• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملی مسلم لیگ پاکستان

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جماعۃ الدعوۃ کا سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ


ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
جماعۃ الدعوۃ کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس حوالے سے مشاورت جاری ہیں حتمی اعلان جلد کردیا جائے گا۔ اس تنظیم میں حافظ سعید کا کیا کردار ہوگا اور ممکن طور پر کن جماعتوں سے اتحاد کیا جائے گا، ان سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے۔
جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ حافظ سیعد ان دنوں نظر بند ہیں، انھیں کشمیر میں سرگرم جہادی تنظیم لشکر طیبہ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نومبر 2008 میں انڈین شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد جماعۃ الدعوۃ پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں استاد اور جماعۃ الدعوۃ پر تحقیقی کتاب ’جہاد اور دعوۃ ‘ کتاب کی مصنفہ پروفیسر ثمینہ یاسمین کا کہنا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ نے پچھلے چھ سات سالوں سے ایسے اشارے دینا شروع کردیے تھے کہ وہ سیاست میں آنا چاہ رہے ہیں۔
’انھوں نے اتحاد سازی کی باتیں کرنا شروع کردی تھیں۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جو باقی اسلامی گروپ ہیں ان کے ساتھ مل کر وہ کوئی موقف اختیار کرسکتی ہیں تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ ان کی بھی ایک سیاسی حیثیت ہے۔‘
جماعۃ الدعوۃ کو سیاسی جماعت کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ تنظیم کے ترجمان نے اس کا جواب نہیں دیا تاہم تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں جمہوریت سے جماعۃ الدعوۃ کا ایک نظریاتی اختلاف رہا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سیاسی جماعت ان کی نہیں بلکہ ان کے مہربانوں کی ضرورت ہے۔
’جہادیوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا جو منصوبہ تھا اس کے تحت اسٹیبلشمنٹ جہادیوں کو دوسرے کاموں پر لگا رہی ہے اور ان کی امیج بلڈنگ کی جارہی ہے۔‘
جماعۃ الدعوۃ کا ذکر جہاں بین الاقوامی طور پر جہادی تنظیم کے طور پر ہے وہاں اس کی مقامی شناخت فلاحی کام ہے۔ اس کا ادارہ فلاح انسانیت کراچی اور لاہور سمیت کئی شہروں میں سرگرم ہے، جہاں تعلیم اور صحت کے شعبے کے علاوہ آفات اور حادثات میں رضاکار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
پروفیسر ثمینہ یاسمین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ان کا اثر و رسوخ ہے وہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعۃ الدعوۃ ہی پاکستان کو سمجھتی ہے اور اسی نے لوگوں کی مدد کی، ہسپتال بنائے ہیں۔ اس کے علاوہ جب سیلاب آتے ہیں تو یہ ہی لوگ مدد کرتے ہیں۔ ان کے نکتہ نظر سے جماعۃ الدعوۃ ان کی نمائندگی کر رہی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر جماعۃ الدعوۃ کی سیاسی جماعت کا نام ملی مسلم لیگ موجود ہے جبکہ جماعۃ الدعوۃ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دو تین نام زیر غور ہیں حتمی نام طے نہیں کیا گیا۔
پاکستان میں مسلک کی بنیاد پر کئی جماعتیں موجود ہیں، جن میں اہل سنت و الجماعت، مجلس وحدت مسلمین، سنی تحریک شامل ہیں، اسی طرح جمعیت علما اسلام دیوبند مکتب فکر کی ترجمان جماعت سمجھی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ پورے ملک بالخصوص پنجاب میں اہل سنت و الجماعت کا ووٹ بینک ہے، یعنی ہر ضلعے اور ہر حلقے میں اس کا دس سے پندرہ ہزار ووٹ مل جاتا ہے، اس کے باوجود وہ جھنگ کی ایک نشست کے علاوہ نہیں جیت سکتے۔ اہل حدیث مکتب فکر کے تو اس سے بھی کم ووٹ ہیں ان کا خیال نہیں ہے کہ جماعۃ الدعوۃ مسئلہ پارلیمنٹ میں جانا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ’جماعۃ الدعوۃ کی یہ معاشرے میں ضم ہونے کی ایک کوشش ہے تاکہ اس کی آڑ میں اثر رسوخ بڑھا سکیں اور دوسرا فوج یہ کہہ سکے گی دیکھیں یہ معاشرے میں ضم ہوگئے ہیں یہ عسکریت پسند نہیں۔‘
نوجوان تجزیہ نگار اور صحافی صبوخ سید کا کہنا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ کا تعلق اگرچہ اہلحدیث مسلک سے ہے لیکن انھوں نے شیعہ سنی کے نام پر کام نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے اجتماعات میں تمام مذہب مکاتب فکر کے لوگوں کو بلاتے رہے ہیں، یہ اتحاد کی صورت میں سیاست کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان دفاع کونسل میں ان کی ہم خیال جماعتیں موجود ہیں۔
دفاع پاکستان کاؤنسل 2011 میں سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی فوج کے حملے کے بعد قائم کی گئی تھی، جس میں جماعۃ الدعوۃ، جمعیت علما اسلام، اہل سنت و الجماعت اور جماعت اسلامی سمیت 6 جماعتیں شامل تھیں۔
صبوخ سید کا کہنا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ کا پروگرام یہ تھا کہ حافظ سعید کی نظر بندی ختم ہوجائے گی تو وہ اتحاد کے بارے میں کوشش کریں گے، لیکن ان کی نظربندی میں توسیع کردی گئی ہے۔ اب جب تک وہ رہا ہوکر نہیں آتے حتمی طور پر کچھ نہیں ہوسکتا تاہم حال ہی میں جمعیت علما اسلام ف کے رہنما اور ڈپٹی چیئرمین مولانا غفور حیدری کی جماعۃ دعوۃ کے مرکز کا دورہ اتحاد کی کوشش سے منسلک تھا۔
یاد رہے کہ جمعیت علما اسلام ف بھی مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو فعال اور بحال بنانے کی کوشش میں ہے، تنظیم کی قیادت جمعیت علمائے اسلام سمیع، جماعت اسلامی اور اہل سنت و الجماعت سے رابطے میں ہے۔ صبوخ سید کا کہنا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ جماعۃ الدعوۃ اس اتحاد کا حصہ بنتی ہے یا خود کوئی اتحاد بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جماعۃ الدعوۃ کے سیاست میں آنے کے متعلق خبریں ، ذرا عرصہ سے پہلے ہی گردش میں تھیں ، لیکن جب کچھ رہنماؤں سے رابطہ ہوا ، تو انہوں نے اس بات کی تردید کی ۔ بہر صورت معاملات کچھ نہ کچھ ضرور تھے ، آج تو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں میں انہوں نے کھل کر اس بات کا اظہار کردیا ہے ۔
جماعۃ الدعوۃ وہ جماعت ہے ، جس کا جمہوریت اور سیاست میں شمولیت پر بہت سخت موقف ہوا کرتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ خود جماعۃ الدعوۃ سے تعلق خاطر رکھنے والے کئی لوگوں نے بھی اس پر ناگواری کا اظہار کیا ہے ، ذیل میں جماعۃ الدعوۃ کی سیاست میں شمولیت کے حوالے سے کچھ تحریر نقل کرر ہا ہوں ، تاکہ بطور ریکارڈ محفوظ رہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جماعت سیاست میں آرہی ہے

