• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملحدین کی تردید میں متفرق تحریریں

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اس موضوع کو کہاں سے شروع کروں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
پتا پتا ہے معرفتِ کردگار کا دفتر
"اللہ ہے یا نہیں۔" کہنے کو یہ چھوٹا سا سوال ہے لیکن یہ وہ بنیاد ہے جس پر دین کی ساری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ بنیاد ٹیڑھی ہو یا کمزور ہو تو بننے والی دیوار تا ثریا ٹیڑھی ہی رہے گی۔ میں اس بارے میں وقتًا فوقتًا پوسٹ کرتا رہوں گا ان شاء اللہ۔

آپ یہ پوسٹ پڑھتے ہوئے یقینًا کمپیوٹر پر بیٹھے ہوں گے۔ ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر لیجیے اور فرض کیجیے کہ آپ ایک ہزار سال پہلے کے انسان ہیں جس کے زمانے میں بجلی تھی نہ الیکٹرانکس کی دوسری ایجادات موجود تھیں۔ پھرکسی محیر القول واقعے کے نتیجے میں آپ کئی صدیاں طے کر کے اس کمرے میں پہنچ گئے جہاں آپ کا کمپیوٹر موجود ہے۔ اس کمرے میں آپ اکیلے ہیں۔ باہر کی دنیا سے آپ کا کوئی رابطہ نہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کمپیوٹر ایک حیرت انگیز چیز ہے جس پر دنیا کے کسی بھی حصے سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے، فلم دیکھی جا سکتی ہے، میوزک سنا جا سکتا ہے۔ آپ کے دل میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ ذرا میں کھول کر تو دیکھوں اس کے اندر ہے کیا؟ کھولنے پر معلوم پڑتا ہے کہ اس میں چند دھاتی تاریں ہیں، کچھ پلاسٹک ہے، سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے پرزے ہیں اور ایک طرف سے بجلی کی تار اس میں لگی ہوئی ہے۔ آپ بہت غوروخوض کرتے ہیں لیکن کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ عجیب و غریب شئے کیسے بن گئی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آپ ایک نظریہ قائم کرتے ہیں:

"آج سے لاکھوں اربوں سال پہلے کی بات ہے۔ زمین پر درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ ٹمپریچر کی شدت اس قدر تھی کہ کوئی چیز ٹھوس حالت میں نہ ملتی تھی۔ زمین پر جو کچھ تھا مائع یا گیس کی صورت میں تھا۔ آکسیجن کا وجود نہ تھا اور نائٹروجن اور ہائیڈروجن کثرت سے پائی جاتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ زمین ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی۔ اس میں ٹھوس زمین ابھرنی شروع ہوئی۔ ہزاروں برس اسی حال میں گزرے۔ پھر ایسا ہوا کہ کسی طرف سے کچھ دھاتیں بہتی ہوئی آئیں اور مٹی کے درمیان پھنس گئیں۔لاکھوں برس گزرنےکے بعد پیچیدہ کیمیائی عوامل ہوئے جن کے نتیجے میں پلاسٹک نے وجود پایا۔ پھر عرصہ گزرنے کے بعد پلاسٹک اور دھاتیں ملنا شروع ہو گئیں۔ ابتداء میں ان کی شکل نہایت سادہ تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں ترقی ہوتی گئی اور صدیوں کے ارتقاء کے بعد اس نے مائیکروپروسیسر کی شکل اختیار کر لی۔ اس آئی سی چِپ کو معلوم تھا کہ یہاں بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کا قانون چلتا ہے۔ اس لیے اس نے ترقی جاری رکھی اور بتدریج اپنے نقائص پر قابو پاتی رہی۔ آسمانی گرج چمک ارتقائی عمل کے دوران پاور پلانٹ میں بدل گئی۔ لہروں کے اتار چڑھاؤ سے پلاسٹک اور تانبا ایک بار پھر جمع ہوئے لیکن اس بار انہوں نے تاروں کی صورت اختیار کی۔ یہ تاریں پاور پلانٹ سے جڑ گئیں اور کسی وقت آندھی اور طوفان کے نتیجے میں ان کا دوسرا سرا کمپیوٹر سے آ لگا۔ آج ہمارے سامنے جو کمپیوٹر موجود ہے وہ اسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔"

یقین کریں جتنی لغو یہ تھیوری ہے اس سے کہیں زیادہ لغو اور بودی تھیوری وہ ہے جسے تحقیق کے نام پر ڈارون کی روحانی اولاد پیش کرتی ہے۔ جب ایک سادہ کمپیوٹر ارتقائی عمل کے نتیجے میں نہیں بن سکتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان جو کمپیوٹر کا موجد ہے وہ خودبخود بن گیا ہو؟ اس میں سوچنے سمجھنے، بات کرنے، محبت و نفرت کے جذبات، پیچیدہ نفسیاتی کیفیات، نظام انہضام، تنفس، استخوان، دماغ، پمپ کی طرح کام کرتا ہوا دل، دنیا کے کسی بھی کیمرے سے زیادہ واضح عکس بناتی ہوئی آنکھیں، اس کا نظامِ تولید کیا آپ سے آپ بن گئے؟ کوئی صاحبِ عقل یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ یہ سب آپ سے آپ ہو گیا۔ میں جب ان چیزوں پر غور کرتا ہوں تو مجھے ایک معروف عالم کا جملہ یاد آتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود میں شک کرتا ہے میں اسے اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی معقول مسئلے پر اس سے گفتگو کروں۔

