کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
کیا نواب صدیق حسن خاں نے اہلحدیث کی مذمت کی ہے؟
اس کے بعد نواب صاحب نے متعدد مقامات پر نظم اور نثر کے ذریعہ سے اہلحدیث کی فضیلت اُجاگر کی ہے جس کی تفصیل، طوالت سے بچنے کے لئے یہاں دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا،
اب ہم نواب صدیق حسنؒ کی کتاب ’’الحطۃ‘‘ کی وہ مفصل عبارت نقل کرتے ہیں جس کا ترجمہ ’’الفاروق‘‘ کے مضمون نگار نے، بزعم خویش اہلحدیث کے خلاف سمجھ کر اسے ان کی مذمت میں کتاب کا حوالہ دیئے بغیرنقل کیا ہے، تاکہ قارئین کرام کومعلوم ہوسکے کہ یہ اقتباس اہلحدیث کے خلاف نہیں بلکہ اسے نواب صاحب نے اہل تقلید کے خلاف ذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:لیکن بھلا ہو اس تقلیدی ذہن کا جس نے نواب صاحب اور ان کی اس کتاب کواہلحدیث کے خلاف استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا، اور اس کا ایک اقتباس حوالہ کی نشاندہی کئے بغیر غیر مقلدین کی مذمت میں پیش کردیا، حالانکہ وہ عبارت اہلحدیث کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ہی نواب صاحب جو مضمون نگار کے بقول خود بھی غیر مقلد تھے۔ غیر مقلدین کے خلاف ایسی کوئی بات لکھ سکتے تھے،
’’فقد نبتت فی ھذا الزمان فرقۃ ذات سمعۃ وریاء تدعی لأنفسہا علم الحدیث والقرآن والعمل بہما علی العلات فی کل شان مع أنہا لیست فی شییٔ من أھل العلم والعمل والعرفان لجہلہا عن العلوم الاٰلیۃ التی لابد منہا لطالب الحدیث في تکمیل ھذا الشان وبعدھا من الفنون العالیۃ التی لا مندوحۃ لسالک طریق السنۃ عنہا کالصرف والنحو واللغۃ والمعاني والبیان فضلا عن کمالات أخریٰ وإن تشبہوا بالعلماء و یظہروا فی زیّ أھل التقوی۔
نظم:
تصدر للتدریس کل مھوس بلید یسمی بالفقیہ المدرس
ولذلک تراھم یقتصرون منھا علی النقل ومبانیھا ولا یصرفون العنایۃ إلی فہم السنۃ وتدبر معانیھا ویظنون أن ذلک یکفیہم وھیہات بل المقصود من الحدیث فہمہ وتدبر معانیہ دون الاقتصار علی مبانیہ فالأول في الحدیث السماع ثم الحفظ ثم الفہم ثم العمل ثم النشر وھؤلاء قد اکتفوا بالسماع والنشر من دون ثبت وفہم وإن کان لا فائدۃ فی الاقتصار علیہ والاکتفاء بہ فالحدیث فی ھذا الزمان لقراء ۃ الصبیان دون أصحاب الایقان وھم فی غفلتہم یعمھون… وأما ھؤلاء الجہلۃ فجل تحدیثہم عبارۃ عن اختیار بعض المسائل المختلف فیہا بین المجتہدین والمحدثین فی باب الطاعات دون المعاملات الدائرۃ بینہم کل یوم علی العلات و تمام اتباعہم حکایۃ خلاف أہل الاجتہاد مع أہل الحدیث الواقع في العبادات دون الارتفاقات ومن ثم لا یھتدون إلی ما انتقدہ أھل الحدیث في الباب سبیلا ولا یعرفون من فقہ السنۃ فی المعاملات شیئا قلیلا وکذلک لا یقدرون علی استخراج مسئلۃ واستنباط حکم علی أسلوب السنن وأھلیہا… فیا للہ العجب من أین یسمّون أنفسہم الموحّدین المخلصین وغیرہم بالمشرکین المبتدعین وھم أشدالناس تعصّبا وغلوا في الدین قد انفقوا في غیر شییٔ نفائس الأوقات والانفاس واتعبوا أنفسہم وحیروا من خلفہم عن الناس…
آگے فرماتے ہیں:
وھذا الداء العضال إنما تولد من تعصّب العلماء والفقہاء بینہم و کثرۃ القیل والقال حتی عمّت بہ البلوٰی والجدال…
اس کے بعد تقلید کے خلاف لکھی جانے والی کتاب ’’إیقاظ الہمم‘‘ کی عبارت نقل کرتے ہیں، اور شاہ ولی اللہ ؒ کی ’الانصاف‘ کا اقتباس یوں ذکر کرتے ہیں:
قال صاحب الإنصاف ونشأت من بعدہم قرون علی التقلید الصرف لا یمیزون الحق من الباطل ولا الجدال من الاستنباط فالفقیہ یومئذ ھو الثرثار المتشدق الذي حفظ أقوال الفقہاء قوبہا وضعیفہا من غیر تمییز وسددھا بشقشقۃ شدقیہ والمحدث من عدّ الأحادیث صحیحہا وسقیمہا بقوۃ لحییہ ولا أقول ذلک مطردا کلیا وإن قلوا ولم یأت قرن بعد ذلک إلا وھو أکثرفتنۃ وأوفر تقلیدا وأشد انتزاعا للأ مانۃ من صدور الناس حتی اطمأنوا بترک الخوض فی الدین وبأن یقولوا (إِنَّا وَجَدْنَا اٰبَائَ نَا عَلٰی اُمّۃ وَإِنَّا عَلیٰ آثَارِھِمْ لَمُقْتَدُوْنَ) وإلٰی اللہ المشتکی(الحطّۃ: ص۱۵۲ تا ۱۵۷)
یعنی ’’اس زمانے میں ایک شہرت پسند اور رِیا کار فرقہ ظاہر ہوا ہے جو خامیوں کے باوجود اپنے لیے قرآن وحدیث کے علم اور اس پر عامل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے حالانکہ وہ اہل علم و عمل اور اہل معرفت میں سے نہیں ہے، کیونکہ وہ علومِ آلیہ سے جاہل ہے جن کی واقفیت طالب ِحدیث کے لئے اس فن کی تکمیل میں بہت ضروری ہے اوریہ فرقہ علومِ عالیہ سے بھی ناواقف ہے جن کے بغیر سنت پر چلنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مثلاً صرف، نحو، لغت، معانی، بیان، وغیرہ چہ جائیکہ وہ دوسرے کمالات کا حامل ہو۔ اور یہ لوگ علماء کی شکل و صورت اور اہل تقویٰ کے بھیس میں نمودار ہوتے ہیں،
شعر: ہر ہوس پرست احمق مسند ِتدریس سنبھال بیٹھا ہے، اس کا نام اُستاذ فقیہ رکھا جاتا ہے،
آپ دیکھیں گے کہ وہ نقل کرنے پر اور ابتدائی چیزوں پر اکتفا کرتے ہیں اور حدیث کو سمجھنے اور اس کے مفاہیم پر غور وفکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بس یہی کافی ہے جبکہ یہ حقیقت سے بہت دور ہے، حدیث پڑھنے کا مقصد تو یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے اور اس کے معانی پر غور کیا جائے، یہ تو نہیں کہ اس کے مبادیات پر ہی اکتفا کر بیٹھے۔
ان کے ہاں اِتباع سے مراد یہ ہے کہ عبادات کے بارے میں اہل اجتہاد کا جو اِختلاف اہل حدیث کے ساتھ ہے اسے نقل کردیا جائے۔ تدبیراتِ نافعہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، اسی وجہ سے یہ لوگ اہلحدیث کے نقد کے شدبد نہیں رکھتے اور نہ ہی انہیں معاملات کے بارے میں فقہ الحدیث سے کچھ واقفیت ہے، اور حدیث نیز اہلحدیث کے اُصول پرانہیں استنباطِ مسائل کی قدرت بھی حاصل نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو مخلص موحد کہتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو مشرک، بدعتی گردانتے ہیں،حدیث کا پہلا مرتبہ تو یہ ہے کہ اس کا سماع کرے پھر اسے حفظ کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، اس کے بعد اس کی نشرواشاعت کی جائے، مگر یہ لوگ اسے سننے اور اس کی نشرواشاعت پر ہی اکتفا کرکے بیٹھ گئے ہیں، اسے سمجھنے اور اس کی تحقیق کرنے کے لئے تیار نہیں، حالانکہ اس کے بغیر سماع اور نشرواشاعت کا کوئی فائدہ نہیں، اس دور میں تو حدیث بچوں کے پڑھنے کے لئے رہ گئی ہے اور اصحابِ یقین اپنی غفلت میں سرگرداں ہیں، لیکن یہ جاہل لوگ ان کی حدیث دانی صرف یہ ہے کہ یہ اُن مسائل کواچھالتے رہتے ہیں جو عبادات سے متعلق ہیں اورمجتہدین اور محدثین کے درمیان اِختلافی ہیں، ان معاملات سے انہیں کوئی سروکار نہیں جولوگوں سے متعلق ہیں،
آگے فرماتے ہیں: یہ لاعلاج مرض علماء اور فقہاء کے باہمی تعصب اور زیادہ لے دے سے پیدا ہوئی ہے حتیٰ کہ یہ مصیبت اور لڑائی جھگڑا عام ہوگیا۔‘‘ … اس کے بعدتقلید کے خلاف لکھی جانے والی کتاب ’’إیقاظ ھمم أولی الأبصار‘‘ کی عبارت نقل کی ہے، بعد ازیں شاہ ولی اللہؒ کی ’الانصاف‘ کا ایک اقتباس یوں نقل کرتے ہیں جومقلدوں کے خلاف ہے:حالانکہ یہ لوگ خود بڑے متعصب اور غالی قسم کے ہیں جو اپنے قیمتی وقت اور زندگی کو بے فائدہ صرف کر رہے ہیں، خود بھی مصیبت میں پڑتے ہیں اور اپنے پچھلوں کو بھی حیرت میں ڈالتے ہیں…
