• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقامِ حدیث اور بزمِ طلوعِ اسلام،کویت

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر5۔
لہٰذا اگر قرآن میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور احادیث پر آپ کو یقین نہیں ہے تو قرآن سے ان جانوروں کو حرام ثابت کریں یا پھر ان کے حلال ہونے کا فتویٰ دیں؟ ورنہ اس حدیث کی حجیت کو تسلیم کرلیں :
کل ذی ناب من السباع وکل ذی مخلب من الطير(مسند احمد: ۱؍۳۳۲، ۴،۱۹۳)
’’ہر کچلی والا جانور اور ہر پنجے سے شکار کرنے والا پرندہ حرام ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر6۔
پرویز صاحب کا دعویٰ ہے کہ :
’’جو احادیث قرآن کے خلاف نہیں، میں انہیں صحیح سمجھتا ہوں۔‘‘ (شاہکارِ رسالت، ص۴۹۷)
اس بنا پرپرویزی فکر کے حاملین سے ہمارا سوال یہ ہے کہ
جن احادیث ِمبارکہ میں نماز اور زکوٰۃ کی تفاصیل موجود ہیں، وہ قرآنِ کریم کی کس آیت ِمبارکہ کے خلاف ہیں؟
اگر وہ احادیث قرآن کے خلاف نہیں تو پرویز نے (وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ) (البقرۃ:۳)کا درج ذیل مفہوم کہاں سے لیا ہے؟
’’اس مقصد کے لئے یہ لوگ اس نظام کو قائم کرتے ہیں جس میں تمام افراد قوانین خداوندی کا اتباع کرتے جائیں۔‘‘ (مفہوم القرآن: ۱؍۳)
یعنی ’اقامت ِصلوٰۃ‘ سے مراد ایک نظام قائم کرنا ہے، رکوع و سجود اور قیام و قعود پر مشتمل نمازمراد نہیں ہے ۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ
’’قرآنِ کریم کی خاص اصطلاح ’اقامت ِصلوٰۃ‘ ہے جس کے عام معنی نماز قائم کرنا یا نماز پڑھنا کئے جاتے ہیں۔ لفظ صلوٰۃ کا مادہ ’ص ل و‘ ہے جس کے بنیادی معنی کسی کے پیچھے پیچھے چلنے کے ہیں اس لئے صلوٰۃ میں قوانین خداوندی کے اتباع کامفہوم شامل ہوگا۔ بنابریں اقامت ِصلوٰۃ سے مفہوم ہوگا ایسے نظام یا معاشرے کا قیام جس میں قوانین ِخداوندی کا اتباع کیا جائے۔ ‘‘ (مفہوم القرآن: جلد اول، ص۷)
جب ایک چیز کے مفہوم کا تعین خود صاحب ِقرآن نے کردیا ہے تو پھر اپنی طرف سے اس مفہوم کے خلاف ایک نیا نظریہ پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اسی طرح ’زکوٰۃ‘کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’زکوٰۃ کا مروّجہ مفہوم یہ ہے کہ اپنی دولت میں سے ایک خاص شرح کے مطابق روپیہ نکال کر خیرات کے کاموں میں صرف کیا جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس میں بھی زکوٰۃ کے قرآنی مفہوم کی ایک جھلک پائی جاتی ہے ،لیکن قرآنِ کریم نے اسے ان خاص معانی میں استعمال نہیں کیا۔‘‘(مفہوم القرآن، جلد اوّل، ص۷)
ان تصریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پرویز کا یہ دعویٰ کہ ’’جو شخص رسول اللہ ﷺ کے ارشاد یا کسی عمل کی صداقت سے انکار کرتا ہے میرے نزدیک وہ مسلمان ہی نہیں کہلا سکتا۔‘‘ اسی طرح اس کا یہ کہنا کہ ’’جو احادیث قرآن کے خلاف نہیں، میں انہیں صحیح سمجھتا ہوں۔‘‘محض دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔
مذکورہ تمام دلائل یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ قرآن کی طرح حدیث بھی وحی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے آخری منتخب پیغمبر ﷺ پرنازل ہوئی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
قرآنِ کریم کی طرح حدیث بھی محفوظ ہے؟
بدیہی سی بات ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت کا مقصدتب ہی پورا ہوگا کہ اس کی تشریح و توضیح بھی محفوظ ہو کیونکہ مقصود تو عمل کرنا ہے اور معروف قاعدہ ہے:
وما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب
’’جس کے بغیر واجب کی تکمیل نہ ہو، وہ خود بھی واجب ہوتاہے۔ ‘‘
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت (حدیث) دونوں کو قیامت تک کے لئے محفوظ کرنے کا انتظام فرمایا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ) (الحجر:۹) ’’بے شک ہم نے ذکر اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘
یہاں اللہ تعالیٰ نے لفظ قرآن اور الکتاب کی بجائے لفظ ’الذکر‘ استعمال کیا ہے جو حدیث کو بھی شامل ہے کیونکہ قرآنِ مجید میں یہ لفظ نبی ﷺ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ سورۃ الطّلاق کی آیت (وَاَنْزَلَ اللّهُ عَلَيْکُمْ ذِکْرًا، رَّسُوْلًا يَّتْلُوْ عَلَيْکُمْ…) میں رسول ’ذکر‘ سے بدل ہے۔
یہی سبب ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے سوا کائنات میں کوئی فرد و بشر ایسا نہیں جس کی کامل سیرت اور سوانح حیات محفوظ ہوں ۔ جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی سنت کی حفاظت کی ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا موضوع روایات گھڑ لینا اس بات کو مستلزم ہے کہ حدیث غیرمحفوظ ہے؟
اگر کسی کے بعض موضوع روایات کو گھڑ لینے سے پوری احادیث ِمبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے تو پھر توقرآن کریم کی آیات بھی گھڑنا ثابت شدہ ہے، کیا اسے بھی غیر محفوظ سمجھا جائے۔چنانچہ یہ امر تاریخی طور پرثابت شدہ ہے کہ
مسیلمہ کذاب نے اپنی طرف سے کچھ عبارات وضع کرکے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ قرآن ہے جو مجھ پر نازل ہوا ہے۔ (البدایہ والنہایہ:۵؍۱۵)
اسی طرح ۱۹۹۹ء میں انٹرنیٹ پربعض لوگوں نے قرآن کے مشابہ عبارات بنا کر انہیں
’سورۃ المسلمون‘ اور ’سورۃ التجسد‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔ (دیکھئے مجلہ الوعی عدد ۱۳۳ ، صفر ۱۴۱۹ھ)
تو کیا اس سے قرآن پاک کی صداقت پر کوئی حرف آیا ہے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ قرآن کے ماہرین اور حفاظ نے فوراً اس کی تردید کی۔
اسی طرح اگر کسی نے موضوع روایات بنا لی تھیں تو ان سے حدیث کی صداقت پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ محدثین کرام نے لوگوں کو ان وضعی اور من گھڑت روایات سے متنبہ کردیا ہے۔ اسی لئے جب حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کے سامنے اس خطرے کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا تھا:
’’ تعيش لها الجهابذة ‘‘ (الباعث الحثیث، تدریب الراوی)
کہ’’ ماہرین حدیث موجود ہیں جو لوگوں کو موضوع روایات سے آگاہ کریں گے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا احادیث، نبی ﷺ کی وفات کے کافی عرصہ بعد لکھی گئیں؟
مسٹر پرویز لکھتے ہیں:
’’یہ کوششیں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بہت عرصہ بعد شروع ہوئیں۔ مثلاً ان مجموعوں میں سب سے زیادہ مستند مجموعہ امام بخاری کا سمجھا جاتا ہے، وہ حضور ؐ کی وفات کے دو اڑھائی سو سال بعد مرتب ہوا تھا۔ یہ مجموعے کسی سابقہ تحریر ی ریکارڈ سے مرتب نہیں ہوئے تھے۔ زبانی روایات جمع کی گئی تھیں۔‘‘ (اسبابِ زوالِ اُمت، ص۶۳)
اس بیان سے چند چیزیں سامنے آتی ہیں:
1۔احادیث دیر سے مرتب ہوئیں۔
2۔سابقہ ریکارڈ نہیں تھا زبانی جمع کی گئیں۔
3۔سب سے پہلے امام بخاری ؒ نے احادیث جمع کیں۔
قارئین!
