• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مفسرین کا ایک غلط تفسیر

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
اکثر مفسرین نے سورہ بینہ کی آیت اولٰئک ھم خیر البریہ کا ترجمہ غلط کیاھے کیونکہ مفسرین کھتے ھیں کہ بریہ کا معنی ھے مخلوق جبکہ یہ ترجمہ باالکل غلط ھے کیونکہ بریہ کا معنی ھے زمین
والا مخلوق اس آیت کی ترجمے میں جن لوگوں نے مخلوق لکھا ھے وہ غلط اس لیے ھے کہ مخلوق کیلیے بریءۃ لفط آتا ھہ ناکہ بریہ امام رزای نے تفسیر کبیر اور دکتور وھبہ زحیلی نے اس فرق کو واضح کیا ھے لیکن اردو کی تفسیر والے تو سارے اندھے مقلد ھے اس لییے سب نے تقلید اور اندھے تقلید کی وجہ سے غلط ترجمہ کیا ھے
اگر کسی کی پاس دلیل ھو تو پیش کرے تاکہ ھم اپنا اصلاح کریں
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2011
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
65
السلام علیکم ! محترم ""الیاسی صاحب "" آپ نے اپنی اس پوسٹ میں سورۃ البینہ کی آیت "" إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمۡ خَيۡرُ ٱلۡبَرِيَّةِ "" کا ذکر کیا ۔
"" البریۃ "" کا اردو ترجمہ مترجمین نے "" مخلوق "" کیا ہے ۔ اور مفسرین حضرات نے بھی "" مخلوق "" بیان کیا ہے ۔
مولانا عبد الرحمن کیلانی صاحب اپنی کتاب " مترادفات القرآن کے صٍفحہ ٤٦٤ پر لکھتے ہیں :-
" بَرِيَّةِ " برء سے مشتق ہے ۔ بمعنی کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا ۔لہذا ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے "" بَرِيَّةِ "" میں شامل ہے ۔ساری کائنات زمین و آسمان ، دیگر سیارے بھی اس میں شامل ہیں ۔ اسکے بعد مولانا کیلانی صاحب نے سورۃ البینہ کی آیت کا حوالہ دیا ہے اور ترجمہ یہ کیا ہے "" جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ سب مخلوق سے بہتر ہیں ۔
امام راغب اصفہانی اپنی کتاب مفردات فی غریب القرآن میں مادہ ""براء " کے تحت لکھتے ہیں :-
ٱلۡبَرِيَّةِ : البریۃ الخلق ، قیل اصلہ الھمز فترک و قیل ذالک من قولھم بریت العود ، و سمیت بریۃ لکونہا مبریۃ عب البری ای التراب بدلا لۃ قولہ تعالی : " خلقکم من تراب " و قولہ تعالی : اولئک ھم خیر البریۃ ، و قال : شر البریۃ

"" الیاسی صاحب "" آپ نے امام رازی اور دکتور وھبہ زحیلی کا ذکر کیا ہے مگر متن نقل نہیں کیا ؟؟
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
الیاسی صاحب میں صرف تمھارے بارے اتنا کہوں گا کہ:::