خبردار........ ہوشیار​
تحریر : راجا عرفان خلیل
ہماری بنیاد اور ہدف کفر کو توڑنا ہے اس مقصد کے لیے ہم نے جانوں کو قربان کیا، امیر غریب سے چندے کی بھیک مانگی، مسئلہ سمجھانے کے لیے در در کو کھٹکایا،اپنوں اور غیروں کے طعنے سنے، حکومتوں اور ملکوں کی پابندیاں سختیاں جھیلیں، جیلوں اور سلاخوں کے منظر دیکھے. امیر محترم سے ملاقات ہوئی، انہی آزمائشوں اور ہمیشہ کی پابندیوں سے بچنے کے لیے تدبیر اختیار کرنے کی بات کی، امیر محترم بتا رہے تھے کہ ہمارا مقصد ہرگز الیکشن لڑنا، ووٹ مانگنا، جمہوریت کے گند میں لتھڑنا، اور انسانوں کے بنائے نظام کا غلام بننا نہیں، ہم رجسٹر ہوکر صرف اپنے اوپر پابندیوں کے دروازے بند کرنا چاہتے ہیں، ہمارا منہج کیا ہے راستہ کیا ہے یہ چودہ سو سال پہلے طے ہو کا ہے. جس پر ہم چل رہے ہیں وہی آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے...... ان شاءاللہ
میں امیر محترم کی ان باتوں سے مطمعین بھی ہوا اور اللہ سے عافیت کی دعا بھی کی.
لیکن.....
کچھ دنوں سے مسؤلین سے میٹنگ اور عوامی لیول پر جماعتی کارکنان کے تبصرے سن کر حیران و پریشان ہوگیا.
حتی کہ جماعت کے بعض نامور علماء اور مفتیان کی گفتگو سن کر بھی اس نتیجے پر پہنچا کہ ہم آزمائشوں کے دور سے گزر رہے ہیں ہمارے بزرگوں کے مقاصد نیک اور نیتیں خالص ہیں، وہ آزمائش کی اس گھڑی میں کراہتاً سیاست کے روپ کو دھار رہی ہے، ورنہ ہم کشمیر میں ابھی تک فرضِ کفایہ ادا نہیں کر سکے، فلسطین کی ماؤں بہنوں کی پکار، شام کی تڑپتی ہوئی امت، برما کے جلتے ہوئے اجسام، روتی ہوئی مسجد اقصی، غزوہ ہند کی قیادت اور صلیبی طاقتوں سے جنگ کے لیے کفایت نہیں کر سکے، ابھی بہت سے قرض چکانے ہیں،

ابھی تو ناپی ہے مٹھی بھر زمین ہم نے
پورا ہندوستان ابھی باقی ہے

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

ابھی تو ان نعروں کی عملی تصویر بننا باقی ہے.
اتنی جلدی ہمیں اپنا فرض اور قرض بھلا کر سیاست، الیکشن اور جمہوریت کی دلدل میں سر تا پیر اترجانا ہمارے لیے غداری، بے وفائی اور بربادی سے کم نہیں.

مجھے نہایت افسوس ہویا جب جماعت کے ان افراد سے ایسی باتیں دلیلیں اور تجاویز سنی جو ابھی تک امیر محترم کو بھی گوارا نہیں، جو ہمارے کئی کارکنان سوچ رہے ہیں یا کرنے جارہے ہیں وہ بلکل وہی گند ہے جس کے خلاف ہم نے دعوت و جہاد کے میدان سجائے تھے. یہی کارکنان آج کھلے دل سے سیاست اور جمہوریت کے ہر پہلو کے دلائل تراش رہے ہیں اور حلال ہونے کے جواز پیش کررہے ہیں کھلے دل سے اس دلدل میں اتر رہے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ ہم دنیا کو دکھانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں. اگر ہمارے کارکنان اور ذمہ دار افراد کی یہی کیفیت رہی تو کل کو معاملہ وہی بن جانا ہے جو آجکل تصویر کے ساتھ بنا ہوا ہے، امراء نے اس کو انتہائی ضرورت کے تحت محتاط استعمال کیا، لیکن انہیں جیسے کارکنان نے اس جواز کو دلیل بناتے ہوئے تصویر کا ایسا سیلاب پیدا کیا کہ آج فیس بک وٹس ایپ، فیکس، اشتہار، ویڈیو، ہر جگہ تصویر لٹکا دی گئی ہے،یہ وہی تصویر تھی جس کو ہم ہی حرام کہتے تھے، لیکن آج حلال کیسے بن گئی؟ صرف اس لیے کہ اس کو مجبوری کی حالت میں امیر استعمال کر چکا ہے؟
صرف یہی معاملہ نہیں بلکہ میوزک، قصر نماز، سنتوں اور نوافل سے غفلت، سر پر امامے یا ٹوپی کا تمسخر، علماء کا عدم احترام، فتوی بازی میں عجلت، بدگمانی اور الزام تراشی کی بہتات، تکفیری، فتنوں کا شکار، جہاد سے نفرت، جیسے القابات کا بے دریغ اور بغیر سوچے سمجھے استعمال...
یہ سب اسلام یا ہمارے اسلاف کی تعلیمات نہیں بلکہ انہوں نے کسی مجبوری مصلحت یا ضرورت کے پیش نظر کسی موقع پر کئے لیکن بعد میں شیطان نے ان کو ہمارا وطیرہ بنا دیا.
ہم نے ان کو اپنی پہچان بنا لیا.
اس لیے سیاست میں آنے سے پہلے اور آنے کے بعد اپنے ماننے والوں کے آگے ایک نہیں ہزار بند باندھنے پڑیں گے ورنہ ہمارے کارکنان کل کو جو کریں گے یا آج جس کے خواب دیکھ رہے ہیں شتر بے مہار جمہوریت الیکشن اور ووٹ کی سیاست میں الجھ جائیں گے جبکہ عین بریلویوں کی طرح ہمارے بڑے بھی کہہ دیں گے کہ ہم نے تو ان کو اس کی اجازت نہیں دی ہم تو ایسا نہیں کہتے ہماری تعلیمات تو یہ نہیں ہیں اگر کہیں ہم نے کہا ہے تو ثبوت دو... جبکہ عوام وہ سب کچھ کرنا شروع کر دے گی جو بریلوی کرتے ہیں اور ان کے بڑے اس تربیت کا انکار کرتے ہیں.. .
اس لیے کارکنان سے گزارش ہے کہ عقل سے کام لیں حق اور باطل کو اپنا معیار سمجھیں دنیا کی رنگینیاں اور مصلحتیں کہیں روشنی سے اندھیروں تک کا سفر نہ بن جائیں. کہیں ہم بھی دوسری جماعتوں کی طرح اپنے اہداف کو بھول کر اپنے مفاد کی جنگ میں الجھ نہ جائیں.
پھر قیامت کے دن ہم خالی ہاتھ رب کے سامنے کھڑے ہوں گے.
ہم ان افراد میں شامل ہوں گے کہ جن کو ایک طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے سامنے جواب دینا پڑے گا دوسری طرف ان نو ہزار شہدا کے سامنے جواب بھی دینا پڑے گا جنہوں نے ہماری دعوت پر اپنی جانیں قربان کر دیں اور ان کے ہاتھ ہمارے گریبان میں بھی ہوں گے کہ ہمیں کس مقصد کے لیے کٹوا دیا اور خود کس راستے پر چل پڑے؟
ہماری جانوں کے نذرانوں کو کیا اسی مقصد کے لیے استعمال کیا گیا؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جماعت الدعوہ کی سیاست میں آمد

