کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
اہل تقلید:
قرآن مجید میں جو (فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَانْصِتُوْا) کا حکم ہے، اور حدیث میں:وَاِذَا قَرَئَ فَاَنْصِتُوْا‘‘ آیا ہے، ان کی وجہ سے غیر مقلدوں نے جو یہ تجویز کیا ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے ایک آیت پڑھتا چلے یا یہ تجویز کیا ہے کہ سورئہ فاتحہ کے بعد امام خاموش ہوجائے تاکہ اس سکتے میں مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لے، ان دونوں باتوں کا ثبوت صحیح صریح مرفوع حدیث سے دیں۔
اھلحدیث:
مقتدی کا امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا سکتوں کا محتاج نہیں ہے، امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا، ہر حال میں فرض ہے خواہ امام سکتے کرے یا نہ کرے، کیونکہ رسول ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
قرآن مجید میں جو (فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَانْصِتُوْا) کا حکم ہے، اور حدیث میں:وَاِذَا قَرَئَ فَاَنْصِتُوْا‘‘ آیا ہے، ان کی وجہ سے غیر مقلدوں نے جو یہ تجویز کیا ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے ایک آیت پڑھتا چلے یا یہ تجویز کیا ہے کہ سورئہ فاتحہ کے بعد امام خاموش ہوجائے تاکہ اس سکتے میں مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لے، ان دونوں باتوں کا ثبوت صحیح صریح مرفوع حدیث سے دیں۔
اھلحدیث:
مقتدی کا امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا سکتوں کا محتاج نہیں ہے، امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا، ہر حال میں فرض ہے خواہ امام سکتے کرے یا نہ کرے، کیونکہ رسول ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
رسو ل اللہﷺ کا یہ فرمان براہ راست مقتدیوں کے لیے ہے، اور اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ آج سے تقریباً چودہ سو سال پیچھے لوٹیں اور اس دور کو اپنے ذہن میں لائیں جبکہ رسول اللہﷺ مدینہ منورہ میں بنفس نفیس زندہ موجود تھے اور آپ خود امام ہونے کی حیثیت سے صدیق و فاروق، عثمان و علی جیسے بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو (جو سب کے سب آپ کے پیچھے آپ کی اِقتدا میں نمازیں ادا کرنے والے آپ کے مقتدی تھے) یہ حکم دے رہے تھے کہ تم میں سے کسی شخص کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوگی جب تک وہ اپنی نما زمیں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھے گا۔ غور فرمائیں، رسول اللہﷺ کا یہ فرمان امام ہونے کی صورت میں آپ سے صحابہ کرامؓ کے لئے صادر ہوا تھا جو اس دور میں آپ کے مقتدی تھے، لہٰذا مذکورہ بالاحدیث درحقیقت ہے ہی مقتدیوں کے لئے، اگرچہ اس کے عموم میں غیر مقتدی بھی داخل ہیں۔ بنابریں مقلدین حنفیہ کا اس حدیث کو امام یا اکیلے نمازی سے خاص سمجھنا ان کی تدبر ِحدیث سے محرومی کی دلیل ہے۔ اسی لئے تو امام احمد بن حنبلؒ فرما گئے ہیں:’’لاصلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب‘‘ (صحیح بخاری: ج۱ ،ص۱۰۴)
یعنی ’’ہر اس شخص کی نماز نہیںہوتی، جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا‘‘
ھؤلا أصحاب أبی حنیفۃ لیس لہم بصر بشییٔ من الحدیث، لیس لہم إلا الجراء ۃ
’’یعنی اصحاب ابو حنیفہ صرف ڈھٹائی کرتے ہیںورنہ حدیث کے متعلق انہیں کچھ بھی بصیرت حاصل نہیں ہے‘‘ (قیام اللیل للمروزی: ص ۱۲۴)