• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مفسرین کا ایک غلط تفسیر

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم۔،۔،

الیاسی صاحب سانپ کیوں سونگ گیا اب؟؟؟

میں انتظانیہ محدث فورم سے درخواست کرتا ہوں کہ اتنا بھی نہ ڈھیلا ہاتھ رکھا جائے ، کہ جس کا بھی دل کرے، قرآن و حدیث بارے غلط ملط معنی و مفہوم بیان کرتے رہے اور کسی فتنے کا سبب بن جائے ۔،۔،۔
الیاسی صاحب کو وارننگ دی جائے اور دوبارہ ایسی کرتوت پر بلاک کر دیا جائے۔
جزاک اللہ خیرا
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
یہا ں ایک مسلہ ہے بہت سے لوگ ایسے دیکھے ہیں جو جس عالم کی صحبت میں بیٹھتے ہیں اس کی ہر بات کو قرآن و حدیث سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ایسے لوگ جب بھی اپنے اس عالم کی بات سنتے ہیں تو اسی کو حق جانتے ہوئے با قی سب کی نفی کر جاتے ہیں جو یہا ں ہمیں سمجھ آئی÷÷÷÷÷÷÷÷اور یہ اپنے آپ کو دین دار اور دوسروں کو مقلد گردانتے ہیں حا لانکہ وہ خود شخصی تقلید کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں لوگوں کی وجہ سے ا ن کے استادوں کا نام بھی بدنام ہوتا ہے
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
خضر حیات صاحب نے بھت سارے غلطیاں کی ہے
١ (١) یہ قاعدہ غلط بیان کیا گیاھے حوالہ بتادے
(٢) برء اور بری کا معنی یعنی بریہ اور بریءہ کا معنی ایک نھی امام رازی نے ابن یزید نحوی کا قول نقل کی ہے اور فرق واضح کی ہے
قرآن میں بریہ کا لفط ہے تو یہ علمی خیانت ہوگی اگر کویی مفسر لکھی ہویی لفظ کی بجاے بریءہ کا ترجمہ لکھیں
()٤( اصل مادہ برء کیسا ہے بھای بری اور برء میں زمین آسمان کا فرق ہےخشکی اور پیدایش کتنا الگ الگ معنی ہے آپ اپنی باتوں پر نظر ثانی کریں پواینٹ ٹو پواینٹ جواب عنایت فرماے
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
السلام علیکم۔،۔،

الیاسی صاحب سانپ کیوں سونگ گیا اب؟؟؟

میں انتظانیہ محدث فورم سے درخواست کرتا ہوں کہ اتنا بھی نہ ڈھیلا ہاتھ رکھا جائے ، کہ جس کا بھی دل کرے، قرآن و حدیث بارے غلط ملط معنی و مفہوم بیان کرتے رہے اور کسی فتنے کا سبب بن جائے ۔،۔،۔
الیاسی صاحب کو وارننگ دی جائے اور دوبارہ ایسی کرتوت پر بلاک کر دیا جائے۔
جزاک اللہ خیرا
برادر من جواب ضرور دیتاہو لیکن چوبیس گنٹھے نیٹ پر بیٹھنا مشکل ہے اب آپ کو مفسرین کی عبادت چھوڑنی پڑیگی آپ میری دلایل ملاحظہ فرماے اور جواب عنایت فرماے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ما شاء اللہ خضر بھای یہ قاعدہ کہاں لکھا ھوا ہے حوالہ عنایت فرماے مھربانی ہوگی
محترم مفتی صاحب ! مہموز ، إعلال و ادغام وغیرہ کے قواعد ہم نے علم الصیغہ سےپڑھے ہوئےہیں اور اس سے پہلے مولانا مشتاق احمد چرتھاولی کی کتاب علم الصرف اخیرین سے ۔
اس وقت میرے پاس ان میں سے کوئی بھی کتاب نہیں ہے (اگر کسی جگہ نیٹ پر دستیاب ہوتو دھاگہ عنایت فر ما کر شکریہ کا موقعہ دیں ۔) اس وجہ سے میں نے اپنے حفظ پر اعتماد کرتے ہوئے یہ قاعدہ لکھ دیا تھا ۔
لیکن آپ نے جب حوالے کا مطالبہ کیا تو پتہ چلا کہ میں یہ قاعدہ بیان کرنے میں غلطی کر گیا ہوں ۔ کیوں کہ یہ قاعدہ مہموز کے قواعد میں سے نہیں بلکہ اعلال کے قواعد میں ناقص واوی کے ضمن میں ذکر کیا جاتا ہے ۔
اب رہی بات یہ کہ میں نے جس قاعدہ کی بنیاد پر ساری تعلیل و توجیہ کی تھی وہ تو صحیح نہیں لہذا تعلیل بھی صحیح نہیں ۔
بات ایسی نہیں بلکہ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ یہاں مہموز کے قواعد میں سے خطيئة والا قاعدہ منطبق ہوتا ہے اور وہ یوں ہے :
جب ہمزہ متحرک ہو اور اس کا ماقبل واؤ یا یاء مدہ زائدہ ہوں تو اس ہمزہ کو ماقبل حرف علت سے بدلنا جائز ہے ۔ جیساکہ خطيئة سے خطية
آپ میرے اوپر بیان کیےہوئے قاعدے کی جگہ پر یہ قاعدہ رکھ لیں باقی سب کچھ ٹھیک ہے ۔
بلکہ میں اُس جگہ خود ٹھیک کردیتا ہوں ۔

میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے سوال کے ذریعے اصلاح کا موقعہ فراہم کیا ۔ اس کے علاوہ اگر کوئی ملاحظہ ہو تو پیش فرمائیں جزاکم اللہ خیرا ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
الیاسی صاحب! رانا صاحب کے کہنے کا مطلب ہے کہ اختلاف ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ادب و احترام کے دائرے کار سے باہر ہو جائیں۔مفسرین کو جاہل اور مقلد کہنا درست نہیں۔ایک تو آپ مفسرین پر جرح کر رہے ہیں اور وہ بھی نامناسب انداز میں،بس اپنا انداز تخاطب ذرا تبدیل کر لیں۔
اور دوسری گزارش یہ ہے کہ علماء سے گفتگو کچھ سیکھنے کی غرض سے کریں ناکہ تنقید برائے تنقید کی غرض سے۔اوپر آپ نے عرض کیا:
خضر حیات صاحب نے بھت سارے غلطیاں کی ہے
یہ قاعدہ غلط بیان کیا گیاھے حوالہ بتادے
آپ نے یہ دعوی تو کیا ہے کہ خضر حیات بھائی نے غلطیاں کی ہیں اور قاعدہ غلط بیان کیا ہے لیکن یہ قاعدہ کس طرح غلط ہے اس کا بھی کوئی ثبوت آپ نے فراہم نہیں کیا۔برائے مہربانی دونوں سے طرف دلائل کے ساتھ گفتگو ہونی چاہیے اور حق بات کو قبول کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے۔شکریہ
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2011
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
65
السلام علیکم !
١۔ تفسیر بیضاوی میں سورۃ البینہ کی اس آیت کے ذیل میں ہے :-
{أَوْلَئِكَ هُمْ شَرُّ البرية} أي الخليقة. وقرأ نافع {البريئة} بالهمز على الأصل.
٢۔ تفسیر جلالین میں ہے :-
{إِنَّ الذين ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصالحات أولئك هُمْ خَيْرُ البرية} الخليقة.
٣۔ تفسیر معانی القرآن میں ہے :-
البرية غير مهموز ، إلا أن بعض أهل الحجاز همزها ، كأنه أخذها من قول اللَّه جل وعز برأكم ، وبرأ الخلق ، ومن لم يهمزها فقد تكون من هَذَا المعنى ، ثُمَّ اجتمعوا عَلَى ترك همزها كما اجتمعوا عَلَى : يَرَى وتَرى ونرى ، وإن أخذِتْ من البَرَى كانت غير مهموزة ، والبرى : التراب سمعت العرب تَقُولُ : بفيه البري ، وحمّى خيبري ، وشرُّ ما يرى ، فإنه خيسري .
٤۔ الدر المصون في علوم الكتاب المكنون ، میں السمين الحلبي لکھتے ہیں :-
