• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقلدوں کی حالت ِزار اور اُن سے چند گذارشات

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
قرآن مجید میں جو (فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَانْصِتُوْا) کا حکم ہے، اور حدیث میں:وَاِذَا قَرَئَ فَاَنْصِتُوْا‘‘ آیا ہے، ان کی وجہ سے غیر مقلدوں نے جو یہ تجویز کیا ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے ایک آیت پڑھتا چلے یا یہ تجویز کیا ہے کہ سورئہ فاتحہ کے بعد امام خاموش ہوجائے تاکہ اس سکتے میں مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لے، ان دونوں باتوں کا ثبوت صحیح صریح مرفوع حدیث سے دیں۔
اھلحدیث:
مقتدی کا امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا سکتوں کا محتاج نہیں ہے، امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا، ہر حال میں فرض ہے خواہ امام سکتے کرے یا نہ کرے، کیونکہ رسول ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’لاصلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب‘‘ (صحیح بخاری: ج۱ ،ص۱۰۴)
یعنی ’’ہر اس شخص کی نماز نہیںہوتی، جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا‘‘
رسو ل اللہﷺ کا یہ فرمان براہ راست مقتدیوں کے لیے ہے، اور اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ آج سے تقریباً چودہ سو سال پیچھے لوٹیں اور اس دور کو اپنے ذہن میں لائیں جبکہ رسول اللہﷺ مدینہ منورہ میں بنفس نفیس زندہ موجود تھے اور آپ خود امام ہونے کی حیثیت سے صدیق و فاروق، عثمان و علی جیسے بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو (جو سب کے سب آپ کے پیچھے آپ کی اِقتدا میں نمازیں ادا کرنے والے آپ کے مقتدی تھے) یہ حکم دے رہے تھے کہ تم میں سے کسی شخص کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوگی جب تک وہ اپنی نما زمیں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھے گا۔ غور فرمائیں، رسول اللہﷺ کا یہ فرمان امام ہونے کی صورت میں آپ سے صحابہ کرامؓ کے لئے صادر ہوا تھا جو اس دور میں آپ کے مقتدی تھے، لہٰذا مذکورہ بالاحدیث درحقیقت ہے ہی مقتدیوں کے لئے، اگرچہ اس کے عموم میں غیر مقتدی بھی داخل ہیں۔ بنابریں مقلدین حنفیہ کا اس حدیث کو امام یا اکیلے نمازی سے خاص سمجھنا ان کی تدبر ِحدیث سے محرومی کی دلیل ہے۔ اسی لئے تو امام احمد بن حنبلؒ فرما گئے ہیں:
ھؤلا أصحاب أبی حنیفۃ لیس لہم بصر بشییٔ من الحدیث، لیس لہم إلا الجراء ۃ
’’یعنی اصحاب ابو حنیفہ صرف ڈھٹائی کرتے ہیںورنہ حدیث کے متعلق انہیں کچھ بھی بصیرت حاصل نہیں ہے‘‘ (قیام اللیل للمروزی: ص ۱۲۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
امام تشہد میں دورد شریف اور دُعا سے فارغ ہوچکا، اور مقتدی ابھی فارغ نہیںہوا تو کیا مقتدی امام کے ساتھ سلام پھیر دے یا مذکورہ چیزیں ختم کرکے سلام پھیرے، جبکہ وہ مدرِک ہے اور شروع رکعت سے امام کے ساتھ شریک ہے جواب میں صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں؟
اھلحدیث:
امام کے ساتھ ہی سلام پھیرنے کی سوچ عالمانہ نہیں بلکہ صحیح، صریح مرفوع حدیث کے خلاف ہے کیونکہ حدیث نبوی کی روشنی میں مقتدی کو نماز کا ہر فعل امام کے بعد ادا کرنے کا حکم دیا گیاہے، لہٰذا مقتدی امام کے بعد سلام پھیرے گا، اور جبکہ وہ مدرِک ہے تو وہ تشہد، درود شریف اور دعا سے امام کے ساتھ ہی فارغ ہوجائے گا اور اگر بالفرض دعا رہ بھی جائے تو مقتدی اسے چھوڑ کر امام کے سلام کے بعد سلام پھیر دے گا، کیونکہ دعا اختیاری چیز ہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ثم یتخیر من الدعاء اعجبہ الیہ فیدعو‘‘ (صحیح البخاری مع فتح الباری: ج۲، ص۳۲۰)
یعنی ’’جو دعا کرنا اسے پسند ہے اسے کرنے کا نمازی کو اختیار ہے‘‘
بنا بریں دعا کرنا جب اختیاری عمل ہے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدی اسے چھوڑ کرسلام پھیر سکتا ہے، دعا کی وجہ سے سلام کو لیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
کسی صحیح صریح مرفوع حدیث سے ثابت کریں کہ حضرت رسولِ کریمﷺ نمازِ فجر میں قنوت بحیثیت ِجز نماز پڑھتے تھے۔ اوریہ قنوتِ نازلہ نہ تھی اور ثابت کریں کہ یہ قنوت ہمیشہ حضورِ اقدسﷺ نے آخری حیات تک رکوع کے بعد پڑھی ہے، جیسا کہ غیر مقلدوں کا عمل ہے اوریہ بھی ثابت کریں کہ آپ قنوت میں ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے تھے۔ صحیح بخاری :ج۱،ص ۱۳۶ میں یوں ہے اِنَّمَا قَنَتَ رسول اللہﷺ بعد الرکوع شہراً اس کو سامنے رکھ کر جواب دیں، نیز صفحہ مذکورہ پر مغرب میں قنوت پڑھنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے، کیا آپ اس کا بھی اہتمام کرتے ہیں؟
اھلحدیث:
مقلد نے یہ سوال شافعی مذہب کو سامنے رکھ کر کیا ہے، اور اسی کو اس نے اہل حدیث کا مذہب سمجھ لیا ہے، حالانکہ اہل حدیث قنوت کو بحیثیت ِجز نما زنہیں پڑھتے اور نہ ہی اس کا ساری عمر شوافع کی طرح التزام کرنے کے قائل ہیں بلکہ وہ اسے قنوتِ نازلہ ہی سمجھتے ہیں یعنی امت ِمسلمہ پر نازل ہونے والی کسی آفت و مصیبت پر ہی پڑھنے کے قائل ہیں۔ احناف کی طرح اسے ترک کرنے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ اگرچہ اہلحدیث کے نزدیک رکوع کے بعد قنوت پڑھنا اَفضل ہے کیونکہ رسول اللہﷺ سے صراحت کے ساتھ یہی ثابت ہے، جیساکہ اس سے متعلق حدیث سائل نے اپنے سوال میں ہی ذکرکردی ہے، لیکن رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا بھی جائز ہے کیونکہ یہ عمل بعض صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے
’’عن أنس بن مالک وقد سئل عن القنوت فی صلوٰۃ الصبح فقال کنا نقنت قبل الرکوع و بعدہ‘‘ (سنن ابن ماجہ، ج۱ ص۱۹۵)
’’حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ ان سے صبح کی نماز میں قنوت پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیاتو انہوں نے کہا کہ ہم رکوع سے پہلے بھی قنوت پڑھتے تھے اور اس کے بعد بھی‘‘
اور قنوتِ نازلہ میں ہاتھ اٹھانا بھی رسول اللہ سے ثابت ہے جیسا کہ سنن بیہقی میں ہے:
’’عن ثابت عن أنس بن مالک فی قصۃ القراء وقتلہم قال فقال لي أنس لقد رأیت رسول اللہﷺ کلما صلی الغداۃ رفع یدیہ یدعو علیہم یعنی علی الذین قتلوھم‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی:ج۲، ص۲۱۱)
یعنی’’ثابت سے مروی ہے اور وہ حضرت انسؓ سے بیان کرتے ہیں ، انہوں نے قراء قرآن کی شہادت کا واقعہ ذکر کیا، تو حضرت انسؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا: آپ جب فجر کی نماز ادا فرماتے تو دونوں ہاتھ اٹھا کر قراء کے قاتلوں پر بددعا کرتے تھے۔‘‘
مقلد کا سوال یہ بھی ہے کہ صحیح بخاری میں مغرب کی نماز میں قنوت پڑھنے کا ذکر آتا ہے کیا آپ اس کا بھی اہتمام کرتے ہیں تو جواباً عرض ہے کہ قرآن و سنت سے جو چیز بھی ہمارے لئے ثابت ہوجائے ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔ چونکہ احادیث ِمبارکہ سے مغرب کی نماز میں قنوت کا ذکر ملتا ہے، لہٰذا ہم نمازِ مغرب میں بھی قنوتِ نازلہ کے جواز کے قائل ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
صحیح، صریح مرفوع حدیث سے یہ ثابت کریں کہ مریض اور مسافر اگر جمعہ میں نہ آئے تو نمازِ جمعہ کی جگہ کون سی نماز پڑھے؟
اھلحدیث:
نمازِ جمعہ ظہر کی نماز کے قائم مقام ہے لہٰذا جس شخص کا کسی شرعی رخصت کی بنا پر جمعہ رہ جائے اسے اصل نمازِ ظہر ہی ادا کرنی چاہئے۔ مریض اورمسافر بھی اگر جمعہ کی نماز میں شامل نہ ہوں تو ظہر کی نماز پڑھیں گے، جیسا کہ ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں:
’’قال رسول اللہﷺ من أدرک من الجمعۃ رکعۃ فلیصل إلیہا أخری ومن فاتتہ الرکعتان فلیصل أربعا أوقال الظھر‘‘ (رواہ الدارقطنی، مشکوٰۃ:ج۱ ،ص۸۷۱)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کی نماز سے ایک رکعت پالے وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے (جمعہ پڑھے)۔ اورجس شخص کی دونوں رکعتیں رہ جائیں، وہ چار رکعات پڑھے یا فرمایا کہ وہ ظہر کی نماز پڑھے‘‘
اس حدیث ِپاک میں مَنْ الفاظِ عموم سے ہے لہٰذا یہ مریض اور مسافر جیسے اَفراد کو شامل ہے جو جمعہ کی دو رکعت نماز میں شامل نہیں ہوسکتے تو اس کی جگہ ظہر ادا کریں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
مفسداتِ صلوٰۃ (نماز توڑدینے والے امور)مرفوع صحیح اور صریح حدیث سے ثابت کریں، خصوصاًیہ بتائیں کہ نماز میں چلنا پھرنا اور کھانا پینا ممنوع نہیں ہے تو کس دلیل سے؟
اھلحدیث:
اس مختصر مضمون میں مفسداتِ صلوٰۃ کا اِحاطہ تومشکل ہے، اس کے لئے کتب ِحدیث میں مالا یجوز من العمل فی الصلوٰۃ‘‘ کے اَبواب دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہاں البتہ چلنا پھرنا اورکھانا پینا خارجِ صلوٰۃ جائز امور سے ہے لیکن نماز کی تکبیر (اللہ اکبر) کہنے سے یہ چیزیں ممنوع ہوجاتی ہیں جیساکہ حدیث ِنبویؐ ہے
: ’’عن أبی سعید قال قال رسول اللہﷺ مفتاح الصلوٰۃ الطہور وتحریمھا التکبیر وتحلیلہا التسلیم‘‘(ترمذی شریف، ج۱ ص۱۲۶)
حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’وضو نماز کی کنجی ہے اور مباح چیزوں کو حرام کرنے والی تکبیر (اللہ اکبر) کہنا اور (اثنائِ نماز) حرام چیزوں کو مباح کردینے والی چیز سلام پھیرنا ہے‘‘
