• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقامِ حدیث اور بزمِ طلوعِ اسلام،کویت

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مقامِ حدیث اور بزمِ طلوعِ اسلام، کویت

مولانا عبدالخالق محمد صادق مرکز دعوۃ الجالیات، کویت​
’اصولِ حدیث‘ کی رو سے حدیث اور سنت دو مترادف اصطلاحات ہیں جن سے مراد نبی اکرم ﷺ کے اقوال و افعال اور تقریرات ہیں، گویا حدیث یا سنت قرآنِ کریم کی عملی تفسیر اور بیان و تشریح کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو نازل کرکے اس کے احکامات کی عملی تطبیق کے لئے نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کو نمونہ قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) (الاحزاب:۲۱) ’’بے شک رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں آپ کے لئے بہترین نمونہ اور اُسوہ ہے۔‘‘
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قرآنی احکامات کی تفصیل اور عملی تفسیر لوگوں کے سامنے پیش کی تاکہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قرآنی تعلیمات پر عمل کیا جاسکے۔
نبی اکرم ﷺ کو نسل انسانی ہی سے مبعوث کرنے کی غرض و غایت بھی یہی ہے کہ لوگوں کے لئے آپ کی اقتداء و اتباع ممکن ہوسکے۔ ارشادِ ربانی ہے:
(قُلْ لَّوْ کَانَ فِیْ الأَرْضِ مَلاَئِکَةٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَّسُوْلاً) (بنی اسرائیل:۹۵)
’’اے پیغمبر! فرما دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔‘‘
چنانچہ رسول یا نبی کا کام صرف لا کر کتاب تھما دینا یا پڑھ کر سنا دینا ہی نہیں بلکہ اس کی تفہیم اور عملی تطبیق پیش کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے اور اُسوہ کا مفہوم بھی یہی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
’اُسوہ‘ کا مفہوم
اُسوۃ یا اِسوۃ عربی زبان کا لفظ ہے اور أسَا سے مصدر ہے جس کا مطلب القدوۃ یعنی قابل اقتدا چیز ہے۔ عرب کہتے ہیں:
’’فلان يأتسی بفلان أی يرضی لنفسه ما رضي هويقتدی به وکان فی مثل حاله‘‘ کہ ’’فلاں نے فلاں کو اُسوہ بنایا یعنی اس نے اپنے متقدیٰ اور آئیڈیل کی پسند کو اپنی پسند سمجھا اور ہر حال میں اس کی نقل کرنے کی کوشش کی‘‘۔
اور
’’ولی فی فلان أسوۃ أی قدوۃ‘‘ کہ ’’فلاں میرا اُسوہ یعنی آئیڈیل ہے۔‘‘ (لسان العرب : لفظ أسا ۱۴؍۳۴ )
امام راغب فرماتے ہیں:
’’هی الحالة التی يکون الانسان عليها فی اتباع غيره‘‘
’’کسی کو اُسوہ بنانے سے مراد انسان کی وہ حالت ہے جس میں وہ اپنے مقتدیٰ کی پیروی کے وقت ہوتا ہے۔‘‘ (المفردات فی غریب القرآن، ص۶۸)
لہٰذا لغت ِعرب میں ’اُسوہ ‘ سے مراد کسی کے اقوال و افعال اور عملی زندگی ہے۔
طلوعِ اسلام کے سربراہ مسٹر پرویز ’اُسوئہ حسنہ‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ جو شخص رسول اللہ ﷺ کے ارشاد یاکسی عمل کی صداقت سے انکار کرتا ہے، میرے نزدیک وہ مسلمان ہی نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے کہ حضور ﷺ کے ارشادات و اعمال سے وہ ماڈل ترتیب پاتا ہے جسے خدا نے ’اُسوۂ حسنہ‘ قرار دیا ہے۔ اُسوۂ حسنہ سے انکار نہ صرف انکارِ رسالت ہے بلکہ ارشادِ خداوندی سے انکار ہے۔ اس انکار کے بعد کوئی شخص کیسے مسلمان رہ سکتا ہے۔‘‘ (مضمون’سوچا کرو‘ :ص۱۱)
