• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملی گزٹ(ظفرالاسلام خان) کی استشراقیت: شیخ عبدالمعید مدنی (علی گڑھ)

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
ملی گزٹ(ظفرالاسلام خان) کی استشراقیت
فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ (علی گڑھ)
نیویارک ٹائمزاگست ۱۹، ۲۰۱۲ کے شمارے میں روبن رائٹ Robin Wrightکا ایک مضمون چھپا، تمام اسلام پسندوں سے مت ڈرو، سلفیوں سے ڈروDont fear all islamist Fear Salafisواشنگٹن کے روزنامہ میں ایک دشمن اسلام یہودی یاعیسائی کا یہ مضمون چھپتاہے اوراسے ڈاکٹر ظفرالاسلام صاحب مال غنیمت بنالیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے دل کی دھڑکن شامل ہوجاتی ہے اوربڑی چاہت اورچاؤ سے اس فٹیچرسے مضمون کواپنے پندرہ روزہ ملی گزٹ شمارہ ۱۔۱۵ستمبر۲۰۱۲ کے صفحہ ۲۰؍پرسجادیتے ہیں۔ امریکن یا یورپین عیسائی یا یہودی خاتون مضمون نگار پرتعجب نہیں ہے، اس لیے کہ ان کا مشن ہی ہے حقائق کوتوڑمروڑکر پیش کرنا۔ جوقوم تثلیث اورمصلوبیت مسیح کے دنیا کے گھٹیا ترین نظریات کی قائل ہے اوردنیا کے اخبث ترین شرک پرعقیدہ رکھتی ہے یا جوجو قوم انبیاء کا قاتل تسلیم کی گئی ہے ان سے کسی خیر کی امید کرنا عبث ہے۔
حیرت ہے وحیدالدین خان صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان پر۔ انہوں نے نیویارک ٹائمزکے مضمون نگار کے مضمون پر جولاحقہ لگایاہے وہ سوء ظن ، جھوٹی تعلی اور حزبیت کا اعلیٰ شاہکار ہے اورساتھ ہی بے خبری اورنادانی کا آئینہ دار ہے۔ انھیں ایک استشراقی انداز کے خبیث ترین مضمون کو لقمہ تربناکر ہضم کرتے برانہیں لگا۔
اس تمہید کے بعدآئیے دیکھیں روبن رائٹ کے مضمون میں کیا ہے۔ اس میں مکروفن کس طرح نمایاں ہوئے ہیں۔ اس کے خیالات باطلہ ملاحظہ کیجئے۔
۱۔سلفی مسلم بادشاہوں سے وابستہ رہے، سیاست کوانہوں نے نظرانداز کررکھا تھا۔ مگر گذشتہ آٹھ مہینوں سے شرق اوسط کے عبادت گذاروں پرایک نشہ ساطاری ہوگیا اور وہ طاقتور سلفی تحریکوں سے وابستگی اختیار کرنے لگے۔ سلفی تحریکیں انتقالی بدنظمی اورناراضگی میں سرگرم ہوگئیں۔
۲۔ ایک نیا سلفی ہلال خلیج فارس کی مملکتوں سے طلوع ہوا ہے اور شمالی افریقہ کے کناروں تک پھیل گیاہے- عرب انقلاب کی یہ پیداوار ناپسندیدہ اورپریشان کن ہے۔ یہ ہنگامہ خیز خالص پسند مختلف درجات میں جہادیوں کی خالی کردہ سیاسی جگہ لے رہے ہیں۔ جہادیوں کی مقبولیت ختم ہوچکی ہے ۔جہادی اورسلفی دونوں بنیادپرست ہیں ان کی ترجیحات میں ہے کہ نیا نظام آنا چاہیے جس کا ماڈل شروع دوراسلام میں تیار ہوا تھا بہرکیف سلفی لابدی طورپر جنگونہیں ہیں۔ بہت سے سلفی تشدد سے دامن کش ہیں۔
۳۔گذشتہ برس مصر میں سلفی گمنامی سے نکلے اوربہ عجلت کئی پارٹیاں بنائیں او رجنوری میں پارلیامنٹ کی ۲۵؍فیصد سیٹوں کو جیت لیا۔ چوراسی سال پرانی اخوان المسلمین سے پیچھے دوسرے نمبر پر۔ سلفی شام کے باغیوں میں اپنا رسوخ بڑھارہے ہیں ۔ سلفی الجزائر، بحرین، کویت، لیبیا اوریمن میں بطور پارٹی یا فرقہ موجودہیں، فلسطینیوں کے اندر بھی یہ موجودہیں۔