{ٱلْبَرِيَّةِ}: قرأ نافعٌ وابن ذَكْوان "البَريئة" بالهمزِ في الحرفَيْن، والباقون بياءٍ مشدَّدةٍ. واخْتُلِف في ذلك الهمز، فقيل: هو الأصلُ، مِنْ بَرَأ اللَّهُ الخَلْقَ ابتدأه واخترعَه فيه فعليةٌ بمعنى مَفْعولةٌ، وإنما خُفِّفَتْ، والتُزِمَ تحفيفُها عند عامَّةِ العربِ. وقد ذَكَرْتُ أنَّ العربَ التزمَتْ غالباً تخفيفَ ألفاظٍ منها: النبيُّ والخابِيةَ والذُّرِّيَّة والبَرِيَّة. وقيل: بل البَرِيَّةُ دونَ همزةِ مشتقةٌ مِنْ البَرا، وهو الترابُ، فهي أصلٌ بنفسِها، فالقراءتان مختلفتا الأصلِ متفقتا المعنى. إلاَّ أنَّ ابنَ عطيةَ غَضَّ مِنْ هذا فقال: "وهذا الاشتقاقُ يَجْعَلُ الهمزةَ خطأً وهو اشتقاقٌ غيرُ مَرْضِيّ" انتهى. يعني أنَّه إذا قيل بأنَّها مشتقةٌ من البَرا ـ وهو الترابُ ـ فمَنْ أين يجيْءُ في القراءةِ الأخرى؟ وهذا غيرُ لازم لأنهما قراءتان مُسْتقلَّتان، لكلٍ منهما أصلٌ مستقلٌ، فقيل: مِنْ بَرَأَ، أي: خَلَق، وهذه مِنْ البَرا؛ لأنَّهم خُلِقوا مِنْه، والمعنى بالقراءتين شيءٌ واحدٌ، وهو جميعُ الخَلْقِ. ولا يُلْتَفَتُ إلى مَنْ ضَعَّف الهمزَ من النحاةِ والقُرَّاءِ لثبوتِه متواتِراً.
وقرأ العامَّةُ "خيرُ البَرِيَّة" مقابلاً لشَرّ. وعامر بن عبد الواحد "خِيارُ" وهو جمع خَيِّر نحو: جِياد وطِياب في جمع جَيِّد وطَيِّب، قاله الزمخشري.
٥۔ تفسير البحر المحيط، میں ابو حیان لکھتے ہیں :-
البرية: جميع الخلق. وقرأ الأعرج وابن عامر ونافع: البرئة بالهمز من برأ، بمعنى خلق. والجمهور: بشد الياء، فاحتمل أن يكون أصله الهمز، ثم سهل بالإبدال وأدغم، واحتمل أن يكون من البراء، وهو التراب. قال ابن عطية: وهذا الاشتقاق يجعل الهمز خطأ، وهو اشتقاق غير مرضي، ويعني اشتقاق البرية بلا همز من البرا، وهو التراب، فلا يجعله خطأ، بل قراءة الهمز مشتقة من برأ، وغير الهمز من البرا؛ والقراءتان قد تختلفان في الاشتقاق نحو: أو ننساها أو ننسها، فهو اشتقاق مرضي.
٦۔ تفسير اللباب في علوم الكتاب ، میں ابن عادل لکھتے ہیں :-
وقرأ نافع وابن ذكوان: " البريئة " بالهمز في الحرفين، والباقون: بياء مشددة. واختلف في ذلك الهمز، فقيل: هو الأصل من برأ الله الخلق، ابتدأه واخترعه
٧۔ تفسير فتح القدير میں شوکانی لکھتے ہیں :-
هُمْ شَرُّ ٱلْبَرِيَّةِ } أي: الخليقة، يقال برأ، أي: خلق. والبارىء الخالق. والبرية الخليقة. قرأ الجمهور: { البرية } بغير همز في الموضعين. وقرأ نافع، وابن ذكوان فيها بالهمز. قال الفرّاء: إن أخذت البرية من البراء، وهو التراب لم تدخل الملائكة تحت هذا اللفظ، وإن أخذتها من بريت القلم، أي: قدّرته دخلت. وقيل: إن الهمز هو الأصل، لأنه يقال برأ الله الخلق بالهمز، أي: ابتدعه واخترعه
