عبیداللہ لطیف
رکن
- شمولیت
- اگست 18، 2017
- پیغامات
- 42
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 57
عنوان : مقام حدیث و مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کا نظریہ حدیث (Part:1)
تحریر : عبیداللہ لطیف فیصل آباد
محترم قارئین ! قبل اس کے کہ قادیانیوں کے نظریہ حدیث پر کچھ عرض کروں مقام حدیث اور حفاظت حدیث پر چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اصل حقائق کو سمجھنے میں آسانی ہو کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
"ان لوگوں کے خیالات کی بناء احادیث موضوعہ پر ہے جو قرآن شریف کی مہر سے خالی ہے مگر ہم قرآن شریف کو ان احادیث کی خاطر نہیں چھوڑ سکتے ۔ قرآن شریف بہرحال مقدم ہے بھلا قرآن کو تو آنحضرت صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے خود جمع کیا لکھوایا اور پھر نمازوں میں باربار پڑھ کر سنایا اگر احادیث بھی ویسی ہی ضروری ہیں تو ان میں سے بھی کسی کو اسی طرح جمع کیا اور بار بار سنایا اور دور کیا۔"
(ملفوظات جلد 3 صفحہ 211)
جہاں تک بات ہے احادیث کو جمع کرنے اور لکھوانے کی تو احادیث کو جمع کرنے اور لکھنے کا حکم۔خود نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے دیا اور احادیث نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے دور میں ہی لکھی جاتی رہیں اور جمع بھی کی گئیں جس کی تفصیل ان شاءاللہ آگے آئے گی ۔ اب بات رہ جاتی ہے کہ نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے احادیث کا نمازوں میں دور نہ کیا تو یہ مرزا غلام احمد قادیانی کی جہالت کا اعلی ترین ثبوت ہے کہ جسے بات کرتے ہوئے یہ تک خیال نہیں آیا کہ احادیث تین طرح کی ہوتی ہیں ایک قولی یعنی جو بات نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے بیان فرمائی اس فرمان نبوی کو قولی حدیث کہتے ہیں دوسری فعلی یعنی جو کام نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے عملا کر کے دکھایا تیسری حدیث کی وہ قسم ہے کہ اگر نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے سامنے کسی صحابی نے کوئی عمل کیا تو نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے منع نہ فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ احادیث قرآن کریم کی تشریح ہیں جن کا نماز میں دور نہ کرنے کو احادیث کی اہمیت کم کرنے کے لئے بطور دلیل پیش کرنا جہالت کے علاوہ کچھ نہیں بلکہ نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا باربار کسی کام کا حکم دینا اور اس کام کو عملا کر کے دکھانا ہی احادیث کا دور کہا جا سکتا ہے۔
اب آتے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریر کے اس حصے کی طرف جس میں اس نے کہا ہے کہ
"ان لوگوں کے خیالات کی بناء احادیث موضوعہ پر ہے جو قرآن شریف کی مہر سے خالی ہے"
حالانکہ مرزا غلام احمد قادیانی خود امام مہدی کے بارے میں تمام احادیث کو ضعیف قرار دے چکا ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب براہین احمدیہ میں لکھتا ہے کہ
"جیسا کہ تمام محدثین کہتے ہیں اور میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں اور ان میں ایک بھی صحیح نہیں ….. مگر دراصل یہ تمام حدیثیں کسی اعتبار کے لائق نہیں۔“
(براہین احمدیہ، حصہ پنجم، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 21، صفحہ 356)
اب جبکہ مرزا صاحب خود امام مہدی کے بارے میں تمام احادیث کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دے چکے ہیں اور امام مہدی کا ذکر قرآن کریم میں بھی نہیں تو مرزا صاحب کا اپنا دعوی مہدویت کس بنا پر ہے ؟
محترم قارئین ! جیسا کہ احادی پر مرزا غلام احمد قادیانی کا اعتراض بھی نقل کیا جا چکا ہے اور ویسے بھی جب کبھی کسی منکر حدیث اور قادیانی سے بات ہوتی ہے تو ان کی طرف سے احادیث پر سب سے پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ احادیث تو اڑھائی تین سو سال بعد لکھی گئی ہیں لہذا ہم انہیں نہیں مانتے حالانکہ جس طرح قرآن مجید کلام الٰہی ہونے کے سبب حجت ہے اسی طرح صحیح حدیث رسول بھی فرمان نبوی ہونے کے سبب حجت ہے۔ کیونکہ قرآن مقدس کی وضاحت اور تشریح جب تک فرمان نبوی سے نہ کی جائے تو دین اسلام ادھورا رہ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں رب کائنات نے فرمایا ہے کہ
ثُمَّ اِنَّ عَلَینَا بَیَانَہُo(القیامة 19:)
یعنی پھر اس کو بیان کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
نیز فرمایا
وَاَنزَلنَآ اِلَیکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِم (النحل44:)
ترجمہ؛ اور ہم نے آپ کی طرف ذکر (قرآن مجید) نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا۔
حدیث رسول کے حجت ہونے کے بارے میں قرآن مقدس میں ارشاد ہے کہ
وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُولُ وَخُذُوہُ وَمَانَہٰکُم عَنہُ فَانتَہُوا(الحشر7)
ترجمہ؛ اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاﺅ۔