اس حدیث کی روشنی میں نما زسے پہلے چلنا پھرنا، کھانا پینا جو حلال چیزیں تھیں، نماز شروع کرنے سے ممنوع قرار پائیں گی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
کسی حدیث مرفوع صحیح صریح سے پگڑی، ٹوپی کے ہوتے ہوئے بھی بالالتزام ننگے سر نماز پڑھنے کا ثبوت پیش کریں؟
اھلحدیث:
رسول اللہﷺ سے سرڈھانپ کر اور کبھی ننگے سر نماز پڑھنا ثابت ہے:
عن عمر بن أبی سلمۃ أنہ رأی النبیﷺ یصلّی فی ثوب واحد فی بیت أم سلمۃ قد ألقی طرفیہ علی عاتقیہ (صحیح بخاری: ج۱ ،ص۵۲)
یعنی ’’عمر بن ابی سلمہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو حضرت امّ سلمہؓ کے گھر میں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اس کپڑے کے دونوں کناروں کو اپنے کندھوں پر ڈالا ہوا تھا‘‘
’’عن محمد بن المنکدر قال صلّی جابر فی إزار قد عقدہ من قبل قفاہ وثیابہ موضوعۃ علی المشجب فقال لہ قائل: تصلی فی إزار واحد فقال إنما صنعت ذلک لیرانی أحمق مثلک وأینا کان لہ ثوبان علی عہد رسول اللہﷺ‘‘
’’محمد بن منکدر فرماتے ہیںکہ حضرت جابرؓ نے ایک ہی چادر میں نماز پڑھی جسے انہوں نے گردن کے پیچھے باندھا ہوا تھا، اور آپ نے باقی کپڑے تپائی پر رکھے ہوئے تھے۔ کسی آدمی نے ان سے کہا: آپ ایک ہی چادر میں نما زکیوں پڑھتے ہیں،(جبکہ دیگر کپڑے پاس رکھے ہوئے ہیں) فرمایا میں نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ مجھے آپ جیسا انجان دیکھ لے، آنحضرت کے وقت میںدو کپڑے کس کے پاس تھے؟؟‘ (صحیح بخاری، ج۱ ص۵۱)
ننگے سر نماز پڑھنے کو حرام یا مکروہ کہنا حنفی مقلدوں کا خود ساختہ مسئلہ ہے، جبکہ شرعی لحاظ سے اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ اگر ایساہوتا تو محرم کو سرننگا رکھنے یا اس کے لیے ننگے سر نماز پڑھنے کی اجازت نہ ہوتی، حالانکہ محرم کے لئے بعض حلال چیزیں بھی حرام ہوجاتی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
حالت ِاضطرار میں یا غیر اضطرار میں انسان کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں؟ جو صورت بھی اختیار کریں، اس کے لئے مرفوع صحیح اور صریح حدیث پیش کریں؟
اھلحدیث:
مجبور یا غیر مجبورکے لئے انسان کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے اوریہ تب ہی ہوسکتا ہے جبکہ اسے قتل کرنا حلال ہو، اورانسان کو قتل کرنا حرام ہے لہٰذا اس کا گو شت کھانا بھی حرام ہے۔ قرآنِ کریم میں قتل نفس سے منع کیا گیا ہے، ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
(وَلاَ تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا) (النساء :۲۹) ’’اور تم اپنی جانوںکو قتل مت کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
حدود جن میں شکار کرنا جائز نہیں اور حدودِ مزدلفہ اور حدودِ عرفات صحیح، صریح اورمرفوع حدیث سے ثابت کریں۔ یادرہے کہ ان مقامات کے حدود کے نشانات جولگے ہوئے ہیں وہ ترکی حکومت کے لگائے ہوئے ہیں جو حنفی تھے پھر سعودی حکومت نے ان کی تجدید کی ہے جو حنبلی تھے۔ مقلدین سارے کے سارے آپ کے نزدیک مشرک ہیں، مشرکوں کی لگائی ہوئی نشانیوں پر اعتماد کرنے کا آپ کے پاس کیا جواز ہے؟ یہی سوال جمعہ اوررمضان المبارک کے بارے میں ہے؟
