• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقلدوں کی حالت ِزار اور اُن سے چند گذارشات

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مقلدوں کی حالت ِزار اور اُن سے چند گذارشات

مولانا محمد رمضان سلفی​
ہنود ویہودکی فکر ی یورش کے اس زمانے میں شدید ضرروت اس بات کی ہے کہ مسلمان آپس میں اتحاد واتفاق سے چلیں۔
باہمی فرقہ واریت کو ہوا دینے کی بجائے آپس میں اتحاد ویکجہتی کو فروغ دیں۔ اس دور میں جب کہ پڑھے لکھے لوگوں میں اس قسم کی فرقہ وارانہ چشمک کو اچھی نظر سے نہیں دیکھاجاتا ،
علماء کو چاہئے کہ ایک دوسرے کو طعن وتشنیع کرنے کی بجائے اپنی مشترکہ قوت سے غیروں کی طرف توجہ دیں۔
لیکن اس وقت بڑا افسوس ہوتا ہے جب ہمارے حنفی حضرات سادہ لوح عوام کو بار بار اسی فرقہ واریت کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ ایسے نوکیلے اور تیکھے انداز سے دوسروں پر جملے کستے اور انہیں دعوتِ مبارزت دیتے ہیں کہ اس طرزِ تحریر سے ایک شریف النفس آدمی بھی ان کی وضاحت کرنے پر مجبور ہوجاتاہے۔اس پر طرہ یہ کہ جھوٹ کی سان پر جھوٹے دعوئوں کے تیر چلائے جاتے ہیں اور بودے دلائل کے ذریعے کتاب وسنت کی واضح تعلیمات کو داغدار کرنے کی تگ ودو اور اپنے فقہی مسلک کو برتر ثابت کرنے کی کوششیں برئوے کار لا ئی جاتی ہیں۔
محدث جیسا کہ قارئین کے علم میں ہے ، اپنے ذوق اور رجحان کے لحاظ سے ان قسم کی بحثوں میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ لیکن جب معیاری دینی صحافت کے علمبردار ، علماء کی زیرسرپرستی چلنے والے مجلے عوام میں اپنی ساکھ بنانے کے لئے قرآن وسنت پر حملہ آور ہو جائیں اور اپنے علماء کے اقوال کے برعکس ائمہ کی تقلید کو ہی دین خالص قرار دینے لگ جائیں اور ان مجلات پر نگران مجالس علماء بھی ان کو بازنہ رکھیں تو دین حنیف سے اس الزام اور طعن کو دور کرنا شرعی فریضہ بن جاتا ہے۔کیونکہ کم از کم مسلمانوں کے سامنے اسلام کی کھری دعوت اور سچا منہج واضح رہنا چاہیے اور کسی کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اپنے تعصب کے سائے اسلام پر پھیلا کر دین کی سچی روشنی کو ہی ڈھانپ دے۔
دوماہ قبل کراچی کے جامعہ فاروقیہ کے مجلہ ’الفاروق‘ میں مذکورہ نوعیت کا ایک مضمون مدینہ میں رہائش پذیر ایک مفتی صاحب کے قلم سے اشاعت پذیر ہوا۔اس مضمون کا طرزِ تحریر اور انداز واِستدلال واقعتا علماء کے شایانِ شان نہیں۔محدث کو اس مضمون میں پیش کئے گئے اعتراضات کا ایک عالمانہ جواب اشاعت کے لئے ملا ہے جسے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے فاضل استاذ حدیث نے تحریر کیا ہے۔الحمد للہ کہ یہ مضمون فرقہ وارانہ رنگ لئے ہوئے نہیں ہے بلکہ اصلاحی اسلوب میں عالمانہ انداز پر تحریر کیا گیا ہے ۔ چنانچہ اسے محدث کے صفحات پر جگہ دی جارہی ہے۔ (حسن مدنی)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کراچی سے شائع ہونے والا ماہنامہ ’الفاروق‘ معیاری یوں تو اِسلامی صحافت کا دعویدار ہے لیکن وہ دوسروں کی دل آزاری اور ان پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیاجاتا ۔غیر ذمہ دار حضرات کے خیالات ا س میں آئے دن چھپتے رہتے ہیں جن کے ذریعے سے اُن لوگوں کو لتاڑا جاتاہے جنہیں یہ حضرات غیرمقلدوں کے نام سے یاد کرتے ہیں، اس ماہنامہ کی مئی؍جون ۲۰۰۰ء کی اشاعت میں ایک مفتی صاحب کی چند نگارشات’’غیرمقلدوں کا حال اور ان سے ضروری سوال‘‘ کے عنوان سے شائع کی گئی ہیں جس میں غیر مقلدوں کی آڑ میں اہل حدیث کو جاہل طبقہ قرار دینے کی سعی فرمائی گئی ہے اور انہیں باہمی افتراق و انتشار کا ذمہ دار بنانے کوشش کی گئی ہے۔
حالانکہ علم و دانش سے ادنیٰ مناسبت رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں کہ امت ِمسلمہ میں اِختلاف و اِنتشار کا آغاز اس وقت ہوا ہے جب اتباع و اطاعت کوچھوڑ کر اس کی جگہ تقلید ِشخصی کو اختیار کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اِمام ﷺکو پیچھے چھوڑ کر اپنے بنائے ہوئے اماموں کے نام پر مختلف مذاہب کی بنیاد رکھی گئی۔