اب آئیے انسانی وجود کے ایک نہایت چھوٹے حصے خلیے یا cell کو دیکھتے ہیں۔ ایک خلیے کو بنانے کے لیے جو شرائط درکار ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ اتفاقًا ان کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں۔ کسی بھی جاندار کا خلیہ لے لیں وہ تمام انسانی ایجادات سے زیادہ پیچیدہ ہو گا۔ جدید ترین لیبارٹریز میں مصنوعی ماحول پیدا کر کے چند مرکبات تو بنائے جا سکے ہیں لیکن کوئی زندہ خلیہ نہیں بنایا جا سکا۔ خلیے کا بنیادی حصہ پروٹین ہوتی ہے جسےبنانے کے لیے 500 قسم کے امائینو ایسڈز چاہیئیں۔ جس کا امکان 10 Raise power 950 یا (دس کی طاقت نو سو پچاس یعنی ایک کے بعد 950 صفر) میں سے صرف ایک ہے جو عملًا ناممکن ہے۔ ڈی این اے مالیکیول خلیے کے مرکزے میں پایا جاتا ہے۔ اس میں جینیٹک انفارمیشن محفوظ ہوتی ہے جو معلومات کا ایک ناقابل یقین خزانہ ہے۔ ڈی این اے میں محفوظ معلومات کو لکھا جائے تو یہ پانچ سو صفحات پر مبنی انسائیکلو پیڈیا کی نو سو جلدوں والی کتاب بن جائے۔

اب یہ مانے بغیر کیا چارہ ہو کہ ہر کتاب کسی مصنف کا تقاضا کرتی ہے۔ اور ہمارے ڈی این اے کا مصنف اور کائنات کا تخلیق کرنے والا وہی ہے، صرف اللہ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
https://www.facebook.com/Religion.philosphy/posts/1617840021785957:0