ابوبکر قدوسی
جماعت الدعوه کا سیاست میں آنے کا فیصلہ درست بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی - رہا ملی مسلم لیگ یا کوئی اور نام رکھنا یہ محض انتظامی امور ہوتے ہیں ، جن کی اہمیت محض وقتی ہوتی ہے اور بس -
مقام شکر ہے کہ کہ جماعت کے ذمے داران کو احساس ہو گیا کہ معاشرے سے کٹ کے جینا ممکن نہیں -
ان کا یہ فیصلہ غلط نہیں ، غلط ان کی ماضی کی روش تھی کہ جب جمہوریت کے بارے میں تشدد آمیز سوچ کو کارکنوں میں پروان چڑھایا - گو اس وقت یہ بھی ہمارے ان احباب کی "ضرورت " تھی - لیکن تڑکا کچھ زیادہ لگ گیا اور گرم مسالا بھی زیادہ ڈل گیا تھا -
مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ گجرات کے اطراف کے ایک مسول صاحب نے تقریر فرماتے ہووے جذبات میں آ کے کہہ دیا کہ :
"جمہوریت کفر ہے اور اسے ماننے والے کافر ہیں "
اب سامعین میں ایک دوسری قسم کا جیالا بھی بیٹھا ہوا تھا ، اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک شہید اہل حدیث قائد کا ناام لے دیا کہ ان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
اس پر مقرر نے بلا تکلف کہہ دیا کہ :
"میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا ، اس کی زد میں جو آتا ہے آئے "
اس ماحول کو پیدا کر دینے کے سبب جماعت الدعوہ کو یہ فیصلہ کرتے کرتے بہت تاخیر ہوئی - اگر اتنا تلخ ماضی دامن گیر نہ ہوتا تو ممکن ہے جماعت بہت پہلے فیصلہ کر جاتی -
سیاست میں انا اس لیے بھی ضروری تھا کہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ایک معاشرے کا فعال حصہ ہوں اور اس کے عمرانی امور سے کٹے رہیں - یہ تو خود کو محض اچھوت بنانے والی بات تھی - اس کے علاوہ جو عالمی جنگ عالم اسلام میں جاری ہے اور مذہبی طبقہ جس طرح مزاحمت اور پسپائی کا "مکسچر " بنا ہوا ہے ، ایسے ماحول میں کسی کنارے لگنا بھی ضروری تھا - اس لیے نیمے دروں ، نیمے بروں کی کیفیت سے نکلنا بھی ضروری تھا - جماعت عملی طور پر کشمیر کے ماسوا دنیا میں کہیں بھی کسی جہادی سرگرمی کا حصہ نہیں ، بلکہ مناسب ترین الفاظ میں حکمران طبقے کے کیمپ میں شامل ہے جہاں بلا تخصیص جہادی گروہوں کو بتدریج تکفیری اور خارجی قرار دیا جا رہا ہے - جماعت کا اشاعتی ادارہ اس موضوع پر ایک درجن سے بھی زیادہ کتب محض سال بھر میں شائع کر چکا ہے - بلکہ اتنی کتب شاید جہاد کشمیر کے شرعی جواز پر شائع نہیں کی گئیں کہ جو جماعت کا ہوم گراونڈ ہے -
جماعت کو اب اپنے "سیاسی کارکنوں " کو تحمل کی دوائی بھی دینی ہو گی ، کہ سیاست وہ میے خانہ ہے جہاں صبح دوپہر شام پگڑی اچھلتی ہے ، یہاں "شیخ صاحب ، امیر صاحب " جیسے الفاظ محض بے کار بوجھ ہوتے ہیں - یہاں سوال ہوتے ہیں جواب ہوتے ہیں تنقید چلتی ہے - ایسے میں عقیدت کے مارے کارکنوں کو سمجھانا ہو گا کہ اب تنقید کوئی ایسی بڑی شے نہیں رہی کہ کہا جایے کہ " جی اس نے ہمارے امیر صاحب کی توہین کی ہے "-
رہا یہ سوال کہ جماعت انتخابی سیاست میں حصہ لیتی ہے یا نہیں ، یہ قبل از وقت ہے - فیصلہ ہو چکا ہے ، جواز کوئی مشکل امر نہیں -
حصہ لینا کیا ہوتا ہے ؟
حضرت مولانا عبد اللہ بہاولپوری رحمہ اللہ علیہ کہ جن کے نظریات پر جماعت کی نظریاتی عمارت کی پہلی اینٹیں دھری گئیں تھیں ، وہ خود مخصوص حالات میں جمہوری عمل میں حصہ لینے کو جائز سمجھتے تھے اور ان کا عمل اس پر گواہ ہے ، تو ربع صدی سے بھی زیادہ وقت گذر جانے کے بعد ، حالات بدل جانے کے بعد اس سے ایک قدم آگے بڑھنا کتنا مشکل امر ہے ؟-
رہے نظریات ان کی سن لیجیے
اصول اہم ہوتے ہیں لیکن مقاصد اس سے کہیں زیادہ -
مجھے امید ہے آنے والے دنوں میں آپ ایک مضبوط مذہبی جماعت کو میدان میں دیکھیں گے - جس نے بتدریج اور کمال مہارت سے شدت پسندی سے جان چھڑائی ہے - جس کے پاس بے پناہ پوٹینشل کے حامل شاندار ورکر موجود ہیں - ایسے ورکر کے جو طوفان سے لڑ جاتے ہیں ، آگ میں اتر جاتے ہیں ، پہاڑ سے بھڑ جاتے ہیں ...لیکن :
سو ملین ڈالر کا سوال ہے :
کہ کیا سیاسی جماعت کو کوئی یوں چندہ دے گا ؟
کہ ھن کے برسنے پر بارش کا گمان ہو کہ جس میں ہر چھوٹا بڑا بھگا جا رہا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جماعت الدعوۃ ملکی سیاست میں

