ایک اور سوال:
ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ ﺳﻮﺍﻝ۔۔ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ ﻟﻮﮒ ﺳﻨﺠﯿﺪﮦ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﮟ۔
ﺍﯾﮏ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﯾﭗ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺟﮭﭧ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﻠﮯ ﺭﯾﭗ ﺳﮯ ﻧﺎ ﺑﭽﺎ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﭘﺮ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺳﺮ ﺩﮬﮍ ﮐﯽ ﺑﺎﺯﯼ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﮞﮟ ﮔﮯ
ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮑﺎﺭﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺷﮯ ﺭﮒ ﺳﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﺑﺎﻟﻎ ﺗﻮ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎﻣﺮﺩ ﺭﯾﭗ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﺪﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﭽﮧ ﺑﭽﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﯾﭗ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ؟
ﺯﯾﻨﺐ ﺟﯿﺴﯽ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﯾﭗ ﮨﻮﺗﺎ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺭﯾﭗ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺳﺮﻣﺎﯾﺎ ﻟﭧ ﺟﺎﺋﮯ، ﮔﮭﺮ ﺑﺎﺭ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺑِﮏ ﺟﺎﺋﮯ ﺑﮭﻠﮯ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﭘﺮ ﺍﮔﺮ ﻋﺰﺕ ﻧﻔﺲ ﺑﭽﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﺮﺍ ﻟﮕﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﭘﺮ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮨﯽ ﻟﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﻠﮯ ﮔﮭﺮ ﺑﺎﺭ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮨﺮ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﮨﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﮭﭧ ﭘﮯ ﮨﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺳﮑﻮﻥ ﻭ ﺁﺭﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﻋﺰﺕ ﻧﻔﺲ ﮐﮯ ﻣﺠﺮﻭﺡ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﮯ ﺁﭖ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﻠﮓ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﮔﮯ؟
ﺍﺏ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻣﺮﺩ ﻭ ﺯﻥ ﯾﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﻘﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺟﯽ ﺁﺧﺮﺕ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﺑﺮﮮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﺍﺳﮯ ﺟﺰﺍ ﻭ ﺳﺰﺍ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔۔
ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮧ ﺑﭽﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺯﯾﻨﺐ ﮐﮯ ﺭﯾﭗ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﻣﻞ ﮔﺌﯽ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﻮ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﺍﺳﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺳﺰﺍ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺯﯾﻨﺐ ﺟﯿﺴﯽ ﺩﯾﮕﺮ ﺑﭽﮯ ﺑﭽﯿﺎﮞ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﯾﭗ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﻭﯾﺴﺎ ﺳﮑﻮﻥ ﭼﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺁﺭﺍﻡ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﯿﺴﺎ ﺭﯾﭗ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﮭﺎ؟ ﮐﯿﺎ ﺍﻥ ﺑﭽﻮﮞ ﯾﺎ ﺑﺎﻟﻎ ﻟﮍﮐﮯ ﻭ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﯾﭗ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﺠﺮﻡ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﺟﮭﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﺟﺎﺋﮯ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺍﻧﮑﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺳﮑﻮﻥ ﻣﻞ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﻮ ﺭﯾﭗ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﮏ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺳﻮﺍﻝ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﮨﺮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﭽﮧ ﺑﭽﯽ،ﺑﺎﻟﻎ ﻭ ﻧﺎﺑﺎﻟﻎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﯾﭗ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮯ ﺭﯾﭙﺴﭧ ﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺎﺗﺎ، ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﺠﺮﻡ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻭ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺰﺍ ﺩﮮ ﺑﮭﯽ ﺩﯼ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ؟ .
