کیا احادیث، نبی ﷺ کی وفات کے کافی عرصہ بعد لکھی گئیں؟
مسٹر پرویز لکھتے ہیں:
’’یہ کوششیں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بہت عرصہ بعد شروع ہوئیں۔ مثلاً ان مجموعوں میں سب سے زیادہ مستند مجموعہ امام بخاری کا سمجھا جاتا ہے، وہ حضور ؐ کی وفات کے دو اڑھائی سو سال بعد مرتب ہوا تھا۔ یہ مجموعے کسی سابقہ تحریر ی ریکارڈ سے مرتب نہیں ہوئے تھے۔ زبانی روایات جمع کی گئی تھیں۔‘‘ (اسبابِ زوالِ اُمت، ص۶۳)
اس بیان سے چند چیزیں سامنے آتی ہیں:
1۔احادیث دیر سے مرتب ہوئیں۔
2۔سابقہ ریکارڈ نہیں تھا زبانی جمع کی گئیں۔
3۔سب سے پہلے امام بخاری ؒ نے احادیث جمع کیں۔
قارئین!
پرویز صاحب نے سادہ لوح مسلمانوں کو بڑے پرکشش انداز میں فریب میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے۔ذرا غور فرمائیے کہ کیا دیر سے کسی چیز کو مرتب کرکے پیش کرنا عیب ہے؟ اگر عیب ہے تو پھر فرمائیے کہ قرآنِ کریم میں کتنے ہزار سال بعد گذشتہ اُمم کے واقعات ہمارے سامنے بیان کئے گئے؟
اور دوسری بات کہ کیا کسی چیز کا تحریری ریکارڈ نہ ہونا اور صرف حفظ اور یاد ہونا اس چیز کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے؟
ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے قائدین کی ہر ہر اَدا کو حفظ کر لیتے ہیں توکیا نبی اکرم ﷺ پہ جان فدا کرنے والے صحابہ کرامؓ جنہیں اپنے تو اپنے ، گھوڑوں تک کے نسب نامے اور کارنامے بھی ازبر تھے اور وہ عرب جنہیں اپنے حافظے پر ناز تھا،کیا وہ اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کے الفاظ کو یاد نہ رکھ سکے ہوں گے؟ اور پھر نبی ﷺ کی یہ ترغیب بھی تھی کہ’’نضرالله امرأ سمع مقالتی فوعاها‘‘(ترمذی ۲۶۵۸، مسند احمد ۴؍۸۰) اور پھر نبی اکرم ﷺ بالاہتمام صحابہ ؓ کو احادیث ِمبارکہ یاد کرواتے تھے اور صحابہ کرام اس اعتقاد کے ساتھ احادیث یاد کرتے کہ وہ قرآنِ کریم کی تفسیر ہیں اوران کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ناممکن ہے۔
حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ
مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رات کو سوتے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی : ’’اللهم أسلمت وجهی إليک وفوضت أمری إليک وألجات ظهری إليک رغبة ورهبة إليک لا ملجأ ولا منجأ منک إلا إليک، آمنت بکتابک الذی أنزلت وبنبيک الذي أرسلت‘‘ فرماتے ہیں: میں نے چاہا کہ اس دعا کو آپ کے سامنے دہرائوں تاکہ اچھی طرح یاد ہوجائے تو میں نے ساری دعا آپؐ کو ہوبہو سنا دی، صرف ’’بنبیک‘‘ کی جگہ ’’برسولک‘‘ کہہ دیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’لا وبنبیک الذی أرسلت‘‘ کہ ایسے نہیں بلکہ ویسے پڑھو جیسے میں نے آپ کو سکھایا یعنی ’’بنبيک‘‘ (صحیح البخاری مع الفتح : ۱۱؍۱۲، حدیث ۶۳۱۱)
اس روایت سے چند باتیں سامنے آتی ہیں :
1۔نبی اکرم ﷺ اپنی احادیث ِمبارکہ ٰنہایت اہتمام کے ساتھ صحابہ کرامؓ کو سکھاتے تھے۔
2۔صحابہ کرام ؓ کا حافظہ اتنا مضبوط تھا کہ جو کچھ سنتے، فوراً احفظ ہو جاتا ۔
3۔صحابہ کرامؓاحادیث سننے کے آپ ﷺ سے تصحیح کروایاکرتے تھے ۔
4۔صحابہ کرامؓ نہایت اہتمام سے نبی اکرم ﷺ کے الفاظ کو ازبر کرنے کی کوشش کرتے او ر خودنبی اکرم ﷺ بھی صحابہ سے اس کا اہتمام کروایا کرتے ۔اگر بنبیک کی جگہ رسولک کہہ بھی دیا جاتا تو خلاف واقعہ نہ تھا ،کیونکہ آپ ﷺ نبی بھی تھے اور رسول بھی۔ چونکہ اللہ کی طرف نازل شدہ الفاظ بنبیک تھے ،اس لئے آپ ﷺ نے وہی الفاظ سکھائے۔(٭)
(٭)اس حدیث کے پیش نظر روایت بالمعنی پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کیونکہ روایت بالمعنی محدثین کے ہاں متفقہ طور پر جائز ہے۔البتہ بعض صورتوں میں حدیث نبوی ﷺ کے الفاظ من وعن نقل کرنا ضروری ہوتا ہے جیسے ذکرو اذکار،وردو وظائف اور حدیث قدسی وغیرہ چونکہ اس حدیث میں بھی دعائیہ کلمات ہیں اس لیے الفاظ کی پابندی ضروری ہے۔(محدث)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ
’’ہم تقریباً ساٹھ آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس ہوتے اور آپ ﷺ ہمیں احادیث سکھاتے۔ پھر جب آپ تشریف لے جاتے تو ہم آپس میں مذاکرہ کیا کرتے تھے اور جب ہم فارغ ہوتے تو وہ احادیث ِپاک ہمارے دلوں پہ نقش ہوچکی ہوتی تھیں۔‘‘ (الفقیہ والمتفقہ)
اور حضرت علیؓ اپنے شاگردوں سے فرمایا کرتے تھے:
تذاکروا الحديث فإنکم إن لم تفعلوا يندرس(الفقیہ والمتفقہ)
’’احادیث کا مذاکرہ کیا کرو (یعنی ایک دوسرے کو سنا کر یاد کیا کرو)۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو حدیث آپ کو بھول جائے گی۔‘‘
معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ، اور ان کے شاگرد تابعین عظام بڑے اہتمام کے ساتھ احادیث ِمبارکہ کو یاد کرتے تھے اور پھر ان کے اور امام بخاریؒ کے درمیان فاصلہ ہی کتنا تھا؟ نبی اکرم ﷺ کے آخری صحابہ ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے اور امام بخاری ۱۹۴ھ میں پیدا ہوئے۔ لیکن پرویز صاحب اس کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، گویا درمیان میں صدیوں کا فاصلہ تھا اور پھر احادیث کو یاد کرنے کا اہتمام بھی نہیں تھا تاکہ لوگوں کو تاثر دیا جاسکے کہ محدثین نے اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر نبی ﷺ کی طرف منسوب کی ہیں۔