اس اِجمال کی تفصیل تو ہم بعد میں ذکر کریں گے لیکن پہلے ماہنامہ ’الفاروق‘ کے اس مضمون نگار کی تحریر کا اقتباس ملاحظہ فرما لیں جو مقلد ہونے کے باوجود مفتی کہلاتے ہیں۔ وہ تقلید سے اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’صدیوں سے چاروں اِماموں کے مقلدین چلے آرہے ہیں اور دنیا میں موجود ہیں۔ یہ حضرات کتب ِحدیث کے راوی بھی تھے اور شارح بھی تھے۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے ایک فرقہ نکلا ہے، جس نے ان چاروں اماموں سے علیحدہ اپنی جماعت بنائی ہے‘‘ (مئی ؍ جون ۲۰۰۰ئ، صفحہ ۱۸)
مفتی صاحب آج کل مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہیں مگر افسوس کہ وہاں رہ کر بھی انہیں (اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ) کا مفہوم نہیں سمجھ آسکا ا ور وہ روضۂ رسولﷺ کے سامنے بیٹھ کر بھی امام الانبیاءﷺ کی اطاعت کی بجائے اپنے بنائے ہوئے اِماموں کی تقلید پر ہی جمے ہوئے ہیں جبکہ یہ تقلید فساد کی جڑ ہے اور اس کے اَثرات و نتائج اُمت کے لئے تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا اُمت میں افتراق وانتشار کی وجہ عدمِ تقلید ہے؟

ہر چیز کو اس کے اثرات سے ہی جانا جاتا ہے اور اس کے ردّ و قبول کا انحصار اس چیز سے حاصل ہونے والے نتائج پر ہوتا ہے ۔اگر کسی چیز سے حاصل ہونے والے نتائج اچھے ہوں تو انسان فطری طور پر اس کی طرف مائل ہوتا ہے اوربغیر کسی کی انگیخت کے اُسے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے جیساکہ کتاب وسنت کے نام سے ہی انسان دِلی طور پر فرحت اور سکون محسوس کرتا ہے۔
اور اگر کوئی چیز نتائج کے اعتبار سے بری ہو اور اس کے اثرات لوگوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں، تو فطرتِ انسانی ایسی چیز سے نفرت کرتی اور اسے قبول کرنے سے اِباء کرتی ہے، جیسا کہ تقلید ناسدید کے نام سے ہی انسان نفرت کا اظہار کرتا ہے،
کیونکہ اس تقلید نے امت ِمسلمہ کو سوائے افتراق اور انتشار کے کچھ نہیں دیا۔ اورتاریخ شاہد ہے کہ اسلام میں اس تقلید کی درآمد سے قبل مسلمانوں کی جنگیں کفارسے ہوتی تھیں اور آپس میں سب مسلمان اُخوف و مودّت جیسی بلند صفات سے متصف ہو کر جسد ِواحد بن کر پرسکون زندگی گزارتے تھے اور باہمی اِتحاد و اِتفاق کی بنا پر
(اَشِدَّائُ عَلیٰ الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ)
کا سنہری منظر پیش کرتے تھے
لیکن ستیاناس ہو اس تقلید کا،جس نے مسلمانوں کو آپس میں لڑانا شروع کیا ۔جب سے یہ اسلام میں گھس آئی ہے تب سے مسلمانوں کی توانائیاں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف ہی استعمال ہونے لگی ہیں۔ تقلید ایسی آفت ہے کہ جو شخص ایک دفعہ اس کے چنگل میں پھنس جاتا ہے تو پھر وہ سنت ِرسول ﷺ پرعمل کے قابل نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے تقلیدی مذہب کا ہی پیروکار بن جاتا ہے، اور جو چیز مقلدوں کے تقلیدی مذہب کے خلاف ہو، اسے قبول کرنا انہیں بہت مشکل دکھائی دیتا ہے، اگرچہ وہ قرآنِ کریم کی آیات اور صحیح احادیث سے ثابت ہو۔ مقلد ضعیف سے ضعیف روایات کا سہارا لے کر اعلیٰ درجے کی کھری احادیث کا انکار کرنے پر کمر بستہ ہوجاتاہے۔ اپنے غلط مذہب کی حمایت میں اگر مقلد کو صحیح احادیث میں توڑ مروڑبھی کرنا پڑے تو وہ اس سے بھی نہیں چوکتا۔ مقلد نے اگر قرآن و سنت کو ماننا ہو تو وہ مقلد ہی کیوں بنے۔ جب وہ مقلد بن گیا تو اب وہ اتباعِ رسولﷺ کیسے کرسکتا ہے۔