قارئین ذرا غور فرمائیے،’اُسوۂ حسنہ‘کے مفہوم کی تعیین میں چنداں فرق نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پرویز صاحب نے یہ بیان سادہ لوح مسلمانوں کو فریب میں مبتلا کرنے کے لئے دیا ہے؟ جیسا کہ طلوعِ اسلام کی روش ہے کہ ماہنامہ ’طلوع اسلام‘ کے ٹائٹل پر ’بخاری و مسلم‘کی حدیث درج ہوتی ہے اور مندرجات سب کے سب احادیث کے ردّ میں … یا پھر واقعتا ان کا یہی عقیدہ ہے!! ؟
اگر واقعتا ان کا یہی ایمان ہے تو پھر ہم سوال کرنے کی جسارت کریں گے کہ چلو آپ کے بقول آپؐ کے ارشادات تو ہوئے قرآنِ کریم کی شکل میں ہیں ،لیکن آپؐ کے اعمال کون سے ہیں؟ ان کا پتہ کیسے چلے گا؟ کیونکہ آپ کے بقول احادیث تو آپ ﷺ سے دو صدیاں بعد میں لکھی گئیں ہیں؟ احادیث کے بارے میں ایسا منفی رویہ رکھنے کے بعد جناب پرویز کے اِس فرمان کا کیا بنے گا… !!
’’جو شخص رسول اللہ ﷺ کے ارشاد یا کسی عمل کی صداقت سے انکار کرتا ہے میرے نزدیک وہ مسلمان ہی نہیں کہلا سکتا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
قرآن و حدیث میں باہمی ربط
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حدیث ِرسولِ مقبول ﷺ قرآنِ پاک کا بیان اور تفسیر ہے۔ دونوں آپس میں لازم و ملزوم اور من جانب اللہ ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا انکاردوسرے کے انکار کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ قرآنِ کریم کو نازل کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کے احکام پر عمل کیا جائے اور جب تک اس دستورِ کامل کے جامع الفاظ کی تشریح نہیں کی جائے گی تب تک اللہ کی منشا کے مطابق اس پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ قرآن کی تشریح و توضیح کی چند ممکنہ صورتیں ہوسکتی ہیں :
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
پہلی صورت:
ہرشخص کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے اس کی تشریح کرے، لیکن یہ نظریہ کئی لحاظ سے ناقابل قبول ہے: اس سے بعثت ِانبیاء و رسل علیہم السلام کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے… ایسا کرنے سے اُمت بے شمار گروہوں میں بٹ جائے گی جو کہ روحِ اسلام کے منافی ہے۔ جیسا کہ منکرین حدیث نماز کے سلسلے میں باہم مخالف اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، حالانکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا) ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق اس کے احکام پر عمل نہیں ہوسکے گا اور گمراہی پھیلے گی… (وَاَنَّ هذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْمًا فَاتَّبِعُوْه) کا وجود ہی ختم ہوجائے گا ،ہر ایک اپنی راہ کو مستقیم قرار دے گا اور اپنی عقل کو عقل کل سمجھ کر نیا طرزِ جنوں ایجاد کرلے گا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دوسری صورت:
یہ ہے کہ قرآن کی توضیح و تشریح نبی اکرم ﷺ اپنے دور میں اپنی ذاتی مرضی سے کریں اور آپ کے بعد جو بھی مسلمانوں کا امام یا سربراہ یا ’مرکز ِملت‘ ہو وہ اپنی مرضی سے کرے، لیکن یہ نظریہ بھی کئی لحاظ سے گمراہ کن ہے :
1۔ خود قرآنِ کریم اس نظریے کو غلط قرار دیتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو قرآن کی من مانی تعبیرکا اختیار ہو۔ چنانچہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
(وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَیٰ إِنْ هُوْ إِلاَّ وَحْیٌ يُّوْحٰی) (النجم:۳، ۴) ’’اور وہ (یعنی نبی اکرم ﷺ ) اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کہتے۔ ان کی بات تو صرف وہی ہوتی ہے جو اُتاری جاتی ہے۔‘‘