مینڈر لکھتا ہے:
"نظر آنے والے واقعات محض عالمِ حقیقت کے کچھ اجزاء (Paths of Fact) ہیں،وہ سب کچھ جن کو ہم حواس کے ذریعہ جانتے ہیں وہ محض جزوی اور غیر مربوط واقعات ہوتے ہیں، اگر الگ سے صرف انہیں دیکھا جائے تو وہ بھی بے معنی معلوم ہوں گے،براہِ راست محسوس ہونے والے واقعات کے ساتھ اور بہت سے غیر محسوس واقعات کو ملا کر جب ہم دیکھتے ہیں،اس وقت ہم ان کی معنویت کو سمجھتے ہیں۔"
اس کے بعد وہ ایک سادہ سی مثال سے اس حقیقت کو سمجھاتا ہے:
"ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چڑیا مرتی ہے تو وہ زمین پر گرپڑتی ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک پتھر کو زمین سے اٹھانے کے لئے طاقت خرچ کرنی ہوتی ہے،ہم دیکھتے ہیں چاند آسمان میں گھوم رہا ہے،ہم دیکھتے ہیں کہ پہاڑی سے اترنے کے مقابلے میں چڑھنا زیادہ مشکل ہے،اس طرح کے ہزاروں مشاہدات ہمارے سامنے آتے ہیں جن کے درمیان بظاہر کوئی تعلق نہیں،اس کے ایک استنباطی حقیقت Inferred Facts انکشاف ہوتا ہے۔یعنی تجاذب (Gravitation) کا قانون،اس طرح بلکل پہلی بار ی میں معلوم ہوتا ہے کہ ان مختلف واقعات کے درمیان نظم بقاعدگی اور موافقت ہے،محسوس واقعات کو اگر الگ سے دیکھا جائے تو وہ بے ترتیب غیر مربوط اور متفرق معلوم ہوں گے،مگر محسوس واقعات اور استنباطی حقائق دونوں کو ملا دیا جائے تو وہ ایک منظم شکل اختیار کر لیتے ہیں۔"(صفحہ 51)
اس مثال میں تجاذب کا قانون ایک تسلیم شدہ سائنسی حقیقت ہونے کے باوجود بذاتِ خود قطعاً ناقابل مشاہدہ ہے،سائنس دانوں نے جس چیز کو دکھایا تجربہ کیا وہ خود قانونِ کشش نہیں،کچھ دوسری چیزیں ہیں، اور ان دوسری چیزوں کی منطقی توجیہہ کے طور پر وہ ماننے پر مجبور ہوئے ہیں کہ یہاں کوئی ایسی چیز موجود ہے،جس کو ہم قانونِ تجاذب سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
یہ قانون تجاذب آج ایک مشہور ترین سائنسی حقیقت کے طور پر ساری دنیا میں جانا جاتا ہے،اس کو پہلی بار نیوٹن نے دریافت کیا،مگر خالص تجربی نقطہ نظر سے اس کی حقیقت کیا ہے،اس کو نیوٹن کی زبان سے سنئے،اس نے بنٹلی کو ایک خط لکھا تھا،جو اس کے مجموعے میں ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے:
"یہ ناقابل فہم ہے کہ بے جان اور بے حس مادہ کسی درمیانی واسطہ کے بغیر دوسرے مادہ پر اثر ڈالتا ہے،حالانکہ دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوتا۔" Works of W. Bently III, p.221
ایک ایسی ناقابل مشاہدہ اور ناقابل فہم چیز کو آج بلا اختلاف سائنسی حقیقت سمجھا جاتا ہے،کیوں؟صرف اس لئے کہ اگر ہم ان کو مان لیں تو ہمارے کچھ مشاہدات کی اس سے توجیہہ ہوجاتی ہے،گویا کسی چیز کے حقیقت ہونے کے لیئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ براہِ راست ہمارے تجربے اور مشاہدے میں آرہی ہو،بلکہ وہ غیر مرئی عقیدہ بھی اسی وجہ کی ایک حقیقت ہے جس سے ہم مختلف مشاہدات کو اپنے ذہن میں مربوط کرسکتے ہوں،جو معلوم واقعات کی معنویت ہم پر واضح کرسکے،مینڈر لکھتا ہے:
"یہ کہنا کہ ہم نے ایک حقیقت کو معلوم کرلیا ہے،دوسرے لفظوں میں گویا یہ کہنا ہے کہ ہم نے اس کی معنویت (Meaning) کو معلوم کرلیا ہے،یا اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم کسی چیز کی موجوگی کے سبب اور اس کے حالات کو معلوم کرکے اس کی تشریح کرتے ہیں،ہمارے بیشتر یقینیات (Beliefs) اسی نوعیت کی ہیں،وہ دراصل مشاہدات کی توضیح (Statements of Observation) ہیں۔"
اس بحث کے بعد مینڈر مشہور حقائق (Observed Facts) کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"جب ہم کسی مشاہدے (Observation) کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیشہ ہم مجرد حسیاتی مشاہدے سے کچھ ذیادہ مراد لیتے ہیں ہیں،اس سے مراد حسیاتی مشاہدہ نیز معرفت (Recognition) ہوتا ہے،جس میں تعبیر کا جز بھی شامل ہوتا ہو۔"( p. 56)
یہی وہ اصول ہے جس کی بنیاد پرعضویاتی ارتقاء (Organic Evolution) کے حقیقت ہونے پر سائنس دانوں کا اجماع ہوگیا ہے،مینڈر کے نزدیک یہ نظریہ" اب اتنے دلائل سے ثابت ہوچکا ہے کہ اس کو تقریباً حقیقت (Approximate Certainty) کہا جاسکتا ہے۔"( Clearer Thinking, p.113 )
سمپسن G.G Simpson کے الفاظ میں نظریہ ارتقاء آخری اور مکمل طور پر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے نہ کہ محض ایک قیاس یا متبادل مفروضہ جو سائنسی تحقیق کے لئے قائم کرلیا گیا ہو۔ (Meaning of Evolution,p.127)
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1958) کے مقالہ نگار نے حیوانات میں ارتقاء کو بطور ایک حقیقت تسلیم کیا ہے،اور کہا ہے کہ ڈارون کے بعد اس نظریے کو سائنس دانوں اور تعلیم یافتہ طبقے کا قبول عام (General Acceptance) حاصل ہوچکا ہے۔R.S. Lull لکھتا ہے:
"ڈارون کے بعد سے نظریہ ارتقاء دن بدن زیادہ قبولیت حاصل کرتا رہا ہے،یہاں تک کہ اب سوچنے اور جاننے والے لوگوں میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ یہ واحد منطقی طریقہ ہے،جس کے تحت عمل تخلیق کی توجیہہ ہوسکتی ہے،اور اس کو سمجھاجاسکتا ہے۔" (Organic Evolution, p.15 )
یہ نظریہ جس کی صداقت پر سائنس دانوں کا اس قدر اتفاق ہوگیا ہے،کیا اسے کسی نے دیکھا ہے،یا اس کا تجربہ کیا ہے،ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے اور نہ ایسا ہوسکتا،ارتقاء کا مزعومہ عمل اتنا پیچیدہ ہے،اور اتنے بعید ترین ماضی سے متعلق ہے،جس کو دیکھنے یا تجربہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،لل کے مزکورہ بالا الفاظ کے مطابق یہ صرف ایک منطقی طریقہ ہے جس سے تخلیقی مظاہرہ کی توجیہہ کی جاتی ہے نہ کہ واقعی مشاہدہ،چناچہ سر آرتھر کیتھ جو خود بھی ارتقاء کا حامی ہے،اس نے ارتقاء کو مشاہداتی یا تجرباتی حقیقت کے بجائے ایک عقیدہ قرار دیا ہے،اس کے الفاظ ہیں: “Evolution is a basic dogma of rationalism.” ( Revolt Againts Reason,p.112)
یعنی یہ نظریہ ارتقاء مذہب عقلیت کا ایک بنیادی عقیدہ ہے،چناچہ ایک سائنسی انسائیکلوپیڈیا کو ایک ایسا نظریہ کہاگیا ہے،جس کی بنیاد توجیہہ بلا مشاہدہ (Explanation without Demonstration) پر قائم ہے۔(Revolt Against Reason, p.111 )
پھر ایک ایسی غیر مشاہد اور ناقابل تجربہ چیز کو علمی حقیقت کیوں سمجھا جاتا ہے،اس کی وجہ اے،ای میڈر کے الفاظ میں یہ ہے:
1۔یہ نظریہ تمام معلوم حقیقتوں سے ہم آہنگ ہے۔
2۔اس نظریے میں ان بہت سے واقعات کی توجیہہ مل جاتی ہے،جو اس کے بغیر سمجھے نہیں جاسکتے۔
3۔دوسرا کوئی نظریہ ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا جو واقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتا ہے۔(صفحہ 112)
اگر یہ استدلال نظریہ ارتقاء کو حقیقت قرار دینے کے لئے کافی ہے تو یہی استدلال بدرجہا زیادہ شدت کے ساتھ مذہب کے حق میں موجود ہے،ایسی حالت میں نظریہ ارتقاء کو سائنسی حقیقت قراد دینا اور مذہب کو سائنسی ذہن کے لئے ناقابل قبول ٹھہرانا صرف اس بات کا مظاہرہ ہے کہ آپ کا مقدمہ اصلاً طریق استدلال کا مقدمہ نہیں ہے،بلکہ وہ نتیجہ سے متعلق ہے،ایک ہی طریق استدلال سے اگر کوئی خالص طبیعیاتی توعیت کا واقعہ ثابت ہوتو آپ فوراً اسے قبول کرلیں گے اور اگر کوئی الٰہیاتی نوعیت کی چیز ثابت ہو تو آپ اسے رد کردیں گے،کیوں کہ یہ نتیجہ آپ کو پسند نہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
"حوروں کا لالچ کیوں؟

ویسے اس بارے میں اسلام مخالف فکر کی طرف ایک سوال یہ بھی ہے کہ اللہ نے حوروں والا پیکیج دیا ہی کیوں؟ یہ سوال بھی ایک غلط تاثر یہ دیتا ہے کہ بس اللہ نے حوروں کا ہی وعدہ کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے جنت میں مومنین کے لئے بہترین نعمتوں کا وعدہ کیا ہے جس میں پاکیزہ بیویاں بھی شامل ہیں۔ باغات، دودھ اور شہد کی نہریں، چشمے، نہ ختم ہونے والے پھل، پرندوں کا لذیذ گوشت، محلات، ایسی بہترین شراب جس سے سرور تو حاصل ہو لیکن نہ بندہ اپنی عقل کھوئے اور نہ سردرد ہو،گاؤ تکیہ لگا کر دوستوں کی محفلیں، جنت کا بازار، اپنے رشتہ داروں اور چاہنے والوں کا ساتھ ، خدمت کرنے والے غلمان، موت، بیماری، خوف اور بڑھاپے سے ہمیشہ ہمیشہ کا چھٹکارا ، سلاما ًسلام کی تحیات اور وہ سب کچھ جو بندہ چاہے اور جس کا تصورہم دنیا میں نہیں کرسکتے۔ اور اس سے بھی آگے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت، اور پھر اللہ کی طرف سے جنتیوں کوشراب طہور پلانا، اور پھر اللہ کا دیدار اور مالک المک کی طرف جنتیوں پر سلام اور سب سے بڑی چیز اللہ کی طرف سے رضامندی کا پروانہ، وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ۔ کیا کسی بندے کواور بھی کچھ چاہئے؟