تقلید ایسی بیماری ہے جو مقلد کو اپنے تقلیدی مذہب سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے فرستادہ نبیؐ کی پیروی کی اجازت نہیں دیتی۔ تقلید طوق اور بیڑی ہے جو مقلد کواپنے امامِ مذہب کی تقلید سے آزاد نہیں ہونے دیتی۔ مقلد اُمّتیوں کے پیچھے جاتا ہے جبکہ اتباع کرنے والا رسول اللہﷺ کے راستے کا متلاشی ہوتا ہے، لہٰذا جو فرق بینا اور نابینا میں ہے، وہی فرق متبع اور مقلد میں ہے۔ اور جیسے مشرک، موحد نہیں ہوسکتا، بدعتی اہل سنت نہیں ہوسکتا، ایسے ہی مقلد کبھی متبع رسول ﷺ نہیں ہوسکتا، کیونکہ اسے فکر ہی ان باتوں کی ہوتی ہے جو اس کے امام مذہب کی طرف منسوب ہوتی ہیں، اس کے ہاں کتاب و سنت جائے بھاڑ میں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
چنانچہ ملک میں جب بھی نفاذِ اسلام کا مسئلہ درپیش ہو تو مقلد اپنے مذہب کی کتابوں کو، اپنے مخصوص نظریہ کو لے کر آڑے آجائے گا اور اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے دین (قرآن و حدیث) کے نفاذ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوجائے گا۔ مقلدوں کی حالت ِزار کا اندازہ لگائیے کہ
وہ تقلید ِشخصی پر کس قدر نازاں اور فرحاں ہیں حالانکہ اُمت میں سے کسی فرد وبشر کی تقلید کرنے کا حکم نہ تو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور نہ ہی اس کا حکم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولﷺ نے دیا ہے۔ اور نہ ہی امام ابوحنیفہ ؒ نے کہیں یہ کہا ہے کہ میری تقلید کرنا اور میرے نام پر ایک مذہب کی بنیاد رکھ لینا۔
مقلد کی مثال تو بن بلائے مہمان کی سی ہے جس کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہوتی، اس کے برعکس اہلحدیث
درحقیقت متبع رسولﷺ ہیں اور اِتباع رسولﷺ کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دیا ہے۔ اس لئے ہمارے امام حضرت محمدرسول اللہﷺ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے منصب ِامامت پر فائز فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ ہم کسی اُمتی کے مقلد نہیں ہیں، خواہ وہ اُمتی غیر مقلدہی کیوں نہ ہو، بلکہ اس کی غلطی کو ہم سرعامِ بیان کرنے کو تیار ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ اللہ و رسولؐ کی تقلید نہیں ہواکرتی بلکہ اتباع اور اطاعت ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم نے اللہ و رسولؐ کے لئے تقلید کا باسی لفظ کہیں بھی استعمال نہیں کیا، ہر جگہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لئے (اتباع) اور اطاعت کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے، معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی اطاعت اور اتباع ہوتی ہے اور تقلید امتیوں کی ہوتی ہے۔
حنفیوں کی معتبر کتاب مسلم الثبوت (صفحہ ۲۸۹) میں ہے:
’’الرجوع إلی النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام أو إلی الإجماع لیس منہ‘‘
’’نبی ﷺ یا اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید میں داخل نہیں ہے‘‘
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ تقلید
خود ساختہ اماموں کی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام حضرت محمدرسول اللہﷺ کی تقلید نہیں ہوتی بلکہ ان کی اِتباع و اِطاعت ہوتی ہے اور اتباع و اِطاعت سے اُمت میں اِتحاد برقرار رہتا ہے، جبکہ تقلید اس کے برعکس اُمت کو فرقوں میں بانٹ دیتی ہے، اور مسلمانوں کی قوت کو کمزور کردیتی ہے۔
حنفیوں نے اپنا امام بنایا تو دوسرے مقلدوں نے اس کے مقابلے میں اپنے علیحدہ اِمام بنالئے۔ اور سب مقلد اپنے اپنے امام کی تقلید کرنے میں جت گئے اور اس طرح ایک دین کو چار دین بنا دیا گیا اور یوں محمد رسول اللہﷺ کا دیا ہوا دین کھلونا بن کر رہ گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام اور مسلمانوں میں تفرقہ پڑ گیا جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے تفرقہ بازی سے بچانے کے لئے حضرت محمد رسول اللہﷺ کو اِمام بنایا تھا اورانہی کی اتباع کا حکم دیاتھا تاکہ مسلمانوں میں مختلف فرقے پیدا نہ ہوں،
