قدامت ِ اہلحدیث
غوروفکر سے کام لینے والا ہر شخص جانتا ہے کہ قرآنِ کریم اور حدیث ِنبویﷺ پر عمل کرنے والے کو اہلحدیث کہا جاتاہے لہٰذا جب سے قرآن و حدیث ہیں تب سے اہلحدیث بھی چلے آرہے ہیں۔ مفتی صاحب کے بقول اگر ان کا وجود ڈیڑھ سو سال سے ہو تو اس سے قبل کی تصنیفات میں ان کا نام و نشان نہیں ملنا چاہئے جبکہ اس سے پہلے ہردور کے علماء کرام نے اپنی اپنی تصنیفات میں اہلحدیث کا ذکر ِخیر کیاہے،جسے اختصار کے ساتھ نقل کیا جاتاہے :
٭ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ( متوفی ۱۱۷۶ھ) نے حجۃ اللہ البالغۃ میں
باب الفرق بین أہل الحدیث و اصحاب الرأي کے تحت تحریر فرمایا ہے:
’’فوقع تدوین الحدیث والفقہ والمسائل من حاجتہم بموقع من وجہ أخر وذلک أنہ لم یکن عندھم من الأحادیث والاثار ما یقدرون بہ علی استنباط الفقہ علی الاصول التي اختارھا أھل الحدیث‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ، ج۱ ص۱۵۲ المکتبۃ السلفیۃ، لاہور)
یعنی ’’حدیث و فقہ اور مسائل کو دوسرے طرز پر مدوّن کرنے کی ضرورت پیش آئی اور یہ اس لئے کہ ان کے پاس اتنی احادیث اور آثار نہیںتھے جن سے اہلحدیث کے اختیارکردہ اصول کے موافق استنباطِ فقہ پر قادر ہوتے‘‘
٭ اس سے قبل حافظ ابن حجر ؒ(متوفی ۸۵۲ھ) ایک حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وقد صحّحہ بعض أہل الحدیث‘‘ (فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج۲ ص۲۲۰)
یعنی ’’اس حدیث کو اہل حدیث نے صحیح کہا ہے‘‘
٭ اور اس سے قبل امام ابن قیمؒ (متوفی ۷۵۱ھ) اپنی تصنیفات میں کثرت سے اہل حدیث کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک مقام پر قنوتِ نازلہ سے متعلق حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’وھذا ردّ علی أھل الکوفۃ الذین یکرھون القنوت فی الفجر مطلقاً عند النوازل وغیرھا ویقولون ھو منسوخ وفعلہ بدعۃ، فأھل الحدیث متوسطون بین ھٰؤلاء و بین من استحبہ عند النوازل وغیرھا وھم أشعر بالحدیث من الطائفتین فإنہم یقنتون حیث قنت رسول اللہﷺ ویترکونہ حیث ترکہ‘‘
یعنی’’ابوہریرہؓ کی یہ حدیث ان کوفیوں کی تردید کرتی ہے جو حوادث وغیرہ میں مطلقاً نمازِ فجر میں قنوت ِنازلہ کو مکروہ سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ قنوت پڑھنا منسوخ ہوچکا ہے اور اس پر عمل بدعت ہے ۔ جبکہ فریقین میں اہل حدیث کا مسلک معتدل ہے۔ اوراہل حدیث ہی حدیث ِنبوی کے مفہوم کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ جہاں رسول اللہﷺ نے قنوت پڑھی ہے، وہاں پڑھتے ہیں اور جہاں آپؐ نے اسے چھوڑا ہے، وہاں چھوڑنے کے قائل ہیں‘‘ (زاد المعاد: ج۱ ،ص۷۰)
٭ اس سے قبل امام ابن تیمیہ ؒ(متوفی ۷۲۸ھ) اپنی تالیفات میں شرعی مسائل میں جابجا اہل حدیث کا مسلک بیان کرتے ہیں، مثال کے طور پر نماز میں انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی قراء ت سے متعلق تین اَقوال ذکر کئے ہیں، ان میں سے تیسرا قول ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’والقول الثالث أن قراء تہا جائزۃ بل مستحبۃ وھذا مذھب أبی حنیفۃ وأحمد فی المشہور عنہ وأکثر أہل الحدیث‘‘ (الفتاوی الکبریٰ لابن تیمیۃ:ج ۱، ص۱۰۳)
