- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,472
- پوائنٹ
- 964
جماعۃ الدعوۃ کا سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
جماعۃ الدعوۃ کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس حوالے سے مشاورت جاری ہیں حتمی اعلان جلد کردیا جائے گا۔ اس تنظیم میں حافظ سعید کا کیا کردار ہوگا اور ممکن طور پر کن جماعتوں سے اتحاد کیا جائے گا، ان سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے۔
جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ حافظ سیعد ان دنوں نظر بند ہیں، انھیں کشمیر میں سرگرم جہادی تنظیم لشکر طیبہ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نومبر 2008 میں انڈین شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد جماعۃ الدعوۃ پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں استاد اور جماعۃ الدعوۃ پر تحقیقی کتاب ’جہاد اور دعوۃ ‘ کتاب کی مصنفہ پروفیسر ثمینہ یاسمین کا کہنا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ نے پچھلے چھ سات سالوں سے ایسے اشارے دینا شروع کردیے تھے کہ وہ سیاست میں آنا چاہ رہے ہیں۔
’انھوں نے اتحاد سازی کی باتیں کرنا شروع کردی تھیں۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جو باقی اسلامی گروپ ہیں ان کے ساتھ مل کر وہ کوئی موقف اختیار کرسکتی ہیں تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ ان کی بھی ایک سیاسی حیثیت ہے۔‘
جماعۃ الدعوۃ کو سیاسی جماعت کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ تنظیم کے ترجمان نے اس کا جواب نہیں دیا تاہم تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں جمہوریت سے جماعۃ الدعوۃ کا ایک نظریاتی اختلاف رہا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سیاسی جماعت ان کی نہیں بلکہ ان کے مہربانوں کی ضرورت ہے۔
’جہادیوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا جو منصوبہ تھا اس کے تحت اسٹیبلشمنٹ جہادیوں کو دوسرے کاموں پر لگا رہی ہے اور ان کی امیج بلڈنگ کی جارہی ہے۔‘
جماعۃ الدعوۃ کا ذکر جہاں بین الاقوامی طور پر جہادی تنظیم کے طور پر ہے وہاں اس کی مقامی شناخت فلاحی کام ہے۔ اس کا ادارہ فلاح انسانیت کراچی اور لاہور سمیت کئی شہروں میں سرگرم ہے، جہاں تعلیم اور صحت کے شعبے کے علاوہ آفات اور حادثات میں رضاکار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
پروفیسر ثمینہ یاسمین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ان کا اثر و رسوخ ہے وہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعۃ الدعوۃ ہی پاکستان کو سمجھتی ہے اور اسی نے لوگوں کی مدد کی، ہسپتال بنائے ہیں۔ اس کے علاوہ جب سیلاب آتے ہیں تو یہ ہی لوگ مدد کرتے ہیں۔ ان کے نکتہ نظر سے جماعۃ الدعوۃ ان کی نمائندگی کر رہی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر جماعۃ الدعوۃ کی سیاسی جماعت کا نام ملی مسلم لیگ موجود ہے جبکہ جماعۃ الدعوۃ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دو تین نام زیر غور ہیں حتمی نام طے نہیں کیا گیا۔
پاکستان میں مسلک کی بنیاد پر کئی جماعتیں موجود ہیں، جن میں اہل سنت و الجماعت، مجلس وحدت مسلمین، سنی تحریک شامل ہیں، اسی طرح جمعیت علما اسلام دیوبند مکتب فکر کی ترجمان جماعت سمجھی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ پورے ملک بالخصوص پنجاب میں اہل سنت و الجماعت کا ووٹ بینک ہے، یعنی ہر ضلعے اور ہر حلقے میں اس کا دس سے پندرہ ہزار ووٹ مل جاتا ہے، اس کے باوجود وہ جھنگ کی ایک نشست کے علاوہ نہیں جیت سکتے۔ اہل حدیث مکتب فکر کے تو اس سے بھی کم ووٹ ہیں ان کا خیال نہیں ہے کہ جماعۃ الدعوۃ مسئلہ پارلیمنٹ میں جانا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ’جماعۃ الدعوۃ کی یہ معاشرے میں ضم ہونے کی ایک کوشش ہے تاکہ اس کی آڑ میں اثر رسوخ بڑھا سکیں اور دوسرا فوج یہ کہہ سکے گی دیکھیں یہ معاشرے میں ضم ہوگئے ہیں یہ عسکریت پسند نہیں۔‘
نوجوان تجزیہ نگار اور صحافی صبوخ سید کا کہنا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ کا تعلق اگرچہ اہلحدیث مسلک سے ہے لیکن انھوں نے شیعہ سنی کے نام پر کام نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے اجتماعات میں تمام مذہب مکاتب فکر کے لوگوں کو بلاتے رہے ہیں، یہ اتحاد کی صورت میں سیاست کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان دفاع کونسل میں ان کی ہم خیال جماعتیں موجود ہیں۔
دفاع پاکستان کاؤنسل 2011 میں سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی فوج کے حملے کے بعد قائم کی گئی تھی، جس میں جماعۃ الدعوۃ، جمعیت علما اسلام، اہل سنت و الجماعت اور جماعت اسلامی سمیت 6 جماعتیں شامل تھیں۔
صبوخ سید کا کہنا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ کا پروگرام یہ تھا کہ حافظ سعید کی نظر بندی ختم ہوجائے گی تو وہ اتحاد کے بارے میں کوشش کریں گے، لیکن ان کی نظربندی میں توسیع کردی گئی ہے۔ اب جب تک وہ رہا ہوکر نہیں آتے حتمی طور پر کچھ نہیں ہوسکتا تاہم حال ہی میں جمعیت علما اسلام ف کے رہنما اور ڈپٹی چیئرمین مولانا غفور حیدری کی جماعۃ دعوۃ کے مرکز کا دورہ اتحاد کی کوشش سے منسلک تھا۔
یاد رہے کہ جمعیت علما اسلام ف بھی مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو فعال اور بحال بنانے کی کوشش میں ہے، تنظیم کی قیادت جمعیت علمائے اسلام سمیع، جماعت اسلامی اور اہل سنت و الجماعت سے رابطے میں ہے۔ صبوخ سید کا کہنا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ جماعۃ الدعوۃ اس اتحاد کا حصہ بنتی ہے یا خود کوئی اتحاد بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