لیکن مقلد ین نے خود ساختہ اماموں کی تقلید اختیار کرکے دین الٰہی کا وہ حلیہ بگاڑا جس کی مثال نہیں ملتی، اوراس جرم کا سب سے پہلا مرتکب ’حنفی مقلد‘ ہے جس نے اس تفرقہ بازی کی بنیاد رکھی ہے، لہٰذا قیامت کے دن جب اُمت ِواحدہ کو پارہ پارہ کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کئے جائیں گے تو حنفی مقلد اِن سب سے آگے ہوں گے،
کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے اس بھیڑ چال کی بنیاد رکھی ہے، اس کے بعد تو چل سو چل ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تفرقہ بازی کا فعل اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ جب بھی کوئی نبی اور رسول مبعوث ہوا، اسے خاص طور پر یہ وصیت کی گئی کہ لوگوں کو فرقوں میں نہ بٹنے دینا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسَیٰ وَعِیْسیٰ اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ) (الشوریٰ:۱۳ )
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی شریعت مقرر کردی ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھااور جو بذریعہ وحی ہم نے آپ ؐ کی طرف بھیج دی ہے۔اور جس کاتاکیدی حکم ہم نے ابراہیم ؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنااور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
بتائیے، اس آیت ِکریمہ میں ذکر ہونے والے ’دین‘ سے کیامراد ہے؟ اگر حنفی مقلد کہیں کہ اس سے مراد حنفی مذہب ہے، تو شافعی کہیں گے، اس سے شافعی مذہب مراد ہے، حالانکہ دونوں میں بعد المشرقین ہے، اگر یقین نہ آئے تو دونوں مذاہب کی مذہبی کتابیں سامنے رکھ کر موازنہ کرلیں۔ شافعی فاتحہ خلف الامام کو فرض کہتے ہیں اور حنفی مقلد اس کے اَزلی مخالف ہیں۔ وہ نماز میں مواضع ثلاثہ کی رفع یدین کے قائل و فاعل ہیں، حنفی اس کے مخالف ہیں، وہ آمین بالجہر کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ حنفی مقلد اس کے منکر ہیں۔ یہ چند مثالیں تو نماز سے متعلق ہیں، باقی معاملات اور مسائل میں مقلدین کا باہمی اِختلاف اہل علم سے مخفی نہیں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امت ِمسلمہ میں انتشار کا سب سے بڑا سبب تقلید ہے،
اگر یقین نہ آئے تو حنفی مقلدوں کو دیکھ لیں کہ دیو بندیوں اور بریلویوں میں سخت وَیر ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں حالانکہ دونوں حنفی مقلد کہلاتے ہیں، پھر اس سے آگے کوئی قادری بن گیا اور کوئی چشتی ، کوئی نقشبندی بن گیا اور کوئی سہروردی ۔ دیکھئے خود حنفیوں کے کتنے ٹوٹے ہوگئے، معلوم ہواکہ تقلید بھیڑ چال کا نام ہے اور تقلید فرقہ بندی کی ماں ہے جوفرقوں کو جنم دیتی ہے کیونکہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، دیوبندی، بریلوی وغیرہ سب فرقے تقلید کرنے سے پیدا ہوئے ہیں، ترکِ تقلید سے پیدا نہیں ہوئے۔ لہٰذاتقلید اِتحاد و اتفاق کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ گمراہی کی جڑ ہے جس سے اُمت میں اِنتشار پیدا ہوا ہے اور اس نے اُمت کی اِجتماعیت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا ہے۔
اس لئے تقلید انسانوں کو زیب نہیں دیتی اور قرآن کریم نے کہیں بھی تقلید کا لفظ انسانوں کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ ہر جگہ انہیں اللہ و رسولؐ کی اتباع و اطاعت کا حکم ہی دیا ہے اور اسی کو ہدایت قرار دیا ہے :
(وَاِنْ تُطِیْعُوْہٗ تَھْتَدُوْا) (النور:۵۴)
’’اور اگر تم رسول ؐ کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پائوگے‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دیکھئے جیسے آپ لوگ اپنے امام کی تقلید کی وجہ سے حنفی بنے ہیں،
ایسے ہی ابوعبداللہ کرام، جہم بن صفوان، ابوالحسین بن صالح، ابوشمر، یونس البری اور غیلان وغیرہ کی تقلید کرنے کی وجہ سے کرامیہ، جہمیہ ، صالحیہ، شمریہ، یونسیہ اور غیلانیہ وغیرہ فرقے وجود میں آئے ہیں۔
