• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقامِ حدیث اور بزمِ طلوعِ اسلام،کویت

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
معتزلہ اورانکارِ حدیث
اس فرقہ کا بانی واصل بن عطا (م۱۳۱ھ)ہے۔اس نے اہل سنت کے مد ِمقابل حدیث کی بجائے عقل کو بنیاد بنایا، اس وجہ سے یہ لوگ معتزلہ کے نام سے معروف ہو ئے۔ چونکہ یہ لوگ صفاتِ الٰہی کے منکرتھے ، اس لئے انہوں نے ان احادیث کو ماننے سے انکار کردیا جن میں اللہ تعالیٰ کی صفاتِ باکمال کا ذکر تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مسٹر پرویز اور معتزلہ کا باہم اشتراک:
نظریۂ انکارِ حدیث درحقیقت وہی فتنۂ اعتزال ہے جو ایک نئے روپ میں ظاہر ہوا ہے، چنانچہ مسٹر پرویز معتزلہ کے ساتھ اپنی نسبت ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وحی متلو اور غیر متلو ‘ (مثلہ معہ) کا عقیدہ امام شافعیؒ نے وضع کیا تھا۔ (لیکن)جن لوگوں کے ذہن میں دین کا صحیح تصور اور دل میں قرآن مجید کے ’لا شریک لہ‘ ہونے کی عظمت تھی انہوں نے اس نئے عقیدے کی مخالفت کی اور کہا کہ دین میں سند اور حجت صرف قرآن ہے۔ جیسا کہ قدامت پرست طبقہ کا قاعدہ ہے، انہوں نے ان لوگوں پر معتزلہ کا لیبل لگایا اور پھر ان کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ کیا کہ آج جو شخص عقل و فکر کی بات کرے اور اس کے دلائل کا جواب ان سے نہ بن پڑے، اس کے متعلق اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ معتزلہ ہے۔‘‘ (شاہکارِ رسالت: صفحہ ۵۰۱)
مسٹر پرویز صاحب کا یہ بیان معتزلہ کے ساتھ ان کی نظریاتی ہم آہنگی کی واضح دلیل ہے اور ان کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ پرویزیت بھی اسی سلسلہ اعتزال کی ایک کڑی ہے۔فتنۂ اعتزال کا امام شافعی ؒنے مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ ان کے ردّ میں کتابیں لکھیں اور مناظروں کے ذریعہ انہیں لاجواب کیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
جھمیہ اور انکارِ حدیث
اس فرقہ کا بانی جہم بن صفوان تھا ۔یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات دونوں کے منکر تھے، لہٰذا انہوں نے ان تمام احادیث کو ماننے سے انکار کردیا جن میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ جلیلہ کا ذکر تھا۔یہ انکارِحدیث یونانی فلسفہ سے مرعوب ہوکر رو بہ عمل آیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
انکارِ حدیث مختلف ادوار میں
اس کے بعدمختلف ادوار میں کئی شخصیات نے مختلف طریقوں سے وحی الٰہی کے بعض حصوں کا انکار کیا، کسی نے اپنی عقل کوہی سب کچھ سمجھ کر ان نصوص کا انکار کردیا جو اس کی سمجھ سے بالاتر تھیں، کسی نے اصول و فروع کا چکر چلا کر احادیث ِمتواترہ کو لیا اور آحاد کا انکار کردیا، کسی نے عقائد کے باب میں خبر آحادتسلیم کرنے سے انکار کردیا تو کسی نے ہوائے نفس کی پیروی میں اپنے مطلب کی احادیث قبول کیں اور باقی کو ردّ کردیا۔ مختلف اَدوار میں کسی نہ کسی صورت میں احادیث ِمبارکہ سے گریزاں رہنے والوں میں سے چند عرب شخصیات یہ ہیں:
ڈاکٹر احمد امین، اسماعیل ادہم، حسین احمد امین، محمود ابوریہ، السید صالح ابوبکر، احمد ذکی پاشا۔ ( زوابغ فی وجہ السنۃ)
اور برصغیر میں
مرزا غلام احمد قادیانی، سرسید احمد خان اور ان سے متاثر ہونے والوں میں سے مولوی چراغ علی، محب الحق عظیم آبادی، احمد دین امرتسری، مولوی نذیر احمد، اسلم جیرا جپوری اور مسٹر غلام احمد پرویز اور اس فکر کے حاملین چند معاصرین حضرات۔ تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو آئینہ پرویزیت از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
چکڑالوی فرقہ
چودھویں صدی میں احادیث ِمبارکہ کا کھلم کھلا انکار عبداللہ چکڑالوی صاحب نے کیا اور اپنے گروہ کا نام ’اہل قرآن‘ رکھا۔آپ ضلع گورداسپور کے موضع چکڑالہ میں پیدا ہوئے، اس نسبت سے چکڑالوی کہلاتے ہیں۔ (آئینہ پرویزیت، ص۱۳۱) … ان کے بارے میں دیگر کتب میں یوں لکھا ہے:
’’چکڑالوی صاحب لنگڑا ہونے کے باعث لکڑی کے ایک تخت پوش (أریکۃ) پر ٹیک لگائے علم حدیث کی مخالفت کرتے رہتے تھے۔ سرسید کی طرح علومِ دینیہ اور عربیہ سے تو جاہل تھے ہی ـ، فکری اعتبار سے بھی مفلس تھے۔ البتہ ان کو گمراہی پھیلانے کے لئے ایک اچھا عنوان ضرور مل گیا یعنی کہ ’’قرآن ایک کامل کتاب ہے‘‘؛ جو ذہین ملحدین اور اس جیسے تیسرے درجے کے لوگوں کے لئے کافی جاذب ہوا۔ ‘‘ (برقِ اسلام، صفحہ ۷)
چکڑالوی کا یہ سراپا پڑھنے کے بعد احادیث کی صحت پریقین اور زیادہ پختہ ہوگیا کہ نبی اکرم ﷺ کی بیان کردہ پیشین گوئی ان پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ چنانچہ حضرات ابو رافعؓ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے بعد ایک ایسا آدمی ہوگا جو اپنی مسند (اریکہ) پر ٹیک لگا کر بیٹھے گا ۔ جب اس کے پاس اوامر و نواہی پر مشتمل میری احادیث پہنچیں گی تو وہ کہے گا :میں نہیں جانتا ،ہم تو صرف وہی بات مانیں گے جو قرآن میں ہوگی اور غیر قرآنی تصورات ہم نہیں مانتے۔‘‘
مولانا اسماعیل سلفیؒ فرماتے ہیں:
’’متکئا‘‘ کا مصداق زیادہ تر امیر لوگ ہوتے ہیں اور حدیث چونکہ قرآن کے احکام کی تعیین کرتی ہے اور مقید اور پابند بناتی ہے اس لئے وہ دین سے آزاد ہونے کے لئے سب سے پہلے حدیث کا انکار کریں گے۔ ہمارے ملک میں انکارِ حدیث کی بدعت مولوی عبداللہ چکڑالوی نے پیدا کی۔ وہ اپاہج تھا، اس کی ٹانگیں خراب تھیں، چل پھر نہیں سکتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی میں اس کی جو شکل او رحلیہ بتا یا، واقعی وہ ظالم اسی حلیہ کا تھا۔ اس کے بعد جو لوگ انکارِ حدیث کی تحریک کو چلا رہے ہیں، وہ سب عموماً جاہل اور متکبر ہیں۔کسی نے بھی حدیث کو ’فن‘ کے طور پر حاصل نہیں کیا‘‘ (مشکوٰۃ شریف مترجم از مولانا محمد اسمٰعیل سلفیؒ: ج۱؍ صفحہ ۲۲۳،۲۲۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
پروفیسر اسلم جیراجپوری اور اس کے تربیت یافتہ مسٹر غلام احمد پرویز