ان سب چیزوں کابیان قرآن پاک میں ہوتے ہوئے کیا کوئی شخص جس کی ذہنی حالت صحیح ہو مؤمن پر اللہ کی طرف سے ہونے والے انعامات کی تشریح ۷۲ کنواریوں کے نام پر کرسکتا ہے؟ یہ کیسا ذہن ہے جس کی سوچ بہتر کا عدد اور کنوارے پن میں ہی اٹکا ہوا ہے؟ یا وہ یہ سوچ کر خوش ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے رب نے بس اپنے بندوں کے لئےکنواریاں تیار رکھی ہیں۔ یا پھر مسلمانوں کے شعور کی سطح پر خواہ مخواہ افسوس کرکے انہوں کوئی خاص خوشی ہوتی ہے۔ یا اپنے غلط کیس پر زبردستی مطمئن رہنے کے لئے یہ ذہن اس سے آگے سوچنے پر تیار نہیں ہے؟

تو صاحبو اللہ کا پیکیج تو بہت بڑا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ انسان کا یہ چھوٹا سا دماغ اس کا پورا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ یہ پیکیج انسان کی فطرت سے سوفی صد مطابقت رکھتا ہے اور اس میں ہر سطح کے انسان کےلئےسکون و اطمینان اور زبردست اپیل موجود ہے۔

لیکن حوریں پھر بھی ہیں، تو سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ جنسی پیکیج دینے کی اللہ کو کیوں ضرورت پیش آئی؟ اس بارے میں ہمارا جواب یہ ہے کہ یہ ایک کھلی خیانت ہوگی کہ اللہ کے انعامات کے سلسلے میں حوروں کا اس طرح سے ذکر کیا جائےگویا بس یہی کچھ ہے۔ اب اس پورے پیکیج میں پاکیزہ بیویوں کا ہونا کیوں مسئلہ ہے، کیا یہ انسانوں کی فطری ضرورت نہیں ہے کہ اللہ کى رحمت سے اس کے سکون اور لذت کے لئے پاکیزہ بیویاں ہوں؟ اسلام کے مخالف کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ صرف کسی حیاباختہ عورت سے ہی لذت حاصل کی جاسکتی ہےاور اس سے محظوظ ہونے پر صرف اللہ کے دشمنوں کا اجارہ ہے؟ کیوں دین کے ماننے والوں کو اس سے احتراز کرنا چاہئے؟جن کے نزدیک جنسی لذت کا مطلب کسی فحش فلم میں چلنے والے مناظر ہیں تو یقیناً مؤمنین کو ملنے والے انعامات سے یہ چیز مطابقت نہیں رکھتی۔ کیا ضروری ہے کہ جنس اور عورت کو مغرب کی مسخ شدہ فطرت کے تناظر میں ہی دیکھا جائے؟ یاکہیں ایسا تو نہیں کہ مستشرقین سے اسلام سیکھتے ہوئے انہوں نےاسلام کو بھی مسیحیت کی نظر سے دیکھنا شروع کردیا ہو جہاں پر عورت اور جنس مجبوری کے گناہ ہیں؟الغرض خالص انسانی یا اسلامی نکتہ نظر سے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔ ایک ایمان والے کے لئے دنیا میں بھی ایک اچھی بیوی اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہےتوآخرت میں اللہ اپنے بندوں کو اس انعام سے کیوں نہ نوازے؟

اگر جنت میں اتنے سارے انعامات کے ساتھ پاکیزہ بیویوں کا ذکر نہ ہوتا توبھی اعتراض کرنے والے لازماً یہ سوال کرتے کہ اللہ نے اتنی اہم چیز کو کیوں نظر انداز کردیا۔ اب چونکہ ذکر آگیا ہے اور اتنے اچھے انداز میں آیا ہے تو بھی منکروں کو چین نہیں۔ یہ صرف ایک ضد اور ہٹ دھرمی کی کیفیت ہے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ریفرنس: https://www.facebook.com/AnOKHaa/posts/871582332907415