پرویز صاحب نے سادہ لوح مسلمانوں کو بڑے پرکشش انداز میں فریب میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے۔ذرا غور فرمائیے کہ کیا دیر سے کسی چیز کو مرتب کرکے پیش کرنا عیب ہے؟ اگر عیب ہے تو پھر فرمائیے کہ قرآنِ کریم میں کتنے ہزار سال بعد گذشتہ اُمم کے واقعات ہمارے سامنے بیان کئے گئے؟
اور دوسری بات کہ کیا کسی چیز کا تحریری ریکارڈ نہ ہونا اور صرف حفظ اور یاد ہونا اس چیز کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے؟
ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے قائدین کی ہر ہر اَدا کو حفظ کر لیتے ہیں توکیا نبی اکرم ﷺ پہ جان فدا کرنے والے صحابہ کرامؓ جنہیں اپنے تو اپنے ، گھوڑوں تک کے نسب نامے اور کارنامے بھی ازبر تھے اور وہ عرب جنہیں اپنے حافظے پر ناز تھا،کیا وہ اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کے الفاظ کو یاد نہ رکھ سکے ہوں گے؟ اور پھر نبی ﷺ کی یہ ترغیب بھی تھی کہ’’نضرالله امرأ سمع مقالتی فوعاها‘‘(ترمذی ۲۶۵۸، مسند احمد ۴؍۸۰) اور پھر نبی اکرم ﷺ بالاہتمام صحابہ ؓ کو احادیث ِمبارکہ یاد کرواتے تھے اور صحابہ کرام اس اعتقاد کے ساتھ احادیث یاد کرتے کہ وہ قرآنِ کریم کی تفسیر ہیں اوران کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ناممکن ہے۔
حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ
مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رات کو سوتے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی : ’’اللهم أسلمت وجهی إليک وفوضت أمری إليک وألجات ظهری إليک رغبة ورهبة إليک لا ملجأ ولا منجأ منک إلا إليک، آمنت بکتابک الذی أنزلت وبنبيک الذي أرسلت‘‘ فرماتے ہیں: میں نے چاہا کہ اس دعا کو آپ کے سامنے دہرائوں تاکہ اچھی طرح یاد ہوجائے تو میں نے ساری دعا آپؐ کو ہوبہو سنا دی، صرف ’’بنبیک‘‘ کی جگہ ’’برسولک‘‘ کہہ دیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’لا وبنبیک الذی أرسلت‘‘ کہ ایسے نہیں بلکہ ویسے پڑھو جیسے میں نے آپ کو سکھایا یعنی ’’بنبيک‘‘ (صحیح البخاری مع الفتح : ۱۱؍۱۲، حدیث ۶۳۱۱)
اس روایت سے چند باتیں سامنے آتی ہیں :
1۔نبی اکرم ﷺ اپنی احادیث ِمبارکہ ٰنہایت اہتمام کے ساتھ صحابہ کرامؓ کو سکھاتے تھے۔
2۔صحابہ کرام ؓ کا حافظہ اتنا مضبوط تھا کہ جو کچھ سنتے، فوراً احفظ ہو جاتا ۔
3۔صحابہ کرامؓاحادیث سننے کے آپ ﷺ سے تصحیح کروایاکرتے تھے ۔
4۔صحابہ کرامؓ نہایت اہتمام سے نبی اکرم ﷺ کے الفاظ کو ازبر کرنے کی کوشش کرتے او ر خودنبی اکرم ﷺ بھی صحابہ سے اس کا اہتمام کروایا کرتے ۔اگر بنبیک کی جگہ رسولک کہہ بھی دیا جاتا تو خلاف واقعہ نہ تھا ،کیونکہ آپ ﷺ نبی بھی تھے اور رسول بھی۔ چونکہ اللہ کی طرف نازل شدہ الفاظ بنبیک تھے ،اس لئے آپ ﷺ نے وہی الفاظ سکھائے۔(٭)
(٭)اس حدیث کے پیش نظر روایت بالمعنی پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کیونکہ روایت بالمعنی محدثین کے ہاں متفقہ طور پر جائز ہے۔البتہ بعض صورتوں میں حدیث نبوی ﷺ کے الفاظ من وعن نقل کرنا ضروری ہوتا ہے جیسے ذکرو اذکار،وردو وظائف اور حدیث قدسی وغیرہ چونکہ اس حدیث میں بھی دعائیہ کلمات ہیں اس لیے الفاظ کی پابندی ضروری ہے۔(محدث)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ
’’ہم تقریباً ساٹھ آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس ہوتے اور آپ ﷺ ہمیں احادیث سکھاتے۔ پھر جب آپ تشریف لے جاتے تو ہم آپس میں مذاکرہ کیا کرتے تھے اور جب ہم فارغ ہوتے تو وہ احادیث ِپاک ہمارے دلوں پہ نقش ہوچکی ہوتی تھیں۔‘‘ (الفقیہ والمتفقہ)
