاتا ہے تو اسے مرتد یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "إن اللہ تجاوز عن امتی الخطأ والنسیان" میری امت سے خطا اور نسیان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے درگزر کیا ہے، معاف کردیا ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق المکرہ والناسی ح2043)

جہالت کی بنا پر، بھول کر، بندہ کام کرلیتا ہے۔ جاہل ہے، اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردیں گے ۔ہم دنیا میں اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا سکتے۔ جب تک اس کی جہالت رفع نہ ہو۔ بلکہ جہالت کی وجہ سے کفریہ کام سر انجام دینے والے کو تو اللہ تعالی نے معاف فرما دیا تھا ، ملاحظہ فرمائیں :

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " کَانَ رَجُلٌ یُسْرِفُ عَلَی نَفْسِہِ فَلَمَّا حَضَرَہُ المَوْتُ قَالَ لِبَنِیہِ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِی، ثُمَّ اطْحَنُونِی، ثُمَّ ذَرُّونِی فِی الرِّیحِ، فَوَاللَّہِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَیَّ رَبِّی لَیُعَذِّبَنِّی عَذَابًا مَا عَذَّبَہُ أَحَدًا، فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِہِ ذَلِکَ، فَأَمَرَ اللَّہُ الأَرْضَ فَقَالَ: اجْمَعِی مَا فِیکِ مِنْہُ، فَفَعَلَتْ، فَإِذَا ہُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ: مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: یَا رَبِّ خَشْیَتُکَ، فَغَفَرَ لَہُ "

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک آدمی بہت گہنگار تھا۔ تو جب اسکی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو کہا جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر رکھ بنا دینا اور پھر مجھے ہوا میں اڑا دینا ، اللہ کی قسم اگر اللہ نے مجھے جمع کر لیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ جیسا اس نے کبھی کسی کو نہ دیا ہوگا۔ تو جب وہ فوت ہو گیا تو اسکے ساتھ ایسا ہی کیا گیا ۔ اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا کہ جوکچھ تیرے اندر ہے اسے جمع کر تو زمین نے اسکی خاک کو جمع کردیا اور وہ اللہ کے حضور پیش ہوا تو اللہ تعالی نے پوچھا تجھے یہ کام کرنے پر کس نے ابھارا تھا ۔ تو وہ کہنے لگا اے رب تیرے ڈر نے ہی مجھے اس کام پر مجبور کیا تھا ۔تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا ۔

(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث الغار :3481)

یعنی اس بیچارے نے اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھا کہ شاید اللہ کے پاس اتنی قدرت نہیں ہے کہ وہ ذروں کو جمع کر کے مجھے دوبارہ کھڑا کر سکے ۔البتہ وہ شخص مؤمن تھا اسے یقین تھا کا مرنے کے بعد حساب دینا پڑے گا ۔ اللہ تعالی پر اسے یقین تھا ۔ لیکن اپنی نادانی اور جہالت کی وجہ سے اللہ تعالی کی صفات کا انکار کر بیٹھا کہ اگر میں راکھ ہو جاؤں گا اور میرے ذرات بکھر جائیں گے تو شاید اللہ تعالی کی گرفت سے بچ جاؤں گا ۔ اور اس نے یہ کام صرف اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتے ہوئے کیا تھا ۔ تو اللہ رب العزت نے اسے معاف فرما دیا کہ اس شخص میں جہالت کا عذر تھا ۔


٢۔قصد وعمد


یعنی کوئی بھی شخص جو کفریہ کام کا مرتکب ہوا ہے ، وہ اگر جان بوجھ کر کفر کرے گا توہم اسکا نام لے کر اسے کافر کہیں گے اور اس پر مرتد ہونے کا فتوی لگے گا ۔ اور اگر وہ کفریہ کام اس سے کسی غلطی کی وجہ سے سرزد ہوا ہے تو اسے کافر یا دائرہ اسلام سے خارج نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "إن اللہ تجاوز عن امتی الخطأ والنسیان" میری امت سے خطا اور نسیان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے درگزر کیا ہے، معاف کردیا ہے۔


(سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق المکرہ والناسی ح2043)​


٣۔ اختیار


تیسری شرط یہ ہے کہ وہ آدمی مختار ہو، یعنی اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے کرے، اگر کوئی آدمی اس کو کہتا ہے کہ تو کفریہ کلمہ کہہ، نہیں تو تجھے ابھی قتل کرتا ہوں ۔ تو وہ اس کے جبر ، تشدد وظلم کے ڈر سے کوئی کفریہ بول بول دیتا ہے تو ایسے آدمی کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے :

مَنْ کَفَرَ بِاللَّہِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ وَلَکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ (النحل : ١٠٦)


جو آدمی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کرے( اللہ کو ہرگز یہ گوارا نہیں ہے)۔ہاں وہ بندہ جس کو مجبور کردیا گیا(تو اس آدمی پر کوئی وعید نہیں ہے) لیکن جس نے شرح صدر کے ساتھ ، دل کی خوشی کے ساتھ کفر کیااس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے،اوران کےلئے بہت بڑا عذاب ہے۔


یعنی اگر جان بوجھ کر ، اپنے اختیا ر کے ساتھ، جبرواکراہ کے بغیر، وہ ایسا کفریہ بول بولتا ہے، یا کفریہ کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ قابل مؤاخذہ ہے۔ لیکن اگر کسی کے ڈرسے وہ کفریہ کام سرانجام دیتا ہے تو وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے۔


ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا : "لا تشرک باللہ شیئا وان قطعت وحرقت " تجھے جلا دیا جائے ، تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں، اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرنا۔


(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب الصبر علی البلاء ح4034)​
عزیمت پر محمول ہے ، یعنی موت کے خوف سے ، جان بچانے کی غرض سے کفریہ یا شرکیہ کام کرنا پڑتا ہے، کفریہ یا شرکیہ کلمہ کہنا پڑتا ہے تو آدمی کو رخصت ہے کہ کفریہ یا شرکیہ کلمہ کہہ سکتا ہے، شرکیہ یا کفریہ کام کرسکتا ہے، لیکن عزیمت یہی ہے کہ بندہ اس وقت بھی کفریہ کلمہ نہ کہے ، کفریہ بول نہ بولے۔ اور اگر وہ رخصت کو اپنالیتا ہے تو بھی شریعت نے اسکی اجازت دی ہے ۔


تأویل

چوتھی شرط یہ ہے کہ جو شخص کفر کا ارتکاب کر رہا ہے وہ مؤول نہ ہو ۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ کسی شرعی دلیل کا سہارا لے کر اس کام کو جائز سمجھتا ہو ۔قرآن وحدیث کی غلط تفسیر وتاویل کرکے کسی بھی کفریہ کام کو اپنے لیے جائز سمجھنے والے کی اس وقت تک تکفیر نہیں کی جاسکتی جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو جائے ۔ مثلا آج کل بہت سے لوگ غیر اللہ سے ما فوق الاسباب مدد مانگتے ہیں ۔ تو ہم مطلقا کہتے ہیں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے اور جو بھی غیر اللہ سے مدد مانگتا ہے وہ مشرک وکافر ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر زید نامی شخص غیر اللہ سے مدد مانگتا ہے تو ہم اسے اسوقت تک کافر قرار نہیں دیں گے جب تک اس پر حجت قائم نہ کر لیں اسکی تحقیق نہ کر لیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے غلط تاویل وتوجیہہ کرنے والوں کے ایسے کاموں سے درگزر فرمایا ہے نبی کریم e کا فرمان ہے :


إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَہُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَہُ أَجْر ٌ


( صحیح مسلم : ١٧١٦)

جب فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرتا ہے ، اگر تو اسکا فیصلہ درست ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں اور اگر اسکا اجتہاد اسے غلطی پر پہنچا دے توبھی اسے ایک اجر ملتا ہے ۔


اور ہمارے یہاں پائے جانے والے بہت سے ایسے افراد جو کفریہ وشرکیہ کام کرتے ہیں وہ اجتہادی خطأ کا شکار ہوتے ہیں اور کتاب وسنت کی نصوص کی غلط تاویل وتفسیر کرکے اسے ہی حق سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ لہذا کیسے ممکن ہے کہ ایسے شخص کی تکفیر کردی جائے جسے اللہ تعالی ایک اجر عطا فر ماتے ہیں ؟!