یعنی’’ نما زمیں بسم اللہ کا پڑھنا جائز ہی نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور یہی قول امام ابوحنیفہؒ کا ہے اور امام احمدؒ کا مشہور مذہب بھی یہی ہے اور اکثراہل حدیث کا بھی یہی مسلک ہے۔‘‘
٭ اور اس سے بھی قبل امام رازیؒ (متوفی ۶۰۶ھ )آیت
(وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا ) کے تحت چوتھا مسئلہ بیان کرتے ہوئے اہل حدیث کا ذکرکرتے ہیں:
’’المسئلۃ الربعۃ قولہ:(فَأتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ) یدلّ علی أن القرآن وما ھو علیہ من کونہ سوراً ھو علی حد ما أنزلہ اللہ تعالیٰ بخلاف قول کثیر من أہل الحدیث أنہ نظم علی ھذا الترتیب فی أیام عثمان فلذٰلک صح التحدي مرۃ بسورۃ و مرۃ بکل القرآن‘‘ (التفسیر الکبیر للامام الرازي، ج۲ صفحہ ۱۱۷)
’’اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان {فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ} اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآنِ کریم اور اس کی سورتوں کی ترتیب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہے اس کے برخلاف اکثر اہل حدیث کا قول یہ ہے کہ اس کی یہ ترتیب دورِ عثمانی کی ہے ۔ اسی وجہ سے مخالفین کو پورے قرآن کے ساتھ او رکبھی اس کی ایک سورت کے ساتھ چیلنج کرنا صحیح قرار پاتا ہے‘‘
٭ اور اس سے پہلے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرما گئے ہیں کہ
’’بدعتیوں کی علامت، اہل حدیث کی ’غیبت‘کرنا ہے، اور بد دینوں کی علامت اہل حدیث کا نام ’حشویہ‘ رکھنا ہے۔ اور قدریہ کی علامت، ان کو’ مجبرہ‘ نامزد کرنا ہے، اور جہمیہ کی علامت ان کو ’مشبہہ‘ کہنا ہے اور رافضیوں کی علامت یہ ہے کہ وہ ان کا نام ’ناصبی‘ رکھتے ہیں‘‘… ان گمراہ فرقوں کی علامات بیان کرنے کے بعد شیخ علیہ الرحمۃ اہل حدیث کا دفاع کرتے ہوئے فرما گئے ہیں:
’’ولا إسم لہم الا إسم واحد وھو أصحاب الحدیث ولا یلتصق بہم ما لقّبہم أہل البدع کما لم یلتصق بالنبیﷺ تسمیۃ کفار مکۃ ساحراً و شاعرا ومجنونا ومفتونا وکاھنا‘‘ (غنیۃ الطالبین، ص ۱۹۷)
یعنی’’ ان کا تو ایک ہی نام ہے اوروہ نام ’اہل حدیث‘ ہے۔ اور بدعتیوں نے ان کو جو لقب دیئے ہیں ان سے ان کا کچھ نہیں بگڑتا، جیسا کہ مکہ کے کافر، رسول اکرمﷺ کو جادوگر اور شاعر اور مجنون اور کاہن کہہ کر آپ کا کچھ نقصان نہیں کرسکے۔‘‘
٭ اورامام ترمذیؒ (متوفی ۲۷۹ھ) اپنی جامع ترمذی میں جنازے سے آگے چلنے سے متعلق حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’وأھل الحدیث کلّہم یروون أن الحدیث المرسل في ذلک أصح‘‘(جامع ترمذی، ۱؍۱۹۶)
٭ اور امام مسلم (متوفی ۲۶۱ھ) اپنی صحیح کے مقدمہ میں متعدد بار اہلحدیث کاذکر کرتے ہیں، ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’ فأما ما کان منہا عن قوم ھم عند أہل الحدیث متہمون أو عند الأکثر منہم فلسنا نتشاغل بتخریج حدیثہم‘‘ (صحیح مسلم: ج۱ ،ص۵۵)
