• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملحدین کی تردید میں متفرق تحریریں

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
السلام علیکم،
متفرق مقامات پر مختصر مگر عمدہ تحریریں ملیں، جن سے ملحدین کے افکار باطلہ کی تردید ہوتی ہے، سوچا انہیں یکجا کر لینا چاہئے۔ کسی اور بھائی یا بہن کو بھی اس موضوع پر مواد کہیں نظر آئے تو یہاں شامل کرسکتے ہیں۔

انسانی ذہن، حیاتیاتی دماغ اور ارتقاء
وہ لوگ جو ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ارتقا کسی خدائی منصوبہ کے بغیر خود سے ہوا ہوگا۔ یعنی ارتقاء کے انٹیلی جنٹ ڈائزائن کو بھی نہیں مانتے ان سے ایک سوال ہے۔

آیا انسانی ذہن اور شعور حیاتیاتی دماغ ہی ہے یا حیاتیاتی دماغ سے خارج میں کوئی چیز ہے؟ اگر حیاتیاتی دماغ سے باہر کسی چیز کو تسلیم کرلیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسان میں کوئی غیر مادی چیز ضرور ہے جس کی بنیاد پر آپ کو کہیں نہ کہیں جاکر انسانوں کے خالق کو ماننا ہی پڑے گا۔

اگر کوئی یہ مانے کہ انسانی شعور اور ذہن حیاتیاتی دماغ ہی ہے تو پھر یہاں پر ایک الجھن پیدا ہوجاتی ہے۔ اس طرح تو یہ ماننا پڑے گا کہ عقل، منطق، حسن، قبح، گنتی، حساب، استخراج، احساس، معانی، جذبے، صحیح، غلط، اخلاقیات سب کچھ غیر معروضی اور ضمنی ظاہرے(فنامنا) ہیں۔ اور یہ سب کچھ ارتقاء کے نتیجے میں ہی وجود میں آئے۔ ہم کو اس کائنات میں جو نظم اور پیٹرن نظر آتا ہے دراصل وہ ہے نہیں بلکہ ہمارا دماغ کچھ اس طرح سے ارتقاء پذیر ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمیں وہ پیٹرن لگ رہا ہے۔ تمام سائنسی نظریات اور نتائج ہمارے حیاتیاتی دماغ کی اختراع ہے جو کہ کسی مجبوری کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔

ہمیں جو چیز صحیح لگ رہی ہے وہ اس لئے لگ رہی ہے کیوں کہ ہمارے دماغ نے نشؤنما ہی ایسی پائی کہ وہ ہمیں صحیح لگے۔ ہمیں دو اور دو چار اس لئے لگ رہے ہیں کیوں کہ ہمارے دماغ کا ارتقاء اس طرح سے ہوا ہے کہ ہمیں ایسا لگے۔ ہمیں جو چیزیں منطقی اور معقول لگ رہی ہیں اس کا عقل اور منطق سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ عقل اور منطق سرے سے کوئی چیز نہیں ہے۔ نیچرل سیلیکشن اور تنازع للبقا کی نتیجے میں ہمارے دماغ نے ایسا محسوس کرنا شروع کیا۔

اگر ہمارا دماغ کسی اور طریقے سے ارتقاء پذیر ہوا ہوتا تو ہم یہ سب کچھ محسوس نہ کرتے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس کا بالکل الٹا محسوس کر رہے ہوتے اور منطقی طور پر سوچنا ہی ناقابل قبول قرار دیا جاتا۔ہوسکتا ہے کہ کائنات میں کہیں دور کوئی مخلوق کسی اور پیٹرن پر ارتقاء پذیر ہوئی ہو جس کی ذہانت، عقل، حسن، صحت سب کچھ یہاں سے مختلف ہو۔

اس صور ت میں اگر کوئی یہ کہے کہ سچ کہنا اچھا ہے، حیات وجودیت کے اعتبار سے موت سے اعلی ہے، بقا کی کوشش فطری ہے، باتوں میں تناقض نہیں ہونا چاہئے تو یہ سب باتیں اتفاقیات کے نتیجے میں آنے والی کوئی چیز ہے۔ ورنہ ان باتوں کی کوئی معروضی حقیقت نہیں ہونی چاہئے۔

اگر ایسا ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس عقل سے جو کہ قطعی طور پر غیر معروضی ہے خدا کا اثبات یا انکار کرنے پر کیوں مصر ہیں؟ جو انسانی حیاتیاتی دماغ سے باہر کسی انٹیلی جنس کو نہیں مانتا وہ یہ کیوں اس حیاتیاتی عقل سے ایک غیر بایولوجیکل وجود کی تصدیق کرنے یا تردید کرنے کا کی استعداد کا دعوی کرسکتا ہے؟

اب اس سے بھی ایک اوربڑی الجھن ہے۔ ہم نے ارتقاء کو بھی اسی غیر معروضی عقل سے سمجھا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کو یہ ارتقاء اتنا منطقی لگتا ہے وہ سچ مچ ہے بھی یا ایسے ہی ہمارا دماغ محسوس کر رہا ہے۔ انسانی حیاتیات سے باہر کسی انٹیلی جنس سے انکار کرنے کی صورت میں سب کچھ بے معنی ہوجاتاہے۔ ہمارے مشاہدات، ہماری سوچ ، ہمارے احساسات ، ہماری منطق ہر چیز کی عمارت ڈہ جاتی ہے۔

ارتقاء کو ماننے کی صورت میں ارتقاء کا غلط ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔

میں اپنے ذہن کو استعمال کر کے کہہ سکتا ہوں کہ عقیدہ ارتقاء میں ایک عقلی تناقض موجود ہے۔ اس لئے کسی بیرونی انٹیلی جنس کے بغیر ارتقاء کا عقیدہ سو فیصد غلط ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
٭٭٭قضا و قدر٭٭٭
تحریر: مزمل شیخ

تقدیر کیا ہے؟
اس سوال سے پہلے یہ طے کرنا چاہیے کہ انسان کہاں تک آزاد اور کس جگہ مجبور ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ انسان آزاد ارادہ رکھتا ہے تو اکثر لوگوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ انسان ہر طرح کے ارادے میں آزاد اور کسی بھی طرح مجبور نہیں ہے۔ اگر انسان کو مکمل طور پر آزاد مان لیا جائے تو تقدیر کا انکار ہوتا ہے۔ اور اگر بالکل مجبور مان لیا جائے تو آزادی سے کسی عمل کے اختیار کرنے پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے، جو سزا اور جزا کے سارے معاملے کو بے معنی کردیتا ہے۔ معتدل قول یہ ہے کہ انسان نہ مختارِ کُل ہے نہ مجبورِ مَحض۔ دیکھنا یہ ضروری ہے کہ انسان کہاں کہاں اختیار رکھتا ہے اور کہاں مجبور ہے۔

کچھ چیزیں انسان کے اختیار میں بالکل نہیں۔ مثلاً: اس کا رنگ و نسل، پیدائش کا وقت، موت کا وقت اور علی ہذا القیاس۔ یہاں انسان بالکل مجبور ہے اور وہ یہ کبھی بھی طے نہیں کر سکتا کہ اسے کب پیدا ہونا چاہیے، کس رنگ و نسل کا ہونا چاہیے وغیرہ۔ اکثر معاملات ایسے ہیں جہاں انسان کا اختیار ہے۔ جیسے کھانا، پینا، بھاگنا،دوڑنا، اچھلنا، کودنا، حرکت کرنا وغیرہ۔ یا جو بھی ایسی حرکات ہیں جو بالارادہ ہوں وہ انسان کے کافی حد تک اختیار میں ہوتی ہیں۔ یہاں کافی حد تک اختیار کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بعض حالات میں انسان کی حرکات کچھ ارادی اور کچھ غیر ارادی کا مرکب ہوتی ہیں۔، یا پھر ان دونوں کے درمیان ہوتی ہیں۔ اب چونکہ یہ موضوع بہت حساس ہے اس لیے میں زیادہ تفصیلی طور پر نہیں لیکن تقدیر کے حوالے سے ایک خاکہ بنانے کی کوشش کروں گا۔