الغرض کسی بھی شخص کی معینا تکفیر یعنی اسکا نام لے کر اسے کافر قرار دینا یا کسی جماعت کی معینا تکفیر اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک اللہ رب العزۃ کے مقرر کردہ اصول وقوانین کو اپلائی نہ کیا جائے
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
میرے نزدیک معین تکفیر سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی آدمی یا جماعت کا نام لے کر کہے کہ وہ کافر یا مشرک ہے۔
یعنی
فلاں آدمی کافر ہے۔
اور فلاں جماعت کافر ہے ۔
معین تکفیر کے لئے کچھ اصول اور شرائط ہے مشلا۔
حتمی طور پر معلوم کرلیا جائے کہ جس عقیدہ و عمل کی بنیاد پر تکفیر کا مسئلہ زیر غور ہے، وہ عقیدہ و عمل دین و شریعت میں فی الواقع کفر ہے بھی یا نہیں؟ یعنی وہ صرف ممنوعات، محرمات یا مکروہاتِ دین میں سے تو نہیں؟ کیوں کہ ہر ممنوع اور حرام نظریہ و عمل دائرہ کفر میں لے جانے والا نہیں ہوتا۔
اس کے بعد یہ دیکھا جاۓ گا کہ کیا وہ انسان جو مسلمان تھا اس نے جو کفریہ اور شرکیہ کام سرانجام دیا ہے یا کوئی کفریہ اور شرکیہ قول اپنی زبان سے نکالا ہے وہ اس کے بارے میں واقعی جانتا تھا؟
اس نے جو کفریہ اور شرکیہ کام کیا ہے یا کفریہ اور شرکیہ قول بولا ہے اس سے غلطی تو نہیں ہو گئ اور اس نے یہ کام جان بوجھ کر کیا ہے؟
اس نے کام جبرواکراہ کے بغیر کیا ہے؟
اس کے بعد یہ دیکھا جاۓ گا کہ تکفیر کے جو موانع اس میں موجود تو نہیں؟یعنی
وہ جاہل تو نہیں ہے؟
وہ تاویل تو نہیں کر رہا؟
ان تمام چیزوں کے بعد خاص لوگ معین تکفیر کرے گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اندر کوئی اور ایسی علت موجود ہو جو اس کے کفر میں رکاوٹ بن جاۓ تب بھی اس کو کافر یا مشرک قرار نہیں دیا جاۓ گا۔وغیرہ ذلک
اور مطلقا تکفیر میرے نزدیک یہ ہے کہ
جیسے آپ کہہ دیں کہ
جوبھی مردوں سے استغاثہ کرتا ہے ' وہ مشرک ہے۔
یا
جو بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ' وہ کافر ہے۔
یا
جوعدلیہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتی اور اپنے اس فعل کو حلال سمجھتی ہے ' وہ کافر ہے۔
لیکن اگر ہم یہ کہہ دے کہ
پاکستان کی عدلیہ کافر ہے تو یہ معین گروہ کی تکفیر ہو جائے گی جو درجہ اجتہاد پر فائز علماء کی جماعت کے لیے جائز ہے۔
آپ نے صحیح وضاحت فرمادی ہے اور آپ کے سوال کے ضمن میں بھی میں اسی بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا تھا کہ تکفیر مطلق تو صرف ایک شرعی حکم کو بیان کرنا ہوتا ہے ۔مثلا یہ کہناکہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو میرے قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کے گا وہ کافر ہوگا لہذا اسے جو کو بھی شریعت میں پڑھے گا وہ اسے بیان کر سکتاہے۔اس میں عالم وغیر عالم کیا شرط ہو سکتی ہے۔جبکہ تکفیر معین میں خاص گرو،جماعت یا فرد پر اس حکم شرعی کو لاگو کرنا ہو تا ہے جوکہ اجتہادی کام ہے اور اجتہاد صرف علماء ہی کرسکتے ہیں اس لئے یہ علماء کی ذمہ داری ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکۃ ۔
میرا سوال یہ ہے کہ معین تکفیر توخاص علماء ہی کرتے ہیں لیکن کیا مطلقا تکفیر ایک عام انسان بھی کرسکتا ہے یا نہیں
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

یہ آپکی غلط فہمی ہے بھائی کہ تکفیر معین صرف علماء ہی کرتے ہیں۔ کیا آپ اور دوسرے دیگر عام لوگ قادیانیوں کی معین تکفیر نہیں کرتے؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
تکفیر معین