اسی طرح جب نبی اکرم ﷺ نے کسی وجہ سے شہد نہ کھانے کی قسم کھا لی تو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر ﷺ کو یہ تنبیہ فرمائی:
(يَا أَيُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللّٰهَ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاهَ أَزْوَاجِکَ وَاللّهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) (التحریم:۱) ’’اے نبی (ﷺ )! جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کردیا ہے، آپ اسے کیوں حرام کرتے ہیں؟… کیا (اس لئے کہ) آپ اپنی ازواجِ مطہرات کی رضا چاہتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
2۔اس نظریہ سے اطاعت ِرسول اللہ ﷺ کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے اور پرویز کے اس نظریہ کے مطابق توواجب الاطاعت رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس نہیں بلکہ ’مرکز ِملت‘ یعنی وقت کی حکومت واجب الاطاعت قرار پاتی ہے۔بلکہ وہی اللہ اور رسول ﷺ دونوں کا درجہ رکھتی ہے۔چنانچہ پرویزصاحب لکھتے ہیں :
’’یہ تصور قرآن کی بنیادی تعلیم کے منافی ہے کہ اطاعت اللہ کے سوا کسی اور کی بھی ہوسکتی ہے حتیٰ کہ خود رسول کے متعلق واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بتلا دیا گیا کہ اسے بھی قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے۔ لہٰذا اللہ اور رسول سے مراد وہ مرکز ِنظامِ اسلامی ہے جہاں سے قرآنی احکام نافذ ہوں۔‘‘ (معراجِ انسانیت: ص۳۱۸)
اور اسی کتاب کے صفحہ ۳۲۳ پر لکھتے ہیں:
’’اس لئے مرکز ِملت کو قرآن کریم میں ’اللہ اور رسول‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔‘‘
قارئین!
خود اندازہ فرمائیے کہ جب انسان اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق قرآن کی تفسیر کرتا ہے تو باقی احکام تو اپنی جگہ، خود اطاعت ِالٰہی اور اطاعت ِرسول اللہ ﷺ کے تصور کو ہی بدل دیتا ہے اور مرکز ِملت یعنی سربراہانِ اسلامی مملکت کو ہی اُلوہیت اور رسالت کے مقام پر فائز کردیتا ہے۔
یہ نظریہ سرے سے ہی غلط ہے ۔
نبی اکرم ﷺ کی رسالت عالمگیر ہے اور آپ قیامت تک کے لئے مطاع و مقتدیٰ ہیں اور آپ کا اُسوئہ حسنہ قیامت تک کے لئے واجب الاتباع ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تیسری صورت:
تیسری اور صحیح صورت یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کی منشا اورحکم کے مطابق قرآنِ کریم کی تبیین و تفسیر فرمائیں اور اس کا عملی نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ جیسا کہ امام شاطبیؒ فرماتے ہیں:
فکان السنة بمنزلة التفسير والشرح لمعانی أحکام الکتاب (الموافقات۴؍۱۰) ’’گویا کہ حدیث کتاب اللہ کے اَحکام کی شرح و تفسیر ہے۔‘‘
ویسے بھی معمولی سی عقل کا حامل شخص بھی آسانی سے یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ صاحب ِکلام ہی مرادِ کلام سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔ اس کے مقتضی، مفہوم اور اسرارو رموز اور مقصود و مطلوب وہ خود بیان کرے تو تب ہی اس کی منشا کے مطابق تعمیل احکام ممکن ہوگی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دستورِ ابدی (قرآنِ کریم) کو نازل کرکے اس کے قوانین کی تمام شقوں کی توضیح بھی نبی اکرم ﷺ کو سکھادی تھی تاکہ اُمت کے لئے قانونِ الٰہی کی کسی شق میں ابہام باقی نہ رہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَأَنْزَلْنَا إِلَيْکَ الذِّکْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِْم وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَکَّرُوْنَ) (النحل: ۴۴) ’’اور ہم نے آپ ﷺ پر ’ذکر‘ اس لئے نازل کیا تاکہ آپؐ لوگوں کو اس کے مطالب و مفاہیم بیان کریں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘
آیت ِمبارکہ میں لفظ لِتُبَیِّنَ کی ’ل‘ غایت کے لئے ہے یعنی نبی اکرم ﷺ کی بعثت کی غرض وغایت قرآنی احکام کی تبیین اور وضاحت ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ’بیان‘ قرآن سے الگ چیز کا نام ہے اور اسی کو ’حدیث‘ کہا جاتا ہے۔
نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(هُوَالَّذِیْ أَنْزَلَ إِلَيْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلًا)(الانعام ۱۱۴)
’’اللہ وہ ذات ہے جس نے آپکی طرف ایسی کتاب نازل کی جس کی تفصیل بیان کردی گئی ہے‘۔‘
اس آیت ِمبارکہ میں لفظ مُفَصَّلًا عربی گرامر کی رو سے اَلْکِتَابُ سے حال بن رہا ہے ہے اور حال وذو الحال میں مغایرت ہونے کے قاعدہ سے پتہ چلتا ہے کہ ’تفصیل‘ اور ’الکتاب‘ دو الگ چیزیں ہونی چاہئیں اور وہ دوسری شے ’حدیث‘ ہے۔
نیز دونوں آیاتِ کریمہ سے واضح اور ظاہر ہے کہ کتاب کی تبیین و تفصیل بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ مزید برآں قرآنِ کریم میں اس کی صراحت بھی موجود ہے۔ سورۃ القیامہ میں ہے:
(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَه) (القیامہ:۱۹) ’’پھر اس کی تشریح بھی ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
گرامر کی رو سے آیت میں لفظ ثُمَّ تراخی کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے قرآن اتارا اور پھر اس کا بیان اتارا یعنی حدیث بھی اللہ کی طرف سے ہے ۔ اور سورئہ ہود میں ہے:
(آلر، کِتَابٌ أُحْکِمَتْ آيَاتُه ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِيْمٍ خَبِيْرٌ) (ہود:۱)
’’یہ کتاب جس کی آیات محکم کی گئی ہیں اور پھر حکیم خبیر (اللہ تعالیٰ) کی طرف سے ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔‘‘
اس آیت ِمبارکہ سے چند چیزیں ثابت ہوتی ہیں:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر1۔
کتاب اللہ کی آیات دو طر ح کی ہیں:
1۔محکمات:
مثلاًاوامر و نواہی اور حلال و حرام وغیرہ سے متعلق آیات۔
2۔متشابہات:
مثلاً حروفِ مقطعات اور اللہ تعالیٰ کی صفاتِ جلیلہ سے متعلق آیات وغیرہ۔ چنانچہ فرمان ِالٰہی ہے:
(مِنْهٌ آيَاتٌ مُّحْکَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَات)(آلِ عمران: ۷)
’’قرآنِ کریم کی کچھ آیات محکم ہیں (اور )وہی اصل کتاب ہیں …اور کچھ متشابہ ۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر2۔
آیاتِ محکمات کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ’’فُصِّلَتْ‘‘ یعنی ان کی تفصیل بیان کردی گئی ہے اور آیاتِ متشابہات کے بارے میں ارشاد ہے:
(وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَه إٍلَّا اللّٰهُ) کہ ’’ان کی حقیقت اللہ کو معلوم ہے۔‘‘
ہم ان کی حقیقت جاننے کے مکلف نہیں، ہمارا فرض بس ان پر ایمان لانا ہے ۔
لہٰذا یہ دعویٰ از خود دم توڑ گیا کہ قرآنِ کریم میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے اور حدیث کے ذریعے اس کی تفصیل معلوم کرنے کی ضرورت نہیں۔