تحریر : @فلک شیر چیمہ
انیس سو نوے کی دہائی کے آخری سال تھے، جب افغان جہاد سے مجاہدین کی ایک بڑٰ ی تعداد کشمیر کے محاذوں کا رُخ کر رہی تھی۔ ان کی اکثریت پاکستانی پنجاب او ر قبائلی علاقہ جات سے تھی۔ ان میں سے سلفیوں یا معروف اصطلاح میں اہل حدیث نوجوانوں کی ایک مناسب تعداد بھی تھی، جو اس سے قبل افغان محاذوں پہ عربوں اور افغانیوں کے شانہ بشانہ روس سے لڑرہے تھے۔ یہ نوجوان اور ان کے قائدین اسلامی نشاۃ ثانیہ اور اسلام کے حرکی پہلو کے خواب دیکھتے تھے اور مقبوضہ مسلمان خطوں کی آزادی ان کے سامنے پہلا بڑا ہدف تھی۔ سلفی مجاہدین کے انہی گروہوں نے کشمیر میں لشکر طیبہ کے عنوان سے کارروائیاں شروع کیں، جبکہ تنظیمی لحاظ سے پاکستان میں یہ تنظیم، مرکز الدعوۃ والارشاد کے بینر تلے، نوجوانوں کو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کے لیے ابھارتی تھی۔ مرکز الدعوۃ والارشاد ابتدا سے ان تمام آئیڈیلز اور کلچرل مظاہر کی داعی تھی، جو قرون اولیٰ میں اسلامی معاشروں کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا، کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں، جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ مرکزا الدعوۃ والارشاد کی قیادت ابتدا ہی سے انجینیرنگ یونیورسٹی لاہور کے ایک سابق پروفیسر، حافظ محمد سعید کر رہے تھے۔
اگلے بارہ تیرہ سالہ میں مرکزا لدعوۃ والارشاد نے مرید کے میں بڑے اجتماعات منعقد کیے اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف کھینچا۔ روایتی اہل حدیث جماعتوں میں ان نوجوانوں کے لیے وہ کشش اس لیے نہیں رہی تھی، کہ مرکزالدعوۃ والارشاد کا ‘نظام امارت’ انہیں قرون اولیٰ کے زیادہ قریب معلوم ہوتا تھا۔ جمہوری سیاست اور اقتدار کی کشمکش میں مصروف سیاسی جماعتیں بالعموم اور مذہبی سیاسی جماعتیں بالخصوص مرکز کے قائدین اور علماء کا ہدف تنقید رہتے تھے۔گو کہ اس سب کے دوران بھی مرکز کے رہنما اور دیگر جماعتوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کسی نہ کسی حد تک قائم ضرور رہا۔ مرکز اور لشکر طیبہ سے متعلق پاکستانی حکومت پہ امریکہ اور بھارت کا شدید دباؤ رہا۔ ہزاروں نوجوان وادی کشمیر میں لشکر طیبہ کی طرف سے پہنچے اور اپنی جانوں کو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی پہ وار دیا۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا یہ انتہائی اہم مرحلہ تھا اور پاکستانی نوجوانوں کے تازہ خون نے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق اس جائز جدوجہد کو عالمی منظرنامے پہ نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
نائن الیون کے بعد جہادی تنظیموں کے لیے جیسے سب کچھ بدل گیا اور کشمیر کے محاذ پہ بھی پرویز مشرف نے پالیسی بدل لی۔ ایسے میں مرکز الدعوۃ والارشاد کو جماعت الدعوۃ کے نام سے بدل دیا گیا۔ دو ہزارپانچ کے زلزلے کے بعد جماعت الدعوۃ کے رضاکاروں کی ریسکیو، ریلیف اور بحالی کے کاموں نے پوری قوم کی نظریں اپنی طرف مبذول کروا لیں اور یوں جماعت ایک منظم، مخلص اور سنجیدہ ورک فورس کے طور پہ ابھر کر سامنے آئی۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (FIF)کے نام سے جماعت الدعوۃ نے تب سے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ تھر کے صحرا، گلگت بلتستان کے کہسار، بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقے، پنجاب کے میدان، سری لنکا کے سونامی زدہ ساحل، شام فلسطین اور ایتھوپیا کے جنگ اور قحط زدہ لوگ، ان سب تک کسی نہ کسی شکل میں پہنچ کر انسانیت کی خدمت کے لیے جماعت الدعوۃ اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ جماعت کی خدمت خلق کی ان سرگرمیوں کا، عالمی میڈیا، باخبر صحافی اور تما م غیر جانبدار حلقے، سب اعتراف کرتے ہیں۔
ڈکٹیٹر کی پالیسیوں کی وجہ سے جب پاکستان میں ریاست مخالف گروہوں نے سر اٹھایا اور اسے جہاد کا نام دیا، تو جماعت الدعوۃ اس فتنے کی علمی سرکوبی کے لیے شاید سب سے پہلے آگے بڑھی تھی۔ ان گروہوں کی پراپیگنڈہ مہم بڑی مضبوط تھی اور وہ یہی ظاہر کر رہے تھے کہ انہیں صرف ‘اسلام کی سربلندی’سے دلچسپی ہے، گو کہ حقیقت بعد میں واضح ہو گئی، کہ ان کی سربلندی سے کن کن ہمسایہ اور بزعم خود ‘ہر ایک کی ہمسایہ ہونے کی دعویدار ریاست’ کو دلچسپی تھی۔ ایسے میں جماعت الدعوۃ کے کیڈرز میں دوسری جہادی جماعتوں کی نسبت سب سے کم ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ چونکہ سلفی سکول آف تھاٹ کے مطابق ریاست کے حکام کے خلاف خروج انتہائی ناپسندیدہ ہے، اسی وجہ سے انتہائی نامساعد حالات اور طعن و تشنیع سے لے کر جانی نقصان اٹھانے تک کے باوجود بھی جماعت الدعوۃ نے پاکستان میں حملوں اور ریاستی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کی سخت مزاحمت کی۔ ان کا کہنا تھا، کہ کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان پہ ہتھیار اٹھانا حرام ہے۔انہیں اس مؤقف کی وجہ سے ‘سرکاری جہادی’، ‘کنٹرولڈ جہادی’ اور ‘جی ایچ کیو کے بندے’ کہا جاتا رہا ہے۔ بہرحال اس سب کے باوجود جماعت الدعوۃ نے پاکستان میں ریاست یا عوام، مخالف یا موافق، مسلم یا غیر مسلم، کسی کے خلاف کوئی مسلح یا غیر مسلح کارروائی نہیں کی۔ جہاں تک کشمیر میں لشکر طیبہ کی کارروائیوں کا تعلق ہے، تو وہ کشمیر کی جدوجہد آزادی سے متعلق وہی مؤقف رکھتے ہیں، جو ایک عام پاکستانی اور ریاست پاکستان رکھتی ہے۔ ہم دیکھتے رہہے ہیں، کہ ان کے اجتماعات میں اسٹیبلشمنٹ مخالف لوگ بھی اتنے ہی جوش و جذبے اور عقیدت سے شامل ہوتے رہے ہیں اور ہوتے ہیں، جس سے پرو اسٹیبلشمنٹ شامل ہوتے ہیں۔ تمام مسالک کے نمائندگان، صاحبان جبہ و دستار، سیاسی جماعتوں کے نمائندے، این جی اوز کے لوگ اور پروفیشنلز، سب ان کے اسٹیج پہ اکٹھے بیٹھے نظر آتے ہیں۔
