شاہد نذیر نے کہا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے بھی کسی بھائی کو کہا کہ اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا۔(صحیح بخاری، کتاب الادب)
اگر آپ اس حدیث کے باقی طرق جمع کریں گے تو کسی کو کافر سمجھ کر یا نہ سمجھ کر کافر کہنے والا معاملہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔چناچہ ملاحظہ کریں:
صحیح مسلم میں اس حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہےتووہ کفر دونوں میں سے کسی پر ضرور پلٹے گا۔
اور صحیح مسلم میں ہی ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہہ کر پکارے تو دونوں میں سے ایک پر کفر آجاۓگا۔اگر وہ شخص جس کو اس نے پکارا کافر ہے توخیر ورنہ پکارنے والے پر لوٹ آۓ گا۔
ابن حبان کی حدیث میں الفاظ یہ ہے:
رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کو کافر کہا اگر واقعی کافر تھاتب تو ٹھیک اگر نہیں تو یہ خودکفر میں پھس گیا۔(خود کافر ہو گیا۔)
ابوداود میں ایک واقعہ ہے جو رسول اللہﷺ نے بنی اسرائیل کے بارے میں بیان فرمایا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی ایک دوسرے کے بھائی بنے ہوۓتھے۔ ان دونوں میں سے ایک تو گناہ گار تھا اور دوسرا عبادت میں کوشش کرنے والا تھا۔ عبادت کی جدوجہد میں لگے رہنے والا ہمیشہ دوسرے کو گناہ کرتا ہی دیکھتا تھا اور اسے کہتا تھا کہ ان گناہوں سے رک جا ایک روز اس نے اسے کوئی گناہ کرتے ہوئے پایا تو اس سے کہا کہ اس گناہ سے رک جا تو گناہ گار نے کہا کہ مجھے میرے رب کیساتھ چھوڑ دے۔ کیا تو مجھ پر نگران بنا کر بھیجا گیا ہے؟ اس نے کہا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ تیری مغفرت نہیں کریں گے یا کہا کہ اللہ تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا پھر ان دونوں کی روحیں قبض کرلی گئیں تو دونوں کی روحیں رب العالمین کے سامنے جمع ہوئیں تو اللہ نے عابد سے فرمایا کہ کیا تو اس چیز پر جو میرے قبضہ قدرت میں ہے قادر ہے؟ اور گناہ گار سے فرمایا کہ جا جنت میں داخل ہو جا میری رحمت کی بدولت اور دوسرے (عابد) سے فرمایا کہ اسے جہنم کی طرف لے جاؤ، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس عابد نے ایسا کلمہ کہہ دیا جس نے اس کی دنیا و آخرت دونوں تباہ کردیں۔
الفاظ پر اگر غور کیا جاۓ تو معلوم ہو گا اس نے کہا کہ"خدا کی قسم اللہ تعالیٰ تیری مغفرت نہیں کریں گے یا کہا کہ اللہ تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا"جنت اللہ تعالٰی نے کن لوگوں پر حرام کردی ہے؟ظاہر ہے کافر اور مشرک پر۔اس شخص نے بھی اس کو کافر اور مشرک ہی کہا تھا اور نتیجہ کیا نکلا وہ آپ خود ہی پڑھ سکتے ہیں۔
شاہد نذیر نے کہا ہے:
لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ کفر اکبر اور شرک اکبر کی صورت میں موانع تکفیر نہیں دیکھے جاتے بلکہ شرک اکبر اور کفر اکبر کا مرتکب ہر حال میں کافر اور مشرک ہوتا ہے جیسے غیر اللہ سے مدد طلب کرنے والا مشرک ہے اس کے لئے ہرگز اس بات کی تحقیق نہیں کی جائے گی کہ اس شخص کو اس بات کا علم ہے یا نہیں کہ وہ شرک اکبر کا مرتکب ہورہا ہے۔
لیکن میں آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ
حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ حنین کے لئے نکلے تو مشرکوں کے ایک درخت کے پاس سے گزرے جس کو ذات نواط کہا جاتا تھا اور وہ اس کے ساتھ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے بھی ان کی طرح کا ذات نواط مقرر فرما دیں آپ نے سُبْحَانَ اللَّهِ کہا اور فرمایا یہ تو ایسا ہی سوال ہے جیسا حضرت موسیٰ سے ان کی قوم نے کیا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دیں جیسا ان کے لئے ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور پہلی امتوں کا راستہ اختیار کرو گے
الفاظ پر اگر غور کیا جاۓ تو صحابی رسول ﷺ نے کیا فرمایا؟انھوں نے فرمایا تھا کہ"ہمارے لئے بھی ان کی طرح کا ذات نواط مقرر فرما دیں"اور رسول اللہﷺ نے ان کو جواب دیا کہ"یہ ایسا ہی سوال ہے جیسا حضرت موسیٰ سے ان کی قوم نے کیا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دیں جیسا ان کے لئے ہے"رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ ویسا ہی ہے جیسا حضرت موسیٰ کی قوم نے ان سے کہا کہ ہمیں بھی معبود بنا دے۔اللہ کے رسولﷺ نے ان کو فرمایا کہ یہ سوال جو تم نے کیا ہے وہ معبود مانگنے جیسا ہے۔اور معبود مانگنا شرک ہے یا ایمان ہے؟ظاہر ہے شرک ہے لیکن اللہ کے رسولﷺ نے ان کو کہا کہ تم نے شرکیہ کلمہ زبان سے نکلا ہےتو اب تم اسلام سے باہر گئے اب؟نہیں کہا کیو نکہ حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوۓ تھے اور یہ واقعہ فتح مکہ کو اسلام لاۓتھے اور اس وقت تک اسلام کے کتنے احکام آچکے تھے۔لیکن وہ جانتے نہیں تھے اس لئے ان کو اللہ کے رسولؐ نے مشرک قرار نہیں دیا۔
شاہد نذیر نے کہا ہے:
یہ آپکی غلط فہمی ہے بھائی کہ تکفیر معین صرف علماء ہی کرتے ہیں۔ کیا آپ اور دوسرے دیگر عام لوگ قادیانیوں کی معین تکفیر نہیں کرتے؟
میرا مطلب یہ نہیں تھا جو آپ سمجھے ہیں میرا مطلب یہ تھا کہ اگر ایک آدمی کوئی ایسا عمل سرانجام دیتا ہے جو کہ کفریہ یا شرکیہ ہے اور اس پر اہل علم متفق ہے کہ واقعی وہ کافر یا مشرک ہیں تو پھرتو عام آدمی بھی اس کی تکفیر کر سکتا ہے لیکن جب تک اہل علم اس پر متفق نہیں ہوتے اس وقت تک عام آدمی کو اس کی تکفیر کا حق حاصل نہیں ہے۔