تقدیر کائنات میں رونما ہونے والے مجموعی مظاہر، اور انسانوں کے مجموعی اکتساب کا اوسط نتیجہ ہے۔

جب ہم کہتے ہیں کہ اکتساب ہمارے کُلی اختیار میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں صرف کسب کا اختیار مکمل طور پر حاصل ہے۔ اور سزا وجزا کا معاملہ در اصل اسی کسب کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔ اس کسب کے نتیجے میں اگر شر وجود میں آئے گا تو سزا اور خیر کا حاصل جزا ہوگی۔

یہاں ایک بنیادی نکتہ یہ سمجھ لیجیے کہ کسب کا نتیجہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ جس خیر کے کام کے لیے کسب کیا جا رہا ہو وہ پوری زندگی کی محنت کے بعد بھی حاصل نہ ہو پائے۔ اور جس شر کے لیے کسب کیا جارہا ہو اس کا حصول بھی ممکن نہ ہو پائے۔ تاہم جو بھی نتیجہ اس کسب کے ذریعے نکلے گا اسی کے لائق حساب و کتاب ہوگا۔

اس کے بعد تقدیر کے کئی مدارج ہیں جس میں انسان اپنے گھر، خاندان، ماحول، محلہ، علاقہ، آب و ہوا، شہر اور ملک کے حساب سے مجبور ہوگا۔ مثلاً کچھ مجبوریاں گھریلو ہوتی ہیں جن کے خلاف انسان کسی خاص وقت میں کوئی خاص کام نہیں کر سکتا۔ (خاص وقت سے مراد یہ ہے کہ گھریلو حالات بدلنے پر ممکن ہے وہ کام ممکن ہوجائے)۔ اسی طرح بعض حدود خاندان اور کسی خاص رنگ و نسل میں پیدا ہونے کی وجہ سے، یا کسی خاص علاقے، شہر یا خطے میں رہنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ مثلاً کسی پورے علاقے کا حالتِ قحط میں ہونا، یا کسی ایک علاقے کا حالتِ غلامی میں ہونا۔ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت پر لاگو ہوتی ہیں۔ اور وہ ایک انسان کی جگہ سینکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی بیک وقت "مشترکہ تقدیر" ہوتی ہیں۔ مشترکہ تقدیر سے مراد یہ ہے کہ ان سب میں ہر کوئی اپنی اپنی حدود میں اپنی اس حالت میں مجبور بھی ہوتا ہے۔ اوراجتماعی طور پر ہر شخص اپنی اس حالت کا ذمہ دار بھی۔ اسی کو مزید آگے بڑھا لیجیے تو ایک تقدیر پوری دنیا کے انسانوں کے لیے بھی مشترک ہوسکتی ہے، جیس کرنسی اور سکّہ اس میں کوئی بھی خاص ملک یہ اختیار نہیں رکھتا کہ اپنے ملک سے کرنسی کا نظام ختم کردے۔ کیونکہ انسانیت نے اسے مجموعی طور پر قبول کرلیا ہے۔ اور اس فیصلے کی بنیاد پر کوئی انسان اگر اس معاشرے کا حصہ رہنا چاہتا ہے تو اسے اپنی تقدیر میں اس کرنسی کے نظام کو قبول کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر اسے انسانوں کے معاشرے سے علیحدگی اختیار کرنی پڑے گی۔ دراصل دنیاوی معاملات میں انسان کی جو جو معاشرتی مجبوریاں ہیں ان میں ہر کوئی ایک دوسرے کا مقروض اور سب آپس میں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ میں اکیلا جن حرکات کا مرتکب ہوتا ہوں اس کا اثر میرے آس پاس ایک وسیع رقبے پر بھی پڑ سکتا ہے۔ علت و معلول میں بندھی اس دنیا میں جہاں ہم سب کی انفرادی طور پر کوئی حیثیت نہیں وہیں جب ہماری انفرادی حرکات جمع ہو کر اجتماعی شکل اختیار کرتی ہیں تو اس سے ایک پورے حالات کا مجموعہ وجود میں آتا ہے جس میں ہر ایک شخص کا عمل گِنا جا رہا ہوتا ہے۔ اور وہ حالات ہر ایک کے کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔

کسب یا اکتساب کیا ہے؟
میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ کسب انسان کے اختیار میں ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ اختیار میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی حالات میں ایک ہی جیسے اسباب اور قابلیت رکھنے والے دو لوگوں کے مراتب مختلف ہوجاتے ہیں۔ زیادہ قابلیت والے لوگ پیچھے بھی رہ جاتے ہیں، کم قابلیت رکھنے والے نا اہل لوگ آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ ایک انسان سارا دن محنت کرکے بھی پانچ سو روپے کماتا ہے۔ اور دوسرا بغیر محنت کیے بھی پانچ ہزار روزانہ کما لیتا ہے۔ سب وسائل موجود ہونے کے باوجود کہیں چوری نہیں ہو پاتی۔ اور بعض اوقات ساری احتیاطی تدابیر کے بعد بھی چوری ہوجاتی ہے۔ در اصل اس کی تین وجوہات ہیں۔

پہلی: مناسب اسباب کا موجود ہونا
دوسری: صحیح وقت کا ہونا
تیسری: کسب کا حالات سے مطابقت میں ہونا

جب یہ تین چیزیں جمع ہوجائیں تو جو بھی کسی نتیجے کے کسب میں اس وقت مصروفِ عمل ہوگا اور اس کا کسب حالات سے مطابقت میں ہوگا، اسی کے ہاتھوں وہ کام سرزد ہوجائے گا۔ اگر کسی جگہ چوری ہونی ہے تو جو بھی انسان مناسب اسباب کی موجودگی میں صحیح وقت پر درست تدبیر کے ساتھ چوری کی جگہ پر پہنچ جائے گا اسی کے ہاتھوں چوری ہوجائے گی۔

حصولِ نتائج کے مزید چار مدارج ہیں:
پہلا: جس میں انسان کسی چیز کی خواہش کرے اور اسے مطلوب حاصل ہوجائے۔
دوسرا: جس میں انسان مناسب کسب کی صورت میں مطلوب حاصل کر لے۔
تیسرا: جس میں انسان بہت مشقت اور سخت محنت کرکے مطلوب حاصل کرے۔
چوتھا: تمام محنت و مشقت اور ہر تدبیر کے باوجود مطلوب حاصل نہ ہوسکے۔

یہاں تک آتے آتے ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ کسب کا اختیار انسان رکھتا ہے۔
نتیجہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوسکتا۔
تقدیرمیں نتیجے طے کیے جاتے ہیں، کسب کی صورت طے نہیں ہوتی۔

اب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر خدا کی ذات غیب اور ماضی، مستقبل اور حال سب کا علم رکھتی ہے تو پھر انسان کو اختیار کیسا؟ پوچھنے والوں کا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اگر خدا ہمارے مستقبل کے بارے میں پہلے ہی ہر چیز سے آگاہ ہے تو انسان کی آزاد مرضی (Free will) کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ اس سے جبر لازم آتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر خدا کے علم میں ہے کہ میں اگلے گھنٹے چوری کرنے والا ہوں تو مجھ پر یہ لازم ہے کہ میں چوری کروں، کیونکہ میرے پاس اور کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ اور اگر میں چوری نہیں کرتا تو خدا کے علم میں نقص یا عیب ثابت ہوگا۔ حالانکہ اس کے علم کا بے عیب ہونا بھی مانا جا چکا ہے۔ تو اب میرے لیے بجز چوری کے، اور کوئی دوسری صورت باقی نہیں ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر انسان مجبور محض ہے تو پھر سزا اور جزا کا کوئی سلسلہ کیوں رکھا گیا ہے؟

