کویت میں بزم طلوعِ اسلام کی سرگرمیاں
کویت میں پرویزی فکر کے حاملین حضرات ’بزمِ طلوع اسلام‘ کے نام سے پرویزیت کی اشاعت میں سرگرم ہیں، جیسا کہ بزمِ طلوعِ اسلام، کویت کے شائع کردہ تعارف سے واضح ہے کہ
’’المختصر… مسلمانوں کے قلب و دماغ سے ہر قسم کے غیر قرآنی تصورات ، نظریات و معتقدات نکال کر ان کی جگہ خالص قرآنی تصورات پیش کرنا اور دلائل و براہین کی رو سے پیش کرنا طلوعِ اسلام کا مطلوب و مقصود ہے۔‘‘ (طلوعِ اسلام کا مقصد و مسلک :ص۱۶)
کویت میں پرویزیت یا ’طلوعِ اسلام‘کی سرگرمیوں کو درج ذیل نکات میں پیش کیا جاسکتا ہے:
1۔ہفتہ وار درسِ قرآن کا اہتمام جس میں مسٹر پرویز کی ویڈیو کیسٹ کے ذریعے حاضرین کو قرآنِ کریم سے متعلق پرویز کی ذاتی آرا پر مبنی گمراہ کن افکار کی تعلیم دی جاتی ہے اور اخبارات کے ذریعے ان پروگراموں کی تشہیر کی جاتی ہے۔
2۔پرویز کے لٹریچر سے لوگوں کو متعارف کروایا جاتا ہے اور دروس و پروگرام میں پرویزی فکر پر مشتمل لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے ۔
3۔مسٹر پرویز کی وڈیو، آڈیوکیسٹ لوگوں تک پہنچانا اور طلوعِ اسلام کے مضامین لوگوں میں تقسیم کرنا۔
4۔بذریعہ فیکس اور ڈاک لوگوں کے ایڈریس حاصل کر کے انہیں اپنا لٹریچر مفت ارسال کرنا ۔
5۔مناسب مواقع پر خصوصی اجتماع منعقد کرنا مثلا: پاکستان ڈے، اقبال ڈے، یومِ آزادی کویت وغیرہ اور اس میں کویت اور پاکستان کی بڑی بڑی شخصیات مثلاً اراکین اسمبلی، سفیر پاکستان وغیرہ کو مدعو کرنا اور اس طرح اپنا اثر و رسوخ بڑھانا اور ان سے اپنے پروگرام کے حق میں تعریفی کلمات کہلوانا اور لوگوں کے اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں اپنا لٹریچر تقسیم کرنا۔
6۔سکولز کے طلباء و طالبات تک اپنا لٹریچر پہنچانا بلکہ ان کے خلاف فتویٰ شائع ہونے سے قبل تو پرویزی فکر کے حامل اساتذہ کھلم کھلا بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے اور بعض سکولوں میں تو ان کے پروگرام منعقد ہونا شروع ہوگئے تھے۔
7۔لوگوں کی رہائش گاہوںپر جاکر انفرادی ملاقاتوں میں سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن میں انکار حدیث کی فکر مسموم بھرنا اور حدیث کے متعلق شکوک شبہات پیدا کرکے انہیں قرآن و سنت سے دور کرنا اور الحاد و بے دینی کی دعوت دینا۔
8۔طلوعِ اسلام لائبریری جس سے مطالعہ کے لئے کتب جاری کی جاتی ہیں۔
انہی سرگرمیوں کے پیش نظر ان کے اعتقادات سے کویت کی وزارت اوقاف کو مطلع کیا گیا تو انہوں نے ان کے اعتقادات کے تفصیلی مطالعہ کے بعد انہیں کافر قراردیا۔ بزم طلوعِ اسلام نے وزارتِ اوقاف سے شائع شدہ اس فتویٰ کی تردید کرتے ہوئے وزارتِ اوقاف سے استدعا بھی کی تھی کہ فتویٰ غلط معلومات پر مبنی ہے، لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسی طرح عدالت سے رجوع کر نے کی شنید بھی ملی لیکن اس کے بارے میں کسی حتمی بات کا علم نہیں ہوا۔
اللہ کے فضل و کرم سے کویت میں ایسی فکر کے حاملین کی تعداد بہت محدود ہے اور علمائے حق لوگوں کو اس پرفریب پروگرام کے خطرات سے آگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
الحمدللہ!