یعنی’’ جن روایات کے راوی تمام اہلحدیث یا ان میں سے اکثرکے نزدیک متہّم بالکذب ہوں گے ہم ان کی روایات اپنی صحیح میں نہیں لائیں گے۔‘‘
اہلحدیث سے اگرچہ یہاں محدثین کرام مراد ہیں، لیکن ان کے اُصول کو اختیار کرنے والے عوام بھی اس میں شامل ہیں جیسا کہ مقلدین اَحناف میں ان کے خواص اور عوام سب شمار ہوتے ہیں۔
٭ امام احمد بن حنبلؒ (متوفی ۲۴۱ھ) سے احمد بن حسن نے کہا: اے ابوعبداللہ! مکہ میں ابن ابی قتیلہ کے پاس اہلحدیث کا ذکر ہوا تو اس نے انہیں برُا بھلا کہا۔ تو امام احمدؒ فرمانے لگے:’’ایسا کہنے والا زندیق ہے،زندیق ہے ، زندیق ہے‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوگئے۔ (مناقب الامام احمد بن حنبل: ص۲۳۳)
٭ اور امام شافعیؒ (متوفی ۲۰۴ھ) باب رفع الیدین فی الصلوٰۃ کے تحت تین مقامات میں (نماز شروع کرتے ہوئے اور رکوع کے لئے جھکتے اور اس سے اُٹھتے ہوئے) رفع الیدین کے اثبات پر دلائل ذکر کرنے کے بعد اہلحدیث کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وأھل الحدیث من أھل المشرق یذھبون مذھبنا في رفع الأیدي ثلاث مرات فی الصلوٰۃ‘‘ (کتاب الأمّ للامام الشافعی:ج۷ ص۱۸۷)
’’یعنی اہل مشرق کے اہلحدیث نماز میں تین مرتبہ رفع یدین کرنے سے متعلق ہمارے مذہب کو اختیار کئے ہوئے ہیں‘‘
٭ اس سے قبل امام ابوحنیفہؒ (متوفی ۱۵۰ھ) بھی غیر مقلد (اہلحدیث) تھے بلکہ وہ اہلحدیث گر تھے جو دوسروں کو بھی اہلحدیث بنایا کرتے تھے، جیسا کہ
حضرت سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں:
’’پہلے پہل امام ابوحنیفہؒ ہی نے مجھ کو اہلحدیث بنایا ہے‘‘ (دیکھئے حدائق الحنفیۃ، ص۱۳۴ حدیقہ دوم)
اور امام صاحب سے قبل تو صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام کا دور تھا جن میں نہ کوئی حنفی مقلد تھا نہ شافعی وغیرہ ، بلکہ تمام صحابہ و تابعین متبع رسول ﷺ تھے اور سب تقلید ِناسدید سے ناآشنا تھے، کیونکہ تقلید شخصی اور مذہب پرستی کی بنیاد چوتھی صدی میں پڑی ہے جیسا کہ شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں:
’’إعلم أن الناس کانوا قبل المائۃ الرابعۃ غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد بعینہ‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ، ج۱ ص۱۵۲)
’’واضح ہو کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک خاص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے۔‘‘
نیز فرماتے ہیں:
’’أقول وبعد القرنین حدث فیہم شییٔ من التخریج غیر أن أہل المائۃ الرابعۃ لم یکونوا مجتمعین علی التقلید الخالص علی مذھب واحد والتفقہ لہ والحکایۃ لقولہ کما یظہر من التتبع‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ:ج۱، ص۱۵۲)
’’میں کہتا ہوں :پہلی دو صدیوں کے بعد کسی قدر تخریج کا طریقہ پیدا ہوگیا، لیکن چوتھی صدی کے لوگ کسی خاص شخص کی تقلید کرنے پر متفق نہیںتھے، اور نہ ہی کسی خاص شخص کی فقہ کے پابند تھے، اور نہ ہی ہر بات میں اسی کے قول کو نقل کیا کرتے تھے، جیسا کہ تتبع سے معلوم ہوتا ہے۔‘‘