محترم قارئین! جس طرح رب کائنات نے قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے اسی طرح قرآن مجید کی وضاحت یعنی حدیث رسول کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لی ہے یہی وجہ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن مجید کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ احادیث رسول کو بھی حفظ کیا کرتے تھے اور نبی کریم علیہ السلام کے دور میں ہی کتابت حدیث کا کام بھی شروع ہو گیا تھا۔ اسی سلسلہ میں حسن بن عمرو روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابو ہریرة رضی اللہ عنہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے گھر لے گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کی بہت سی کتابیں دکھائیں اور فرمایا کہ یہ میرے پاس مکتوب ہے۔
(بحوالہ فتح الباری207/1‘ تحت حدیث 113)
سنن ابوداود میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُغِيثٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ، وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا ؟، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: اكْتُبْ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ .
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کر دیا، اور کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔
(سنن ابی داﺅد کتاب العلم حدیث 3646)
صحابہ کرام کے تحریری مجموعے ؛
(1) صحیفہ صادقہ:_
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا ہزار احادیث پر مشتمل صحیفہ صادقہ یہ اب مسند احمد میں مکمل طور پر موجود ہے۔ اس صحیفے کی روایت عمرو بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاص کے توسط سے پوری طرح منقول ہے۔ اور اکابر محدثین نے اس روایت پر اعتماد کر کے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔
(تاریخ الحدیث والمحدثین ص 210)
(2) صحیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
اس میں صدقات اور زکوٰة کے احکامات درج ہیں امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے یہ صحیفہ پڑھا ہے عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے جب تدوین حدیث کا کام شروع کیا تو یہ صحیفہ انہیں عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان سے موصول ہوا۔ (موطا امام مالک ص 109)
(3) صحیفہ عثمان رضی اللہ عنہ
اس صحیفے میں زکوٰة کے احکام درج تھے اس کے متعلق امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کتاب الجہاد میں ابن الحنفیہ سے ایک روایت اس طرح لائے ہیں کہ
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنْ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، قَالَ : لَوْ كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ذَاكِرًا عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ذَكَرَهُ يَوْمَ جَاءَهُ نَاسٌ فَشَكَوْا سُعَاةَ عُثْمَانَ ، فَقَالَ لِي عَلِيٌّ : اذْهَبْ إِلَى عُثْمَانَ ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّهَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَمُرْ سُعَاتَكَ يَعْمَلُونَ فِيهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا ، فَقَالَ : أَغْنِهَا عَنَّا ، فَأَتَيْتُ بِهَا عَلِيًّا فَأَخْبَرْتُهُ ، فَقَالَ : ضَعْهَا حَيْثُ أَخَذْتَهَا ،
اگر علی رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے ہوتے تو اس دن ہوتے جب کچھ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے عاملوں کی ( جو زکوٰۃ وصول کرتے تھے ) شکایت کرنے ان کے پاس آئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا اور یہ زکوٰۃ کا پروانہ لے جا۔ ان سے کہنا کہ یہ پروانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھوایا ہوا ہے۔ تم اپنے عاملوں کو حکم دو کہ وہ اسی کے مطابق عمل کریں۔ چنانچہ میں اسے لے کر عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں پیغام پہنچا دیا ‘ لیکن انہوں نے فرمایا کہ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ( کیونکہ ہمارے پاس اس کی نقل موجود ہے ) میں نے جا کر علی رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ بیان کیا ‘ تو انہوں نے فرمایا کہ اچھا ‘ پھر اس پروانے کو جہاں سے اٹھایا ہے وہیں رکھ دو۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد روایت نمبر 3111)
(4) صحیفہ علی رضی اللہ عنہ
اس میں زکوٰة‘ صدقات‘ دیت ‘ قصاص‘ حرمت مدینہ ‘ خطبہ حجة الوداع اور اسلامی دستور کے نکات درج تھے۔ یہ صحیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن حنفیہ کے پاس تھا پھر امام جعفر کے پاس آیا اور انہوں نے حارث کو لکھ کر دیا۔
اسی صحیفے کے بارے میں بخاری شریف میں روایت ہے کہ
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : مَا عِنْدَنَا كِتَابٌ نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ غَيْرَ هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ، قَالَ : فَأَخْرَجَهَا فَإِذَا فِيهَا أَشْيَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ وَأَسْنَانِ الْإِبِلِ ، قَالَ : وَفِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ ، وَمَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ ، وَالْمَلَائِكَةِ ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ ، يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ ، وَالْمَلَائِكَةِ ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ
علی رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھیں، سوا اللہ کی کتاب قرآن کے اور اس کے علاوہ یہ صحیفہ بھی ہے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صحیفہ نکالا تو اس میں زخموں ( کے قصاص ) اور اونٹوں کی زکوٰۃ کے مسائل تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ اس میں یہ بھی تھا کے عیر سے ثور تک مدینہ حرم ہے جس نے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی یا نئی بات کرنے والے کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور جس نے اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے مولات قائم کر لی تو اس پر فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے، قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور مسلمانوں کا ذمہ ( قول و قرار، کسی کو پناہ دینا وغیرہ ) ایک ہے۔ ایک ادنی مسلمان کے پناہ دینے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ پس جس نے کسی مسلمان کی دی ہوئی پناہ کو توڑا، اس پر اللہ کی، فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جائے گا۔
(تدوین حدیث برہان دہلی و صحیح بخاری حدیث 6755)
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا جُحَيْفَةَ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ مَا لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ ؟ وَقَالَ مَرَّةً : مَا لَيْسَ عِنْدَ النَّاسِ ؟ ، فَقَالَ وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا عِنْدَنَا إِلَّا مَا فِي الْقُرْآنِ إِلَّا فَهْمًا يُعْطَى رَجُلٌ فِي كِتَابِهِ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ ، قُلْتُ : وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ ؟ قَالَ : الْعَقْلُ وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ ، وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ
میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز بھی ہے جو قرآن مجید میں نہیں ہے اور ایک مرتبہ انہوں نے اس طرح بیان کیا کہ جو لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے دانے سے کونپل کو پھاڑ کر نکالا ہے اور مخلوق کو پیدا کیا۔ ہمارے پاس قرآن مجید کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ سوا اس سمجھ کے جو کسی شخص کو اس کی کتاب میں دی جائے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے۔ میں نے پوچھا صحیفہ میں کیا ہے؟ فرمایا خون بہا ( دیت ) سے متعلق احکام اور قیدی کے چھڑانے کا حکم اور یہ کہ کوئی مسلمان کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر 6903)
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ : خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى مِنْبَرٍ مِنْ آجُرٍّ وَعَلَيْهِ سَيْفٌ فِيهِ صَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ ، فَقَالَ : وَاللَّهِ مَا عِنْدَنَا مِنْ كِتَابٍ يُقْرَأُ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَنَشَرَهَا فَإِذَا فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَإِذَا فِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ عَيْرٍ إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهِ ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهَا مَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا
علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر کر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: واللہ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ ( کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں ) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات ( بدعت ) نکالے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ( عہد یا امان ) ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر 7300)
(5) مسند ابوہریرة رضی اللہ عنہ
اس کے بہت سے نسخے عہد صحابہ میں لکھے گئے تھے اس کی ایک نقل عمر بن عبدالعزیز کے والد عبدالعزیز بن مروان والئی مصر کے پاس تھی عبدالعزیز بن مروان نے کثیر بن مرة کو لکھا تھا کہ آپ کے پاس صحابہ کرام کی جتنی مرویات ہیں وہ ہمیں لکھ کر بھیج دیں مگر ابوہریرة رضی اللہ عنہ کی مرویات بھیجنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہیں۔
(الطبقات الکبریٰ لا بن سعد 448/77)
صحیفہ ہمام بن منبہ:
ہمام بن منبہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور معروف تابعی ہیں انہوں نے "صحیفہ الصحیحہ" کے نام سے 138 احادیث پر مشتمل ایک صحیفہ مرتب کیا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کی تصیحح و تصویب کروائی ۔ یاد رہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ 58 ہجری میں فوت ہوئے جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ صحیفہ 58 ہجری سے پہلے ترتیب دیا گیا تھا ۔ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کو اس کے دو قلمی نسخے ملے ایک 1933 میں برلن کی کسی لائیبریری سے اور دوسرا مخطوطہ دمشق کی ایک لائیبریری سے ملا۔ تب انہوں نے ان دونوں نسخوں کا تقابل کر کے 1955ء میں حیدرآباد دکن سے "صحیفہ ہمام بن منبہ" کے نام سے شائع کیا اس صحیفے میں کل 138 احادیث ہیں اسی صحیفے کے متعلق معروف عالم دین مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب اپنی کتاب آئینہ پرویزیت میں لکھتے ہیں کہ
” صحیفہ ہمام بن منبہ ، جسے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے حال ہی میں شائع کیا ہے، ہمیں یہ دیکھ کر کمال حیرت ہوتی ہے کہ یہ صحیفہ پورے کا پورا مسند احمد بن حنبل میں مندرج ہے۔ اور بعینہ اسی طرح درج ہے جس طرح قلمی نسخوں میں ہے ماسوائے چند لفظی اختلافات کے، جن کا ذکر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے کر دیا ہے۔ لیکن جہاں تک زبانی روایات کی وجہ سے معنوی تحریف کے امکان کا تعلق ہے، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب دیکھیے احمد بن حنبل کا سنہ وفات 240ھ ہے۔ بعینہ صحیفہ مذکور اور مسند احمد بن حنبل میں تقریباً 200 سال کا عرصہ حائل ہے۔ اور دو سو سال کے عرصے میں صحیفہ ہمام بن منبہ کی روایات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے ہی امام موصوف تک منتقل ہوتی رہیں۔ اب دونوں تحریروں میں کمال یکسانیت کا ہونا کیا اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ زبانی روایات کا سلسلہ مکمل طور پر قابل اعتماد تھا۔
صحیفہ کی اشاعت اور تقابل کے بعد دو باتوں میں ایک بات بہرحال تسلیم کرنا پڑتی ہے:
1 : زبانی روایات ، خواہ ان پر دو سو سال گزر چکے ہوں ، قابل اعتماد ہو سکتی ہیں۔
2 : یہ کہ کتابتِ حدیث کا سلسلہ کسی بھی وقت منقطع نہیں ہوا۔
(آئینۂ پرویزیت ، ص:533-534)
جامعہ الازہر کے معروف عالم ڈاکٹر رفعت فوزی عبد المطلب اس مطبوعہ صحیفے کی تحقیق، تخریج اور شرح کا کام کر رہے تھے اور وہ آدھا کام کر چکے تھے، حسن اتفاق ایسا ہوا کہ "دارالکتب المصریہ" سے ایک اور مخطوطہ ان کے ہاتھ لگ گیا جو سن 557 ہجری کا مکتوب تھا۔ اس مخطوطے میں ان دونوں کے مقابلے میں ایک حدیث زائد ہے اور یہ زائد حدیث مسند احمد میں شامل صحیفے کی احادیث میں بھی موجود ہے۔ اب ڈاکٹر رفعت فوزی نے اسی مصری مخطوطے کو بنیاد بنا کر کام مکمل کیا۔ اسے "المکتبہ الخانجی" نے پہلی مرتبہ ستمبر 1985ء (بمطابق محرم الحرام 1406ھ) میں قاہرہ سے شائع کیا۔ صحیفہ ہمام بن منبہ کی 139 احادیث کی تفصیل کچھ یوں ہے :
61 - عقائد و ایمانیات
46 - عبادات
9 - معاملات
17 - اخلاق و آداب
9 - متفرقات
12 - احادیث قدسیہ
(صحیفہ ہمام بن منبہ،حافظ عبد اللہ شمیم،ناشر: انصار السنہ پبلیکیشنز لاہور)
اس کی اکثر روایات صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ملتی ہیں، الفاظ ملتے جلتے ہیں کوئی نمایاں فرق نہیں، ابو ہریرہ پہلے احادیث نہیں لکھا کرتے تھے، ممکن ہے کہ انہوں نے کتابت حدیث کا یہ سلسلہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد شروع کیا، یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے کسی دوسرے شخص سے احادیث مرتب کرائی ہوں
( فتح الباری، ج 1، ص 274)
اس کے علاوہ صحیفہ انس‘ خطبہ فتح مکہ (جو ابو شاہ کے لیے لکھا گیا تھا) صحیفہ جابر بن عبداللہ‘ مرویات ابن عباس ‘ مرویات عائشہ اور صحیفہ عمر و بن حزام ( جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر مقرر کیا تو انہیں لکھ کر دیا گیا تھا اس صحیفے میں فرائض‘ سنن‘ صدقات و دیات اور دیگر 21 فرامین نبویہ شامل ہیں) مزید برآں رسالہ سمرہ بن جندب ‘ رسالہ سعد بن عبادہ اور صحیفہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جس کے بارے میں ان کے بیٹے عبدالرحمن نے حلفاً کہا تھا کہ یہ ان کے باپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔
(جامع بیان العلم 300/11)
یہ تمام صحیفے رسالے اور کتب صحابہ کرام کی تحریریں تھیں جن میں انہوں نے مرفوع احادیث جمع کی تھیں
(جاری ہے)
تحریر : عبیداللہ لطیف فیصل آباد
محترم قارئین ! قبل اس کے کہ قادیانیوں کے نظریہ حدیث پر کچھ عرض کروں مقام حدیث اور حفاظت حدیث پر چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اصل حقائق کو سمجھنے میں آسانی ہو کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے کہ
"ان لوگوں کے خیالات کی بناء احادیث موضوعہ پر ہے جو قرآن شریف کی مہر سے خالی ہے مگر ہم قرآن شریف کو ان احادیث کی خاطر نہیں چھوڑ سکتے ۔ قرآن شریف بہرحال مقدم ہے بھلا قرآن کو تو آنحضرت صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے خود جمع کیا لکھوایا اور پھر نمازوں میں باربار پڑھ کر سنایا اگر احادیث بھی ویسی ہی ضروری ہیں تو ان میں سے بھی کسی کو اسی طرح جمع کیا اور بار بار سنایا اور دور کیا۔"