٭٭ارتقا، کائنات اور شعور٭٭
-مزمل شیخ بسمل

جب ہم یہ مان کر چل رہے ہوتے ہیں کہ ارتقا سچ ہے۔ تو ہم دوسری جانب یہ بھی مان رہے ہوتے ہیں کہ کائنات میں ضابطہ اور بے ضابطگی کا ایک تناسب قائم ہے جس کی بنیاد پر کائنات چل رہی ہے۔ اس میں ہونے والے واقعات اپنے اپنے حساب سے رونما ہورہے ہیں۔ اگر یہ بھول جایا جائے کہ کائنات کی کسی خاص طریقے پر تخلیق کی گئی ہے تو پھر یہ ماننا ہوتا ہے کہ کائنات کی ابتدا میں مادہ کے اُسلوبِ ترکیبی کی یہ شکل محض ممکن الوقوع تھی جو اِس طرح نہیں ہوتی تو کسی بھی طرح ہوتی۔ لیکن اس بحث میں فی الحال ہم نہیں جاتے۔ بات یہ ہے کہ مادہ اپنے اجزائے ترکیبی سے ترقی کے بعد اس شکل کو پہنچا ہے۔ اور پھر یہ ترقی مادہ کے جاندار ہونے کی صورت میں دیکھی گئی۔ اور پھر جاندار ہونے کے بعد مادہ میں شعور کا ظہور ہوا۔ اس شعور نے مادہ کو گویائی بھی دی۔ ثقافت بھی دی۔ اور اپنے آپ (یعنی مادہ اور کائنات) کو سمجھنے کا ہنر بھی دیا۔ لیکن ایک بات جو کہ ناقابلِ قبول ہے وہ یہ کہ اگر ارتقا سے ظاہر ہونے والا یہ شعور اور عقل، محض موضوعی حدود میں قید ہے تو ایک تو یہ شعور و عقل کائنات کو سمجھنے کا اور اس کے بارے میں نتائج قائم کرنے کا مستند آلہ نہیں ہوسکتے۔ شعور و عقل اگر مادہ کے موضوع سے نکلے ہیں تو ان کا قائم کردہ کوئی بھی نتیجہ معتبر نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مادہ اپنے موضوع ہی میں ایسے تصورات یا مشاہدات گھڑتا ہے جو خارج کے اثرات سے مطابقت میں آجائیں تو انہیں حتمی قوانین کی شکل دی جاتی ہے۔ اور یہ کہ کائنات شاید کسی خاص نظم کے تحت نہیں چل رہی بلکہ یہ مادہ کا موضوع ہے جو اسے نظم میں دیکھتا آرہا ہے۔ کیونکہ اگر یہ تصورات مادہ کے موضوع سے نہ نکل رہے ہوں تو کوئی قانون آفاقی نہیں ہوگا۔ ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ شعور و عقل، مادہ کا موضوع نہیں ہیں۔ یہ کہیں اور سے ودیعت کردیے گئے ہیں۔ یعنی یہ مادہ سے الگ کوئی چیز ہے جو در اصل مادہ کو گویائی نہیں دے رہی بلکہ اس کے ماخذات ہی مادہ سے بالا ہیں۔ ایسے میں اس شعور سے اخذ کردہ نتائج اور مشاہدات اور تصورات، سب ہی معتبر ہوجاتے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ اول الذکر صورت میں کسی بھی نتیجے کو معتبر کہنا بجائے خود ایک منطقی مغالطہ ہوگا۔ اور اس کا ہر مقدمہ مردود ٹھہرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اگر نماز بے حیائی اور منکرات سے روکتی؟؟

لادینوں اور ملحدوں کی طرف سے اکثر یہ سوال آتا ہے کہ اگر نماز فحش اور منکر سے روکتی تو پھر مسجد میں امامت کرنے والے ایسا اور ویسا کیوں کرتے ہیں۔
جواب:
اس بارے میں پہلے یہ واضح ہونا چاہئے کہ "روکنے" سے کیا مراد ہے۔ عربی میں لفظ آیا ہے "تنھی" جس کا سادہ سا ترجمہ روکنا ہی ہے۔ لیکن عربی اور اردو دونوں زبانوں میں روکنے کے وہ معنی لازمی نہیں ہیں جو کہ ملحد اخذ کرتے ہیں۔ "تنھی" کے لفظ کا مصدر "نھی" ہے اور اس لفظ کا ضد عربی میں "امر" آتا ہے۔ کلام پاک میں ہمیں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان دوسروں کو اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔ اب یہاں پر روکنے سے مراد یہ تو نہیں ہے کہ ہم اس بات کے مکلف ہوں کہ کوئی دوسرا برائی کرے ہی نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی طور پر ہم اپنے قول و عمل سے یہ کوشش کریں کہ دوسرے برائی سے بچ جائیں۔ اور اجتماعی طور پر ایسا نظام قائم کریں جہاں پر اچھائی کرنا آسان ہو اور برائی کرنا مشکل ہو۔ ایسی کوشش کے نتیجے میں برائیاں کم ضرور ہوں گی، لیکن برائیوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوگا۔
اس قسم کے اعتراض میں ملحد یہ سمجھتا ہے کہ "تنھی" یعنی روکنے کا مطلب گویا کہ ایک بٹن ہے جس کو دباتے ہی ایک بندہ فحش اور منکر کے تمام داعیوں اور اکساوے سے بچ جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہی نہ ہوتی اور نہ ہی قرآن کا مقصود یہ ہے۔
نماز ایک فرد کے اندر برائیوں کے خلاف مزاحمت کو طاقتور کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے ایک با اثر وعظ ایک فرد کے اندر برائی کے خلاف مزاحمت پیدا کرتا ہے اور نیکی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی مشینی بٹن کی طرح سے وہ فرد برائی سے بالکل پاک ہوجائے۔
نماز کا برائی سے روکنا ایسی کوئی کراماتی چیز نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نماز پڑھتے ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ بندہ زبردستی فحش اور منکر سے روک دیا جاتا ہے تو یہ اسلام کی بنیادوں سے ہی متصادم ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے انسان کو دنیا میں خیر و شر کا اختیار دیا گیا ہے اور ایسا کچھ نہیں ہے کہ نماز پڑھنے سے وہ اختیار ختم ہوجاتا ہو۔
نماز کا برائیوں سے روکنا بالکل سامنے کی چیز ہے اور اس کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے۔ ایک شخص جب خدا کے سامنے روزانہ پانچ وقت جھکتا ہے اور اس کا جھکنا حقیقی ہے اور وہ پوری رغبت سے جھکتا ہے تو کیا اسی خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کا ضمیر اس کو ملامت نہیں کرے گا؟ یہ تو بالکل ایک نفسیاتی چیز ہے جس کے لئے دلیل پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں۔
ایک اور چیز واضح ہونی چاہئے کہ نماز کا اثر ہونے کے لئے نماز کا حقیقی معنوں میں نماز ہونا بھی ضروری ہے۔ ویسے تو قرآن پاک کے مطابق منافق بھی نماز پڑھتے تھے تو کیا ملحدین کے نزدیک منافق کی نماز بھی انہیں برائی اور فحش سے روکتی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اگر روکتی تو وہ منافق نہیں ہوتے۔ تو نماز جسم کو مخصوص انداز میں ہلانے کا نام نہیں ہے، بلکہ نماز کا اثر ہونے کے لئے نماز کا نماز ہونا بھی ضروری ہے۔
اس طرح کے سوالات کا ساتھ ملحدین یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ دراصل زیادہ فحش اور منکر نمازی ہی کرتے ہیں۔ اس کے لئے ان کے ہاں دلیل کسی ایک اخبار میں آنے والا کوئی مشکوک واقعہ ہوتا ہے جو کہ کبھی کبھی بعد میں غلط بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ گویا کہ ان کے نزدیک جیسے ہی کوئی بندہ نماز پڑھنے لگتا ہے تو اس کے اندر معاشرے کی تمام برائیاں سمٹ کر آنے لگتی ہیں۔ اس کے لئے ان کے پاس دلیل کے بجائے اپنی ناروا خواہشات ہوتی ہیں۔ مسلمان معاشرہ آج بھی نمازی سے زیادہ نیکیوں کی توقع رکھتا ہے۔ اسی لئے جب نمازی سے کوئی فحش حرکت سرزد ہوتی ہے تو اسے زیادہ اچھالا جاتا ہے۔ اور جب بے نمازی ایسی ہی حرکت کرتا ہے تو اس کو غیر متوقع نہیں سمجھا جاتا۔ معاشرے کا یہ رویہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ نمازی آج بھی بہتر ہے اور اگر نہ ہوتا تو نمازی کی غلط حرکت معاشرے کو اس طرح نہ ہلا ڈالتی۔ اس طرح کے اعتراض کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایک مولوی کی غلط حرکت پر اسطرح کا واویلا کرتے ہیں جیسے معاشرے میں اس سے بڑا مسئلہ کوئی نہیں ہے۔ لیکن جب پتہ چلتا ہے کہ وہ حرکت دراصل ایک نائی نے کی تھی تو اس واقعے کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں۔
اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ نماز پڑھنے والے دوسرے کے برابر یا اس سے زیادہ برائی کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس کے لئے اخبار میں آنے والے کسی ایک واقعے کے بجائے باقاعدہ اعداد و شمار ہونے چاہئے جو کہ ان کے پاس کبھی نہیں ہوتے۔