میں اپنی پچھلی تفصیلی پوسٹ، جو علتِ اولی کے حوالے سے تھی، عرض کر چکا ہوں کہ ان اعتراضات کی حیثیت در اصل فلاسفہ کے درمیان اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ یہ فلسفیانہ اعتراضات ہیں۔ جو در اصل یہ حل نکالنے کے لیے کیے جاتے ہیں کہ آیا کوئی ایسی ہستی ممکن بھی ہے جو ہر چیز کا کلی علم رکھتی ہو، اور بے عیب ہو۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ کسب پر انسان اختیار رکھتا ہے۔ اور سزا و جزا کا سارا معاملہ اسی کسب سے وجود میں آتا ہے کہ اس کے ذریعے نتیجہ شر کی صورت میں نکلتا ہے یا خیر کی۔ تاہم خدا کی ذات چونکہ عالمِ غیب ہے اس لیے وہ ہر ایک چیز کی طرف نظر رکھتی ہے۔ اور وہ جانتی ہے کہ کون کس وقت کیا کر رہا ہے۔ یہاں یہ سمجھ لیجیے کہ عالمِ غیب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا مستقبل کا علم رکھتا ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ خدا ہر اس چیز کا علم رکھتا ہے جس کا کا ہم سے پردہ ہے۔ یہ پردہ وسائل کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے، زمانے کی شکل میں بھی اور اسباب کی شکل میں بھی۔ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں ہم ان چار جہات (تین جہاتِ مکان جمع وقت بطور چوتھی جہت) میں قید رہتے ہوئے نہ تو سمجھ سکتے ہیں نہ ان تک ہمارا درست قیاس پہنچ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ میں کسی بھی واقعے کی تقدیم و تاخیر کے اوراسی وجہ سے علت و معلول کے پابند ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جو میں "کل" کرنے والا ہوں وہ خدا تعالی کی ذات "آج" ہی جانتی ہے اس لیے مجھ پر جبر لازم آیا، وہ یا تو ناواقف ہیں یا بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالی کی ذات کا زمانے سے بالا تر ہونا لازم ہے۔ اس لیے خدا کے لیے نہ کوئی کل ہے نہ آج ہے۔ بلکہ وہ ایسے مقام پر موجود ہے جہاں طبیعات کےسارے قوانین ٹوٹ کر ختم ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً گزشتہ کل اور آنے والا کل، یا گزشتہ سال اور صدی اور آنے والے سال اور صدی کسی معنی کے حامل نہیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم کشادگئ زمان (Time Dilation) تھیوری سے تھوڑی مدد لے سکتے ہیں، جس کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایک جگہ پر جو عرصہ پچاس سال کے برابر ہو دوسری کے لیے وہی عرصہ صرف بیس سال کے برابر ہو۔ تو مدعا یہ ہے کہ ہم زمانے کی قید سے آزاد ہو کر سوچ نہیں سکتے۔ اور خدا کے لیے زمانہ خود ایک تخلیق ہے جو اسے قید نہیں رکھتی۔ اس صورت میں علت و معلول، تقدیم و تاخیر، پہلے اور بعد، آج اور کل کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور جب ان کی کوئی حیثیت نہیں تو ممکن ہے کہ ہمارے آج اور کل، ہمارا جینا اور مرنا وغیرہ یا پہلے سے آخری انسان تک پوری انسانیت کی ابتدا اور انتہا اور سورج اور دوسرے ستاروں کا بجھ جانا، کائنات کا بننا اور تباہ ہوجانا، سب کچھ بیک وقت ہی خدا کی ذات کے سامنے رونما ہورہا ہے۔ ایسے میں ہماراکسبِ آئندہ خدا کی نظر کے سامنے تو ہے لیکن اس کے جبر کا پابند نہیں بلکہ اسکی مشیت کی وجہ سے آزاد ہے۔

آخری بات جس پر میں گفتگو کا اختتام کرتا ہوں وہ یہ کہ الہیات میں ہر چیز کی منطقی توجیہہ اگر ممکن نہ بھی ہو تو یہ اس کے غلط ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ کیونکہ ہم جس مطابقت کی دنیا میں رہ کر یہ مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ تمام قوانین وہاں لائقِ اطلاق نہیں ہوتے جس کی بنیاد پر ہم الجھتے اور سلجھتے رہتے ہیں۔ یہی بات منطقی تضادات کی وجہ بنتی ہے اور غلط استدلال تک لے جاتی ہے۔ اس حوالے سے اپنی تحریر "علتِ اولی کی بحث" میں تفصیلی بات کرچکا ہوں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
( ابتدائی انسان کی تخلیق کی نوعیت کیا تھی ؟ )


" یہ بات کہ انسان کبھی تہذیب سے بالکل عاری اور اپنی حالت میں پوری طرح حیوانات کی سطح پر تھا ، محض ایک مفروضہ ھے جو اس دوسرے مفروضے پر قائم کیا گیا ھے کہ انسان حیوانات سے ترقی کرتا ہوا حالتِ انسانی کو پہنچا ھے ۔ اِس وقت تک کے مشاہدات میں کوئی چیز ان دونوں مفروضوں کی تائید کرنے والی ، تائید اس معنی میں کہ انہیں ثابت کر دے ، نہیں ملی ھے ۔ اس کے برعکس قدیم ترین آثار میں بھی جہاں کہیں انسان ( نہ کہ کوئی خیالی مفقود حلقہ Missing Link ) ملا ھے ، وہیں تہذیب کے بھی نشانات ملے ہیں چاہے وہ کیسے ہی ابتدائی مرحلے کے ہوں ۔ خالص غیر مہذب و غیر تمدّن انسان مثلِ حیوان ، اب تک کہیں نہیں پایا گیا ھے ۔ جن کو آپ غیر متمدن ( Savage ) کہتے ہیں ، اُن میں اور حیوانی زندگی کی برتر صورتوں میں اگر واقعی تقابل کیا جائے تو ایسے بنیادی فرق پائے جائیں گے کہ حیوان کی کسی اونچی سے اونچی قِسم کو انسان کی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ وحشیانہ حالت سے بھی کوئی نسبت نہ ھو گی ۔

یہ دراصل ارتقاء خولیا ھے جس کی وجہ سے کچھ سطحی تشابہات کو انسان و حیوان میں مماثلت کی بنیاد بنایا جاتا ھے ۔ بالکل ابتدائی حالت میں بھی چند چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور انسان اور حیوان میں فرق کر دیتی ہیں ۔ مثلًا حیاء ، جس کا اظہار اعضائے جنسی کو چھپانے اور مباشرت میں اِخفاء سے کام لینے کی صورت میں ہوتا ھے ۔
الفاظ اور اشارات کی شکل میں اظہارِ خیال جو حیوانات کی آوازوں سے بالکل بنیادی طور پر مختلف ہوتا ھے ۔
قوّتِ ایجاد جو حیوانات کی جبلّت کے تحت لگی بندھی صنعتوں سے کلیتًہ اپنی نوعیت میں بالکل ایک مختلف چیز ھے ۔
ارادی اور غیر ارادی افعال میں فرق کرنا اور ارادی افعال پر اخلاقی احکام لگانا جو حیوانات کی کسی بڑی سے بڑی ترقی یافتہ شکل میں بھی موجود نہیں ھے ۔
مذہبی حِس جو حیوانات میں مفقود ھے مگر انسانوں کا کوئی گروہ انتہائی وحشت کی حالت میں بھی اس سے خالی نہیں پایا گیا ھے ۔ "

( سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔ رسائل و مسائل چہارم )
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ذاتی عقل ، علمی عقل

2 مارچ 2009 کو نئی دہلی کے انٹرنیشنل سنٹر (لودهی روڈ) میں ایک سیمنار هوا - اس سیمنار میں جدید تعلیم یافتہ افراد شریک هوئے - اس کا موضوع آزادی اظہار رائے تها - اس موضوع کے تحت ، اس سیمنار میں حسب ذیل سوال پر مزاکره هوا :
Is Quran subject to Rational Scrutiny ?
سیمنار کی دعوت پر راقم الحروف نے بهی اس میں شرکت کی - میں نے دیکها کہ کانفرنس کے تمام شرکاء پرجوش طور پر اس نظریے کی وکالت کر رہے ہیں کہ قرآن کوئی منزه عن الخطاء کتاب (infallible book) نہیں ہے - هم کو یہ حق هونا چاہئے کہ هم اپنی عقل کو استعمال کرتے هوئے قرآن پر فکری تنقید کر سکیں -

اس مزاکره اور اس قسم کے دوسرے مزاکروں میں شرکت کے بعد میرا احساس یہ ہے کہ لوگ عقل (reason) کا لفظ تو بولتے ہیں ، لیکن لوگوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ عقل کے حدود کیا ہیں اور عقل کے استعمال سے کیا مراد ہے - اصل یہ ہے کہ عقل کے استعمال کے دو صورتیں ہیں - ایک ہے ، ذاتی عقل (personal reason) کے تحت بولنا - اور دوسرا ہے ، علمی طور پر ثابت شده حقائق کی روشنی میں عقل کا استعمال کرنا - علمی اعتبار سے ذاتی عقل کی کوئی اہمیت نہیں ، عقل کا صرف وہی استعمال درست ہے جو ثابت شده حقائق کی بنیاد پر کیا گیا هو -

مزکوره سیمنار میں ، میں نے یہ بات کہی تو وہاں کوئی شخص اس کو رد نہ کر سکا - تاہم ایک صاحب نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی عقل سے کوئی رائے بنائے تو اس کی قدر و قیمت کیا ہے -میں نے کہا کہ محض ذاتی عقل کی بنیاد پر جو رائے قائم کی جائے ، وه دوسروں کے لئے ناقابل قبول هو گی - کسی شخص کی ذاتی رائے دوسروں کے لئے اسی وقت قابل قبول هو سکتی ہے جب کہ وه ثابت کرے کہ اس کی رائے مسلمہ علمی بنیاد پر قائم ہے -

قرآن کی صداقت


میرے تجربے کے مطابق ، قرآن کے ذیل میں ریشنل اسکروٹنی کا لفظ ایک غیر متعلق (irrelevant) لفظ ہے قرآن کے ذیل میں زیاده صحیح بات یہ ہے کہ اس کے لئے ریشنل اسٹڈی (rational study) کا لفظ استعمال کیا جائے - قرآن نے اس معاملے میں مطالعے کا جو اصول مقرر کیا ہے ، وه بلاشبہہ ایک علمی اصول ہے -

اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے : یعنی اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے هوتا تو وه اس کے اندر بڑا اختلاف پاتے (4:82)-

اس آیت کے مطابق ، قرآن کی صداقت (veracity) کو جاننے کا معیار یہ ہے کہ قرآن کے بیانات کو علمی مسلمات (scientific facts) سے تقابل کر کے دیکها جائے - اگر دونوں میں کوئی ٹکراو نہ هو تو وه اس بات کا ثبوت هو گا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی صداقت عقلی معیار پر ثابت هو رہی ہے - یہی قرآن کے عقلی مطالعے کا واحد طریقہ ہے -

قرآن کے بیان کا ایک حصہ وه ہے جس میں زمین و آسمان ، یعنی فزیکل ورلڈ کے بارے میں کچهہ بیانات دئے گئے - یہ موضوع ، قرآن اور سائنس کے درمیان مشترک ہے - قرآن پر عقلی غور و فکر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکها جائے کہ مشترک موضوعات میں قرآن نے جو حوالے دئے ہیں ، وه سائنس کے مسلمات سے مطابقت رکهتے ہیں یا اس سے ٹکرا رہے ہیں - راقم الحروف نے اس حیثیت سے تفصیلی مطالعہ کیا ہے - میں نے اپنی دوسری کتابوں (مذہب اور جدید چیلنج ، عقلیات اسلام ، وغیره) میں مثالوں کے ذریعہ یہ واضح کیا ہے کہ ان مشترک موضوعات میں قرآن کے بیان اور سائنس کے بیان میں کوئی ٹکراو نہیں -

یہ واقعہ قرآن کی صداقت (veracity) کا ایک عقلی ثبوت ہے - مشترک موضوعات میں قرآن کے بیان کے درست هونے سے هم کو یہ قرینہ (probability) ملتا ہے کہ هم یہ قیاس کر سکیں کہ غیر مشترک موضوعات میں بهی قرآن کے بیانات درست ہیں - اس طریق استدلال کو سائنس میں معقول (valid) قرار دیا گیا ہے اور اس کو استدلال بذریعہ احتمال (argument from probability) کہا جاتا ہے ، یعنی معلوم دنیا کے بارے میں قرآن کے بیانات کے درست ثابت هونے سے یہ قرینہ ملتا ہے کہ غیر معلوم دنیا کے بارے میں بهی قرآن کے بیانات احتمالی طور پر (probably) درست ہیں - اس اصول استدلال کے بارے میں مذید معلومات کے لیے حسب ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں -
Science and the Unseen World by Arthur Eddington
Human Knowledge by Bertrand Russell.

الرسالہ ، ستمبر 2014
مولانا وحیدالدین خان
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
نیچر ( Nature ) کہاں سے آئی ؟

کائنات کے معلوم طول و عرض اور اس میں جاری نظامِ ارتقاء پر عمیق غور سے صاحبِ فکر و نظر اسکا ذمہ دار 'نیچر' (Nature) کو قرار دیتے ہیں، جب یہ پوچھا جائے کہ نیچر کیا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ نظام ہے جو اس کائنات میں مروج ہے ۔ جب یہ سوال کیا جائے کہ جہاں نظام ہو وہاں منتظم کا ہونا بھی منطقی ہے ؟ تو جواب یہ ہوتا ہے کہ نیچر کو کوئی منتظم نہیں چلا رہا بلکہ یہ ایک خود کار عمل ہے کہہ کر پتلی گلی سے جان چھڑا کر نکل جاتے ہیں ۔نیچر کسی بھی عنصر کی بنیادی صلاحیت و رویہ کو کہا جاتا ہے، اسی طرح ہر کائناتی مجموعہ کی بھی ایک خاص نیچر ہوتی ہے ۔ جس سوال کا سامنے کرنے سے بچنے کیلئے کائنات کے نظام (چاہے اسکو بد نظمی کا نام دیں یا نیچرل سیلیکشن کا) کو نیچر کی کارستانی کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے، وہی سوال پھر منہ چڑانے لگتا ہے، بھائ عناصر کائنات کی نیچر کہاں سے آئی، کیسے پیدا ہوئی، اسکی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے ؟احسن سبیل
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
خدا کو کس نے پیدا کیا؟ ایک بچگانہ سوال!