۴۔ مختلف انواع سلفی گروپوں پرایک عام اثربدوہابیوں کی تائید اورنقالی کاہے۔ وہابی سعودی عرب کا ایک بدنام سنی فرقہ ہے۔ تمام سعودی سلفی نہیں ہیں۔ اسی طرح تمام سلفی وہابی نہیں ہیں لیکن وہابی اساسا سبھی سلفی ہوتے ہیں اور بہت سے عرب خاص کر کم آبادی والے ایریا کے خلیجی لوگوں کوشک ہے کہ وہابی نئے سیاسی سلفیوں کا مستقبل میں تسلط کے لئے اس طرح تعاون کررہے ہیں اوران کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے جس طرح جنوبی ایشیاکے مدارس کی اس سے پہلے مدداورہمت افزائی کی گئی تھی اوراس سے افغانستانی طالبان کی افزائش ہوئی۔
۵۔سلفی سیاسی اورانفرادی زندگی میں اکتوبر سے قبل مصر،تونس اورمراکش میں اکثریت سے کامیاب ہوئے بڑی اور اہم اسلام پسند ریاستو ں کی بہ نسبت قید وبند کے زیادہ قائل ہیں۔ اکثرعربوں کے نزدیک سیاست اور معاش میں انصاف زیادہ اہم ہے ۔ سلفیوں کے نزدیک اہم وہ مرتبت اور فضیلت ہے جس میں دورعایت نہیں اورجو سہل الحصول ہے۔
۶۔سلفیوں کے مطابق فقط رواختیار ہے یا جنت یا جہنم۔ سلفی عورتوں کے عدم اختلاط کے قائل ہیں ۔
۷۔ دوسرے زیادہ جدیدیت زدہ اسلام پسند سلفی ظاہرہ سے ڈرتے ہیں، راشدغنوش النہضہ جو تونس کی حکمراں پارٹی کے موسس نے فرمایا ہمارے اوپر سلفیوں کا دباؤ ہے۔دو اسلامی پارٹیاں تونس میں ایک دوسرے کے لیے حزب مخالف ہیں، سلفی دستور سازی کے مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک دستور قرآن ہے دستو رساز اسمبلی کی وائس چیرپرسن النہضہ کی ممبرکایہ بیان ہے۔
۸۔ سلفی اور شیعہ مسلمانوں کے دومتحارب گروپ ہیں اورمسلمانوں کے اندران سے اختلاف بڑھ رہا ہے۔ مستقبل میں خطے میں تغیرآ شناممالک ان دونوں متحارب گروہوں کی وجہ سے میدان کا رزار بن سکتے ہیں۔
یہ توہوا امریکی خاتون کے مضمون کا اختصار ۔اس خاتون کے پورے مضمون میں سوائے ہذیان کے کچھ نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ظفرالاسلام خان صاحب اس ہذیان کو حرزجان بنانے کے لئے اتاولے ہوگئے اوراس کے اس گپ کواپنے ملی گزٹ میں شائع فرمادیا اوراس پر اپنا تبصرہ بھی ثبت فرمادیا:
’’بعض عرب ملکوں میں موجودصورت حال کے تعلق مضمون نگار کا مشاہدہ صحیح ہے۔
موجودہ منظرنامے کے ذمہ دارمغرب اورخاص کرامریکہ ہے مضمون نگار اس کے ادراک میں ناکام ہے ۔
مغرب اورامریکہ نے آنکھیں بند کرکے ڈکٹیٹروں کی۔ حمایت کی تعلیم یافتہ اور صحیح سوچ رکھنے والے اسلام پسندوں کو دستوری سیاسی پارٹی بنانے اورچلانے کی اجازت نہ دی گئی۔ جب انہوں نے الیکشن بھی جیتا (الجزائر، فلسطین) توحکومت کرنے نہ دی گئی۔
ٹھیک اسی وقت اسامہ بن لادن جیسے لوگوں کے افغانستان میں حمایتی بن گئے جوٹھیٹ سلفی تھے اورانھیں مسلم دنیا کا ہیروبننے کی اجازت دیدی گئی۔
انھیں دنوں گلف کی دولت ان خوابیدہ گروپ کوملی جن کا اپنے سماج پرکوئی اثرنہ تھا۔ بس وہ اتنے پرمطمئن تھے کہ حکومت سے اجازت لے کر چند ایک میگزین شائع کرلیں۔ گذشتہ ایک دہے ۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء میں میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔
گذشتہ ۴؍دہائیوں میں یہ معمولی سا گروپ بہت بڑھ گیاہے۔ ان کو کافی سہولیات میسر ہوئیں۔سیاسی منظرنامے سے اسلام پسندوں کو جبراہٹادینے سے جو خلا پیدا ہوااسے انہوں نے پرکیا ۔ اگراخوان المسلمون کو آزادی ملی ہوتی توپارلیمنٹ میں انھیں کسی بھی الیکشن میں اس طرح کی کامیابی ملتی جس طرح انھیں موجودہ الیکشن میں کامیابی ملی اور سلفی تمام سیٹوں پر لڑکر ایک سیٹ حاصل کرنے کا خواب نہیں دیکھ سکتے تھے۔
آج حالت بالکل بدلی ہوئی ہے۔ مغرب کی غلط پالیسی کے سبب سلفی ایک قابل اعتبارطاقت بن کر ابھرے ہیں اورایسی پوزیشن میں ہیں کہ اخوان المسلمون جیسے مہذب، ذمہ دار، تعلیم یافتہ اصلی اسلام پسندوں کا مقابلہ کریں۔ سعودی عرب کے وزیرداخلہ امیر نایف نے چند برس پیشتر کھل کر اخوان المسلمون پر انگشت نمائی کی تھی اور اشارہ کیا تھا کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک میں یہی الجھن کا باعث ہیں۔
بیچارے سلفی گلف حکمرانوں کے لئے بڑے نرم ہیں، جو شاید یہ سوچتے ہیں کہ مصرکی طرح سلفی مختلف علاقوں میں اتنا طاقتور ہیں کہ ان کی حکمرانی کی درازی میں مددگارہوسکتے ہیں۔ اورمغرب پھراخوان المسلمین کو تنگ کرنے کے لیے سلفیوں کا حمایتی بن سکتا ہے اوراس طرح کرکے اسے راحت مل سکتی ہے جیسا کہ اسامہ بن لادن کے معاملہ میں ہوا ۔‘‘
یہ ہے خان صاحب کی گل افشانی گفتار۔پورے مضمون سے بے خبری، استشراقیت اوربغض ونفرت کا مظاہرہ ہو رہاہے۔ رابن رائٹ سے زیادہ خان صاحب کے اس تبصرے میں زہرناکی، بے خبری اور نفرت وتعصب ہے۔ جس باپ بیٹا کا ہیرواورآئیڈیل قذافی جیسا بدقماش رہ چکاہواوراس سے دونوں جیب بھرچکے ہوں، اب یتیمی میں بلبلائیں اورسارے سلفی دنیا میں انھیں تاریکی نظر آئے توان کا ایسا لکھنا ان کے حساب سے بجاہے۔ خان صاحب سلفیوں کے متعلق ایسے لکھ رہے ہیں جیسے ان کے اندر بھگوا صحافت حلول کرگئی ہے اورمصران کی جاگیر ہے کہ اس میں اخوانیوں ہی کو حق دے رہے ہیں کہ وہی پھلیں پھولیں اوردوسرے ان کے نزدیک گویا غیر مہذب ، غیر ذمہ دار، غیر تعلیم یافتہ اورنقلی ہیں۔ خان صاحب ایسا بھی توہوسکتا تھا کہ اگرمصرمیں آزادی ہوتی تواخوانی ختم ہوجاتے صرف سلفی رہ جاتے۔ ایک ماہ کی سیاسی تیاری میں جب وہ ملک کا ۲۵؍فیصدووٹ بٹورسکتے ہیں تو۸۴؍ سالوں میں کیا کوئی اخوانی رہ جاتا۔
خان صاحب دانشور بنتے ہیں اورمونس گروپ کی مجلس مشاورت کے صدر بھی رہ چکے ہیں اورمودودی گروپ کے نظر یاتی طورپر سرگرم فرد ہیں۔ ان تمام کمالات نے ان کی لگام نہ تھامی اوربگٹٹ انہوں نے تمام سلفیوں کو وہ سب کہہ ڈالا جس کی توقع کسی مستشرق خبیث یہودی اورعیسائی سے نہیں ہوسکتی۔ ایسا لگتاہے کہ خان صاحب کی خانیت اتنے زوروں پر تھی کہ انھیں کچھ بھی دکھلائی نہ دیا کہ سلفیت کیاہے نہ اس کی تاریخ دکھلائی دی نہ اس کے عظیم افراد کھلائی دیے۔
نہ ساری دنیا میں پھیلے ان کے دعوتی نیٹ ورک دکھلائی دےئے۔ نہ پوری دنیا میں ان کی ہمہ جہتی کارنامے دکھلائی دےئے حتی کہ مصرمیں دس سالوں کے اندر ان کو اس حقیقت کا بھی پتہ نہ چلا کہ اخوان کا وجود سلفیو ں کے سبب ہوا اورحسن البنا خود المنار کے پروڈکٹ ہیں۔ خان کوصرف یہ دکھلائی دیا کہ سلفی ڈکٹیٹروں کے ساتھی ہیں، مغرب اور امریکہ کے پروردہ ہیں۔ غیرمہذب جعلی غیر ذمہ دارجاہل ابن الوقت اورلالچی لوگ ہیں۔ ان کا سینہ پھٹا جارہا ہے کہ سلفی کیوں ترقی کررہے ہیں ۔ جولوگ سلفیوں کی ابجدسے ناواقف ہوں اوربلاوجہ ان سے نفرت کے شکارہوں انھیں دانشوری کرنے اور میگزین نکالنے کے بجائے کچھ اور کام کرنا چاہیے۔