اور حضرت علیؓ اپنے شاگردوں سے فرمایا کرتے تھے:
تذاکروا الحديث فإنکم إن لم تفعلوا يندرس(الفقیہ والمتفقہ)
’’احادیث کا مذاکرہ کیا کرو (یعنی ایک دوسرے کو سنا کر یاد کیا کرو)۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو حدیث آپ کو بھول جائے گی۔‘‘
معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ، اور ان کے شاگرد تابعین عظام بڑے اہتمام کے ساتھ احادیث ِمبارکہ کو یاد کرتے تھے اور پھر ان کے اور امام بخاریؒ کے درمیان فاصلہ ہی کتنا تھا؟ نبی اکرم ﷺ کے آخری صحابہ ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے اور امام بخاری ۱۹۴ھ میں پیدا ہوئے۔ لیکن پرویز صاحب اس کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، گویا درمیان میں صدیوں کا فاصلہ تھا اور پھر احادیث کو یاد کرنے کا اہتمام بھی نہیں تھا تاکہ لوگوں کو تاثر دیا جاسکے کہ محدثین نے اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر نبی ﷺ کی طرف منسوب کی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اب رہا یہ دعویٰ کہ احادیث کا سابقہ تحریری ریکارڈ موجود نہیں تھا تو یہ سراسر باطل، لغو اور خلافِ واقعہ ہے۔کیونکہ نبی اکرم ﷺ خود احادیث لکھوایا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ
میں نبی اکرم ﷺ کے پاس احادیث لکھا کرتا تھا تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ نبی اکرم ﷺ کبھی غصے میں ہوتے ہیں اور کبھی خوشی میں توتم ہر بات لکھ لیتے ہو۔ چنانچہ میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور آپ ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: أکتب فو الذی نفسي بيده ما يخرج منه إلا الحق (مسند احمد: ۲؍۱۶۲)
’’احادیث لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس منہ سے حق کے سوا دوسری بات نہیں نکلتی۔‘‘
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپؐ احادیث لکھوایا کرتے تھے اور نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہی بہت سے صحابہ کرامؓ کے پاس تحریری شکل میں احادیث موجود تھیں۔مثلاً
(۱)صحیفہ حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ
(۲) نسخہ حضرت ابوبکر صدیقؓ جس میں زکوٰۃ کے احکام درج تھے،
(۳) نوشتہ ہائے سعد بن عبادۃؓ،
(۴) احادیث التفسیر لابی بن کعبؓ،
(۵)نوشتہ عمر بن خطابؓ،
(۶) صحیفہ عبداللہ بن مسعودؓ،
(۷) نوشتہ ابی رافعؓ،
(۸) صحیفہ صادقہ از حضرت علیؓ،
(۹)کتاب الفرائض لزید بن ثابتؓ،
(۱۰) کتاب مغیرہ بن شعبہؓ،
(۱۱) کتاب عمرو بن حزم انصاریؓ،
(۱۲) صحیفہ سمرۃ بن جندبؓ،
(۱۳)صحیفہ صادقہ از حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ،
(۱۴) صحیفہ عبداللہ بن عباسؓ،
(۱۵) صحیفہ رافع بن خدیج ؓ،
(۱۶) صحیفہ جابر بن عبداللہؓ،
(۱۷) صحیفہ شمعون بن یزیدؓ،
(۱۸) نوشتہ انس بن مالکؓ،
(۱۹) صحیفہ ہمام بن منبہؓ جو انہوں نے اپنے استاد حضرت ابوہریرہ ؓسے لکھا تھا۔
نیز صحیح بخاری سے پہلے ان صحف کے علاوہ یعنی تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بھی کئی کتابیں لکھی جاچکی تھیں۔
صحیفہ معمر، موطا ٔامام مالک، موطأ امام محمد، کتاب الآثار ، کتاب الخراج، مسند الشافعی، کتاب الام، مسند احمد، مسند اسحاق بن راہویہ، مسند الحمیدی، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق وغیرہ۔
