• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقامی ہوٹل (از ابو نثر)

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ہمارے ذرایع ابلاغ اب تو خیر زبان کامنہ چڑاتے ہیں، مگر ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ ذرایع ابلاغ کی زبان مستندادبی زبان سمجھی جاتی تھی۔ بالخصوص اخبارات کی۔ اُسی زمانے کا ذکر ہے۔ہمارے ایک پرائمری پاس دوست نے کتابوں کی دکان کھول لی۔نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ ادبی کتب بھی بیچنے لگے۔ کیا زمانہ تھا کہ ادبی کتابوں کے خریدار گلی گلی اور محلے محلے پائے جاتے تھے۔ان کی دُکان پر ادب کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ ادیبوں اور شاعروں کا جمگھٹا بھی لگنے لگا۔ کبھی کبھی تو دکان کے آگے بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ادیب اور شاعر حضرات وہیں بیٹھے بیٹھے پوری پوری ادبی نشستیں اور اکثر اوقات مشاعرے بھی منعقد کرڈالتے۔ ہوتے ہوتے فرقان بھائی کی دکان مرکز ادب بن گئی۔ ایک کام اب اُنھوں نے یہ بھی شروع کردیا کہ دکان پر’ آج کے تازہ اخبارات یہاں سے طلب فرمائیں‘ کا بورڈ لگا دیا۔ یوں اُن کی دکان پر اخبارات بھی فروخت ہونے لگے۔ ملک کا شاید ہی کوئی اخبار ایسا ہو جو اُن کی دکان پر نہ ملتا ہو۔ اُس زمانے میں آج کے زمانے کی طرح ایک ہی اخبار کے ہر شہر سے ایڈیشن نہیں نکلتے تھے۔بعض اخبارات ایسے تھے جو صرف ایک شہر سے شایع ہوتے اور ٹرین یا جہاز سے سفر کرکے تمام شہروں میں فروخت ہوتے۔ فرقان بھائی کی دکان پر ایسے اخبارات بھی مل جاتے تھے۔اس خصوصیت کی وجہ سے اُن کی دکان پر صحافیوں اور اخباری تجزیہ نگاروں کا آنا جانا بھی شروع ہوگیا۔
فرقان بھائی تھے تو بڑے خوش اخلاق، مگر تعلیم کی کمی اُنھیں اپنی گفتگو کا معیار بلند کرنے میں آڑے آتی نظر آتی تھی۔اس کمی کا انھیں شدت سے احساس تھا۔کہتے تھے اتنے ’’بڑے بڑے اکابرین‘‘ میری دکان پر آتے ہیں کہمجھے اُن سے بات کرتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے۔ حالاں کہ اُن کی دکان داری کا اصل جوہر اُن کی خوش اخلاقی اور اُن کا خلوص تھا۔جس کی وجہ سے اُن کے مستقل گاہک شہر کی کسی اور دکان پر جانے کی بجائے دُوردُور سے چل کر اُن ہی کی دکان پر آتے تھے۔ وہی اقبالؔ والی بات:
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مردِ خلیق
علم کی کمی سے جنم لینے والی سادہ لوحی میں ادا کیے گئے اُن کے بعض فقروں پر بڑی ہنسی آتی تھی۔ مثلاً اُنھوں نے ایک بار ادیبوں میں ایک گھمسان کا معرکہ پڑجانے پر دونوں طرف سے ایک ہی فقرہ بار بار سنا:
’’آخر آپ کیا باور کرانا چاہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں، پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ کیا باور کرانا چاہتے ہیں؟‘‘
اتنے میں کوئی حجتی گاہک آیا اور اُن سے ٹکر گیا۔شاید وہ کوئی کتاب واپس کرنا چاہتا تھا یا شاید تبدیل کرانا چاہتاتھا۔ مگر بات اتنی طویل کردی کہ فرقان بھائی کا ناریل چٹخ گیا۔اُس وقت فرقان بھائی کو ادبی بحث سے دلچسپی تھی، وہ اُس کا انجام دیکھناچاہتے تھے۔ اُنھوں نے ادیبوں سے بھی بلند آواز میں گاہک کو ڈانٹتے ہوئے یہ سوال کیا:
’’آخر آپ کا باور کیاہے؟‘‘
ایک زور دار قہقہہ پڑا۔ گاہک ہکا بکا بلکہ شرمندہ ہو کر رہ گیا۔اوروہ بحث ہی ختم ہوگئی، جسے سننے کے لیے فرقان بھائی نے خلافِ عادت گاہک کو ڈانٹا تھا۔