’’صاحب ِانصاف نے کہا ہے:
یہ وہ اقتباس ہے جس کا ترجمہ ماہنامہ ’الفاروق‘ نے ہاتھ کی صفائی سے اہلحدیث کے خلاف پیش کرنے کی جسارت کی ہے اورکتاب کا حوالہ دیئے بغیر نقل کیا ہے تاکہ کوئی شخص آسانی کے ساتھ اصل کتاب کی طرف مراجعت کرکے اصل حقیقت سے آگاہ نہ ہوسکے، اگرچہ ہم تمام اہلحدیث کے علم و عرفان کی بلندیوں سے ہمکنار ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے لیکن اس مذکورہ بالا اقتباس کی مختلف عبارتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہبعد ازیں ایسے اہل زمان آئے جن کی نشوونما خالص تقلید پر ہوئی جس کی وجہ سے وہ حق و باطل اور جدال و استنباط میں فرق نہیں کرسکتے، اس وقت فقیہ سے مراد وہ شخص لیا جاتاہے جو باچھیں کھول کر بک بک کرنا جانتا ہو اور اس نے بلا تمیز فقہاء کے صحیح اور ضعیف اقوال یاد کررکھے ہوں، اور منہ زوری سے انہیں درست بنالیا ہواور محدث سے مراد وہ شخص لیا جاتاہے جس نے صحیح وضعیف احادیث کو شمار کر لیا ہو۔میںیہ بات علیٰ وجہ العموم نہیں کہتا، اگرچہ وہ لوگ کم ہیں جو اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کے بعد جو زمانہ بھی آیا وہ پہلے سے بڑھ کر پر فتن اور تقلید میں اَٹا ہوا تھا، اور لوگوں کے دلوں سے اَمانت داری کو سلب کردینے والا تھا، نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ وہ دین میںغوروخوض کو چھوڑ کر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک دین پرپایا ہے اور ہم بھی انہی کے نشانات پر چلتے جائیں گے، وإلی اللہ المشتکی‘‘
اس کے بعد نواب صاحب کا الایقاظ اور الانصاف کی عبارتیں نقل کرنا بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اہل تقلید کی مذمت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ دونوں کتابیں تقلید شخصی کے ردّ میں لکھی گئی ہیںنوا ب صاحب نے اسے اہل حدیث کے خلاف نہیں بلکہ اہل تقلید کے خلاف نقل کیا ہے جوبزعم خویش فقیہ کہلاتے ہیں حالانکہ وہ استنباط اور مسائل کے استخراج پرقادر نہیں ہوتے ا ور اپنے لیے محدث اور مفسر ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں، جبکہ وہ فقہ الحدیث اور اہلحدیث کی تنقیدات سے نابلد ہوتے ہیں، اور نواب صاحب کا یہ کہنا کہ یہ لوگ حدیث کے سماع کو ہی کافی سمجھتے ہیں اور اس کے معانی و مفاہیم پرتوجہ نہیں دیتے، یہ جملہ بھی ان لوگوں پر ہی صادق آتا ہے جو سالہا سال تک فقہ حنفی کی کتابیں ہضم کرنے میں لگاتے ہیں اور دورۂ حدیث کے نام سے تمام کتب ِحدیث کا سماع ایک سال سے بھی کم عرصے میں کر گزرتے ہیں،
ایسے مقلدین کے بارے میں نواب صاحب نے اپنی کرب و بے چینی کا اظہار ان لفظوں سے کیا ہے:
’’والمقصود أن ھؤلاء القوم رؤیتہم قذاء العیون وشجی الحلوق وکرب النفوس وحمی الأرواح وغم الصدور ومرض القلوب أن أنصفتہم لم تقبل طبیعتہم الانصاف‘‘ (الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ :ص۱۵۵)
’’ مقصد یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کا دیکھنا آنکھوں کی چبھن، گلوں کی گھٹن، جانوں کے کرب اورروحوں کی مرض، سینوں کے غم اور دلوں کی بیماری کا باعث ہے اگر آپ ان سے انصاف کی بات کریں تو ان کی فطرت انصاف کی بات قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔‘‘