لہٰذا تقلید ہی ایسی چیز ہے جو مختلف فرقوں کو جنم دیتی ہے اور فرقہ تب بنتا ہے جب کہ غیر نبی کی تقلید کی جاتی ہے۔ مقلد، نبیﷺ کو ڈھیلا چھوڑ کر اپنے امام کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے، پھر وفا اپنے اِمام سے بھی نہیں کرتا کہ اسی پر اکتفاء کرے بلکہ اس سے بھی آگے ترقی کرتا ہے ، جیسا کہ
مولانا عبدالحیٔ لکھنویؒ نے لکھا ہے:
’’کم من حنفي حنفي فرعا مرجیٔ أو زیدي أصلا وبالجملۃ فالحنفیۃ لہا فروع باعتبار اختلاف العقیدۃ فمنہم الشیعۃ ومنہم المعتزلۃ ومنہم المرجئۃ‘‘ (الرفع والتکمیل، صفحہ ۳۸۵)
یعنی’’ بہت سے حنفی فروع میں حنفی ہوتے ہیں لیکن اُصول میں وہ مرجئۃ یا زیدی ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ عقائد کے اِختلاف کے اعتبار سے حنفیوں کی کئی قسمیں ہیں، ان حنفیوں سے ہی شیعہ ہیں اوران سے ہی معتزلہ ہیں اور مرجیہ بھی ان کی ہی ایک قسم ہیں۔‘‘(رسائل بہاولپوریؒ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا محدثین کرام بھی مقلد تھے؟

مقلدین کی جسارت اس وقت عروج پر ہوتی ہے ، جس وقت یہ لوگ محدثین کرام کو بلکہ ان علماء عظام کو بھی مقلد بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو اپنی زندگی میں تقلید ِناسدید سے نفرت کرتے رہے، اور اس کے خلاف بعض تصنیفات سپردِ قلم کر گئے ہیں۔ دیکھئے امام ابن قیم اوران کے استاذ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ کو حنبلی مقلد لکھا جاتا ہے اور یہ پروپیگنڈہ حنفی مقلدین بڑی شدومد سے کرتے ہیں، حالانکہ امام ابن قیمؒ کی تقلید کے خلاف لکھی ہوئی کتاب رسالۃ التقلید کے نام سے آج بھی لائبریریوں میں موجودہے جس میں انہوں نے اتباع واِطاعت کو فرض اور تقلید کو حرام قرا ر دیاہے بلکہ مقلدین کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ بلکہ اِماموں کے مخالفین میں شمار کیا ہے اور اسی کتاب کے صفحہ ۷۵ پر انہوں نے اپنے استاذ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے حنبلی مقلد ہونے کی نفی خود شیخ سے ہی ثابت کی ہے۔ اس کے برعکس اہل تقلید انہیں مقلد بنانے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح امام سیوطیؒ کی ردّ تقلید پرکتاب ’’الرد علی من أخلد إلی الارض وجہل أن الاجتہاد فی کل زمان فرض‘‘ موجود ہے، اور ابن دقیق العید کے بارے میں ڈاکٹر عامر حسن لکھتے ہیں
’’وعلی الرغم من أنہ عرف کواحد من أئمۃ المالکیۃ والشافعیۃ فہو في الحقیقۃ خرج عن دائرۃ التقلید في المذھبین إلی دائرۃ الاجتہاد ذکر ذلک کل من عاصرہ وعرفہ عن کثب قال الأدنوي، و کتب لہ طریقۃ المجتہدین وقریٔ بین یدیہ فأقر علیہ ولا شک أنہ من أھل الاجتہاد و ما ینازع فی ذلک إلا من ہو من أھل العناد‘‘
(مقدمۃ الاقتراح في بیان الاصطلاح، ص۴۲)
’’اس کے برعکس کہ وہ ائمہ مالکیہ یا شافعیہ کے ایک عالم ہونے کی حیثیت سے مشہور ہیں مگر درحقیقت وہ ان دونوں مذاہب کی تقلید کے دائرے سے نکل کر مرتبہ اجتہاد پر فائز ہیں۔ اس بات کو ان کے معاصرین نے اورانہیں قریب سے جاننے والوں نے ذکر کیا ہے۔جیسا کہ ادنویؒ کا مشہور قول ہے کہ ان کے سامنے اہل اجتہاد کا طریقہ لکھااورپڑھا گیاجسے انہوں نے برقرار رکھا اور یہ بات شک وشبہ سے بالا ہے کہ وہ اہل اجتہاد سے ہیںاور سوائے ضدی لوگوں کے کوئی شخص اس بات میں اختلاف نہیں کرتا‘‘
اسی طرح دیگر بہت سے اہل علم کو مقلدین حضرات اپنے رنگ میں رنگنے کی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ تقلید کے خلاف ان کی تصنیفات دستیاب اور ان کے غیر مقلد ہونے پر تصریحات موجود ہوتی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا اہلحدیث صرف ڈیڑھ سو سال پہلے وجود میں آئے؟