ایک روز کسی نے اُنھیں مشورہ دیا کہ یہ اخبارات جو تم بیچتے ہو، بیٹھے بیٹھے ان ہی کو پڑھا کرو۔ ادبی زبان سیکھنے کا موقع ملے گا۔ پرائمری پاس فرقان بھائی کے لیے یہ مشورہ کارگر ثابت ہوا۔وہ ’فنا فی الاخبار‘ ہوگئے۔ہوتے ہوتے گفتگو بھی اخبار کی (مطبوعہ) زبان میں کرنے لگے۔مثلاً ایک بار علی الصباح، جس وقت وہ دکان کھول کر دکان کے باہر کی الماریاں کتابوں سے سجا رہے تھے، ایک شخص کو ایک قیمتی لغت چوری کرتے پکڑ لیا۔ بعد کے حالات بڑی تفصیل سے ہم دوستوں کو بتائے۔اُن کی زبان میں تمام تفصیلات بیان کرنے کی گنجائش تو یہاں نہیں ہے، بس ایک اقتباس سن لیجیے:
’’۔۔۔ملزم نے ڈھٹائی کے ساتھ صحتِ جرم سے انکار کردیااورمجھ سے غیر پارلیمانی زبان میں گفتگو کرنے لگا۔آخر میں نے بھی اُس کے حق میں ناگفتہ بِہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے اُسے سخت زد و کوب کیا۔بعد ازاں قریبی دکان داروں نے مضروب کو مجھ سے چھڑایا۔۔۔‘‘
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم شہر کے ایک انتہائی (خوش) پوش علاقے میں اپنے باس کا گھر ڈھونڈ رہے تھے۔اُن کی ساس کا انتقال ہوگیا تھا ۔ فرقان بھائی اچانک اور خلافِ توقع وہاں مل گئے۔ وہ بھی کسی کا گھر ڈھونڈ رہے تھے۔ پہلے تو اُنھوں نے ’اہلاً وسہلاً‘ کہہ کر ہمارار ’’شاندار خیرمقدم‘‘ کیا۔ پھر جب ’’پُرتپاک معانقے‘‘ اور ’’پُرجوش مصافحے‘‘ سے فارغ ہوئے توپوچھنے لگے:
’’آپ یہاں کیسے ’مٹرگشت‘ کر رہے ہیں؟‘‘
باس کی ساس کے سانحۂ ارتحال کی خبر اُنھیں سنائی۔ سن کرپوچھنے لگے:
’’اچھا تو آپ اُن سے اظہارِ تہنیت کرنے جار ہے ہیں؟‘‘
عرض کیا: ’’جی!ہم اب تک اسی حیص بیص میں مبتلا تھے کہ اس موقع پر اُنھیں تہنیت پیش کریں یاتعزیت؟ اچھا ہوا آپ مل گئے‘‘۔
کہنے لگے: ’’دیکھیے مجھے ’خیرمقدمی رسومات‘ میں آپ کی ’پُرتکلف ضیافت‘ کرنے کا خیال ہی نہ رہا۔ (اِدھر اُدھر دیکھ کر)کہاں کی جائے؟‘‘
اتنے میں انھیں ’’پولیس کا ایک جوان گشت پر‘‘ نظرآیا۔اُس سے اُنھوں نے ’’استفسار‘‘ کیا:
’’محترم! کیا آپ مقامی ہوٹل تک ہماری رہنمائی فرمادیں گے؟‘‘
’’مکامی ہوٹل؟!!!‘‘ ۔۔۔ پولیس کے ادھیڑ عمر ’جوان‘ نے بحرطویل میں تادیر کھانسنے کے بعد اپنے پچکے ہوئے کلّوں کو پُھلا کرجواب دیا:
’’باؤجی! میں تے اے ناں ای پہلی واری سنیا اے‘‘۔
لاحول پڑھ کر ہمارا بازو کھینچتے ہوئے ہمیں لے کر ایک طرف چل پڑے اور کہا: ’’آئیے باوثوق ذرایع سے معلوم کرتے ہیں‘‘۔
خیر،ہم تو وہیں کھڑے رہے۔ مگراُنھیں ایک ’’ممتاز شہری‘‘ اپنے گھر سے نکلتا نظرآیا تو اُس کی طرف لپکے۔اُس نے پہلے تو اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے دائیں کان کے پیچھے چھجا بنایاپھراپنا سردائیں بائیں ہلایا۔ وہاں سے وہ ایک دودھ والے کی دکان پر گئے اور واپس آکر بتایا:’’علاقے کے اس معروف تاجر نے بھی متعلقہ استفسار پر اپنی لاعلمی کا اظہار کیا‘‘۔
کچھ دور کچھ لوگ ایک درخت کے نیچے تھڑے پر بیٹھے گپیں لگارہے تھے۔وہاں سے لوٹے تو نہایت دلچسپ رپورٹ پیش کی:
’’۔۔۔ سوال سنتے ہی عوامی حلقوں میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ان کے ایک ترجمان نے علاقے میں کسی ’مقامی ہوٹل‘ کی موجودگی کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اُن عناصر کی سخت مذمت کی جواپنے سادہ لوح مہمانوں کو مکمل پتا فراہم نہ کرکے اُن کے وقت اور توانائی کے زیاں کا باعث بنتے ہیں‘‘۔
ہم نے کہا: ’’مزید تحقیقات جاری نہ رکھیں ورنہ مزید سنسنی خیز انکشافات ہوں گے، بس اب آپ ہمیں پُرتپاک انداز سے رخصت فرمادیں‘‘۔
اُنھوں نے ہماری طرف بڑی محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: ’’الوداع!‘
 
Top