اب رہی یہ بات کہ آیاتِ محکمات کی تفصیل کہاں ہے؟ تو مذکورہ آیات اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ان کی تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ پر اُتاری اور آپؐ نے صحابہ کو بیا ن فرمائی جو کہ آپ کے فرامین کی شکل میں محفوظ ہے۔
لیکن جو لوگ اس بات کو نہیں مانتے ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ پھرقرآن کریم کے اس دعویٰ : (ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ)اور(ثُمَّ فُصِّلَتْ)کا کیا مطلب؟اس دعویٰ کے مطابق وہ بیان اور تفصیل کہاں ہے؟
مثلاً (أَقِيْمُوْا الصَّلاَةَ) کا ہرمسلمان کو حکم ہے۔ نماز کی ہیئت، رکعات اور جزئیات کی وضاحت کہاں ہے کہ ہم کیسے ،کتنی او رکب نماز ادا کریں؟
اسی طرح
(آتُوْا الزَّکَاةَ) کا حکم ہے، اب زکوٰۃ کے نصاب، مقدار اور کس پر زکوٰۃ ہے کس پرنہیں … اس کی تفاصیل قرآ نِ کریم میں کہاں ہیں؟
اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(قُلْ لاَّ اَجِدُ فِیْ مَا أُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ إِلاَّ أَنْ يَکُّوْنَ مَيْتَةً أَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَإِنَّهٗ رِجْسٌُ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيِرْاللّهِ بِهٖ) (الانعام:۱۴۵)
’’کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ،میں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام لیا گیا ہو ۔‘‘
اور انہی چیزوں کا ذکر سورۃ المائدۃ کی آیت۳میں بھی کیا گیا ہے،اسی طرح سورۃ المائدۃ میں ہے:
(أُحِلَّتْ لَکُمْ بَهِيْمَةُ الْاَنْعَامِ) (المائدۃ:۱) ’’تمہارے لئے چوپائے (چرنے والے جانور )حلال کردیئے گئے ہیں ۔‘‘
لغت میں بھیمۃ الأنعام کا اطلاق اونٹنی، اونٹ، گائے، بیل، بکری، بکرا، بھیڑ اور مینڈھا پر ہوتا ہے اور تفسیر قرآن میں بھی انہی چیزوں کاذکر ہے۔
اگر احادیث حجیت نہیں ہیں تو مندرجہ ذیل سوالات کا جواب ہمیں کہاں سے ملے گا؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر3۔
قرآنِ کریم نے میتۃ یعنی از خود مر جانے والے جانور کو حرام قرار دیا ہے؟ اب منکرین حدیث سے سوال ہے کہ مچھلی جب پانی سے باہر آتی ہے تو مر جاتی ہے، بالخصوص ’فریز‘ کی ہوئی مچھلیاں۔ تو اس کا کیا حکم ہے ۔ اگر حلال کہتے ہو تو پھر اس کو قرآن سے ثابت کیا جائے یا حرام ہونے کا فتویٰ دیا جائے۔
اگر اس کی حلت کو قرآن سے ثابت نہیں کر سکتے توپھرنبی کریم ﷺ کے اس فرمان کو مان لو :
أحلّت لنا ميتتان: السمک والجراد - (مسند احمد :۲؍۷۹، فتح الباری: ۹؍۶۲۱)
’’ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دو مردار حلال قرار دیئے ہیں: مچھلی اور مکڑی‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر4۔
مردہ جانور، خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام قرار دیا گیا ہے اور بھیمۃ الأنعام کو حلال۔
اب بتائے کہ کتا، بلی، گیدڑ، شیر، چیتا، ہاتھی، ریچھ، شکرا اور چیل حلال ہیں یا حرام؟ قرآنِ کریم میں ان کی وضاحت کہاں ہے؟ جبکہ قرآن کریم میں ہے کہ
(قُلْ لاَ أَجِدُ فِيْمَا أُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلی طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ) (الانعام:۱۴۵)
’’میں مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانور کے علاوہ قرآن میں کھانے والوں کے لئے کوئی چیز حرام نہیں پاتا‘‘
 
Top