تحریر:ذیشان وڑائچ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بے دینوں کی طرف سے اُٹھایا جانے والا ایک اعتراض

اگر مان بھی لیا جاے کہ خدا ہے تو کیا واقعی ہی وہ انہی خصلتوں کا مالک ہوگا جو ہمیں مذہب بتاتے ہیں؟،مثال کے طور پہ کیا اتنی بڑی کائنات کے بنانے والے کو ذرا بھی فکر ہو گی کہ اربوں کھربوں ستاروں‌ میں سے اک نقطے کی حیثیت جتنے سیارے کے چھوٹے سے شہر کی چھوٹی سی گلی میں رہنے والا ایک معمولی انسان کوئی چیز کھانے سے پہلے اس کا نام لیتا ہے کہ نہیں؟ وہ اس کے نام کی تسبیح کرتا ہے کہ نہیں ؟ دن میں پانچ وقت اس کے لیے جھکتا ہے کہ نہیں؟ اور اگر یہ سب نہیں کرتا تو اس کے لیے پہلے سے تیار کردہ دوزخ کا عذاب انتظار کر رہا ہے؟ اگر خدا ہے بھی تو کم از کم وہ نہیں ہے جس کی عبادت کے لیے کہا جاتا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں‌ بے پرواہ ہو گا۔
اعتراض کا جواب:
انسان باشعور ہے اور یہ خدا ہی ہے جس نے انسان کو باشعور بنایا۔ خالق کا حق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ خالق نے مخلوق کو جن خصوصیات کے ساتھ بنایا، چاہئے کہ ان خصوصیات کے ساتھ وہ اپنے خالق کی عبادت کرے۔ اس کائنات میں ان گنت کُرے پائے جاتے ہیں اور وہ خدا کے طے کردہ قانون کے مطابق سفر کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے اندر اس قسم کا شعور نہیں ہے جیسا کہ اللہ نے انسانوں کے اندر بنایا۔ اسی کرے یعنی زمین پر لاتعداد جانور پائے جاتے ہیں۔ حیاتیاتی اعتبار سے یہ جانور ہیں تو انسانوں سے کافی ملتے جلتے۔ لیکن ان کے اندر پایا جانے والا شعور انسانوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ انسانوں کے اندر پایا جانے والا شعور اور اس کی صلاحیتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اپنے خالق کو اس پورے شعور کے ساتھ محسوس کرے اور اس کے آگے سر خم تسلیم کرے۔ جس خالق نے انسانوں کو یہ شعور عطا کیا اس کا بھی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے شعور کے ساتھ اس کی عبادت کرے نہ کہ کسی بے جان مادے کی طرح سے یا کسی جانور کی طرح۔ یہ شعور ہی اس کی جزا و سزا کی اصل بنیاد ہے۔
جب کوئی ملحد یہ کہتا ہے کہ خالقِ کائنات کو اس بات کی کیا پروا کہ میں اس کا نام جپتا ہوں یا نہیں، اس کے سامنے جھکتا ہوں یا نہیں تو دراصل وہ اپنے آپ کو بے جان مادے یا جانور کی سطح پر رکھ کر سوچتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خالق کا انکار دراصل ایک انسان کو کس سطح پر لے آتا ہے۔ اللہ تعالی نے منکرین کے بارے میں یہ جو کہا ہے کہ
َلَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُ‌ونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ ﴿١٧٩
(جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے۔یہ لوگ جو پایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ لوگ زیادہ بےراہ ہیں۔یہ لوگ غافل ہیں۔ سورہ اعراف )
اور دوسری جگہ یہ کہا ہے
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّـهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿١٩
(اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے اللہ (کے احکام ) سے بے پروائی کی سو اللہ تعالیٰ نے خودا ن کی جان سے ان کو بے پروا بنادیا یہی لوگ نافرمان ہیں۔ سورہ حشر )