پہلی بات تو یہ ہے کہ سوال بذات خود اپنے اندر استحالہ عقلی لیئے ہوئے ہے اور اپنی تردید آپ Self Destruction کا ایک مظہر ہے۔ وہ یوں کہ اس طرح کا سوال تو خدا کے بارے میں کیا جارہا ہے۔ لیکن خدا کی اصل صفت کہ وہ خالق اول ہے اور اس کا کوئی خالق نہیں ہوسکتا۔ اس میں سے ہٹا دی گئی۔ اب ظاہر ہے کہ یہ سوال کہ خدا کو کس نے پیدا کیا۔ خدا کے بارے میں نہیں، خالق اول اور علت اولی کے بارے میں نہیں بلکہ غیر خدا، غیر خالق اول یا مخلوق کے بارے میں کیا جارہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر استحالہ عقل ہے کہ خدا بھی ہو اور مخلوق بھی خالق بھی ہو اور اسے کسی نے پیدا بھی کیا ہو۔ یہ جملہ کہ " خدا کو کس نے پیدا کیا "، اپنے اندر خود اپنی تردید لییئے ہوئے ہے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ میں کسی سیف براق کپڑے کی طرف اشارہ کرکے یہ کہوں ۔" یہ سیاہ رنگ کا کپڑا کتنا خوبصورت ہے۔ یہ سیاہ رنگ کہاں سے کروایا؟

سننے والا یہی کہے گا کہ میاں اپنی نظر ٹھیک کراوؤ، یہ کپڑا سیاہ نہیں بلکہ سفید ہے سیاہی کی صفت اس سفید و براق کپڑے میں تم نے خواہ مخواہ شامل کردی ہے۔ اور اس کی اصل صفت کہ وہ سفید ہے، تم نے ہٹا دی ہے۔ غالباً تم اس کپڑے کی نہیں، کسی اور کپڑے کی بات کررہے ہو۔
(گویا سننے والا سیاہ رنگ کہاں سے کروایا کا جواب نہیں دے سکتا جب تک صفت کی وضاحت نہ کر دے، اس وضاحت یا درستگی کے بعد بھی سوال اگر درست ہے تو اس کا جواب دیا جا سکتا ہے)

یا اس کی مثال یُوں ہے کہ میں کتابوں کی دکان پر جاکر کتابوں کی طرف اشارہ کرکے یہ پوچھوں کہ " یہ کوئلے کیا بھاؤ ہیں۔"
اب ظاہر ہے میں نے کتاب پن کی صفت ہٹا کر " کوئلہ پن " کی صفت شامل کردی ہے اور میرا سوال اپنی جگہ پر بے محل ہے کیونکہ ایک ہی چیز بیک وقت کتاب اور کوئلہ نہیں ہوسکتی۔

بالکل اسی طرح ایک ہی ہستی بیک وقت خدا اور مخلوق نہیں ہوسکتی۔ خدا کے بارے میں یہ سوال کرنا کہ ' اسے کس نے پیدا کیا۔ خدا میں سے خالق اول کی صفت ہٹا کر۔ اسے مخلوق قرار دینے کے مترادف ہے۔ اب یہ سوال کہ " خدا کو کس نے پیدا کیا خدا کے بارے میں نہیں بلکہ فی الحقیقت مخلوق کے بارے میں کیا جارہا ہے۔

اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے ۔ کہ آپ اپنی میز پر ایک کتاب رکھتے ہیں اور اس کے بعد کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اس کمرے میں لوٹ کے آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کتاب میز پر موجود نہں ہے۔ بلکہ میز کی دراز میں رکھی ہوئی ہے۔ آپ کو لازماً یہ یقین آجائے گا کہ اس کمرے میں ضرور کوئی شخص آیا جس نے کتاب کو میز سے اُٹھا کر دراز میں رکھ دی اہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپ جانتے ہیں کہ کتاب کی صفت ہے کہ وہ اپنی جگہ سے خود حرکت نہیں کرسکتی۔ اب آئیے آگے بڑھتے ہیں۔ فرض کیجیئے آپ کے کمرے میں ایک صاحب کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کچھ دیر کے بعد آپ کمرے میں دوبارہ آئے تو وہ بستر پر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی اس نقل مکانی پر آپ کو کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ اور نہ یہ خیال آئے گا کہ ضرور کوئی اور شخص اس کمرے میں آیا ہے جس نے پہلے شخص کو کُرسی سے اٹھا کر بستر پر بٹھا دیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ اچھی طرح سے اس شخص کی اس صفت کو جانتے ہیں کہ وہ از خود کرسی سے بستر پر منتقل ہوسکتا ہے۔ اور اس عمل کے لیے اسے کسی اور کی حاجت نہیں ہے۔

اب دوسرے نقطے کو بھی ذہن میں رکھئے اور ہمارے ساتھ ذرا اور آگے بڑھئیے۔

ہم جانتے ہیں کہ مادی کائنات کی حقیقت اس کتاب سے ملتی جلتی ہے جو نہ خود حرکت کرسکتی ہے اورنہ اپنے آپ کو پیدا یا فنا کرسکتی ہے۔ اس کی تخلیق تنظیم، ترتیب اور بقا کیلئے خالق کا ہونا ضروری ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک کتاب یا کسی مادی شے یا پوری مادی کائنات کی یہ صفت ہے کہ وہ از خود نہ حرکت کرسکتی ہے نہ عملِ تخلیق تو طے ہوا کہ اس کائنات کا وجود خالق و باری تعالی کے بغیر تصور میں نہیں لایا جاسکتا۔

خدا کا وجود مان لینے کے بعد فوراً خدا کی صفات کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ خدائے تعالی کی صفتِ کمال یہ ہے کہ وہ سب کا خالق ہے اور اسے کسی نے پیدا نہیں کیا۔ وہ از خود موجود ہے اور اپنے وجود کیلئے کسی کا محتاج نہیں ہے جب یہ اس کی بنیادی صفت ٹھری کہ کوئی اس کا خالق نہیں ہوسکتا تو یہ سوال اپنی جگہ پر انتہائی لغو ہے کہ " اسے کس نے پیدا کیا "
ہم نے دیکھا کہ ایک انسان میں۔۔ کرسی پر منتقل ہوکر۔۔۔ بستر پر جا بیٹھنے کی صفت موجود ہے تو ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہوا کہ اس شخص کو کرسی سے بستر پر کس نے منتقل کیا۔ پھر جب خدا کی صفت اصلی یہ ہے کہ کسی کا پیدا کردہ نہیں تو یہ سوال بھی ہمارے زہن میں نہیں پیدا ہونا چاہیئے کہ " خدا کو کس نے پیدا کیا ؟"
تحریر: ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ
کاتب:ابو عبداللہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
خدا کی موجودگی ------کا احساس لینا ہو تو کبھی کسی چھوٹی سی دنیا کی خدائی کر کے دیکھیں.

میں نے گھر میں چھوٹا سا مچھلی گھر (اقواریم ) بنایا. اسمیں پودے لگائے تاکہ وہ آکسیجن پیدا کریں جسکو مچھلیاں استمال کر سکیں. مزید براں پودے مچھلیوں کا فضلہ استمال کر لیں اور اقواریم کا ماحول صاف ستھرا رہے. پھر اسمیں روشنی کا اہتمام کیا تاکہ پودے اپنی خوراک بنا سکیں. پھر اسمیں ایک فلٹر لگایا تاکہ پانی متحرک رہے اور مچھلیوں کو آکسیجن باہم پہونچتی رہے اور یوں ایک چھوٹی سی دنیا آباد کر ڈالی.


پھر ہوا کچھ یوں کے مرے پودے کچھ مرجھا سے گۓ تو میں مچھلی والی دکان پر گیا کہ یہ کیا ماجرہ ہے تو دو کان دار جو مسلمان نہیں تھا بولاآپکا اقواریم ایک دنیا ہے اور یوں سمجھیں کہ آپ اسکے خدا. دنیا میں موجود ایک ایک چیز کا خیال رکھنا اور اسکی ذمہ داری آپکی ہے. اگر آپ یہ ذمہ داری پوری کریں گے تو یہ دنیا چلے گی ورنہ نہیں چلے گی .