ﺭﯾﭗ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽﮯ،ﺑﺎﻟﻎ ﻭ ﻧﺎﺑﺎﻟﻎ، ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﺴﯽ ﻋﺰﺕ ﻧﻔﺲ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ، ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺭﯾﭗ ﻭﺍﻟﮯ ﻭﺍﻗﻊ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟ ﺟﯿﺴﮯ ﺭﯾﭗ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﮏ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻋﺰﺕ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ؟
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﻨﯽ ﻭ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺗﺴﻠﯽ ﺑﺨﺶ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺑﮩﺖ ﺷﮑﺮﯾﮧ۔
ﺁﭖ ﺍﻧﮑﻮ ﺑﮭﯽ Tag ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔
ﺷﮑﺮﯾﮧ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سوال کے جوابات:
اگر تو کوئی خدا کو مانتا ہی نہیں ہے تو اس کا سوال کرنا ہی نہیں بنتا۔ سوال تو وہ تب کرے جب وہ پہلے خدا کو مانے۔ جب اسکے عقیدے کے مطابق خدا ہے ہی نہیں تو وہ روکے گا کیوں؟ تو ٹیکنیکل الفاظ میں یہ سوال اپنے کانٹینٹ میں خدا کے وجود کو مستلزم ہے۔
یعنی سائل کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ سوال اس وقت کرے جبکہ خدا موجود ہو۔
اب جب سوال کے سوال بننے کی لازمی شرط یہ قرار پائی کہ خدا موجود ہو تو اس خدا کے نہ روکنے پر ہم معترض نہیں ہو سکتے کہ وہ خدا ہے اور خدا کو مان کر اس پر یہ اعتراض لاجیکل نہیں ہے۔
میں کھلونا بنا کر اس سے کھیلوں یا توڑ دوں، میں کھلونے کے آگے کسی صورت جوابدہ نہیں ہوں۔
ایک اور جواب:
ان سے پوچھا جائے آپ اتنے یقین سے کیسے کھ رھے ہیں کہ اللہ ایسے موقع پر مدد نہیں فرماتا ! لھذا آپ کا مقدمہ ھی غلط ھے جبکہ مشاہدات و تجربات شاھد ہیں کہ
1۔ جس کسی نے بھی اللہ پر یقین کرتے ھوئے اور کامل ایمان کیساتھ اللہ کسی بھی موقع پر اللہ کو پکارا ھے اللہ نے اس کی مدد کی ھے ۔۔
تو آپ کا یہ کھنا حقیقت سے دور ھے کہ اللہ ایسا نہیں کرتا !
جبکہ مشاہدات اس بات کی نفی کرتے ہیں ۔
ھاں اس بات کا جواب کہ جن مواقع پر اللہ مدد نہیں فرماتے یا ایسا فعل نہیں رکواتے تو اس بارے عرض ھے کہ اس کے کئی اسباب ھو سکتے ہیں۔
1۔ دعا کرنے والے کا دعا کی قبولیت پر ایمان کمزور ھونا ۔
2 ۔ دعا کرنے والے کا ایمان کمزور ھونا یا اللہ کے ھاں اسکا وہ مرتبہ نہ ھونا کہ جسکی وجہ سے اسکی دعا رد نہ کی جائے ۔۔جبکہ دنیا میں ایسے مستجاب الدعوات بھی پائے گئے ہیں اور موجود ہیں جن کے صرف ھاتھ اٹھانے کی دیر ھوتی ھے اللہ انکی دعا قبول فرما لیتے ہیں ۔۔۔لہذا اس فرق کو بھی سامنے رکھیں۔
3۔ دعا کی قبولیت کے سب اسباب موجود ھوں لیکن اللہ بندے کو اس سے بھتر چیز دینا چاھتا ھو جسے وہ ھی جانتا ھے اس لئے وہ وقتی طور پر دنیا میں اسے آزمائش میں مبتلا رکھ کر آخرت میں اسے عظیم اجر سے نوازتا ھے جس سے وہ آخرت میں دنیاوی ساری تکلیفیں بھول جائیگا۔
لہذا آپ کا یہ کھنا کہ دنیا میں وہ پریشان رہیگا یہ کیوں ھے
عرض ھے آپ کو کس نے اختیار دیا کہ پابندی لگائیں کہ ایسی آزمائش نہیں ھونی چاھیے؟ وہ اللہ اپنے افعال میں عادل ھے اسے خوب معلوم ھے کیا کرنا ھے اور کیا نہیں کرنا اور کس کی دعا قبول کرنی ھے اور کس کی نہیں کس کو مصیبت میں ڈالنا ھے کس کو نہیں
اور اس پر ایمان والے بھی اپنے رب کے فیصلوں اور اسکی اس تقسیم پر مکمل طور پر راضی ہیں کیونکہ انکا رب انکے ساتھ کبھی ظلم نہیں کرتا۔