(ملفوظات جلد 3 صفحہ 211)
جہاں تک بات ہے احادیث کو جمع کرنے اور لکھوانے کی تو احادیث کو جمع کرنے اور لکھنے کا حکم۔خود نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے دیا اور احادیث نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے دور میں ہی لکھی جاتی رہیں اور جمع بھی کی گئیں جس کی تفصیل ان شاءاللہ آگے آئے گی ۔ اب بات رہ جاتی ہے کہ نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے احادیث کا نمازوں میں دور نہ کیا تو یہ مرزا غلام احمد قادیانی کی جہالت کا اعلی ترین ثبوت ہے کہ جسے بات کرتے ہوئے یہ تک خیال نہیں آیا کہ احادیث تین طرح کی ہوتی ہیں ایک قولی یعنی جو بات نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے بیان فرمائی اس فرمان نبوی کو قولی حدیث کہتے ہیں دوسری فعلی یعنی جو کام نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے عملا کر کے دکھایا تیسری حدیث کی وہ قسم ہے کہ اگر نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے سامنے کسی صحابی نے کوئی عمل کیا تو نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے منع نہ فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ احادیث قرآن کریم کی تشریح ہیں جن کا نماز میں دور نہ کرنے کو احادیث کی اہمیت کم کرنے کے لئے بطور دلیل پیش کرنا جہالت کے علاوہ کچھ نہیں بلکہ نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا باربار کسی کام کا حکم دینا اور اس کام کو عملا کر کے دکھانا ہی احادیث کا دور کہا جا سکتا ہے۔
اب آتے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریر کے اس حصے کی طرف جس میں اس نے کہا ہے کہ
"ان لوگوں کے خیالات کی بناء احادیث موضوعہ پر ہے جو قرآن شریف کی مہر سے خالی ہے"
حالانکہ مرزا غلام احمد قادیانی خود امام مہدی کے بارے میں تمام احادیث کو ضعیف قرار دے چکا ہے چنانچہ وہ اپنی کتاب براہین احمدیہ میں لکھتا ہے کہ
"جیسا کہ تمام محدثین کہتے ہیں اور میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں اور ان میں ایک بھی صحیح نہیں ….. مگر دراصل یہ تمام حدیثیں کسی اعتبار کے لائق نہیں۔“
(براہین احمدیہ، حصہ پنجم، مندرجہ روحانی خزائن، جلد 21، صفحہ 356)
اب جبکہ مرزا صاحب خود امام مہدی کے بارے میں تمام احادیث کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دے چکے ہیں اور امام مہدی کا ذکر قرآن کریم میں بھی نہیں تو مرزا صاحب کا اپنا دعوی مہدویت کس بنا پر ہے ؟
محترم قارئین ! جیسا کہ احادی پر مرزا غلام احمد قادیانی کا اعتراض بھی نقل کیا جا چکا ہے اور ویسے بھی جب کبھی کسی منکر حدیث اور قادیانی سے بات ہوتی ہے تو ان کی طرف سے احادیث پر سب سے پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ احادیث تو اڑھائی تین سو سال بعد لکھی گئی ہیں لہذا ہم انہیں نہیں مانتے حالانکہ جس طرح قرآن مجید کلام الٰہی ہونے کے سبب حجت ہے اسی طرح صحیح حدیث رسول بھی فرمان نبوی ہونے کے سبب حجت ہے۔ کیونکہ قرآن مقدس کی وضاحت اور تشریح جب تک فرمان نبوی سے نہ کی جائے تو دین اسلام ادھورا رہ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں رب کائنات نے فرمایا ہے کہ
ثُمَّ اِنَّ عَلَینَا بَیَانَہُo(القیامة 19:)
یعنی پھر اس کو بیان کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
نیز فرمایا
وَاَنزَلنَآ اِلَیکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِم (النحل44:)
ترجمہ؛ اور ہم نے آپ کی طرف ذکر (قرآن مجید) نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا۔
حدیث رسول کے حجت ہونے کے بارے میں قرآن مقدس میں ارشاد ہے کہ
وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُولُ وَخُذُوہُ وَمَانَہٰکُم عَنہُ فَانتَہُوا(الحشر7)
ترجمہ؛ اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاﺅ۔
محترم قارئین! جس طرح رب کائنات نے قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے اسی طرح قرآن مجید کی وضاحت یعنی حدیث رسول کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لی ہے یہی وجہ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن مجید کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ احادیث رسول کو بھی حفظ کیا کرتے تھے اور نبی کریم علیہ السلام کے دور میں ہی کتابت حدیث کا کام بھی شروع ہو گیا تھا۔ اسی سلسلہ میں حسن بن عمرو روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابو ہریرة رضی اللہ عنہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے گھر لے گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کی بہت سی کتابیں دکھائیں اور فرمایا کہ یہ میرے پاس مکتوب ہے۔
(بحوالہ فتح الباری207/1‘ تحت حدیث 113)
سنن ابوداود میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُغِيثٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ، وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا ؟، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: اكْتُبْ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ .
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کر دیا، اور کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔
(سنن ابی داﺅد کتاب العلم حدیث 3646)
صحابہ کرام کے تحریری مجموعے ؛
(1) صحیفہ صادقہ:_
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا ہزار احادیث پر مشتمل صحیفہ صادقہ یہ اب مسند احمد میں مکمل طور پر موجود ہے۔ اس صحیفے کی روایت عمرو بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاص کے توسط سے پوری طرح منقول ہے۔ اور اکابر محدثین نے اس روایت پر اعتماد کر کے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔
(تاریخ الحدیث والمحدثین ص 210)
(2) صحیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
اس میں صدقات اور زکوٰة کے احکامات درج ہیں امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے یہ صحیفہ پڑھا ہے عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے جب تدوین حدیث کا کام شروع کیا تو یہ صحیفہ انہیں عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان سے موصول ہوا۔ (موطا امام مالک ص 109)
(3) صحیفہ عثمان رضی اللہ عنہ
اس صحیفے میں زکوٰة کے احکام درج تھے اس کے متعلق امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کتاب الجہاد میں ابن الحنفیہ سے ایک روایت اس طرح لائے ہیں کہ
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنْ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، قَالَ : لَوْ كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ذَاكِرًا عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ذَكَرَهُ يَوْمَ جَاءَهُ نَاسٌ فَشَكَوْا سُعَاةَ عُثْمَانَ ، فَقَالَ لِي عَلِيٌّ : اذْهَبْ إِلَى عُثْمَانَ ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّهَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَمُرْ سُعَاتَكَ يَعْمَلُونَ فِيهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا ، فَقَالَ : أَغْنِهَا عَنَّا ، فَأَتَيْتُ بِهَا عَلِيًّا فَأَخْبَرْتُهُ ، فَقَالَ : ضَعْهَا حَيْثُ أَخَذْتَهَا ،
اگر علی رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے ہوتے تو اس دن ہوتے جب کچھ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے عاملوں کی ( جو زکوٰۃ وصول کرتے تھے ) شکایت کرنے ان کے پاس آئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا اور یہ زکوٰۃ کا پروانہ لے جا۔ ان سے کہنا کہ یہ پروانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھوایا ہوا ہے۔ تم اپنے عاملوں کو حکم دو کہ وہ اسی کے مطابق عمل کریں۔ چنانچہ میں اسے لے کر عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں پیغام پہنچا دیا ‘ لیکن انہوں نے فرمایا کہ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ( کیونکہ ہمارے پاس اس کی نقل موجود ہے ) میں نے جا کر علی رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ بیان کیا ‘ تو انہوں نے فرمایا کہ اچھا ‘ پھر اس پروانے کو جہاں سے اٹھایا ہے وہیں رکھ دو۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد روایت نمبر 3111)
(4) صحیفہ علی رضی اللہ عنہ
اس میں زکوٰة‘ صدقات‘ دیت ‘ قصاص‘ حرمت مدینہ ‘ خطبہ حجة الوداع اور اسلامی دستور کے نکات درج تھے۔ یہ صحیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن حنفیہ کے پاس تھا پھر امام جعفر کے پاس آیا اور انہوں نے حارث کو لکھ کر دیا۔
اسی صحیفے کے بارے میں بخاری شریف میں روایت ہے کہ
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : مَا عِنْدَنَا كِتَابٌ نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ غَيْرَ هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ، قَالَ : فَأَخْرَجَهَا فَإِذَا فِيهَا أَشْيَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ وَأَسْنَانِ الْإِبِلِ ، قَالَ : وَفِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ ، وَمَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ ، وَالْمَلَائِكَةِ ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ ، يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ ، وَالْمَلَائِكَةِ ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ
علی رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھیں، سوا اللہ کی کتاب قرآن کے اور اس کے علاوہ یہ صحیفہ بھی ہے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صحیفہ نکالا تو اس میں زخموں ( کے قصاص ) اور اونٹوں کی زکوٰۃ کے مسائل تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ اس میں یہ بھی تھا کے عیر سے ثور تک مدینہ حرم ہے جس نے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی یا نئی بات کرنے والے کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور جس نے اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے مولات قائم کر لی تو اس پر فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے، قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور مسلمانوں کا ذمہ ( قول و قرار، کسی کو پناہ دینا وغیرہ ) ایک ہے۔ ایک ادنی مسلمان کے پناہ دینے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ پس جس نے کسی مسلمان کی دی ہوئی پناہ کو توڑا، اس پر اللہ کی، فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جائے گا۔
(تدوین حدیث برہان دہلی و صحیح بخاری حدیث 6755)
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا جُحَيْفَةَ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ مَا لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ ؟ وَقَالَ مَرَّةً : مَا لَيْسَ عِنْدَ النَّاسِ ؟ ، فَقَالَ وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا عِنْدَنَا إِلَّا مَا فِي الْقُرْآنِ إِلَّا فَهْمًا يُعْطَى رَجُلٌ فِي كِتَابِهِ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ ، قُلْتُ : وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ ؟ قَالَ : الْعَقْلُ وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ ، وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ
میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز بھی ہے جو قرآن مجید میں نہیں ہے اور ایک مرتبہ انہوں نے اس طرح بیان کیا کہ جو لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے دانے سے کونپل کو پھاڑ کر نکالا ہے اور مخلوق کو پیدا کیا۔ ہمارے پاس قرآن مجید کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ سوا اس سمجھ کے جو کسی شخص کو اس کی کتاب میں دی جائے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے۔ میں نے پوچھا صحیفہ میں کیا ہے؟ فرمایا خون بہا ( دیت ) سے متعلق احکام اور قیدی کے چھڑانے کا حکم اور یہ کہ کوئی مسلمان کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر 6903)
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ : خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى مِنْبَرٍ مِنْ آجُرٍّ وَعَلَيْهِ سَيْفٌ فِيهِ صَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ ، فَقَالَ : وَاللَّهِ مَا عِنْدَنَا مِنْ كِتَابٍ يُقْرَأُ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَنَشَرَهَا فَإِذَا فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَإِذَا فِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ عَيْرٍ إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهِ ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهَا مَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا
علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر کر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: واللہ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ ( کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں ) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات ( بدعت ) نکالے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ( عہد یا امان ) ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر 7300)
(5) مسند ابوہریرة رضی اللہ عنہ
اس کے بہت سے نسخے عہد صحابہ میں لکھے گئے تھے اس کی ایک نقل عمر بن عبدالعزیز کے والد عبدالعزیز بن مروان والئی مصر کے پاس تھی عبدالعزیز بن مروان نے کثیر بن مرة کو لکھا تھا کہ آپ کے پاس صحابہ کرام کی جتنی مرویات ہیں وہ ہمیں لکھ کر بھیج دیں مگر ابوہریرة رضی اللہ عنہ کی مرویات بھیجنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہیں۔
(الطبقات الکبریٰ لا بن سعد 448/77)
صحیفہ ہمام بن منبہ:
ہمام بن منبہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور معروف تابعی ہیں انہوں نے "صحیفہ الصحیحہ" کے نام سے 138 احادیث پر مشتمل ایک صحیفہ مرتب کیا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کی تصیحح و تصویب کروائی ۔ یاد رہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ 58 ہجری میں فوت ہوئے جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ صحیفہ 58 ہجری سے پہلے ترتیب دیا گیا تھا ۔ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کو اس کے دو قلمی نسخے ملے ایک 1933 میں برلن کی کسی لائیبریری سے اور دوسرا مخطوطہ دمشق کی ایک لائیبریری سے ملا۔ تب انہوں نے ان دونوں نسخوں کا تقابل کر کے 1955ء میں حیدرآباد دکن سے "صحیفہ ہمام بن منبہ" کے نام سے شائع کیا اس صحیفے میں کل 138 احادیث ہیں اسی صحیفے کے متعلق معروف عالم دین مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب اپنی کتاب آئینہ پرویزیت میں لکھتے ہیں کہ
” صحیفہ ہمام بن منبہ ، جسے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے حال ہی میں شائع کیا ہے، ہمیں یہ دیکھ کر کمال حیرت ہوتی ہے کہ یہ صحیفہ پورے کا پورا مسند احمد بن حنبل میں مندرج ہے۔ اور بعینہ اسی طرح درج ہے جس طرح قلمی نسخوں میں ہے ماسوائے چند لفظی اختلافات کے، جن کا ذکر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے کر دیا ہے۔ لیکن جہاں تک زبانی روایات کی وجہ سے معنوی تحریف کے امکان کا تعلق ہے، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب دیکھیے احمد بن حنبل کا سنہ وفات 240ھ ہے۔ بعینہ صحیفہ مذکور اور مسند احمد بن حنبل میں تقریباً 200 سال کا عرصہ حائل ہے۔ اور دو سو سال کے عرصے میں صحیفہ ہمام بن منبہ کی روایات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے ہی امام موصوف تک منتقل ہوتی رہیں۔ اب دونوں تحریروں میں کمال یکسانیت کا ہونا کیا اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ زبانی روایات کا سلسلہ مکمل طور پر قابل اعتماد تھا۔
صحیفہ کی اشاعت اور تقابل کے بعد دو باتوں میں ایک بات بہرحال تسلیم کرنا پڑتی ہے:
1 : زبانی روایات ، خواہ ان پر دو سو سال گزر چکے ہوں ، قابل اعتماد ہو سکتی ہیں۔
2 : یہ کہ کتابتِ حدیث کا سلسلہ کسی بھی وقت منقطع نہیں ہوا۔
(آئینۂ پرویزیت ، ص:533-534)
جامعہ الازہر کے معروف عالم ڈاکٹر رفعت فوزی عبد المطلب اس مطبوعہ صحیفے کی تحقیق، تخریج اور شرح کا کام کر رہے تھے اور وہ آدھا کام کر چکے تھے، حسن اتفاق ایسا ہوا کہ "دارالکتب المصریہ" سے ایک اور مخطوطہ ان کے ہاتھ لگ گیا جو سن 557 ہجری کا مکتوب تھا۔ اس مخطوطے میں ان دونوں کے مقابلے میں ایک حدیث زائد ہے اور یہ زائد حدیث مسند احمد میں شامل صحیفے کی احادیث میں بھی موجود ہے۔ اب ڈاکٹر رفعت فوزی نے اسی مصری مخطوطے کو بنیاد بنا کر کام مکمل کیا۔ اسے "المکتبہ الخانجی" نے پہلی مرتبہ ستمبر 1985ء (بمطابق محرم الحرام 1406ھ) میں قاہرہ سے شائع کیا۔ صحیفہ ہمام بن منبہ کی 139 احادیث کی تفصیل کچھ یوں ہے :
61 - عقائد و ایمانیات
46 - عبادات
9 - معاملات
17 - اخلاق و آداب
9 - متفرقات
12 - احادیث قدسیہ
(صحیفہ ہمام بن منبہ،حافظ عبد اللہ شمیم،ناشر: انصار السنہ پبلیکیشنز لاہور)
اس کی اکثر روایات صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ملتی ہیں، الفاظ ملتے جلتے ہیں کوئی نمایاں فرق نہیں، ابو ہریرہ پہلے احادیث نہیں لکھا کرتے تھے، ممکن ہے کہ انہوں نے کتابت حدیث کا یہ سلسلہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد شروع کیا، یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے کسی دوسرے شخص سے احادیث مرتب کرائی ہوں
( فتح الباری، ج 1، ص 274)
اس کے علاوہ صحیفہ انس‘ خطبہ فتح مکہ (جو ابو شاہ کے لیے لکھا گیا تھا) صحیفہ جابر بن عبداللہ‘ مرویات ابن عباس ‘ مرویات عائشہ اور صحیفہ عمر و بن حزام ( جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر مقرر کیا تو انہیں لکھ کر دیا گیا تھا اس صحیفے میں فرائض‘ سنن‘ صدقات و دیات اور دیگر 21 فرامین نبویہ شامل ہیں) مزید برآں رسالہ سمرہ بن جندب ‘ رسالہ سعد بن عبادہ اور صحیفہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جس کے بارے میں ان کے بیٹے عبدالرحمن نے حلفاً کہا تھا کہ یہ ان کے باپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔
(جامع بیان العلم 300/11)
یہ تمام صحیفے رسالے اور کتب صحابہ کرام کی تحریریں تھیں جن میں انہوں نے مرفوع احادیث جمع کی تھیں
(جاری ہے)