یہ کچھ کیمیکلز ہیں جو آبی پودوں کو درکار ہیں یہ انکو مہیا کر دیں تو وہ ہرے بھرے ہو جائیں گے.

اسکی یہ بات سن کر دل سے بےساختہ نکلہ کہ مرشد کیا کہنے کیا بات کر ڈالی اپنے . یعنی ٦٠ لیٹر کا اقوارہم چلانا اتنا اوکھا کام ہے اور اتنا توجہ طلب ہے کہ خود بخود چلنا ممکن نہیں تو اتنی بڑی کائنات کیونکر بغیر کسی سپرویزن اور ریگولیشن کے چل سکتی ہے ؟


کوئی تو ہے جو ہماری دنیا کے پودوں کو ضروری کیمکل مناسب مقدار میں دے رہا ہے. کوئی تو ہے جسنے سورج جیسا بڑا بلب جلایا ہوا ہے تاکہ پودے خوراک بنا سکیں . کوئی تو ہے جو سمندروں کے پانیوں کو گھماتا پھراتا ہے تاکہ مچھلیاں سانس لے سکیں ....!


وہی خدا ہے......------ماخوذ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
زندگی اور موت


کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیف تکفرون با للہ و کنتم امواتاً فاحیاکم ، ثمہ یمیتکم ، ثمہ یحیکم ، مہ الیہ ترجعون ۔

ملحدین اس ایت کے سلسلے حیات پر کامل ایمان رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ٓاحیاکم ثمہ یمیتکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو انکھوں دیکھا حال ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔ کنتم امواتا ۔۔۔۔۔۔ سے بھی چاہیں تو انکار نہیں کر سکتے ، مگر ثمہ یحیکم سے انکاری ہیں ۔

اک بلکل واضح حقیقت کہ تم نہیں تھے یعنی مردہ تھے پھرزندہ کئے گئے ،اور پھر تم زندہ کو موت دے کر دوبارہ روز حشر زندہ کیا جائےگا ۔

حیرت ہے کہ پہلی موت کے بعد اس ،، زندگی ،، اور پھر موت پر ایمان مگر اخری حصہ ،، ثمہ یحیکم ،، سے انکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ تو ایت کے پہلے حصے تین اجزا سے انکار کے لئے کوئی عقلی دلیل اور نہ ہی اخری حصے سے انکار کے لئے کوئی ثبوت ۔۔۔۔۔۔۔۔

الیکٹرون ، پروٹون ، نیوٹرون کو مانتے ہیں مگر نیوکلیس کے گرد ان کو رقصاں کرنے والی قوت و توانئی سے منکر ہیں ۔

اگ ، ہوا ، مٹی پر تو ایمان رکھتے ہیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل شئی حی من الما ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے قوت نمود سے انکاری ہیں ۔

زمین و اسمان میں پھیلی ساری مادی اشیا کے سامنے سر تسلیم خم ہے ، مگر اس لا متناہی کائینات کی کشش ثقل کے خالق و مالک سے کفر برتتے ہیں ۔

۔۔۔۔ یہ کائینات جس منظم قانون کے تحت رواں دواں ہے ، اس کا کسی خالق کن فیکون کے بغیر ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا

رفیق سینائی ً
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ملا جی۔۔۔۔۔۔۔!!جی بھائی۔۔۔۔۔۔!ایک سوال پوچھنا ہے مگر ڈر لگتا ہے کہ آپ کوئی فتوی ہی نہ لگا دیں۔پوچھو پوچھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! سوال پوچھنے پر کوئی فتوی نہیں۔یہ بتائیں کہ اسلام مرد کو طلاق کا حق دیتا ہے، عورت کو کیوں نہیں دیتا۔۔۔۔؟؟کیا عورت انسان نہیں؟ کیا اس کے حقوق نہیں؟یہ کیا بات ہے کہ مرد تو جب جی چاہے عورت کو دوحرف کہہ کر فارغ کردے اور عورت ساری زندگی اس کے ظلم کی چکی میں پسنے کے باوجود بھی اپنی جان بخشی نہ کراسکے۔۔۔؟ کیا یہ ظلم نہیں؟؟؟؟؟تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں، مگر پہلے تم مجھے ایک بات بتاؤ۔۔۔۔۔!!جی ملا جی۔۔۔۔۔۔۔۔!!یہ بتاؤ کہ تم ایک بس میں کہیں جانے کے لئے سوار ہوئے، بس والے کو کرایہ دیا، ٹکٹ لی، سیٹ پر بیٹھے، سفر شروع ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بس والا تمہیں منزل پر پہنچنے سے پہلے کہیں راستے میں، کسی جنگل، کسی ویرانے میں اتارنے کا حق رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟بالکل نہیں۔ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اب یہ بتاؤ کہ اگر تم راستے میں کہیں اترنا چاہو تو تمہیں اس کا حق حاصل ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟بالکل ہے، میں جہاں چاہوں اتر سکتا ہوں۔وجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟وجہ یہ ملا جی کہ وہ مجھ سے کرایہ لے چکا ہے، لہذا منزل سے پہلے کہیں نہیں اتار سکتا، اور مین جہاں چاہوں اتر سکتا ہوں، وہ مجھے نہیں روک سکتا، اس لئے کہ اس کا کام کرائے کے ساتھ تھا جو وہ مجھ سے لے چکا ہے۔بالکل ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اب ایک اور بات بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!تم ایک مزدور کو لے کر آئے ایک دن کے کام کے لئے، اس نے کام شروع کیا، اینٹیں بھگوئیں، سیمنٹ بنایا، دیوار شروع کی، اور آٹھ دس اینٹیں لگا کر کام چھوڑ کر گھر کو چل دیا، تمہارا رد عمل کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟میں اسے پکڑ لوں گا، نہیں جانے دوں گا، کام پورا کرے گا تو اسے چھٹی ملے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!اور اگر تم اسے کام کے درمیان میں فارغ کرنا چاہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟مجھے اس کی اجرت دینی ہوگی، اجرت دینے کے بعد میں اسے کسی بھی وقت فارغ کرسکتا ہوں۔اگر وہ کہے کہ میں اجرت لینے کے باوجود نہین جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟وہ ایسا نہیں کرسکتا، میں اسے لات مار کر نکال دوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔!!بالکل ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اب اپنے سوال کا جواب سنو۔۔۔۔۔۔۔۔!!دنیا میں جس قدر بھی معاملات ہوتے ہیں، ان میں ایک فریق رقم خرچ کرنے والا ہوتا ہے تو دوسرا اس پیسے کے بدلے میں خدمت کرنے والا۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کا اصول یہ ہے کہ ہمیشہ پیسہ خرچ کرنے والے کا اختیار دوسرے سے زیادہ ہوتا ہے، کوئی معاملہ طے ہونے کے وقت تو دونوں فریقوں کی رضا ضروری ہے، لیکن معاملہ طے ہوجانے کے بعد اس کے انجام تک پہنچنے سے پہلے، رقم خرچ کرنے والا فرد تو واجبات کی ادائگی کے بعد خدمت کرنے والے کو فارغ کرسکتا ہے، مگر خدمت فراہم کرنے والا کام فریق درمیان میں چھوڑ کر خرچ کرنے والے کو فارغ نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔!!اگر رقم کے بدلے میں خدمت فراہم کرنے والے فریق کو کسی بھی وقت پیسہ خرچ کرنے والے کو فارغ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو مزدور دوپہر کو ہی کام چھوڑ کر گھر چلے جائیں، ملازم عین ڈیوٹی کے درمیان غائب ہوجائیں، مالک مکان مہینے کے درمیان ہی کرائے دار کو گھر سے نکال دیں، درزی آپ کا سوٹ آدھا سلا اور آدھا کٹا ہوا آپ کے حوالے کرکے باقی کام کرنے سے انکار کردے، نائی آپ کے آدھے سر کی ٹنڈ کرکے آپ کو دوکان سے باہر نکال دے، دنیا کا سب نظام تلپٹ ہوجائے۔ کچھ سمجھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ہاں ہاں ملا جی سمجھ رہا ہوں، مگر میں تو وہ طلاق والی بات۔۔۔۔۔۔۔!!وہی سمجھا رہا ہوں۔اب سن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! ایک مرد اور ایک عورت میں جب نکاح کا پاکیزہ، محبت، پیار اور اعتماد والا رشتہ ہوتا ہے تو یہ کوئی کاروباری یا جزوقتی معاملہ نہیں ہوتا، یہ دلوں کا سودا، اور ساری زندگی کا سودا ہے، مگر اس میں بھی اسلام ہمیں کچھ اصول اور ضوابط دیتا ہے۔اس معاملے اور معاہدے میں ایک فریق مرد ہے، اسلام اس کے اوپر اس کی بیوی کا سارا خرچ، کھانا پینا، رہن سہن، علاج معالجہ، کپڑا زیور، لین دین، اور زندگی کی ہر ضرورت کا بوجھ ڈالتا ہے، اب اس عورت کی ساری زندگی کی ہر ذمہ داری اس مرد پر ہے، یہی اس کی حفاظت اور عزت کا ذمہ دار ہے، یہی اس کی ہر ضرورت کا مسئول ہے، یہاں تک کہ اس عورت کے مرنے کے بعد اس کے کفن دفن کا بندوبست بھی اسی مرد کو کرنا ہے، اور مرد کے مرنے کی صورت میں اس مرد کی بہت سی وراثت بھی اسی عورت کو ملنی ہے۔ان دونوں میاں بیوی سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ یوں تو دونوں ہی کے ہیں، مگر اسلام ان بچوں کی مکمل مالی ذمہ داری بھی صرف اور صرف مرد پر ڈالتا ہے، ان بچوں کی رہائش، کھانا پینا، کپڑے، علاج معالجہ، تعلیم اور کھیل کے تمام مالی اخراجات بھی مرد اور صرف مرد کے ذمہ ہیں۔ اسلام عورت کو ان تمام ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آزاد رکھتا ہے۔ان سب ذمہ داریوں سے پہلے، عقد نکاح کے وقت ہی مرد نے مہر کے عنوان سے ایک بھاری رقم بھی عورت کو ادا کرنی ہے۔ان سب کے علاوہ اسلام مرد کو اس کی بیوی کے بارے میں حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے، وہ اسے "من قتل دون عرضه فهو شهيد" کی خوش خبری سنا کر اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کے لئے جان تک دے دینے کی ترغیب دیتا ہے، اور "حتي اللقمة ترفعها الي في امرأتك" کہ کر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے پر بھی ثواب کی نوید سناتا ہے، وہ اسے "اتقوا الله في النساء" کہہ کر بیوی کو تنگ کرنے، ستانے، بلا وجہ مارنے، دھمکانے اور پریشان کرنے پر اللہ کی ناراضگی اور عذاب کی وعید سناتا ہے تو "خيركم خيركم لاهله وانا خيركم لاهلي" کہ کر گھر والوں کو محبت، پیار، سکون دینے، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اور انہیں جائز حد میں رہ کر خوش رکھنے پر اللہ کی رضا کی نوید سناتا اور ایسے لوگوں کو بہترین انسان قرار دیتا ہے۔مرد پر اس قدر ذمہ داریاں عائد کرنے کے بعد وہ بیوی پر اپنے شوہر کی خدمت، اطاعت، اس کے ساتھ وفا داری، اس کے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔اب سنو۔۔۔۔۔۔۔۔!!مرد اور عورت کے اس معاہدے میں عورت کی ساری زندگی کی ہر مالی ذمہ داری مرد پر ہے، تو تم خود بتاؤ کہ طلاق کا حق ان دونوں میں سے کس کے پاس ہونا چاہئے؟ویسے ہونا تو مرد کے پاس ہی چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے اگر عورت کو بھی یہ حق دے دیا جائے تو آخر اس میں حرج کیا ہے؟حرج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟بھئی فرض کرو تم نے ایک خوبصورت عورت کا رشتہ پسند کیا، رشتہ بھیجا، بات چلی، رشتہ طے ہوگیا، انہوں نے ایک لاکھ مہر کا مطالبہ کیا، تم نے منظور کیا، نکاح ہوگیا، تم نے جونہی مہر اس کے حوالے کیا، اس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔"میں تمہیں طلاق دینی ہوں، طلاق طلاق۔۔"۔۔۔ اور شام کو کسی اور سے شادی کرلی، اس سے مہر وصول کرکے تیسرے، پھر چوتھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تمہارے دل پر کیا بیتے گی مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟اوہ ملا جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! آپ نے تو میرے ہوش اڑا دئیے، یہ تو بہت خوفناک بات ہے۔صرف یہی نہیں مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اس سے آگے چلو، اب جو مرد کھلے دل سے بیوی پر اپنا مال جان دل سب کچھ لٹاتا ہے، اس کے نخرے اٹھاتا ہے، صرف اس لئے کہ وہ اسے ہمیشہ کے لئے اپنی سمجھتا ہے۔۔۔۔ اگر اس کے دل میں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ یہ کسی بھی وقت اسے لات مار کر کسی دوسرے آشیانے کو روانہ ہوسکتی ہے، تو وہ اسے گندم کا ایک دانہ بھی دیتے وقت سو مرتبہ سوچے گا، اور صرف اس مرد کی نہیں بلکہ اس عورت کی زندگی بھی ہمیشہ کے لئے جہنم بن جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!سمجھ گیا سمجھ گیا۔۔۔۔۔۔!! انتہائی خوفناک۔۔۔۔۔!! بہت ہی خطرناک سچوئشن۔۔۔۔!!مگر ایک بات ملا جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! کہ کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے، اور اب تو بہت سے گھرانوں میں ہورہا ہے، کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ نہ تو انصاف کرتا ہے، اور نہ اس کی جان چھوڑتا ہے۔ اس صورت میں کیا کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟آہ کیا دل دکھانے والا سوال پوچھ لیا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔!کیوں ملا جی۔۔۔۔۔؟؟ اس میں دل دکھانے والی کیا بات ہے۔۔؟دیکھو مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!ان تمام مسائل کا حل اور مکمل حل اسلامی نطام ہے، وہی اسلامی نظام جس کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے تم جیسے لوگ ساڑھے چوبیس گھنٹے پھرتیاں دکھاتے رہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!اگر مکمل طور پر اسلامی نظام قائم ہو ہر طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے فرامین کی عزت، اہمیت اور بالادستی ہو تو ایک طرف تو سب لوگوں میں اللہ کا خوف، تقوی، نیکی کے شوق اور برائی سے دوری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر سطح پر ظلم، زیادتی اور گناہ کو روکنے کے لئے وہ کردار ادا کرنی ہیں جو پولیس، فوج اور عدالت بھی نہیں کرسکتی۔مگر افسوس کہ تم لوگ پوری توانائی اسی خوف خدا اور دینداری کو ملیامیٹ کرنے پر صرف کرتے ہو، اپنے آشیانے کو خود آگ لگاتے ہو اور پھر اسے بجھانے کے لئے دوڑے دوڑے ہمارے پاس آتے ہو، اپنے بچوں کو اللہ، رسول، قرآن، دین اسلام کا سبق دینے کی بجائے فلموں اور ڈراموں کا سبق دیتے ہو اور جب وہ اس سبق پر عمل کرتے ہوئے تمہیں جوتے لگاتے ہیں تو روتے روتے ہمارے پاس آکر تعویذوں کی درخواست کرتے ہو۔سن میرے مسٹر بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!اگر مکمل طور پر صحیح معنوں میں اسلامی نظام نافذ ہو تو اول تو ایسے واقعات پیش آئیں گے نہیں، اگر اکا دکا ایسا ہو بھی جائے تو بیوی فورا اسلامی عدالت میں جاکر قاضی کو شوہر کی زیادتی کی شکایت کرے گی اور قاضی سالوں تک اس مقدمے کو لٹکانے یا وکیلوں کے ہاتھوں اس کی کھال اتروانے کے بجائے دونوں کا مؤقف سن کر فوری طور پر عورت کو اس کے شوہر سے اس کا حق دلوائے گا، اگر شوہر کسی صورت اس کا حق نہیں دیتا، یا دینے پر قادر ہی نہیں ہے، تو اس سے عورت کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا جائے گا اور اگر وہ طلاق بھی نہیں دیتا، تو عدالت اسے جیل میں بند کردے گی، تھانے جائے گا، پولیس والوں کے چھتر کھائے گا، تنہائی اور بے بسی کا مزہ چکھے گا تو خود ہی دوسرے کی بے بسی کا احساس پیدا ہوگا، ورنہ جب تک اس کی بیوی عذاب میں رہے گی، وہ بھی اسی دائمی عذاب میں مبتلا رہے گا۔(مرکزی خیال شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے مکتوبات کے مجموعے "مکتوبات شیخ الاسلام" کے ایک مکتوب سے ماخوذ: احسن خدامی)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
بہن بھائی کی آپس میں شادی کے عدم جواز پر عقلی دلائل کا مطالبہ اور ملحدین کی پھرتیاں
ملحد لوگ ہر بات میں ہم سے عقلی دلیل طلب کرتے ہیں ، ان سے صرف ایک عقلی سوال کیا گیا کہ بہن بھائی کی شادی میں اتنے عقلی فائدے ہیں، ذرا اس کی ممانعت کے عقلی دلائل دے دیں ؟ مگر یہ لوگ درمیان میں اخلاقیات کو گھسیڑ دیتے ہیں دوسری طرف یہی لوگ قرآن کے اخلاقیات کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ۔ ان عقلیت پسندوں کے یہاں دو kits لگی ہوئی ہیں پیٹرول والی بھی اور سی این جی والی ۔ جہاں پھنستے ہیں وہاں اخلاق والا سوئچ آن کر لیتے ہیں ورنہ عقلی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ بہن بھائی کی شادی کی ممانعت کا اسی شدت سے عقلی جواز فراہم کریں جس شدت خالق کا انکار کا جوازدیتے نظر آتے ہیں۔

