کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
مقامِ حدیث اور بزمِ طلوعِ اسلام، کویت
مولانا عبدالخالق محمد صادق مرکز دعوۃ الجالیات، کویت
’اصولِ حدیث‘ کی رو سے حدیث اور سنت دو مترادف اصطلاحات ہیں جن سے مراد نبی اکرم ﷺ کے اقوال و افعال اور تقریرات ہیں، گویا حدیث یا سنت قرآنِ کریم کی عملی تفسیر اور بیان و تشریح کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو نازل کرکے اس کے احکامات کی عملی تطبیق کے لئے نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کو نمونہ قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قرآنی احکامات کی تفصیل اور عملی تفسیر لوگوں کے سامنے پیش کی تاکہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قرآنی تعلیمات پر عمل کیا جاسکے۔(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) (الاحزاب:۲۱) ’’بے شک رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں آپ کے لئے بہترین نمونہ اور اُسوہ ہے۔‘‘
نبی اکرم ﷺ کو نسل انسانی ہی سے مبعوث کرنے کی غرض و غایت بھی یہی ہے کہ لوگوں کے لئے آپ کی اقتداء و اتباع ممکن ہوسکے۔ ارشادِ ربانی ہے:
چنانچہ رسول یا نبی کا کام صرف لا کر کتاب تھما دینا یا پڑھ کر سنا دینا ہی نہیں بلکہ اس کی تفہیم اور عملی تطبیق پیش کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے اور اُسوہ کا مفہوم بھی یہی ہے۔(قُلْ لَّوْ کَانَ فِیْ الأَرْضِ مَلاَئِکَةٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَّسُوْلاً) (بنی اسرائیل:۹۵)
’’اے پیغمبر! فرما دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔‘‘