عبداللہ چکڑالوی کے بعد جن لوگوں نے اس فکر کو پھیلایا اور نئے نئے شبہات پیدا کرکے سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی، ان میں سے احمد دین امرتسری اور پروفیسر اسلم جیراجپوری وغیرہ ہیں اور اسی پروفیسر اسلم کے فیض یافتہ مسٹر غلام احمد پرویز ہیں جس کا اظہار انہوں نے خود کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’آج اسی سرزمین میں علامہ اسلم جے راج پوری مدظلہ العالی کی قرآنی فکر برگ وبار لارہی ہے۔ جنہوں نے اپنی عمر عزیز اسی جہاد کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں تادیر سلامت رکھے تاکہ ہم ان کے تدبر فی القرآن کے نتائج سے مستفیض ہوسکیں۔ میرے کاشانۂ فکر میں، سلیم! اگر کوئی چمکتی ہوئی کرن دکھائی دیتی ہے تو وہ انہی کے جلائے ہوئے دیپوں کا فروغ ہے۔ ‘‘ (دیکھئے: سلیم کے نام سترھواں خط)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کویت میں بزم طلوعِ اسلام کی سرگرمیاں
کویت میں پرویزی فکر کے حاملین حضرات ’بزمِ طلوع اسلام‘ کے نام سے پرویزیت کی اشاعت میں سرگرم ہیں، جیسا کہ بزمِ طلوعِ اسلام، کویت کے شائع کردہ تعارف سے واضح ہے کہ
’’المختصر… مسلمانوں کے قلب و دماغ سے ہر قسم کے غیر قرآنی تصورات ، نظریات و معتقدات نکال کر ان کی جگہ خالص قرآنی تصورات پیش کرنا اور دلائل و براہین کی رو سے پیش کرنا طلوعِ اسلام کا مطلوب و مقصود ہے۔‘‘ (طلوعِ اسلام کا مقصد و مسلک :ص۱۶)
کویت میں پرویزیت یا ’طلوعِ اسلام‘کی سرگرمیوں کو درج ذیل نکات میں پیش کیا جاسکتا ہے:
1۔ہفتہ وار درسِ قرآن کا اہتمام جس میں مسٹر پرویز کی ویڈیو کیسٹ کے ذریعے حاضرین کو قرآنِ کریم سے متعلق پرویز کی ذاتی آرا پر مبنی گمراہ کن افکار کی تعلیم دی جاتی ہے اور اخبارات کے ذریعے ان پروگراموں کی تشہیر کی جاتی ہے۔
2۔پرویز کے لٹریچر سے لوگوں کو متعارف کروایا جاتا ہے اور دروس و پروگرام میں پرویزی فکر پر مشتمل لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے ۔
3۔مسٹر پرویز کی وڈیو، آڈیوکیسٹ لوگوں تک پہنچانا اور طلوعِ اسلام کے مضامین لوگوں میں تقسیم کرنا۔
4۔بذریعہ فیکس اور ڈاک لوگوں کے ایڈریس حاصل کر کے انہیں اپنا لٹریچر مفت ارسال کرنا ۔
5۔مناسب مواقع پر خصوصی اجتماع منعقد کرنا مثلا: پاکستان ڈے، اقبال ڈے، یومِ آزادی کویت وغیرہ اور اس میں کویت اور پاکستان کی بڑی بڑی شخصیات مثلاً اراکین اسمبلی، سفیر پاکستان وغیرہ کو مدعو کرنا اور اس طرح اپنا اثر و رسوخ بڑھانا اور ان سے اپنے پروگرام کے حق میں تعریفی کلمات کہلوانا اور لوگوں کے اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں اپنا لٹریچر تقسیم کرنا۔
6۔سکولز کے طلباء و طالبات تک اپنا لٹریچر پہنچانا بلکہ ان کے خلاف فتویٰ شائع ہونے سے قبل تو پرویزی فکر کے حامل اساتذہ کھلم کھلا بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے اور بعض سکولوں میں تو ان کے پروگرام منعقد ہونا شروع ہوگئے تھے۔
7۔لوگوں کی رہائش گاہوںپر جاکر انفرادی ملاقاتوں میں سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن میں انکار حدیث کی فکر مسموم بھرنا اور حدیث کے متعلق شکوک شبہات پیدا کرکے انہیں قرآن و سنت سے دور کرنا اور الحاد و بے دینی کی دعوت دینا۔