لازمی طور پر خدا کا انکار کرنے والے اپنی حقیقت اور اپنے شعور کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔ یہ سوال ایسے ہی ذہن کی پیداوار ہے۔ انسان جب خدا کا انکار کرتا ہے تو دراصل وہ اپنے شعور کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔
انسان بہت کمزور ہے۔
۱۔ جب انسان کسی چیز کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو دوسری چیزوں کی طرف سے اس کی توجہ کم ہوجاتی ہے۔ کوئی بندہ جب اپنی ڈیوٹی پر ہوتا ہے تو وہ اتنی شدت کے ساتھ اپنے گھر والوں کی طرف توجہ نہیں دے سکتا اور اگر وہ بہت ہی شدت کے ساتھ گھر والوں کی طرف توجہ دے گا تو پھر اپنی ڈیوٹی ٹھیک سے انجام نہیں دے پائے گا۔
۲۔ جب انسان کسی چیز کی گہرائی اور تفصیلات میں چلا جاتا ہے تو اسی چیز کی مجموعی کیفیت سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص ایک گھر کا معائنہ کر رہا ہے۔ اگر وہ گھر کی تعمیر میں استعمال کئے گئے مٹیریل، رنگ، ٹائلز وغیرہ پر بہت زیادہ توجہ دے گا تو گھر کے مجموعی سانچے اور شکل کی طرف سے وقتی طور پر اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔
۳۔ جب انسان کا کسی چیز سے سروکار ہوجاتا ہے، اس سے اس کا جذباتی تعلق بن جاتا ہے تو پھر وہ اس کی کمزوری بن جاتی ہے۔ اور اگر اس تعلق میں کوئی رخنہ پیدا ہوجاتا ہے تو پھر انسان کا سکون اور چین چھن جاتا ہے۔ مثلاً اولاد اور بیوی سے تعلق میں تلخیاں کسی انسان کی نیندیں حرام کرنے کے لئے کافی ہیں۔

اوپر بیان کردہ چیزیں انسان کی کمزوریاں ہیں۔ اللہ رب العالمین تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ اللہ تعالی کلام پاک میں اپنا تعارف لطیف اور خبیر جیسے نام سے کراتا ہے۔ لطیف کا مطلب باریک بین ہے۔ اور خبیر کا مطلب ہر چیز کی خبر رکھنے والا۔ اللہ پاک اپنی تمام مخلوقات کو پوری تفصیل کے ساتھ بیک وقت اور بغیر کسی کوتاہی کے خبر رکھ سکتا ہے۔ اللہ کا ایک طرف متوجہ ہونا کسی کی طرف بے توجہی کی قیمت پر نہیں ہوتا۔ اس دنیا میں پائے جانے والے تمام کروں کو اس کے ایک ایک ذرے کے ساتھ خدا جانتا ہے اور خدا کا یہ سب کچھ جاننا کسی اور معاملے میں اس کی کوتاہی کا سبب نہیں بن سکتا اور نہ ہی اسے اس سے غافل کرتا ہے کہ وہ اپنی باشعور مخلوق کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کرے۔

اللہ غنی ہے یعنی اللہ ہر ضرورت سے بے نیاز ہے۔ ایک طرف اللہ کو اپنے بندوں سے محبت ہے اور اللہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ لیکن محبت کی یہ شدت جس طرح انسانوں کی کمزوری ہے اس طرح خدا کی کمزوری نہیں ہے۔ خدا تمام انسانوں کے ساتھ بالکل ہی ذاتی تعلق رکھ سکتا ہےبغیر اس کے کہ وہ تعلق اس کی کمزوری بنے۔

اوپر بیان کئے گئے نکات سے واضح ہوجاتا ہے کہ جب ملحد اس طرح کے اعتراضات کرتا ہے تو وہ خدا کے ساتھ انسانوں کی کمزوریوں کو منسوب کر کے سوچتا ہے۔

ایک بالکل عام اور سادہ ذہن آدمی بھی اس بات کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ رب العالمین تمام کمزوریوں اور عیبوں سے پاک ہے اور یہ اس کے رب العالمین ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ ایسا کیا ہوتا ہے کہ ملحد بنتے ہی آدمی کا دماغ الٹا سوچنا شروع کردیتا ہے۔
شاید ایک ملحد کو اس بات سے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ رب العالمین میں اُس جیسی کمزوریاں کیوں نہیں ہیں۔ یہ تکبر ہے اور وہ بھی رب العالمین کے آگے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس قسم کے اعتراض کرنے والے کے ذہن میں دو بنیادی الجھنیں ہیں۔

وہ انسان کو جانور یا اس سے بھی کمتر سطح پر رکھ کر سوچتا ہے
اور
وہ رب العالمین کو انسان کی سطح پر رکھ کر سوچتا ہے۔

تحریر:ذیشان وڑائچ
تدوین وتزئین:نعیم یونس
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عقل پرستی کا دور