اھلحدیث:
مقلد کی سوچ اُلٹی ہوتی ہے، اس لئے اس نے یہاں بھی اُلٹ کام ہی کیا ہے جبکہ حدودِ مزدلفہ و عرفات نیز جمعہ و رمضان المبارک کی تعیین کے بارے میں مقلدین نے اہلحدیث پر اعتماد کیا ہے، لیکن مقلد نے اُلٹی گنگا چلا دی اور کہا کہ غیر مقلدوں نے ان حدود کی تعیین میں اہل تقلید پر اعتماد کیاہے،حاشا وکلا … مقلد تو خود دوسروں کے سہارے پرجیتا ہے، وہ حدودِ حرم وغیرہ کی تعیین میں اہلحدیث کی کیا راہنمائی کرسکتا ہے۔ جبکہ شاہ ولی اللہ کے بقول تقلید چوتھی صدی میںشروع ہوئی ہے تو اس سے قبل سب مسلمان غیر مقلد اور(اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ) کی روشنی میں زندگی گزارنے والے تھے، تقلید کا نام و نشان نہیں تھا۔ خود ائمہ اربعہ غیر مقلد تھے، اس کے بعد تقلید ناسدید نے جنم لیا اور ایک سنہری اسلام کو کئی فرقوں میں بانٹ دیا۔بنابریں حدودِ حرم اورجمعہ و رمضان المبارک کی تعیین میں اہل تقلید نے اہلحدیث پر اعتماد کیا ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ تقلید کی وِلادت کے بعد اہل حدیث ناپید نہیںہوگئے تھے بلکہ یہ جماعت ہر دور میں موجود رہی ہے، جو اہل تقلید کے اِفراط و تفریط کی نشاندہی کرتی چلی آرہی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
یہ تو بتائیے کہ جیسے چاروں مذاہب کے مقلدین صدیوں سے آپس میں مل کر چلتے آئے ہیں ایک دوسرے کااحترام بھی کرتے ہیں اور اپنے اپنے مذہب کو راجح بھی بتاتے ہیں دوسرے کے مذہب کو مرجوح کہتے ہیں، غلط نہیں کہتے، کیونکہ دوسروں کے پاس بھی دلائل ہیں، آپ حضرات اپنے دعوے کے مطابق اگرچہ چاروں مذاہب سے الگ ہیں تو ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنے اختیار کردہ مسائل پر عمل کرتے رہیں۔ امام ابوحنیفہ اوراَحناف پرکیچڑ نہ اچھالیں؟
اھلحدیث:
پاکی ٔداماں کی حکایت کو اتنا دراز کرنے کی ضرورت نہیں ہے، چاروں مذاہب کے مقلدین کے آپس میں مل کر چلنے کی حقیقت اورایک دوسرے کے احترام کرنے کی اصلیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ کشمکش مقلدین کی کتابوں سے بھی آشکار ہے۔ اور خراسان میںشوافع اوراحناف کی باہمی معرکہ آرائیاں بھی اہل علم سے مخفی نہیں ہیں بلکہ موجودہ دور میں احناف کے ہی دو ٹکڑوں (دیوبندی اور بریلوی) کی آپس میں دست گریباں ہونے کی داستانیں آئے دن پڑھنے کوملتی رہتی ہیں۔ باقی رہی امام ابوحنیفہ کے خلاف کیچڑ اُچھالنے کی بات تو واضح رہے کہ امام صاحب کے خلاف کیچڑ اہلحدیث نے نہیں اُچھالا، بلکہ خود ان کے مقلدین نے ان کے خلاف ایسا کیچڑ اچھالا ہے کہ امام صاحب کا دامن اس سے پاک ہے۔
مثال کے طور پر ہم یہاں چند مسائل پیش کرتے ہیں جو مقلدین کی کتابوں یا ان کے فتوئوں میں موجود ہیں لیکن امام صاحب سے ان کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی ان پر کتاب و سنت سے کوئی دلیل دستیاب ہے۔ اوربعض تو ایسے اَخلاقیات سے گرے ہوئے ہیں کہ وہ عوام کو اسلام سے متنفر کرتے ہیں، ان میں چند مسائل آپ کے غوروفکر کے لئے لکھے جاتے ہیں:
نمبر1:
فقہ حنفی کی کتابوں میں موجود ہے:
’’الخروج من الصلوٰۃ بفعل المصلی فرض عند أبی حنیفۃ خلافا لہما حتی أن المصلی إذا حدث عمداً بعد ما قعد قدر التشھد أوتکلم أوعمل عملا ینافی الصلوٰۃ تمت صلوٰتہ بالا تفاق‘‘
یعنی’’ نمازی آخری التحیات میںتشہد کی بقدر بیٹھ کر کسی سے بات کرلے یا ایسا کام کرے جو نماز کے منافی ہو یا (سلام کی جگہ) قصداً جان بوجھ کر ہوا خارج کر دے تواس کی نماز بالاتفاق مکمل اور پوری ہوجائے گی۔( دیکھئے منیۃ المصلی، ص۸۴، شرح وقایہ ج۱ ص۱۵۹، کنز الدقائق، ص۳۰)
کیا حنفی فقاہت سے لبریز اس مسئلہ کو آپ صحیح، مرفوع حدیث سے ثابت کرسکتے ہیں؟؟
نمبر2:
’’والأصل فیہ أن النجاسۃ الغلیظۃ إذا کانت قدر الدرھم أودونہ فھو عفو لا تمنع جواز الصلوٰۃ عندنا و عند زفر والشافعي یمنع‘‘
’’اصل بات یہ ہے کہ نجاست غلیظ بقدر درہم یا اس سے کم ہو تو وہ معاف ہے۔ اس قدر نجاست نمازی کے جسم یا کپڑے پر لگی ہوئی ہو تو اَحناف کے نزدیک نماز ہوجاتی ہے۔ امام شافعی اسے ممنوع کہتے ہیں ‘‘ (دیکھئے منیۃ المصلی، ص۵۲)
کیا آپ نمازی کے لئے نجاست کی اس مقدار کی رخصت کو کتاب و سنت سے ثابت کرسکتے ہیں؟؟
نمبر3:
’’لورعف فکتب الفاتحۃ بالدم علی جہتہ وأنفہ جاز للاستشفاء وبالبول أیضا‘‘
یعنی ’’نکسیر کے علاج کے لئے اگر سورئہ فاتحہ خون یا پیشاب کے ساتھ مریض کی پیشانی اورا س کی ناک پرلکھ دی جائے تو حصولِ شفاء کے لئے ایسا کرنا جائز ہے‘‘ (ردّ المختار: ج۱، ص۱۴۰)
اسے صحیح، صریح، مرفوع غیر مجروح حدیث سے ثابت کریں۔؟؟
نمبر4:
رسول اللہﷺ کی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت کریں کہ آپ نے اپنے بعد آنے والے مسلمانوں کو چوتھی صدی میں کسی ایک عالم کی تقلید کی پابندی کا حکم دیا تھا۔
نمبر5:
صحیح، صریح، مرفوع غیر مجروح احادیث سے ثابت کریں کہ نماز کے فلاں اَجزاء فرض ، فلاں واجبات ، فلاں سنت اور دیگر مستحبات ہیں جیسا کہ کتب ِحنفیہ میں تقسیم کی جاتی ہے۔
نمبر6:
نماز شروع کرتے وقت آدمی کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک اور عورت سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد زیر ناف۔ یہ تفریق صحیح صریح، مرفوع، غیر مجروح حدیث سے پیش کریں۔
نمبر7:
نماز کی تکبیر تحریمہ سے قبل اُردو یا پنجابی میں زبان کے ساتھ نیت ِنماز کے الفاظ اَدا کرنا کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت فرمائیں۔
نمبر8:
اَحناف کے ہاں سجدۂ سہو میں ایک جانب سلام پھیر کر دو سجدے کرنا صحیح مرفوع غیر مجروح حدیث سے ثابت کریں۔
نمبر9:
صحیح صریح مرفوع غیر مجروح حدیث سے ثابت کریں کہ سجدہ کرتے وقت عورت اپنا پیٹ رانوں سے چپکالے اور زمین سے چمٹ کر سجدہ کرے، جبکہ مرد اپنا پیٹ رانوں سے دور رکھے۔
نمبر10:
اَحناف کا نماز باجماعت میں صف بندی کواہمیت نہ دینا اور نمازیوں کا آپس میں فاصلے چھوڑ کر کھڑے ہونا اور ایک دوسرے کے ساتھ پاوں ملانے سے نفرت کرنا صحیح، صریح، مرفوع غیر مجروح حدیث سے ثابت کردیں۔
تلک عشرۃ کاملۃ

××××۔۔ختم شد۔۔×××
 
Top