ایک اور جواب:
اصل میں یہ سوال تکوینی اور تشریعی امور کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے- دنیا میں عموما اللہ کا یہ قانون نہیں ہے کہ وہ عام اسباب کو معطل کر دے اور لوگوں کو نقصانات سے محفوظ رکجے چناں چہ اگر کوئی غلطی سے زہر پی لے تو مر جائے گا- اسی طرح ظالموں کو پکڑنے اور ان کا احتساب کرنے کے لیے حیات بعد موت کا قانون ہے- دنیا میں بہ ہر حال آزادی عمل ہے اور مظلوموں کے لیے بھی اصل بدلہ اگلی دنیا میں ہے- یہاں کی آزمایشوں سے انھیں بھی واسطہ پڑے گا-
باقی یہ حوادث کائنات کا ایک بہت ہی چھوٹا سا جز ہیں اصل جہان کہیں بڑا ہے اور اسکی حکمتیں کہیں بالاتر ہیں۔
ایک اور جواب:
جب ان کے مطابق تخلیق کائنات محض ایک حادثہ ہے اور کوئی خالق کائنات نہیں تو ان کو کیا پریشانی ہے کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے اسے بھی حادثہ ہی سمجھیں اتفاق جانیں اور آگے دیکھیں اور جو ہوا بھول جائیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساری کائنات حادثے سے وجود پکڑی اور ایک کے پیچھے دوسرا حادثہ منتظر تھا اور ہر حادثہ کیا ہی خوب۔۔۔۔ کہ سورج کا۔۔۔۔۔۔ ستاروں کا۔۔۔۔۔ ہواؤں کو۔۔۔۔۔۔ پہاڑوں کو ۔۔۔۔۔ یہ کہ سب کچھ تو ایک بڑے طریقے سے محض اتفاقاً جگہ بنا گیا اور کہیں کوئی ممی واقع نہ ہوئی لیکن اس ریپسٹ کا عضو مخصوص کٹا ہوا ہونا چاہئے تھا تاکہ ایسا حادثہ نہ ہوتا یہاں نقص آ گیا۔۔۔۔۔۔ خیر جیسا کہ ہم نے کہا اس کو بھی اتفاق کہہ لیں حادثہ کہہ دیں لیکن دن کی روشنی میں موم بتی جلانے کی ضرورت نہیں۔
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿الملك: ٢﴾
ایک اور جواب:
"اگر خدا رحیم ہے تو مقتول کو قاتل سے بچاتا کیوں نہیں؟"
ملحد اکثر یہ سوال پوچھا کرتے ہیں۔ اس سوال میں کئی منطقی مغالطے ہیں۔ مثلا یہ کہ اس میں خود اپنی طرف سے "رحم" اور اس کے مضمرات کا ایک تصور قائم کرکے خدا سے اس کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس دنیا و مافیہ سے متعلق خدا کا ارادہ کیا ہے اور کیا نہیں، اس کا تعین کیا خدا کے نازل کردہ پیغام کی روشنی میں ہوگا یا پھر ہر شخص اس کا فیصلہ خود کرے گا؟ پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ خود اپنی طرف سے مقرر کردہ ایسے تقاضوں کی پابندی کرنا خدا پر کیوں کر لازم ہونی چاہئے کہ اگر خدا کسی کے فرمائشی پروگرام کے مطابق ظاہر نہ ہو تو خدا رحیم ہی نہیں؟
اینیمل پلانٹس وغیرہ پر جانوروں کے بارے میں دکھائی جانے والی موویز میں شیر و چیتے کو بھینسے و ھرن کا شکار کرتے دکھایا جاتا ہے۔ یہ موویز بنانے والے لوگ اس پورے عمل کو صرف پکچرائز کرتے ہیں لیکن بوجوہ چند اصولی بنیادوں پر جنگلی حیات کے کسی عمل میں مداخلت نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ دکھاتے ہیں کہ ایک شیر ہرن کے بچے کو لے گیا ہے اور اب اس کی ماں سخت پریشان ہے۔ کیا خیال ہے کہ وہ ہرن ان سب انسانوں کے بارے میں اگر یہ رائے رکھے کہ یہ سب "رحم" کے جذبے سے عاری ہیں تو کیا ہرن کا یہ خیال انسان کے بارے میں درست بیان ہوگا؟ کیا ہرن کا یہ خیال ہی انسانوں کے لئے بایں معنی رحم کا معیار بن جائے گا کہ اگر مووی بنانے والے اس کے بچے کو شیر کے پنجے سے آزاد نہیں کرواتے تو وہ رحم دل نہیں؟ کیا ہرن کے اس تصور سے ماوراء کوئی ایسا وسیع تر پلان ممکن نہیں جس کے اندر ہرن کے اس خیال کا جواب ممکن ہو؟