ملاحدہ کے چند دلائل کا جائزہ:
1. بہن یا ماں کے ساتھ بدکاری کے خلاف ملحد حضرات عموما یہ عقلی توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ سائنسی تحقیق کے مطابق اس عمل سے پیدا ہونے والے بچے معذور ہونے کا خدشہ بہت زیادہ ہوتا ہے وغیرہ لہذا یہ عمل عقلی طور پر بھی قبیح ہوا۔ مگر اس دلیل میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں معذور بچے پیدا نہ ہونے کو ایک احسن شے کے طور پر بطور مفرضہ قبول کرلیا گیا ہے (اور ظاہر ہے اس کی الگ سے دلیل چاہئے) ، اگر مانع حمل تدابیر اختیار کر لی جائیں تو اس دلیل کی رو سے ایسی بدکاری میں پھر کوئی قباحت نہ رہے گی،الغرض عقل سے حسن و قبح کا حتمی تعین کرنا ناممکن ہے۔
2. ایک یہ دلیل دی جاتی ہے کہ والدین اور معاشرہ کے لوگ ناراض ہوتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ ایسا اس وجہ سے محسوس ہورہا ہے کیونکہ پیشگی طور پر ایک ایسا معاشرہ فرض کیا جارہا ہے جہاں بہن بھائی کی بدکاری کو برا تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر ایک ایسے معاشرے کا تصور کیا جائے جہاں یہ فعل عام ہو اور سب اسے نارمل تصور کرتےہوں تو اس زنا سے والدین کے پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہمارے معاشرے میں باپ اپنی بیٹی کے بوائے فرینڈ کے ساتھ گھومنے پھرنے سے پریشان ہوتا ہے مگر یورپی معاشروں میں نہیں ہوتا۔ویسے جو خدا سے نہیں ڈرتے وہ معاشرے سے ڈرتے ہوئے اچھے نہیں لگتے، یہ تو سیدھی سیدھی منافقت ہوئی ! دوسروں کو تو دن رات اللہ کے خلاف بغاوت پر اکسانا اور خود معاشرے سے ڈر جانا ؟؟؟؟ انہیں تو شادی کرنی چاہئے کیونکہ عقل کی ہر دلیل اس کی طرف مائل ہے ۔ ہمیں طعن کرتے ہیں کہ ہم سماجی پابندیوں میں جکڑ کر جبر کے تحت خدا بنائے بیٹھے ہیں خود سماجی جبر کے تحت ایسی کوئی شادی نہیں کرتے !
3. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم تو کسی طور بہن بھائی کی شادی جائز نہیں مانتے لیکن مذہبی لوگ مانتے ہیں کہ آدم و حوا کی اولاد آپس میں شادیاں کرتی تھی۔ حقیقت میں ایسی باتیں صرف اصل سوال کو گول کرنے کیلئے کی جاتی ہیں یہ بہن بھائی کے نکاح کے جائز نہ ہونے کی عقلی دلیل نہیں ہے؟ ہمارے نزدیک خیر و شر کی تعریف ہی یہ ھے کہ خیر و شرتو وہ ہے جسے خدا خیر و شر کہتا ھے۔ اگر خدا نے آدم و ہوا کے بچوں کی شادی کو جائز کہا تو یہ جائز ہوگیا اور اگر بعد مین اسے ناجائز کہہ دیا تو یہ ناجائز ہوگیا۔ ہم تو اللہ پاک کے ہر تصرف پہ آمنا و صدقنا ،، سمعنا و اطعنا کے قائل ہیں ۔ ہماری عقل چونکہ خدا کی بیان کردہ اقداری ترتیب کو قبول کرتی ہے لہذا ہمیں اپنی بیٹی اور بیٹے کے اس تعلق میں قباحت معلوم ہوتی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ جنکی عقل اس اقداری ترتیب کو قبول نہیں کرتی انکے پاس خالص عقلی دلیل کیا ہے؟ ‘ھاتو برھانکم ان کنتم صدقین’۔
عقل سے کسی شے پر (جواز یا عدم جواز کا) حکم لگانے کیلئے کوئی اقداری ترتیب پہلے سے فرض کرنا لازم ہوتی ہے، یہ عقل کی ایک حد ہے جسے پہچاننا ضروری ہے۔ ملاحدہ کی چال یہ ہے کہ وہ اپنی اس ماقبل عقل اقداری ترتیب کو عقل کے ہم معنی کہہ کر پیش کرتے ہیں اور یوں وہ اہل مذہب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم تو ایمان لاتے ہو ہم نہیں۔
حقیقت میں اخلاقیات کیلئے الہامی بنیاد ختم کرنے کے بعد انسان ایک صحرا میں آکھڑا ہوتا ہے جہاں اسکی عقل اسے کوئی راہ سجھانے سے قاصر ہوتی ہے، عقل کو یہاں ہر جہت یکساں معلوم ہوتی ہے۔ نبی ہی خدا کی لٹکائی ہوئی وہ واحد رسی ہے جسے پکڑ کر انسان صحیح سرے لگتا ہے۔
 
Top