اعوذ باللہ ان اکون من الجاھلین

ایک ان پڑھ اور تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے کو بھی با آسانی اس بات کی سمجھ لگ سکتی ہے اگر سیاق وسباق کو دیکھا جائے ۔
علماء ان آیات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ جیسا کہ اوپر بیان کیاجاچکا ہے
مولانا عبد الرحمن کیلانی صاحب اپنی کتاب " مترادفات القرآن کے صٍفحہ ٤٦٤ پر لکھتے ہیں :-
" بَرِيَّةِ " برء سے مشتق ہے ۔ بمعنی کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا ۔لہذا ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے "" بَرِيَّةِ "" میں شامل ہے ۔ساری کائنات زمین و آسمان ، دیگر سیارے بھی اس میں شامل ہیں ۔ اسکے بعد مولانا کیلانی صاحب نے سورۃ البینہ کی آیت کا حوالہ دیا ہے اور ترجمہ یہ کیا ہے "" جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ سب مخلوق سے بہتر ہیں ۔
امام راغب اصفہانی اپنی کتاب مفردات فی غریب القرآن میں مادہ ""براء " کے تحت لکھتے ہیں :-
ٱلۡبَرِيَّةِ : البریۃ الخلق ، قیل اصلہ الھمز فترک و قیل ذالک من قولھم بریت العود ، و سمیت بریۃ لکونہا مبریۃ عب البری ای التراب بدلا لۃ قولہ تعالی : " خلقکم من تراب " و قولہ تعالی : اولئک ھم خیر البریۃ ، و قال : شر البریۃ
آپ پتہ نہیں کسی لغت کی بات کرتے ہو یا تو کوئی نئی عربی ایجاد کرو گے ۔عربی کی کس ڈکشنری کو مانتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
اللہ بہتر جانتا ہے ۔
صرفی قواعد کی رو سے دیکھا جائے تو لفظ( البريئة اور البرية )ميں معنی کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں کا مادہ اور صیغہ ایک ہی ہے ۔
ایک تخفیف سے پہلے کی حالت ہے اور دوسری تخفیف کے بعد ۔
کیونکہ تخفیف ہمزہ کے قواعد میں یہ قاعدہ ہے کہ
جب ہمزہ متحرک ہو اور اس کا ماقبل واؤ یا یاء مدہ زائدہ ہوں تو اس ہمزہ کو ماقبل حرف علت سے بدلنا جائز ہے ۔ جیساکہ خطيئة سے خطية

چنانچہ لفظ( البريئة ) مشتق ہے (برأ )بمعنی (خلق )سے ۔ اور یہ صفت مشبہ بروزن( فعيلة) بمعنی( مفعولہ )ہے ۔
مذکورہ قاعدہ کی بناء پر تخفیف کی غرض سے ہمزہ کو یاء کردیا گیا تو یہ( بريية) ہوگیا اور دو یائیں اکٹھی ہو گئیں پہلی ساکن اور دوسری متحرک ہے ۔
پھر ادغام والے قاعدے کے تحت یاء کا یاء میں ادغام کردیا تو (بريّة) بن گیا ۔

چونکہ یہ قاعدہ جوازی ہے اس لیے اس لفظ کو قواعد کے لحاظ سے دونوں طرح ( البريئة اور البرية )پڑھنا جائز ہے ۔ روایت حفص میں یہ لفظ صرف (بريّة) یعنی تخفیف کے بعد والی حالت میں منقول ہے لیکن دیگر بعض قراءات میں یہ لفظ ہمزہ کے ساتھ یعنی( البريئة)بھی منقول ہے ۔

مختلف قراءات جمع کرنےسے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس لفظ کا اصل مادہ ( برأ ) ہے ۔ اور جو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی اصل ( بري) ہے ہمزہ والی قراءت ان پر حجت ہے ۔ واللہ أعلم ۔

تنبیہ : اس مشارکت میں قاعدہ کی تعیین کرنے میں غلطی کی تصحیح کردی گئی ہے ۔ بھائیوں کا توجہ دلانے کا شکریہ ۔ )
غلطی یہ تھی :
جب ہمزہ کلمہ میں تیسری جگہ واقع ہو اور زیادتی کےسبب چوتھی یا اس سے اگلی جگہ چلا جائےتو اس کو حرف علت سےبدلنا جائز ہے ۔
تصحیح یہ ہے :
جب ہمزہ متحرک ہو اور اس کا ماقبل واؤ یا یاء مدہ زائدہ ہوں تو اس ہمزہ کو ماقبل حرف علت سے بدلنا جائز ہے ۔ جیساکہ خطيئة سے خطية
اسی طرح طریقہ تعلیل میں بھی حسب قاعدہ کچھ تصرف کیا ہے ۔
 
Top