جماعت الدعوۃ کے نظریات کسی بھی دائیں بازو کی دیگر جماعت کے نظریات جیسے ہی ہیں اور اس نے دعوت کے میدان میں ارتقائی منازل طے کی ہیں۔ ایک وقت تھا، کہ کہ جماعت کے جلسوں میں تصویر کی اجازت تھی اور نہ مووی بن سکتی تھی۔ ابتدائی ایام میں تو کچھ کارکنان اس قدر شدت اختیار کرتے تھے کہ مخالف مسلک کی مسجد میں نماز پڑھنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔ لیکن امت مسلمہ کے اجتماعی حالات اور دعوت کے میدان میں نرم گرم برداشت کرتے کرتے، گرتے سنبھلتے، دیکھتے بھالتے اور اتفاق و اختلاف کے فلسفہ کی عملی تشریھات و تطبیقات یعنی مختصر لفظوں میں فقہ الدعوۃ کو میدان میں پڑھنے کے بعد آج جماعت الدعوۃ اس جگہ پہنچی ہے، کہ اس کے دو تین بڑے امتیازات میں سے ایک، امت کے مختلف مسالک کو ایک جگہ جمع کرنا اور اختلاف کو ختم کرنے کی عملی کوششیں کرنا ہے۔
اب آتے ہیں اس مسئلہ کی طرف جس سے ہمیں بالخصوص گفتگو کرنا ہے، یعنی جماعت الدعوۃ کا مستقبل قریب میں ایک سیاسی جماعت کے طور پہ انتخابی سیاست میں داخل ہونا۔ شنید ہے کہ ہفتہ عشرہ میں “ملی مسلم لیگ پاکستان ” کے نام سے ایک سیاسی جماعت کا اعلان ہونے والا ہے، جس کے چیرمین، جماعت الدعوۃ کے ذیلی ادارے ‘فلاح انسانیت فاؤنڈیشن’ کے موجودہ صدر حافظ عبدالرؤف ہوں گے۔
جماعت الدعوۃ چونکہ انتہائی سختی سے جمہوری سیاست کی مخالفت کرتی رہی ہے، اس لیے بار بار کی پابندیوں اور پکڑ دھکڑ کے باوجود اسے ایک کور کے طور پہ بھی خود کو ایک سیاسی جماعت کے طور پہ سامنے لانا آسان نہیں رہا۔ جماعت کے سامنے یہ چیلنج کچھ عرصہ سے تھا، کہ اندریں حالات، جب اس کے تعلیمی، فلاحی اور مذہبی سیٹ اپ کو بار بار بیرونی دباؤ کے باعث اکھاڑ پچھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ کیسے خود کو ایک جمہوری جماعت کے طور پہ پیش کرے اور اس دباؤ سے جان چھڑانے کی کچھ سبیل کرے، جب کہ وہ اس طرز حکومت اور سیاست کی شدید ترین ناقد رہی ہے۔ البتہ اس سب کے دوران دوسری مذہبی سیاسی جماعات نے جماعت الدعوہ کی قیادت کو اس طرف قائل و مائل کرنے کی کوشش جاری رکھی۔2013ء کے انتخابات سے پہلے بھی ایسی ایک کوشش کی گئی، جو بہرحال کامیاب نہ ہو سکی۔ ایک ایشو یہ بھی تھا، کہ کارکنان کی ایک بڑی تعداد کے بددل ہونے کا خدشہ تھا۔ پھر یہ بھی کہ ہمعصر مذہبی سیاسی جماعتیں، بالخصوص اہل حدیث فکر کی حامل اور ذہنی طور پہ القاعدہ کی فکر کے قریب نوجوانوں کی طرفف سے استہزاء و تضحیک کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ، جیسا کہ ہم اسے سوشل میڈیا میں شروع ہوا دیکھ بھی چکے ہیں۔ اس سب کے باوجود میری دانست میں جماعت کی قیادت نے ایک عمدہ فیصلہ کیا ہے۔ اسلام کو بطور نظام ریاست کے تمام شعبوں میں فائق اور معمول بہ دیکھنے کے خواہش مند ہر گروہ اور فرد کو سمجھنا چاہیے کہ جماعت الدعوۃ کے فکری ارتقاء کی یہ ایک اہم منزل ہے۔ انہوں نے بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ سمجھ لیا ہے کہ منزل واضح ہو، تو سٹریٹیجی تبدیل کی جا سکتی ہے۔ سٹریٹجی کو مائع (Fluid)رکھنا ویسے بھی زندہ تحاریک کی نشانی ہے۔ جمہوریت کے اندر بہت سی خامیاں ہیں اور ان خامیوں کی نشاندہی صرف جماعت الدعوۃ ہی نہیں کرتی چلی آ رہی، خود مغرب کے علمی حلقوں سے ایسی توانا آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔جماعت الدعوۃ کی قیادت اگر ان کی طرف اشارہ کرتی رہی ہے اور حق جان کر کرتی رہی ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اب جماعت الدعوۃ نے اگر یہ سمجھ لیا ہے، کہ معاشرے کی اجتماعی صورت گری کے لیے تحریکی حلقوں کا سیاسی ہونا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے، تو اس سے بہتر بات اور کیا ہو گی۔ وہ لاکھوں نوجوان، جو جماعت کے حلقوں سے وابستہ ہیں، انہیں مثبت سیاسی سرگرمی کے ذریعے اپنے وطن کی فلاح و بہبود میں ہاتھ بٹانے کا موقع ملے، اس سے بہتر کیا ہو گا۔اسلامی تحاریک کے کارکنان خلا میں نہیں رہ سکتے، انہیں جس پراڈکٹ کو تیار کرنا ہے، اگر اسے میدان عمل ہی نہ مل پائے، تو ڈیپریشن دور کرنے کے جو متبادل میدان میسر ہیں، ان کے تعمیری یا تخریبی ہونے کا فیصلہ اصحابِ دانش بخوبی کر سکتے ہیں۔
حافظ عبدالرؤف صاحب شب زندہ دار آدمی ہیں، خوبصورت اور انتہائی متحرک، صالحیت و صلاحیت کا بہترین متوازن نمونہ۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو ایک عالمی سطح کی این جی او بنانے میں حافظ عبدالرؤف کی بصیرت اور انتطامی صلاحیتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ دن رات سفر میں رہنے والا یہ آدمی آواران میں ناراض بلوچوں کے ہاتھوں رسیوں میں بندھا رہا، کہ وہ سیلاب کے بعد ریلیف کا کام کرنے نہیں دینا چاہ رہے تھے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پلٹے اور حافظ صاحب کو چند شرائط کے ساتھ کام کی اجازت دی، آج ان تمام علاقوں میں، جہاں پاکستانی پرچم تک نہیں لہراتا تھا، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور اس کے توسط سے پاکستان کا پھریرا لہراتا ہے۔ خدمت تو گویا ان کی گھٹی میں ہے اور عاجزی طرہ امتیاز۔ جماعت الدعوۃ کی قیادت نے ایک عمدہ آدمی اس اہم مہم کے لیے منتخب کیا ہے۔
