عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی روایت کو تراویح کے ضمن میں پیش کرنا نافہمی کے سوا کچھ نہیں۔ تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علانیہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں (تئیس، پچیس اور ستائیس) میں پڑھائی۔ جس میں صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تراویح کے بارے جتنا صحیح وہ بتا سکتے تھے خصوصاً جو بعد میں خلفاء کے منصب پر فائز ہوئے کوئی اور نہیں بتا سکتا تھا۔ یہ ایک بدیہی امر ہے جس سے فرار کوئی عقلمند نہیں کرسکتا ہے۔ گھر کی عبادات گھر والوں سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا یہ بھی ایک واضح چیز ہے۔
آپ خود غور و خوض فرمائیں کہ کیا تراویح کا تحصیل علم صحابہ سے ہونا چاہیئے تھا یا کہ ایک گھریلو خاتون سے؟
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ کا بیان بھی اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ سوال کرنے والے کا مقصد گھر کی عبادت کے بارے پوچھنا تھا کہ رمضان میں اس مین کوئی تبدیلی آتی تھی یا کہ نہیں۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جواب اس کی دلیل ہے۔