تکفیر معین یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی ایسے کا م کے مرتکب شخص کو جس کام کو کفر یا شرک قرار دیا ہے نام لے کر کافر قرار دینا ۔مثلا : زید نے اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑایا تو یہ کہنا کہ زید کافر ہے اسے تکفیر معین کہا جاتا ہے ۔ اور اسلام کی کسی بھی شخص کی معینا تکفیر کی جاسکتی ہے لیکن اسکے لیے اللہ تعالی نے کچھ اصول مقرر فرمائے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں :

١۔ علم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

تکفیر معین کے لئے آپ جن اصولوں کی بات کررہے ہیں کہ انہیں موانع تکفیر بھی کہا جاتا ہے لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ کفر اکبر اور شرک اکبر کی صورت میں موانع تکفیر نہیں دیکھے جاتے بلکہ شرک اکبر اور کفر اکبر کا مرتکب ہر حال میں کافر اور مشرک ہوتا ہے جیسے غیر اللہ سے مدد طلب کرنے والا مشرک ہے اس کے لئے ہرگز اس بات کی تحقیق نہیں کی جائے گی کہ اس شخص کو اس بات کا علم ہے یا نہیں کہ وہ شرک اکبر کا مرتکب ہورہا ہے۔ اسکے علاوہ صرف بعض معاملات ایسے ہیں جہاں موانع تکفیر کا لحاظ کرنا ضروری ہے اور یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس شخص کو علم ہے یا نہیں یا وہ کوئی تاؤیل وغیرہ تو نہیں کر رہا۔