رہا ان کا یہ دعویٰ کہ ’’تقریباً ڈیڑھ سو سال سے ایک فرقہ نکلا ہے جس نے ان چاروں اماموں سے علیحدہ اپنی جماعت بنائی ہے‘‘ (ص ۱۸) اس سے ان کا اشارہ اہلحدیث کی طرف ہے جنہیں یہ غیرمقلد کے نام سے یاد کرتے ہیں اور مفتی صاحب نے کسی سے سن سنا کر ڈیڑھ سو سال سے اہلحدیث کے وجو د کی لاف تو مار دی ہے لیکن اس پر کوئی ٹھوس دلیل پیش کرنے کی زحمت نہیں کی، اوریہ مفتی صاحب کی مجبوری ہے کیونکہ وہ مقلد ہیں اور مقلد لکیر کا فقیر ہوتاہے جسے کوئی بات نوک ِ قلم پرلانے سے پہلے تحقیق کی تکلیف نہیں دی جاسکتی کیونکہ تقلید کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے
’’التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجۃ‘‘ (مسلم الثبوت، ص۲۸۹)
یعنی ’’دلیل کے بغیر ہی غیروں کی بات پر عمل کرنا تقلید کہلاتا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
قدامت ِ اہلحدیث

غوروفکر سے کام لینے والا ہر شخص جانتا ہے کہ قرآنِ کریم اور حدیث ِنبویﷺ پر عمل کرنے والے کو اہلحدیث کہا جاتاہے لہٰذا جب سے قرآن و حدیث ہیں تب سے اہلحدیث بھی چلے آرہے ہیں۔ مفتی صاحب کے بقول اگر ان کا وجود ڈیڑھ سو سال سے ہو تو اس سے قبل کی تصنیفات میں ان کا نام و نشان نہیں ملنا چاہئے جبکہ اس سے پہلے ہردور کے علماء کرام نے اپنی اپنی تصنیفات میں اہلحدیث کا ذکر ِخیر کیاہے،جسے اختصار کے ساتھ نقل کیا جاتاہے :
٭ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ( متوفی ۱۱۷۶ھ) نے حجۃ اللہ البالغۃ میں باب الفرق بین أہل الحدیث و اصحاب الرأي کے تحت تحریر فرمایا ہے:
’’فوقع تدوین الحدیث والفقہ والمسائل من حاجتہم بموقع من وجہ أخر وذلک أنہ لم یکن عندھم من الأحادیث والاثار ما یقدرون بہ علی استنباط الفقہ علی الاصول التي اختارھا أھل الحدیث‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ، ج۱ ص۱۵۲ المکتبۃ السلفیۃ، لاہور)
یعنی ’’حدیث و فقہ اور مسائل کو دوسرے طرز پر مدوّن کرنے کی ضرورت پیش آئی اور یہ اس لئے کہ ان کے پاس اتنی احادیث اور آثار نہیںتھے جن سے اہلحدیث کے اختیارکردہ اصول کے موافق استنباطِ فقہ پر قادر ہوتے‘‘
٭ اس سے قبل حافظ ابن حجر ؒ(متوفی ۸۵۲ھ) ایک حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وقد صحّحہ بعض أہل الحدیث‘‘ (فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج۲ ص۲۲۰)
یعنی ’’اس حدیث کو اہل حدیث نے صحیح کہا ہے‘‘
٭ اور اس سے قبل امام ابن قیمؒ (متوفی ۷۵۱ھ) اپنی تصنیفات میں کثرت سے اہل حدیث کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک مقام پر قنوتِ نازلہ سے متعلق حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’وھذا ردّ علی أھل الکوفۃ الذین یکرھون القنوت فی الفجر مطلقاً عند النوازل وغیرھا ویقولون ھو منسوخ وفعلہ بدعۃ، فأھل الحدیث متوسطون بین ھٰؤلاء و بین من استحبہ عند النوازل وغیرھا وھم أشعر بالحدیث من الطائفتین فإنہم یقنتون حیث قنت رسول اللہﷺ ویترکونہ حیث ترکہ‘‘

یعنی’’ابوہریرہؓ کی یہ حدیث ان کوفیوں کی تردید کرتی ہے جو حوادث وغیرہ میں مطلقاً نمازِ فجر میں قنوت ِنازلہ کو مکروہ سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ قنوت پڑھنا منسوخ ہوچکا ہے اور اس پر عمل بدعت ہے ۔ جبکہ فریقین میں اہل حدیث کا مسلک معتدل ہے۔ اوراہل حدیث ہی حدیث ِنبوی کے مفہوم کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ جہاں رسول اللہﷺ نے قنوت پڑھی ہے، وہاں پڑھتے ہیں اور جہاں آپؐ نے اسے چھوڑا ہے، وہاں چھوڑنے کے قائل ہیں‘‘ (زاد المعاد: ج۱ ،ص۷۰)
٭ اس سے قبل امام ابن تیمیہ ؒ(متوفی ۷۲۸ھ) اپنی تالیفات میں شرعی مسائل میں جابجا اہل حدیث کا مسلک بیان کرتے ہیں، مثال کے طور پر نماز میں انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی قراء ت سے متعلق تین اَقوال ذکر کئے ہیں، ان میں سے تیسرا قول ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’والقول الثالث أن قراء تہا جائزۃ بل مستحبۃ وھذا مذھب أبی حنیفۃ وأحمد فی المشہور عنہ وأکثر أہل الحدیث‘‘ (الفتاوی الکبریٰ لابن تیمیۃ:ج ۱، ص۱۰۳)