رابن رائٹ اورخان صاحب دونوں نادانی کے ناؤپر سوارہیں۔ حیرت ہے کہ ایک اسلام پسند اس طرح کی تحریرلکھے کہ سوفیصد جھوٹ اور نفرت کا آئینہ دار بن جائے۔ اسے توٹٹولنا چاہیے کہ اس کی اسلام پسندی محض ایک دکھاواہے یاحقیقی ہے۔ اگرنفرت تعصب اورحقائق سے بے خبری اسلام پسندی ہے توایسی اسلام پسندی اور بھگوا رنگ واستشراق میں کیا فرق ہے۔ دراصل تحریکیوں کی یہی اسلام پسندی ہرجگہ مسلمانوں کے لئے زحمت اور اذیت کا باعث ہے اوریہی جعلی اسلام پسندی انھیں غارت کردے گی۔
خان صاحب کویہ بھی نہیں معلوم کہ اخوانیوں کوسلفیوں نے پناہ دی، بچایا، نوکری دی اوران کی حفاظت کی اوریہی ان کے باغی بن کر ان کی بربادی کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ احسان فراموش قوم ہے اور انتہائی خودغرض۔ یہ ملت کے لئے مفید ہونے کے بجائے ہرجگہ ملت کے لئے وبال جان بن گئے اورحرث نسل کی بربادی کا سبب بنے۔ اس کا مشاہدہ امیرنایف رحمہ اللہ نے کیاتھا اورکہا کرتے تھے الاخوان خربوا العالم۔
خان صاحب اپنی اس تحریرکی روشنی میں انتہائی غلیظ دنیادار نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دانشوری دکان داری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس تحریرسے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اسلامی جماعت کے متعلق یہ کس قدر بغض ونفرت کے شکارہیں۔یہ اپنی اس نفرت میں یہودونصاری مستشرقین سے بڑھ کرہیں۔ قذافی کے یہ پروردہ اس کے سوا کرہی کیا سکتے ہیں۔ یہ ملت کے متعلق غم کرنے کے بجائے اپنا پیٹ پالنے کی فکر کریں توزیادہ بہترہے۔
حیرت ہے تحریکی اخوانی نسبت رکھنے والااورحقیقی اسلام پسند بننے والا اتنا گیا گذرا ہوجائے اوراتنا تنگ دل اورتنگ نظرکہ اسے اپنے سوا کچھ سجھائی نہ دے اور اتنا گھٹیا اورسطحی سوچ رکھے کہ اپنے سوا دوسروں کی بربادی کا آرزو مند ہواورانھیں مغرب کاپروردہ اورظالموں کا ہمنوا قرار دے۔ اتنی گھٹیا سوچ توباہم متحارب سیاسی لیڈروں کی بھی نہ ہوگی۔ خان صاحب دین وملت کے نام پر گوشہ عافیت میں بیٹھ کر پتہ نہیں کسی مشتبہ جہت کے سہارے زرد صحافت نگاری کررہے ہیں اوران مقدس لوگوں کے اوپر چھینٹے اڑارہے ہیں یا گندگی پھیلارہے ہیں جن کی تاریخ ہی للہیت، قربانی اورحق شناسی رہی ہے اورجنہوں نے دین کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیاہے اورجوہمیشہ نبض امت کوٹٹولتے اوراس کی صحت اصلاح اورفروغ کے لیے ہرممکن کوشش کرتے رہے ہیں۔
 
Last edited by a moderator:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
خان صاحب کویہ بھی نہیں معلوم کہ اخوانیوں کوسلفیوں نے پناہ دی، بچایا، نوکری دی اوران کی حفاظت کی اوریہی ان کے باغی بن کر ان کی بربادی کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ احسان فراموش قوم ہے اور انتہائی خودغرض۔ یہ ملت کے لئے مفید ہونے کے بجائے ہرجگہ ملت کے لئے وبال جان بن گئے اورحرث نسل کی بربادی کا سبب بنے۔ اس کا مشاہدہ امیرنایف رحمہ اللہ نے کیاتھا اورکہا کرتے تھے الاخوان خربوا العالم۔
 
Top