تفصیل دیکھئے یہاں کیا کفر اور شرک کا مرتکب کافر اور مشرک نہیں ہوتا؟
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
شاہد نذیر نے کہا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے بھی کسی بھائی کو کہا کہ اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا۔(صحیح بخاری، کتاب الادب)
اگر آپ اس حدیث کے باقی طرق جمع کریں گے تو کسی کو کافر سمجھ کر یا نہ سمجھ کر کافر کہنے والا معاملہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔چناچہ ملاحظہ کریں:
صحیح مسلم میں اس حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہےتووہ کفر دونوں میں سے کسی پر ضرور پلٹے گا۔
اور صحیح مسلم میں ہی ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہہ کر پکارے تو دونوں میں سے ایک پر کفر آجاۓگا۔اگر وہ شخص جس کو اس نے پکارا کافر ہے توخیر ورنہ پکارنے والے پر لوٹ آۓ گا۔
ابن حبان کی حدیث میں الفاظ یہ ہے:
رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کو کافر کہا اگر واقعی کافر تھاتب تو ٹھیک اگر نہیں تو یہ خودکفر میں پھس گیا۔(خود کافر ہو گیا۔)
ابوداود میں ایک واقعہ ہے جو رسول اللہﷺ نے بنی اسرائیل کے بارے میں بیان فرمایا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی ایک دوسرے کے بھائی بنے ہوۓتھے۔ ان دونوں میں سے ایک تو گناہ گار تھا اور دوسرا عبادت میں کوشش کرنے والا تھا۔ عبادت کی جدوجہد میں لگے رہنے والا ہمیشہ دوسرے کو گناہ کرتا ہی دیکھتا تھا اور اسے کہتا تھا کہ ان گناہوں سے رک جا ایک روز اس نے اسے کوئی گناہ کرتے ہوئے پایا تو اس سے کہا کہ اس گناہ سے رک جا تو گناہ گار نے کہا کہ مجھے میرے رب کیساتھ چھوڑ دے۔ کیا تو مجھ پر نگران بنا کر بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ تیری مغفرت نہیں کریں گے یا کہا کہ اللہ تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا پھر ان دونوں کی روحیں قبض کرلی گئیں تو دونوں کی روحیں رب العالمین کے سامنے جمع ہوئیں تو اللہ نے عابد سے فرمایا کہ کیا تو اس چیز پر جو میرے قبضہ قدرت میں ہے قادر ہے؟ اور گناہ گار سے فرمایا کہ جا جنت میں داخل ہو جا میری رحمت کی بدولت اور دوسرے (عابد) سے فرمایا کہ اسے جہنم کی طرف لے جاؤ، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس عابد نے ایسا کلمہ کہہ دیا جس نے اس کی دنیا و آخرت دونوں تباہ کردیں۔
الفاظ پر اگر غور کیا جاۓ تو معلوم ہو گا اس نے کہا کہ"خدا کی قسم اللہ تعالیٰ تیری مغفرت نہیں کریں گے یا کہا کہ اللہ تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا"جنت اللہ تعالٰی نے کن لوگوں پر حرام کردی ہے؟ظاہر ہے کافر اور مشرک پر۔اس شخص نے بھی اس کو کافر اور مشرک ہی کہا تھا اور نتیجہ کیا نکلا وہ آپ خود ہی پڑھ سکتے ہیں۔
شاہد نذیر نے کہا ہے:
لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ کفر اکبر اور شرک اکبر کی صورت میں موانع تکفیر نہیں دیکھے جاتے بلکہ شرک اکبر اور کفر اکبر کا مرتکب ہر حال میں کافر اور مشرک ہوتا ہے جیسے غیر اللہ سے مدد طلب کرنے والا مشرک ہے اس کے لئے ہرگز اس بات کی تحقیق نہیں کی جائے گی کہ اس شخص کو اس بات کا علم ہے یا نہیں کہ وہ شرک اکبر کا مرتکب ہورہا ہے۔
لیکن میں آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ
حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ حنین کے لئے نکلے تو مشرکوں کے ایک درخت کے پاس سے گزرے جس کو ذات نواط کہا جاتا تھا اور وہ اس کے ساتھ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے بھی ان کی طرح کا ذات نواط مقرر فرما دیں آپ نے سُبْحَانَ اللَّهِ کہا اور فرمایا یہ تو ایسا ہی سوال ہے جیسا حضرت موسیٰ سے ان کی قوم نے کیا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دیں جیسا ان کے لئے ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور پہلی امتوں کا راستہ اختیار کرو گے
الفاظ پر اگر غور کیا جاۓ تو صحابی رسول ﷺ نے کیا فرمایا؟انھوں نے فرمایا تھا کہ"ہمارے لئے بھی ان کی طرح کا ذات نواط مقرر فرما دیں"اور رسول اللہﷺ نے ان کو جواب دیا کہ"یہ ایسا ہی سوال ہے جیسا حضرت موسیٰ سے ان کی قوم نے کیا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دیں جیسا ان کے لئے ہے"رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ ویسا ہی ہے جیسا حضرت موسیٰ کی قوم نے ان سے کہا کہ ہمیں بھی معبود بنا دے۔اللہ کے رسولﷺ نے ان کو فرمایا کہ یہ سوال جو تم نے کیا ہے وہ معبود مانگنے جیسا ہے۔اور معبود مانگنا شرک ہے یا ایمان ہے؟ظاہر ہے شرک ہے لیکن اللہ کے رسولﷺ نے ان کو کہا کہ تم نے شرکیہ کلمہ زبان سے نکلا ہےتو اب تم اسلام سے باہر گئے اب؟نہیں کہا کیو نکہ حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوۓ تھے اور یہ واقعہ فتح مکہ کو اسلام لاۓتھے اور اس وقت تک اسلام کے کتنے احکام آچکے تھے۔لیکن وہ جانتے نہیں تھے اس لئے ان کو اللہ کے رسولؐ نے مشرک قرار نہیں دیا۔
شاہد نذیر نے کہا ہے:
یہ آپکی غلط فہمی ہے بھائی کہ تکفیر معین صرف علماء ہی کرتے ہیں۔ کیا آپ اور دوسرے دیگر عام لوگ قادیانیوں کی معین تکفیر نہیں کرتے؟
میرا مطلب یہ نہیں تھا جو آپ سمجھے ہیں میرا مطلب یہ تھا کہ اگر ایک آدمی کوئی ایسا عمل سرانجام دیتا ہے جو کہ کفریہ یا شرکیہ ہے اور اس پر اہل علم متفق ہے کہ واقعی وہ کافر یا مشرک ہیں تو پھرتو عام آدمی بھی اس کی تکفیر کر سکتا ہے لیکن جب تک اہل علم اس پر متفق نہیں ہوتے اس وقت تک عام آدمی کو اس کی تکفیر کا حق حاصل نہیں ہے۔
 
Top