اب کچھ باتیں دیگر مذہبی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور کارکنان کے ردعمل کی،۔ مجھے امید ہے، کہ جس رستے کو وہ امت مسلمہ اور مسلمانان پاکستان کی اجتماعی فلاح کے لیے درست سمجھتے تھے، اب جب کہ علی وجہ البصیرت جماعت الدعوۃ اس رستے پہ آئی ہے، تو وہ ان کا کھلے دل سے استقبال کریں گے اور رہنمائی بھی۔ اگر ان کا مشن حق تھا اور اس پہ ان کے ساتھ چلنے ایک اور گروہ آن پہنچا ہے، تو ان کا کردار طے کرے گا کہ وہ پہلے اپنی تنقید میں سچے تھے یانہیں۔ مجھے علم ہے کہ دیگر جماعتوں کی قیادت نے جماعت الدعوۃ کو اس طرف لانے اور اس مشکل فیصلہ تک پہنچنے میں کس قدر کمک پہنچائی ہے۔ مستقبل قریب کی سیاسی صف بندی اس پہ مہر تصدیق ثابت کر دے گی ان شاءاللہ۔جماعت الدعوۃ کے کارکنان کے لیے شاید یہ ایک بڑا دھچکا ہو، لیکن انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان حالات میں اس سے بہتر فیصلہ شاید ممکن نہ تھا۔
جماعت الدعوۃ کے لیے یہ ایک لمبے اور مشکل سفر کا آغاز ہے، اس کا سٹرکچر، نظم اور تربیتی نظام نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔کارکنان، ارکان اور محبت کرنے والوں کو باقاعدہ تنظیم سازی کے عمل سے گزار کر جدید سیاسی مشین کے طور پہ کامیاب کرنے کا عمل انتہائی لازمی ہے۔میرے خیال میں جماعت الدعوۃ کی سینیر قیادت نے اگلی نسل کو اختیارات منتقل کرنے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ایسے transitory مرحلے میں انتہائی احتیاط سے پرانے کارکنان کو جمع رکھنے اور نئے والوں کو قریب کرنے کے لیے سائنسی بنیادوں پہ تنظیم سازی کی ضرورتہے۔ پہلے سے موجود ڈھیلے ڈھالے سٹرکچر سے پرانا کام تو چل سکتا تھا، نیا کام بالکل مختلف اور الگ حرکیات کا متقاضی ہے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت اور آزاد فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کی صلاحیت کی حامل جماعت، جسے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اہل اور قابل افراد کو اپنی طرف راغب کرنا ہے۔ جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون سے سیکھنے میں کوئی باق نہیں ہونا چاہیے۔ رہے حزب النور بننے کے طعنے اور اسٹیبلشمنٹ کی مسلم لیگ کا ٹیگ لگانے والے دوست، تو یاد رکھیے، ان بھائیوں سے آپ کو محبت سے پیش آنے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ ردعمل کی سیاست کرنے والے سیاسی رہنما اور جماعتیں زیادہ وقت تک منظر پہ نہیں رہ پاتیں۔
آخر میں ملخص یہی کہ جماعت الدعوۃ کی قیادت نے بالغ نظری کا مظاہری کرتے ہوئے اپنے زیر اثر حلقوں کو تخریب کی بجائے تعمیر کے کاموں میں مشغول کرنے کے لیے “ملی مسلم لیگ” کے قیام کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ ہماری نظر میں انتہائی درست، مبنی بر بصیرت اور ملک و ملت کے لیے مفید ہے۔ ہم تمام سیاسی حلقوں، بالخصوص مذہبی جماعتوں کے قائدین و کارکنان سے امید رکھتے ہیں، کہ وہ کھلے دل اور باہوں سے ان کا استقبال کریں گے اور سرحدوں پہ چھائے خطرات اور اندرونی خلفشار کو ختم کرنے، ملک کو جدید اسلامی فلاحی ریست بنانے میں ان بھائیوں کو مثبت کردار کرنے کے اس نئے سفر پہ خوش آمدید کہیں گے اور رہنمائی کریں گے۔​
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
1995--1996 ء کی شاید بات ہے :
علامہ حافظ عبدالحمیدازہر ؒ ، شیخ مکرم حافظ زبیر علی زئی ؒ ، شیخ طالب الرحمن صاحب اور دیگر کچھ اصحاب گرامی رات گئے اسلام آباد کے ایک مضافاتی علاقہ میں اگلی صبح کے انتظار میں تشریف فرما تھے ، صبح تقلید پرمناظرہ تھا ،
حاضرین میں متنوع موضوعات پر گفتگو ہورہی تھی ، کسی نے جہادیوں اور " جاری جہاد " کے متعلق حضرت حافظ عبدالحمید رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کردیا ،
حافظ صاحب نے اپنے مخصوص دھیمے ،میٹھے لہجے میں اسٹیبلشمنٹ اور دیگر اداروں کی ضرورتوں اور مقاصد کا ذکرکیا ،
اور اسی پس منظر میں انجینئرنگ یونیورسٹی سے نکلنے والی جہادی تنظیم کا تعارف بھی کروایا ، اور ان کے پس پشت کار فرما قوتوں کی طرف توجہ دلائی ،
بعد میں وقت نے مشاہدہ کی سکرین پر تقریباً وہی مناظر دکھائے جو انکی زبان سے سنے تھے ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ماضی میں جمہوریت سے جماعۃ الدعوۃ کا ایک نظریاتی اختلاف رہا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سیاسی جماعت ان کی نہیں بلکہ ان کے مہربانوں کی ضرورت ہے۔
’جہادیوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا جو منصوبہ تھا اس کے تحت اسٹیبلشمنٹ جہادیوں کو دوسرے کاموں پر لگا رہی ہے اور ان کی امیج بلڈنگ کی جارہی ہے۔‘
ان کا یہ فیصلہ غلط نہیں ، غلط ان کی ماضی کی روش تھی کہ جب جمہوریت کے بارے میں تشدد آمیز سوچ کو کارکنوں میں پروان چڑھایا - گو اس وقت یہ بھی ہمارے ان احباب کی "ضرورت " تھی - لیکن تڑکا کچھ زیادہ لگ گیا اور گرم مسالا بھی زیادہ ڈل گیا تھا -
پاکستانی سیاست اور مروج جمہوریت کے متعلق ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ :

ہم ہوئے ، تم ہوئے ،کہ میر ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جماعت الدعوہ پاکستان کا نہیں امت کا اثاثہ ہے سیاست میں آنے کا فیصلہ ضرور کرے اور مذہبی جماعتوں کی سیاست میں ہراول دستہ کا کردار ادا کرے ۔ ۔ ۔جماعت الدعوہ کے سیاست میں آنے سے پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو فائدہ ہوگا۔ ۔ عوام کرپٹ سیاست دانوں چوروں لٹیروں سے بے زار ہو چکی ہے حقیقی عوامی نمائندگی کا حق صاف ستھرے اور دینی روایت کے امین لوگوں کو جب تک نہیں ملے گا مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ۔ ۔پاکستان کا نظریہ اسلام ہے اور رہے گا لیکن حکمران بھی اسی نظریہ سے مطابقت رکھنے والا ہوگا تو وطن عزیز حقیقی مقصد کے حصول کی طرف گامزن ہو سکے گا۔
ہشام الہی ظہیر
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
اسلام آباد( )

ملی مسلم لیگ کے نام سے نئی سیاسی پارٹی قائم کر دی گئی۔ الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کیلئے درخواست جمع کروانے کے بعد تنظیمی ڈھانچہ کا اعلان کر دیا گیا۔تنظیم کے رہنماﺅںنے پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نظریہ پاکستان کی سوچ رکھنے والی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر وسیع اتحاد قائم کریں گے۔سیاستدانوں کی جانب سے اپنی اصلاح کی بجائے آئین کی دفعہ 62، 63کو ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘ یہ روش درست نہیں ہے۔ کشمیری تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ملی مسلم لیگ تحریک آزادی کشمیر کیخلاف سازشیں ناکام بنانے کیلئے بھرپور کردارا دا کرے گی۔ خواتین کو ملی مسلم لیگ میں بھرپور نمائندگی دیں گے۔اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کا سب سے زیادہ تحفظ کیا ہے۔کشمیریوں کے محسن حافظ محمد سعید و دیگر رہنماﺅں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ پاکستان میں 73ءکے آئین کے مطابق کتاب و سنت کو بالادستی حاصل ہے۔ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے‘ کے تحت سیاست کریں گے۔ ہماری سیاست خدمت انسانیت ہے۔ ہم لسانی و گروہی بنیادوں پر پارٹی بازی کی سیاست کو درست نہیں سمجھتے۔ منظم منصو بہ بندی کے تحت ملک کو لبرل ازم اور سیکولرازم کے راستہ پر ڈالا جارہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں نظریہ پاکستان کو نصاب تعلیم کی بنیاد بنانا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار ملی مسلم لیگ پاکستان کے صدر سیف اللہ خالدنے اسلام آباد میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سیکرٹری جنرل شیخ فیاض احمد، نائب صدر مزمل اقبال ہاشمی، سیکرٹری انفارمیشن تابش قیوم، فنانس سیکرٹری محمد احسان، سیکرٹر ی پبلیکیشن فیصل ندیم،جوائنٹ سیکرٹری انجینئر محمد حارث اور حق نواز گھمن بھی موجود تھے۔ ملی مسلم لیگ کے صدر سیف اللہ خالد نے کہاکہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ملک ہے جس کی بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کا لہو شامل ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی قیادت میں جس مقصد کیلئے اس ملک کی بنیاد رکھی گئی آج ستر برس گزرنے کے بعد بھی ہمیں وہ صورتحال نظر نہیں آتی ۔بیرونی قوتیں سازش کے تحت ملک میں علاقائیت، وطنیت پرستی اور فرقہ واریت پروان چڑھانے کیلئے بے پناہ سرمایہ خرچ کر رہی ہیں۔ غیر ملکی مداخلت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ پیشہ وارانہ مقاصد کیلئے سیاست کرتا ہے۔ یہی لوگ پارٹیاں بدلتے ہیں، حکومتیں بناتے اور اپوزیشن میں نظر آتے ہیں۔ ملک میں اصلاح کا کوئی ماحول سرے سے نظر نہیں آتاجس کی وجہ سے کرپشن اور لاقانونیت کی انتہاہو چکی ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر بہت شدت سے یہ بات محسوس کی جارہی تھی کہ اس ملک کی تعمیر نو کی جائے اور ایسا پاکستان تشکیل دیا جائے جس کا خواب قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال سمیت مسلم لیگ کے قائدین و کارکنان نے ستر سال پہلے سوچا تھا۔ لہٰذا ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ”ملی مسلم لیگ“ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا گیاہے تاکہ پاکستان کوحقیقی معنوں میں ایک اسلامی، رفاہی وفلاحی ملک بنایا جاسکے اور وطن عزیز کو درپیش مسائل کا حل بہتر انداز میں تلاش کیا جاسکے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی غیر ملکی مداخلت سے تخریب کاری و دہشت گردی خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اتحادو یگانگت کا ماحول نہیں ہے اور دشمن وطن عزیز کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں میں کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت ایک خلا کی کیفیت ہے جسے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے پاس اللہ کے فضل و کرم سے نظریہ پاکستان کا ہتھیار ہے۔ اسی بنیادی نظریہ کی بنیاد پر قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے کر وڑوں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیاتھا۔ ہم بھی ان شاءاللہ اسی نظریہ پاکستان لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ذریعہ علاقائیت، لسانیت اور صوبائیت ختم کر کے ملک میں اتحاد کی فضا پیدا کریں گے۔ہم نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے‘ کے تحت نوجوان نسل کی تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ سیف اللہ خالد نے کہاکہ 1973ءکے آئین میں کتاب وسنت کو بالاتر قانون کی حیثیت حاصل ہے لیکن دیکھا جائے تو پاکستان میں آج اس کی عملی شکل نظر نہیں آتی۔سود کی شکل میں اللہ کے احکامات کی صریح خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ پاکستان کے آئین میں یہ بات طے ہے کہ اس ملک کے منتخب نمائندے، حکمران اور سیاستدان صادق اور امین ہونے چاہئیں مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ سیاستدانوں کی جانب سے اپنی اصلاح کی بجائے آئین کی دفعہ 62، 63کو ہی سرے سے ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔یعنی اقتدار پر قابض بعض لوگ کرپشن کو قانونی حیثیت دینے کی کوششیںکر رہے ہیں۔ ہم آئین پاکستان کی روشنی میں اس ملک کو لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر اسلامی فلاحی ریاست بنانا اور پسے ہوئے طبقات کی محرومیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ بانی پاکستان کے اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیری مسلمان صرف اپنی ہی نہیں بلکہ تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ہم تحریک آزادی کشمیر میں پیش کی گئی کشمیری شہداءکی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں اور ان کی ہر ممکن مد د وحمایت پوری مسلم امہ پر فرض سمجھتے ہیں۔ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کا حق خودارادیت ملنا چاہیے۔ حکمرانوں و سیاستدانوں نے جدوجہد آزادی کشمیر کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔ملی مسلم لیگ اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کیخلاف جاری سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے پاکستانی قوم کے تعاون سے بھرپور کردارادا کیا جائے گا ۔اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کا سب سے زیادہ تحفظ کیا اور خواتین کو معاشرے میں بلند مقام اور عزت و مرتبہ عطا کیا ہے۔ نام نہاد این جی اوز کا اس حوالہ سے پروپیگنڈا درست نہیں ہے۔ ہماری سیاست خدمت انسانیت ہے۔ ہم لسانی و گروہی بنیادوں پر پارٹی بازی کی سیاست کو درست نہیں سمجھتے۔ ہم اقتدار کا حصول نہیں معاشرے کی اصلاح اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر ترقی کے راستے پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیف اللہ خا لد نے کہاکہ پاکستانی سیاست میں غریب اور متوسط طبقہ کی نمائندگی تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر کسی غریب خاندان سے تعلق رکھنے والا کوئی پڑھا لکھا فرد اسمبلی کی سیٹ جیت لیتا ہے تواس کیلئے مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں۔ چندایک سال جب وہ اسمبلی کا ماحول دیکھتاہے تو وہ بھی اپنی ساری صلاحیتیں دولت کمانے کیلئے صرف کرنا شروع کر دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک دوالیکشن کے بعد وہ بھی امیر بن جاتا ہے۔ روایتی سیاستدانوں والی خرابیاں اس میں بھی پیدا ہو جاتی ہیں اور اس کا شمار بھی علاقہ کے بااثر لوگوں میں ہونے لگتا ہے۔ہماری کوشش ہو گی کہ اس ملک میں ایک نئی قیادت لائیں جس کی بنیاد دولت نہیں اہلیت ہو۔ہم سمجھتے ہیں کہ خاندانی نظام اور برادری ازم کی بنیادپر الیکشن لڑنے اور باپ کے بعد بیٹا اور پھر بیٹی کے اقتدار سنبھالنے کے یہ سلسلے ختم ہونے چاہئیں۔ ہم لوگوں کی تربیت کر کے اور انکی صلاحیتیں نکھا ر کے ایسی قیادت سامنے لائیں گے جو واقعتا صحیح معنوں میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہو۔ ہم قوم کے سامنے ایسا لائحہ عمل پیش کرنا چاہتے ہیں کہ کوئی ملکی وسائل کی لوٹ مار کر کے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا اور لوگوں کے حقوق غصب نہ کر سکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ خواتین اس معاشرے کا پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہیں،انہیں ملی مسلم لیگ بھر پور نمائندگی دے گی۔73کا آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت کا قانون چلے گا۔ہم73کے آئین کے تحت اصلاح کرکے پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنائیں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اصول و ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے رجسٹریشن کے لئے درخواست جمع کروا دی ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں سیف اللہ خالد نے کہاکہ بھارت ہمارا دشمن ہے جس نے کلبھوشن کو پاکستان بھیجا اور پاکستان میں اس نے دہشت گردی کروائی ۔ستر سال گزر گئے لیکن بھارت نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ۔بھارت پاکستان کا پانی بھی روک کروطن عزیز کو بنجر بنانا چاہتا ہے۔بلوچستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کو بھی بھارت نے تسلیم کیا وہ پاکستان کا دشمن ہے۔جماعةالدعوة کے حوالہ سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سیف اللہ خالد نے کہاکہ جماعة الدعوة گزشتہ تیس برس سے ملک میں تعلیم و تربیت اور خدمت خلق کا کام کر رہی ہے۔وہ اسی جذبے اور ولولے کے ساتھ کام جاری رکھے گی جبکہ ملی مسلم لیگ ایک مستقل جماعت ہے جو قومی سطح سے لے کر یوسی تک مکمل بااختیار ہے۔ملی مسلم لیگ جماعة الدعوة و دیگر برادر جماعتوں کے تعاون سے ملک گیر سطح پر وسیع اتحاد قائم کرے گی۔حافظ محمد سعید کے ملی مسلم لیگ میں کردار کے حوالہ سے پوچھے گئے سوال کے جوب میں انہوں نے کہا کہ حافظ محمد سعید کو نظربند کیا گیا ہے وہ پاکستانی و کشمیری قوم کے محسن ہیں انہیں فوری باعزت رہا کرنا چاہئے۔وہ عدالتوں سے سرخرو ہوئے ہیں۔چھ مہینے کے بعد مزید دو ماہ کی نظربندی میں توسیع کر دی گئی ہے ۔انکی رہائی کے فیصلہ ہو گا کہ ملی مسلم لیگ کے لئے وہ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