یہ چند عربی تفاسیر کی عبارات نقل کی ہیں ۔ محترم الیاسی صاحب اگر آپ امام رازی تحقیق یہاں نقل کردیں تو ممنون ہوں گا ۔ اور باقی لوگ بھی مستفید ہو سکیں گے ۔ جزاک اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضر حیات صاحب نے بھت سارے غلطیاں کی ہے
١ (١) یہ قاعدہ غلط بیان کیا گیاھے حوالہ بتادے
(٢) برء اور بری کا معنی یعنی بریہ اور بریءہ کا معنی ایک نھی امام رازی نے ابن یزید نحوی کا قول نقل کی ہے اور فرق واضح کی ہے
قرآن میں بریہ کا لفط ہے تو یہ علمی خیانت ہوگی اگر کویی مفسر لکھی ہویی لفظ کی بجاے بریءہ کا ترجمہ لکھیں
()٤( اصل مادہ برء کیسا ہے بھای بری اور برء میں زمین آسمان کا فرق ہےخشکی اور پیدایش کتنا الگ الگ معنی ہے آپ اپنی باتوں پر نظر ثانی کریں پواینٹ ٹو پواینٹ جواب عنایت فرماے
بھائی میں نے ایک غلطی کی تھی ۔ اس کی تصحیح کردی گئی ہے ۔ لیکن اس میں ہمارے مختلف فیہ مسئلہ کے حوالے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ یہأں توجیہ میں غلطی نہیں ہوئی بلکہ قاعدہ کی تعیین میں غلطی ہوئی ہے ۔
ممکن ہے آپ اب میرے دوسرے بیان کیے ہوئے قاعدہ کے حوالے کا مطالبہ کریں ۔ تو اس کے لیے جیسا کہ میں پہلے بھی وضاحت کرچکا ہوں اردو کتابیں میرے پاس نہیں ہیں اس وجہ سے میں حوالہ بھی نہیں دے سکتا ۔ البتہ اتنا الحمد للہ پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں علم الصیغہ میں آپ کو یہ قاعدہ مہموز کے قواعد میں مل جائے گا ۔
اگر عربی سمجھ سکتے ہیں تو ابن الحاجب کی الشافیۃ میں آپ کو یہ قاعدہ بأیں الفاظ مل جائے گا :
والمتحركة إن كان ما قبلها ساكن وهو واو أو ياء زائدتان لغير الإلحاق قلبت إليها وأدغمت فيها كخطية ومقروة وأفيس وقولهم التزم في نبي وبرية غير صحيح ولكنه كثر ( الشافية مع نظمه الوافية ص ٨٧ ط المكتبة المكية - مكة المكرمة الأولى ١٤١٥هـ
انہوں نے یہاں صرف قاعدہ ہی نہیں بیان کیا بلکہ امثلہ میں لفظ ( بریہ ) صراحت کی ہے ۔
(٢) میں نے یہ نہیں کہا کہ برأ اور بری کا معنی ایک ہے میری عبارت پر غور کریں ۔ میں نے کہا تھا دونوں لفظ اپنے صیغہ اور مادہ کے اعتبار سے متفق ہیں لہذا معنی ایک ہونا بالکل واضح ہے ۔
(٣) اصل مادہ برأ اس لیے کہا ہے کیونکہ قرآن میں ( یعنی مختلف قراءات میں ) یہ لفظ ہمزہ کے ساتھ بھی آیا ہے ۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کی اصل برأ ہے ۔ جبکہ ہمزہ کا یا سے بدلنا قاعدہ جوازی ہے ۔
اگر آپ کے نزدیک اس کی اصل بری ہے تو پھر ہمیں قاعدہ بتائیں جس میں یاء کو ہمزہ سے بدلنے کا ثبوت ہو ۔
 
Top