8۔طلوعِ اسلام لائبریری جس سے مطالعہ کے لئے کتب جاری کی جاتی ہیں۔
انہی سرگرمیوں کے پیش نظر ان کے اعتقادات سے کویت کی وزارت اوقاف کو مطلع کیا گیا تو انہوں نے ان کے اعتقادات کے تفصیلی مطالعہ کے بعد انہیں کافر قراردیا۔ بزم طلوعِ اسلام نے وزارتِ اوقاف سے شائع شدہ اس فتویٰ کی تردید کرتے ہوئے وزارتِ اوقاف سے استدعا بھی کی تھی کہ فتویٰ غلط معلومات پر مبنی ہے، لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسی طرح عدالت سے رجوع کر نے کی شنید بھی ملی لیکن اس کے بارے میں کسی حتمی بات کا علم نہیں ہوا۔
اللہ کے فضل و کرم سے کویت میں ایسی فکر کے حاملین کی تعداد بہت محدود ہے اور علمائے حق لوگوں کو اس پرفریب پروگرام کے خطرات سے آگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ الحمدللہ!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
پرویزیت کی تردید میں علماء کی سرگرمیاں

1۔مرکز دعوۃ الجالیات :
مرکز اپنے تمام دروس اور خطبات جمعتہ المبارک میں یہ اہتمام کرتا ہے کہ لوگوں میں اہمیت ِحدیث کا شعور بیدار کیا جائے اور دلائل و براہین سے یہ ثابت کیا جائے کہ قرآن و سنت آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور دونوں میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ چنانچہ حجیت ِحدیث کے اثبات اور انکارِ حدیث کی تردید میں مرکز کی خدمات درج ذیل ہیں:
۱۔جنوری ۱۹۹۴ء میں علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی ؒ مرکز دعوۃ الجالیات کی دعوت پر کویت تشریف لائے اور حجیت ِحدیث کے موضوع پر جامع پروگرام کیا۔ نیز طلوعِ اسلام کے چند افراد نجی محفلوں میں شیخ کے پاس سوال و جواب کے لئے گئے اور شیخ ؒ نے ان کے شبہات کے مسکت جوابات دیے۔
۲۔مولانا عبداللہ ناصر رحمانی،کراچی کا قرطبہ میں ’حجیت ِحدیث سیمینار‘ سے جامع اور مدلل خطاب جو دو آڈیو کیسٹ پر مشتمل ہے،جس میں انہوں نے تفصیلاً منکرین حدیث کے شبہات کا ذکر کرتے ہوئے دلائل سے ان کا ردّ کیا۔ اس پروگرام کے کیسٹ مرکز نے کئی مرتبہ مفت تقسیم کئے ہیں۔
۳۔شیخ الحدیث حافظ ثنا ء اللہ مدنی، ۱۹۹۷ء کو وزارتِ اوقاف، کویت کی دعوت پر کویت تشریف لائے اور مرکز دعوۃ الجالیات نے قرطبہ جمعیہ احیا التراث الاسلامی کے مرکز میں فتنۂ انکار حدیث کے ردّ پر ان کے خطاب کا اہتمام کیا اور شیخ محترم نے ڈیڑھ گھنٹہ تک اس موضوع پر مفصل خطاب فرمایا اور فتنۂ انکارِ حدیث کی تاریخ اور اہم کرداروں کا ذکر کیا۔
۴۔شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز نورستانی کا حجیت ِحدیث پروگرام ۱۹۹۸ء میں قرطبہ جمعیہ احیاء التراث الاسلامی اور پھر مسجد فرحان (العباسیہ) میں منعقد ہوا جس میں شیخ محترم نے اپنے مخصوص علمی انداز میں اتباعِ سنت کی اہمیت اور انکارِ حدیث کے خطرات سے آگاہ کیا۔
۵۔اسی طرح راقم الحروف اور حافظ محمد اسحاق زاہد صاحب کے سلسلہ وار دروس میں بالتفصیل اس فتنے کی تاریخ، پس منظر اور نتائج کا جائزہ لیا گیا اور منکرین حدیث کے شبہات کا تفصیلی ردّ کیا گیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