منقول
 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
سیاسی پارٹی بنانے کا ارادہ نہیں ہے‘


4 اگست 2012 07:19 PST

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

جماعت الدعوۃ کے سربراہ اور دفاع پاکستان کونسل کے راہنما حافظ محمد سعید کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو سیاسی آدمی ہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رفاہی کام اور ملکی دفاع ان کی اولین ترجیح ہے اور اسی پر ان کی توجہ مرکوز ہے۔

بی بی سی نیوز کے احمد ولی مجیب کے مطابق جمعہ کو کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں ووٹ دینے کے بارے میں ان کے کارکن اور حامی آزاد ہیں۔ وہ جس کو چاہے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ان کے حامی جماعت اسلامی اور مسلم لیگ نواز کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔اب بھی کارکنان اپنی مرضی سے ووٹ دینے کے لیے آزاد ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ اب تحریک انصاف بھی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جسے جماعت الدعوۃ کے کارکن ووٹ دے سکتے ہیں۔

بقول ان کے یہ کارکنوں کی اپنی مرضی ہے اور تنظیم کی طرف سے ان پر کوئی پابندی نہیں۔

جماعت الدعوۃ حالیہ برسوں میں ملک بھر میں رفاہی کاموں کے حوالے سے انتہائی متحرک اور فعال نظر آتی ہے۔

حافظ سعید کے مطابق ملک کے بہت سے علاقوں میں جماعت الدعوۃ کا طبی عملہ کام کر رہا ہے۔

ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سمیت خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقوں میں رفاہی سرگرمیوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔

جماعت الدعوۃ کے ووٹ کی عام انتخابات میں کتنی اہمیت ہے۔

اس پر معروف صحافی اور تجزیہ نگار قیصر محمود کا کہنا تھا کہ جماعت الدعوۃ بعض حوالوں سے ایک موثر قوت نظر آتی ہے لیکن اسے ایسی سیاسی قوت کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا جس کا ووٹ انتخابی نتائج پر زیادہ اثر انداز ہو سکے۔

جماعت الدعوۃ کے سربراہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب ایک طرف توملک میں نئے انتخابات کے امکانات بڑھ رہے ہیں تو وہیں حافظ سعید نے ملک کی مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے نیٹو رسد کی بحالی کے فیصلے کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔

نیٹو سپلائی کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ تو جاری ہے۔

دفاع پاکستان کونسل نے رمضان کے بعد سپلائی کے مزاحمت کے لیے بھر پور احتجاجی تحریک کا اعلان کر رکھا ہے۔

حافظ سعید کا کہنا ہے کہ تحریک کا آغاز کراچی سے شروع ہونے والے لانگ مارچ سے کیا جائے گا اور حکومتی فیصلے خلاف مزاحمت کی جائے گی۔

حافظ سعید کہنا تھا کہ وہ کسی بھی صورت پر نیٹو سپلائی کی بحالی کو تسلیم نہیں کرتے۔

امریکا کو حافظ سعید اور ان کی تنظیم کی سرگرمیوں کے حوالے شدید تحفظات ہیں جس کا اظہار اکثر اعلیٰ امریکی عہد دار کرتے ہیں۔

جب کہ بھارت کھل کر حافظ سعید اور ان کی تنظیم پر بھارت میں دہشت گردی کا الزام عائد کرتا ہے۔

لنک:

http://www.bbc.com/urdu/mobile/pakistan/2012/08/120804_hafiz_saeed_political_zz.shtml

 
Top