یعنی’’ نما زمیں بسم اللہ کا پڑھنا جائز ہی نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور یہی قول امام ابوحنیفہؒ کا ہے اور امام احمدؒ کا مشہور مذہب بھی یہی ہے اور اکثراہل حدیث کا بھی یہی مسلک ہے۔‘‘
٭ اور اس سے بھی قبل امام رازیؒ (متوفی ۶۰۶ھ )آیت (وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا ) کے تحت چوتھا مسئلہ بیان کرتے ہوئے اہل حدیث کا ذکرکرتے ہیں:
’’المسئلۃ الربعۃ قولہ:(فَأتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ) یدلّ علی أن القرآن وما ھو علیہ من کونہ سوراً ھو علی حد ما أنزلہ اللہ تعالیٰ بخلاف قول کثیر من أہل الحدیث أنہ نظم علی ھذا الترتیب فی أیام عثمان فلذٰلک صح التحدي مرۃ بسورۃ و مرۃ بکل القرآن‘‘ (التفسیر الکبیر للامام الرازي، ج۲ صفحہ ۱۱۷)
’’اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان {فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ} اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآنِ کریم اور اس کی سورتوں کی ترتیب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہے اس کے برخلاف اکثر اہل حدیث کا قول یہ ہے کہ اس کی یہ ترتیب دورِ عثمانی کی ہے ۔ اسی وجہ سے مخالفین کو پورے قرآن کے ساتھ او رکبھی اس کی ایک سورت کے ساتھ چیلنج کرنا صحیح قرار پاتا ہے‘‘
٭ اور اس سے پہلے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرما گئے ہیں کہ
’’بدعتیوں کی علامت، اہل حدیث کی ’غیبت‘کرنا ہے، اور بد دینوں کی علامت اہل حدیث کا نام ’حشویہ‘ رکھنا ہے۔ اور قدریہ کی علامت، ان کو’ مجبرہ‘ نامزد کرنا ہے، اور جہمیہ کی علامت ان کو ’مشبہہ‘ کہنا ہے اور رافضیوں کی علامت یہ ہے کہ وہ ان کا نام ’ناصبی‘ رکھتے ہیں‘‘… ان گمراہ فرقوں کی علامات بیان کرنے کے بعد شیخ علیہ الرحمۃ اہل حدیث کا دفاع کرتے ہوئے فرما گئے ہیں:
’’ولا إسم لہم الا إسم واحد وھو أصحاب الحدیث ولا یلتصق بہم ما لقّبہم أہل البدع کما لم یلتصق بالنبیﷺ تسمیۃ کفار مکۃ ساحراً و شاعرا ومجنونا ومفتونا وکاھنا‘‘ (غنیۃ الطالبین، ص ۱۹۷)
یعنی’’ ان کا تو ایک ہی نام ہے اوروہ نام ’اہل حدیث‘ ہے۔ اور بدعتیوں نے ان کو جو لقب دیئے ہیں ان سے ان کا کچھ نہیں بگڑتا، جیسا کہ مکہ کے کافر، رسول اکرمﷺ کو جادوگر اور شاعر اور مجنون اور کاہن کہہ کر آپ کا کچھ نقصان نہیں کرسکے۔‘‘
٭ اورامام ترمذیؒ (متوفی ۲۷۹ھ) اپنی جامع ترمذی میں جنازے سے آگے چلنے سے متعلق حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’وأھل الحدیث کلّہم یروون أن الحدیث المرسل في ذلک أصح‘‘(جامع ترمذی، ۱؍۱۹۶)
٭ اور امام مسلم (متوفی ۲۶۱ھ) اپنی صحیح کے مقدمہ میں متعدد بار اہلحدیث کاذکر کرتے ہیں، ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’ فأما ما کان منہا عن قوم ھم عند أہل الحدیث متہمون أو عند الأکثر منہم فلسنا نتشاغل بتخریج حدیثہم‘‘ (صحیح مسلم: ج۱ ،ص۵۵)
یعنی’’ جن روایات کے راوی تمام اہلحدیث یا ان میں سے اکثرکے نزدیک متہّم بالکذب ہوں گے ہم ان کی روایات اپنی صحیح میں نہیں لائیں گے۔‘‘
اہلحدیث سے اگرچہ یہاں محدثین کرام مراد ہیں، لیکن ان کے اُصول کو اختیار کرنے والے عوام بھی اس میں شامل ہیں جیسا کہ مقلدین اَحناف میں ان کے خواص اور عوام سب شمار ہوتے ہیں۔
٭ امام احمد بن حنبلؒ (متوفی ۲۴۱ھ) سے احمد بن حسن نے کہا: اے ابوعبداللہ! مکہ میں ابن ابی قتیلہ کے پاس اہلحدیث کا ذکر ہوا تو اس نے انہیں برُا بھلا کہا۔ تو امام احمدؒ فرمانے لگے:’’ایسا کہنے والا زندیق ہے،زندیق ہے ، زندیق ہے‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوگئے۔ (مناقب الامام احمد بن حنبل: ص۲۳۳)