2۔فتنہ ٔپرویزیت کے رد میں لٹریچر کی تقسیم :
اس سلسلے میں مرکز کی کاوشوں سے درج ذیل کتب لوگوں تک پہنچ چکی ہیں :
۱۔ ’آئینۂ پرویزیت‘ از مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ : یہ چھ اجزاء اور ۱۰۰۸ صفحات پر مشتمل پرویزیت اور انکارِ حدیث کے جواب میں ایک لاجواب کتاب ہے۔
۲۔ ’حجیت ِحدیث‘ از شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ: منکرین حدیث کے ردّ میں ۲۰۲ صفحات پر مشتمل انتہائی مدلل اور جامع کتاب ہے جس میں بڑے عمدہ اسلوب میں منکرین حدیث کے شبہات کا ردّ کیا گیا ہے۔
۳۔ ’حجیت ِحدیث‘ از محدث العصر علامہ محمد ناصر الدین البانی ؒ: یہ علامہ البانی کی کتاب کا اُردو ترجمہ ہے جو قیمتی فوائد پر مشتمل ہے۔ادارئہ محدث ، لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔
۴۔ ’انکارِ حدیث حق یا باطل؟‘ از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری: منکرین حدیث کے ردّ میں انتہائی عمدہ اور مفید کتابچہ ہے۔
۵۔ ’قولِ فیصل ‘از محمد طیب مدنی (انڈیا): منکرین حدیث کے ردّ میں ۱۲۷ صفحات پر مشتمل بہترین کتاب ہے۔
علاوہ ازیں اس موضوع پر لکھنے والے رسائل و جرائد ماہنامہ ’محدث‘ لاہور، ہفت روزہ ’الاعتصام‘، ماہنامہ ’السراج‘ انڈیا، ’البلاغ‘ انڈیا اور’نوائے اسلام‘ انڈیا، وغیرہ کی تقسیم۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
3۔کیسٹ :
مرکز اس سلسلے میں شیخ الحدیث مولاناسلطان محمود ؒ محدث جلالپور پیروالہ، شیخ الحدیث حافظ عبدالستار حماد، حضرت شاہ بدیع الدین شاہ راشدیؒ، پروفیسر عبداللہ ناصر رحمانی، حافظ عبدالسلام بھٹوی، مولانا عبدالعزیز نورستانی اور شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی کے کیسٹ تقسیم کرچکا ہے۔
مولانا احمد علی سراج صاحب نے بھی اپنے خطبات میں اس فتنے کا بھرپور ردّ کیا اورفرقہ پرویزیت کو کافر قرار دلوانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ انہوں نے وزارتِ اوقاف، کویت میں استفتا پیش کیا اور اسی دوران پرویزیت کے بارے میں مفتی عالم اسلام شیخ عبدالعزیز بن باز ؒ کا فتویٰ بھی شائع ہوچکا تھا لہٰذا کویت کی وزارتِ اوقاف نے ۲۲؍ جمادی الآخرۃ ۱۴۱۹ھ بمطابق۱۲؍اکتوبر۱۹۹۸ء کو فتویٰ جاری کیا کہ
’’غلام احمد پرویز کے عقائد باطل اور گمراہ کن ہیں اور اسلامی عقیدے کے منافی ہیں اور ہر وہ شخص جو ان عقائد پر ایمان رکھتا ہو، وہ کافر اور اسلام سے خارج ہے۔‘‘
اور اس پر دارلافتاء وزارت اوقاف، کویت کے چیئرمینمشعل مبارک عبداللہ احمد الصباح کے دستخط اور مہر ہیں… مولانا غلام محمد منصوری جن کا تعلق اسلامک ایجوکیشن سوسائٹی، کویت سے ہے، ممتاز عالم دین ہیں۔ منکرین حدیث کے شبہات کی تردید میں ان کی خدمات بھی قابل قدر ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام علماء کو جزائے خیر عطا فرمائے اور دین کی حفاظت کی فریضہ انجام دینے کی زیادہ سے زیادہ توفیق مرحمت فرمائیں ۔

۔۔۔ختم شد۔۔۔
 
Top