عقلیت پرستی کی داستان یہ ہے. سترھویں صدی کے وسط تک لوگ یہ طے کر چکے تھے کہ انسان کی جدوجہد کا میدان یہ مادی کائنات ہے، اور انسان کا مقصد حیات تسخیر فطرت یا تسخیر کائنات ہونا چاہئے. بیکن نے مطالعہ فطرت کا طریقہ بھی مقرر کر دیا تھا. اب سوال یہ تھا کہ انسانی صلاحیتوں میں کونسی صلاحیت ایسی ہے جو تسخیر کائنات کے لئے زیادہ مفید ہو سکتی ہے. اس دور نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان صرف عقل (یعنی عقل جزوی اور عقل معاش) پر بھروسہ کر سکتا ہے، کیونکہ یہی چیز سارے انسانوں میں مشترک ہے. عقل (جزوی) کا یہ اختصاص ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے لفظ (یونیورسل) استعمال کیا. اس لفظ کی وجہ سے غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوئی ہیں .
عقلیت پرستی کے دور میں یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ انسان کی رہنمائی بس عقل (جزوی) کر سکتی ہے.اس دور کے سب سے بڑے “امام” دو ہیں. ایک تو فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان ڈیکارت اور دوسرا انگلستان کا سائنسدان نیوٹن.
دیکارت یوں تو رومن کیتھلک پادری تھا’ اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کر کے اپنے دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا. لیکن نتیجہ الٹا نکلا’ مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں’ فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دیکارت کو پیدا کیا.
اب تک تو یہ بحث چلی آرہی تھی کہ حقیقت روح میں ہے یا مادے میں ‘بعض لوگ کہتے تھے کہ روح حقیقی ہے ‘مادہ غیر حقیقی. بعض لوگ کہتے تھے کہ مادہ بھی حقیقت رکھتا ہے مگر کلی طور پر.کچھ لوگ دبے لفظوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ بس مادہ ہی حقیقت ہے. اس سارے جھگڑے کا دیکارت نے یہ حل نکالا کہ روح اور مادہ دونوں حقیقی ہیں’ مگر ایک دوسرے سے بلکل الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ قائم ہیں. چنانچہ اس نے روح اور مادے کو ‘ انسان کی روح اور جسم کے دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا جو ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہیں.
یہ نظریہ مغربی ذہن میں اس طرح بیٹھا ہے کہ تین سو سال سے یہ تفریق اسی طرح چلی جا رہی ہے. روح اور جسم’ روح اور مادے کے ارتباط کے مسلہ آج تک حل نہیں ہوئے. مغرب کے زیادہ تر مفکر جسم اور مادے میں اٹک کے رہ گئے’ اس سے اوپر نہیں جا سکتے کچھ مفکر روح میں لٹک گئے تو نیچے نہیں آ سکتے. دیکارت کے فلسفے کا سب سے خوفناک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مغرب “روح” کے معنی ہی بھول گیا’ اور “ذہن” (یا “نفس”) کو روح سمجھنے لگا.
اسی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے.
Cogito ergo sum (I think therefore i am )
“میں سوچتا ہوں” اس لئے میں ہوں”. گویا اس کے نزدیک وجود کا انحصار ذہن پر ہے. یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی نہ سوچے تو اس کا وجود رہے گا یا نہیں. خود دیکارت سے ایک آدمی نے پوچھا تھا کہ “میرے کتے کے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟”
غرض ‘ جسم اور روح’ مادے اور روح کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکارت نے مغربی فکر کو ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی’ اور مغربی ذہن ہر مسئلے پر روح اور مادے کے تقابل یا تضاد ہی کے لحاظ سے غور کرتا ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے. سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے. لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے. یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے. اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کر لے تو کائنات اور فطرت پر پورا قابو حاصل کر سکتا ہے. قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا.

سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلی گئی اور اس کا تصور کائنات رد کر دیا گیا، مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے.
نیوٹن کی نظر میں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی, اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا. کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں.

انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا، اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے، اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے، اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے. اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں.

یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنسداں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں. ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا.
عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا. اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا.
ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے. نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا. نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا. ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا. ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے. یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے. اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے.

اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا. اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے. جب کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا. یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے.
پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ). اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں.
انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی.
اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کر دیئے جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں. یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں. ان فلسفوں کا بیان آگے ہوگا۔

عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے. سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے. لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے. یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے. اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کر لے تو کائنات اور فطرت پر پورا قابو حاصل کر سکتا ہے. قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا.

سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلی گئی اور اس کا تصور کائنات رد کر دیا گیا، مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے.
نیوٹن کی نظر میں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی, اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا. کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں.

انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا، اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے، اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے، اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے. اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں.

یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنسداں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں. ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا.
عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا. اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا.
ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے. نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا. نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا. ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا. ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے. یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے. اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے.

اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا. اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے. جب کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا. یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے.
پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ). اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں.
انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی.
اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کر دیئے جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں. یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں. ان فلسفوں کا بیان آگے ہوگا۔

جاری۔..
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے. سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے. لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے. یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے. اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کر لے تو کائنات اور فطرت پر پورا قابو حاصل کر سکتا ہے. قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا.

سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلی گئی اور اس کا تصور کائنات رد کر دیا گیا، مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے.
نیوٹن کی نظر میں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی, اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا. کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں.

انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا، اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے، اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے، اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے. اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں.

یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنسداں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں. ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا.
عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا. اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا.
ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے. نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا. نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا. ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا. ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے. یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے. اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے.

اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا. اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے. جب کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا. یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے.
پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ). اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں.
انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی.
اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کر دیئے جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں. یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں. ان فلسفوں کا بیان آگے ہوگا۔

عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے. سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے. لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے. یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے. اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کر لے تو کائنات اور فطرت پر پورا قابو حاصل کر سکتا ہے. قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا.

سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلی گئی اور اس کا تصور کائنات رد کر دیا گیا، مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے.
نیوٹن کی نظر میں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی, اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا. کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں.

انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا، اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے، اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے، اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے. اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں.

یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنسداں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں. ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا.
عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا. اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا.
ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے. نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا. نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا. ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا. ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے. یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے. اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے.

اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا. اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے. جب کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا. یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے.
پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ). اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں.
انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی.
اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کر دیئے جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں. یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں. ان فلسفوں کا بیان آگے ہوگا۔

جاری۔..
جو کام میں کرنے والا تھا۔وہ آپ نے کر دیا۔ بھائی میرا مشوارہ ہے ۔عقل پرستی کی تمام قسطیں الگ تھریڈ بنا کر کریں۔
 
Top