٭ اور امام شافعیؒ (متوفی ۲۰۴ھ) باب رفع الیدین فی الصلوٰۃ کے تحت تین مقامات میں (نماز شروع کرتے ہوئے اور رکوع کے لئے جھکتے اور اس سے اُٹھتے ہوئے) رفع الیدین کے اثبات پر دلائل ذکر کرنے کے بعد اہلحدیث کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وأھل الحدیث من أھل المشرق یذھبون مذھبنا في رفع الأیدي ثلاث مرات فی الصلوٰۃ‘‘ (کتاب الأمّ للامام الشافعی:ج۷ ص۱۸۷)
’’یعنی اہل مشرق کے اہلحدیث نماز میں تین مرتبہ رفع یدین کرنے سے متعلق ہمارے مذہب کو اختیار کئے ہوئے ہیں‘‘
٭ اس سے قبل امام ابوحنیفہؒ (متوفی ۱۵۰ھ) بھی غیر مقلد (اہلحدیث) تھے بلکہ وہ اہلحدیث گر تھے جو دوسروں کو بھی اہلحدیث بنایا کرتے تھے، جیسا کہ
حضرت سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں:
’’پہلے پہل امام ابوحنیفہؒ ہی نے مجھ کو اہلحدیث بنایا ہے‘‘ (دیکھئے حدائق الحنفیۃ، ص۱۳۴ حدیقہ دوم)
اور امام صاحب سے قبل تو صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام کا دور تھا جن میں نہ کوئی حنفی مقلد تھا نہ شافعی وغیرہ ، بلکہ تمام صحابہ و تابعین متبع رسول ﷺ تھے اور سب تقلید ِناسدید سے ناآشنا تھے، کیونکہ تقلید شخصی اور مذہب پرستی کی بنیاد چوتھی صدی میں پڑی ہے جیسا کہ شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں:
’’إعلم أن الناس کانوا قبل المائۃ الرابعۃ غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد بعینہ‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ، ج۱ ص۱۵۲)
’’واضح ہو کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک خاص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے۔‘‘
نیز فرماتے ہیں:
’’أقول وبعد القرنین حدث فیہم شییٔ من التخریج غیر أن أہل المائۃ الرابعۃ لم یکونوا مجتمعین علی التقلید الخالص علی مذھب واحد والتفقہ لہ والحکایۃ لقولہ کما یظہر من التتبع‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ:ج۱، ص۱۵۲)
’’میں کہتا ہوں :پہلی دو صدیوں کے بعد کسی قدر تخریج کا طریقہ پیدا ہوگیا، لیکن چوتھی صدی کے لوگ کسی خاص شخص کی تقلید کرنے پر متفق نہیںتھے، اور نہ ہی کسی خاص شخص کی فقہ کے پابند تھے، اور نہ ہی ہر بات میں اسی کے قول کو نقل کیا کرتے تھے، جیسا کہ تتبع سے معلوم ہوتا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تمام مقلد حضرات بالعموم اور الفاروق کے مضمون نگار بالخصوص مذکورہ بالااقتباسات کی روشنی میں اپنی اداؤں پر نظرثانی کریں اور سوچیں کہ اگر اہلحدیث حضرات ڈیڑھ سو سال سے شروع ہوئے ہیں جیساکہ آپ کا دعویٰ ہے تو ڈیڑھ صدی سے قبل ان کا نام و نشان نہیں ملنا چاہئے۔ حالانکہ اس سے قبل ہر دور اورہر صدی کے علماء کرام نے اپنی تصنیفات میں اہلحدیث کا ذکر ِخیر کیا ہے، جسے ہم بمع حوالہ جات ان کی کتابوں سے ثابت کر آئے ہیں،
اور اس بات کو بھی زیر غور لائیں کہ اگر تقلید کوئی مستحسن چیز ہوتی، اور شریعت ِاسلامیہ میں اس کی کوئی اہمیت ہوتی تو خیر القرون میں اس کی پابندی کی جاتی اوراس کی طرف راہنمائی کی جاتی، جبکہ اسلام کے سنہری دور کے مسلمانوں نے اپنی زندگیوں میں تقلید کا کبھی تصور بھی نہیں کیا، اور نہ ہی وہ اللہ و رسولؐ کی اتباع و اطاعت کے بغیر کسی چیز کو خاطر میں لاتے تھے۔
یہی وہ معیار ہے جس کی طرف اہلحدیث دعوت دیتے ہیں اور اللہ و رسولؐ کی اطاعت کو وہ تقلید شخصی پر غالب کرنا چاہتے ہیں، اس پر اہلحدیث علماء کی تصنیفات اور ان کی مساعی جمیلہ شاہد ہیں، نواب صدیق حسن خان ؒ نے اسی معیار کو سربلند کرنے کیلئے اپنی کتاب ’’الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ‘‘ تالیف کی، جس کا آغاز ہی وہ اہلحدیث کے ذکر ِخیر سے کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’محمدلاً للہ الذي جعل أہل الحدیث أھل النبیﷺ خالصۃ من دون الناس‘‘
یعنی ’’میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کے ساتھ اپنی کتاب کو شروع کرتا ہوں جس نے دوسرے لوگوں سے قطع نظر خاص کر اہلحدیث کو ہی اپنے نبی ﷺ کے پیروکار بنایا ہے‘‘ (الحطۃ: ص۱)
 
Top