اسی طرح عبداللہ بن مبارک، حضرت وکیع اور علی بن مدینی رحمہم اللہ کی کتب لکھی جاچکی تھیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا جامعین حدیث سب ایرانی تھے؟
مسٹر پرویز ’شاہکارِ رسالت‘ میں عنوان قائم کرتے ہیں
’’جامعین ِحدیث سب ایرانی تھے۔‘‘ (شاہکارِ رسالت: ص۵۰۳)
جب مقصود ہی فرامین رسول ﷺ کی مخالفت ہو تو پھر آدمی لوگوں کو فریب دینے کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔فرض کیجئے! اگر ایران کا کوئی آدمی قرآنِ مجید حفظ کر لے تو کیا ہم اس لئے قرآن کا انکار کردیں گے کہ اس کا حافظہ ایرانی ہے ۔یہ عجیب منطق ہے؟ رہی یہ بات کہ کیا واقعی جامعین حدیث سب ایرانی تھے یا عجمی تھے تو یہ سراسر جھوٹ ہے جو پرویز کی مسند ِتحقیق سے بولا گیاہے۔
(مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے عرب اورعجم محدثین کی الگ الگ فہرست تیار کر دی ہے اور اس اعتراض پر طویل بحث کی ہے ،)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
فتنہ انکارِ حدیث کی تاریخ
ستیزۂ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
فجر اسلام ہی سے دین حقہ کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا اور چراغِ مصطفوی کو گل کرنے کی سرتوڑ کوششیں ہوتی رہی ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دشمنانِ اسلام کے مکروہ عزائم اور ریشہ دوانیوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
(يُرِيْدُوْنَ أَنْ يُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّهِ بَأَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَی اللّهُ إِلاَ أَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُوْنَ) (التوبہ:۳۲)
دشمنانِ اسلام اس نورِ الٰہی کو بجھا دینا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کی سازشوں کے علیٰ الرغم اس نور (دین اسلام) کی حفاظت کرے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا​
سب سے پہلے جس شخص نے ردائِ نبوت میں نقب زنی کی، وہ ملعون مسیلمہ کذاب تھا جس نے ۱۰ہجری میں نبی اکرم ﷺ کی طرف خط لکھااور اپنی نبوت کا اعلان کیا۔ تو نبی اکرم ﷺ نے اس ملعون اور دجال کو یہ جواب لکھا تھا :
’’من محمد رسول اللهﷺ إلی مسيلمة الکذاب، سلام علی من اتبع الهدی أما بعد فإن الأرض لله يورثها من يشآء من عباده والعاقبة للمتقين (البدایہ والنھایہ: ۵؍۵۱) ’’ یہ زمین اللہ ہی کی ہے وہ جسے چاہتاہے اس کا وارث بنادیتا ہے اور صرف اللہ سے ڈرنے والوں کا ہی انجام بخیرہوتا ہے۔‘‘
نبی ﷺ کی وفات کے بعد کئی مدعی نبوت اٹھے ۔حضرت ابوبکرؓ نے ان تمام کو کیفر کردار تک پہنچایا اور باقی فتنوں کی طرح یہ فتنہ بھی دَب گیا ۔پھر شہادت ِفاروق اعظمؓ تک دوبارہ کسی فتنے کو سر اٹھانے کی جرأت نہ ہوسکی، لیکن ان کی شہادت کے بعد پھر فتنوں اور سازشوں نے سر نکالنا شروع کردیا۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ پیشین گوئی فرما چکے تھے اور آپ کی ہر پیشین گوئی نصف النہار کے آفتاب کی طرح واضح اور برحق ثابت ہوئی جو کہ فرمانِ رسولِ کریم ﷺ کی صداقت اور حجیت حدیث کی بین دلیل ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
خوارج اور انکارِحدیث
حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعدسر اٹھانے والے فتنوں میں سے ایک فتنہ خوارج کا تھا۔ انہوں نے اپنی مرضی سے قرآن کریم کی تفسیر کی اور صحابہ کرامؓ اجمعین کے اجتماعی عقیدے سے انحراف کیا اور واقعہ تحکیم میں(إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّهِ) کی خود ساختہ تشریح کر کے حضرت علی، حضرت معاویہ اور حَکَمَین پر کفر اور شرک کا فتویٰ لگایا اور اسی بنا پر حضرت علی المرتضی ؓکے خلاف بغاوت کردی۔ تو اس وقت حضرت علی ؓنے فرمایا تھا:
’’کلمة حق أريد بها الباطل‘‘کہ ’’یہ فتنہ پرور لوگ اللہ تعالیٰ کے مقدس فرمان کی آڑ میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
چنانچہ امام شوکانیؒ نے اپنی کتاب ’فتح القدیر‘ کے مقدمہ میں ایک روایت ذکرکی ہے کہ جب حضرت علیؓ نے ابن عباس ؓ کو خوارج سے مناظرہ کے لئے بھیجا تو ان سے فرمایا :
’’خوارج کے پاس جاؤ لیکن یاد رکھنا کہ ان سے قرآن کی بنیاد پر مناظرہ نہ کرنا کیونکہ قرآن کئی پہلوؤں کا حامل ہے ، بلکہ سنت کی بنیاد پر ان سے گفتگو کرنا ۔ ابن عباس ؓ نے جواب دیا : میں کتاب اللہ کا ان سے زیادہ عالم ہوں ۔فرمایا :تمہاری بات بجا لیکن قرآن کئی پہلوؤں کا حامل اورکئی معانی کا متحمل ہے ۔‘‘ (مقدمہ فتح القدیر)
پھر ترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ نے ان لوگوں کے سامنے آیت (إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّهِ) کی وہ تفسیر بیان کی جو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سیکھی تھی اور ان پر واضح کیا کہ ان کا نظریہ غلط ہے تو یہ لوگ لاجواب ہوگئے۔ ( سیراعلام النبلائ)
امام ابن حزم ؒخوارج کے بارے میں ’الفصل فی الملل والنحل‘ میں فرماتے ہیں:
کانوا أعراباً قرء وا القرآن ولم يتفقهوا فی السنن (۴؍۱۶۸) ’’یہ دیہاتی لوگ تھے جنہوں نے قرآن تو پڑھا مگر سنت میں تفقہ حاصل نہ کیا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
صحابہ کی طرف سے اس نظریہ کا ردّ :
یہ وہ نقطہ آغاز تھا جس میں حدیث وسنت سے استغنا کا ذہن دیا گیا۔ چونکہ صحابہ کا عقیدہ تھا کہ جس طرح قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے، اسی طرح اس کا بیان اور تفصیل بھی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے ،اس لئے انہوں نے اس نظریہ کی بھرپور تردید کی۔
چنانچہ حسن بصری ؒسے مروی ہے کہ حضرت عمران بن حصینؓ اپنے شاگردوں کو حدیث پڑھا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا:
’’لا تحدثونا إلا بالقرآن‘‘ کہ ہمیں صرف قرآن ہی کے متعلق بتائیے
تو آپؓ نے اسے قریب بلایا اور اس سے کہا
’’ اگر آپ اور آپ کے ہم خیال لوگوں کو صرف قرآن پر چھوڑ دیا جائے تو کیا تم قرآن کریم سے ظہر کے چار فرض اور مغرب کے تین فرض ، جن میں سے دو میں قراء ت جہراً ہوگی، کو ثابت کر سکتے ہو ؟ کیا تم قرآنِ کریم سے طواف بیت اللہ اور صفا و مروہ کی سعی کے سات چکروں کا ثبوت پیش کرسکتے ہو؟‘‘
پھر تمام حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا :
’’اے لوگو! ہم سے علم سیکھو۔ اللہ کی قسم !اگر اپنی مرضی کرو گے تو گمراہ ہوجائو گے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے صحابی رسول حضرت عمرانؓ کی بات سن کر اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور بطورِ شکریہ کہنے لگا:
أحییتنی أحیاک اﷲ ’’اللہ آپ کی عمر دراز کرے آپ نے میرے دلِ مردہ میں تازگی پیدا کردی اور میری آنکھیں کھول دی ہیں‘‘ (الکفایہ فی علم الروایہ، المستدرک للحاکم)
خوارج چونکہ حضرت علیؓ کے خلاف ہوگئے تھے، اس لئے انہوں نے حضرت علیؓ کے فضائل میں واردہ تمام احادیث کا انکار کردیا ۔پھر ان کے مقابلے میں ایک دوسرا گروہ پیدا ہوا ،جس نے اہل بیت ؓ کے علاوہ دیگر صحابہ کرامؓ کے فضائل میں وارد شدہ تمام احادیث کا انکار کردیا۔
 
Top